Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 12

سورة الفرقان

اِذَا رَاَتۡہُمۡ مِّنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ سَمِعُوۡا لَہَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیۡرًا ﴿۱۲﴾

When the Hellfire sees them from a distant place, they will hear its fury and roaring.

جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو یہ اس کا غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذَا رَأَتْهُم ... When it sees them, means, when Hell sees them, ... مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ... from a far place, means from the place of gathering (on the Day of Resurrection), ... سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا they will hear its raging and its roaring. means, (it will make those sounds) out of hatred towards them. This is like the Ayah, إِذَا أُلْقُواْ فِيهَا سَمِعُواْ لَهَا شَهِيقًا وَهِىَ تَفُورُ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الغَيْظِ When they are cast therein, they will hear the (terrible) drawing in of its breath as it blazes forth. It almost bursts up with fury. (67:7-8), which means that parts of it almost separate from other parts because of its intense hatred towards those who disbelieved in Allah. Imam Abu Jafar bin Jarir narrated that Ibn Abbas said: "A man will be dragged towards Hell, which will be expanding and contracting, and Ar-Rahman will say to it: `What is the matter with you!' It will say: `He is seeking refuge from me.' So Allah will say, `Let My servant go.' Another man will be dragged towards Hell and he will say, `O Lord, I never expected this from You.' Allah will say, `What did you expect!' The man will say, `I expected that Your mercy would be great enough to include me.' So Allah will say, `Let My servant go.' Another man will be dragged towards Hell, and Hell will bray at him like a donkey braying at barley. Then it will give a moan that will instill fear in everyone." Its chain of narrators is Sahih. ... سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا they will hear its raging and its roaring. Abdur-Razzaq recorded that Ubayd bin Umayr said: "Hell will utter a moan such that there will be no angel who is close to Allah and no Prophet sent to mankind, but he will fall on his face, shaking all over. Even Ibrahim, peace be upon him, will fall to his knees and say: `O Lord, I do not ask You for salvation this Day except for myself."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِذَآ اُلْقُوْا فِيْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِيْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ ۝ ۙ تَكَادُ تَمَــيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ) 67 ۔ الملک :8-7) ' ' جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی ' جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے استعمال کے لئے ہم نے جہنم کی بھڑکتی آگ کو پہلے سے ہی تیار کر رکھا ہے جب وہ اپنا شکار دیکھے گی تو فوراً جوش میں آجائے گی اور آگ کی لپٹوں کی تیزی و تندی کی وجہ سے اس میں سے کئی طرح غضبناک آوازیں اور پھنکاریں پیدا ہونے لگیں گی اور اس کی یہ آواز سن کر ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہی پتے پانی ہوجائیں گے۔ اس آیت میں جہنم کے لئے دیکھنے کا فعل یا تو مجازاً استعمال ہوا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا گھر تو ایک عرصہ سے آپ کی راہ تک رہا ہے یا حقیقی معنوں میں بھی ہوسکتا ہے جسکا مطلب یہ ہوتا کہ جہنم کی آگ میں شعور بھی ہوگا اور جو کوئی جتنا زیادہ مجرم ہوگا، اسی قدر وہ اس پر بپھرے گی اور اسی قدر تندی سے اسے جلائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ۔۔ : جہنم جب ان کافروں کو بہت دور سے دیکھے گی تو وہ جہنم کی ایسی آواز سنیں گے جو شدید غصے والی اور گدھے کی آواز جیسی ہوگی۔ اس وقت جہنم کے غصے کا حال سورة ملک (٦ تا ٨) میں بیان ہوا ہے۔ اس سے جہنم کا صاحب شعور ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی آیات و احادیث سے جہنم کا صاحب شعور ہونا، غصے ہونا، گدھے جیسی آواز نکالنا، کلام کرنا سب کچھ ثابت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ ) [ ق : ٣٠ ] ” جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے ؟ “ اور صحیح بخاری میں جنت اور جہنم کے آپس میں جھگڑنے کا ذکر آیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے جہنم کے اندر قدم (پاؤں) رکھنے پر اس کے قط قط (بس بس) کہنے کا ذکر ہے۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و تقول ھل من مزید ) : ٤٨٤٨، ٤٨٤٩ ] اور بخاری ہی میں جہنم کے اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید گرمی کی شکایت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سال میں دو سانس نکالنے کی اجازت ملنے کی حدیث موجود ہے۔ [ دیکھیے بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنہا مخلوقۃ : ٣٢٦٠ ] جہنم کے شعور، اس کی تندی اور سرکشی کے لیے دیکھیے سورة فجر (٢٣) کی تفسیر۔ بعض عقل پرست حضرات ان تمام آیات و احادیث کو مجاز پر محمول کرتے ہیں، مگر اہل السنہ اسے حقیقت مانتے ہیں، کیونکہ مجاز اس وقت مانا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو۔ اللہ تعالیٰ کا جہنم کو شعور، رؤیت اور کلام عطا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر بےجان حنانہ (ستون) کے رونے کی آواز صحابہ کرام (رض) سن سکتے ہیں تو جہنمی جہنم کے غصے کی آواز کیوں نہیں سن سکتے اور جہنم انھیں دور سے کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟ اور اگر اللہ تعالیٰ گوشت کے ایک ٹکڑے (زبان) کو بولنے کی قوت عطا کرسکتا ہے تو وہ کسی بھی چیز میں یہ قوت کیوں پیدا نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ میں غرقد کے سوا ہر درخت اور پتھر مومن کو بول کر بتائے گا کہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ [ دیکھیے مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی۔۔ : ٢٩٢٢ ] اور ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِْنْسَ ، وَ حَتّٰی تُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَ شِرَاکُ نَعْلِہِ وَ تُخْبِرُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ٢١٨١، وقال الألباني صحیح ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا سرا اور جوتے کا تسمہ کلام کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے اہل نے اس کے بعد کیا گناہ کیا ہے۔ “ عقل پرست حضرات ان تمام مقامات پر تاویل کرتے جائیں تو اکثر آیات و احادیث کھلونا بن کر رہ جائیں گی، جن سے یہ لوگ جس طرح چاہیں گے کھیلیں گے اور جو مطلب چاہیں گے نکالتے رہیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا۝ ١٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ غيظ الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] . قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] . ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔ زفر قال : لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء/ 100] ، فَالزَّفِيرُ : تردّد النّفس حتی تنتفخ الضّلوع منه، وازْدَفَرَ فلان کذا : إذا تحمّله بمشقّة، فتردّد فيه نفسه، وقیل للإماء الحاملات للماء : زَوَافِرُ. ( ز ف ر ) الزفیر اس کے اصل معنی سانس کی اس قدر تیزی سے آمد وشد کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء/ 100] ان کے لئے اس میں چیخنا ہے ۔ ازد فر ( افتعال ) فلان کذا کسی چیز کو مشقت سے اٹھانا جس سے سانس پھول جائے ۔ اس لئے پانی لانے والی لونڈیوں کو زوافر کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور جب وہ دوزخ ان کو پانچ سو سال کی مسافت سے دیکھے گی تو یہ لوگ دور ہی سے اس کا جوش و خروش سنیں گے یعنی وہ غصہ میں انسان کی طرح غضب ناک ہوگی اور گدھے کی طرح چیخے گی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا ) ” جہنم جب دور سے ہی ایسے مجرموں کی صورت میں اپنے شکار کو آتے دیکھے گی تو غضبناک ہو کر جوش مارے گی اور اس کے دھاڑنے اور پھنکارنے کی خوفناک آوازوں کو مجرم لوگ بہت دور سے سن سکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 "The Fire will see them" The words used in the Text may be metaphorical, or they may mean that the Fire of Hell will be endowed with the faculties of seeing, thinking and judging .

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :22 آگ کا کسی کو دیکھنا ممکن ہے کہ استعارے کے طور پر ہو ، جیسے ہم کہتے ہیں ، وہ جامع مسجد کے مینار تم کو دیکھ رہے ہیں ، اور ممکن ہے ، حقیقی معنوں میں ہو ، یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہ ہو بلکہ دیکھ بھال کر جلانے والی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:12) رأتہم۔ رأت ماضی واحد مؤنث غائب جس کا مرجع سعیرا ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب جس کا مرجع کفار ہیں جن کا اوپر ذکر ہورہا ہے (جب ) وہ دوزخ (کی دہکتی ہوئی) آگ ان کو دیکھے گی۔ تغیظا۔ تفعل کے وزن پر مصدر ہے غصہ کھانا۔ جھنجھلانا۔ اظہار غیظ وغضب ۔ جوش مارنا تنوین تفخیم (شدت و بڑائی کے اظہار) کے لئے ہے۔ زفیرا۔ چلانا۔ چنگھاڑنا۔ بروزن فعیل مصدر ہے۔ یہاں بھی تنوین تفخیم کے لئے ہے۔ سمعوا لھا تغیظا وزفیرا۔ وہ اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سنیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ ممکن ہے دوزخ کا یہ دیکھنا ” ظھرت لھم “ کے معنی میں ہو یعنی جب دوزخ ان کے سامنے ظاہر ہوگی اور انہیں نظر آئیگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں حقیقتاً دیکھنے کی قوت پیدا کر دے آخرت میں دوزخ کا کلام کرنا بھی تو ثابت ہی ہے۔ فتقول ھل من فرید۔ ( سورة ق :30) 12 ۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لایا جائیگا تو اسے دیکھ کر جہنم اس شوق ورغبت سے بلائے گی جیسے جو کو دیکھ کر خچر آواز نکالتا ہے۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” اذا راتھم الخ “ یہ آتش جہنم کی شدت کا بیان ہے۔ ” رات “ کی ضمیر جہنم کی طرف راجع ہے۔ قیامت کے دن جب جہنم کی آگ دور سے دوزخیوں کے سامنے ہوگی اور وہ اسے دیکھ لیں گے تو اس کا غیظ و غضب اس قدر جوش میں آجائے گا کہ وہ دور ہی سے اس کی غضبناک آوازیں اور خوفناک پھنکاریں سن کر دہشت زدہ ہوجائیں گے ” زفیر “ سے آتش جہنم کی وہ خوفناک آواز مراد ہے جو اس کے شدید جوش اور غلیان سے پیدا ہوگی۔ سمعوا صوت طیبھا واشتعالھا (بحر ج 6 ص 485) ۔ ” واذا القوا منہا الخ “ ” مکانا “ مفعول فیہ ہے اور ” منھا “ اس سے حال مقدم ہے۔ ای فی مکان فھو منصوب علی الظرفیۃ و (منھا) حال منہ (روح ج 18 ص 243) ۔ ” مقرنین “ القوا کے نائب فاعل سے حال ہے ” ثبورا “ ہلاکت اور موت، جب مجرموں کو زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی نہایت تنگ کوٹھڑیوں میں ڈال دیا جائے گا تو وہ مضطربانہ موت کو پکاریں گے تاکہ ان کی زندگیوں کا خاتمہ ہوجائے اور وہ عذاب سے بچ جائیں۔ ” لا تدعو الیوم ثبورا واحدا الخ “ ان کے جواب میں فرشتے کہیں گے یعنی ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں، دن میں ہزار بار مرنے سے بد تر حال ہوتا ہے (موضح القرآن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) جب وہ دوزخ کی آگ ان دین حق کے منکروں کو دیکھے گی تو یہ بد دین اس کی غضبت آلود آواز اور اس کے چلا نے اور اس کے جوش و خروش کو سنیں گے یعنی قیامت کے دن جب دوزخ ان کو دور سے دیکھے گی تو یہ دور ہی سے اس کے جھنجھلانے اور اس کے شوروغل کو سنیں گے تکاد تمیز من الغیظ