Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 32

سورة النور

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۳۲﴾

And marry the unmarried among you and the righteous among your male slaves and female slaves. If they should be poor, Allah will enrich them from His bounty, and Allah is all-Encompassing and Knowing.

تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کےہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اورلونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہوں گےتو اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالٰی کشادگی والا اورعلم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to marry These clear Ayat include a group of unambiguous rulings and firm commands. وَأَنكِحُوا الاْأَيَامَى مِنكُمْ ... And marry those among you who are single (Al-Ayama).... This is a command to marry. The Prophet said: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَ... رْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ O young men, whoever among you can afford to get married, let him marry, for it is more effective in lowering the gaze and protecting the private parts. Whoever cannot do that, then let him fast, for it is a protection for him. This was recorded in the Two Sahihs from the Hadith of Ibn Mas`ud. In the Sunan, it was recorded from more than one person that the Messenger of Allah said: تَزَوَّجُوا تَوَالَدُوا تَنَاسَلُوا فَإِنِّي مُبَاهٍ بِكُمُ الاُْمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ Marry and have children, for I will be proud of you before the nations on the Day of Resurrection. The word Al-Ayama, the plural form of Ayyim, is used to describe a woman who has no husband and a man who has no wife, regardless of whether they have been married and then separated, or have never been married at all. Al-Jawhari reported this from the scholars of the (Arabic) language, and the word is applied to men and women alike. ... وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَايِكُمْ ... and the pious of your servants and maidservants. ... إِن يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ... If they be poor, Allah will enrich them out of His bounty. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas: "Allah encouraged them to get married, commanded both free men and servants to get married, and He promised to enrich them." It was recorded that Ibn Mas`ud said: "Seek the richness through marriage, for Allah says: وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَايِكُمْ (If they be poor, Allah will enrich them out of His bounty)." This was recorded by Ibn Jarir. Al-Baghawi also recorded something similar from Umar. ... وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ And Allah is All-Sufficient, All-Knowing. It was reported from Al-Layth from Muhammad bin Ajlan from Sa`id Al-Maqburi from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said: ثَلَثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللهِ عَوْنُهُمْ النَّاكِحُ يُرِيدُ الْعَفَافَ وَالْمُكَاتَبُ يُرِيدُ الاْاَدَاءَ وَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللهِ There are three whom it is a right upon Allah to help: one who gets married seeking chastity; a slave who makes a contract with his master with the aim of buying his freedom; and one who fights for the sake of Allah. This was recorded by Imam Ahmad, At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Majah. The Prophet performed the marriage of a man who owned nothing but his waist wrap, and could not even buy a ring made of iron, but he still married him to that woman, making the Mahr his promise to teach her whatever he knew of the Qur'an. And it is known from the generosity and kindness of Allah that He provided him with whatever was sufficient for her and for him. The Command to keep Oneself Chaste if One is not able to get Married Allah's saying:   Show more

نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولا نکاح کا ۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو ، اسے نکاح کر لینا چاہئ... ے ۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے ، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے ( بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ فرماتے ہیں زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی ۔ ایامی جمع ہے ایم کی ۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو ایم کہتے ہیں ، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا ۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو ، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے ۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے ۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو ۔ ( ترمذی وغیر ) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا ، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کر دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے ، اپنی بیوی کو یاد کرا دے ۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو ۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری ۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے ۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے ، فالحمد للہ ۔ پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کامقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں ، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا ، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کر لے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے ۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورہ نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت ( وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ 25؀ۧ ) 4- النسآء:25 ) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے ۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں ۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہو جائے گا ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے ۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کر دو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کر لے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کر لو ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا ، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا ، آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی ۔ ( بخاری ) عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں قول مروی ہیں ۔ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں ۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے ، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے ۔ یہی قول امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ وغیرہ کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے ۔ خیر سے مراد امانت داری ، سچائی ، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں ، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے اس کے بعد فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو ۔ یعنی جو رقم ٹھیر چکی ہے ، اس میں سے کچھ معاف کر دو ۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہو جائے ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے ۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے ۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کر دیتے ۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں ۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا ۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے ، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے ۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا ۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی ۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا ، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے ، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی ۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے ، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی ۔ آپ نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو ۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا ۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں ، جو ان سے بدکاری کراتے تھے ۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اس پر یہ آیت اتری ۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا ۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے ۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو ، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے کی اجرت ، بدکاری کی اجرت ، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا ۔ ایک اور روایت میں ہے زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا ۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآت میں رحیم کے بعد آیت ( واثمہن علی من اکرھھن ) ہے ۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے ۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا سے ، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں ، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے ۔ ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں ۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا ؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے ، قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں ۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں ۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے ۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا ، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کردو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کرلو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح امر کے صیغے سے بعض نے ثبوت کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب...  کہ اسے جائز اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے بچنے کی سخت وعید ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس نے میری سنت سے انکار کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ 322یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں بعض نفرت کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (الیسر التفاسیر) 323یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت ورزق میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے1 نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے2 مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے3 اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] معاشرہ کے فواحش سے طہارت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی فرد خواہ وہ مرد ہو یا عورت بےزوج نہ رہے۔ ایسے سب افراد کے نکاح کردو۔ ایامیالم کی جمع ہے اور یہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ مرد بھی ہیں جن کی بیوی یا بیویاں فوت ہوچکی ہوں یا طلاق دے چکے ہوں اور مجرد رہتے ہوں...  اور وہ عورتیں بھی جو بیوہ ہوں یا مطلقہ ہوں اور مجرد رہتی ہوں۔ نیز ان میں وہ کنوارے مرد اور کنواری عورتیں بھی شامل ہیں جن کی بلوغت کے بعد تادیر شادی نہ ہوئی ہو۔ لہذا اس لفظ کا معنی مجرد رہنی ہی قریب الفہم ہے۔ ایسے ہی مجرد افراد کے اولیاء کو یہ حکم دیا جارہا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرنا، فرض نماز، جب اس کا وقت ہوجائے۔ جناچہ جب موجود تو اسے دفن کرنے میں اور رنڈی عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (۔۔ ہمسر) مل جائے && (ترمذی۔ ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی الوقت الاول من الفض) ہمارے معاشرے میں عام طور رنڈے مردوں یا رنڈی عورتوں کے نکاح کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ اور کوئی فرد ہمت کرکے نکاح کر بھی کرلے تو اسے طعن وتشنیع کی جاتی ہے یا کم از کم اس کے اس کام پر ناک بھون ضرور چڑھاتے ہیں۔ کہ اس کے ہاں اولاد موجود ہے تو اسے نکاح کی کیا ضرورت تھی ؟ انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا یہ رویہ آیات اللہ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس رواج کی کئی وجہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو مغربی تہذیب سے مرعوبیت ہے۔ جہاں یک زوجگی کا قانون رائج ہے۔ یا پھر خوشی اور حرام کی سب راہیں کھلی ہیں اور یہ لوگ یہاں بھی یہی کچھ چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اولاد اپنے رنڈے باپ یا بیوہ ماں کے نکاح میں آڑے آتی ہے۔ اور اس کا بڑا سبب عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر اولاد پیدا ہوئی تو وہ وراثت میں شریک بن جائے گی۔ یا پھر جھوٹی قسم کی غیرت ہوتی ہے اس کی تیسری وجہ خاندانی منصوبہ بندی والوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ اور اسی وجہ سے بلوغت کے بعد تادیر مجرد رہنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ سب وجوہ مل کر ایک ایسا ماحول بن گیا ہے۔ جس میں حرام کاموں کے لئے تو سب سہولتیں میسر ہیں۔ مگر حلال کاموں پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت خواہ کسی عمر کی ہو اس کا ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ اور یہ بات احادیث میں پوری وضاحت سے مذکور ہے۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کوئی بھی عورت جو ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب لانکاح الی بولی) لہذا اولیاء کو یہی حکم دیا جارہا ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کریں۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امر کا صیغہ وجوب کے لئے نہیں ہے یعنی معاشرہ یا اسلامی حکومت یا اولیاء پر یہ واجب نہیں جو معاشرہ کا جو فرد بھی مجرد ہو اس کو پکڑ کر اس کا نکاح کرادے۔ بلکہ یہ امر استحیاب کے لوے ہے۔ کیونکہ نکاح میں کچھ رکاوٹیں بھی ہوسکتی ہیں مثلاً جوڑ کا رشتہ نہ ملنا یا تنگدستی وغیرہ۔ التبہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کے سلسلہ میں حتی الامکان تعاون کریں۔ اور جن لوگوں کے حالات نکاح کے لئے سازگار نہ ہوں انھیں آپ نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم کچھ جوان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتے تھے اور (نکاح کے لئے) ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ تو آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ اے نوجوانو ! تم میں سے جو کچھ خانہ داری کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس چاہئے کہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح نگاہ نیچے رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے خوب چیز ہے اور جو اس کی طاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے۔ روزے اس کی شہوت کو ٹھنڈا کردیں گے (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب من لم یستطع البارۃ فلیصم) نیز سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن مظعون (رض) کو && تبتل (مجرد یا عورت سے الگ تھلگ رہنے) کی اجازت نہ دی۔ اگر آپ اسے اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ && باب مایکرہ من القبتل والحصائ) [٥١] لونڈی اور غلاموں کے ذکر میں صالحین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو یہاں دو مطلب یہ ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ ان میں ازدواجی زندگی کو نباہنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسا نہ ہو کہ نکاح کے بعد وہ ڈھیلے پڑجائیں اور ان کا سارا بوجھ مالک پر پڑجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک ہوں اور پاک سیرت رہنا چاہتے ہوں اور فحاشی اور بدکاری سے بچنا چاہتے ہوں۔ جو بھی صورت ہو ان کے مالکوں کو چاہئے کہ ان کے نکاح کے لئے ممکن حد تک کوشش کریں۔ [٥٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مالدار اور غنی ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نظر ظاہری اسباب تک محدود رہتی ہے۔ اور وہ انھیں ظاہری اسباب کو سامنے رکھ کر حساب لگاتا ہے۔ جبکہ اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جن پر انسان مطلع نہیں ہوسکتا اور وہ اسباب خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ لہذا جو لوگ اس وجہ سے نکاح میں پس و پیش کرتے ہیں کہ نکاح کے بعد بیوی بچوں کا بوجھ کیسے برداشت کریں گے۔ انھیں سجھا دیا گیا کہ ایسے موہوم خطرات کی بنا پر نکاح سے مت رکو۔ تمہارا اور تمہارے بال بچوں کا رزق اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تم مجرد رہ کر غنی بن جاؤ گے یا نکاح کے بعد مفلس و قلاش ہوجاؤ گے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے کئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔ لہذا نہیں یقین رکھو کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے پر۔ لہذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہ کرنا چاہئے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ : ” الْاَيَامٰى“ ” آمَ یَءِیْمُ أَیْمًا “ (بَاعَ یَبِیْعُ ) سے ” أَیِّمٌ“ (بروزن فَیْعِلٌ، کَسَیِّدٍ ) کی جمع ہے، یعنی وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، کنواری ہو یا بیوہ یا مطلقہ اور وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو، کنوارا ہو یا ثیب۔ زمخشری کے مطابق ” أَیَامٰی “ کا وزن ” أَفَاعِل... ُ “ ہے، کیونکہ یہ ” أَیِّمٌ“ کی جمع ہے، جو ” فَیْعِلٌ“ کے وزن پر ہے اور ” فَیْعِلٌ“ کی جمع ” فَعَالٰی “ نہیں آتی۔ اس لیے ” أَیَامٰی “ کا اصل ” أَیَایِمُ “ ہے، جس میں قلب کرکے میم کو یاء کی جگہ پہلے کردیا گیا، کیونکہ الف کے بعد یاء پڑھنے میں ثقل ہے، پھر میم کو تخفیف کے لیے فتحہ دے دیا گیا اور یاء کو الف سے بدل کر ” أَیَامٰی “ کردیا۔ ابن مالک اور کئی علماء کے مطابق یہ خلاف قیاس ” فَعَالٰی “ کے وزن پر ہے، سیبویہ کے کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔ (التحریر والتنویر) 3 نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جنسی جبلت کو معطل کر دو اور ترک دنیا کرکے راہب اور جوگی بن جاؤ، کیونکہ یہ فطرت کا مقابلہ ہے اور جو شخص فطرت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا پادریوں اور ننوں (راہبات) کی طرح بری طرح شکست کھائے گا، بلکہ حکم دیا کہ اپنے مجرد مردوں اور عورتوں کا نکاح کرو اور حلال طریقے سے اپنی خواہش اور لذت کی تکمیل کرو، یہ تمہاری پاک دامنی اور نگاہ نیچی رکھنے کا ذریعہ ہے اور امت مسلمہ کی تعداد بڑھانے کا بھی۔ ” الْاَيَامٰى مِنْكُمْ “ سے مراد مسلم آزاد مجرد مرد اور عورتیں ہیں، کیونکہ غلاموں کا ذکر بعد میں آ رہا ہے اور غیر مسلم ” مِنْكُمْ “ نہیں بلکہ ” مِنْ غَیْرِکُمْ “ ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ حکم کس کو ہے ؟ تو عورت کا نکاح اس کے اولیاء کی ذمہ داری ہے، ان کی اجازت کے بغیر عورت کو نکاح کی اجازت نہیں۔ اگر کسی عورت کا ولی نہ ہو یا وہ ولایت کا اہل نہ رہے کہ اس کا نکاح کرنے کے بجائے نکاح کی راہ میں کسی معقول وجہ کے بغیر رکاوٹ بنا رہے تو حاکم وقت اس کا ولی ہے اور اسے حکم ہے کہ اس کا نکاح کرے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیْھَا فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَإِنْ دَخَلَ بِھَا فَالْمَھْرُ لَھَا بِمَا أَصَابَ مِنْھَا فَإِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَہُ ) [أبوداوٗد، النکاح، باب في الولي : ٢٠٨٣ ] ” جو عورت اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ “ تین دفعہ فرمایا، پھر فرمایا : ” اگر شوہر اس عورت سے صحبت کرلے تو اسے مہر دینا پڑے گا، اس سے فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے اور اگر وہ اولیاء آپس میں جھگڑ پڑیں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو سلطان اس کا ولی ہے۔ “ رہے مرد تو ان کا نکاح کسی ولی کی اجازت پر موقوف نہیں، مگر ظاہر ہے کہ بچے کے جوان ہونے پر اس کے والدین یا رشتہ دار جو اس کی کفالت کر رہے ہیں، اگر اس کے نکاح کی کوشش اور اس میں تعاون نہ کریں تو اس کے لیے نکاح بہت مشکل ہے، اس لیے انھیں حکم ہے کہ اپنے بچوں کا جوان ہونے پر جتنی جلدی ممکن ہو نکاح کردیں۔ ” وَاَنْكِحُوا “ (نکاح کر دو ) کا لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس کے مخاطب حکومت و عوام تمام مسلمان بھی ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے نکاح میں وہ جس قدر بھی تعاون کرسکتے ہوں ان کا نکاح کروا دیں۔ جب دوسروں کا نکاح کروانے کا حکم ہے تو خود اپنا نکاح کروانا تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تھے، جوان تھے اور کوئی چیز نہ پاتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ ) [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم : ٥٠٦٦، ٥٠٦٥ ] ” اے جوانو کی جماعت ! تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔ “ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ :” َالصّٰلِحِيْنَ “ سے مراد دین کی صلاحیت (نیکی) بھی ہوسکتی ہے، اس صورت میں غلام یا لونڈی میں سے صالح وہ ہوگا جو فاجر اور زانی نہ ہو۔ اس کے مالک کو اس کی نیکی کے انعام اور مزید نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے اس کا نکاح کردینا چاہیے۔ رہا زانی تو وہ کیونکہ صالح نہیں فاسد ہے، اس لیے اس کا نکاح جائز نہیں، جب تک توبہ کرکے صالح نہ بن جائے۔ گویا یہ سورت کے آغاز میں مذکور حکم ” اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ “ کی تائید ہے۔ غلاموں میں خاص طور پر یہ شرط لگانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکثر یہ بیماری اس طبقے میں ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس شرف سے محروم ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی آزاد مرد یا عورت کو اپنی عزت کی حفاظت پر مجبور کرتا ہے۔ (سعدی) اس لیے اہل علم نے یوسف (علیہ السلام) کے زنا سے بچنے کو عفت کا کمال قرار دیا ہے، کیونکہ دنیاوی لحاظ سے انھیں زنا سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس حرّیت بھی نہیں تھی۔ (تفصیل سورة یوسف میں ملاحظہ فرمائیں) ” َالصّٰلِحِيْنَ “ سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لونڈی یا غلام جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور انھیں اس کی ضرورت ہو۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر غلام یا لونڈی کو نکاح کی حاجت نہ ہو تو مالک کو اس کے نکاح کا حکم نہیں اور ” َالصّٰلِحِيْنَ “ کے دونوں معنی مراد لیے جائیں تو کچھ بعید نہیں۔ (سعدی) اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : عام طور پر غربت کو مرد کے نکاح کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو بیوی کو کہاں سے کھلائے گا، اس لیے غریب کو کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ تم مجرد لوگوں کا نکاح کر دو ، اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں غنی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب سے غنی کردینے کا اختیار ہے اور اسباب کے لحاظ سے بھی بیوی آنے کے بعد وہ کمائی کے لیے زیادہ جدو جہد کرے گا۔ کھانا تو پہلے وہ خود بھی کھاتا ہے، اگر مزید کمائی نہ بھی کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ [ دیکھیے، بخاری : ٥٣٩٢ ] پہلے یہ اکیلا کمائی کرتا تھا، بیوی آنے کے بعد اس کی کمائی کی استعداد دو گنا ہی نہیں بلکہ مشہور عام قول کے مطابق گیارہ گنا ہوجائے گی۔ بیوی اس کا ہاتھ بٹائے گی، ہوسکتا ہے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ہنر عطا کر رکھا ہو، یا وہ بہتر مشورے دے کر خاوند کی بہترین مشیر ثابت ہو، یا بیوی کے رشتہ داروں کے تعاون سے حالت بدل جائے۔ علاوہ ازیں اولاد ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ اتنی کمائی کریں کہ پورا کنبہ ہی اغنیاء میں شامل ہوجائے۔ اس کے برعکس کسی غنی کو لڑکی دے تو ہوسکتا ہے کسی آزمائش میں وہ فقیر ہوجائے۔ اللہ نے فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 26؀ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ ۡ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ آل عمران : ٢٦، ٢٧ ] ” کہہ دے اے اللہ ! بادشاہی کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور تو مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔ “ یہ سب کچھ عام مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔ دولت دھوپ چھاؤں کی طرح آج یہاں ہے تو کل وہاں، بلکہ دولت کا معنی ہی گھومنا ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی کا نکاح بھی کردیا تھا جس کے پاس ایک چادر کے سوا کچھ نہیں تھا، حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی۔ (دیکھیے بخاری : ٥٠٢٩) یہ خیال ہی نہیں فرمایا کہ یہ بیوی کو کہاں سے کھلائے گا۔ اس لیے اہل علم نے دولت مند بننے کے اسباب میں سے نکاح کو بھی ایک سبب قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” بعض لوگ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فقیری میں بھی نکاح کیا کرو، اللہ تمہیں غنی کر دے گا۔ “ میری نگاہ سے تو یہ روایت نہیں گزری، نہ کسی قوی سند سے، نہ ضعیف سند سے اور نہ ہمیں اس مضمون کے لیے ایسی بےاصل روایت کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ قرآن کی یہ آیت اور (لوہے کی انگوٹھی تک نہ رکھنے والے سے نکاح والی) حدیث اس کے لیے کافی ہے۔ (وللہ الحمد) “ ( ابن کثیر) ایسی ہی ایک روایت عام مشہور ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فقر کی شکایت لے کر آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نکاح کرلو۔ “ اس نے نکاح کرلیا مگر غربت بدستور مسلط رہی، وہ پھر شکایت لے کر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ اس نے دوسرا نکاح کرلیا، پھر بھی وہی حال رہا تو وہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ تیسرے نکاح پر بھی غربت دور نہ ہوئی تو اس نے پھر آ کر شکایت کی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوتھے نکاح کا حکم دیا، اس نے اس پر عمل کیا تو اس کی غربت دور ہوگئی۔ میں نے یہ روایت بہت تلاش کی مگر کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی اور نہ یہ روایت نقل کرنے والے کسی صاحب نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ ایسی باتوں کا بےسروپا ہونا خود اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے فقیر کو یکے بعد دیگرے چار بیویاں ملتے چلے جانے کی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ : واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عطف پہلے جملے پر ہے جو ” يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ “ سے خود بخود سمجھ میں آنے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے اور یہ اختصار قرآن کی بلاغت کا اعجاز ہے۔ گویا محذوف جملے کو ظاہر کیا جائے تو عبارت یوں ہوگی : ” أَنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ فَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ “ یہاں ” وَاسِعٌ“ اور ” عَلِيْمٌ“ صفات لانے کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ وسعت والا ہے، اس کے ہاں کوئی کمی نہیں، وہ جسے چاہے، خواہ وہ کتنا کنگال کیوں نہ ہو، اسے غنی کردیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے، اسے معلوم ہے کہ کسے غنی کرنا ہے اور کس طرح اور کن اسباب کے ذریعے سے غنی کرنا ہے۔ (بقاعی)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Some injunctions regarding marriage It has been pointed out earlier that Surah an-Nur contains mostly the injunctions relating to protection of chastity and continence, and prevention of obscenity and shamelessness. In this connection severe punishments against adultery and related matters are mentioned, then istidhan is highlighted, and after that hijab for women is described. Since Is... lamic jurisprudence is based on the precept of moderation, all its injunctions are moderate, and have affinity with natural human emotions and desires. It is also based on the principle to control the tendency of excessiveness and transgression. When it is enjoined to desist strictly from unlawful lust, it is equally important to provide a lawful access for the natural human emotions and desires. At the same time it is also needed both from a rational and religious point of view that men and women are shown a way for the lawful copulation for the preservation of human race. In the terminology of Qur&an and Sunnah it is called nikah (marriage). In the verse under consideration the guardians of unmarried girls and the owners of slave girls and boys are enjoined to marry them off. وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ And arrange the marriage of the spouse-less among you - 24:32. Ayama (أَيَامَىٰ ) is the plural of Aym (اَیم)which is used for all those men and women who are not married, irrespective of the situation whether they have not yet been married or were married earlier and have become divorcee or widow /widower. The guardians of such men and women are directed in this verse to arrange their marriage. Scholars and jurists are unanimous on the point that according to the manner of address of this verse the preferable and masnun way of marriage is that men and women have it arranged through their guardians, rather than arranging it directly. There are many a worldly and religious benefits in this tradition, especially in the case of girls it is a sort of indecency that they arrange their own marriages. Also, there is a risk that this system may open the doors for obscenity. Therefore, in some narrations of hadith women are prohibited to contract their own marriages without the mediation of guardians. Imam Abu Hanifah (رح) and some other Imams have ruled that this instruction describes a sunnah and the preferred way for the contract of marriage. But if an adult girl marries someone within her own kuf without her guardian&s permission, it is a proper marriage, although she would be reprehensible for this act, because it is against the sunnah, unless she has done so under unavoidable circumstances. Imam Shafi` i (رح) and some other Imams have ruled that her marriage will be null and void if carried out without her guardian&s mediation. It is not the intention to describe and argue here the details of approach and arguments put forward by the two jurists on their different points of view, but this much is obvious from the verse under discussion that it is preferable to have guardian&s mediation in the matter of marriage. But the Qur&anic verse itself is silent on the issue of status of marriage, if solemnized without the consent of guardians. The other reason is that in the word Ayama (أَيَامَى) both male and female adults are included, and there is consensus that the marriage of adult boys is perfectly valid if solemnized without the mediation of guardians. No one considers that marriage to be null and void. But this is true that in either case it is against the sunnah, for which both should be reproached. The status of marriage in Shari&ah Jurists are almost all unanimous that whoever has a strong apprehension that in case he does not marry, he would not be able to maintain the prescribed limits of Shari’ ah and will get involved in sins, and he has the means to get married, it is obligatory on him to get married. As long as he does not get married, he will remain a sinner. But in case he does not have the means to get married, or a suitable woman is not available, or he does not possess the needed prompt dower etc., for all such situations the injunction is given in the next verse that he should keep striving to obtain what is required and until such time that the needful is arranged, he should keep his emotions under control and wait with patience. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has advised such persons in this situation to fast continuously, for fasting calms down the sexual desire. It is reported in Masnad of Ahmad that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) enquired from Sayyidna ` Akkaf whether he had a wife, to which he replied in the negative. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) enquired whether he had a lawful slave girl. He again replied in the negative. Then he asked ` Do you have the means?& To this he replied in the affirmative. The purpose of this enquiry was to find out whether he possessed the means to arrange his marriage, to which he answered in the positive. After that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said ` In that case you are a brother of Shaitan, for our sunnah is to get married. The worst persons among you are those who are unmarried, and the most mean among your men are those who die without marrying&. (Mazhari). Majority of the jurists have attributed this narration as well to that condition when there is a predominant risk of sinning by abstaining from marriage. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) must have known the situation of ` Akkaf that he would not be able to resist. Similarly, it is reported in Masnad of Ahmad on the authority of Sayyidna &Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had instructed him to get married, and warned against remaining bachelor. (Mazhari). There are some other similar narrations of the hadith as well, and majority of the jurists have held them to be applicable only in those situations where there is a strong apprehension of being involved in a sin if one avoids marriage. Similarly, jurists are almost all unanimous that if someone has strong notion that he would indulge in sin by marrying a woman, for instance he is not capable of meeting conjugal rights of the wife or will get involved for sure in some other sin, in such a situation marriage is prohibited or unbecoming for him. Now the case of that person has to be looked at who is in an even position. For him neither the risk of sin is very strong by abstaining from marriage, nor there is a strong risk of sin if the marriage is performed. For this situation there are different views of the jurists, that is, which act is better; to get married or abstaining from marriage and get involved in extra prayers. Imam Abu Hanifah (رح) has ruled that getting married is better than offering extra prayers, while Imam Shafi` i (رح) has recommended that getting involved in prayers is preferable. The reason for the different views is that by itself the marriage is a lawful act, just like eating, drinking sleeping etc. or as any other necessity of life is lawful, and the element of worship is included in marriage for the simple reason that one can save himself from sin by this act, and when the righteous children are born, it will add up to his reward. When one performs any lawful act with the intent of pleasing Allah Ta’ ala, it becomes an indirect worship for him. Eating, drinking, sleeping etc. all become indirect worship when carried out with this intention. Since occupation in prayers is a direct worship in itself, hence, Imam Shafi` i (رح) regards prayers to be preferable to marriage. But in the opinion of Imam Abu Hanifah (رح) the element of worship is greater in marriage than other lawful acts. In many Sahih ahadith it is emphasized repeatedly to follow this tradition of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In the light of all these ahadith it becomes evident that marriage is not just lawful like other lawful acts, but is a sunnah (practice) of the messengers, and has also been emphasized repeatedly in hadith. It is a worship not only from the viewpoint of intention but also being a tradition of the messengers. If someone suggests that by the same token eating, drinking and sleeping should also be regarded as sunnah, because all messengers used to perform them. The answer to this is very clear that despite these acts being performed by all messengers, no one has said or narrated in any hadith that eating, drinking and sleeping are sunnah of the messengers. Instead these acts are regarded as common human habits, which were observed by messengers as well. As against this, marriage is clearly declared as sunnah of the messengers and the sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself. Tafsir Mazhari has given a moderate view on the subject that, if someone is on an even position, that is neither he is helpless or overcome by prevalence of lust, nor feels the risk of indulging in sin by abstaining from marriage, and thinks that if he gets married, his involvement in household would not be a hindrance in his worships and remembrance of Allah Ta’ ala, then it is preferable for him to get married. This was exactly the case of the messengers of Allah and the righteous people of the Ummah. But if he has a hunch that his marriage and involvement in household will not let him promote his religious status and will hinder Allah&s remembrance, then for him abstaining from marriage for performing worship would be preferable, provided he is in an even position, described above. Many a Qur&anic verses are in support of this position, one of them being: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِاللَّـهِ believers, let not your possessions nor your children divert you from Allah&s remembrance - 63:9).This verse advises that the wealth and children should not come in the way of remembering Allah Ta’ ala. وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ And the capable from among your bond-men and bond-girls - 24:32. This sentence is addressed to the masters of the slaves. Here the word salihin is used in its literal meaning, that is whoever among them has the means and capacity of marrying; arrangement of his/her marriage is made incumbent upon their owners and masters. Here the word capacity is purported to have the means to fulfill the conjugal rights of wife and ability to make payment of maintenance and prompt dower. If the word salihin is taken in its common sense, that is good and pious people, then their exclusiveness from the rest will be on the basis that marriage is basically the means to keep away from the sins, a trait which only the good persons possess. So, it is made incumbent upon the masters of the slaves and slave girls that those among them who have the ability to get married, their marriage should be arranged. It is purported to mean here that if they show their need and desire to get married, then according to some jurists it is binding on the owners to marry them off. But the majority of jurists have ruled that in such a situation it is incumbent upon the masters not to place any hindrance in their marriage and allow them to get married, because the marriage of slaves and slave girls cannot be performed without the permission of their owners. Thus, this injunction is similar in nature with another verse of the Holy Qur&an فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ that is ` It is incumbent upon the guardians of women not to stop the women under their charge from marriage&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has also said on the subject that ` If someone of that kind comes to you with the proposal and you like his morals, then surely may him off. If you do not do it then great mischief will be created on earth&. (Tirmidhi) The gist of this all is that the owners are instructed here not to make any delay in granting permission of marriage to their subjects, notwithstanding that arrangement of their marriage may not be their responsibility. (Allah knows best) إِن يَكُونُوا فُقَرَ‌اءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ If they are poor, Allah will enrich them out of His grace - 24:32. There is a good news in this verse for such poor Muslims who want to marry for the security of their religious obligation, but they have no means. If they marry with the good intention for the security of their religion and to follow the sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، Allah Ta’ ala will grant them sufficient means. There is also an advice in the verse to those who might reject the proposal of marriage from poor people on the basis of their current condition. Wealth is something which does not always stay. The important thing is merit of a person. If they possess merit then their proposal for marriage should not be turned down. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that Allah Ta’ ala has persuaded all Muslims for marriage in this verse, for which He has included every one, either free or slave, and has promised to enrich ti em if they marry. (Ibn Kathir). And Ibn Abi Hatim has reported that Sayyidna Abu Bakr (رض) while addressing the Muslims said that ` You follow the injunction of Allah Ta’ ala for marriage, and He will fulfill His promise for granting the riches&. Then he recited this verseإِن يَكُونُوا فُقَرَ‌اءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ (32) Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) has said ` If you want to be rich, then get married, because Allah Ta’ ala has said إِن يَكُونُوا فُقَرَ‌اءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ (Ibn Kathir)   Show more

خلاصہ تفسیر (احرار میں سے) جو بےنکاح ہوں (خواہ مرد ہوں یا عورتیں) اور بےنکاح ہونا بھی عام ہے خواہ ابھی تک نکاح ہوا ہی نہ ہو یا ہونے کے بعد بیوی کی موت یا طلاق کے سبب بےنکاح رہ گئے) تم ان کا نکاح کردیا کرو اور (اسی طرح) تمہارے غلام اور لونڈیوں میں جو اس (نکاح) کے لائق ہوں (یعنی حقوق نکاح ادا کرسکتے...  ہوں) ان کا بھی (نکاح کردیا کرو محض اپنی مصلحت سے ان کی خواہش نکاح کی مصلحت کو فوت نہ کیا کرو اور احرار کے نکاح پیغام دینے والے کے فقر و افلاس پر نظر کر کے انکار نہ کردیا کرو جبکہ اس میں کسب معاش کی صلاحیت موجود ہو کیونکہ) اگر وہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ (اگر چاہے گا) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا (خلاصہ یہ ہے کہ نہ تو مالدار نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے انکار کرو اور نہ یہ خیال کرو کہ نکاح ہوگیا تو خرچ بڑھ جائے گا جو موجودہ حالت میں غنی و مالدار ہے وہ بھی نکاح کرنے سے محتاج و مفلس ہوجائے گا کیونکہ رزق کا مدار اصل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے وہ کسی مالدار کو بغیر نکاح کے بھی فقیر و محتاج کرسکتا ہے اور کسی غریب نکاح والے کو نکاح کے باوجود فقر و افلاس سے نکال سکتا ہے) اور اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے (جس کو چاہے مالدار کر دے اور سب کا حال) خوب جاننے والا ہے (جس کو غنی کرنا مقتضائے حکمت و مصلحت ہوگا اس کو غنی کردیا جاوے گا اور جس کے محتاج و فقیر رہنے ہی میں اس کی مصلحت ہے اس کو فقیر رکھا جائے گا) اور (اگر کسی کو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے نکاح کا سامان میسر نہ ہو تو) ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کا مقدور نہیں ان کو چاہئے کہ (اپنے نفس کو) قابو میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اگر چاہے تو) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے (اس وقت نکاح کرلیں۔ ) معارف و مسائل بعض احکام نکاح : پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق عفت و عصمت کی حفاظت اور فواحش و بےحیائی کی روک تھام سے ہے۔ اس سلسلہ میں زنا اور اس کے متعلقات کی شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا پھر استیذان کا، پھر عورتوں کے پردے کا۔ شریعت اسلام چونکہ ایک معتدل شریعت ہے اس کے احکام سب ہی اعتدال پر اور انسان کے فطری جذبات و خواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے نکلنے کی ممانعت کے اصول پر دائر ہیں۔ اس لئے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی کے ساتھ روکا گیا تو ضرروی تھا کہ فطری جذبات و خواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح طریقہ بھی بتلایا جائے۔ اس کے علاوہ بقاء نسل کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد و عورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے۔ اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔ آیت مذکورہ میں اس کے متعلق حرہ عورتوں کے اولیاء اور کنیزوں غلاموں کے آقاؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کا نکاح کردیا کریں۔ وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ الایة اَيَامٰى، ایم کی جمع ہے جو ہر اس مرد عورت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو۔ خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو یا زوجین میں سے کسی ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہو۔ ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لئے ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں۔ آیت مذکورہ کے طرز خطاب سے اتنی بات تو باتفاق ائمہ فقہاء ثابت ہے کہ نکاح کا مسنون اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ خود اپنا نکاح کرنے کے لئے کوئی مرد یا عورت بلا واسطہ اقدام کے بجائے اپنے اولیاء کے واسطے سے یہ کام انجام دے۔ اس میں دین و دنیا کے بہت سے مصالح اور فوائد ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے معاملہ میں کہ لڑکیاں اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کریں، یہ ایک قسم کی بےحیائی بھی ہے اور اس میں فواحش کے راستے کھل جانے کا خطرہ بھی۔ اسی لئے بعض روایات حدیث میں عورتوں کو خود اپنا نکاح بلا واسطہ ولی کرنے سے روکا بھی گیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ حکم ایک خاص سنت اور شرعی ہدایت کی حیثیت میں ہے اگر کوئی بالغ لڑکی اپنا نکاح بغیر اجازت ولی کے اپنے کفو میں کرے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اگرچہ خلاف سنت کرنے کی وجہ سے وہ موجب ملامت ہوگی جبکہ اس نے کسی مجبوری سے اس پر اقدام نہ کیا ہو۔ امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس کا نکاح ہی باطل کالعدم ہوگا جب تک ولی کے واسطہ سے نہ ہو۔ یہ جگہ اختلافی مسائل کی مکمل تحقیق اور دونوں فقہاء کے دلائل بیان کرنے کی نہیں لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ مذکورہ آیت سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہئے باقی یہ صورت کہ کوئی بلا واسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا یہ آیت قرآن اس سے ساکت ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ اَيَامٰى میں بالغان مرد و عورت دونوں داخل ہیں اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلا واسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہوجاتا ہے اس کو کوئی باطل نہیں کہتا۔ اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح اور منعقد ہوجائے۔ ہاں خلاف سنت کام کرنے پر ملامت دونوں کی کی جائے گی۔ نکاح واجب ہے یا سنت یا مختلف حالات میں حکم مختلف ہے : اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ حدود شریعت پر قائم نہیں رہ سکے گا گناہ میں مبتلا ہوجائے گا اور نکاح کرنے پر اس کی قدرت بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے جب تک نکاح نہ کرے گا گنہگار رہے گا۔ ہاں اگر نکاح کے وسائل موجود نہیں کہ کوئی مناسب عورت میسر نہیں یا اس کے لئے مہر معجل وغیرہ کی حد تک ضروری خرچ اس کے پاس نہیں تو اس کا حکم اگلی آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کی کوشش کرتا رہے اور جب تک وہ میسر نہ ہوں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور صبر کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل روزے رکھے۔ اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا ہے۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عکاف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا تمہاری زوجہ ہے انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر پوچھا کوئی شرعی لونڈی ہے کہا کہ نہیں پھر آپ نے دریافت کیا کہ تم صاحب وسعت ہو یا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ صاحب وسعت ہوں۔ مراد یہ تھی کہ کیا تم نکاح کے لئے ضروری نفقات کا انتظام کرسکتے ہو جس کے جواب میں انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور فرمایا کہ ہماری سنت نکاح کرنا ہے۔ تم میں بدترین آدمی وہ ہیں جو بےنکاح ہوں اور تہمارے مردوں میں سب سے رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مر گئے۔ (مظہری) اس روایت کو بھی جمہور فقہاء نے اسی حالت پر محمول فرمایا ہے جبکہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو۔ عکاف کا حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور تبتُّل یعنی بےنکاح رہنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا (مظہری) اسی طرح کی اور بھی روایات حدیث ہیں۔ ان سب کا محمل جمہور فقہاء کے نزدیک وہی صورت ہے کہ نکاح نہ کرنے میں ابتلاء معصیت کا خطرہ غالب ہو۔ اسی طرح اس پر بھی تقریباً سبھی فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں اس پر ظلم کا مرتکب ہوگا یا اس کے لئے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے۔ اب اس شخص کا حکم باقی رہا جو حالت اعتدال میں ہے کہ نہ تو ترک نکاح سے گناہ کا خطرہ قوی ہے اور نہ نکاح کی صورت میں کسی گناہ کا اندیشہ غالب ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں کہ اس کو نکاح کرنا افضل ہے یا ترک نکاح کر کے نفلی عبادات میں مشغول ہونا افضل ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نفلی عبادات میں لگنے سے افضل نکاح کرنا ہے اور امام شافعی کے نزدیک اشتغال عبادت افضل ہے۔ وجہ اس اختلاف کی اصل میں یہ ہے کہ نکاح اپنی ذات کے اعتبار سے تو ایک مباح ہے جیسے کھانا پینا سونا وغیرہ ضروریات زندگی سب مباح ہیں اس میں عبادت کا پہلو اس نیت سے آجاتا ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچا سکے گا اور اولاد صالح پیدا ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ایسی نیک نیت سے جو مباح کام بھی انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے بالواسطہ عبادت بن جاتی ہے کھانا پینا اور سونا بھی اسی نیت سے عبادت ہوجاتا ہے اور اشتغال بالعبادت اپنی ذات میں عبادت ہے اس لئے امام شافعی عبادت کے لئے خلوت گزینی کو نکاح سے افضل قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح میں عبادت کا پہلو بہ نسبت دوسرے مباحات کے غالب ہے احادیث صحیحہ میں اس کو سنت المرسلین اور اپنی سنت قرار دے کر تاکیدات بکثرت آئی ہیں۔ ان روایات حدیث کے مجموعہ سے اتنا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نکاح عام مباحات کی طرح مباح نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے جس کی تاکیدات بھی حدیث میں آئی ہیں صرف نیت کی وجہ سے عبادت کی حیثیت اس میں نہیں بلکہ سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے بھی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو کھانا پینا سونا بھی سنت انبیاء ہے کہ سب نے ایسا کیا ہے مگر جواب واضح ہے کہ ان چیزوں پر سب انبیاء کا علم ہونے کے باوجود یہ کسی نے نہیں کہا نہ کسی حدیث میں آیا کہ کھانا پینا اور سونا سنت انبیاء ہے بلکہ اس کو عام انسانی عادت کے تابع انبیاء کا عمل قرار دیا ہے بخلاف نکاح کے اس کو صراحة سنت المرسلین اور اپنی سنت فرمایا ہے۔ تفسیر مظہری میں اس موقع پر ایک معتدل بات یہ کہی ہے کہ جو شخص حالت اعتدال میں ہو کہ نہ غلبہ شہوت سے مجبور و مغلوب ہو اور نہ نکاح کرنے سے کسی گناہ میں پڑنے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ یہ شخص اگر یہ محسوس کرے کہ نکاح کرنے کے باوجود نکاح اور اہل و عیال کی مشغولیت میرے لئے کثرت ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ سے مانع نہیں ہوگی تو اس کے لئے نکاح افضل ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء امت کا عام حال یہی تھا، اور اگر اس کا اندازہ یہ ہے کہ نکاح اور اہل و عیال کے مشاغل اس کو دینی ترقی، کثرت ذکر وغیرہ سے روک دیں گے تو بحالت اعتدال اس کے لئے عبادت کے لئے خلوت گزینی اور ترک نکاح افضل ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس کی تطبیق پر شاہد ہیں ان میں ایک یہ ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اس میں یہی ہدایت ہے کہ انسان کے مال و اولاد اس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے کا سبب نہ بننے چاہئیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ، یعنی اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کرا دیا کرو۔ یہ خطاب ان کے آقاؤں اور مالکوں کو ہے اس جگہ صالحین کا لفظ اپنے لغوی معنے میں آیا ہے یعنی ان میں جو شخص نکاح کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہو اس کا نکاح کرا دینے کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے مراد اس صالحیت سے وہی ہے کہ بیوی کے حقوق زوجیت اور نفقہ و مہر معجل ادا کرنے کے قابل ہوں اور اگر صالحین کو معروف یعنی نیک لوگوں کے معنے میں لیا جائے تو پھر ان کی تخصیص بالذکر اس وجہ سے ہوگی کہ نکاح کا اصل مقصد حرام سے بچنے کا وہ صالحین ہی میں ہوسکتا ہے۔ بہرحال اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صلاحیت نکاح کی رکھنے والے ہوں ان کے نکاح کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ اپنی نکاح کی ضرورت ظاہر کریں اور خواہش کریں کہ ان کا نکاح کردیا جائے تو آقاؤں پر بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہوگا کہ ان کے نکاح کردیں اور جمہور فقہاء کے نزدیک ان پر لازم ہے کہ ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالیں بلکہ اجازت دیدیں کیونکہ مملوک غلاموں اور کنیزوں کا نکاح بغیر مالکوں کی اجازت کے نہیں ہوسکتا تو یہ حکم ایسا ہی ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ یعنی عورتوں کے اولیاء پر لازم ہے کہ اپنی زیر ولایت عورتوں کو نکاح سے نہ روکیں اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص منگنی لے کر آوے اور اخلاق آپ کو پسند ہوں تو ضرور نکاح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور وسیع پیمانے کا فساد پیدا ہوجائے گا۔ (رواہ الترمذی) خلاصہ یہ ہے کہ یہ حکم آقاؤں کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اجازت نکاح دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ خود نکاح کرانا ان کے ذمہ واجب ہو یہ ضروری نہیں۔ واللہ اعلم اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اس میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لئے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے دین کی حفاظت اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ منگنی لے کر جائیں کہ وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اس میں آزاد اور غلام سب کو داخل فرمایا ہے اور نکاح کرنے پر ان سے غنا کا وعدہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ غناء عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی۔ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم غنی ہونا چاہتے ہو تو نکاح کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ (رواہ ابن جریرو ذکر البغوی عن عمر نحواہ۔ کثیر) تنبیہ : تفسیر مظہری میں ہے کہ مگر یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جبکہ نکاح کرنے والے کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ہو اس کی دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ۝ ٠ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِہِمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٣٢ نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أ... سماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ أيم الأَيَامَى: جمع أَيِّم، وهي المرأة التي لا بعل لها، وقد قيل للرجل الذي لا زوج له، وذلک علی طریق التشبيه بالمرأة فيمن لا غناء عنه لا علی التحقیق . والمصدر : الأَيْمَة، وقد آمَ الرجل وآمَتِ المرأة، وتَأَيَّمَ وتَأَيَّمَتْ ، وامرأة أَيِّمَة ورجل أَيِّم، والحرب مَأْيَمَة، أي : يفرق بين الزوج والزوجة، والأَيِّم : الحيّة . ( ا ی م ) الایامیٰ ۔ یہ الایم کی جمع ہے اور آم الرجل وتایم کے معنی ہیں مرد رنڈا ہوگیا اور عورت کے بیوہ ہونے کے لئے آمت المبرءۃ وتایمت کہا جاتا ہے ۔ امرءۃ ایمۃ ۔ بیو عورت رجل ایم ۔ رنڈوا مرد الحرب مایمۃ جنگ مرد کو عورت سے الگ کردیتی ہے الایم ۔ سانپ ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ عبد ( غلام) والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» «1» ، وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى «2» ، وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ قسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : 354- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نکاح کی ترغیب کا بیان قول باری ہے : (وانکحوا الایامی منکم والصالحین من عبادکم واما ئکم اور تم میں سے جو مجردہوں اور تمہاری لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو) تاآخر آیت ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ایجاب کا مقتضی ہے۔ تاہم سلف اور فقہائے امصار کے اجماع کی دلالت اس بات پر قائم ہوچ... کی ہے کہ یہاں ایجاب مراد نہیں ہے بلکہ استحیاب مراد ہے۔ اگر یہ بات واجب ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف سے اس کے متعلق روایات بہت وسیع پیمانے پر استفاضہ کی صورت میں منقول ہوتیں۔ کیونکہ عمومی طور پر اس کی ضرورت تھی۔ لیکن جب ہمحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے اور آپ کے بعد کے زمانوں میں بہت سے مردوں اور عورتوں کو نکاح کے بغیر پاتے ہیں اور ترک نکاح پر کسی نکیر کی مثال بھی نہیں ملتی تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آیت میں ایجاب مراد نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک ثیبہ عورت بےنکاحی ہو تو اس کے ولی کو اسے نکاح پر مجبور کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ نیز اس کی اجازت کے بغیر اس کے نکاح کا بھی اسے اختیار نہیں ہوتا۔ آیت میں نکاح کرانے کا حکم استحباب پر محمول ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ آقا کو اپنی لونڈی اور غلام کے نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ حکم ایامی یعنی مجرد مردوں اور عورتوں کے حکم پر معطوف ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مجرد مردوں عورتوں نیز لونڈیوں، غلاموں کے نکاح کے بارے میں آیت کا حکم استحباب پر محمول ہے۔ تاہم ایسے عقد نکاح کے انعقاد پر آیت کی دلالت واضح ہے جو اس نکاح کا اختیار رکھنے والے کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ آیت میں نکاح کرانے کا حکم صرف ولی اور سرپرست کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کو ان مجردد عورتوں اور مردوں کے نکاح کرانے کی ترغیب دی گئی ہے جنہیں نکاح کی ضرورت ہو۔ اس لئے اگر عقد نکاح کے طرفین یعنی مرد اور عورت کے حکم سے اس کا انعقاد ہوا ہو تو یہ نافذ العمل ہوجائے گا۔ اگر طرفین کا تعلق ایسے افراد سے ہو جن کے لئے دوسرے لوگ عقد نکاح کر اسکتے ہوں خواہ وہ ان کے ولی بھی نہ ہوں اور نہ ہی ان کی طرف سے انہیں عقد نکاح کا حکم دیا گیا ہو مثلاً بچہ اور دیوانہ وغیرہ تو ان کا یہ عقد اس شخص کی اجازت پر موقوف ہوگا جسے اس عقد کا اختیار ہوگا آیت ایسے شخص کی اجازت پر نکاح کے جواز کی مقتضی ہے۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اوپر بیان کردہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح کا معاملہ اولیاء یعنی سرپرستوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے عورتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ نیز اگر عورتیں اپنے لئے عقد نکاح کریں تو ان کا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ آیت نے نکاح کرانے کے حکم کو اولیاء کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے بلکہ اس حکم میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ آیت کا عموم تمام لوگوں کو مجرد مردوں عورتوں کے نکاح کرانے ک ی ترغیب کا مقتضی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایامیٰ کا لفظ مجردد مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔ مجرد مردوں کے نکاح کرانے کی ترغیب میں صرف اولیاء مراد نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہیں اس لئے مجرد عورتوں کے بارے میں بھی ایٓت کا مفہوم یہی ہوگا۔ ترغیب نکاح کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نکاح کی ترغیب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ ابن عجلان نے المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاثۃ حق علی اللہ عونھم المجاھد فی سبیل اللہ والمکاتب الذی یریدالاداء والتاکع الذی یرید العفاف۔ تین افراد ایسے ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہیں ۔ ایک تو وہ جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔ دوسرے وہ مکاتب جو اپنی کتابت کی رقم اتارنا چاہتا ہے اور تیسرے وہ شخص جو نکاح کے ذریعے گناہ سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے) ابراہیم نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ہمیں مخاطب کرکے فرمایا تھا : یا معشرالشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطع نعلیہ الصوم فانہ لہ وجاء ) اے گروہ جواناں ! تم میں سے جو شخص نکاح کرسکتا ہو وہ نکاح کرلے، اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کردیتے ہیں۔ نیز آپ نے فرمایا (اذا جاء کم من ترضون دینہ وخلقہ فروجوہ الا تفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر ) جو تمہارے پاس ایسا شخص پیغام نکاح لے کر آئے جس کا دین اور اخلاق تمہاری نظروں میں پسندیدہ ہو تو اسے رشتہ دے دو ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اس سے زمین میں بڑا فتنہ اور زبردست فساد پھیلے گا۔ شداد بن اوس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” میرا نکاح کرادو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں کنوارا بن کر اللہ کے سامنے نو جائوں۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قائع نے روایت بیان کی ہے، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں خلاد نے سفیان سے، انہوں نے عبدالرحمن بن زیاد سے انہوں نے عبدالہل بن مزید سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (الدنیا متاع وخیر متاعھا المراۃ الصالحۃ) دنیا تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، نیک بیوی دنیا کی بہترین متاع ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، انہیں بشر نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں سفیان نے ابراہیم بن میسرہ سے، انہوں نے عبید بن سعید سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (من احب فطرتی فلیستن ومن سنتی النکاح) جس شخص کو میری فطرت سے محبت ہو اسے چاہیے کہ میری سنت پر عمل کرے اور نکاح کرنا میری سنت میں داخل ہے۔ نکاح کرنے والے پر عمر (رض) کا فتویٰ ابراہیم بن میسرہ نے کہا کہ میں تم سے نہ ہی کہتا ہوں جو حضرت عمر (رض) نے ابوالزوائد سے کہا تھا کہ ” تمہیں نکاح کرنے سے دو باتوں میں سے ایک بات روک رہی ہے یا تو تمہارے اندر طاقت نہیں ہے یا تم فسق وفجور میں مبتلا ہو۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : (وانکحوالایامی منکم) کا عموم اس بات کا مقتضی ہے کہ باپ اپنی بالغ باکرہ بیٹی کا نکاح کرادے۔ اگر اس بات پر دلالت موجود نہ ہوتی کہ باپ اپنی بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کراسکتا ہے تو آیت کے عموم کی روشنی میں اپنی بالغ لڑکی کا نکاح کرادیتا اس کے لئے جائز ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات واضح ہے کہ قول باری (وانکحوا الایامی منکم) عورتوں کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ اس میں مرد بھی شامل ہیں کیونکہ مرد کو ایم اور عورت کو ایمہ کہا جاتا ہے۔ ایم اس مرد کے لئے اسم ہے جس کی بیوی نہ ہو اور ایمہ اس عورت کے لئے اسم ہے جس کا شوہر نہ ہو ۔ شاعر کا قول ہے۔ فان تنکحی انکح وان تتایمی وان کنت افتی منکم اتایم اگر تو نکاح کرے گا تو میں بھی نکاح کروں گا اور اگر تو بےنکاحی رہے گی تو میں بھی نکاح کے بغیر ہوں گا اگرچہ میں تم تمام لوگوں سے بڑھ کر جوان ہوں۔ ایک اور شاعر کا قول ہے۔ ذرینی علم ایم منکم وناکح تو مجھے اپنے کسی بن بیا ہے یا بیا ہے مرد کے مقابلہ میں چھوڑ کر تو دیکھ ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آیت (وانکحوا الایامی منکم) کے نزول کے بعد جو شخص نکاح کے بغیر بیٹھا رہے مجھے اس جیسا درماندہ انسان کوئی نظر نہیں آتا، نکاح کے اندر مالداری تلاش کرو۔ “ جب ایم کا اسم مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے اور مردوں کے سلسلے میں ان کی اجازت سے انہیں نکاح کرانے کی بات آیت میں پوشیدہ ہے تو پھر عورتوں کے سلسلے میں اسی ضمیر یعنی پوشیدہ بات پر عمل کرنا واجب ہے۔ کنواری عورت کے نکاح کے لئے رائے معلوم کی جائے نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہے کہ کنواری عورت سے نکاح کے معاملے میں اس کی رائے معلوم کی جائے چناچہ آپ نے فرمایا : البکر تستامر فی نفسھا واذنھا صما تھا۔ کنواری عورت سے اس کی ذات یعنی نکاح کے متعلق اس کی رائے معلوم کی جائے گی، اس کی خاموشی اس کی طرف سے اجازت کی علامت ہے۔ یہ قول اگرچہ خبر کی صورت میں ہے لیکن معنوی طور پر یہ امر ہے اور امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے اس لئے باکرہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرادینا جائز نہیں ہوگا۔ نیز محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا تنکح الیتمۃ الا یاذنھا فان سکت فھواذنھا وان ابت فلا جواز علیھا) یتیمہ سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کیا جائے گا اگر وہ خاموش رہے تو اس کی رضامندی کی علامت ہے اور اگر انکار کردے تو اس پر جبر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ نے یتیمہ سے کنواری عورت مراد لی ہے کیونکہ کنواری عورت ہی کی خاموشی اس کی رضامندی کی علامت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے جس میں ایک کنواری عورت کا ذکر ہے جس کے باپ نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرادیا تھا۔ یہ جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے لڑکی سے فرمایا (اجیزی ماصنع ابوک ) تمہارے باپ نے جو کیا ہے اسے برقرار رہنے ک یاجازت دے دو ۔ ہم اس مسئلے پر پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں۔ غلام اور لونڈی کے نکاح کی اجازت آقا دے گا قول باری ہے (والصالحین من عبادکم واماء کم) بس یہ دلالت موجود ہے کہ آقا کو اپنے غلام اور لونڈی کا ان کی اجازت کے بغیر نکاح کرا دینے کا اختیار حاصل ہے نیز اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غلام اور لونڈی کو آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینے کی اجازت نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا وہ زانی قرار پائے گا :“ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ غلام اور لونڈی نکاح کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ ان کا یہ اختیار ان کے آقا کو حاصل ہو جس طرح دوسرے تمام عقود کی کیفیت ہے کہ غلام اور لونڈی اپنی جانب سے ان عقود کا اختیار نہیں رکھتے لیکن ان کی جانب سے آقا کو ان کا اختیار ہوتا ہے۔ قول باری ہے : (ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ من فضلہ ) اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ یہ خبر کی صورت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر کو لامحالہ اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے گا۔ اس لئے اس خبر کا تعلق یا تو بعض افراد کے ساتھ خاص تسلیم کیا جائے گا کیونکہ ہماری نظروں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نکاح کرلیتے ہیں لیکن ان میں خوشحالی اور دولتمندی نہیں آتی یا پھر اس سے عفاف اور پاکدامنی کی بنا پر حاصل ہونے والا استغناء مراد لیا جائے گا۔ اگر اس سے خاص افراد مراد ہیں تو پھر یہ خبر ان مجرد اور آزاد لوگوں کے متعلق ہوگی جنہیں ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس ملکیت کی بنا پر وہ غنی بن جاتے ہیں۔ اگر اسے عام تسلیم کیا جائے تو اس خبر کے معنی یہ ہوں گے کہ ملک بضع یعنی عورت سے جائز جنسی لطف اندوزی کا سلسلہ قائم ہونے کی صورت میں ممنوع اور حرام جنسی سرگرمی سے انسان مستغنی ہوجاتا ہے اور یہ یاس کی دولتمندی ہے اس لئے آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ غلام اپنے نکاح کا مالک ہوتا ہے ۔ ہم نے سورة نحل میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) اور تمہاری لڑکیوں اور بہنوں میں سے یا کہ تمہارے بیٹوں اور بھائیوں میں سے جو غیر شادی شدہ ہوں ان کی تم شادی کردیا کرو اور اسی طرح تمہارے غلام اور باندیوں میں جو نکاح کے لائق ہوں ان کا بھی نکاح کردیا کرو اور اگر وہ آزاد آدمی مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ تعالی... ٰ آزاد و غلام کو روزی میں بہت وسعت والا اور ان کی روزی کو جاننے والا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ ) ” یہ بہت اہم حکم ہے۔ خصوصی طور پر ہمارے اس معاشرے کے لیے اس میں بہت بڑی راہنمائی ہے جہاں ہندوانہ رسم و رواج کے اثرات کے باعث بیوہ کا نکاح کرنا معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ خوشی سے کوئی شخص بھی نکاح نہیں کرنا چاہتا ۔ (وَالصّٰلِحِیْنَ م... ِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآءِکُمْ ط) ” تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو سمجھ دار ہوں اور ان کے کردار کے بارے میں بھی تمہیں اعتماد ہو ان کے آپس میں نکاح کردیا کرو۔ غلاموں اور کنیزوں کے نکاح ان کے آقاؤں کی اجازت سے ہوں گے اور جب کسی کنیز کا نکاح ہوجائے گا تو پھر اس کے آقا کو اس کے ساتھ تمتعّ کی اجازت نہیں ہوگی۔ (اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط) ” چنانچہ یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان میں مہر وغیرہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں تو نکاح کیونکر کریں ! (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ” وہ بہت کشادگی والا ہے اور اپنے بندوں کے احوال واقعی سے بخوبی واقف بھی ہے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ کوئی انسان اپنی تنگ دستی کو اپنے نکاح کے راستے کی رکاوٹ نہ سمجھے۔ اسے امید رکھنی چاہیے کہ اس کی بیوی اپنی قسمت اور اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آئے گی اور یہ کہ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اس کے لیے رزق کا کوئی نیا دروازہ کھول دے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. The word ayama is the plural of ayyim which means a single person, and is applicable to every man who is without a wife and to every woman who is without a husband. 51. That is, those who show the right attitude in their dealings with you and in whom you find the capability of discharging the responsibilities of married life. The owner whose slave does not show the right attitude nor seems to...  possess the necessary capability and temper to lead a reasonably happy married life, has not been required to arrange his or her marriage. For in that case he would become the cause of ruining another person’s life. This condition, however, has not been imposed on free persons because in their case the people who promote marriages are no more than mere advisers, associates and introducers. The actual marriage depends on the mutual willingness of the bride and the bridegroom. In the case of a slave, however, the entire responsibility lies on the owner, and if he makes the mistake of marrying a poor person with an ill-natured, ill-mannered spouse, the responsibility for the consequences will be entirely his. 52. The imperative mood of the verb “Marry: Arrange marriages....the righteous”, has led some scholars to assume that it is obligatory to arrange such marriages; whereas the nature of the problem indicates that it cannot be so. Obviously it cannot be obligatory for somebody to arrange the marriage of the other person. Marriage is not a onesided affair; it needs another party also. If it were obligatory, what would be the position of the person who is going to be married? Should he willingly accept to be married wherever others arrange it? If so, it would mean that he or she had absolutely no choice in the matter. And if the one has a right to refuse, how are the others going to discharge their responsibility? Taking all these aspects into account the majority of the jurists have held that the commandment is not obligatory but recommendatory. The intention is that the Muslims should ensure that none in the society should remain unmarried. The people of the house, friends and neighbors, all should take necessary interest in the matter, and where no such help is available, the state should make necessary arrangements. 53. This does not mean that Allah will certainly bestow wealth on anybody who marries. The intention is to discourage a calculative approach. This instruction is both for the parents of the girl and of the boy. The former should not reject a pious and virtuous suitor merely because he happens to be poor. Similarly the boy's parents should not go on postponing his marriage because he is not yet a full earning member or is not yet earning sufficiently. Young men have been advised not to go on postponing their marriage unnecessarily waiting for better times even if the income is not yet sufficient, one should marry with full faith in Allah. Very often the marriage itself becomes the cause of improving strained circumstances. The wife helps to control the family budget, or the husband starts to exert himself more to meet the new challenges and responsibilities. The wife can also earn to supplement the family budget. Then, who knows what the future holds in store for him. Good times can change into bad times and bad into good. One should therefore refrain from being too calculative in this regard.  Show more

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :50 اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں ۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی ، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو ، اور ہ... ر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :51 یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو ، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے ۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا ، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے ، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی ، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری درحقیقت ایک مشیر ، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے ۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے ۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :52 بظاہر یہاں صیغۂ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے ۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہ یہ حکم وجوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں ۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے ، یعنی اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پر یہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے نہ بیٹھے رہیں ۔ خاندان والے ، دوست ، ہمسائے سب اس معاملے میں دلچسپی لیں ، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :53 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں ۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں ۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے ۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں ۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے ۔ بسااوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں ۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے ۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے ۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا ۔ اچھے حالات برے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور برے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: اس سورت میں جہاں بے حیائی اور بدکاری کو روکنے کے لیے مختلف احکام دئیے گئے ہیں، وہاں انسان کی فطرت میں جو جنسی خواہش موجود ہے، اس کو حلال طریقے سے پورا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، چنانچہ اس آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو بالغ مرد و عورت نکاح کے قابل ہوں، تمام متعلقین کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ا... ن کا نکاح ہوجائے، اور یہ اندیشہ نہ کرنا چاہئے کہ اگرچہ اس وقت تو وسعت موجود ہے، لیکن نکاح کے نتیجے میں بیوی بچوں کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے کہیں مفلسی نہ ہوجائے، بلکہ جب اس وقت نکاح کی وسعت موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر نکاح کرلینا چاہئے۔ پاک دامنی کی نیت سے نکاح کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ آئندہ اخراجات کا بھی مناسب انتظام فرما دے گا۔ البتہ اگلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے پاس اس وقت بھی نکاح کی وسعت نہیں ہے۔ ان کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان میں وسعت پیدا کرے، اس وقت تک وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:32) الایامی۔ بغیر بیوی والے مرد۔ بغیر شوہر والی عورتیں اس کا واحد ایم ہے یعنی بےنکاحوں کا نکاح کرو۔ امائکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہاری لونڈیاں۔ اماء امۃ کی جمع ہے اس کا عطف عبادکم پر ہے۔ الصلحین۔ یہاں صالحین سے مراد نیک اور مومن غلام وکنیزیں بھی ہوسکتا ہے اور ایسے غلام اور لونڈیاں جو خانہ داری کا ب... وجھ اٹھانے اور ازدواجی ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یکونوا۔ فعل مضارع مجزوم بوجہ عمل ان۔ جمع مذکر غائب۔ اس میں تمام بغیر بیوی کے مرد بغیر خاوند کی عورتیں۔ صالحین غلام ولونڈیاں آئیں ۔ یعنی فقرہ غربت ان کے نکاح میں حائل نہ ہو کیونکہ فقرو غنا مشیت ایزدی پر منحصر ہے نکاح اس کا باعث نہیں۔ یغنہم۔ مضارع واحد مذکر غائب (جس کا مرجع اللہ ہے) ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اللہ ان کو (اپنے فضل سے) غنی کر دے گا۔ واسع اسم فاعل واحد مذکر ۔ سعۃ مصدر۔ وسیع فضل والا۔ وسیع بخشش والا۔ ھو یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر حسبما تقتضیہ الحکمۃ والمصلحۃ وہی کشائش رزق عطا کرتا ہے جس کو چاہے اور کم کرتا ہے جس کے لئے چاہے جیسا جیسا اس کی حکمت اور مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ اسی طرح جو مرد بےبیوی کے ہوں ان کا بھی نکاح پڑھا دو “ ایامی “ جمع ہے ایم کی اور ایم کا لفظ اس مرد پر بولا جاتا ہے جس کی کوئی بیوی نہ ہو اور عورت پر بھی جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ (شوکانی) 5 ۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نوجوانو ! تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہے اسے ک... ر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رھنے والی اور شرمگاہ کو بدی سے بچانے والی چیز ہے اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ شہوت کے جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ (بخاری، مسلم)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 32 تا 34 : انکحوا (نکاح کردو) ‘ الایامی (ایم) بےنکاح مرد یا عورت ‘ عباد (عبد) غلام ‘ امائ (امۃ) لونڈیاں۔ غلام عورتیں ‘ یستعفف (وہ بچتا ہے) ‘ اتو (تم دو ) ‘ لاتکرھوا (تم زبردستی نہ کرو) ‘ فتیت (جوان۔ (جوان لونڈیاں) ‘ البغاء (بدکاری) تحصنا (پاکدامنی) ‘ مثلا (کچھ حالات واقعات) ‘... ۔ تشریح : آیت نمبر 32 تا 34 : قرآن کریم اور متعدد و احادیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر شخص نکاح کے ذریعہ اپنا گھر بسا کر صحیح راستہ اختیار کرے جو نسل انسانی کی بقا کا سبب بن سکے۔ بےنکاحی کی زندگی گذارنا ایک غلط طریقہ زندگی ہے جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ پورے اسلامی معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے درمیان ایسے لوگوں کو نکاح پر آمادہ کریں جو اس قابل ہیں کہ زندگی کی ذمہ داریوں کو اٹھا سکتے ہیں۔ غربت و افلاس کا بہانہ بنا کر وہ اس فرض زندگی سے فرار کے راستے تلاش نہ کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زندگی کی اس اہم تبدیلی سے اللہ دونوں میاں بیوی کے حالات کو اس درجہ تبدیل فرمادیں کہ فقرو فاقہ کی جگہ خوش حالی نصیب ہوجائے۔ اس حکم میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے ابھی تک نکاح نہیں کیا اور وہ بھی شامل ہیں جو شوہر کی وفات کی وجہ سے بےنکاحی کی زندگی گذاررہی ہیں۔ اس مضمون کی وضاحت درج ذیل احادیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نکاح کرو ‘ بےنکاحی کی زندگی گارنا سخت منع ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ جس کے پاس (بقدر ضرورت) مال ہو اور وہ نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایسی عورتوں سے نکاح کرو جن میں کثیر النسل ہونے کی قابلیت و صلاحیت ہو۔ نسل بڑھائو کیونکہ میں تمہاری کثرت سے گذشۃ امتوں پر فخر کروں گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے علی ! تین کاموں میں کبھی دیر نہ کرو (1) فرض نماز ‘ جب اس کا وقت ہوجائے (2) جنازہ ‘ جب بھی موجود ہو (3) بیوہ عورت جس کا ہم کفو (ہم پلہ) مل جائے۔ ایک اور جگہ نوجوانوں کے گروہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے جس میں نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح سے حرام نظر کی بندش و رکاوٹ اور نہایت احسن طریقہ پر شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے وہ شخص جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو وہ نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کردو ورنہ زمین پر بڑا فتنہ و فساد ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے تین آدمی ایسے ہیں جن کی مدد اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں (1) وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لئے نکاح کرتا ہے (2) دوسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتا ہے (3) تیسرے وہ مکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے۔ (ابن کثیر۔ ابو دائود۔ ترمذی) مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے آقا سے یہ معاہدہ کرلیا ہے کہ جب وہ آقا کی طرف سے مقرر کی ہوئی رقم ادا کر دے گا یا آقا کی طرف سے متعین خدمت سرانجام دے لے گا تو وہ آزاد ہوجائے گا اسی معاہدہ کی لکھت پڑھت کو مکاتبت کہا جاتا ہے ۔ عرب میں لونڈی اور غلاموں کو مال تجارت اور مال کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ انسان ہیں نہوہ ان سے انسانوں جیسا معاملہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنی لونڈیوں کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اور کسی بھی طریقے سے مال کما کر لائیں جس سے وہ غلام عورتیں جن کو لونڈی کہا جاتا ہے پیشہ تک کرنے پر مجبور وہ جای کرتی تھیں۔ رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی کے پاس چند لونڈیاں تھیں جن سے وہ پیشہ کراتا تھا اور ان کی کمائی پر گذارا کرتا تھا۔ جن میں سے ایک لونڈی کو اللہ نے ہدایت نصیب فرمادی اور اس نے اسلام قبول کرلیا تو عبد اللہ ابن ابی نے اس پر ناقابل تصور تشدد کرنا شروع کردیا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ایک رقم دے کر اس کو خرید کر آزاد کردیا۔ یہ اور اس طرح کے بیشمار واقعات تھے جن میں یہ مظلوم عورتیں زندگی گذار رہی تھیں لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو ایسے طریقے عطا فرمائے کہ جس سے کسی کی نجی ملکیت بھی متاثر نہیں ہوئی اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں غلام اور باندیاں آزاد ہوتی چلی گئیں۔ روایات کے مطابق خلافت راشدہ کے اختتام تک تقریباً غلاموں اور باندیوں کا رواج دم توڑ چکا تھا۔ دین اسلام نے غلاموں اور باندیوں کو انسانوں کا اعلیٰ درجہ دے کر ان کے انسانی حقوق متعین فرمادیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مظلوم غلاموں اور باندیوں کی آزادی کو عبادت کا درجہ عطا فرمایا اور ہر زکوۃ ادا کرنے والے کی یہ ذمہ داری لگادی کہ وہ اور مصارف زکوۃ کے ساتھ ” گردنیں چھڑانے “ یعنی غلاموں ‘ باندیوں کا آزاد کرانے میں زکوۃ اور صدقات کی رقموں کو خرچ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (1) غلاموں اور باندیوں کو انسانی درجہ اور مقام عطا کیا۔ ان کے حقوق متعین فرمائے۔ (2) اگر کوئی محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو غلامی کی لعنت سے چھڑانا چاہتا ہے اور اپنے مالک سے کوئی معاہدہ کرلیتا ہے تو اسلامی معاشرہ کی یہ دمہ داری ہے کہ زکوۃ ‘ صدقات اور عطیات کے ذریعہ اس مکاتب غلام کی آزادی کی فکر کی جائے تاکہ وہ بھی آزاد ہو کر زندگی کی دوڑ میں شریک ہوجائے۔ البتہ غلاموں کے مالکوں کی یہ ذمہ داری بھی لگائی گئی ہے کہ وہ یہ دیکھ لیں کہ اگر اس غلام کی آزادی سے اسلامی معاشرہ کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سوچ سمجھ کر قدم بڑھایا جائے ورنہ عام حالات میں غلاموں کے مالکوں کو مہربانی اور ہمدردی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر ایک پاک دامن باندی اپنی پاکیزگی اور پاک دامنی کے لئے فکر مند ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ تو انتہائی شرمناک بات ہے کہ ایک لڑکی پاک دامن رہنا چاہتی ہے اور مالک اس کو بدکاری اور حرام کمائی پر مجبور کرتا رہے۔ بدکاری کی کسی حال میں اجازت نہیں ہے لیکن وہ لڑکی جو پاک دامن رہنا چاہتی ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی ہے اس میں معاشرہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ ایسی لڑکیوں کی آبرو کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرے۔ (4) ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ نکاح پر قدرت نہیں رکھتے وہ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیں اور مناسب وقت کا انتظار کریں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ کثرت سے روزے رکھا کریں تاکہ ان کے شہوانی جذبوں کو سکون مل سکے۔ آخر میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے کھلی کھلی اور واضح آیات اور گذشتہ قوموں کے واقعات کو بیان کیا ہے تاکہ ہر مومن اور متقی ان احکامات اور گذرے ہوئے واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرسکے ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ پس نہ عدم غنا کو مانع نکاح سمجھیں اور نہ نکاح کا مانع غنا، اس کا دارومدار مشیت پر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نظر اور شرمگاہ کو بچانے کے لیے نکاح کرنے کا حکم۔ اس سورة کی آیت ٢٦ میں یہ ارشاد ہوا کہ پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لیے اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لیے ہیں یعنی انہیں ایک دوسرے سے نکاح کرنا چاہیے اب کھلے الفاظ میں حکم دیا ہے کہ جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں انہیں اپنے میں سے یع... نی مسلمانوں سے نکاح کرنا چاہیے اور جو تم میں نیک غلام اور لونڈیاں ہیں ان کے بھی ایک دوسرے کے ساتھ نکاح ہونے چاہئیں اگر وہ غریب ہوں تو انہیں نکاح کرنے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور ہر کام اور بات کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب میں لوگ تارک الدنیا ہونے کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ جس طرح آج بھی ہندوؤں کے گرو اور پروہت، عیسائیوں کے پوپ، پادری شادی کروانے کو دنیاداری تصور کرتے ہیں۔ اسلام نے جسمانی عذر کے بغیر شادی نہ کرنے کو گناہ قرار دیا ہے ہندو، عیسائی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کا عقیدہ ہے کہ شادی نہ کرنے والا دوسروں سے نیک ہوتا ہے لیکن اسلام کا تصور یہ ہے کہ شادی کرنے سے انسان کی آنکھوں میں حیا اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نکاح کرنا میری سنت ہے اور جو میری سنت سے انحراف کرے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ (ابن ماجۃ : باب ماجاء فی فضل النکاح) جہاں تک غربت کا معاملہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ تسلّی دی ہے کہ تم غربت سے ڈرنے کی بجائے اپنے رب کا حکم سمجھ کر نکاح کرو۔ جب تم اس کا حکم سمجھ کر نکاح کروگے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا نتیجہ ہے کہ آج تک کوئی شخص ایسا نہیں ہوا۔ جو شادی کرنے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ غریب ہوا ہو۔ بشرطیکہ وہ محنت مزدوری کو عارنہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کی روزی میں پہلے کی نسبت وسعت کردیتا ہے آدمی کے جتنے بھی بچے ہوں اللہ تعالیٰ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے کیونکہ وہ کشادگی کا مالک اور سب کو روزی فراہم کرنے والا ہے اسی بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ جو بھی ذی روح زمین پر چلنے پھرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ انسان کی مستقل قیام گاہ اور اس کے عارضی پڑاؤ سے پوری طرح واقف ہے اس نے ہر کسی کی روزی اور اس کے حالات کو لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے ( ھود : ٦) ” ایامی ایم “ کی جمع ہے جو ہر اس مرد اور عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کنوارہ ہو یا کسی وجہ سے رنڈوا ہو۔ جہاں تک رنڈوے مرد اور عورت کے نکاح کا تعلق ہے اس کے لیے یہ حکم نہیں کہ وہ دوسرا نکاح کرے اگر وہ اپنی اولاد یا کسی دوسری وجہ سے دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ اپنی طبیعت پر ضبط رکھنے والا ہو۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَامْرَأَۃٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ کَہَاتَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَوْمَأَ یَزِید بالْوُسْطَی وَالسَّبَّابَۃِ امْرَأَۃٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِہَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ حَبَسَتْ نَفْسَہَا عَلَی یَتَامَاہَا حَتَّی بَانُوا أَوْ مَاتُوا) [ رواہ ابوداود : باب فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامَی ] ” حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور سیاہ رخساروں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔ آپ نے سبابہ اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔ ایسی عورت بھی جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو باوجود اس کے وہ حسب و نسب اور شکل و صورت والی ہو لیکن پھر بھی اپنے شوہر کے یتیم ہونے والے بچوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیتی ہے حتیٰ کہ بچے گھر بار والے ہوجائیں یا فوت ہوجائیں۔ “ (سیاہ رخساروں والی سے مراد وہ عورت ہے جو محنت، مزدوری اور باورچی خانے کا کام کرنے کی وجہ سے اپنا بناؤ سنگھار نہیں کرسکتی جس وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت سیاہی میل ہوگئی ہے۔ ) مسائل ١۔ جو لوگ نکاح کرنے کے قابل ہوں انہیں نکاح کرنا چاہیے۔ ٢۔ نیک غلاموں اور لونڈیوں کے بھی نکاح کرنے چاہئیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ غریبوں کو غنی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور اچھا رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمہیں اور انھیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(وانکحوا الایامی۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم ولیستعفف الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم ) ( ) ” جنسی میلان کی تسکین کا بہترین طریقہ شادی ہے۔ اس گہری خواہش کے اندر فطرت اور قدرت کا یہی راز ہے کہ لوگ نسل انسانی کے تسلسل کے مشکل کام کو خوشی خوشی سرانجام دیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم شادی کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں...  دور کردیں تاکہ زندگی فطری انداز کے مطابق سادگی سے چلتی رہے۔ کسی خاندان کی تشکیل کے لیے پہلی رکاوٹ مالی رکاوٹ ہے اس طرح لوگ محفوظ اور قلعہ بند نہیں ہو سکتے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اس لیے وہ عفت اور پاکیزگی کو تب ہی لازم کرتا ہے جب اس کے لیے اسباب بھی فراہم کر دے اور سوسائٹی کے تمام افراد کو فراہم کردے تاکہ جو لوگ معتدل اور فطری راستے سے انحراف کرتے ہیں وہ اس کے لیے مجبور نہ ہوں بلکہ ان کے سامنے جنسی تسکین کا صحیح راستہ موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایسے نوجوانوں کے لیے شادی کی راہ ہموار کی جائے جو شادی شدہ نہ ہوں۔ (وانکحوا۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم) (٢٤ : ٣٢) ” تم میں سے جو لوگ مجروہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ‘ ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ‘ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ اور ایامیٰ وہ لوگ ہیں جن کا جوڑ نہ ہو یعنی عورت کا خاوند نہ ہو اور مرد کی بیوی نہ ہوائو وہ مجروہوں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو آزاد ہیں۔ اس کے بعد غلاموں کا ذکر خصوصیت سے کردیا گیا ہے۔ (والصلحین۔۔۔۔۔۔ وامآ ئکم) (٢٤ : ٣٢) ” اور تمہارے لونڈی اور غلاموں میں سے جو صالح ہوں “۔ لیکن یہ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ (٢٤ : ٣٢) ” یہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا “۔ یہ حکم اسلامی سوسائٹی کے لیے ہے کہ وہ شادی کا انتظام کردے اور جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب امر ہے۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایسے مجرد لوگ تھے جنہوں نے شادی نہ کی تھی۔ اگر یہ حکم فرض ہوتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور ان کی شادی کا انتظام فرماتے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ حکم واجبی ہے ‘ اس معنی میں نہیں کہ کسی مجرد کو شادی پر مجبور کیا جائے بلکہ اس معنی میں کہ اسلامی سوسائٹی کے لیے واجب ہے کہ جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس معاملے میں اعانت کی جائے تاکہ وہ شادی کے قلبعے میں محفوظ ہو سکیں۔ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا ہونے سے یہ عملی بچائو ہے اور صرف اس صورت میں معاشرے کو بعدعملیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر معاشرے کو بد عملی سے بچانا فرض ہے تو اس فرض کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی فرض ہوگا۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسلام چونکہ ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہے اس لیے وہ ایک ایسا اقتصادی نظام زندگی وضع کرتا ہے کہ اس میں ہر شخص کے لیے معاشی جدوجہد کرنے کے مساوی مواقع موجود ہوں تاکہ کسی شخص کو اپنی ضرورت کے لیے بیت المال کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ بعض استثنائی حالات میں بیت المال کو بھی امداد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں بیناید اصول تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کسب سے کھائے۔ سوسائٹی پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب کے لیے کام کے مواقع فراہم کرے۔ رہی یہ بات کہ لوگوں کو بیت المال سے امدادی جائے تو یہ محض استثنائی صورتوں میں ہوتا ہے۔ اگر لوگ اسلامی نظام کے مطابق سعی کرتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اور پھر بھی ایسے حالات آجائیں کہ اسلامی معاشرے میں محض معاشی مجبوری کی وجہ سے مجرد نوجوان ‘ مرد اور عورتیں پائی جاتی ہوں تو پھر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو مالی امداد دے۔ یہی حکم غلام مردوں اور لونڈیوں کا بھی ہے کہ ان کے مالکان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی شادی کا انتظام کریں اگر وہ ایسا کرسکتے ہوں۔ اسلامی سوسائٹی کا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھے کہ اگر لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں ‘ مرد ہوں یا عورتیں ہوں لیکن ان کی راہ میں غربت رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو سوسائٹی ان رکاوٹوں کو دور کرے کیونکہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ ان کو غنی کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ مفت کا طریقہ اختیار کریں۔ (ان یکونوا۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (٢٤ : ٣٢) ” اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ پر ان کا حق ہے کہ اللہ ان کی مدد کرے۔ مجاہد فی سبیل اللہ کی اللہ مدد کرتا ہے۔ وہ غلام جو اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے مالی ادائیگی کا معاہدہ کرتا ہے اور وہ شادی کرنے والا جو اپنے آپ کو بری راہوں سے بچانے والا ہو “۔ (ترمذی و نسائی) اور جب تک مجرد لوگوں کے حالات درست نہیں ہوتے اور اسلامی سوسائٹی ان کے لیے کوئی انتظام نہیں کرتی ‘ اللہ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ عفت اور پاکیزگی کا دامن تھامے رکھیں۔ (ولیستعفف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (٢٤ : ٣٣) ” اور جو لوگ نکاح کا موقعہ نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے “۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص پر تنگی نہیں کرتا ‘ کیونکہ اللہ تو وسیع علم رکھتا ہے۔ واللہ واسع علیم ” اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ یوں اسلام اس مسئلے کا نہایت ہی عملی حل تلاش کرتا ہے۔ ہر شخص جو شادی کرسکتا ہے اس کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ شادی کرے۔ اگر چہ وہ مالی لحاظ سے کمزور ہو کیونکہ مالی مسئلہ حل کرنے والا اللہ ہے “۔ اس وقت اسلامی نظام میں مجبوراً غلامی کا ادارہ موجود تھا اور غلاموں کے اندر چونکہ اخلاقی قدریں کمزور ہوتی ہیں اس لیے اسلامی معاشرے کے اندر موجود غلام معاشرے کے اندر اعلیٰ اخلاقی معیار کے قیام میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ غلامی کا ادارہ اسلام نے ابتداء میں اس لیے قائم رکھا ہوا تھا کہ اہل کفر کے ہاں غلام موجود تھے اور جو مسلمان ان کے ہاتھ آجاتے تھے وہ بھی غلام بنا لیے جاتے تھے ۔ موجودہ پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے جنسی مسئلہ کو حل کرنے کی سعی کی یعنی یہ کہ غلاموں کی شادیاں کی جائیں۔ خود غلامی کو اپنے طور پر ختم کرنے کے لیے مکاتبت کا طریقہ نکالا یوں کہ اگر کوئی غلام مالی معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے تو مالک پر اسے قبول کرنا لازم ہے۔ (والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیرا) (٢٤ : ٣٣) ” اور تمہارے مملوکوں میں سے ہر مکاتبت کی درخواست کریں ‘ ان سے مکاتبت کرلو ‘ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے “۔ اس کے بارے میں فقہاء کی آزاء مختلف ہیں کہ آیا یہ واجب ہے یا نہیں۔ یعنی اگر غلام پیشکش کرے تو مکاتبت کرنا لازم ہے یا مالک کے اختیار میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واجب ہے کیونکہ وجوب کا قول ہی اسلام کی مجموعی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسلام انسان کو ایک مکرم مخلوق سمجھتا ہے اور غلام کا وجود شرافت انسانی کے خلاف ہے۔ معاہدہ کرنے کے بعد غلام جو کمائے گا وہ مالک کا ہوگا تاکہ معاوضہ معاہدہ کی رقم کی ادائیگی ہو سکے اور اسی طرح زکوۃ کی مد سے بھی ایسے غلام کی امداد ضروری ہوجاتی ہے تاکہ جلد از جلد یہ غلام آزادی حاصل کرسکے۔ (واتو۔۔۔۔۔ اتکم) (٢٤ : ٣٣) ” اور اس کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے “۔ اس شرط پر کہ مالک یہ سمجھے کہ اس میں بھلائی ہے۔ خیر سب سے پہلے اسلام ہے۔ اس کے بعد خیر یہ ہے کہ غلام کمان ی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ آزادی کے بعد وہ لوگوں سے بھیگ مانگتا پھرے۔ بعض اوقات وہ اخلاق سے گرے ہوئے ذرائع معیشت بھی اختیار کرسکتا ہے جن سے وہ صرف اس قدر کما سکتا ہو جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل اور ہم آہنگ نظام ہے اس لیے وہ حقیقی صورت حال کو بھی پیش نظر رکھتا ہے اس کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ یہ شعور ہوجائے کہ ایک غلام آزاد ہوگیا۔ محض عنوان اور نام اسلام میں اہمیت نہیں رکھتا۔ اسلام حقیقت ۔۔۔۔۔۔ کو دیکھتا ہے کہ آیا فی الواقع یہ غلام آزادی کے بعد معاشرے کے اندر کوئی تعمیری کردار ادا کرسکے گا یا نہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ شخص کچھ کما سکے ۔ لوگوں پر بوجھ نہ بن جائے اور نہ گندے وسائل رزق اختیار کرے۔ وہ ایسی چیزیں فروخت کرنا شروع کردے جو آزادی سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ (مثلاً عصمت فروشی) جبکہ اسے آزاد اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس سے معاشرہ پاک ہو نہ یہ کہ اس کے ذریعہ معاشرہ گندہ ہو اور اس کا یہ فعل معاشرے کے لیے زیادہ سخت مصیبت ہو۔ (دور جدید میں بین الاقوامی معاہدات کی وجہ سے چونکہ غلامی ختم ہوگئی ہے اس لیے اب عملاً اسلام میں بھی غلامی نہیں رہے گی) ۔ اسلامی معاشرے میں غلامی سے بھی خطرناک بیماری اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ غلاموں کو عصمت فروشی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اہل جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جس کی کوئی لونڈی ہوتی وہ اسے یہ پیشہ کرنے دیتا اور اس پر ٹیکس عائد کردیتا اور یہ پیشہ آج تک دنیا میں ذرائع ہے۔ اسلام نے چونکہ اسلامی سوسائٹی کو ہر قسم کے زنا سے پاک کرنے کا حکم دیا ھتا اس لیے ‘ اس قسم کے زنا کا ذکر قرآن نے خصوصیت کے ساتھ کیا۔ (ولا تکرھوا۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم) (٢٤ : ٣٣) ” اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں۔ اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے “۔ اس آیت کے ذریعے ان لوگوں کو منع کردیا گیا جو اپنی لونڈیوں کو اس پیشہ پر مجبور کرتے تھے اور ان کو تنبیہ کردی گئی کہ وہ اس قسم کے خبیث ذریعوں سے دنیا کی دولت جمع نہ کریں۔ جن لونڈیوں کو اس طرح مجبور کردیا گیا ہو ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے کیونکہ اس صورت میں وہ مجبور تھیں۔ سعدی کہتے ہیں کہ یہ آیت عبد اللہ ابن ابی ابن السلول کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ منافقین کا رئیس تھا۔ اس کی ایک لونڈی تھی جس کا نام ” معاذہ “ تھا۔ اس کا قاعدہ یہ تھا کہ اس کا کوئی مہمان آتا تو یہ اس لونڈی کو اس کے پاس بھیج دیتا ‘ جس میں اس کے دو مطلب ہوتے۔ ایک یہ کہ وہ شخص کوئی انعام دے اور دوسرا یہ کہ اس طرح وہ مہمان کا اکرام کرتا تھا۔ یہ لونڈی حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئی اور اس نے اس بات کی شکایت کی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس لونڈی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس پر عبد اللہ ابن ابی ابن السلول نے اپنی قوم کو پکارا کہ کون ہے جو ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھڑائے۔ اب اس نے ہماری مملوکات پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ اقدام کہ لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے اسلامی نظام کے ان اقدامات میں سے ایک ہے ‘ جن کے ذریعے اسلامی عاشرے کو بدکاری سے پاک کیا گیا تھا اور جنسی تسکین کے تمام غیر فطری اور گندے راستوں کو بند کردیا گیا تھا اس لیے کہ بدکاری کا پیشہ اگر موجود ہو تو کئی لوگ اس کی سوہلت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوگا تو لوگ پھر شادی کر کے پاک زندگی گزارنا چاہیں گے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس پیشے کی موجودگی شرفاء کے گھروں میں امن وامان کی ضمانت ہے۔ کیونکہ اگر نکاح مشکل ہوجائے تو پھر انسان اس گندے راہ ہی سے اپنی فطری ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ اگر یہ راستہ جائز نہ رکھا جائے تو پھر بھیڑیئے شریف لوگوں کی عزت سے کھیلنے لگیں گے۔ جو لوگ اس لائن پر سوچتے ہیں وہ دراصل سبب اور مسبب کے تعلق کو الٹ رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ لوگوں کے جنسی میلانات کو پاک رکھا جائے اور انہیں اس طرح منظم کیا جائے کہ وہ سلسلہ حیات کے تسلسل کا سبب بنیں۔ یہ فریضہ ہر سوسائٹی اکہو کہ وہ اپنے اندر ایسا معاشی نظام جاری کرے جس کے ذریعہ سے ہر شخص اس قابل ہو کہ وہ شادی کے بندھن میں باندھا جاسکے۔ اگر پھر بھی کسی کے لیے نکاح میں مشکلات ہوں تو ایسے واقعات کا خصوصی علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کوئی بھی اس گندے پیشے پر مجبور نہ ہوگا اور صورت حال یہ نہ ہوگی کہ ہر جگہ گندگی پائی جائے ‘ گلی گندگی کا ایک ڈھیر ہو اور اس پر سے جو کوئی گزرے وہاں گندگی ڈال دے اور سوسائٹی اسے دیکھ رہی ہو۔ کسی ملک کا اقتصادی نظام ہی ایسی گندگیوں کو ختم کرسکتا ہے اس طرح کہ ایسی گندگی کسی جگہ جمع نہ وہ۔ یہ صورت نہ ہو کہ محض اقتصادی وجوہات سے اس گندگی کے لیے جواز فراہم ہو۔ انسانوں کے لیے غلاظت کے ڈھیر فراہم ہوں۔ یہ ہے وہ پالیسی جو اسلام معاشرے کی تطہیر کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی معاشرے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ زیمن آسمان میں بدل جاتی ہے اور تمام انسانوں کی نظر بلند مقاصد کے لیے بلند افق پر ہوتی ے۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں اور اس سے ان کے آفاق روشن ہوتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نکاح کی ضرورت اور عفت و عصمت محفوظ رکھنے کی اہمیت ان آیات میں ان لوگوں کا نکاح کردینے کا حکم فرمایا ہے جو بانکاح نہ ہوں جس کی دونوں صورتیں ہیں ایک یہ کہ اب تک نکاح ہوا ہی نہ ہو، دوسری یہ کہ نکاح ہو کر چھوٹ چھڑاؤ ہوگیا ہو یا میاں بیوی میں سے کسی کی وفات ہوگئی ہو۔ آیت شریفہ میں جو لفظ ایامی وارد ہوا ... ہے یہ ایّم کی جمع ہے۔ عربی میں ایّم اس مرد کو کہتے ہیں جس کا جوڑا نہ ہو، چونکہ نکاح ہوجانے سے مرد اور عورت کے نفسانی ابھار کا انتظام ہوجاتا ہے اور نکاح پاکدامن رہنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اس لیے شریعت اسلامیہ میں اپنا نکاح کرنے اور دوسروں کا نکاح کرا دینے کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ نکاح ہوجانے سے نفس و نظر پاک رہتے ہیں گناہ کی طرف دھیان چلا بھی جائے تو اپنے پاس نفس کی خواہش پورا کرنے کے لیے انتظام ہوتا ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نے نکاح کرلیا تو آدھے دین کو کامل کرلیا لہٰذا وہ باقی آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٢٦٨) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے جوانو ! تم میں سے جسے نکاح کرنے کا مقدور ہو وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح نظروں کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو پاک رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور جسے نکاح کرنے کا مقدور نہ ہو وہ روزے رکھے۔ کیونکہ روزے رکھنے سے اس کی شہوت دب جائے گی۔ (رواہ البخاری ص ٧٠٨ ج ٢) مستقل طور پر قوت مردانہ زائل کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ نسل بڑھانا مقصود ہے اور مسلمان کی جو اولاد ہوتی ہے وہ عموماً مسلمان ہی ہوتی ہے اور اس طرح سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بڑھتی ہے آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جس سے دل لگے اور جس سے اولاد زیادہ ہو کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کرونگا۔ (رواہ ابو داؤد ص ٢٨٠ ج ١) اگر مردانہ قوت زائل نہ کی جائے پھر کبھی نکاح کا مقدور ہوجائے تو اس میں اولاد سے محروم نہ ہوگا۔ حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خصی ہونے کی اجازت دیجیے آپ نے فرمایا لَیْسَ مِنَّا مَنْ خصٰی وَ لاَ اِخْتَصٰی اِنَّ خِصَاءَ اُمَّتِیْ اَلصِّیَامُ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٢٩ از شرح السنہ) یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی بنے، بیشک میری امت کا خصی ہونا یہ ہے کہ روزے رکھے جائیں۔ عام حالات میں نکاح کرنا سنت ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اختیار فرمایا تھا (١) شرم کرنا (٢) عطر لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا (رواہ الترمذی وھو اول حدیث من ابواب النکاح فی کتابہ) فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی کو شہوت کا غلبہ ہو اور اسے غالب گمان ہو کہ حدود شریعت پر قائم نہ رہ سکے گا نفس و نظر کو محفوظ نہ رکھ سکے گا اور اس کے پاس نکاح کرنے کے وسائل بھی موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اگر شہوت کا غلبہ ہے اور نکاح کے وسائل نہیں یا کوئی عورت اس سے نکاح کرنے پر راضی نہیں تو گناہ میں مبتلا ہونا پھر بھی حلال نہیں شہوت دبانے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے رکھنے کا نسخہ بتایا ہے اس پر عمل کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ توفیق دے دے تو نکاح کرلیں۔ چونکہ عام طور پر اپنے نکاح کی کوشش خود نہیں کی جاتی اور خاص کر عورتیں اور ان میں بھی کنواری لڑکیاں اپنے نکاح کی خود بات چلانے سے شرماتی ہیں اور یہ شرم ان کے لیے بہترین ہے جو ایمان کے تقاضوں کی وجہ سے ہے اس لیے اولیاء کو لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کرنے کے لیے متفکر رہنا لازم ہے اسی طرح بڑی عمر کے بےشادی شدہ مردوں اور عورتوں کے نکاح کے لیے فکر مند رہنا چاہئے۔ آیت شریفہ میں جو (وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی) فرمایا ہے آج کل لوگوں نے نکاح کو ایک مصیبت بنا رکھا ہے دیندار جوڑا نہیں ڈھونڈتے اور اور دنیا داری اور ریا کاری کے دھندے پیچھے لگا رکھے ہیں جن کی وجہ سے بڑی بڑی عمروں کے مرد اور عورت بےنکاح کے بیٹھے رہتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکیاں بےشرم ہو کر خود سے اپنا جوڑ ڈھونڈ لیتی ہیں اور کو رٹ میں جا کر قانونی نکاح کرلیتی ہیں اب ماں باپ چونکتے ہیں کہ ہائے ہائے یہ کیا ہوا۔ اور بعض مرتبہ یہ نکاح شرعا درست نہیں ہوتا اولاد کے نکاحوں کے سلسلے میں لوگوں کی بےدھیانی اور بےراہی کی وجہ سے بڑے برے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام لائے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو تم اس سے نکاح کر دو اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ ہوگا اور (لمبا) چوڑا فساد ہوگا۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے (١) اس کے مال کی وجہ سے (٢) اس کے مرتبہ کی وجہ سے (٣) اس کی خوبصورتی کی وجہ سے (٤) اس کے دین کی وجہ سے، سو تو دین والی عورت سے نکاح کر کے کامیاب ہوجا اللہ تجھے سمجھ دے۔ (رواہ البخاری) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا ہے کہ مرد یا عورت دونوں کے لیے دیندار اور حسن اخلاق سے متصف جوڑا تلاش کیا جائے۔ آج کل دینداری کی بجائے دوسری چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے خرچوں کے انتظام میں دیر لگنے کی وجہ سے لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں ریا کاری کے جذبات سادہ شادی نہیں کرنے دیتے۔ ہیں تو سید صاحب لیکن اپنی ماں فاطمہ (رض) کے مطابق بیٹا بیٹی کے نکاح کرنے کو عار سمجھتے ہیں اگر کوئی توجہ دلاتا ہے تو کہتے ہیں یہ آج کل کا دور ہی ایسا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس دور کو لانے والا کون ہے خود ہی ریا کاری کا رواج ڈالا اور اب کہہ رہے ہیں کہ بڑے بڑے اخراجات نہ ہوں تو لڑکی کا نکاح کیسے کریں اور کس سے کریں ؟ مسلمانو ! ایسی باتیں چھوڑو، سادگی میں آجاؤ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ برکت کے اعتبار سے سب سے بڑا نکاح وہ ہے جس میں خرچہ کم سے کم ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٦٨) غیر شادی شدہ آزاد مردوں اور عورتوں کے نکاح کا حکم دینے کے بعد فرمایا (وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَاءِکُمْ ) یعنی اپنے غلاموں میں سے ان غلاموں اور باندیوں کا نکاح کردیا کرو جو صالح ہوں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ صالحین سے وہ غلام اور باندیاں مراد ہیں جن میں نکاح کی صلاحیت ہو اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے صالح کے معروف معنی یعنی نیک ہونا مراد ہے، جو معنی بھی مراد لیا جائے غلام اور باندی کے آقا کے لیے مستحب ہے کہ ان میں صلاح اور صلاحیت دیکھے تو نکاح کر دے۔ قال فی روح المعانی والامرھنا قیل للوجوب و الیہ ذھب اھل الظاھر و قیل للندب والیہ ذھب الجمھور غلاموں اور باندیوں کے نکاحوں اور ان سے پیدا شدہ اولاد کے مسائل کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ آزاد مرد اور عورت اور مملوک مرد اور عورت کے نکاح کا حکم دینے کے بعد فرمایا (اِِنْ یَکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ) (اگر یہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ انہیں اپنی فضل سے غنی فرما دے گا) (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (اور اللہ وسعت والا ہے جاننے والا ہے) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کرنے والے کی مالی امداد فرمائے گا۔ اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تنگدستی کی وجہ سے نکاح کرنے سے باز نہ رہیں اگر کوئی مناسب عورت مل جائے تو نکاح کرلیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے کرلیا ہے۔ (١) وہ مکاتب جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے (عنقریب ہی مکاتب کا معنی معلوم ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ) (٢) وہ نکاح کرنے والا جو پاکدامن رہنے کی نیت سے نکاح کرے۔ (٣) وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے (رواہ النسائی کتاب النکاح) پھر فرمایا (وَلْیَسْتَعْفِفْ الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ) کہ جو لوگ نکاح پر قدرت نہ رکھتے ہوں ان کے پاس مال و اسباب نہیں گھر در نہیں تو وہ اس کو عذر بنا کر اپنی عفت اور عصمت کو داغدار نہ کرلیں۔ نظر اور شرمگاہ کی حفاظت کا اہتمام کریں یوں نہ سمجھ لیں کہ جب میں نکاح نہیں کرسکتا تو نفس کے ابھار و خواہشات کو زنا کے ذریعہ پورا کرلوں۔ زنا بہر حال حرام ہے اس کے حلال ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کا انتظار کریں۔ جب مقدور ہوجائے تو نکاح کریں اور صبر سے کام لیں اور نفس کے جذبات کو دبانے کی تدبیر حدیث شریف میں گزر چکی ہے کہ روزے رکھا کریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 33:۔ ” وانکحوا الایامی الخ ” یہ چوتھا قانون ہے اس کا تعلق بھی صلاح و عفاف اور تطہیر معاشرہ سے ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے اور ایم غیر شادی شدہ مرد و عورت کو کہتے ہیں یا وہ مرد و زن جن کا رفیق زندگی فوت ہوچکا ہو الایم قال نضر بن شمیل کل ذکر لا انثی معہ و کل انثی لا ذکر معھا بکرا کان او ثیبا۔ وفی شرح کت... اب سیبویہ لابی بکر الخفاف الایم التی لا زوج لھا واصلہھی التی کانت متزوجۃ ففقدت زوجھا برزء طرا علیھا الخ (روح ج 8 ص 147) ۔ یعنی جس عورت و مرد کا ابھی تک نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ یا رنڈوا ہوگیا ہے تو موقع مناسب دیکھ کر ان کا نکاح کردو۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کا نکاح بھی کردو کیونکہ نکاح ہوجانے سے ان میں زنا کا داعیہ کمزور ہوجائیگا اور نکاح نہ کرنے میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ ” الصالحین “ سے یا تو شرعی معنی مراد ہے یعنی نیک اور پرہیزگار ہوں یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ وہ حقوق زوجیت صحیح طور سے ادا کریں اور زوجین اور ان کی اولاد کا دین محفوظ رہے لیحصن دینھم ویحفظ علیھم صلاحہم (کبیر ج 6 ص 385) ۔ یا صلاح سے اس کا لغوی معنی صلاحیت مراد ہے یعنی اگر غلاموں اور لونڈیوں میں نکاح کی صلاحیت ہو۔ وہ بالغ ہوں اور حقوق زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وقیل المراد بالصلاح معنا واللغوی ای الصالحین للنکاح والقیام بحقوقہ (روح ج 8 ص 14) ۔ 34:۔ ” ان یکونوا الخ “ غربت اور افلاس کی وجہ سے ان کے نکاح میں تاخیر نہ کرو کیونکہ فقر و غنا اللہ کے قبضے میں ہے اگر اللہ کو منظور ہوگا تو وہ ان کے افلاس کو غنا سے بدل دے گا۔ ” واللہ واسع علیم “ اس کے خزانے غیر محدود ہیں جو ختم نہیں ہوسکتے اور وہ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت جسے چاہتا ہے فقیر یا غنی کردیتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اور تم میں سے جو مرد وعورت بےنکاح کے ہوں ان کے نکاح کردیا کرو اور تمہارے غلام اور باندیوں میں سے جو نکاح کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہوں اور نکاح کے لائق ہوں ان کا بھی نکاح کردیا کرو اگر وہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی کشائش والا بڑا فیاض اور سب...  کی حالت جاننے والا ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں آزاد مرد و عورت کے لئے حکم دیا کہ ان کے نکاح کردو۔ نکاح کے مختلف احوال ہیں بعض حالات میں مستحب یا سنت اور بعض حالات میں واجب ہے پھر اپنے غلام اور باندیوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نکاح کے بعد ان کے مغرور ہوجانے اور تمہاری خدمت میں کوتاہی کرنے کا اندیشہ نہ ہو تو ان کو نکاح کی اجازت دو اور ان کا نکاح کردو اور آزاد لوگوں کو اگر یہ اندیشہ ہو کہ ہمارا کام کیوں کر چلے گا بیوی آجائے گی تو ہم مفلسی میں اس کی خدمت کیونکر کریں گے تو وہ اگر مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد ایسے اسباب پید کردے گا جن سے یہ لوگ غنی ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو ان کو اپنے فضل اور مہربانی سے غنی کردے گا کیونکہ اللہ تعلالیٰ معاش کی کشائش کرنے والا اور غریب و امیر سب کی حالت جاننے والا ہے۔ حدیث شریف میں ہے تین شخص ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ پر ایک حق ہے پہلا وہ نکاح کرنے والا جو زنا سے بچنے کے لئے نکاح کرنے کا ارادہ کرتا ہے دوسرے وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہے تیسرے اللہ کی راہ میں جہاد اور غزوہ کرنے والا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے علی (رض) ! تین کام میں دیر نہ کر۔ (1) نماز فرض کا جب وقت آئے۔ (2) جنازہ جب موجود ہو۔ (3) رانڈ عورت کو جب مرد ملے اس کی ذات کا جو کوئی دوسرا خاوند کرنے کو عیب دے اس کا ایمان سلامت نہیں اور جو نیک ہوں لونڈی غلام یعنی بیاہ دینے سے مغرور نہ ہوجاویں تمہارا کام نہ چھوڑیں۔ 12  Show more