Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 13

سورة الفرقان

وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾

And when they are thrown into a narrow place therein bound in chains, they will cry out thereupon for destruction.

اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دیئے جائیں گے تو وہاں اپنے لئے موت ہی موت پکاریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ ... And when they shall be thrown into a narrow place thereof, chained together, Qatadah narrated from Abu Ayyub that Abdullah bin `Amr said: "Like the point of a spear, i.e., in its narrowness." Abu Salih said, مُقَرَّنِينَ (chained together), "This means, tied from their shoulders." ... دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا they will exclaim therein for destruction. means, they will utter cries of woe, regret and sorrow. لاَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] یعنی جہنم میں ہر مرجم معاند کے لئے اتنی تنگ جگہ ہوگی جہاں سے وہ ہل بھی نہ سکے گا۔ علاوہ ازیں ایک ہی نوعیت کے کئی کئی مجرم ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ جہنم کے غیظ و غضب کی لپٹیں انھیں ہر طرف گھیرے ہوں گی۔ اس وقت وہ اس مصیبت سے گھبرا کر موت کو پکاریں گے کہ کاش موت آکر ہماری ان درد ناک مصیبتوں کا خاتمہ کردے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا ۔۔ :” مُّقَرَّنِيْنَ “ ” قَرَنَ الثَّوْرَیْنِ “ (ض) اس نے دو بیل ایک لکڑی میں اکٹھے جوڑ دیے۔ ” قَرَنَ الْبَعِیْرَیْنِ “ اس نے دو اونٹ ایک رسی میں اکٹھے باندھ دیے۔ ” مُّقَرَّنِيْنَ “ باب تفعیل سے اسم مفعول ہے، اس میں باندھنے کی شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس سے دو چیزوں کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے، ایک ان کے ہاتھوں، پاؤں اور گردنوں کا زنجیروں سے بندھا ہوا ہونا اور دوسرا ایک قسم کے کئی مجرموں کا ایک ہی جگہ ہونا۔ (دیکھیے نمل : ٨٣۔ حم السجدہ : ١٩) یعنی جہنم میں ہر مجرم کے لیے اتنی تنگ جگہ ہوگی جہاں سے وہ ہل بھی نہیں سکے گا، اس کے علاوہ ایک ہی قسم کے کئی مجرم ایک ساتھ ہوں گے۔ (دیکھیے ابراہیم : ٤٩۔ ہمزہ : ٨، ٩) جہنم کی آگ کی لپیٹیں انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گی، اس وقت وہ سخت مصیبت سے گھبرا کر موت کو پکاریں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں، دن میں ہزار بار مرنے سے بدتر حال ہوتا ہے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا ہُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝ ١٣ۭ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ ضيق الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] ( ض ی ق ) الضیق والضیق کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔ قرن ( ملنا) الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ ثبر الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی: دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل «1» . ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة . ( ث ب ر ) الثبور ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) اور جب یہ لوگ اس دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں شیاطین کے ساتھ ہاتھ پیر جکڑ کر ڈال دیے جائیں گے تو اس تنگ جگہ میں یہ موت ہی موت پکاریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا ) ” اس وقت وہ دعا کریں گے کہ انہیں موت آجائے۔ شعور کی زندگی کا قصہ تمام ہو اور انہیں نسیاً منسیاً کردیاجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:13) القوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب القاء (افعال) مصدر۔ وہ ڈالے جائیں گے (ماضی بمعنی مضارع) ۔ منھا۔ ای من النار مکانا ضیقا۔ موصوف وصفت ۔ تنگ مکان۔ تنگ جگہ۔ دونوں منصوب بوجہ اسم ظرف ہونے کے۔ اذا القوا منھا مکانا ضیقا۔ ای اذا القوا فی مکان ضیق منھا۔ جب وہ ڈالے جائیں گے جہنم کی کسی تنگ جگہ میں۔ مقرنین۔ اسم مفعول جمع مذکر منصوب مقرن واحد تقرین (تفعیل) مصدر۔ جکڑے ہوئے۔ کس کر باندھے ہوئے۔ الاقتران۔ ازدواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں۔ جیسے اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین (43:53) یا یہ ہونا کہ فرشتے جمع ہوکر اس کے ساتھ آتے۔ قرنت البعیر مع البعیر میں نے ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھ دیا۔ جس رسی کے ساتھ باندھا جاتا ہے اس کو قرن کہتے ہیں۔ قرنتہ باب تفعیل میں آئے تو مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن مجید میں ہے واخرین مقرنین فی الاصفاد۔ (38:38) اور ادروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ دعوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ اصل میں دعو وا تھا۔ وائو متحرک ماقبل مفتوح اس لئے وائو کو الف سے بدلا۔ اب الف اور وائو دو ساکن جمع ہوئے اس لئے الف حذف ہوگیا۔ اور دعوا رہ گیا۔ دعاء مصدر۔ (باب نصر) ۔ ھنالک۔ اسم ظرف زمان واسم ظرف مکان۔ وہاں۔ اس جگہ۔ اس وقت۔ ثبورا۔ ثبر یثبر (نصر) کا مصدر ہے۔ موت، ہلاکت، مرجانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ یعنی دہائی دینگے کہ کاش ہمیں موت آجائے اور ہم اس سے نجات پائیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا اللہ کی قسم، وہ آگ میں ایسے ٹھونسے جائیں گے جیسے لکڑی میں کیل ٹھونکی جاتی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) اور جب یہ منکر اس دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پائوں جکڑ کے ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت کو پکاریں گے۔