Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 15

سورة الفرقان

قُلۡ اَذٰلِکَ خَیۡرٌ اَمۡ جَنَّۃُ الۡخُلۡدِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ کَانَتۡ لَہُمۡ جَزَآءً وَّ مَصِیۡرًا ﴿۱۵﴾

Say, "Is that better or the Garden of Eternity which is promised to the righteous? It will be for them a reward and destination.

آپ کہہ دیجئے کہ کیا یہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے ، جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is the Fire better, or Paradise Allah says: قُلْ أَذَلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاء وَمَصِيرًا Say: "Is that better or the Paradise of Eternity which is promised to those who have Taqwa!" It will be theirs as a reward and final destination. Here Allah says: `O Muhammad, this that We have described to you about the state of those who are doomed, who will be dragged on their faces to Hell, which will receive them with a scowling face, with hatred and moans. There they will be thrown into their constricted spaces, tied up to their shoulders, unable to move or call for help, and unable to escape their plight --- is this better, or the eternal Paradise which Allah has promised to the pious among His servants, which He has prepared for them as a reward and ultimate destiny in return for their obedience to Him in this world!'

ابدی لذتیں اور مسرتیں اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت وخواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھیسٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے ۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ وتاریک جگہ ہوں گے ، نہ چھوٹ سکیں نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں نہ نکل سکیں ۔ پھر فرماتا ہے بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بجتے رہے اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ابدی لذتیں دائمی مسرتیں ان کے لئے موجود ہیں عمدہ کھانے ، اچھے بچھونے ، بہترین سواریاں ، پر تکلف لباس بہتر بہتر مکانات ، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر ، ان کے لئے مہیا ہیں جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے ۔ پھر ان کے کم ہوجانے ، خراب ہوجانے ، ٹوٹ جانے ، ختم ہوجانے ، کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں کم ہوں ۔ لازوال ، بہترین زندگی ، ابدی رحمت ، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہوگئی ۔ یہ رب کا احسان وانعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے ۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے ، جس کا غلط ہونا محال ہے ۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو ، اس سے جنت طلب کرو ، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا ۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے آج تو اپناوعدہ پورا کر ۔ یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا ۔ سورہ صافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لئے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ ملا جلا پینے کو دیا جائے گا پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151یہ، اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جو کفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ و اطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ و اطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] اس آیت میں ایک ایماندار اور ایک کافر کے انجام کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ یعنی روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا کے متعلق ایک یہ امکان ہے کہ فی الواقعہ ایک حقیت ہے اور وہ واقع ہو کے رہے گی اور دوسرا امکان یہ ہے کہ شاید یہ سب کچھ۔۔ ہی ہو۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آسکتیں۔ اب وہ شخص جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اس دنیا میں نہایت محتاط اور اللہ سے ڈر کر زندگی گزار رہا ہے۔ اگر بالفرض روز آخرت نہ ہو تو اس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ اور اگر قیامت قائم ہوئی تو اس کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ سب احوال قیامت اس کی توقع کے مطابق اس کے لئے خوشی کا باعث ہوں گے کیونکہ اس نے روز آخرت کے احوال کو ملحوظ رکھ کر ہی زندگی گزاری تھی۔ اب اس کے مقابل کافر کا انجام یہ ہے کہ اس کی توقع کے خلاف قیامت قائم ہوگئی۔ تو اسے ایسے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کے کبھی وہم وخیال میں نہ آیا ہوگا۔ دنیا تو ان دونوں کی ایک جیسی گزری۔ دونوں کو اس دنیا میں راحت بھی نصیب ہوئی اور غم بھی۔ برے دن بھی آئے اور بھلے بھی۔ دنیا میں نہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے والا بہرحال آسودہ اور خوشحال رہے گا اور نہ ہی ضرورت ہے کہ ایماندار ساری زندگی مشکلات میں ہی گزارے۔ لیکن انجام بہرحال آخرت پر ایمان رکھنے والے کا بہتر ہوگا۔ روز آخرت پر ایمان رکھنے کی افادیت پر یہ ایک ایسی عقلی دلیل ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ ۔۔ : یعنی آپ ان مشرکوں سے کہیں کہ اس طرح جکڑے ہوئے جہنم کی تنگ جگہ میں ہر وقت موت کی آرزو کرتے رہنا بہتر ہے، یا جنت خلد (ہمیشگی کی جنت) ؟ یہ سوال پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ڈانٹنے کے لیے ہے، کیونکہ جنت اور جہنم کے درمیان بہتر ہونے کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ : متقی سے مراد وہ شخص ہے جو کم از کم شرک سے بچے، اس کے بعد گناہ سے بچنے کے لحاظ سے متقین کے بیشمار درجے ہیں اور حسب مراتب سب کے ساتھ جنت کا وعدہ ہے۔ البتہ مشرک کبھی جنت میں نہیں جائے گا، فرمایا : ( ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ۭوَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) [ المائدۃ : ٧٢ ] ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے، سو یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝ ٠ۭ كَانَتْ لَہُمْ جَزَاۗءً وَّمَصِيْرًا۝ ١٥ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مکہ والوں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں سے فرمائیے کیا یہ مصیبت وموت اور یہ دوزخ کی حالت اچھی ہے یا وہ ہمیشہ رہنے کی جنت اچھی ہے جس کا کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والوں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی جنت ان کے لیے صلہ ہے اور ان کا آخرت میں ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(کَانَتْ لَہُمْ جَزَآءً وَّمَصِیْرًا ۔ ) ” وہ ان کے اعمال کا بدلہ اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ١٦:۔ اوپر منکرین قیامت کا اور ان کے لیے دوزخ کے تیار کئے جانے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ‘ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ان کے انکار سے اللہ تعالیٰ کا انتظام تو پلٹنے والا نہیں ‘ اب ان لوگوں کو یہ بتلانا چاہیے کہ انتظام الٰہی کے موافق وقت مقررہ پر جب قیامت قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق ان کو اس دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جاوے گا جو ایسے لوگوں کے لیے اس طرح دھکائی گئی ہے کہ اس کی تیزی دنیا کی آگ سے انہتر حصہ زیادہ ہے تو یہ دوزخ کی آگ بہتر ہے یا پرہیز گار لوگوں سے جس جنت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ بہتر ہے ‘ صحیح بخاری ١ ؎ ومسلم سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ دوزخ کی آگ کی تیزی دنیا کی آگ سے انہتر حصے زیادہ ہے ‘ پھر فرمایا یہ جنت وہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت پرہیز گار لوگوں سے کیا ہے جس وعدہ کے پورے ہونے کی دعا پرہیز گار لوگ مانگتے رہتے ہیں ‘ صحیح بخاری ٢ ؎ ومسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) اور ابو سعید خدری (رض) سے جو روایتیں ٣ ؎ ہیں ان میں جنت کی نعمتوں کے فنا نہ ہونے کا اور جنتیوں کے ہمیشہ جنت کے عیش و آرام میں رہنے کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ نیک کام میں لگے رہنے اور برے کام سے بچنے کو پرہیزگاری کہتے ہیں ‘ صحیح ٤ ؎ بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس شخص کے مزاج میں پرہیزگاری زیادہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی عزت زیادہ ہے ‘ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ پرہیزگار لوگوں سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پرہیزگاری ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے سبب سے آدمی دوزخ کے عذاب کی ذلت سے بچ کر جنت میں داخل ہونے کی عزت حاصل کرسکتا ہے اور اس کے سو درجے پیدا کئے ہیں ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی کی عبادہ بن صامت کی حدیث ٥ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب صفۃ النا رواہلہا ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٥٦٤ ج ٤ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٦ باب صفۃ الجنۃ واہلہا ) (٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٤١٧ باب المفاخرۃ والعصبیۃ ) (٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٦ باب صنقہ الجنۃ واہلہا۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:15) اذلک ہمزہ استفہام کے لئے ہے۔ ذلکمشار الیہ النار ہے۔ جنۃ الخلد۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمیشہ رہنے والی جنت۔ الخلد مصدر۔ ہمیشگی دوام۔ بقا خلد یخلد (نصر) سے۔ کانت فعل ناقص۔ ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل جنت کی طرف راجع ہے۔ لہم ای للمتقین۔ جزائ۔ نیک عمل کا صلہ۔ مصیرا۔ لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانہ ۔ قرار گاہ۔ جزاء ومصیرا دونوں منصوب بوجہ خبر کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کے انجام سے آگاہ کرنے کے بعد ان سے ایک سوال کیا گیا ہے۔ کفار کو ان کا خوفناک انجام بتلانے کے بعد استفسار کے انداز میں بتلایا گیا ہے کہ اے کفر کرنے والو ! بتلاؤ کہ جہنم کی سزائیں اور ہولناکیاں بہتر ہیں یا ہمیشہ رہنے والی جنت بہتر ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے ساتھ کر رکھا ہے جو اجر اور رہنے کے اعتبار سے بہترین مقام ہے متقین اس جنت میں جو چاہیں گے سو پائیں گے یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا ظاہر بات ہے کہ جنت ہی بہترین مقام اور رہنے کی جگہ ہے۔ جنت اور جہنم : (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَوَّلَ زُمْرَۃٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ کَاَشَدِّ کَوْکَبٍ دُرِّیٍٍٍٍّ فِیْ السَّمَاءِ اِضَاءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لَا اخْتِلَافَ بَیْنَھُمْ وَلَا تَبَاغُضَ لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْھُمْ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْ قِھِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا لَایَسْقَمُوْنَ وَلَا یَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ اٰنِیَتُھُمُ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ وَاَمْشَاطُھُمُ الذَّھَبُ وَوُقُوْدُ مَجَامِرِھِمُ الْاُلُوَّۃُ وَرَشْحُھُمُ الْمِسْکُ عَلٰی خَلْقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْھِمْ اٰدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ السَّمَاءِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیفَۃً )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ پھر جو ان کے بعد داخل ہونے والے، یہ آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ جن کے حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا ‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے ‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ “ جہنم کی کیفیّت : (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ “ مسائل ١۔ متقین کے رہنے کے لیے جنت بہترین مقام ہے۔ ٢۔ متقین جنت میں جو چاہیں گے پائیں گے۔ ٣۔ متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ٤۔ جہنم ہر اعتبار سے اذیّت ناک اور بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جہنم میں فرق کی ایک جھلک : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی۔ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج : ٧٢) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قُلْ اَذٰلِکَ خَیْرٌ) (الآیۃ) یعنی آپ فرمادیجیے کہ یہ دوزخ اور اس کا عذاب بہتر ہے یا وہ جنت بہتر ہے جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ جنت متقیوں کو ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر دی جائے گی اور یہ لوگ انجام کے طور پر اس میں جائیں گے وہی ان کا مقام ہوگا اور اسی میں رہیں گے صرف رہنا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی بڑی نعمتوں سے سر فراز کیے جائیں گے وہاں جو چاہیں گے وہ عطا کیا جائے گا وہاں نفسوں کی خواہش کے مطابق زندگی گزاریں گے اور زندگی بھی ابدی اور دائمی ہوگی اس کے بر عکس کسی دوزخی کی کوئی بھی خواہش پوری نہیں کی جائے گی سورة سبا میں فرمایا۔ (وَ حِیْلَ بَیْنَھُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَھُوْنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِھِمْ مِّنْ قَبْلُ اِنَّھُمْ کَانُوْا فِیْ شَکٍّ مُّرِیْبٍ ) (اور ان کے اور ان کی خواہشوں کے درمیان آڑ کردی جائے گی جیسا کہ اس سے پہلے ان کے ہم مشرب کافروں کے ساتھ کیا گیا بلاشبہ وہ بڑے شک میں تھے جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا تھا) مزید فرمایا (کَانَ عَلٰی رَبِّکَ وَعْدًا مَّسْءُوْلاً ) یہ جو جنت کی نعمتیں اہل تقویٰ کو دی جائیں گی اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا پورا کرنا اپنے ذمہ کرلیا ہے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے رہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اپنے انعام سے نوازے۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں (اُولُو الْاَلْبَابِ ) (عقلمندوں) کی دعاء نقل فرمائی ہے۔ (رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) (اے ہمارے رب اپنے رسولوں کی زبانی جو آپ نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اس کے مطابق ہمیں عطا فرما دیجیے اور قیامت کے دن ہمیں عطا فرما دیجیے اور قیامت کے دن ہمیں رسوانہ فرمائیے بیشک آپ وعدہ خلاف نہیں فرماتے) ۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ اس کے پورا ہونے کی دعا کرنا شک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی حاجت کا اظہار کرنے اور دعا کی فضیلت ملنے اور مناجات کی لذت حاصل کرنے کے لیے ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” قل اذلک خیر “ تا ” وعدا مسئولا “ بشارت اخروی ہے اور استفہام تنبیہ کے لیے ہے۔ کیا یہ دردناک عذاب اچھا ہے یا وہ جنت جس کا شرک اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے والوں سے وعدہ کیا گیا ہے جو انہیں بطور جزاء ملے گا اور جس میں ان کا آخر کار ٹھکانا ہوگا ؟ ہر ذی عقل فیصلہ کرسکتا ہے کہ جنت ہی بہتر ہے۔ اس لیے ہر دانشمند کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جو جنت کی طرف لے جائے۔ ” لھم فیھا الخ “ جنت کے مزید عیش و آرام کا بیان ہے اس میں اہل جنت کو ہر چیز ملے گی اور ان کی ہر خواہش پوری ہوگی۔ ” خالدین “ مذکورہ بالا ضمائر میں سے کسی ایک سے حال ہے۔ ترجیح اس کو ہے کہ ” یشاءون “ کی ضمیر سے حال ہو (مدارک) ۔ ” وعدا مسئولا “ اللہ تعالیٰ مالک حقیقی اور غنی وحمید ہے اس لیے اس پر کسی چیز کی مسئولیت عائد نہیں ہوتی لہذا مسئولیت یہاں وعدے کی عظمت سے کنایہ ہے یا مطلب یہ ہے کہ وعدہ اس لائق ہے کہ لوگ اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کریں۔ مسوئلیۃ کنایۃ عن کونہ امرا عظیما ویجوز ان یراد کون الموعود مسئولا حقیقۃ بمعنی یسالہ الناس فی دعائھم بقولھم ربنا اتینا ما وعدتنا علی رسلک الخ (روح ج 18 ص 247) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) آپ ان سے فرمائیے اور آپ ان سے دریافت کیجئے بھلا یہ مصیبت کی حالت اور یہ دوزخ کا عذاب بہتر ہے یا وہ دائمی جنت اچھی ہے جس کا اہل تقویٰ اور پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ جنت ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کا صلہ اور ان کا آخری ٹھکانہ ہوگا اور ان کے بازگشت کی جگہ ہوگی۔