Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 20

سورة النور

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ وَ اَنَّ اللّٰہَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۰﴾٪  8 النصف

And if it had not been for the favor of Allah upon you and His mercy... and because Allah is Kind and Merciful.

اگر تم پر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالٰی بڑی شفقت رکھنے والا مہربان ہے ( تو تم پر عذاب اتر جاتا )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Reminder of the Grace of Allah and a Warning against following the Footsteps of Shaytan Allah says: وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّه رَوُوفٌ رَحِيمٌ And had it not been for the grace of Allah and His mercy on you, and that Allah is full of kindness, Most Merciful. meaning, if it were not for this, it would have been another matter altogether, but He, may He be exalted, is full of kindness towards His servants and Merciful towards them. He accepts the repentance of those who repent to Him from this sin, and purifies those among them who are purified by the prescribed punishment carried out on them. Then Allah says:

شیطانی راہوں پر مت چلو یعنی اگر اللہ کا فضل وکرم ، لطف ورحم نہ ہوتا تو اس وقت کوئی اور ہی بات ہو جاتی مگر اس نے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالی ۔ پاک ہونے والوں کو بذریعہ حد شرعی کے پاک کر دیا ۔ شیطانی طریقوں پر شیطانی راہوں میں نہ چلو ، اس کی باتیں نہ مانو ۔ وہ تو برائی کا ، بدی کا ، بدکاری کا ، بےحیائی کا حکم دیتا ہے ۔ پس تمہیں اس کی باتیں ماننے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اس کے عمل سے بچنا چاہئے اس کے وسوسوں سے دور رہنا چاہے ۔ اللہ کی ہر نافرمانی میں قدم شیطان کی پیروی ہے ۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میں نے فلاں چیز کھانے کی قسم کھالی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ شیطان کا بہکاوا ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھالو ۔ ایک شخص نے حضرت شعبی سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ آپ نے فرمایا ، یہ شیطانی حرکت ہے ، ایسا نہ کرو ، اس کے بدلے ایک بھیڑ ذبح کرو ۔ ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ ایک دن وہ یہودیہ ہے اور ایک دن نصرانیہ ہے اور اس کے تمام غلام آزاد ہیں ، اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ۔ میں نے آکر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطانی حرکت ہے ۔ زینب بن ام سلمہ جو اس وقت سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والی عورت تھیں ، انہوں نے بھی یہی فتوی دیا اور عاصم بن عمرو کی بیوی نے بھی یہی بتایا ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو تم میں سے ایک بھی اپنے آپ کو شرک وکفر ، برائی اور بدی سے نہ بچا سکتا ۔ یہ رب کا احسان ہے کہ وہ تمہیں توبہ کی توفیق دتیا ہے پھر تم پر مہربانی سے رجوع کرتا ہے اور تمہیں پاک صاف بنا دیتا ہے ۔ اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے اور جسے چاہے ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا ، ان کے احوال کو جاننے والا ہے ۔ ہدایت یاب اور گمراہ سب اس کی نگاہ میں ہیں اور اس میں بھی اس حکیم مطلق کی بےپایاں حکمت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور شفقت و رحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرما دیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ ۔۔ : اس کا جواب محذوف ہے ” تو تمہیں توبہ کا موقع ہی نہ ملتا اور فوراً اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا، یہ محض اس کا فضل و رحمت اور اس کا رؤف و رحیم ہونا ہے کہ اس نے تمہیں توبہ کا موقع دیا اور حد کے ذریعے سے تمہیں پاک کرنے کا اہتمام فرمایا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللہَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٠ۧ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، رأف الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ «3» ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] . ( ر ء ف ) الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) اور جن حضرات نے عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) پر بہتان نہیں لگایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بڑا شفیق اور بڑا رحیم ہے تو تم بھی نہ بچتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ) ” تو یہ جو طوفان اٹھایا گیا تھا اس کے نتائج بہت دور تک جاتے۔ (اس مفہوم کے الفاظ یہاں محذوف ہیں۔ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:20) ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ۔ جواب شرط محذوف ہے (ملاحظہ ہو 24:10) ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا تکرار مبالغہ کے لئے ہے اور مخاطبین کی توبیخ کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ آگے مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بلا تخصیص اس معصیت مذکورہ کے تمام معاصی سے احتراز رکھنے کا امر اور تزکیہ بالتوبہ کی تصریح مع امتنان جو اہتما کے واسطے بعنوانات مختلفہ مکرر ہے ارشاد فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ دوبارہ مسلمانوں کو اپنے فضل و کرم کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ (ولولا فضل اللہ۔۔۔۔۔۔۔ رحیم) (٢٤ : ٢٠) ” اور اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ شفیق و رحیم ہے تو ۔۔۔ “ تو یہ حادثہ بڑا ہی عظیم تھا اور جو غلطی تم سے ہوگئی وہ کوئی معمولی غلطی نہ تھی۔ اور اس کے اندر جو شرارت پوشیدہ تھی وہ تمہیں خوب نقصان پہنچا دیتی۔ لیکن یہ اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تھا اور اس کی مہربانی اور اس کی نگرانی تھی کہ اس نے اس امر عظیم کے برے نتائج کو کنٹرول کرلیا۔ یہ بات اللہ بار بار ذکر فرماتا ہے۔ اس واقعہ کو اللہ ذریعہ تربیت بنا رہا ہے کیونکہ اس کے اثرات مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر پڑ رہے تھے۔ جب یہ باور کرادیا گیا کہ یہ عظیم فتنہ قریب تھا کہ تحریک اسلامی کے اجتماعی نظام کو تہس نہس کروئے اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو اب بتایا جاتا ہے کہ ذراسوچو تو سہی کہ تم تو شیطانی نقوش قدم پر چل پڑے تھے جو تمہارا جدی دشمن ہے۔ ” تمہیں شیطان کے قدموں پر نہیں چلنا چاہیے۔ آئندہ کے لیے اس قسم کی شیطانی حرکات سے بازرہو جن کے نتیجے میں پوری سوسائٹی ایسے شرکا شکار ہوجائے جس طرح جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ رَءُ وْفٌ رَحِیْمٌ) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور رحمت ہے اور یہ بات کہ اللہ رؤف ہے رحیم ہے تو تم بھی نہ بچتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” ولو لا فضل اللہ الخ “ لَوْ کا جواب محذوف ہے اس انعام و احسان کی اہمیت کا احساس دلانے اور مسلمانوں کو تنبیہ کرنے کے لیے اس کا دوبارہ اعادہ فرمایا یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور اللہ تعالیٰ مہربان نہ ہوتا تو اس جرم کی پاداش میں تمہیں فورًا ہلاک کردیتا اور مہلت دنہ دیتا لعجل لکم العذاب وکردرد المنۃ بترک المعاجلۃ بالعقاب مع حذف الجواب مبالغۃ فی المنۃ علیھم والتوبیح لھم (مدارک ج 3 ص 105) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے تو تم بھی اس وعید سے نہ بچتے یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی توبہ قبول کرلی اور ان کی توبہ کی توفیق عطا کردی اور ان پر حد قذف جاری کی گئی یہ سب اس کے فضل اور اس کے انعام کی وجہ سے ہوا اگر اس قسم کی مہربانی نہ ہوتی تو مسلمان بھی اس وعید میں شامل ہوتے جو منافقوں کے لئے اوپر فرمائی ہے۔ اب آگے عام طور پر مسلمانوں کو مخاطب فرماتے ہیں۔