Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 45

سورة النور

وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی بَطۡنِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی رِجۡلَیۡنِ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰۤی اَرۡبَعٍ ؕ یَخۡلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۴۵﴾

Allah has created every [living] creature from water. And of them are those that move on their bellies, and of them are those that walk on two legs, and of them are those that walk on four. Allah creates what He wills. Indeed, Allah is over all things competent.

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالٰی ہی نے پانی سے پیدا کیا ہے ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں ، بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Power in His creation of the Animals Allah tells: وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِن مَّاء ... Allah has created every moving creature from water. Allah mentions His complete and almighty power to create all the different kinds of animals with their various forms, colors and ways of moving and stopping, from one kind of water. ... فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ ... Of them there are some that creep on their bellies, like snakes and so on; ... وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ ... and some that walk on two legs, like humans and birds; ... وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ ... and some that walk on four, like cattle and all kinds of animals. Allah says: ... يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاء ... Allah creates what He wills. meaning by His power, because what He wills happens and what He does not will does not happen. So he says: ... إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ Verily, Allah is able to do all things.

ایک ہی پانی اور مختلف اجناس کی پیدائش اللہ تعالیٰ اپنی کامل قدرت اور زبردست سلطنت کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی مخلوق پیدا کر دی ہے ۔ سانپ وغیرہ کو دیکھو جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں ۔ انسان اور پرند کو دیکھو ان کے دوپاؤں ہوتے ہیں ۔ حیوانوں اور چوپاوں کو دیکھو وہ چار پاؤں پر چلتے ہیں ، وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوسکتا ، وہ قادر کل ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451جس طرح سانپ، مچھلی اور دیگر حشرات الارض کیڑے مکوڑے ہیں۔ 452جیسے انسان اور پرند ہیں 453جیسے تمام چوپائے اور دیگر حیوانات ہیں۔ 454یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو چار سے بھی زیادہ پاؤں رکھتے ہیں، جیسے کیکڑا، مکڑی اور بہت سے زمینی کیڑے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] سورة ہود کی آیت نمبر ٧ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی تھا && (١١: ٧) اسی آیت کے مطابق درج ذیل حدیث کا مضمون ہے : عمران بن حصین کہتے ہیں کہ یمن کے کچھ لوگ آپ کے پاس عالم کی پیدائش کا حال پوچھنے آئے۔ آپ نے فرمایا : (پہلے صرف) اللہ کی ذات تھی اور اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی۔ اس کا پانی عرش پر تھا۔ اس نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ لیا اور آسمان اور زمین پیدا کئے && (بخاری۔ کتاب بدوالخلق۔ باب ھوالذی یبدالخلق۔۔ ) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مخلوقات میں سے سب سے پہلے اللہ نے پانی کو پیدا کیا تھا۔ اور عرش کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں نہ ہم یہ جاننے کے مکلف ہیں۔ پھر سورة انبیاء کی آیت نمبر ٣٠ میں فرمایا : (وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ 30؀) 21 ۔ الأنبیاء :30) (٢١: ٣٠) یعنی جس چیز میں بھی زندگی کی رمق ہے اسے ہم نے پانی سے بنایا ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کوئی جاندار چیز پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اور اس آیت میں جانداروں کا ذکر فرمایا کہ وہ پانی سے پیدا ہوئے ہیں۔ خواہ وہ کس نوعیت کے ہوں۔ کیڑے مکوڑے ہوں، پیٹ کے بل چلنے یا رینگنے والے ہوں، جیسے سانپ، گرگٹ اور مچھلی وغیرہ یا دو پاؤں پر چلنے والے ہوں۔ جیسے انسان اور پرندے یا چار پاؤں پر جیسے جیسے تمام مویشی اور درندے وغیرہ۔ پھر کچھ ایسی بھی مخلوق ہے جس کے پاؤں چار سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسے کنکھجورا وغیرہ۔ تو ایسی سب مخلوق کی ابتداء پانی سے ہوئی تھی اور پانی کے سہارے ہی یہ مخلوق زندہ رہ سکتی ہے۔ پانی سے روئے زمین کی تمام اشیاء کو اور بالخصوص جاندار اشیاء کو وجود میں لانا بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا کارنامہ ہے جس سے اس کی ہر چیز پر قدرت ہونے کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کا آغاز سمندر کے کنارے کائی سے ہوا تھا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کائی بھی پانی ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور حقیقتاً ہر شے کی زندگی کا آغاز کائی سے نہیں بلکہ پانی سے ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اسلامی نظریہ حیات ڈارون کے پیش کردہ نظریہ حیات سے کئی باتوں میں متصادم ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ دوم میں نظریہ ارتقائ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٣٠) یہ اس مقام پر توحید کی چوتھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے والا (جان دار) پانی سے پیدا فرمایا، پھر ایک ہی چیز سے پیدا ہونے والے تمام جان دار زندگی کی پہلی حالت ہی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے جیسے سانپ، مچھلی اور بعض قسم کے کیڑے مکوڑے، کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے جیسے انسان اور پرندے اور کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے جیسے گائے، بھینس، گھوڑے اور دوسرے چوپائے اور درندے۔ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ : یعنی کسی جانور کو چاہے تو اس سے زیادہ پاؤں دے دیتا ہے، جیسے کنکھجورا، کیکڑا، مکڑی اور کئی قسم کے کیڑے اور سمندری مخلوق۔ یہ کائنات میں پھیلے ہوئے نور ہدایت ہی کا اظہار ہے، جسے دیکھ کر سعادت مند لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آتے ہیں اور اس پر بھی کہ جب اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا فرما سکتا ہے، تو وہ قیامت کے روز دوبارہ زندہ بھی کرے گا۔ چلنے میں جانوروں کی ترتیب بھی قابل توجہ ہے، سب سے پہلے وہ جس کے پاؤں ہی نہیں، ان کے چلنے میں قدرت کا اظہار سب سے زیادہ ہے، پھر دو پاؤں پر چلنا چار پاؤں پر چلنے سے عجیب ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ جو چاہے پیدا کرسکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ۝ ٠ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِہٖ۝ ٠ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ۝ ٠ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۝ ٠ۭ يَخْلُقُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٤٥ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) اور اللہ تعالیٰ ہی نے ہر ایک چلنے والے جانور کو نر اور مادہ کے پانی سے پیدا کیا تو کچھ تو وہ جانور ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں جیسا کہ مویشی وغیرہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا اور وہ ہر مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍج فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ ج) ” یہ وہ جاندار ہیں جنہیں ہم reptiles کہتے ہیں۔ ان کی ٹانگیں وغیرہ نہیں ہوتیں اور وہ پیٹ کے بل رینگتے ہیں۔ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ ج) ” خود ہم انسان بھی اسی مخلوق میں شامل ہیں۔ انسانوں کے علاوہ پرندے ‘ بن مانس (champanzies) اور گوریلے بھی دو ٹانگوں پر چلتے ہیں۔ کوئی اور مخلوق بھی ایسی ہوسکتی ہے جو دو ٹانگوں پر چلتی ہو۔ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰٓی اَرْبَعٍ ط) ” زمینی حیوانات میں سے چار ٹانگوں والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ (یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ” آئندہ آیات میں منافقین کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة یونس سے لے کر سورة المؤمنون تک چودہ سورتیں مسلسل مکیات تھیں۔ مکہ میں منافقین تو تھے نہیں لہٰذا ان تمام مکی سورتوں میں نہ تو نفاق کا ذکر آیا اور نہ ہی منافقین کا تذکرہ ہوا۔ ان مکی سورتوں میں گفتگو کا رخ زیادہ تر مشرکین مکہ کی طرف ہی رہا ہے۔ کہیں کہیں اہل کتاب کا ذکر بھی آیا ہے ‘ لیکن انہیں براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان سورتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اہل ایمان کو بھی مخاطب کیا جاتا رہا ہے۔ سورة النور کا نزول مدنی دور کے عین وسط یعنی ٦ ہجری میں ہوا تھا اور اس وقت مدینہ کے اندر اچھی خاصی تعداد میں منافقین موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار کا تذکرہ اس سورت میں آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ مسند احمد اور ترمذی میں ابو رزین العقیلی سے صحیح روایت ١ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ عرش کی پیدائش ‘ عرش کے مابعد کی سب مخلوقات کی پیدائش سے مقدم ہے لیکن پانی کی پیدائش عرش کی پیدائش سے بھی پہلے ہے ‘ تفسیر سدی میں چند روایتیں اسی مضمون کی اور بھی ہیں ‘ ان روایتوں سے علماء نے یہ مطلب نکالا ہے کہ نطفہ سے جو پیدائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس سلسلہ سے پہلے ہی ہر چیز کی پیدائش میں پانی کا دخل ضرور ہے جیسے مثلا آدم (علیہ السلام) کی پیدائش نطفہ کی پیدائش سے مقدم ہے لیکن ان کے پتلے کا گارا پانی اور مٹی سے بنایا گیا ہے چناچہ ترمذی ‘ نسائی ‘ صحیح ابن حبان اور مسند بزار میں ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت ٢ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ پیٹ کے بل چلنے والوں میں سانپ اور مچھلی اور دو پیروں پر چلنے والوں میں انسان اور پرند اور چار پیروں پر چلنے والوں میں چوپائے ‘ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بناتا ہے جو چاہتا ہے مثلا مکڑی کو اس نے چار پیروں سے زیادہ کا جانور بنایا ‘ آخر کو فرمایا اللہ ہر چیز کرسکتا ہے ‘ کسی طرح کی مخلوق کا پیدا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک سے روایت ٣ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورة الفرقان کی آیت اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْ ھِھِمْ اِلٰی جَھَنَّمَ جب نازل ہوئی اور پڑھی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن نافرمان لوگوں کو میدان محشر میں منہ کے بل چلایا جاکر دوزخ تک پہنچایا جاوے گا تو ایک شخص نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ منہ کے بل کیونکر چلیں گے ‘ آپ نے فرمایا جس صاحب قدرت نے دنیا میں دو پیروں پر چلایا وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ٤ ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ قیامت کے دن اپنے گناہوں کا انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگا کر ان کے ہاتھ پیروں سے زبان کا کام لے گا جس سے آدمی کے ہاتھ پیروں میں زبان کی سی گویائی پیدا ہوجاوے گی اور وہ آدمی کے گناہوں کی پوری گواہی ادا کریں گے۔ ان حدیثوں سے اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو صاحب قدرت انسان کو منہ کے بل چلانے پر اور ہاتھ پیروں سے زبان کا کام لینے پر قادر ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٩ و تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٧ ج ٢ ) (٢ ؎ فتح الباری ص ٢١٩ ج ٣ کتاب الانبیاء ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٣ باب الحشر ) (٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب والقصاص والمیزان۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:45) دابۃ۔ جانور ۔ چلنے والا۔ پائوں دھرنے والا۔ رینگنے والا۔ دب۔ یدب (ضرب) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اس میں ۃ وحدت کی ہے اس کی جمع دواب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ جیسے سانپ، مچھلی اور بعض قسم کے کیڑے مکوڑے۔ 2 ۔ جیسے انسان اور پرند۔ 3 ۔ مراد ہیں باقی سب جانور۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جیسے سانپ اور مچھلی۔ 1۔ جیسے انسان اور پرندے جب کہ ہوا میں نہ ہوں۔ 2۔ جیسے مواشی

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فلکیات کے ذکر کے بعد حیوانات کے بارے میں غور کرنے کی ترغیب۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ان میں کچھ پیٹ کے بل رینگتے ہیں کچھ دو پاؤں پہ چلتے ہیں اور کچھ ان میں چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہر چیز پر کامل اور اکمل قدرت رکھنے والا ہے۔ اسی نے یہ روشن آیات نازل فرمائیں اور وہی صراط مستقیم کی ہدایت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلکیات اور لیل ونہار کے بارے میں انسان کو غور کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی اس کا فرمان ہے کہ انسان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پیٹ کے بل رینگنے والے دو اور چار ٹانگوں پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ان جانداروں کا رنگ، جسم، بناوٹ، قوت، رہن سہن اور کھانے پینے پر غور کریں کہ کوئی چیز بھی ان کی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتی۔ شیر اور چیتے کچھاروں اور غاروں میں سکون پاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے، سانپ اور بچھو بلوں میں رہتے ہیں۔ ہاتھی اور اس کے قریب کی جنس کے چوپائے گھنے جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ پرندے فضا میں اڑتے اور درختوں میں گھونسلے بناتے ہیں۔ انسان بھی دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جاندار ہے جو سب پر حکومت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا ہے۔ پانی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایک مخلوق ہے جسے زمینی مخلوق میں سب سے پہلے پیدا کیا ہے جس کی قرآن مجید میں ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ وہی ذات ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (ہود : آیت ٧) سترھویں پارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے اسی لیے جاندار چیزوں کی بقا کے لیے پانی بےحد ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقائق مدلّل طریقہ سے اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ لوگ اس پر غور کریں اور اپنے رب پر ایمان لائیں۔ اور اس کے احکام پر عمل کریں اگر لوگ نیک نیتی کے ساتھ اپنے رب کی قدرتوں پر غور کریں گے تو ہدایت پاجائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب کرتا ہے۔ جو اس کی قدرتوں پر غور کرتے ہیں پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ ہدایت سب سے گراں قدر نعمت ہے۔ یہ اسے نصیب ہوتی ہے جو اس کی چاہت اور کوشش کرتا ہے قرآن مجید میں اسی لیے بار بار ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ رہنے دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تفسیر بالقرآن پانی کی اہمیّت : ١۔ اللہ نے پانی کے ذریعے پھلوں جیسا رزق عطا فرمایا : (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ پانی کے ذریعے ہی بنجر زمین زرخیز ہوتی ہے۔ ( النحل : ٦٥) ٣۔ پانی طہارت کا ذریعہ ہے۔ ( النساء : ٦٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نباتات کو پانی کے ذریعے پیدا کیا۔ ( طٰہٰ : ٥٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا۔ ( الطارق : ٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز و شاداب کر دئیے۔ ( ق : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(واللہ خلق۔۔۔۔۔۔۔۔ قدیر) (٤٥) ” “۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے جس کو قرآن کریم نہایت ہی سادے الفاظ میں بیان کررہا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہر زندہ مخلوق کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ حیات کے بنیادی عناصر ایک ہی ہیں اور یہ کہ زندگی کے قیام کا بنیادی عنصر پانی ہے۔ جدید سائنس بھی اس بات کی طرف جارہی ہے کہ زندگی کی اصل تخلیق پانی میں ہوئی۔ یعنی سمندر میں۔ یعنی ابتدائی حالت میں زندگی پانی میں تھی۔ اس کے بعد زندگی کے اندر رنگارنگی پیدا ہوئی۔ یہ تو ہے سائنس دانوں کی سوچ۔ ہماری سوچ مختلف ہے۔ ہم قرآنی حقائق کو سائنس کی خراوپر نہیں چڑھاتے۔ کیونکہ سائنس کے اصول اور معیار بدل جاتے ہیں جبکہ قرآن ناقابل تغیر اور آخری حقائق بتاتا ہے۔ ہم بس یہی کہتے ہیں کہ حیات کا اصل پانی ہے۔ اس لیے کہ قرآن یہ کہتا ہے۔ اگر چہ حیات کی شکلیں مختلف نظر آتی ہیں لیکن اس کا اصلی مادہ پانی ہی ہے۔ پانی ہی سے حیوان زمین پر چلنے لگا ہے۔ یخلق اللہ مایشآ ئ (٢٤ : ٤٥) ” اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے “۔ مختلف ہیئت اور مختلف شکل کے جانور پیدا کرتا ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہے کہ وہ کیا پیدا کرتا ہے اور کس شکل میں پیدا کرتا ہے۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر (٢٤ : ٤٥) ” بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ اگر ہم تمام زندہ چیزوں پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ حیات کی اصل تو ایک ہے لیکن اس ایک ہی مادے سے اللہ نے کیا کیا چیزیں ‘ کس کس شکل پر بنائی ہیں۔ مختلف حجم والی مختلف رنگوں والی ‘ مختلف شکل و صورت والی۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک خالق اور مدبر ہے جو یہ رنگارنگی پیدا کررہا ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس گہرے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی کوئی چیز محض اتفاق سے بلا ارادہ اس طرح پیدا نہیں ہوگئی ہے بلکہ ایک تدبیر اور ارادے سے ایسا ہوا ہے۔ اگر تدبیر اور ارادہ خالق کو تسلیم نہ کیا جائے تو وہ کیا اتفاق ہے جس نے اسے پیدا کیا۔ پھر یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہر چیز کے اندر خود بخود ایک تدبیر اور تقدیر پیدا ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو اس کی تخلیق بخشی اور ہر چیز کو ہدایت ‘ وجدان اور شعور بخشا ہے کہ اس کا فرض منصبی کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد بعض سفلی تصرفات کا تذکرہ فرمایا ارشاد ہے (وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین پر چلنے پھرنے والی ہر چیز کو پانی سے پیدا فرمایا اس سے حیوانات مراد ہیں جو نطفہ سے پیدا ہوتے ہیں پھر ان جانوروں میں بعض وہ ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں جیسے سانپ وغیرہ اور بعض وہ ہیں جو دو پیروں پر چلتے ہیں (جبکہ خشکی میں ہوں) اور بعض وہ ہیں جو چار پاؤں سے چلتے ہیں جیسے اونٹ بھینس گائے بکری وغیرہ (یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ ) وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اسے پورا اختیار ہے جیسے جس حال میں اور جس شکل و صورت میں پیدا فرمائے۔ اور جس کو جس طرح چاہے قوت وقدرت عطا فرمائے دیکھو پیٹ کے بل چلنے والے جانوروں کو جس طرح چلنے اور بھاگنے کی قوت عطا فرمائی ہے ان میں سے بہت سی دو اور چار ٹانگوں والی چیزوں کو عطا نہیں فرمائی۔ چھپکلی کو دیکھ لو وہ چھت سے الٹی لٹک کر بھی دوڑ لیتی ہے دوسری مخلوق ایسا کرے تو گرپڑے چھپکلی چل بھی رہی ہے اور چپک بھی رہی ہے فسبحان من اعطی کل شیءٍ خلقہ ثم ھدی۔ (اِِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے) جس کو جیسا چاہا بنایا وَ مَا شَاء اللّٰہُ کَانَ وَ مَا لَمْ یَشَاْلَمْ یَکُنْ یہاں یہ جو اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کا تو الدو تناسل نطفہ سے نہیں ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا ان کا تو کوئی ماں باپ تھا ہی نہیں اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں لفظ کل دابۃ بطور تغلیب کے استعمال فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ عام طور سے جو تم انسان اور چوپاؤں کو دیکھتے ہو ان کی تخلیق نطفہ سے ہے اور بعض حضرات نے دوسرا جواب دیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا فرمایا پھر اس میں سے بعض کو آگ بنا دیا جس سے جنات پیدا فرمائے اور بعض کو مٹی بنا دیا اور اس سے انسان کو پیدا فرمایا اور بعض کو حصہ نور بنا دیا اس سے فرشتے پیدا فرمائے اور جتنی مخلوق وجود میں آئیں اس کے وجود میں کسی نہ کسی طرح پانی کے جو ہر کا وجود ہے۔ (من معالم التنزیل ص ٣٥١ ج ٣ و روح المعانی ص ١٩٣ ج ١٨)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ ” واللہ خلق الخ “ : یہ دعوی توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت پر ایک واضح دلیل ہے کہ اس نے ہر جاندار کو قطرہ آب سے پیدا فرمایا اور پھر ان کو کئی انواع و اقسام میں تقسیم کردیا۔ کچھ جاندار ایسے پیدا کیے جن کے پاؤں نہیں وہ پیٹ کے بل چلتے ہیں۔ جیسا کہ سانپ کچھ دو پاؤں پر چلتے ہیں جیسے انسان اور پرندے اور کچھ چار [ اؤں پر چلتے ہیں جیسے چوپائے۔ وہ جو چاہے پیدا کرے۔ اگر چار سے زیادہ بھی کسی کے پاؤن ہوں تو اس کی قدرت سے بعید نہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی قادر مطلق معبود برحق اور سارے جہان میں متصرف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اور اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے پھر ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو اپنے پیٹ کے بل رینگتے اور چلتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو دو 2 پائوں پر چلتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو چار پیروں پر چلتے ہیں اللہ جو چاہتا ہے بناتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ ہر جاندار کی ابتداء اور اس کی پیدائش پانی سے ہوتی ہے یعنی ہر جاندار کا حدوث یا اس کی بقا پانی ہی سے ہے۔ رینگنے والے جیسے سانپ، مچھلی، دو ٹانگوں والے جیسا انسان اور پرندے چار ٹانگوں والے جیسے چوپائے اور کسی مخلوق کے چارپایوں سے بھی زیادہ ہوں۔ یخلق اللہ مایشائ اس کی غیر محدود قدرت محصور نہیں۔