Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 51

سورة الحج

وَ الَّذِیۡنَ سَعَوۡا فِیۡۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیۡنَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۵۱﴾

But the ones who strove against Our verses, [seeking] to cause failure - those are the companions of Hellfire.

اور جو لوگ ہماری نشانیوں کو پست کرنے کے درپے رہتے ہیں وہی دوزخی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي ايَاتِنَا مُعَاجِزِينَ ... But those who strive against Our Ayat to frustrate them, Mujahid said, "To discourage people from following the Prophet." This was also the view of Abdullah bin Az-Zubayr, "to discourage." Ibn Abbas said, "To frustrate them means to resist the believers stubbornly." ... أُوْلَيِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ they will be dwellers of the Hellfire. This refers to the agonizingly hot Fire with its severe punishment, may Allah save us from it. Allah says: الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَـهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ Those who disbelieved and hinder (men) from the path of Allah, for them We will add torment to the torment because they used to spread corruption. (16:88)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 مُعٰجِزِیْنَ کا مطلب ہے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمیں عاجز کردیں گے، تھکا دیں گے اور ہم ان کی گرفت کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت اور حساب کتاب کے منکر تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی ہماری آیات کا انکار کرکے اور پھر اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اسی طرح اسلام اور اہل اسلام کو دبا لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے البتہ ان کی ان کرتوتوں کے عوض انھیں جہنم کا عذاب ضرور ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْٓ اٰيٰتِنَا ۔۔ : ” مُعٰجِزِيْنَ “ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے، مقابلے میں عاجز کردینے والے، نیچا دکھانے والے۔ یہ نذارت یعنی ڈرانے کی آیت ہے، یعنی جن لوگوں کی کوشش ہے کہ ہماری آیات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں نیچا دکھا دیں یا عاجز کردیں، کبھی انھیں جھوٹا کہتے ہیں، کبھی جادو کہتے ہیں، کبھی کہانت، کبھی شعر اور کبھی پہلے لوگوں کی فرضی کہانیاں، تاکہ لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکیں، تو یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، حتیٰ کہ ان کا لقب ہی ” اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ “ (بھڑکتی ہوئی آگ والے لوگ) ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝ ٥١ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ عجز والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اور جو لوگ ہماری آیات یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو جھٹلاتے رہتے ہیں، وہ ہمارے عذاب سے بچ نہیں سکتے، ایسے لوگ جہنمی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْٓ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ) ” یعنی وہ لوگ جن کی ساری بھاگ دوڑ اور تگ و دو اللہ تعالیٰ کی آیات کو ناکام اور غیر مؤثر بنانے ‘ گویا اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور اس کی منصوبہ بندی کی راہ میں روڑے اٹکانے میں ہے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:51) معجزین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر معاجز واحد معاجزۃ (مفاعلۃ) مصدر اس کے معنی ہیں مقابلہ کر کے اپنے حریف کو ہرا دینا۔ یا عاجز کردینا۔ منکرین حشر کا خیال تھا کہ قیامت نہیں آئے گی نہ حشر ہوگا نہ نشر، نہ عذاب نہ ثواب، لیکن حق یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوگا اور ان چیزوں کو لانے سے وہ اللہ کو روک نہیں سکتے ۔ اس کی قدرت کو سلب نہیں کرسکتے۔ اس کو عاجز نہیں بنا سکتے۔ الجحیم۔ دوزخ۔ دہکتی ہوئی آگ جحم کے معنی آگ کے سخت بھڑکنے کے ہیں جحیم اسی سے مشتق ہے اور فعیل بمعنی فاعل ہے۔ سعوا۔ ماجی جمع مذکر غائب سعی مصدر (باب فتح) انہوں نے کوشش کی۔ سعوا فی ایتنا۔ ای عجلوا فی ابطال ایتنا۔ (جنہوں نے ہماری آیات (یعنی قرآن حکیم ) کو جھٹلانے کی کوشش کی ۔ کہتے ہیں سعی فی امر فلان اذا افسدہ بسعیہ۔ یعنی جب کوئی کوشش کر کے کسی کے کام کو بگاڑ دے تو کہتے ہیں کہ سعی فی امر فلان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی ہمیں ہرانے یا ہمارے قابو سے باہر ہوجانے کے لئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس یہ میرا دعوی ہے اور اس پر دلیلیں رکھتا ہوں اور عذاب سے ڈرانا میرا فرض منصبی ہے جس کا وقوع بھی وقت پر باختیار خداوندی ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور جو لوگ ہماری آیتوں کے ہرانے اور نیچا دکھانے کی سعی اور کوشش کرتے رہتے ہیں تو ایسے ہی لوگ اہل جہنم ہیں۔ ڈرانے والے کا کام یہی ہے کہ وہ ایمان کی دعوت دے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے خطرات سے آگاہ کردے جو شخص اس کی دعوت کو قبول کرتا ہے وہ دوسرے عالم میں آرا کی بلکہ من مانی زندگی گزارتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کے احکام کو ہرانے کی کوشش کرتا ہے وہ جہنم اور دائمی عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔