Surat un Noor

The Light

Surah: 24

Verses: 64

Ruku: 9

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Importance of Surat An-Nur Allah says: سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا ... A Surah which We have sent down, Here Allah is pointing out the high esteem in which He holds this Surah, which is not to say that other Surahs are not important. ... وَفَرَضْنَاهَا ... and which We have enjoined, Mujahid and Qatadah said, "This means: We have explained what is lawful and unlawful, commands and prohibitions, and the prescribed punishments." Al-Bukhari said, "Those who read it: Faradnaha, say that it means: "We have enjoined them upon you and those who come after you." ... وَأَنزَلْنَا فِيهَا ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ ... and in it We have revealed manifest Ayat, means, clearly explained, ... لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ that you may remember. The Explanation of the Prescribed Punishment for Zina (Illicit Sex) Then Allah says:

مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں ۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام ، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے ۔ اس میں صاف صاف ، کھلے کھلے ، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو ۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی ۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو ۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی ۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا ، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں ۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے ۔ یہ حضرت انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے ۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا ۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا رضی اللہ عنہا ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا ۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا ، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے ۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو ، خواہ عورت ہو ۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے ، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے ۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے ، قرآن میں جو نہ تھا ، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا ، جس طرح نازل ہوئی تھی ۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا ۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا ۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے ۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں ۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا ۔ یا اسی کے مثل ۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے ، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا ۔ واللہ اعلم ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا ، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا ۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں ۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ، مالک رحمتہ اللہ علیہ ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں ۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا ۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے سنگسار کرایا ۔ مسند احمد ، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میری بات لے لو ، میری بات لے لو ، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا ۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے ۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے ۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو ، پہنچ جائے ، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے ۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو ، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی ۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے ۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر ، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں ۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے ۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت ( ولا تاخذ کم الخ ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے ۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں ۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے ۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے ۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے ۔ رجم بری چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں ۔ اسے علانیہ سزا دی جائے ، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے ۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں ، چار ہوں یا اس سے زیادہ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت ، عبرت اور سزا ہو ۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

سورة نور مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی چونسٹھ آیتیں اور نو رکوع ہیں سورة نور کی بعض خصوصیات : اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر و حجاب کے متعلق ہیں اور اسی کی تکمیل کے لئے حد زنا کا بیان آیا۔ پچھلی سورت یعنی مومنون میں مسلمانوں کی فلاح دنیا و آخرت کو جن اوصاف پر موقوف رکھا گیا ہے ان میں ایک اہم وصف شرمگاہوں کی حفاظت تھی جو خلاصہ ہے ابواب عفت کا۔ اس سورت میں عفت کے اہتمام کے لئے متعلقہ احکام ذکر کئے گئے ہیں، اسی لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آئی ہیں۔ حضرت فاروق اعظم نے اہل کوفہ کے نام اپنے ایک فرمان میں تحریر فرمایا علموا نساء کم سورة النور، یعنی اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو ۔ خود اس سورت کی تمہید جن الفاظ سے کی گئی ہے کہ سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا، یہ بھی اس سورت کے خاص اہتمام کی طرف اشارہ ہے۔ خلاصہ تفسیر یہ ایک سورت ہے جس (کے الفاظ) کو (بھی) ہم (ہی) نے نازل کیا ہے اور اس (کے معانی یعنی احکام) کو (بھی) ہم (ہی) نے مقرر کیا ہے (خواہ وہ فرض و واجب ہوں یا مندوب مستحب) اور ہم نے (ان احکام پر دلالت کرنے کے لئے) اس (سورت) میں صاف صاف آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم سمجھو (اور عمل کرو) زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد (دونوں کا حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کے سو درے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے (کہ رحم کھا کر چھوڑ دو یا سزا میں کمی کردو) اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے (تاکہ ان کی رسوائی ہو اور دیکھنے سننے والوں کو عبرت ہو) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) یہ سورت ہے جس کے الفاظ کو ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نازل کیا ہے اور اس کے حلال و حرام کو بھی ہم ہی نے مقرر کیا ہے اور اس صورت میں ہم نے واضح طور پر اوامرو نواہی اور فرائض و حدود کو بیان کیا ہے تاکہ تم اوامرو نواہی کو سمجھو اور حدود کو معطل نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر نام : پانچویں رکوع کی پہلی آیت اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول : یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے ( جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ دوسرے اور تیسرے رکوع میں آیا ہے ) اور وہ تمام معتبر روایات کی رو سے غزوہ بنی المصطلق کے سفر میں پیش آیا تھا ۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا یہ غزوہ 5 ہجری میں غزوہ اَحزاب سے پہلے ہوا تھا یا 6 میں غزوہ احزاب کے بعد ۔ اصل واقعہ کیا ہے ، اس کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجید کی دو ہی سورتوں میں آئے ہیں ، ایک یہ سورت ، دوسری سورہ احزاب جس کا نزول بالاتفاق غزوہ احزاب کے موقع پر ہوا ہے ۔ اب اگر غزوہ احزاب پہلے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پردے کے احکام کی ابتدا ان ہدایات سے ہوئی جو سورہ احزاب میں وارد ہوئی ہیں ، اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جو اس سورت میں آئے ہیں ۔ اور اگر غزوہ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغاز سورہ نور سے مان کر تکمیل سورہ احزاب والے احکام پر ماننی پڑتی ہے ۔ اس طرح اس حکمت تشریع کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو احکام حجاب میں پائی جاتی ہے ۔ اسی غرض کے لیے ہم آگے بڑھنے سے پہلے زمانہ نزول کی تحقیق کر لینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان 5 ہجری میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ 5 ھ میں غزوہ احزاب ( یا غزوہ خندق ) واقع ہوا ۔ اس کی تائید میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعہ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کے جھگڑے کا ذکر آتا ہے ، اور تمام معتبر روایات کی رو سے حضرت سعد بن معاذ کا انتقال غزوہ بن قریظہ میں ہوا تھا جس کا زمانہ واقع غزوہ احزاب کے متصلاً بعد ہے ، لہٰذا 6 ھ میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ دوسری طرف محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ غزوہ احزاب شوال 5 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ بنی المصطلق شعبان 6 ھ کا ۔ اس کی تائید وہ کثیر التعداد معتبر روایات کرتی ہیں جو اس سلسلہ میں حضرت عائشہ اور دوسرے لوگوں سے مروی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہو چکے تھے ، اور وہ سورہ احزاب میں پائے جاتے ہیں ۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہو چکا تھا ، اور وہ غزوہ احزاب کے بعد ذی القعدہ 5 ھ کا واقعہ ہے اور سورہ احزاب میں اس کا بھی ذکر آتا ہے ۔ علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب کی بہن حمْنَہ بنت جحش نے حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھا کہ حضرت عائشہ ان کی بہن کی سوکن تھیں ، اور ظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیدا ہونے کے لیے سوکناپے کا رشتہ شروع ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوتی ہے ۔ یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کو مضبوط کر دیتی ہیں ۔ اس روایت کو قبول کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ واقعہ افک کے زمانے میں حضرت سعد بن معاذ کی موجودگی کا ذکر آیا ہے ۔ مگر اس مشکل کو جو چیز رفع کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق حضرت عائشہ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن معاذ کا ذکر ہے اور بعض میں ان کے بجائے حضرت اُسَید بن حُضَیر کا ۔ اور یہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہو جاتی ہے جو اس سلسلے میں خود حضرت عائشہ ہی سے مروی ہیں ۔ ورنہ محض سعد بن معاذ کے زمانہ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگر غزوہ بنی المصطلق اور قصہ افک کو غزوہ احزاب و قریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیا جائے تو اس پیچیدگی کا کوئی حل نہیں ملتا کہ پھر آیت حجاب کا نزول اور نکاح زینب رضی اللہ عنہا کا واقعہ اس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے ، حالانکہ قرآن اور کثیر التعداد روایات صحیحہ ، دونوں اس پر شاہد ہیں کہ نکاح زینب رضی اللہ عنہا اور حکم حجاب احزاب و قریْظَہ کے بعد کے واقعات ہیں ۔ اسی بنا پر ابن حزم اور ابن قیم اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحٰق کی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے ، اور ہم بھی اس کی صحیح سمجھتے ہیں ۔ تاریخی پس منظر : اب یہ تحقیق ہو جانے کے بعد کہ سورہ نور 6 ہجری کے نصف آخر میں سورہ احزاب کے کئی مہینے بعد نازل ہوئی ہے ، ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں اس کا نزول ہوا ۔ جنگ بدر کی فتح سے عرب میں تحریک اسلامی کا جو عروج شروع ہوا تھا وہ غزوہ خندق تک پہنچتے پہنچتے اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ مشرکین ، یہود ، منافقین اور متربصین ، سب ہی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اس نو خیز طاقت کو محض ہتھیاروں اور فوجوں کے بل پر شکست نہیں دی جا سکتی ۔ جنگ خندق میں وہ لوگ متحد ہو کر 10 ہزار فوج کے ساتھ مدینے پر چڑھ آئے تھے ، مگر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخر کار ناکام ہو کر چلے گئے اور ان کے جاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی الاعلان فرما دیا ، لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھٰذا ، ولکنکم تغزونَھم ( ابن ہشام ، جلد 3 ، 266 ) ، اس سال بعد اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر چڑھائی کرو گے ۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مخالف اسلام طاقتوں کی قوت اقدام ختم ہو چکی ہے ، اب اسلام بچاؤ کی نہیں بلکہ اقدام کی لڑائی لڑے گا اور کفر کو اقدام کے بجائے بچاؤ کی لڑائی لڑنی پڑے گی ۔ یہ حالات کا بالکل صحیح جائزہ تھا جسے دوسرا فریق بھی اچھی طرح محسوس کر رہا تھا ۔ اسلام کے اس روز افزوں عروج کی اصل وجہ مسلمانوں کی تعداد نہ تھی ۔ بدر سے خندق تک ہر لڑائی میں کفار ان سے کئی گنی زیادہ قوت لے کر آئے تھے ، اور مردم شماری کے لحاظ سے بھی مسلمان اس وقت تک عرب میں بمشکل 1/10فی صدی تھے ۔ اس عروج کی وجہ مسلمانوں کے اسلحہ کی بر تری بھی نہ تھی ۔ ہر طرح کے ساز و سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا ۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا ۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے ، اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے ۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے ، اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے ۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو برابر آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی ، وہ دراصل مسلمانوں کی اخلاقی برتری تھی جسے تمام دشمنان اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے ۔ ایک طرف وہ دیکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی بے داغ سیرتیں ہیں جن کی طہارت و پاکیزگی اور مضبوطی دلوں کو مسخر کرتی چلی جا رہی ہے ۔ اور دوسری طرف انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انفرادی و اجتماعی اخلاق کی طہارت نے مسلمانوں کے اندر کمال درجے کا اتحاد اور نظم و ضبط بھی پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے مشرکین اور یہود کا ڈھیلا نظام جماعت امن اور جنگ دونوں حالتوں میں شکست کھاتا چلا جاتا ہے ۔ کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں ، اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں ، تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں ، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں ، اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں ۔ یہی ذہنیت تھی جس نے اس مرحلے پر دشمانان اسلام کی سرگرمیوں کا رخ جنگی کارروائیوں سے ہٹا کر رذیلانہ حملوں اور داخلی فتنہ انگیزیوں کی طرف پھیر دیا ۔ اور چونکہ یہ خدمت باہر کے دشمنوں کی بہ نسبت خود مسلمانوں کے اندر کے منافقین زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے تھے ، اس لیے بالارادہ یا بلا ارادہ طریق کار یہ قرار پایا کہ مدینہ کے منافقین اندر سے فتنے اٹھائیں اور یہود و مشرکین باہر سے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔ اس نئی تدبیر کا پہلا ظہور ذی القعدہ 5 ھ میں ہوا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب سے تَبْنِیَت ( دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا اور خاندان میں اسے بالکل صُلبی بیٹے کی حیثیت دے دینا ۔ ) کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے خود اپنے متبنیٰ ( زیدرضی اللہ عنہ بن حارثہ ) کی مطَلَّقہ بیوی ( زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش ) سے نکاح کیا ۔ اس موقع پر مدینے کے منافقین پروپیگنڈا کا ایک طوفان عظیم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر سے یہود و مشرکین نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر افترا پردازیاں شروع کر دیں ۔ انہوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے ، اور کس طرح بیٹے کو ان کی عشق کا علم ہوا اور وہ طلاق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا ، اور پھر کس طرح انہوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا ۔ یہ قصے اس کثرت سے پھیلائے گئے کہ مسلمان تک ان کے اثرات سے نہ بچ سکے ۔ چنانچہ محدثین اور مفسرین کے ایک گروہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور زید کے متعلق جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں آج تک ان من گھڑت قصوں کے اجزا پائے جاتے ہیں اور مستشرقین مغرب ان کو خوب نمک مرچ لگا کر اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی ( اُمَیمہ بنت عبدالمطلب ) کی صاحبزادی تھیں بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے گزری تھی ، ان کو اتفاقاً ایک روز دیکھ لینے اور معاذ اللہ ان پر عاشق ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ پھر اس واقعہ سے ایک ہی سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو مجبور کر کے حضرت زید سے ان کی شادی کی تھی ۔ ان کے بھائی عبداللہ بن جحش اس شادی سے ناراض تھے ۔ خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس پر راضی نہ تھیں ، کیونکہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی بننا قریش کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی طبعاً قبول نہ کر سکتی تھی ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں معاشرتی مساوات قائم کرنے کی ابتدا خود اپنے خاندان سے کریں ، انہیں حکماً اس پر راضی کیا تھا ۔ یہ ساری باتیں دوست اور دشمن سب کو معلوم تھیں ، اور یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہ تھا کہ حضرت زینب کا احساس فخر نسبی ہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بنا پر ان کا اور زید بن حارثہ کا نباہ نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق تک نوبت پہنچی ۔ مگر اس کے باوجود بے شرم افترا پردازوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بدترین اخلاقی الزامات لگائے اور ان کو اس کثرت سے رواج دیا کہ آج تک انکا یہ پروپیگنڈا اپنا رنگ دکھا رہا ہے ۔ اس کے بعد دوسرا حملہ غزوہ بنی الصطَلِق کے موقع پر کیا گیا ، اور یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا ۔ بنی المصطلق قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک شاخ تھی جو ساحل بحر احمر پر جدے اور رابع کے درمیان قدید کے علاقے میں رہتی تھی ۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے ۔ اس مناسبت سے احادیث میں اس مہم کا نام غزوہ مُرَیسیع بھی آیا ہے ۔ نقشے سے اس کی صحیح جائے وقوع معلوم ہو سکتی ہے ۔ شعبان 6ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر ان کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے ۔ اس مہم میں عبد اللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئے تھے ۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت نے اچانک دشمن کو جالیا ۔ اور تھوڑی سی رد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کر لیا ۔ اس مہم سے فارغ ہو کر بھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک ملازم ( جَہْجَاہ بن مسعود غفاری ) اور قبیلہ خزرج کے ایک حلیف ( سِنَان بن دَبر جُہنِی ) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا ۔ ایک نے انصار کو پکارا ۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی ۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا ۔ لیکن عبداللہ بن اُبی نے جو انصار قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا ، بات کا بتنگڑ بنا دیا ۔ اس نے انصار کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں ۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے ۔ یہ سب کچھ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے ۔ تم لوگوں نے خود ہی انہیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائیداد میں حصہ دار بنایا ہے ۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں ۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کر دے ( سورہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے خود اس کا یہ قول نقل فرمایا ہے ) گا ۔ اس کی ان باتوں کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو قتل کرا دینا چاہیے ۔ مگر حضور نے فرمایا: فکیف یا عمر اذا تحدث الناس ان محمدا یقتل اصحابہ ( عمر ، دنیا کیا کہے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے ) ۔ پھر آپ نے فوراً ہی اس مقام سے کوچ کا حکم دے دیا اور دوسرے دن دوپہر تک کسی جگہ پڑاؤ نہ کیا ، تاکہ لوگ خوب تھک جائیں اور کسی کو بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے اور سننے کی مہلت نہ ملے ۔ راستے میں اسید بن حضَیر نے عرض کیا یا نبی اللہ ، آج آپ نے اپنے معمول کے خلاف نا وقت کوچ کا حکم دے دیا ؟ آپ نے جواب دیا ۔ تم نے سنا نہیں کہ تمہارے صاحب نے کیا باتیں کی ہیں ۔ انہوں نے پوچھا کون صاحب؟ آپ نے فرمایا عبد اللہ بن اُبی ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، اس شخص سے رعایت فرمائیے ، آپ جب مدینے تشریف لائے ہیں تو ہم لوگ اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا ۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا ۔ اسی کی جلن وہ نکال رہا ہے ۔ یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا ، اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے تو مدینے کی نو خیز مسلم سوسائٹی میں سخت خانہ جنگی بر پا ہو جاتی ۔ یہ حضرت عائشہ پر تہمت کا فتنہ تھا ۔ اس کا واقعہ خود ان ہی کی زبان سے سنیے جس سے پوری صورت حال سامنے آ جائے گی ۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انہیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہ کے تسلسل بیان میں خلل نہ واقعہ ہو ۔ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے ( اس قرعہ اندازی کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی ۔ دراصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے ۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی ۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود کسی کو انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی ، اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا ۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے ۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی سورتوں کے لیے ہے جبکہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو ، اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو ، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جا سکتا ہو ۔ ) غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی ۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب تھے ، ایک منزل پر رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا ، اور ابھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی ، اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے ۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی ، اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا ۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے ۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب سے بہت ہلکی پھلکی تھیں ۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں ۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے ۔ میں جب ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا ۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے ۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آ گئی ۔ صبح کے وقت سفوان بن معطل سُلَمِی اس جگہ سے گزرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے ، کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے بارہا دیکھ چکے تھے ۔ ( یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے ۔ ان کو صبح دیر تک سونے کی عادت [ابوداؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے ۔ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے ، دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری کو میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے نماز ادا کر لیا کرو ۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی ہے ۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں ] تھی ، اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے ) مجھے دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی یہیں رہ گئیں ۔ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی ۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ، لا کر اپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے ۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے ۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جالیا جبکہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھہرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں ۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا ۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں ۔ ( دوسری روایات میں آیا ہے کہ جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہ لشکر گاہ میں پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ گئی تھیں اسی وقت عبداللہ بن ابی پکارا اٹھا کہ خدا کی قسم یہ بچ کر نہیں آئی ہے ، لو دیکھو ، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے ) مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی ۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اڑ رہی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی ، مگر مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی ۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے : کیف تیکم ( کیسی ہیں یہ؟ ) ۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے ۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور ۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمارداری اچھی طرح کر سکیں ۔ ایک روز رات کے وقت حاجت کے لیے میں مدینے کے باہر گئی ۔ اس وقت تک ہمارے گھروں میں یہ بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے ۔ میرے ساتھ مِسْطَح بن اُثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھیں ۔ ( دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی ، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہ کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے ) ۔ راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح ۔ میں نے کہا اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو ، اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے ۔ انہوں نے کہا بٹیا ، کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں ؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افتا پرداز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں ۔ ( منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح ، حسَّان بن ثابت مشہور شاعر السلام ، اور حمنہ بنت جحش ، حضرت زینب کی بہن کا حصہ سب سے نمایاں تھا ) ۔ یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا ، وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی ، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی ۔ آگے چل کر حضرت عائشہ فرماتی ہیں ، میرے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا ۔ اسامہ نے میرے حق میں کلمہ خیر کہا اور عرض کیا یا رسول اللہ ، بھلائی کے سوا آپ کی بیوی میں کوئی چیز ہم نے نہیں پائی ۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جا رہا ہے ۔ رہے علی رضی اللہ عنہ تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ عورتوں کی کمی نہیں ہے ، آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں ، اور تحقیق کرنا چاہیں تو خدمت کار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں ۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی ۔ اس نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جا سکے ۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہہ جاتی ہوں کہ بیوی ذرا آٹے کا خیال رکھنا ، مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے ۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا مسلمانو ! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی ہے ۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے ، اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے ۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں ۔ اس پر اسید بن حُضیر ( بعض روایات میں سعد بن مُعاذ ) ( غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے نام لینے کے بجائے سید اوس کے الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے کسی راوی نے اس سے مراد حضرت معاذ کو سمجھ لیا ، کیونکہ اپنی زندگی میں وہی قبیلہ اوس کے سردار تھے اور تاریخ میں وہی اس حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں ۔ حالانکہ دراصل اس واقعہ کے وقت ان کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر اوس کے سردار تھے ) نے اٹھ کر کہا یا رسول اللہ ، اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں ، اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں ، ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں ۔ یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ ، رئیس خَزْرَج اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے جھوٹ کہتے ہو ، تم ہرگز اسے نہیں مار سکتے ۔ تم اس کی گردن مارنے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے ۔ اگر وہ تمہارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں ( حضرت سعد بن عبادہ اگرچہ نہایت صالح اور مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے ، اور مدینے میں جن لوگوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا تھا ان میں ایک نمایاں شخص وہ بھی تھے ، لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود ان کے اندر قومی حمیت [اور عرب میں اس وقت قوم کے معنی قبیلے کے تھے ] بہت زیادہ تھی ۔ اسی وجہ سے انہوں نے عبداللہ بن ابی کی پشت پناہی کی ، کیونکہ وہ ان کے قبیلے کا آدمی تھا ۔ اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا کہ الیوم یوم الملحمہ ، الیوم تستحل الحرمہ آج کشت و خون کا دن ہے ۔ آج یہاں کی حرمت حلال کی جائے گی ، اور اس پر عتاب فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے لشکر کا جھنڈا واپس لے لیا ۔ پھر آخر کار یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں یہ دعویٰ کیا کہ خلافت انصار کا حق ہے ، اور جب ان کی بات نہ چلی اور انصار و مہاجرین سب نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو تنہا وہی ایک تھے جنہوں نے بیعت سے انکار کر دیا اور مرتے دم تک قریشی خلیفہ کی خلافت تسلیم نہ کی [ملاحظہ ہو الاصابہ لابن حجر ، اور الاستیعاب لا بن بعدالبر ، ذکر سعد بن عبادہ ۔ صفحہ10 ۔ 11] ) گے ۔ اسید بن حضیر نے جواب میں کہا تم منافق ہو اسی لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو ۔ اس پر مسجد نبوی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف رکھتے تھے ۔ قریب تھا کہ اَوس اور خزرج مسجد ہی میں لڑ پڑتے ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے ۔ حضرت عائشہ کے قصے کی باقی تفصیلات ہم اثنائے تفسیر میں اس جگہ نقل کریں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی برأت نازل ہوئی ہے ۔ یہاں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی نے یہ شوشہ چھوڑ کر بیک وقت کئی شکار کرنے کی کوشش کی ۔ ایک طرف اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کی عزت پر حملہ کیا ۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند ترین اخلاقی وقار کو گرانے کی کو شش کی ۔ تیسری طرف اس نے یہ ایک ایسی چنگاری پھینکی تھی کہ اگر اسلام اپنے پیروؤں کی کایا نہ پلٹ چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار ، اور خود انصار کے بھی دونوں قبیلے آپس میں لڑ مرتے ۔ موضوع اور مباحث : یہ تھے وہ حالات جن میں پہلے حملے کے موقع پر سورہ احزاب کے آخری 6 رکوع نازل ہوئے اور دوسرے حملے کے موقع پر یہ سورہ نور اتری ۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان دونوں سورتوں کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے تو وہ حکمت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو ان کے احکام میں مضمر ہے ۔ منافقین مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ، بجائے اس کے کہ وہاں کے اخلاقی حملوں پر ایک غضبناک تقریر فرماتا ، یا مسلمانوں کو جوابی حملے کرنے پر اکساتا ، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کرلو ۔ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ نکاح زینب کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا ۔ اب ذرا سورہ احزاب نکال کر پڑھیے ، وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جبکہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں : 1 ۔ ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو ، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو ، اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرے ( آیات 32 ۔ 33 ) 2 ۔ حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا ، اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ۔ ( آیت 53 ) ۔ 3 ۔ غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مطہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں ۔ ( آیت 55 ) ۔ 4 ۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے ۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے ۔ ( آیت 53 ۔ 54 ) ۔ 5 ۔ مسلمانوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے ، اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے ( آیت 57 ۔ 58 ) 6 ۔ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں ( آیت 59 ) ۔ پھر جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورہ نور اخلاق ، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھا کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیداوار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے ، اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے ۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں ۔ تاکہ پڑھنے والے اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی ، اخلاقی ، اور معاشرتی تدبیر بیک وقت تجویز کرتا ہے : 1 ) ۔ زنا ، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا ( سورہ نساء ، آیات 15 ۔ 16 ) ، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو 100 کوڑے مقرر کر دی گئی ۔ 2 ) ۔ بدکار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا ۔ 3 ) ۔ جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے ، اس کے لیے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی ۔ 4 ) ۔ شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لِعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا ۔ 5 ) ۔ حضرت عائشہ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کر کے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو ، اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو ۔ اس طرح کی افواہیں ا گر اڑ رہی ہوں تو انہیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہیے ، نہ یہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے ۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت سے ہی لگ سکتا ہے ، خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا ۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے ۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب ، بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقہ حیات بن سکتی تھی ۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے ۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے ، اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے ۔ 6 ) ۔ جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں ، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں ۔ 7 ) ۔ یہ قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہیے ۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہگار ہونے کا ثبوت نہ ملے ۔ نہ یہ کہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے ۔ 8 ) ۔ لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں ۔ 9 ) عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا ۔ 10 ) ۔ عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں ۔ 11 ) عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں ۔ 12 ) ۔ ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں ، بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں ۔ 13 ) معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں ، حتّیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے ۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی ۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں ۔ 14 ) ۔ لونڈیوں ور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتَبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مُکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں ۔ 15 ) ۔ لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا ۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا ، اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی ۔ 16 ) گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں ( یعنی صبح ، دوپہر اور رات کے وقت ) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں ۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے ۔ 17 ) ۔ بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھنی اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں ، مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج ( بن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے ) سے بچیں ۔ نیز انہیں نصیحت کی گئی کہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے ۔ 18 ) اندھے ، لنگڑے ، لولے ، اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھا لے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہو گا ۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے ۔ 19 ) ۔ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں ، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں ۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا ور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کر دیں جن سے کوئی فتنہ پرداز پھوٹ ڈال سکتا ہو ۔ ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین اور مومنین کی وہ کھلی کھلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کھا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے ۔ اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورہ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے ۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے ۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے ۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے ، مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں ، حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں ، اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے ۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پر بھی کس طرح ٹھنڈے تدبر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے ، بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، کسی ایسی ہستی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب اد کر رہی ہے ۔ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ نور تعارف اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہدایات اور احکام دینا ہے۔ پچھلی سورت کے شروع میں مومنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی باعفت زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس سورت میں باعفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کے خلاف بڑی کمینگی کے ساتھ ایک بے بنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے۔ اس سورت کی آیات : ١١ تا ٢٠ حضرت عائشہ کی براءت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں۔ نیز عفت وعصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دیے گئے ہیں، اور دوسروں کے گھر جانے کے لیے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورت نمبر 24 کل رکوع 9 آیات 64 الفاظ و کلمات 1420 حروف 6410 پردے کے احکام قرآن کریم کی دوسورتوں میں آئے ہیں سورة النور اور سورة الاحزاب میں بیشمار حدیثوں میں پردے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ بےپردگی اور بےحیائی کے کسی انداز کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة النور میں آیات کو صاف صاف نازل فرما کر اس کے الفاظ اور احکام دونوں کو خود مقرر فرمایا ہے تاکہ ہر شخص اچھی طرح سمجھ لے اور اس پر عمل کرے۔ اس سورة میں جن احکام کو نازل فرمایا ہے ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (١) اگر (غیر شادی شدہ) مرد یا عورت جو کہ عاقل و بالغ اور آزاد ہوں اور زنا کے مرتکب ہوں تو ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔ (٢) زانیہ اور مشرکہ عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (٣) اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور اس پر چار گواہ بطور ثبوت پیش نہ کرسکے تو اس شخص کو (تہمت لگانے کے جرم میں) ٨٠ کوڑے مارے جائیں۔ (٤) اگر شوہر اپنی بیوی پر یا بیوی اپنے شوہر پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے سوا اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی گواہ نہ ہو تو وہ چار مرتبہ قسم کھائے گا جس میں وہ یہ کہے گا کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے گا کہ اگر میں اس دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح اگر اس کی بیوی اس الزام کو قبول نہیں کرتی تو وہ بھی چار قسم کھانے کے بعد پانچویں قسم میں کہے گی کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اور اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہے تو میرے اوپر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کو شریعت میں ” لعان “ کہتے ہیں۔ اس قسم کے بعد وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجائے گی۔ (٥) واقعہ افک کا بیان ہے۔ بعض منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کی برائت و پاکیزگی کا اعلان فرمایا اور تہمت لگانے والوں کی سزا کا حکم ارشاد فرمایا۔ (٦) جو لوگ شیطان کے پیچھے چلتے ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ معاشرہ میں بےغیرتی ‘ بےحیائی اور ہر طرح کی برائیاں فروغ پائیں۔ اہل امیان کو ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (٧) فرمایا کہ جو لوگ کسی نیک کام اور کار خیر میں لگے ہوئے ہوں وہ بعض احمقوں کے اعتراضات کی وجہ سے نیکی نہ کرنے کی قسمیں نہ کھا بیٹھیں۔ (٨) کوئی شخص کسی کے گھر میں اس کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ (٩) مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور نامحرموں پر نظریں ڈالنے سے بچیں۔ (١٠) مومن عورتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں۔ اپنی زینت کو غیر مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔ (١١) جو مرد اور خواتین نکاح کی ذمہ داریاں سنبھالنے اور حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل ہوں ان کے نکاح کردیئے جائیں۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی مفلسی اور غربت کیوجہ سے نکاح کا بوجھ اٹھانے سے مجبور ہوں وہ اس وقت تک صبر کریں جب تک اللہ تعالیٰ ان کو اس ذمہ داری کو سنبھالنے کا راستہ اور صلاحیت عطا نہ کردے۔ سورة النور میں جہاں بڑے بڑے اور اہم قوانین اور ہدایات کو بیان کیا گیا ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور مومنین کی وہ علامتیں بھی بیان فرمائی ہیں جن سے یہ معلوم کرنا بہت آسان ہوگیا ہے کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نجات ان ہی لوگوں کی ہے جو ایمان پر قائم ہیں لیکن منافقین اپنی منافقتوں کو بہت دیر تک نہیں چھپاسکتے اور ان کے لیے نجات کا راستہ نہیں ہے۔ اس سورت میں زانی مرد اور زانیہ عورت اگر شادی شدہ نہ ہوں تو عدالت میں ثابت ہونے کے بعد ان کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (١٢) لونڈیاں اور غلام اگر کچھ رقم ادا کرکے اپنے مالک سے آزاد ہونا چاہیں تو ان کی مدد کی جائے (یہاں تک کہ اگر زکوۃ کی رقم دے کر آزاد کرایا جاسکتا ہو تو غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کریں) (١٣) فرمایا کہ اپنی باندیوں سے حرام کاری کا پیشہ نہ کر ائو (جیسا کہ عرب میں دستور تھا) اس کو سختی سے روکنے کی ضرورت ہے۔ (١٤) فرمایا کہ اللہ نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے اس میں ہر آن انقلاب اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ‘ بادلوں کا اٹھنا ‘ بارش اور اولوں کا برسنا ‘ بجلی کا چمکنا ‘ انسانی ضروریات کے لیے چو پائے اور مویشی جانوروں کا پیدا کرنا یہ سب اس کی قدرت کے نشانات ہیں ان میں غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ اللہ کے بندے اللہ تک پہنچ سکیں اور اس کی ذات کو پہچان سکیں۔ (١٥) فرمایا کہ ہر شخص کی ذاتی زندگی میں کسی طرح کی دخل اندازی نہ کی جائے۔ خاص طور پر کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں آدمی آزادی سے رہنا چاہتا ہے جیسے صبح کی نماز سے پہلے ‘ دوپہر کو آرام کے وقت ‘ اور رات کو عشاء کے بعد۔ ان اوقات میں گھر کے بچے اور نو کر چا کر بھی اجازت لے کر آیا کریں۔ (١٦ ض بوڑھی اور کمزور عورتوں کے ساتھ رعایت کی جائے اللہ نے ان کے پردے کے معاملے میں بھی کچھ تخفیف کی ہے۔ (١٧) اندھے ‘ لنگڑے ‘ لولے ‘ بیمار اور معذوروں کی دل جوئی کرنے کے لیے کبھی کبھی گھر لے جا کر کھانا کھلانے میں کوئی حرج نہیں ( بلکہ ان کو احساس تنہائی اور احساس محرومی سے نکالنا بھی ایک عبادت ہے) ۔ (١٨) جب لوگ گھروں میں داخل ہوں تو سلام کیا کریں اس سے بڑی برکت ہوتی ہے۔ (١٩) اس سورة کو اس مضمون پر ختم کیا گیا ہے کہ اس کائنات کی سب سے بڑی سعادت اور نیکی یہ ہے کہ نبی کریم خاتم الانبیاء احمد مجتبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت وفرمانبرداری اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کی جائے۔ اس میں دونوں جہانوں کی خیر و فلاح ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والے ہیں وہ ایسے بد نصیب لوگ ہیں جن کو دنیا اور آخرت میں سوائے گھاٹے اور نقصان کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة النّور کا تعارف ربط سورة : سورة المومنوں ان الفاظ پر ختم ہوئی کہ اپنے رب سے بخشش اور رحم مانگتے رہو۔ اس کا رحم اور بخشش ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو اس کے ارشادات سے نصیحت حاصل کر کے اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ سورة 9 رکوع اور 64 آیات پر مشتمل ہے۔ عرب غیور اور خوددار ہونے کے باوجود اخلاقی بےراہ روی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ بدکاری اور بےحیائی ان کے نزدیک عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، خاندانی دشمنی کی بنا پر شاعر مجمع عام میں اپنی محبوبہ اور مخالف گروہ کی بہو، بیٹیوں پر تہمتیں لگاتے اور سننے والے ان سے لطف اندوز ہوتے، مکہ کی نسبت مدینہ کے لوگ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ تھے، مگر ان کی اخلاقی گرواٹ کا عالم یہ تھا کہ مدینہ میں باقاعدہ قحبہ خانے تھے۔ فاحشہ عورتوں نے ان کی مشہوری کے لیے چھتوں پر جھنڈے لہرا رکھے تھے، تاکہ برائی کے متلاشی لوگوں کو ان تک پہنچنے میں کوئی دقّت پیش نہ آئے، معاشرتی آداب اس قدر پامال ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت آنا، جانا بالخصوص مذہبی پوپ اور بڑے لوگ اپنا حق سمجھتے تھے، اس کا سبب تھا کہ اگر بڑے خاندان کا آدمی زنا یا کوئی جرم کرتا تو اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا، غریب یا کمزور خاندان کا آدمی جرم کرتا تو اس پر حد نافذ کی جاتی تھی۔ اخلاقی بےراہ روی اور ہر قسم کی بےحیائی ختم کرنے کے لیے یہ سورة مبارک نازل کی گئی۔ جس میں سوچ کی پاکیزگی اور کردار کی پختگی کے اصول بتلانے کے ساتھ ساتھ چوری، بدکاری اور تہمت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس کے نفاذ پر کسی قسم کی نرمی روا رکھنے کو ایمان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی مسلمان مرد وزن نے اس سورة کی تعلیمات پر عمل کیا۔ معاشرہ امن وامان اور شرم وحیا کا گہوارہ ثابت ہوا۔ کیونکہ صدیوں سے جاری معاشرتی رسومات اور اطوار کا بدلنا انتہائی مشکل ہوا کرتا ہے اس لیے اس سورة اور اس کے احکام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس سورة کو ہم نے نازل کیا ہم نے اس کے احکام کی تعمیل کو لازم قرار دیا اور ہم ہی نے اس کے ارشادات کو کھول کھول کر بیان کیا تاکہ تم انہیں یاد رکھو۔ لہٰذا غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے اسّی اسّی کوڑے ہیں۔ کوڑے مارتے ہوئے کسی قسم کی نرمی نہیں ہونا چاہیے اور اس وقت مومنوں میں کچھ لوگوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ اب کے بعد زانی عورت کا نکاح زانی مرد کے ساتھ ہوگا، مشرکہ، مشرک کے ساتھ، بدکار عورت کا بدکار مرد سے اور مشرک کا نکاح مشرکہ کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ باکردار مسلمان مردوں پر یہ رشتے حرام ہیں۔ جو لوگ صالح کردار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں انہیں اسّی درّے مارے جائیں اور آئندہ کے لیے ان کی شہادت قبول نہ ہوگی، ان حدود کے بیان کرنے کے بعد اس سورة کے شان نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سچے کردار کی گواہی دی گئی ہے۔ اور مومنوں کو سمجھایا ہے کہ کسی صالح کردار مردو زن پر تہمت لگے تو اس کے پاکیزہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس تہمت کی فوراً تردید کر دینی چاہیے، کیونکہ صالح انسان کا ماضی بہت حد تک اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے، پھر ایک دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا اور گھر والوں کو سلام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس تعلیم کے ساتھ ہی مومن مرد اور مومن خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچے رکھا کریں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، اس حکم کے ساتھ ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے پردہ کرنا عورت کے لیے ضروری نہیں۔ سورة کے پانچویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو زمین و آسمانوں کا نور قرار دیا ہے پھر اپنے نور کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا، جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات نور کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے معاشرے کی ہر قسم کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی میں نہیں آتے ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ ان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں سکتا، جس کے لیے اللہ تعالیٰ روشنی نہ کرے وہ کہیں سے روشنی نہیں پاسکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جنہیں لین، دین اور کاروبار ” اللہ “ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، وہ نماز کے وقت نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے وقت زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، ان کے دل قیامت کی ہولناکیوں سے لرزاں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ صرف پوری پوری جزا دے گا بلکہ اپنے فضل سے بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو بغیر حساب و کتاب کے عطا فرماتا ہے۔ مؤمنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہیں کہ جب بھی انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں آجاتے ہیں۔ سورة کے آخر میں ان اوقات کا ذکر کیا گیا ہے جن اوقات میں گھریلوں ملازم اور نابالغ بچے بھی اجازت لے کر خلوت خانوں میں جایا کریں۔ اس میں مومنوں کی یہ بھی صفت بتلائی گئی ہے کہ یہ لوگ جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مشاورت کے لیے بلائے جاتے ہیں تو اجازت لیے بغیر آپ کی مجلس سے نہیں جاتے۔ آخر میں یہ ادب سکھلایا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ آواز دیا کریں جس طرح ایک دوسرے کو آواز دے کر بلاتے ہیں اگر لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی سے باز نہ آئے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بالآخر سب نے ” اللہ “ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کچھ کر رہے تھے۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے پر تمہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة النور۔ ٢٤ ١۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ ٦٤ سورة النور ایک نظر میں یہ سورة نور ہے ‘ اس میں لفظ نور آیت اللہ نور السموات والارض (٢٤ : ٣٥) میں ذکر ہوا ہے۔ پھر اس سورة میں جو مضامین ہیں وہ قلب و نظر اور ضمیر و اخلاق کے لیے نور ہیں اور ان کے نتیجے میں انسانوں میں نورانی آداب پیدا ہوتے ہیں۔ اس سورة میں جو نفسیاتی اخلاق ‘ عائلی پوابط اور اجتماعی قوانین وضع کیے گئے ہیں وہ نور ہی نور ہیں اور یہ نور پھر ایک کائناتی نور سے مربوط ہے اور وہ نور روح کا نور ہے ‘ دلوں کی روشنی ہے اور ضمیر کے لیے صیقل ہے۔ یہ سب کچھ اس عظیم نور کا پرتو ہے۔ اللہ نورالسموت والارض (٢٤ : ٣٥) اس سورة کا آغاز ایک زور دار اعلان شاہی سے ہوتا ہے کہ اس سورة کو ہم نے فرض قرار دیا ہے۔ اس کے اندر جو فرائض و حدود ہیں اور جو آداب و اخلاق ہیں اور جو احکام و قوانین ہیں وہ قدرتی ہیں۔ سورة انزلنھا۔۔۔۔۔۔۔ تذکرون (٢٤ : ١) ” یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اسے ہم نے فرض کیا ہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں ‘ شاید کہ تم سبق لو “۔ اس آغاز سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم انسانی زندگی میں اخلاق و آداب کو کس قدراہمیت دیتا ہے۔ نیز اسلامی نظریہ حیات میں اور اسلامی کلچر میں اعلیٰ اخلاق اور اچھے اور صاف طرز عمل کو کس قدر بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ اس سورة کا محور مومنین کی اخلاقی تربیت ہے اور ان اخلاقی احکام کو تعزیری قوانین جیسی اہمیت دی گئی ہے۔ پھر یہ اخلاقی تعلیمات محض اخلاق اور قانون سے بلند ہوجاتی ہیں اور روحانی انداز اختیار کر کے اعلیٰ وجدانی طرز عمل اختیار کرلیتی ہیں کہ انسانی زندگی اور یہ پوری کائنات اللہ کی نور سے جاملتی ہے۔ ان تعلیمات میں شدت بھی ہے اور نرمی بھی ہے۔ مگر شدت اور نرمی دونوں سے نفس انسانی اور شعور انسانی کی تربیت مقصود ہے۔ اخلاق معیاروں کو اس قدر بلند کرنا مطلوب ہے کہ وہ شفاف بن کر اللہ کے نور کا حصہ بن جائیں۔ انسان کے انفرادی اعمال اور افکار ‘ گھرانوں کے اخلاق و آداب اور معاشرے ‘ سواسائٹیا ورقیادت کے اخلاق و آداب سب کے سب ایک ہی شرچشمے یعنی نور ربی سے ماخوذ ہیں جو نور سماوات والارض ہے۔ اور جس کی وجہ سے یہ پوری کائنات روشن ہے۔ آسمان روشن ‘ زمین روشن ‘ انسانی نفس ‘ انسانی روح اور اخلاق روشن۔ اپنے محور اور موضوع کے گرد اس سورة کے پانچ اور اسباق ہیں : پہلے دور میں ایک ایسا دو ٹوک اعلان ہے جس سے سورة کا آغازہوتا ہے ‘ متصلاً حد زنا کے قانون کا اعلان ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ چغلی نہایت ہی مکروہ فعل ہے۔ زانی اسلامی معاشرے کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد حد قذف اور اس کے لیے سخت قانون سازی کا بیان ہے۔ اور زوجین کو حدقذف سے مستثنی کیا گیا ہے۔ البتہ انکے لیے لعان کا قانون پاس کر کے ان کے درمیان جدائی کی گئی ہے۔ اس کے بعد افک کی کہانی آتی ہے اور یہ سبق ختم ہوتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ خبیث لوگوں کے ساتھ خبیث ملتے ہیں اور نیک اور پاک لوگوں کے ساتھ نیک اور پاک لوگ ملتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیے۔ دوسرے سبق میں ان انسدادی ذرائع کا ذکر ہے جو اس جرم سے بچاتے ہیں اور ان تدابیر کا ذکر ہے جن کے ذریعہ اسلام انسان کو ان برائیوں میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ مثلاً دوسروں میں بغیراذن و اجازت داخل نہ ہونا۔ مثلاً غض بصر کے احکام ‘ غیر محارم کے سامنے زیب وزینت کا اظہار نہ کرنا ‘ نوجوان عورتوں کا جلدی سے نکاح کردینا ‘ عورتوں اور لونڈیوں کو حرام کاری سے منع کرنا۔ غرض وہ تمام ذرائع اختیار کرنا جن سے قلب و نظر اور ضمیر و سعور میں پاکیزگی پیدا ہو اور ان چیزوں سے بچنا جن کی وجہ سے حیوانی خواہشات ان میں پیدا ہوتی ہیں اور جن کا کسی پاکیزہ شخص کے طرز عمل پر اثر ہوتا ہے۔ جبکہ وہ ہر قسم کے دامن گیر موثرات سے دامن بچائے پھرتے ہیں۔ تیسرا دور اللہ کے نور سے متعلق ہے جو ان آداب کے درمیان میں آتا ہے جو اس سورة کا خاص موضوع ہیں۔ اس طرح ان آداب کو اللہ کے نور سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ اللہ کے پاک گھروں میں ذکر کرنے والے پاک لوگوں کا ذکر اس سبق میں ہے اور یہ کگا گیا ہے کہ ذکر الہی کرنے والے یہ لوگ اس نور الٰہی سے ہدایت یافتہ ہیں جبکہ اہل کفر کی مثال یوں ہے کہ وہ سراب کو حقیقت سمجھتے ہیں یا وہ ظلمتوں کے تہ بہ تہ اندھیروں میں ہیں۔ اللہ کے اس نور سے آفاق کائنات بھرے ہوئے ہیں اور تمام مخلوق اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ اس فضائے کائنات میں اللہ بادلوں کو چلاتا ہے۔ رات اور دن کی گردش کا ذکر ‘ پانی سے تمام قسم کے جانوروں کی تخلیق کا ذکر جن کی شکلیں اور کام مختلف ہیں ۔ یہ سب چشم بینا کے لیے بصیرت افروز امور ہیں۔ پانچویں سبق میں یہ بتایا گیا کہ منافقین کے دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام نہیں ہے۔ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطاعت نہیں کرتے ‘ اپنے فیصلے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے نہیں کراتے جبکہ اہل ایمان مطیع فرمان ہیں اور اسی راہ پر چل کر وہ اس کرئہ ارض پر بطور مقتدر اعلیٰ فائز ہوں گے اور دین کو غلبہ اور کافروں کے مقابلے میں ان کو نصرت حاصل ہوگی۔ پانچویں سبق میں کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونے کے آداب ‘ اقارب کے درمیاں ضیافت کے آداب اور پھر یہ کہ اہل ایمان ایک ہی خاندان ہیں اور ان کے سربراہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اہل ایمان کی سوسائٹی ایک ہی فیملی ہے۔ خاتمہ کلام اس پر ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے مقتدر اعلیٰ ہیں۔ وہ لوگوں کے حالات سے اچھی طرح با خبر ہیں۔ خفیہ حالات ہوں یا ظہری ‘ ایک دن آنے والا ہے کہ لوگ اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔ وہ ان سے حساب و کتاب لے گا اور اللہ علیم وخبیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi