Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 63

سورة الحج

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۫ فَتُصۡبِحُ الۡاَرۡضُ مُخۡضَرَّۃً ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿ۚ۶۳﴾

Do you not see that Allah has sent down rain from the sky and the earth becomes green? Indeed, Allah is Subtle and Acquainted.

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی آسمان سے پانی برساتا ہے پس زمین سر سبز ہو جاتی ہے بیشک اللہ تعالٰی مہربان اور باخبر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Signs of the Power of Allah Allah tells: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء ... See you not that Allah sends down water from the sky, This is a further sign of His might and power; that he sends the winds to drive the clouds which deliver rain to the barren land where nothing grows, land which is dry, dusty and desiccated. فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَأءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ but when We send down water on it, it is stirred (to life), and it swells. (22:5) ... فَتُصْبِحُ الاَْرْضُ مُخْضَرَّةً ... and then the earth becomes green, This indicates the sequence of events and how everything follows on according to its nature. This is like the Ayah: ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً Then We made the Nutfah into a clot, then We made the clot into a little lump of flesh. (23:14) It was recorded in the Two Sahihs that between each stage there are forty days. Allah's saying, فَتُصْبِحُ الاَْرْضُ مُخْضَرَّةً (and then the earth becomes green), means, it becomes green after being dry and lifeless. It was reported from some of the people of Al-Hijaz that the land turns green after rainfall. And Allah knows best. ... إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ Verily, Allah is the Most Kind and Courteous, Well-Acquainted with all things. He knows what seeds are in the various regions of the earth, no matter how small they are. Nothing whatsoever is hidden from Him. Each of those seeds receives its share of water and begins to grow, as Luqman said: يبُنَىَّ إِنَّهَأ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى السَّمَـوَتِ أَوْ فِى الاٌّرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ "O my son! If it be equal to the weight of a grain of mustard seed, and though it be in a rock, or in the heavens or in the earth, Allah will bring it forth. Verily, Allah is Subtle, Well-Aware. (31:16) And Allah says: أَلاَّ يَسْجُدُواْ للَّهِ الَّذِى يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ ...so they do not worship Allah, Who brings to light what is hidden in the heavens and the earth. (27:25) وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الاٌّرْضِ وَلاَ فِى السَّمَأءِ وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ And nothing is hidden from your Lord, the weight of a speck of dust on the earth or in the heaven. Not what is less than that or what is greater than that but it is (written) in a Clear Record. (10:61)

اپنی عظیم الشان قدرت اور زبردست غلبے کو بیان فرما رہا ہے کہ سو کھی غیر آباد مردہ زمین پر اس کے حکم سے ہوائیں بادل لاتی ہیں جو پانی برساتے ہیں اور زمین لہلہاتی ہوئی سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے گویا جی اٹھتی ہے ۔ یہاں پر ف تعقیب کے لئے ہے ہر چیز کی تعقیب اسی کے انداز سے ہوتی ہے ۔ نطفے کا ملقہ ہونا پھر ملقے کامضغہ ہونا جہاں بیان فرمایا ہے وہاں بھی ف آئی ہے اور ہر دو صورت میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی مذکور ہے کہ حجاز کی بعض زمینیں ایسی بھی ہیں کہ بارش کے ہوتے ہی معا سرخ وسبز ہوجاتی ہیں فاللہ اعلم ۔ زمین کے گوشوں میں اور اس کے اندر جو کچھ ہے ، سب اللہ کے علم میں ہے ۔ ایک ایک دانہ اس کی دانست میں ہے ۔ پانی وہیں پہنچتا ہے اور وہ اگ آتا ہے ۔ جیسے حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ کے قول میں ہے کہ اے بچے ! اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہوچاہے کسی چٹان میں ہو یا آسمان میں یا زمین میں اللہ اسے ضرور لائے گا اللہ تعالیٰ پاکیزہ اور باخبر ہے ۔ ایک اور آیت میں ہے زمین وآسمان کی ہر چیز کو اللہ ظاہر کر دے گا ۔ ایک آیت میں ہے ، ہرپتے کے جھڑنے کا ، ہر دانے کا جو زمین کے اندھیروں میں ہو ہر تر وخشک چیز کا اللہ کو علم ہے اور وہ کھلی کتاب میں ہے ۔ ایک اور آیت میں کوئی ذرہ آسمان وزمیں میں اللہ سے پوشیدہ نہیں ، کوئی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہیں جو ظاہر کتاب میں نہ ہو ۔ امیہ بن ابو صلت یا زید بن عمر و بن نفیل کے قصیدے میں ہے شعر ( وقولا لہ من ینبت الحب فی الثری فیصبح منہ البقل یہترہ رابیا ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذاک ایات لمن کان داعیا ) اے میرے دونوں پیغمبرو! تم اس سے کہو کہ مٹی میں سے دانے کون نکالتا ہے کہ درخت پھوٹ کر جھومنے لگتا ہے اور اس کے سرے پر بال نکل آتی ہے؟ عقل مند کے لئے تو اس میں قدرت کی ایک چھوڑ کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ تمام کائنات کا مالک وہی ہے ۔ وہ ہر ایک سے بےنیاز ہے ۔ ہر ایک اس کے سامنے فقیر اور اس کی بارگاہ عالی کا محتاج ہے ۔ سب انسان اس کے غلام ہیں ۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ کل حیوانات ، جمادات ، کھیتیاں ، باغات اس نے تمہارے فائدے کے لئے ، تمہاری ماتحتی میں دے رکھے ہیں آسمان وزمین کی چیزیں تمہارے لئے سرگرداں ہیں ۔ اس کا احسان وفضل وکرم ہے کہ اسی کے حکم سے کشتیاں تمہیں ادھر سے ادھر لے جاتی ہیں ۔ تمہارے مال ومتاع ان کے ذریعے یہاں سے وہاں پہنچتے ہیں ۔ پانی کو چیرتی ہوئیں ، موجوں کو کاٹتی ہوئیں بحکم الٰہی ہواؤں کے ساتھ تمہارے نفع کے لئے چل رہی ہیں ۔ یہاں کی ضرورت کی چیزیں وہاں سے وہاں کی یہاں برابر پہنچتی رہتی ہیں ۔ وہ خود آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر نہ گرپڑے ورنہ ابھی وہ حکم دے تو یہ زمین پر آرہے اور تم سب ہلاک ہوجاؤ ۔ انسانوں کے گناہوں کے باوجود اللہ ان پر رافت وشفقت ، بندہ نوازی اور غلام پروری کر رہا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝ ) 13- الرعد:6 ) ، لوگوں کے گناہوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان پر صاحب مغفرت ہے ۔ ہاں بیشک وہ سخت عذابوں والا بھی ہے ۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہیں فناکرے گا ، وہی پھر دوبارہ پیدا کرے گا ۔ جیسے فرمایا آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے ، اسی نے تمہیں زندہ کیا پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا ، پھر دوبارہ زندہ کردے گا ۔ پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ایک اور آیت میں ہے ( قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 26؀ۧ ) 45- الجاثية:26 ) اللہ ہی تمہیں دوبارہ زندہ کرتا ہے پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر تمہیں قیامت والے دن ، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں جمع کرے گا ۔ اور جگہ فرمایا وہ کہیں گے کہ اے اللہ تونے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا ۔ پس کلام کامطلب یہ ہے کہ ایسے اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو شریک کیوں ٹھیراتے ہو؟ دوسروں کی عبادت اسکے ساتھ کیسے کرتے ہو؟ پیدا کرنے والا فقط وہی ، روزی دینے والا وہی ، مالک ومختار فقط وہی ، تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا ۔ پھر تمہاری موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا یعنی قیامت کے دن انسان بڑا ہی ناشکرا اور بےقدرا ہے

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 لَطِیْف (باریک بین) ہے، اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو محیط ہے یا لطف کرنے والا یعنی اپنے بندوں کو روزی پہنچانے میں لطف و کرم سے کام لیتا ہے۔ خَیْر وہ ان باتوں سے باخبر ہے جن میں اس کے بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اصلاح ہے۔ یا ان کی ضروریات و حاجات سے آگاہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یہاں لطیف کا لفظ کا استعمال ہوا ہے اس کے مادہ ل ط ف میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں (١) دقت نظر اور (٢) نرمی المقائیس اللغہ~ن)~ اور لطیف کے معنوں میں کبھی تو ایک ہی معنی پایا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں دقیقہ رس (یا ایک ہی معاملہ کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر تک نظر رکھنے والا) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ تمام مخلوق کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات اور تکلیفات کا علم رکھنا پھر ان کا ازالہ بھی کرنا۔ اس صورت میں لطیف کا ترجمہ مہربان کرلیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تصرف کی ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے۔ یعنی پانی اور خشک مٹی کے اجزاء باہم ملتے ہیں تو زمین کے اجزا پھول جاتے ہیں اور ان میں روئیدگی کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اب جتنے بیج اس خشک زمین میں دبے پڑے تھے یا گھاس پھوس کی جڑیں خشک ہو کر زمین میں مل گئی تھیں ان میں جان پڑجاتی ہے اور اس خشک اور مردہ بیج میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی نرم و نازک کونپل زمین کی سخت سطح کو چیر پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ سبزہ زار بن کر لہلانے لگتی ہے اور اس سارے عمل کے دوران اللہ تعالیٰ کا لطف یا وقت نظر ہی وہ چیز ہوتی ہے جس کی بنا پر ایسے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ ۔۔ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کی نعمت کا ذکر فرما کر اپنے حق ہونے اور دوسرے تمام معبودوں کے باطل ہونے کا اور اپنی صفات ” سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ“ اور ” الْعَلِيُّ الْكَبِيْر “ کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد اپنے ہر چیز پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر اپنی چھ نعمتیں شمار فرمائیں، جن میں سے پہلی نعمت اس آیت میں بیان فرمائی ہے۔ ” اَلَمْ تَرَ “ کا لفظی معنی ہے ” کیا تو نے نہیں دیکھا۔ “ یہاں یہ معنی بھی مراد ہوسکتا ہے، کیونکہ بارش برسنا اور زمین کا سرسبز ہونا ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔ مگر عام طور پر قرآن مجید میں ” اَلَمْ تَرَ “ کا لفظ ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ کے معنی میں آیا ہے، یعنی ” کیا تمہیں معلوم نہیں۔ “ دیکھیے سورة فیل کی آیت (١) : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ ) کی تفسیر۔ یہاں بھی یہی دوسرا معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ دیکھنے سے مقصود علم ہی ہے اور جس دیکھنے سے علم حاصل نہ ہو وہ کالعدم ہے۔ ” ماءٍ “ کی تنوین تقلیل کی وجہ سے ” کچھ پانی “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو ” زمین سرسبز ہوگئی “ کے بجائے فرمایا ” زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ “ یعنی ماضی کے بجائے مضارع کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ بارش کا نزول ایک دفعہ ہوتا ہے تو زمین ایک لمبا عرصہ سرسبز رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت دیکھیے کہ زمین مردہ اور پتھر کی طرح سخت تھی، اس کے نیچے خشک بیج مدت سے دفن تھے، رحمت کی بارش برسی تو زمین پھولی اور ابھری، خشک بیج میں زندگی پیدا ہوئی اور نرم و نازک کونپل زمین کا سینہ چیر کر باہر نکلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین کا سارا تختہ آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور پہنچانے والا سبز رنگ اختیار کر گیا، جو عقل والوں کے لیے دلیل ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعے سے بنجر زمین میں دفن خشک بیج سے پودا پیدا فرمایا وہی قیامت کو اس زمین سے مردہ انسانوں کو ان کی ” عَجْبُ الذَّنَبِ “ (دم کی ہڈی) سے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور کرے گا۔ [ بخاري، التفسیر، باب (یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا ) : ٤٩٣٥ ] بعض مفسرین نے اس میں اس اشارے کا ذکر بھی فرمایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے زندگی بخشتا ہے، اسی طرح وہ مردہ دلوں کو وحی الٰہی کے ذریعے سے ایمان کی زندگی عطا فرماتا ہے۔ 3 زمین سے پیدا ہونے والے پودوں کے پتے، پھول، پھل اور دانے، غرض ہر چیز انسان کے لیے خوراک، لباس اور دوسری ضروریات کے کام آتی ہے اور سبھی اللہ کی نعمتیں ہیں مگر یہاں زمین کے سرسبز ہونے کو خاص طور پر ذکر فرمایا کہ اس سبزے سے آنکھوں کو جو تازگی اور دل کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دوسری نعمتوں کا ذکر چھوڑ دیا کہ انسان خود سوچ لے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ : لفظ ” لَطِيْفٌ“ میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک ” باریک چیزوں کو دیکھنے والا “ اور دوسرا ” نہایت مہربانی والا۔ “ ” اِنَّ “ عموماً پہلے جملے کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتار کر زمین کو سرسبز اس لیے کیا کہ وہ نہایت مہربان بھی ہے، باریک بین بھی اور ہر چیز کی پوری خبر رکھنے والا بھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ زمین کے سینے میں کس جگہ کون سا انسان یا حیوان یا کسی پودے کا باریک سے باریک بیج دفن ہے اور اسی کے لطف و کرم سے یہ سب کچھ دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس سے اپنے بندوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا اخلاقی ضرورت پوشیدہ نہیں ہے، وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت، جو اس کے حسب حال ہے، پوری ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝ ٠ۡفَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّۃً۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ۝ ٦٣ۚ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے خضر قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر : قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة : المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر . ( خ ض ر ) قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو بذریعہ قرآن کریم اس چیز کی خبر نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے بارش برسائی جس سے زمین نباتات کی وجہ سے سرسبز ہوگئی اللہ تعالیٰ ان نباتات کے نکالنے میں بڑا مہربان اور ان کے پورے مکانات کی خبر رکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ) ” یہاں پر ” لطیف “ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیریں کرنے والا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

110. This verse has a deeper meaning also, though apparently it merely declares that Allah alone has the power to send down rain which makes the land green. The deeper meaning is that the rainfall of the blessed revelation will, in the near future, turn the barren land of Arabia into a garden of knowledge, morality and bring forth a high and righteous civilization. 111. Latif implies that Allah fulfills His designs in such fine ways that it is difficult to understand them till they become real and apparent. As He is fully aware of everything, He knows how to conduct the affairs of His Kingdom.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :110 یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے ۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے ۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح یہ وحی کا باران رحمت جو آج ہو رہا ہے ، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :111 لطیف ہے ، یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے ۔ اسکی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے آغاز میں کبھی ان کے انجام کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں ، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ہے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا ۔ خورد بین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی ، کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے ۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابل ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتا نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے ۔ خبیر‘’ ہے ، یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات ، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے ، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس طرح کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:63) فتصبح۔ میں فاء تعقیب کی ہے یا سببیہ بھی ہوسکتی ہے۔ تصبح۔ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب اصباح (افعال) مصدر۔ ہو ہوجاتی ہے وہ ہوجائے گی ! مخضرۃ۔ الخضرۃ۔ ایک قسم کا رنگ جو سیاہی اور سفیدی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسود (سیاہ) اور اخضر (سبز) ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں۔ عراق کا وہ علاقہ جو بہت سرسبز ہے سواد العراق کہلاتا ہے۔ خضر (سمع) بمعنی سرسبز ہوگیا اور اخضر (افعال) سبز کردیا ۔ باب افعلال (اخضرار) سے اخضر سبز ہوگیا۔ سیاہ ہوگیا۔ اسی سے مخضوۃ اسم فاعل واحد مؤنث کا صیغہ ہے یعنی سبز۔ سیاہی مائل رنگ۔ بہت سبز۔ لطیف۔ لطف سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے دقیقہ رس۔ امور دقیقہ کو جاننے والا۔ بندوں پر نہایت مہربان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ اسی طرح جو زمین آج کفر و شرکت کی بدولت ویران و بےرونق پڑی ہے اللہ تعالیٰ اسلام کی بارش برسا کر اسے سبزہ زار بنا دے گا۔ 8 ۔ اس سے اپنے بندوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا اخلاقی ضرورت پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ اپنے کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندہ کی ضرورت جو اس کے مناسب حال ہو، پوری ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے معبودِبرحق ہونے کے مزید دلائل۔ معبودِ حق کی کبریائی اور علّو مرتب جاننا چاہو تو اس بات پر غور کرو کہ وہ آسمان سے کس طرح بارش نازل کرتا ہے جس سے ویران اور مردہ زمین سبزہ کی چادر پہن لیتی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین اور ہر بات سے باخبر ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں اسی کی ملکیت ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی اور ہر چیز سے بےنیاز اور ہر حوالے سے قابل تعریف ہے۔ بارش اور زمین کی شادابی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین، باخبر اور ہر اعتبار سے غنی اور قابل تعریف ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے لطیف، خبیر زمین و آسمان کا مالک، غنی اور حمید کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو معبود برحق ثابت کیا ہے اور مشرکوں کو یہ باور کروایا ہے کہ اس ذات کو چھوڑ کر غیروں کو پکارتے ہو ان میں اس قسم کی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی۔ تو پھر انہیں مشکل کشا اور حاجت روا، داتا وغیرہ سمجھنے اور کہنے کا کیا جواز ہے ؟ یاد رکھو تمہاری کوئی چھپی ہوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ مردہ زمین کو سر سبز و شاداب کردیتا ہے تو تمہاری موت کے بعد تمہیں زندہ کرنا اس کے لیے کس طرح مشکل ہے ؟ اس کے باوجود تم اس ذات کی پرواہ اور اس کی عبادت نہیں کرتے تو یقین جانو کہ وہ کسی کی عبادت کا محتاج اور تعریف کا طلبگار نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بےنیاز اور لائق تعریف ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو ! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو ! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو ! تم رات دن گناہ کرتے ہو ‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو ‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو ! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو ! تمہارے تمام اگلے پچھلے ‘ جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو ! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو ! تمہارے اگلے پچھلے ‘ جن وانس کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر آدمی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ والاداب، باب تحریم الظلم ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ ٢۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی زمین کو ہریالی نہیں دے سکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لطیف وخبیر نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا حقیقی مالک ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اس کے خزانوں میں کبھی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے فیصلے قابل تعریف ہیں زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لائق تعریف ہے اور زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے : ١۔ بیشک اللہ تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے۔ (ھود : ٧٣) ٢۔ زمین و آسمان میں سبھی کچھ اللہ کا ہے اور اللہ تمام تعریفات کے لائق ہے۔ (النساء : ١٣١) ٣۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا، حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ : ٤٢) ٤۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (الحشر : ١) ٥۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ : ١) ٦۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے روشنی اور اندہیروں کو پیدا کیا۔ (الانعام : ١) ٧۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت سے سر فراز فرمایا۔ ( الاعراف : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم تر ……خبیر (٤٦) آسمانوں سے بارش برسنا ، زمین کا سرسبز اور شاداب ہونا ، صبح و شام ایسے منظار کا دہرایا جانا ، یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے سامنے بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہم اس سے اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ، لیکن اگر ہم اپنے شعور کو ایک شاعر کی طرح بیدار کرلیں تو یہ منظر دلوں اور دماغوں کے اندر بیشمار احساسات پیدا کر یدتا ہے۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ چھوٹا سا پودا جو زمین کو پھاڑ کر سرباہر نکالتا ہے ، مٹی اور کیچڑ سے باہر آتا ہے ، یہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے اور اس دنیا کی طرف نکل کر ہنستا ہے اور اس کے منہ پر فرحت بخش تبسم ہوتا ہے۔ نظر آتا ہے کہ یہ چھوٹا سا پودا اپنی اس خوشی میں کہیں اڑ نہ جائے۔ جو لوگ ایسا شعور رکھتے ہیں وہی اس آیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان اللہ لطیف خبیر (٢٢ : ٣٦) ” اللہ لطیف وخبیر ہے۔ “ لطیف کے معنی ہیں کہ نہایت ہی باریکی کو بھی دیکھتا ہے اور اس سے خبردار ہے۔ وہ اس منظر کو نہایت ہی لطف اور گہرائی سے دیکھتا ہے اور ان مناظر کی حقیقت اور مزاج کا خالق ہے اور واقف ہے۔ یہ اللہ کا لطف و کرم ہے کہ یہ چھوٹا سا پودا زمین سے باہر آتا ہے حالانکہ یہ نہایت ہی ضعیف اور بےطاقت ہوتا ہے لیکن دست قدرت اسے ہوا میں بلند کرتا جاتا ہے اور زمین کی اجاذبیت اور کشش ثقل کے باوجود اس کے اندر اٹھنے اور پھینلے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ قدرت الہیہ کا لطف و کرم ہے کہ عین وقت پر بارش ہوتی ہے ، مناسب مقدار میں ہوتی ہے اور یہ پانی نہایت ہی میکان کی طریقے سے مٹی سے ملتا ہے اور نباتاتی عمل شروع ہوتا ہے اور پھر زندہ نباتی خلیے روشنی کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ یہ پانی اللہ کے آسمان سے اللہ کی زمین پر نازل ہوتا ہے۔ اللہ ہی اس میں زندگی پیدا کرتا ہے۔ اللہ ہی اس میں غذا اور ثروت پیدا کرتا ہے۔ اللہ ہی زمین و آسمان اور مافیہا کا مالک ہے۔ وہ زمین و آسمان اور مافیھا سے غنی ہے۔ یہ زندہ چیزوں کو پانی اور نباتات کا رزق دیتا ہے لیکن وہ خود رزق اور مرزوق دونوں سے غنی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77:۔ ” اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ “ تا ” اِنَّ الْاِنْسَانَ لِکَفُوْرٌ“ یہ مضمون حصہ اول (نفی شرک اعتقادی) کا اعادہ اور اس پر دو عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں۔ ” اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ الخ “ یہ پہلی عقلی دلیل ہے تم سب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہو کہ آسمان سے بارش اللہ تعالیٰ ہی برساتا ہے جس سے خشک اور بنجر زمین میں سرسبز و شاداب کھیت لہلہانے لگتے ہیں۔ ” لَطِیْفٌ“ وہ ایسا باریک بین باریک دانوں کو اگا کر زمین سے باہر نکال دیتا ہے۔ ” خَبِیْر “ اور اپنے بندوں اور تمام جاندار مخلوق کی حاجتوں اور ضرورتوں سے اچھی طرح باخبر ہے اور ہر ایک کو اس کی ضرورت اور حاجت کے مطابق زمین سے روزی مہیا فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) اے مخاطب ! کیا تو نے یہ نہیں دیکھا اور تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان کی جانب سے پانی اتارتا ہے جس سے زمین سرسبز ہوجاتی ہے بیشک اللہ تعالیٰ بہت مہربان اور خبر رکھنے والا ہے۔ یعنی بندوں کی ضرورتوں سے مطلع اور خبردار ہے اسی لئے سب کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔