Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 10

سورة الفرقان

تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ وَ یَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا ﴿۱۰﴾

Blessed is He who, if He willed, could have made for you [something] better than that - gardens beneath which rivers flow - and could make for you palaces.

اللہ تعالٰی تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے ایسے باغات عنایت فرما دے جو ان کے کہے ہوئے باغ سے بہت ہی بہتر ہوں جس کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہوں اور آپ کو بہت سے ( پختہ ) محل بھی دے دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تَبَارَكَ الَّذِي إِن شَاء جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذَلِكَ ... Blessed be He Who, if He wills, will assign you better than (all) that... "This means in this world." ... جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًا -- Gardens under which rivers flow and will assign you palaces. Mujahid said, "The Quraysh used to call every house that was made of stone a `palace', whether it was large or small."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کردینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کرسکتا ہے جو کہ ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب وعناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَبٰرَكَ الَّذِيْٓ اِنْ شَاۗءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ ۔۔ : بہت برکت اور لامحدود قوتوں اور اسباب کا مالک ہے وہ اللہ کہ اگر چاہے تو جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ کو اس سے کہیں بہتر چیزیں دنیا ہی میں دے دے، ایک باغ نہیں بیشمار باغات دے دے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور ایک محل نہیں بہت سے محل عطا کر دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر وہ ذات بڑی عالی شان ہے کہ اگر وہ چاہے تو آپ کو (کفار کی) اس (فرمائش) سے (بھی) اچھی چیز دیدے یعنی بہت سے (غیبی) باغات جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں ( بہتر اس لئے کہا کہ وہ تو مطلق باغ کی فرمائش کرتے تھے گو ایک ہی ہو اور متعدد باغ کا ایک سے بہتر ہونا ظاہر ہے) اور (بلکہ ان باغوں کے ساتھ اور بھی مناسب چیزیں دیدے جن کی انہوں نے فرمائش بھی نہیں کی یعنی) آپ کو بہت سے محل دیدے (جو ان باغوں میں بنے ہوں یا باہر ہی ہوں جس سے ان کی فرمائش اور بھی زیادہ نعمتوں کے ساتھ پوری ہوجاوے۔ مطلب یہ کہ جو جنت میں ملے گا اگر اللہ چاہے تو آپ کو دنیا ہی میں دیدے لیکن بعض حکمتوں سے نہیں چاہا اور فی نفسہ ضروری تھا نہیں پس شبہ محض بیہودہ ہے۔ ان کفار کے ان شبہات مذکورہ کا سبب یہ نہیں ہے کہ ان کو حق کی طلب اور فکر ہوئی ہے اور اس دوران میں قبل تحقیق ایسے شبہات واقع ہوگئے ہوں بلکہ وجہ اعتراضات کی محض شرارت اور طلب حق سے بےفکری ہے اور اس بےفکری اور شرارت کا سبب یہ ہے کہ) یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں ( اس لئے فکر انجام نہیں ہے جو جی میں آتا ہے کرلیتے ہیں بک دیتے ہیں) اور (انجام اس کا یہ ہوگا کہ) ہم نے ایسے شخص (کی سزا) کے لئے جو کہ قیامت کو جھوٹا سمجھے دوزخ تیار کر رکھی ہے (کیونکہ قیامت کی تکذیب سے اللہ و رسول کی تکذیب لازم آتی ہے جو اصل سبب ہے دوزخ میں جانے کا اور اس دوزخ کی یہ کیفیت ہوگی کہ) وہ (دوزخ) ان کو دور سے دیکھے گی تو ( دیکھتے ہی غضبناک ہو کر اس قدر جوش مارے گی کہ) وہ لوگ ( دور ہی سے) اس کا جوش و خروش سنیں گے اور (پھر) جب وہ اس (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دیئے جاویں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے (جیسا مصیبت میں عادت ہے کہ موت کو بلاتے اور اس کی تمنا کرتے ہیں اور اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو (کیونکہ موت کے پکارنے کی علت مصیبت ہے اور تمہاری مصیبت غیر متناہی ہے اور ہر مصیبت کا مقتضا موت کا پکارنا ہے تو پکارنا بھی کثیر ہو اور اسی کی کثرت کو موت کی کثرت کہا گیا) آپ (ان کو یہ مصیبت سنا کر) کہیے کہ ( یہ بتلاؤ کہ) کیا یہ (مصیبت کی) حالت اچھی ہے (جو کہ مقتضی ہے تمہارے کفر و انکار کا) یا وہ ہمیشہ کے رہنے کی جنت (اچھی ہے) جس کا خدا سے ڈرنے والوں سے ( یعنی اہل ایمان سے) وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کے لئے (ان کی اطاعت کا) صلہ ہے اور ان کا (آخری) ٹھکانا (اور) ان کو وہاں وہ سب چیزیں ملیں گی جو کچھ وہ چاہیں گے ( اور) وہ (اس میں) ہمیشہ رہیں گے (اے پیغمبر) یہ ایک وعدہ ہے جو (بطور فضل و عنایت کے) آپ کے رب کے ذمہ ہے اور قابل درخواست ہے (اور ظاہر ہے کہ جنت الخلد ہی بہتر ہے سو اس میں ترہیب کے بعد ترغیب ایمان کی ہوگئی) اور (وہ دن ان کو یاد دلائیے کہ) جس روز اللہ تعالیٰ ان (کافر) لوگوں کو اور جن کو وہ لوگ خدا کے سوا پوجتے تھے ( جنہوں نے اپنے اختیار سے کسی کو گمراہ نہیں کیا خواہ صرف بت مراد ہوں یا ملائکہ وغیرہ ہم بھی) ان (سب) کو جمع کرے گا پھر (ان معبودین سے ان عابدین کی رسوائی کے لئے) فرمادے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو (راہ حق سے) گمراہ کیا تھا یا یہ (خود ہی) راہ ( حق) سے گمراہ ہوگئے تھے ( مطلب یہ کہ انہوں نے تمہاری عبادت جو واقع میں گمراہی ہے تمہارے امر و رضا سے کی تھی جیسا ان لوگوں کا زعم تھا کہ یہ معبودین ہماری اس عبادت سے خوش ہوتے ہیں اور خوش ہو کر اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے یا اپنی رائے فاسد سے اختراع کرلی تھی) وہ (معبودین) عرض کریں گے کہ معاذ اللہ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم آپ کے سوا اور کارسازوں کو (اپنے اعتقاد میں) تجویز کریں (عام اس سے کہ وہ کار ساز ہم ہوں یا ہمارے سوا اور کوئی ہو۔ مطلب یہ کہ جب خدائی کو آپ میں منحصر سمجھتے ہیں تو ہم شرک کرنے کا ان کو امر یا اس پر رضا مندی کیوں ظاہر کرتے) و لیکن (یہ خود ہی گمراہ ہوئے اور گمراہ بھی ایسے نامعقول طور پر ہوئے کہ اسباب شکر کو انہوں نے اسباب کفر بنایا چنانچہ) آپ نے (تو) ان کو اور ان کے بڑوں کو (خوب) آسودگی دی ( جس کا مقتضی یہ تھا کہ نعمت دینے والے کو پہچانتے اور اس کا شکر و اطاعت کرتے مگر یہ لوگ) یہاں تک (شہوات وتلذّذات میں منہمک ہوئے) کہ (آپ کی) یاد (ہی) کو بھلا بیٹھے اور یہ لوگ خود ہی برباد ہوئے (مطلب جواب کا ظاہر ہے کہ دونوں شقوں میں سے اس شق کو اختیار کیا کہ یہ خود ہی گمراہ ہوئے ہم نے نہیں کیا۔ اور ان کی گمراہی کو اللہ کی بڑی نعمتیں ان پر مبذول ہونے کا ذکر کرے اور زیادہ واضح کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان عابدین کو لا جواب کرنے کے لئے جو اصل مقصود تھا سوال مذکور سے یہ فرماوے گا) لو تمہارے ان معبودوں نے تو تم کو تمہاری (سب) باتوں میں جھوٹا ( ہی) ٹھہرا دیا (اور انہوں نے بھی تمہارا ساتھ نہ دیا اور جرم پورے طور پر قائم ہوگیا) سو (اب) تم نہ تو خود (عذاب کو اپنے اوپر سے) ٹال سکتے ہو اور نہ (کسی دوسرے کی طرف سے) مدد دیئے جاسکتے ہو (حتی کہ جن پر پورا بھروسہ تھا وہ بھی صاف جواب دے رہے ہیں اور تمہاری صریح مخالفت کر رے ہیں) اور جو (جو) تم میں ظالم (یعنی مشرک) ہوگا ہم اس کو بڑا عذاب چکھائیں گے (اور گو اس وقت مخاطبین سب مشرک ہی ہوں گے مگر اس طرح فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ ظلم کا مقتضی عذاب ہونا بیان فرمانا مقصود ہے) اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بیھجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے (مطلب یہ کہ نبوت و اکل طعام وغیرہ میں تنافی نہیں چناچہ جن کی نبوت دلائل سے ثابت ہے گو معترضین اعتراف نہ کریں، ان سب سے اس کا صدور ہوا ہے پس آپ پر بھی یہ اعتراض غلط ہے) اور (اے پیغمبر اور اے تابعین ان کفار کے ایسے بیہودہ اقوال سے غمگین مت ہو کیونکہ) ہم نے تم (مجموعہ مکلفین) میں ایک کو دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے ( پس اسی عادت مستمرہ کے موافق انبیاء کو ایسی حالت پر بنایا کہ امت کی آزمائش ہو کہ کون ان کے حالات بشریہ پر نظر کرکے تکذیب کرتا ہے اور کون ان کے کملات نبوت پر نظر کرکے تصدیق کرتا ہے سو جب یہ بات معلوم ہوگئی تو) کیا تم ( اب بھی) صبر کرو گے ( یعنی صبر کرنا چاہئے) اور (یہ بات یقینی ہے کہ) آپ کا رب خوب دیکھ رہا ہے ( تو وقت موعود پر ان کو سزا دے گا، پھر آپ کیوں ہمّ و غم میں واقع ہوں)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَبٰرَكَ الَّذِيْٓ اِنْ شَاۗءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ۙ وَيَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا۝ ١٠ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) وہ ذات بڑی عالی شان ہے اس نے تو ان کفار کی فرمائش سے بھی اچھی چیز آپ کو دے دی، آخرت میں بہت سے باغات جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، شراب اور پانی کی نہریں بہتی ہیں اور جنت میں آپ کے لیے اس نے سونے اور چاندی کے بہت سے محلات تیار کردیے جو ان کفار کی اس فرمایش سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو آپ کے لیے دنیا میں بقول ان کے بنائے جاتے اور یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بقول ان کے آپ کے لیے دنیا میں بہت سے محلات اور باغات بنادے یعنی مشرق ومغرب میں آپ کے لیے بہت سے شہر اور قلعے فتح فرما دے جن سے یہ کفار رشک کریں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ تبرک الذی نزل الفرقان “۔ (الخ) ابن ابی شیبہ (رح) نے مصنف میں اور ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے خیثمہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں اور اس کے خزانے دے دیے جائیں اور اس دینے سے آخرت میں آپ کے درجات میں ہمارے یہاں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی اور اگر آپ فرمائیں تو یہ سب آخرت میں آپ کو دینے کے لیے جمع کر رکھیں آپ نے اس پر فرمایا آخرت میں مجھے دینے کے لیے جمع رکھیے چناچہ آیت اسی چیز کی تصدیق میں نازل ہوئی ہے ( آیت) ”۔ تبرک الذی “۔ (الخ) وہ ذات بہت عالی شان ہے اگر وہ چاہے تو آپ کو اس سے بہتر چیز دے دے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (تَبٰرَکَ الَّذِیْٓ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ ) ” یہ لوگ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی طرف سے بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں اور اپنے فہم و شعور کے مطابق مختلف چیزوں کے نام گنواتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فلاں آسائش میسر ہونی چاہیے اور فلاں چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصرف میں ہونی چاہیے۔ ان بےچاروں کو ہماری قدرت کا اندازہ ہی نہیں۔ ہم اگر چاہیں تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے کہیں بہتر ایسی چیزیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پیدا کردیں جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوں۔ (جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُلا وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا ) ” یہ لوگ تو ایک باغ کی بات کر رہے ہیں۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے باغات کے ان گنت سلسلے اور بیشمار محلات بنا سکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 Here again the word tabaraka has been used and in the context it means: "AIIah has full control over everything and has unlimited powers: if he wills to favour somebody, He can do so as and when He wills without Iet or h indrance. " .

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :19 یہاں پھر وہی تبارک کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بعد کا مضمون بتا رہا ہے کہ اس جگہ اس کے معنی ہیں بڑے وسیع ذرائع کا مالک ہے ۔ ‘’ غیر محدود قدرت رکھنے والا ہے ۔ اس سے بالا تر ہے کہ کسی کے حق میں کوئی بھلائی کرنا چاہے اور نہ کر سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠:۔ تفسیر سفیان ثوری ٢ ؎ اور تفسیر ابن ابی ٣ ؎ حاتم وغیرہ میں خیثمہ (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل ہے کہ مشرکین مکہ نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تنگدستی اور فقر وفاقہ کی طعن کی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیغام بھیجا تھا ‘ کہ اے رسول اللہ کے تم اگر دنیا کی تنگدستی سے گھبراتے ہو تو تمام روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں اللہ کے حکم سے تمہارے حوالہ ہوجاویں گی اور دنیا میں یہ خوشحالی دینے کے بعد تمہارے عقبیٰ کے مرتبہ میں اللہ تعالیٰ کچھ کمی نہ کرے گا ‘ اور اگر تمہاری مرضی ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا وعقبیٰ کی خوبی کا ذخیرہ تمہارے لیے عقبیٰ ہی میں رکھے گا ‘ دنیا چند روزہ ہے ‘ اس کو ہر طرح سے کاٹ دو ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پیغام کے جواب میں فرمایا کہ دنیا ہر طرح سے کٹ جاوے گی ‘ مجھ میں عقبیٰ میں ہر طرح کی خوبی کا ذخیرہ درکار ہے ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ خثیمہ بن الحارث قبیلہ اوس میں کے انصاری صحابہ میں ہیں ‘ احد کی لڑائی میں ان کی شہادت ہوئی ہے ‘ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگرچہ لوگوں کی خواہش دنیا کے عیش و آرام کی طرف مائل ہے اور ان کی خواہش کا پورا کرنا اللہ تعالیٰ چاہے تو اچھے لوگوں کے واسطے دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیوے لیکن دنیا کی خوبی اچھے لوگ چاہتے ہی نہیں بلکہ دنیا سے بچتے رہتے ہیں دنیا پر تو وہی لوگ مفتون ہیں جو عقبیٰ کے منکر ہیں اور ان کا مدار فقط دنیا کی زیست پر ہے اور عاقبت میں ان کے لیے دوزخ ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جس کسی کو جس قدر آخرت کا یقین زیادہ ہے ‘ اسی قدر وہ دنیا سے بیزار ہے ‘ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخرت کا جس قدر یقین تھا وہ بیان سے باہر ہے ‘ اسی واسطے باوجود پیغام الٰہی کے آپ نے دنیا کی خوشحالی کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ یہ بات معلوم تھی کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ‘ ان کو وہ دنیا میں پھنسانا پسند نہیں فرماتا چناچہ معتبر سند سے طبرانی ‘ صحیح ابن حبان میں رافع بن خدیج سے اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری سے جو روایتیں ١ ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اس کو دنیا سے اس طرح بچاتا ہے جس طرح کوئی رشتہ دار اپنے بیمار رشتہ دار کو بد پرہیزی سے بچاتا ہے ‘ معتبر سند سے طبرانی ‘ صحیح ابن حبان میں رافع بن خدیج سے اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری سے بیمار رشتہ دار کو بد پرہیزی سے چاتا ہے ‘ معتبر سند سے ترمذی میں ابوامامہ ٢ ؎ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے پہاڑوں کو سونے کے پہاڑ بنا کر ان کو میرے ساتھ رہنے کا حکم میری مرضی پر منحصر رکھا تھا لیکن میں نے اپنی مرضی یہ ظاہر کی کہ یا اللہ مجھ کو ایک دن کھانا ملے اور ایک دن فاقہ ہو تاکہ شکر اور صبر دونوں کے اجر کا مجھ کو موقع ملے۔ اوپر خیثمہ بن الحارث کی روایت سے شان نزول جو بیان کی گئی ‘ اس کو ان روایتوں سے پوری تقویت ہوجاتی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے ‘ جس میں وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام عمر میں کبھی دو دن ایسے نہیں گزرے ‘ جن میں پے درپے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کی روٹی پیٹ بھر کر کھائی ہو ‘ اس حدیث سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام عمر کے کھانے کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ اسی طرح کی صحیح حدیثیں آپ کے لباس کے باب میں ہیں۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٠ ج ٣۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٦٣ ج ٥۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ١٣٢ ج ٤ ) (٢ ؎ ایضا ص ١٥٣ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف ان کی سمجھ اتنی بات نہیں آتی کہ جس خالق کائنات نے ساری کائنات بنائی ہے وہ چاہتا تو ان کے اندازے سے زیادہ خوبصورت باغات جو ہمیشہ شاداب رہتے ، اور ان کی امیدوں سے بڑے دولت کے انبار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرما دیتا ، ان کی امیدوں سے زیادہ عالی شان محلات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بنا دیتا ، یہ اس کی حکمت کہ اس نے عام آدمی کی خوش نصیبی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مزاج عالی ہی ایسا بنایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام زندگی پسند فرماتے اور اپنی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں عام لوگوں ہی کی زندگی دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری انسانیت کے لیے اللہ جل جلالہ کی رحمت ہیں تو ہر عام آدمی کی رسائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ تک رہے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح سلطان ہوتے تو عام آدمی تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہی پہنچتا مگر سارے عرب کو فتح کرکے بہت بڑی اسلامی سلطنت بنا کر اس کے سلطان بن کر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ انداز مبارک اور رہن سہن عام آدمی کا تھا ۔ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا اثر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پسند بھی چاہی کہ ارشاد ہے اگر میں چاہتا تو پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلا کرتے مگر میں عام آدمی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثال دینے کے لیے بات کی مگر اس کا اثر یہ ہے کہ ان پہاڑوں میں واقعی سونا بھر گیا ، آج سب میں دریافت ہوچکا ہے بعض سے نکالا جا رہا ہے اور بعض کو محفوظ کردیا گیا ہے ۔ ان کا اصل مسئلہ آپ کا دولت مند ہونا یا عام زندگی اختیار کرنا نہیں ان کا مسئلہ قیامت کا انکار ہے اور انہیں روز آخرت پہ یقین نہٰں جب کہ قیامت کے منکرین کے لیے ہم نے دوزخ کا عذاب تیار کر رکھا ہے کہ قیامت کا انکار اللہ جل جلالہ کی عظمت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے انکار کا سبب بن رہا ہے لہذا یہ سارا وبال دوزخ کے عذاب کی صورت میں انہیں پیش آئے گا کہ جب اسے میدان حشر میں باہر سے دیکھیں گے تو اس کی گرج چمک اور دھاڑیں سن کر لڑزیں گے مگر دوزخ ہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کے تنگ و تاریک گوشوں میں پھینک دیئے جائیں اگے تب انہیں سمجھ آئے گی اور موت کی آرزو میں چلائیں گے ، آج کے دن ایک نہیں سینکڑوں موتوں کو پکارو اور ان کی آرزو کرو تب بھی یہاں موت آئے گی نہ یہاں سے چھوٹ سکو گے ان سے فرمائیے کیا یہ انجام بہتر ہے یا وہ انعامات جن کا وعدہ اللہ جل جلالہ کے نیک بندوں سے کیا گیا ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے شاداب باغوں میں ان کا قیام ہوگا ان کے ایمان اور صالح کردار کا خوبصورت بدلہ ، اور وہ ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے کبھی وہاں سے نکالے نہ جائیں گے نہ ان باغوں پہ خزاں کا گذرہو گا بلکہ وہاں جس شے کی تمنا کریں گے پالیں گے یہ تیرے پروردگار کا پکا وعدہ ہے ۔ اور بتوں کے پچاری یا غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو تو ایسا لاجواب کیا جائے گا کہ جن کی وہ عبادت کرتے تھے انہیں ان کے روبرو طلب فرمایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا اور اپنی عبادت پہ لگا لیا یا یہ بدبخت خود ہی گمراہ ہو کر اس میں مبتلا ہوگئے تو سب کہہ اٹھیں گے اے اللہ تو پاک ہے یعنی تیرا علم کامل ہے اور تو خوب جانتا ہے بھلا ہمیں یہ کب زیب دیتا تھا اور ہماری کیا جرات کہ تجھے چھوڑ کر تیری عظمت سے منہ موڑ کر اپنے کو یہ کسی بھی دوسرے کو مخلوق کا معبود یا کار ساز بناتے یہ تو تیری نعمتوں پہ شکر کرنے کی بجائے بگڑ گئے ، تو نے انہیں نعمتیں دیں ان کو ان کے آباؤ و اجداد کو مہلت دی ، یہاں تک کہ یہ غافل ہوتے چلے گئے اور تیری عظمت تیری یاد کو سرے سے بھلا بیٹھے یہی اس قوم کی ہلاکت اور تباہی کا باعث بنا یعنی تیری یاد سے غفلت نے انہیں غیر اللہ کی عبادت میں لگا دیا تو ارشاد ہوگا کہ لو اب تو جن کی عبادت کرتے رہے انہوں نے بھی تمہارے عقائد کے جھوٹا اور غلط ہونے کی گواہی دے دی اب تمہارے پاس نہ تو عذاب سے بچنے کے لیے کوئی عذر ہے اور نہ کسی اور پر ڈالنے کے لیے کوئی دلیل اور نہ ہی اب تمہاری مدد کو کوئی آسکتا ہے بلکہ تم میں سے جو پیشوا بنے ہوئے تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا باعث بنتے رہے جن سے تمہیں امید تھی کہ عذاب سے چھڑا لیں گے انہیں اور بھی بہت زیادہ عذاب ہوگا ، اپنے کرتوتوں کے ساتھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ، ان کے یہ سارے اعتراضات کوئی علمی یا عقلی حیثیت نہیں رکھتے اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو نبی اور رسول گذرے اور جن میں سے بعض کی نبوت کے یہ قائل بھی ہیں وہ بھی تو عام انسانی عادات ہی کے مطابق زندگی گذارتے تھے ، کھاتے پیتے بھی تھے اور کسب معاش بھی فرماتے تھے اور رب جلیل نے انسانوں کو ہی ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا باعث بنا دیا ہے امارت وغربت صحت وبیماری اختیار واقتدار یہ سارے فاصلے ایک ہی بات کو جانچنے کے لیے ہیں کہ اللہ کے کون سے بندے ثابت قدم رہتے ہیں اور انقلابات زمانہ سے سرخرو نکلتے ہیں اور تیرا پروردگار سب کچھ ملاحظہ فرما رہا ہے اور خود دیکھتا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ جو کچھ جنت میں ملے گا اگر اللہ چاہے تو آپ کو دنیا ہی میں دیدے لیکن بعض حکمتوں سے نہیں چاہا، اور فی نفسہ ضروری تھا نہیں، پس شبہ محض بیہودہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مطالبہ کا جواب۔ کفار نے محض حجت بازی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر آپ واقعی ہی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کے لیے ایسا باغ ہونا چاہیے جو اپنے پھل سے بھرا ہوا ہو۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ بڑی بابرکت ذات ہے اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے کفار کے مطالبہ سے کئی گنا بہتر آپ کو باغ عنایت فرما دے جس کے نیچے نہریں چل رہی ہوں یا اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کو اتنا مال عنایت کرے کہ جس سے آپ بڑے بڑے محلات تیار کرسکیں۔ لیکن اللہ نے آپ کے لیے یہی پسند فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے بہترین نمونہ بنیں نہ کہ لینڈ لارڈ ور سرمایہ دار کے طور پر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو یہ اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو بادشاہ نبی بن جائیں اگر چاہیں عبد اور اس کے رسول نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکمران نبی بننے کی بجائے اللہ کا بندہ اور رسول بننا پسند فرمایا تھا۔ ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ ! اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ ہوتے میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کی کمر کی لمبائی کعبہ کے برابر تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ عاجز انسان کی حیثیت سے نبی بننا چاہتے ہیں یا بادشاہ کی طرح۔ میں نے جبرائیل کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اپنے آپ کو اختیار کیجئے ! تو میں نے کہا کہ عاجز انسان کی حیثیت سے نبی بننا چاہتا ہوں۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بعد ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا آپ فرمایا کرتے تھے میں عاجز آدمی کی طرح کھانا کھانا اور بیٹھنا پسند کرتا ہوں۔ “ [ رواہ فی شرح السنۃ : باب تواضعہ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بابرکت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے نبی کو باغات اور محلات عنایت فرماتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” تبرک الذی الخ “ یہ دعوی سورت کا اعادہ ہے اور لف و نشر غیر مرتب کے طور پر چھٹے شکوے کا جواب ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو دولت کے خزانے اور باغات نہیں دئیے تو اس میں بھی اس کی حکمت پوشیدہ ہے وہ دنیا کے عوض آخرت میں آپ کو نہایت عمدہ باغات اور عالیشان محلات عطا کرے گا۔ ” بل کذبوا بالساعۃ الخ “ یہ ماقبل سے ترقی ہے اس میں مشرکین کے شکوے کی وجہ بتائی گئی ہے یعنی وہ چونکہ آخرت کے منکر ہیں اس لیے کہتے ہیں کہ پیغمبر کو دنیا میں دولت اور باغات کیوں نہیں دئیے گئے یا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف غیر اللہ کو برکات دہندہ سمجھتے ہیں بلکہ وہ تو قیامت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ” واعتدنا لمن کذب “ سے ” وادعوا ثبورا کثیرا “ تک منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) وہ ذات بڑی عالیشان ہے وہ اگر چاہے تو ان کافروں کے اس کہنے سے بھی آپ کو بہتر چیز دیدے وہ بہت سے باغ ہوں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں اور باغات کے علاوہ آپ کو بہت سے محل بھی عطا کردے یعنی اللہ تعالیٰ بہت بلند اور عالیشان ہے وہ اگر چاہے تو ایک باغ کیا بلکہ بہت سے باغات اپنے رسول کو عطا کردے اور جو چیز ان معاندین نے کہی بھی نہیں یعنی بہت سے محلات بھی دیدے لیکن ان شکوک و شبہات کا منشایہ نہیں کہ ان منکرین کو واقعی حق کی تحقیق منظور ہے بلکہ ان شبہات کا منشاء محض شرارت اور دین حق کی مخالفت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔