11فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔ 12اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً ) 7 ۔ الاعراف :158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں سب سے پہلے توحید پر کلام فرمایا، کیونکہ وہ سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے، پھر نبوت پر، کیونکہ وہ رب اور بندے کے درمیان واسطہ ہے، پھر قیامت پر، کیونکہ وہ خاتمہ ہے۔ (شوکانی) ” تَبٰرَكَ “ ” بَرَکَۃٌ“ سے باب تفاعل ہے، ” بَرَکَۃٌ“ کا اشتقاق ” بِرْکَۃٌ“ (حوض) سے ہے کہ اس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، یا ” بَرَکَ الإِْبِلُ “ سے ہے، جس کا معنی اونٹ کا بیٹھنا ہے۔ باب تفاعل میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ” بہت برکت والا ہے “ کیا گیا ہے۔ برکت سے مراد خیر میں زیادہ ہونا، بڑھا ہوا ہونا، دائمی خیر والا ہونا ہے۔ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بےانتہا بڑھا ہوا ہے۔ بلندی، بڑائی، احسان، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بیحد و حساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ یاد رہے ” تَبٰرَكَ “ کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آتا ہے، کسی اور میں یہ خوبی نہیں۔ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : ” نَزَّلَ “ میں تکرار کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا۔ اس کی حکمت آگے آیت (٣٢) میں آرہی ہے۔ قرآن کو ” الْفُرْقَانَ “ کہا ہے، یعنی یہ اپنے احکام کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اور اسی لفظ کی بنا پر اس سورت کا نام ” الفرقان “ رکھا گیا ہے۔ عَلٰي عَبْدِهٖ : دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر۔ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا : اس میں آپ پر قرآن نازل کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ سارے جہانوں سے مراد قیامت تک تمام جن و انس ہیں، اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ان سب کے لیے ہے، کوئی دوسرا رسول دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٨) ، انعام (١٩) ، سبا (٢٨) اور احزاب (٤٠) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے لیے دیکھیے آل عمران (٢٠) جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ قَبْلِیْ ۔۔ وَ کَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ) [ بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جعلت لي الأرض ۔۔ : ٤٣٨ ] ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔۔ (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ “ 3 یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف ” نذیر “ ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ آگے کفار کے اقوال و احوال اور ان کے انجام کا ذکر ہے، اس کے مناسب ڈرانا ہی ہے۔ نذارت و بشارت دونوں کا اکٹھا ذکر آگے آ رہا ہے، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا) [ الفرقان : ٥٦ ] ” اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ “
سورة الْفُرْقَان نام : پہلی ہی آیت تَبَاَرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ سے ماخوذ ہے ۔ یہ بھی قرآن کی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے نہ کہ عنوان مضمون کے طور پر ۔ تاہم مضمون سورہ کے ساتھ یہ نام ایک قریبی مناسبت رکھتا ہے جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان اور مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول بھی وہی ہے جو سورہ مومنون وغیرہ کا ہے ، یعنی زمانہ قیام مکہ کا دور متوسط ۔ ابن جریر اور امام رازی نے ضحاک بن مزاجِ اور مقاتل بن سلیمان کی یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت سورہ نساء سے 8 سال پہلے اتری تھی ۔ اس حساب سے بھی اس کا زمانہ نزول وہی دور متوسط قرار پاتا ہے ۔ ( ابن جریر ، جلد 19 ، صفحہ 28 ۔ 30 ۔ تفسیر کبیر ، جلد 6 ، صفحہ 358 ) ۔ موضوع و مباحث : اس میں ان شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ، اور آپ کی پیش کردہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ ان میں سے ایک ایک کا جچا تلا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعوت حق سے منہ موڑنے کے برے نتائج بھی صاف صاف بتائے گئے ہیں ۔ آخر میں سورہ مومنون کی طرح اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو ، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا ۔ ایک طرف اس سیرت و کردار کے لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے اب تک تیار ہوئے ہیں اور آئندہ تیار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف وہ نمونہ اخلاق ہے جو عام اہل عرب میں پایا جاتا ہے اور جسے برقرار رکھنے کے لیے جاہلیت کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ اب خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں نمونوں میں سے کسے پسند کرتے ہو؟ یہ ایک غیر ملفوظ سوال تھا جو عرب کے ہر باشندے کے سامنے رکھ دیا گیا ، اور چند سال کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس کا جو جواب دیا وہ جریدہ روزگار پر ثبت ہو چکا ہے ۔
سورۃ فرقان تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کے بارے میں کفار مکہ کے مختلف اعتراضات کا جواب دینا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کے لیے جو بیشمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں، انہیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اس کی توحید کے اقرار اور شرک سے علیحدگی کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں، اور ان کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں جو اجر وثواب رکھا ہے، اس کا بیان فرمایا گیا ہے۔
سورة نمبر 25 کل رکوع 6 آیات 77 الفاظ و کلمات 906 حروف 9319 سورۃ الفرقان مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس میں اور سورتوں کی طرح توحید و رسالت ‘ قیامت ‘ جزا و سزا ‘ کفر و شرک کی برائی اور مشرکین کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ مقام اور عظمت عطا فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح کسی خاص قوم ‘ نسل ‘ یا خطے کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک پوری انسانیت کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا ؛ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں “ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ؛ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبشر و نذیر بنا کر بھیجا ہے “۔ سورۃ الفرقان میں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ” نذیر اللعالمین “ یعنی تمام جہان والوں کے لیے (برے انجام سے) ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف عرب والوں یا کسی خاص قوم کی طرف رسول اور نبی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ قیامت تک ساری انسانیت کی اصلاح اور راہ ہدایت متعین کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش فرماتے تو کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام عظمت کو پہچاننے کے بجائے طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے تھے۔ اللہ تالیٰ نے کفار کے تمام اعتراضات کے جوابات عطا فرمائے ہیں۔ کفارو مشرکین کبھی طنز کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اچھا یہ ہیں وہ جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ کبھی کہتے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بزاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ کبھی کہتے کہ انکے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ بھیجا گیا جس سے یہ خوب آرام سے کھاتے پیتے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے یہ انسان ہی ہیں کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں۔ اپنی ضروریات اور تجارت کے لیے بازاروں میں بھی جاتے ہیں جس طرح ان سے پہلے تمام نبی اور رسول انسان ہی تھے اور ان کے ساتھ جو بھی ضروریات تھیں اور بشری تقاضے تھے وہ ان کو پورا کرتے تھے۔ اس سے ان کی شان رسالت و نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں سمجھانے کے باوجود یہ کفار ایمان نہ لاتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کے یہ اعتراضات محض عمل سے بھاگنے اور سچائی سے منہ موڑنے کے لیے ہیں۔ اگر ان کو اس بات کا ذرا بھی احساس ہوتا کہ ان کو مرنے کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے تو یہ لوگ کبھی ایسا نہ کرتے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی خاص زمانے اور کسی خاص خطے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری دنیا کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے چناچہ اس سورة میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ساری دنیا کے انسانوں کو برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کر دیجئے شاید اس طرح وہ حق اور باطل میں فرق کرسکیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آپان کی طرف نہ دیکھیے بلکہ اللہ کے ان نیک بندوں کی طرف دیکھیے جو ” عبادالرحمن “ ہیں۔ فرمایا کہ اللہ کے یہ نیک بندے وہ ہیں کہ (١) جب وہ زمین پر چلتے ہیں تو نہایت عاجزی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں غرور اور تکبر کا کوئی انداز ان میں موجود نہیں ہوتا۔ (٢) جب وہ جاہلوں اور نادانوں سے بات کرتے ہیں تو ان سے الجھنے کے بجائے نہایت نرمی اور اخلاق سے کہہ دیتے ہیں کہ ” تم سلام رہو تم پر سلامتی ہو “۔ (٣) ان کی راتیں غفلت اور سستی کے بجائے اللہ کے سامنے سجدے کرنے اور نماز کو قائم کرنے میں گزرتی ہیں۔ (٤) وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں جہنم سے پناہ مانگتے رہتے ہیں اور ہر اس عمل سے دور رہتے ہیں جس سے ان کا رب ان سے ناراض ہوجائے۔ (٥) اللہ کے بندے وہ ہیں جو اپنا مال خرچ کرنے میں اعتدال اور تو ازن کا راستہ اختیار کرتے ہیں نہ تو فضول خرچی میں سب کچھ اڑادیتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ وہ درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (٦) وہ بد عقیدگی اور برے اعمال سے دور رہتے ہوئے شرک اور بدعات اور کفر کے ہر انداز سے اپنے آپ کو بچا کر توحید خالص پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (٧) وہ انسانی جان کا احترام کرتے ہیں اور قتل ناحق سے دور رہتے ہیں۔ (٨) ناجائز جنسی تعلق (زنا) اور بدکاری اور طرح کے گناہوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھتے ہیں۔ ٭رحمن کے بندے وہ ہیں جھوٹ ‘ فریب ‘ بےہودہ مشغلوں اور ناجائز حرکتوں سے دوررہتے ہیں۔ جب وہ چلتے ہیں تو نہایت عاجزی اور وقار سے چلتے ہیں۔ رحمن کے بندوں کے کئی میں عمل تکبر اور غرور کا کوئی انداز نہیں ہوتا۔ (٩) اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جھوٹ ‘ فریب ‘ بےہو دہ مشغلوں اور ناجائز حرکتوں سے بچ کر چلتے ہیں۔ (١٠) اگر وہ کسی غلط اور بےہو وہ جگہ سے گزرتے ہیں تو اس میں الجھنے کے بجائے متانت ‘ سنجیدگی ‘ اور وقار سے گزرجاتے ہیں۔ (١١) جب ان کے سامنے اللہ کا کلام پڑھا جاتا ہے تو وہ اس کو نہایت غورو فکر سے سن کر اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ (٢) وہ اپنے لیے اپنے گھر والوں اور متعلقین کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ان کو نیکیوں اور پرہیزگاری کے کاموں کے لیے ثابت قدم رکھیے گا۔ اللہ تعالیٰ ان ” عبادالرحمن “ (رحمن کے بندوں) کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ان کو دنیا اور آخرت میں بلند ترین مقامات عطا کئے جائیں گے اور جنہوں نے کفر و شرک کے طریقے اختیار کر رکھے ہیں اور اللہ کے دین اور رسولوں کی عظمت کا انکار کرتے ہیں تو ان کا یہ انکار اور بد عملی قیامت میں وبال جان بن جائے گی۔ اس سے ان کو واسطہ پڑے گا اور ان کو عذاب بھگتنا پڑے گا۔
سورة الفرقان کا تعارف ربط سورة : سورة النور کا اختتام اس بات پر ہوا کہ ” اللہ “ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کے انجام سے آگاہ کرے گا۔ برے انجام سے بچانے کے لیے اس نے تمہارے پاس اپنا رسول بھیجا ہے تاکہ برے کاموں کے برے انجام سے تمہیں آگاہ کرے۔ یہ سورة 6 رکوع 77 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورة مبارکہ کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ فرقان کا معنٰی ہے سچ اور جھوٹ، حق اور باطل میں فرق واضح کرنے والی کتاب۔ سورة کا آغاز ” اللہ “ کی ذات با برکات کے نام سے ہوا ہے۔ جس نے قرآن نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قرآن کے ذریعے حق و باطل، سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق واضح فرما دیں۔ اس کی ابتدا اس پیغام سے ہوئی ہے کہ یہ قرآن رسول عبد پر نازل کیا گیا، جس کی دعوت توحید خالص ہے، تاکہ لوگ صرف ایک ” اللہ “ کی عبادت اور غلامی اختیار کریں، مگر اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی موت وحیات اور مر کے جی اٹھنے کا بھی انہیں اختیار نہ ہے۔ یہ لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبدیت کا انکار کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ تو ملائکہ ہونے چاہیں تھے جو اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے، یہ لوگ زبان درازی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ رسول تو سحر زدہ ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توجہ فرمائیں کہ یہ لوگ کس حد تک ہدایت سے بےتوفیق ہوچکے ہیں۔ انہیں اس ہرزہ سرائی کے انجام کا قیامت کے دن علم ہوگا۔ جب اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ! ہم رسول کو چھوڑ کر ایرے غیرے کے پیچھے نہ لگتے۔ انہیں یہ بھی اعتراض ہے کہ قرآن ایک مرتبہ نازل کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ اعتراض اٹھانا ان کی گمراہی کی انتہا ہے۔ ہم قرآن اس لیے تھوڑا تھوڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مناسب حال نازل کرتے ہیں۔ تاکہ آپ کا دل مضبوط ہو اور انہیں قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن یہ اپنی گمراہی کے سبب اس سہولت کو بھی مخالفت کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی آل فرعون، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور اصحاب الرّس نے اس قسم کے اعتراضات کیے اور تباہ ہوئے۔ دراصل جو شخص اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لے اس کی آپ راہنمائی نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ جانوروں کی مانند ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان کے سامنے سورج ” اللہ “ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ رات کے آرام، دن کے وقت تازہ دم ہو کر کام کاج کرنا، ہواؤں کا بحری سفر میں ان کے موافق چلنا بارش کا نازل ہونا اور اس کے ذریعے جانوروں اور لوگوں کا فائدہ اٹھانا۔” اللہ “ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، انہیں دیکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی رب نے دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کر رکھا ایک پانی میٹھا اور دوسرا کڑوا ہے۔ اسی نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کے ننہیال اور سسرال بنائے پھر بھی اس حقیقی خالق اور عظیم مالک کا انکار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود الرّحمن اسے سب کچھ عنایت کیے جا رہا ہے۔ یہ اسے ماننے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم الرّحمن کو نہیں جانتے اور نہ اسے سجدہ کریں گے۔ سورة کے آخر میں الرحمن کو ماننے والے بندوں کی صفات کا ذکر کیا گیا۔ جو کسی قسم کی اکڑ پھکڑ نہیں کرتے رات کو اٹھ کر اپنے رب سے معافی طلب کرتے ہیں، اس کے دیے ہوئے کوا للّوں تللّوں میں ضائع نہیں کرتے ان کی چال وافعال اور معاملات میں اعتدال ہوتا ہے وہ برائی اور لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے رب کی آیات اور نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں اور اولاد کا سکون مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے گا۔ جس میں ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا اور یہ ہر قسم کا آرام پائیں گے۔
سورة الفرقان۔ ٢٥ ١۔۔۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔۔۔ ٢٠ سورة الفرقان ایک نظر میں یہ سورت پوری کی پوری بظاہر مکی نظر آتی ہے۔ اس پوری سورت میں ‘ مشرکین مکہ کی اسلام دشمنی ‘ عناد ‘ ہٹ دھرمی اور آپ کے خلاف مسلسل دست درازیوں ‘ کج بحشیوں اور اسلام کی راہ کو مسلسل روکنے کی مخالفانہ کارروائیوں پر آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ اور اطمینان دلایا گیا کہ اس مقابلے اور کشمکش میں آپ کو کامیابی ہوگی۔ بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ نظریوں آرہا ہے کہ گویا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخموں پر مرہم لگائی جارہی ہے۔ آپ کے درد اور دکھ کا درماں کیا جارہا ہے۔ آپ کے سر پر قدرت کا دست شفقت ہے۔ آپ کو تسلی دی جارہی ہے اور آ پکے کاسہ دل کو اعتماد و اطمینان کے شراب طہور سے بھرا جارہا ہے اور اللہ کی نگرانی ‘ رعایت و شفقت اور لطف و کرم کی باد نسیم کے خوشگوار جھونکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرئہ مبارک کو چھو رہے ہیں۔ پھر یہ سورت ‘ اس شدید جنگ کی تصویر کشی بھی کررہی ہے ‘ جو اللہ کے یہ بندے اور رسول ایک منکر حق انسانیت کے ساتھ برپا کیے ہوئے ہیں۔ یہ انسانتیت اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی پر اتر آتی ہے ‘ اسلام کے خلاف سخت مجادلہ کررہی ہے ‘ اہل ایمان کو گھروں سے نکال رہی ہے نہایت ہی مکروہ انداز میں ‘ مسلمانوں پر دست درازی کررہی ہے اور سخت سرکشی اور عناد میں مبتلا ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو واضح ‘ نا طق اور بین دلائل کے ساتھ راہ حق اور صراط مستقیم کی طرف بلا رہے ہیں وہ اس راہ سے دور جارہی ہے۔ جس سوسائٹی کے سامنے حضور محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشکل ترین حالات میں دعوت اسلامی پیش کررہے ہیں اس عظیم دعوت کے بارے میں اس سوسائٹی کا تبصرہ یہ ہے۔ (ان ھذا۔۔۔۔۔۔۔ اخرون) (٢٥ : ٤) ” جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کردیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن ایک من گڑھت چیز ہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے “۔ یا ان کا تبصرہ یوں ہے : (اسا طیر الاولین ۔۔۔۔۔ واصیلا) (٢٥ : ٥) ” یہ پرائے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ صبح و شام املا کرائی جاتی ہیں “۔ اور خود حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تبصرہ کچھ یوں ہے۔ ان تتبعون الا رجلا مسحورا ” تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو “۔ اور رسول تو رسول ہیں ایک بشر ہیں۔ یہ لوگ خود اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بات کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ (واذا قیل لھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفورا) (٢٥ : ٧) ” ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمان کیا ہوتا ہے کیا جسے تو کہہ دے اسے ہم سجدہ کرتے پھریں۔ یہ دعوت ان کی نفرت میں اور اضافہ کردیتی ہے “۔ اور ان کی ہٹ دھرمی کو یہ سورت یوں ریکارڈ کرتی ہے۔ لولآ انزل علینا الملئکۃ اونری ربنا (٢٥ : ٢١) ” کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے گئے یا کیوں نہ یوں ہوا کہ ہم اپنے رب کو دیکھیں “۔ یہ تھا اس سوسائٹی کا دعوت اسلامی کے بارے ردعمل۔ لیکن انسانیت کا یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ نوح (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان تک انسانوں نے تمام رسولوں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ ہمیشہ ہر رسول کی بشریت ہی پر اعتراض ہوا اور اب رسول آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت پر بھی وہی اعتراض ہے۔ (مال ھذا الرسول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیرا) (٢٥ : ٧) ” یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے ‘ اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ‘ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا “۔ انہوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ اس رسول کے پاس وافر مقدار میں مال بھی نہیں۔ (اویلقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منھا) (٢٥ : ٨) ” یا اس لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا “۔ اور انہوں نے قرآن کے طریقہ نزول پر بھی اعتراض کیا۔ لولا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ (٢٥ : ٣٢) ” اس شخص پر پورا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتارا گیا “۔ اس تکذیب ‘ استہزائ ‘ افتراء اور بےحیائی کا مقابلہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے۔ یہ مقابلہ آپ اکیلے کررہے تھے۔ ایسے حالات میں کررہے تھے کہ نہ آپ کے پاس کوئی مال تھا اور نہ جاہ و مرتبہ تھا۔ اور آپ ان حالات پر راضی برضا تھے اور بر ذوالجلال سے کوئی شکوہ و شکایت نہ کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف متوجہ تھے ‘ صرف اس کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار تھے اور اس کے سوا آپ کا کوئی مقصد و مطلوب نہ تھا۔ طائف سے واپس ہوتے ہوئے نہایت مشکلات میں آپ اپنے رب سے یوں ہمکلام ہوئے ” اے رب اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو پھر مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ تجھے اس وقت تک آزمانے کا حق ہے جب تک تو راضی نہ ہوجائے “۔ ان مشکل حالات کے مقابلے میں ‘ اس سورت سے یوں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی پناہ میں لے رہا ہے۔ اللہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشکلات اور تکالیف پر آپ کو تسلی دیتا ہے۔ آپ کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مشکلات ‘ آپ کی پریشانیوں کو کم کیا جاتا ہے۔ آپ کو ہمت دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی ہٹ دھرمی ‘ بےادبی ‘ گستاخی ‘ اور دست درازی کو برداشت کریں۔ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ دراصل اپنے خالق اور رازق کے ساتھ گستاخی اور دست درازی کررہے ہیں جبکہ ان کا خالق اس پوری کائنات کا مدبر اور خالق بھی ہے اور وہ اس پوری کائنات کو چلارہا ہے تو یہ لوگ اگر اپنے رب کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو رسول اللہ کو چاہیے کہ وہ ان کی ان رکات کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ (ویعبدون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظھیرا) (٢٥ : ٥٥) ” اور اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں ‘ نہ نقصان اور مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مدد گار بنا ہوا ہے “۔ اور دوسری جگہ ہے۔ (واتخذوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا نشورا) (٢٥ : ٣) ” لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو خود اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ‘ جو نہ مارتے ہیں اور نہ جلا سکتے ہیں اور نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھاسکتے ہیں “۔ اور دوسری جگہ ہے۔ (واذا قیل۔۔۔۔۔ ولا نشورا) (٢٥ : ٦) ” ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمن کیا ہوتا ہے “۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سورت میں ایک دوسرے انداز سے بھی تسلی دی جاتی ہے وہ یہ کہ کفار جس قدر گرے ہوئے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں وہ قابل نفرت ہے۔ یعنی آپ اعلیٰ زندگی اور اعلیٰ ماحول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ (ارء یت۔۔۔۔۔۔۔ اضل سبیلا) (٢٥ : ٤٤) ” کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو ‘ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے “۔ کفار آپ کے ساتھ جو مجادلہ اور مباحثہ اور کٹ حجتی کرتے تھے۔ اللہ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کے ان پوچ سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا۔ (ولا۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیرا) (٢٥ : ٣٣) ” اور جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات لے کر آئے اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی “۔ آپ کی جدوجہد سے قبل بھی نبیوں نے یہ کام کیا ‘ ان کی تکذیب کی گئی اور اللہ نے مکذبین کو ٹھکانے لگایا۔ قوم موسیٰ ‘ قوم نوح ‘ قوم عاد ‘ قوم ثمود ‘ اصحاب الرس ‘ اور ان پیغمبروں کے زمانوں کے درمیان اور پیغمبروں کی اقوام کے حالات کو ذرا پڑھئے۔ اور قیامت ! ذرا یہ بھی دیکھ لو کہ وہاں ان کا حشر کیا ہوگا۔ (الذین۔۔۔۔۔۔۔۔ واضل سبیلا) (٢٥ : ٣٤) ” جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت برا ہے اور ان کی راہ حد درجہ غلط ہے “۔ (بل کذبوا بالساعۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثبورا کثیر) (١١ تا ١٣) (٢٥ : ١٤) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھڑی کو جھٹلا چکے ہیں اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے جب وہ دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آواز سن لیں گے اور جب یہ دست و بابستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکار نے لگیں گے۔ آج ایک موت کو نہیں ‘ بہت سی موتوں کو پکارو “۔ (ویوم یعض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبیلا) (٢٧) (یویلتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیلا) (٢٥ : ٢٨) ” اور منکرین حق کے لیے بڑا سخت دن ہوگا ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا ہوتا ‘ ہائے میری کم بختی ‘ کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا “۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں بھی تسلی دی جاتی ہے کہ آپ کو جن مشکلات سے سابقہ درپیش ہے۔ یہ تمام حالات ان سابقہ کو بھی پیش آئے۔ (ومآ ارسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الاسواق) (٢٥ : ٢٠) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ تھے “۔ وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین وکفی بربک ھادیا ونصیرا ” اے نبی ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ ہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ صبر کریں اور اپنے پیرو کاروں کو بھی صبر کرنے کی تلقین فرمائیں اور کافروں کے ساتھ قرآنی دلائل وبراہین کے ذریعہ جہاد کریں۔ کیونکہ قرآن کے دلائل واضح ‘ قوی اور وجدان کو گہرائی تک متاثر کرنے والے ہیں۔ فلا تطع الکفرین وجاھدھم بہ جھادا کبیرا (٢٥ : ٥٢) ” پس اے نبی کافروں کی بات ہر گز نہ مانو اور قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو “۔ اور آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ راہ جہاد میں مشکلات کو برداشت کرتے چلے جائیں اور اپنے رب اور مولیٰ پر توکل فرمائیں۔ (و توکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادہ خبیرا) (٢٥ : ٥٨) ” اے نبی اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اس کا با خبر ہونا کافی ہے “۔ یوں اس سورت کے مضامین چلتے ہیں۔ ایک لمحے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ‘ تشفی ‘ اطمینان اور اللہ کی طرف سے پناہ دی جاتی ہے۔ اگلے ہی لمحے میں مشرکین کی طرف سے اذیت رسانی ‘ اور مشکلات آجاتی ہیں۔ پھر مکذبین کی ہلاکت و تباہی آجاتی ہے۔ یوں یہ سورت اپنے خاتمے کے قریب آپہنچتی ہے۔ اس میں خوشگوار باد نسیم کے جھونکے بھی ہیں۔ نرمی ‘ خوشی اور مسرت کے لمحات بھی ہیں۔ اطمینان و سلامتی کے اوقات بھی ہیں۔ یوں یہ سورت آپہنچتی ہے۔ عبادالرحمن کی تصویر کشی پینٹنگ پر۔ (وعباد الرحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قالوا سلما) (٢٥ : ٦٣) ” رحمن کے اصلی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام “۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس گمراہ سرکش اور کینہ پر ور انسانیت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے پاک و صاف ہوگئے ہیں اور وہ گویا انسانیت کے شجرئہ طیبہ کے پکے ہوئے پھل ہیں۔ جو بہت ہی میٹھا اور بہت ہی مفید اور موجب خیرو برکت ہے۔ سورت کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ کی نظروں میں یہ پوری انسانیت پر کا ہ کے برابر بھی نہیں ہے اگر اس بشریت میں یہ پاک لوگ اور موجب خیر و برکت افراد ہر وقت دست بدعا نہ رہتے تو اللہ پوری انسانیت کو نیست و نابود کردیتا۔ (قل ما یعبو ئو ا بکم۔۔۔۔۔۔۔۔ لزاما) (٢٥ : ٧٧) ” اے نبی ‘ لوگوں سے کہو میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے۔ اگر تم اس کو نہ پکارو ‘ اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے۔ عنقریب وہ سزا پائو گے کہ جان چھانی محال ہوگی۔ یہ تھے اس سورت کے سائے اور موضوعات ۔ یہی اس سورت کے محور تھے اور یہی اس کے موضوعات ہیں جس پر یہ بحث کرتی ہے۔ یہ سب مضامین و موضوعات باہم مربوط ہیں۔ اور ان کو منقسم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے باوجود سورت کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں مذکورہ بالا موضوعات لیے گیے ہیں۔ کلام کا آغاز حمد باری سے ہوتا ہے کہ جس نے ازراہ کرم اپنے برگزیدہ بندے پر قرآن کریم نازل کیا ہے تاکہ یہ قرآن جہان والوں کے لیے ذراوے کا سامان ہو۔ اور ان کو عقیدہ توحید کی تعلیم دی جائے کہ اللہ وحدہ زمین و آسمانوں کا مالک و خالق ہے۔ اور وہ اپنی حکمت اور تدبیر سے اس کائنات کو چلارہا ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اور نہ اس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے لیکن ان حقائق کے باوجود لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ ایسی مخلوقات کو الہ بناتے ہیں جو اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں قوت تخلیق نہیں ہے۔ یہ نظریاتی قرار داد ان الزامات و اتہہامات کے بعد لائی گئی ہے جو انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عائد کیے اور جو بےحد اذیت ناک تھے۔ یہ کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افتراء باندھتے ہیں ‘ یہ کہ یہ پرانی کہوانیاں ہیں جو کہیں سے نقل کرتے ہیں اور یہ کہ آپ تو ایک انسان ہیں جو بازاروں میں چلتے پھرتے اور کھانا کھاتے ہیں ‘ پھر یہ کہ کیوں نہ ان کے ساتھ ایک فرشتہ نازل ہوا اور کیوں نہ ان پر بھاری خزانہ نازل ہوا ‘ یا کیوں ان کے پاس باغات نہیں ہیں جن سے وہ کھاتے پیتے اور پھر انتہائی بےحیائی کے ساتھ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ آپ پاگل ہیں۔ یہاں اللہ کے بارے میں ان کی گستاخیاں پہلے لائی گئی ہیں۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ان کی یہ گستاخیاں بعد میں تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ بات باعث تسلی ہو کہ یہ تو اللہ کے بارے میں بھی یہ کچھ کہتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر اعلان کردیا جاتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ ہیں اور قیامت کے منکر ہیں۔ اور یہ اس عذاب کے مستحق ہیں جو ان کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یعنی جہنم کا عذاب جس کی نہایت تنگ جگہ میں ان کو باندھ کر گرایا جائے گا۔ اس کے بالمقابل مومنین کی حالت بتائی جاتی ہے جو کھلے اور وسیع باغات میں ہوں گے اور وہاں ان کے لیے وہ کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گیے پھر قیامت کے دن ان لوگوں کے سامنے ان کے وہ معبود بھی پیش ہوں گے۔ وہ ان تمام باتوں کی تردید و تکذیب کردیں گے جو یہ کرتے تھے اور جو غلط عقائد و نظریات یہ رکھتے تھے اور سب سے آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور منکرین کو جواب دیتے ہوء کہا جاتا ہے کہ تمام رسول کانا کھاتے رہے ہیں اور بازاروں میں اپنی ضروریات کے لیے جاتے رہے ہیں۔ دوسرے سبق میں مکذبین کی اس دست درازی اور سرکشی کو لیا جاتا ہے کہ رسول اللہ پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوئے یا یہ کہ ہم کو رب تعالیٰ دکھایا کیوں نہیں جاتا۔ اس کے بعد ان کے سامنے قیامت کا وہ منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں فرشتوں کو دیکھ لیں گے لیکن ان کافروں پر وہ دن بہت ہی سخت ہوگا۔ اس دن کو ظالم اپنے ہاتھ کاٹیں گے۔ مارے حسرت کے اور یہ تمنائیں کریں گے کہ کاش وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ راہ ہدایت لیتے اور یہ منظر بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے لایا گیا ‘ کہ آپ پریشان نہ ہوں ‘ نہ ماننے والے قرآن کو چھوڑ کر خود اپنا نقصان کررہے ہیں ‘ وہ قرآن کے طریقہ نزول پر اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ نے پورے قرآن کریم کو ایک بار کیوں نہیں اتارا ؟ ان کے سوال کے جواب میں قیامت کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں ان مکذبین کو منہ کے بل جہنم میں گرایا جاتا ہے۔ اور ان سے قبل قوم موسیٰ ‘ قوم نوح ‘ اقوام عاد وثمود ‘ اصحاب الرس اور دوسری اقوام کا انجام بھی بتایا جاتا ہے۔ اور بڑے تعجب سے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ قوم لوط کے کھنڈرات پر سے گزرتے ہیں لیکن عبرت نہیں پکڑتے۔ ان باتوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اتی ہے کیونکہ وہ انتہائی تحقیر کے ساتھ کہتے تھے۔ اھذا الذی بعث اللہ (٢٥ : ٤١) ” کیا یہ شخص اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے “۔ اللہ ان کے سا توہین آمیز ریمارکس کے بدلے ان کی تعریف یوں فرماتا ہے کہ یہ لوگ حیوان ہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بد تر ہیں۔ ان ھم الا کالا نعام بل ھم اضل سبیلا (٢٥ : ٤٤) ” یہ نہیں ہیں مگر مویشیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ “۔ چوتھا سبق مظاہر کائنات کو لیتا ہے کہ کس طرح سایہ اپنا کام کرتا ہے۔ گردش لیل و نہار کا نظام ‘ خوشگوار ہوائیں ‘ بادلوں کو اٹھاتی ہوئی اور بارش برساتی ہوئی۔ پھر پانی سے انسان اور دوسری مخلوقات کی تخلیق کا عمل اور پھر ایسے احسن الخالقین کو چھوڑ کر لوگوں کی طرف سے ایسے معبودوں کی بندگی کرنا جو نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان ۔ پھر منکرین کس طرح اس کے ساتھ شریک ٹھہرا کر سرکشی کرتے ہیں اور جب ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ رحمن کی بندگی کرو تو نہایت ہی بےحیائی کے ساتھ یہ کہتے کی جسارت کرتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے۔ حالانکہ رحمن تو یہ ہوتا ہے۔ (تبرک الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ او اراد شکورا) (٢٥ : ٦٢) ” بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور چمکتا ہوا چاند روشن کیا۔ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ‘ ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہیے “۔ اور آخری سبق میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے صحیح بندے کیسے ہوتے ہیں ‘ جو اس کی بندگی کرتے ہیں ‘ سجدے کرتے ہیں اور وہ تمام صفات بتائی جاتی ہیں جو ان بندوں میں پائی جاتی ہیں اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ گناہوں سے توبہ کر کے عباد اللہ اور عبادالرحمن کی راہ اپنا سکتے ہیں۔ اور یہ مقام پاسکتے ہیں۔ اور اس جزاء کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ (اولئک یجزون۔۔۔۔۔۔۔۔ وسلم ا) (٢٥ : ٧٥) ” یہ لوگ ہیں جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا “۔ آخر میں کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں اگر اللہ کے برگزیدہ بندے نہ ہوتے تو اللہ ان گمراہ انسانوں کی کوئی پرواہ ہی نہ کرتا۔ جو انکار اور تکذیب کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی اس حقارت اور ناقابل التفات ہونے کو بھی یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ حضور کو تسلی ہو کہ یہ لوگ اگر نہیں مانتے تو یہ ہیں ہی ایسے۔ اس سورت کی فضا اور حضور کو تسلی دینے کے لیے یہ آخری ریمارکس سورت کے مضامین کے ساتھ نہایت ہی موزوں اور ہم آہنگ ہے۔ (یعنی اے پیغمبر ‘ نہ اللہ ان کوا ہمیت دیتا ہے اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں)