Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 17

سورة الفرقان

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَقُوۡلُ ءَاَنۡتُمۡ اَضۡلَلۡتُمۡ عِبَادِیۡ ہٰۤؤُلَآءِ اَمۡ ہُمۡ ضَلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ۱۷﴾

And [mention] the Day He will gather them and that which they worship besides Allah and will say, "Did you mislead these, My servants, or did they [themselves] stray from the way?"

اور جس دن اللہ تعالٰی انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے ، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The gods of the Idolators will disown Them on the Day of Resurrection Allah tells us about what will happen on the Day of Resurrection, when those whom the idolators used to worship instead of Allah, angels and others, will rebuke them. Allah says: وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ... And on the Day when He will gather them together and that which they worship besides Allah. Mujahid said, "This means `Isa, `Uzayr and the angels." ... فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَوُلاَء ... He will say: "Was it you who misled these My servants..." Allah will say to those who were worshipped: `Did you call these people to worship you instead of Me, or was it their own idea to worship you, without any call to that on your part!' This is like the Ayah, وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَءَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَـنَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـمُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَأ أَمَرْتَنِى بِهِ And when Allah will say: "O `Isa, son of Maryam! Did you say unto men: `Worship me and my mother as two gods besides Allah!"' He will say: "Glory be to You! It was not for me to say what I had no right (to say). Had I said such a thing, You would surely have known it. You know what is in my inner self though I do not know what is in Yours; truly, You, only You, are the All-Knower of all that is hidden. Never did I say to them aught except what You did command me to say." (5:116-117) ... أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ...or did they stray from the path!" Describing how those who were worshipped will respond on the Day of Resurrection, Allah says:

عیسیٰ علیہ السلام سے سوالات بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی ۔ سب اسی مجمع میں موجود ہوں گے ۔ اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہوگا ۔ جس کا وہ جواب دیں گے کہ میں نے انہیں ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے ۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سواکسی اور کی عبادت کریں ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی ۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کر دی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں ۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں ۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آجاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا ، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔ چنانچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے ۔ نتخذ کی دوسری قرأت نتخذ بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا ، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں ۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں ۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے ۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں ، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا ۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے ۔ یہ لوگ تھے یہ بےخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گر پڑے ۔ تباہ وبرباد ہوگئے بورا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں ۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنا دیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے ، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کررہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) ، یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہوجائیں گے ۔ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے ۔ تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح (علیہما السلام) اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہونگے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ ! تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو اور ان سب کو اکٹھا کرے گا جن کی وہ پرستش کرتے رہے تھے۔ ان میں فرشتے بھی ہوں گے، انبیاء بھی، جیسے عیسیٰ اور عزیر (علیہ السلام) اور اللہ کے کئی دوسرے نیک بندے بھی، حیوانات بھی ہوں گے، جیسے گائے، سانپ اور بندر وغیرہ، نباتات بھی ہوں گے، جیسے بیل وغیرہ اور جمادات بھی ہوں گے، جیسے بت وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ بےشعور اور بےجان چیزوں کو بھی شعور اور بولنے کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا یہ خود ہی سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے ؟ 3 اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پہلے ہی علم ہے، اس سوال سے مقصود ایک تو غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو لاجواب اور ذلیل و رسوا کرنا ہوگا، دوسرا ان کی پاک باز ہستیوں کی زبانی شرک سے بےزاری کا اعلان ہوگا۔ ” وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ میں لفظ ” مَا “ استعمال ہوا ہے، جو عموماً غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے، حالانکہ وہ انبیاء و اولیاء کی بھی پرستش کرتے تھے۔ شاید ایسا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا ہے، یا اس لیے کہ ” مَا “ عاقل اور غیر عاقل دونوں کے لیے آتا ہے، اگرچہ اکثر غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے۔ 3 یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے، فرشتوں سے سوال کے لیے دیکھیے سورة سبا (٤٠، ٤١) اور مسیح (علیہ السلام) سے سوال کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (١١٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ ہٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ۝ ١٧ۭ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اور قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان کافروں کو اور ان کے بتوں کو جمع کرے گا تو ان کے معبودوں سے فرمائے گا کیا تم نے ان کو میری اطاعت سے گمراہ کیا تھا اور اپنی اطاعت کا حکم دیا تھا یا خود ہی انہوں نے راہ حق کو چھوڑ دیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے تمہاری پرستش شروع کردی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) ” جن جن ہستیوں کے ناموں پر مشرکین نے ُ بت بنا رکھے تھے یا جن کو وہ براہ راست اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ‘ چاہے وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 Here, deities do not mean idols but the angels, the prophets; the saints, the martyrs and the pious men, whom the mushriks of different communities have made their deities. 25 Such dialogues between Allah and the gods of the disbelievers occur at several places in the Qur'an. For instance, in Surah Saba it has been stated: "On the day when He will gather them all together, He will ask the angels, 'Did these people worship you?' They will answer, `Glory be to Thee ! Thou art our Patron and not they: they in fact worshipped the jinns (that is, satans); most of these believed in them." (vv. 40-41). Similarly in Surah Al-Ma'idah, it is said:" And when AIIah will say "O Jesus, son of Mary, did you ever say to the people: `Make me and my mother gods instead of Allah?' He will answer, `Glory be to Thee ! It did not behove me to say that which I had no right to say...I told them only that which Thou didst bid me: 'Worship Allah, Who is myLord as well as your Lord'." (vv. 116, 117).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :24 آگے کا مضمون خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں ہیں بلکہ فرشتے ، انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں مختلف قوموں کے مشرکین معبود بنا بیٹھے ہیں ۔ بظاہر ایک شخص وَمَا یَعْبُدُوْنَ کے الفاظ پڑھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے مراد بت ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عموماً مَا غیر ذوی العقول کے لیے بولا جاتا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کیا ہے غیر ذوی العقول اور کون ہے ذوی العقول اور مَنْ ذوی العقول کے لیے بولتے ہیں ۔ مگر اردو کی طرح عربی میں بھی یہ الفاظ بالکل ان معنوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں ۔ بسا اوقات ہم اردو میں کسی انسان کے متعلق تحقیر کے طور پر کہتے ہیں وہ کیا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ کوئی بڑی ہستی نہیں ہے ۔ ایسا ہی حال عربی زبان کا بھی ہے ۔ چونکہ معاملہ اللہ کے مقابلے میں اس کی مخلوق کو معبود بنانے کا ہے ، اس لیے خواہ فرشتوں اور بزرگ انسانوں کی حیثیت بجائے خود بہت بلند ہو مگر اللہ کے مقابلے میں تو گویا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی لیے موقع و محل کی مناسبت سے ان کے لیے من کے بجائے مَا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :25 یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مثلاً سورہ سبا میں ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُلَآءِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ہ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ۚ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّۚ اَکْثَرُھُمْ بِہِمْ مُؤمِنُوْنَ جس روز وہ ان سب کو جمع کرے گا ، پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی بندگی کر رہے تھے ؟ وہ کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات ، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان سے ۔ یہ لوگ تو جِنوں ( یعنی شیاطین ) کی بندگی کر رہے تھے ۔ ان میں سے اکثر انہی کے مومن تھے ( آیات 40 ۔ 41 ) اسی طرح سورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں ہے : وَاِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ ؕ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ؕ ....... مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ۚ اور جب اللہ پوچھے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ، کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ وہ عرض کرے گا پاک ہے آپ کی ذات ، میرے لیے یہ کب زیبا تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ ..... میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا ، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ١٩:۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ‘ سب کچھ اس کو معلوم ہے لیکن میدان محشر کی تمام مخلوقات کے روبرو مشرک لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لیے ملائکہ ‘ حضرت عزیر ( علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور بتوں سے غرض سوائے خدا کے جس کسی کو مشرک لوگوں نے دنیا میں اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے ‘ ان سب سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تم نے ان مشرک لوگوں کو شرک کا طریقہ سکھایا تھا ‘ وہ سب اس سے انکار کریں گے اور اپنی بیزاری جتلا دیں گے ‘ یہ قیامت کا حال مشرکوں کو دنیا میں اس لیے جتلایا ہے کہ مشرک اپنی غلطی کو سمجھ جاویں اور جان لیویں کہ خدا کے سوا جس کو انہوں نے اپنا معبود ٹھہرایا ہے وہ معبود کچھ کام نہیں آویں گے بلکہ مصیبت کے وقت صاف جواب دیں گے ‘ پھر جو چیز مصیبت کے وقت ہی کام نہ آوے اور کچھ نفع ونقصان اس کے اختیار میں نہ ہو ‘ اس کو معبود بننے کا کیا حق حاصل ہے ‘ اولاد آدم میں سے جن اچھے لوگوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں وہ اچھے لوگ قیامت کے دن ان مشرکوں سے جو بیزاری ظاہر کریں گے ‘ اس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے اور فرشتوں کی بیزاری کا حال سورة سبا میں آوے گا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان منکر قیامت بت پرستوں اور ان جھوٹے معبودوں سب کو اکٹھا کرے گا اور ان جھوٹے معبودوں سے پوچھے گا کہ کیا تم نے اپنی مورتوں کی پوجا کے لیے ان بت پرستوں سے کہا تھا ‘ یا یہ بت پرست خود ہی بت پرستی میں لگ گئے تو سب مورتوں کی اصل صورتیں ان مشرکوں کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کر کے یہ کہیں گے کہ یا اللہ تجھ کو خوب معلوم ہے کہ ہم تو خالص دل سے تجھ کو سچا معبود جانتے ہیں ‘ پھر ہم سے یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم ان مشرکوں سے اپنی مورتوں کو پوجا کو کہتے ‘ پھر کہیں گے یا اللہ تیرے علم غیب میں یہ لوگ قابل ہلاکت ٹھہر چکے تھے ‘ اس لیے دنیا میں تو نے ان کو خوشحالی اور تندرستی جو دی اس کے نشہ میں یہ تیری یاد سے غافل رہے ‘ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو قائل کرنے کے لیے فرماوے گا ‘ سوائے اللہ کا جن کی تم پوجا کرتے تھے وہ تو تم کو جھٹلا چکے ‘ اب تم شرک کی سزا کے عذاب کو نہ خود ٹال سکتے ہو ‘ نہ کوئی دوسرا تمہاری مدد کرسکتا ہے ‘ شرک کی برائی جتانے کے لیے آگے مسلمانوں کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ اسلام کے بعد تم میں سے اگر کوئی شرک میں گرفتار ہوجاوے گا تو قیامت کے دن اس کو بھی وہی عذاب بھگتنا پڑے گا جو منکر اسلام مشرکوں کے لیے تیار کیا گیا ہے ‘ حسن بصری کے قول کے موافق آخری آیت کی تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول کی جان پہچان کے کچھ لوگوں کو حوض کوثر پر سے دوزخ میں جھونک دینے کے لیے فرشتے گھسیٹ کر جب لے جانے لگیں گے تو اللہ کے رسول فرماویں گے یہ لوگ میرے صحابہ (رض) میں ہیں ‘ فرشتے جواب دیں گے کہ یہ لوگ اسلام سے پھرگئے تھے ‘ اس حدیث کو آخری آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ آخری آیت میں مختصر طور پر جیسے لوگوں کا ذکر قرآن کی معجزہ کی شان سے تھا ‘ قیامت کے دن ایسے لوگوں کا جو انجام ہوگا اس کا حال حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اس حدیث سے حسن بصری کے قول کو پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کی جو تفسیر حسن بصری کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کو جو تفسیر حسن بصری کے قول کے موافق بیان کی گئی وہی مطلب اس کا ہے۔ (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٢٢ ج ٤ (ع۔ ح)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:17) یوم۔ ای اذکر الیوم یاد کرو وہ دن۔ یا ان سے ذکر کرو اس دن کا۔ یحشرہم۔ مضارع واحد مذکر غائب ضمیر فاعل کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب جس کا مرجع کافرین و مشرکین ہیں۔ (جب ) وہ انہیں جمع کرے گا۔ وما یعبدون من دون اللہ۔ اور (جب وہ جمع کرے گا) ان کو جنہیں خدا کے سوا وہ پوجتے تھے۔ اضللتم۔ تم نے بہکایا۔ تم نے گمراہ کیا۔ اضلال (افعال) مصدر۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ۔ ضمیر کا مرجع انتم ہے خطاب ہے ان سے جن کو مشرکین خدا کے سوا پوجتے تھے یعنی ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا ؟ یا وہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے۔ ام ہم ضلوا السبیل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یہاں معبودوں سے مراد وہ معبود ہیں جو عقل رکھتے ہیں جیسے انبیاء، اولیاء، فرشتے، جن وغیرہ اور ان کے متعلق ” ما “ کا لفظ جو عربی زبان میں غیر ذوی العقول کیلئے بولا جاتا ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حیثیت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 20 : (اضللتم) تم نے گمراہ کیا تھا ‘(ضلو السبیل) راستے سے بھٹک گئے ‘(ماینبغی) مناسب نہیں ہے ‘(متعت) تمہیں خوش حالی دی گئی ‘(نسوا) وہ بھول گئے ‘(بور) تباہ برباد ہونے والے ‘ (نذق) ہم چکھائیں گے ‘(فتنۃ) آزمائش ۔ جانچ۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 20 : ان آیات میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں ایک تو میدان حشر میں وہ سوال کہ یہ لوگ جو بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھے اس پر ان کو کس نے مجبور کیا تھا ؟ دوسرا یہ مسئلہ کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو انسان ہوتے ہیں مگر انسانیت ناز کرتی ہے کیا وہ انسانی ضروریات سے بےنیا تھے ؟ جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کی بساط الٹ دیں گے اور تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں لاکر کھڑا کردیں گے تو اس وقت کفار و مشرکین جن کے سامنے ان کا بھیانک انجام نظر آرہا ہوگا۔ وہ گھبراہٹ میں مجنونا نہ حرکتوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ تمام کفار و مشرکین کو اور ان لوگوں کو جمع فرمائیں گے جو ایک اللہ کی عبادت و بندگی چھوڑ کر غیر اللہ کو اپنا معبود بنائے بیٹھے تھے اور ان کو اس بات پر ناز تھا کہ یہ غیر اللہ ان کے کام آئیں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب سیپہلے ان جھوٹے معبودوں سے پوچھیں گے کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے کھڑے ہیں کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر تمہاری عبادت و بندگیکریں یا یہ لوگ خود ہی تمہاری بندگی کرنے لگے تھے اور تمہارے دھوکے میں آگئے تھے ؟ ۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہوگا۔ کہ اے اللہ آپ کی ذات ہر طرح کے عیب سے پاک ہے ‘ آپ کی بڑی شان ہے ‘ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم تو بےبس اور مجبور تھے۔ انہوں نے خود ہمیں اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر ہماری عبادت و بندگی شروع کردی تھی۔ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم انہیں اپنی عبادت و بندگی پر مجبور کرسکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دولت اور راحت و آرام کی دیوانگی میں آپ کی بندگی چھوڑ کر ہمیں اپنا معبود بنا لیا تھا۔ یہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ کے بھرے دربار میں جب یہ جھوٹے معبود ان کو ٹکا سے جواب دیں گیا سہ جواب دیں گے اس وقت حق تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اب تم کیا کہتے ہو ؟ وہ معبود جنہیں اپنا سہارا اور سب کچھ سمجھ رہے تھے وہ تو تمہاری عبادت و بندگی کو حماقت و جہالت اور نادانی قرار دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوگا۔ تمہارا اعمال نامہ تمہارے سامنے ہے اب اسی کے مطابق سارے فیصلے کئے جائیں گے اب تمہارا کوئی حامی اور مدد گار نہیں ہوگا۔ دوسرے مسئلے کا اللہ نے یہ جواب دیا ہے کہ اللہ نے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انسانوں ہی کو نبی اور رسول بناکر بھیجا ہے کیونکہ انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لئے انسان ہی ایک نمونہ عمل بن سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ‘ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھیجا جو سب کے سب انسان ہی تھے جو کھانا بھی کھاتے تھے ‘ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور بیوی بچے بھی رکھتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف وحی کی جاتی تھی جو ان کا اتنا بڑا امتیاز اور عظمت ہے کہ اس کے سامنے بہت سی عظمتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی فرشتے یا مال دار شخص کو نبی بنا کر بھیجتے جو زبردستی لوگوں پر رعب جما دھونس اور دھاندلی سے اپنی بات منواتا تو یہ بات اللہ کی مصلحت کے خلاف ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہر شخص اپنی عقل و فہم استعمال کرکے ایمان کا راستہ منتخب کرے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت سنور جائے اور ابدی راحتیں نصیب ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ انہوں نے تمہاری عبادت کہ واقع میں ضلالت ہے تمہاری امر و رضا سے کی تھی جیسا ان لوگوں کا زعم تھا کہ یہ معبودین خوش ہوتے ہیں اور خوش ہو کر اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے یا اپنی رائے فاسد سے اختراع کرلی تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کا ایک سبب شرک ہے اس لیے مشرک کا انجام ذکر کیا جاتا ہے۔ شرک کرنے والا شخص حقیقی عقل کھو بیٹھتا ہے جس وجہ سے اسے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جس کو میں اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کے اختیارات میں شریک کررہا ہوں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے اس بےعقلی کی وجہ سے مشرک اللہ کے ان بندوں کو بھی رب کے اختیارات میں شریک سمجھتے ہیں جو زندگی بھرشرک کی مخالفت کرتے رہے۔ ان میں سرفہرست انبیاء کرام (علیہ السلام) نیک علماء اور صلحاء لوگ شامل ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ دنیا سے کوچ کر گئے تو مشرکوں نے اپنے مفاد کی خاطر انہیں بھی اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرالیا۔ ان کی قبروں پر عرس اور میلے لگائے، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے سجدے کیے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے رہے یہی کام اور باتیں عبادت کا خلاصہ ہیں۔ عبادت کرنے والوں اور جن کی عبادت کی جاتی تھی انہیں قیامت کے دن اکٹھا کرکے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی راہ ہدایت سے بھٹک گئے تھے ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) ، نیک علماء اور صلحاء حضرات اپنے رب کے حضور میں عرض کریں گے کہ بار الہا آپ تو ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہیں۔ جہاں تک ہماری ذات کا معاملہ ہے ہمارے لیے یہ کیسے جائز تھا کہ ہم تیری عبادت کی طرف بلانے کے بجائے لوگوں کو اپنی یا دوسروں کی عبادت کرنے کا حکم دیتے۔ آپ نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں یہ لوگ شکر گزار بننے کی بجائے۔ تیری ذات اور احکام کو بھول گئے اور یہی لوگ ہلاک ہونے والے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال : ” جب اللہ فرمائے گا اے عیسیٰ ابن مریم ! اپنے آپ اور اپنی والدہ پر میری نعمت یاد کرو۔ جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گود میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا۔ میں نے تجھے کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھائی۔ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا تھا۔ پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے ایک اڑنے والا پرندہ بن جاتا تھا۔ تو مادر زاد اندھے اور برص والے کو میرے حکم سے تندرست کرتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا۔ “ [ المائدہ : ١١١ تا ١١٢] ” اور جب اللہ فرمائے گا اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنالو ؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے جائز نہیں کہ وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہے یقیناً تو اسے جانتا ہے، تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے۔ یقیناً تو ہی چھپی باتوں کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ “ [ المائدہ : ١١٦] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا۔ وہ جنت میں جائے گا۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْکَبَاءِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شہادۃ الزور ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، بےگناہ کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ “ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُوجِبَتَانِ مَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ دَخَلَ النَّارَ ) [ رواہ أحمد : مسند جابر بن عبداللہ ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملا کہ اس نے اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور جس نے شرک کیا ہوگا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ “ مسائل ١۔ جن بزرگوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان سے بھی اللہ تعالیٰ سوال کرے گا۔ ٢۔ جو بزرگ اپنی زندگی میں شرک کی مذمت کرتے رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات پائیں گے۔ ٣۔ شرک کرنے والا ہدایت کے راستے سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ ٤۔ شرک کرنے والے قیامت کے دن ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن شرک کے نقصانات : ١۔ شرک بدترین گناہ ہے۔ (النساء : ٤٨ ) ٢۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ شرک سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٤۔ شرک کرنے سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٥۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٦۔ شرک کے بارے میں انبیاء کو انتباہ۔ (الانعام : ٨٨) ٧۔ شرک سے انسان گمراہی میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و یوم یحشرھم۔۔۔۔۔ نذقہ عذابا کبیرا جن لوگوں کی مشرکین بندگی کرتے تھے بعض اوقات تو وہ بت ہوتے تھے ‘ کبھی وہ ملائکہ اور جن ہوتے تھے اور کبھی دوسرے معبود ہوتے تھے۔ جن کو اللہ خوب جانتا ہے ‘ لیکن اس کھلے میدان میں ان سے یہ سوال کرنا جواب طلب کرنا جب کہ سب کو اس مقصد کے لیے جمع کیا گیا ہوگا ‘ زیادہ تشہیر اور شرمندہ کرنے کے لیے ہوگا۔ تشہیر جرم اور شرمندہ کرنا بھہ دراصل ایک قسم کی سزا ہے اور جواب جو آ رہا ہے وہ ان نام نہاد الموں کی طرف سے اللہ کے سامنے مکمل طور پر جھکناثابت کرتا ہے۔ اب یہ اللہ قہار اور مالک الملک کے سامنے مطیع فرمان کھڑے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنی الوہیت کا انکار کرتے ہیں بلکہ وہ اس بات سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ان بیوقوفوں سے ان کی کوئی دوستی یا تعلق تھا۔ اس سے زیادہ مشرکین کے لیے اور شرمندگی کیا ہوگی کہ جن کو وہ الہٰ سمجھتے ہیں وہ ان کے اس تعلق سے بھی منکر ہوں گے۔ قالو اسبحنک۔۔۔۔۔ کانو اقوما بورا (٢٥ : ١٨) ” وہ عرض کریں گے ” پاک ہے آپ کی ذلت ‘ ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں۔ مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے “۔ تو زندگی کا یہ مال ومتاع جو مسلسل ان لوگوں کو حاصل رہا ‘ جبکہ ان کو یہ معرفت بھی نہ تھی کہ یہ انعامات دینے والا بھی کوئی ہے اور نہ وہ دینے والے کا کوئی شکر ادا کرتے تھے تو اس غفلت نے ان کے دلوں سے ان انعامات کا احساس ہی دور کردیا۔ یہ لوگ سب کچھ بھول گئے۔ چناچہ ان کے دل اس طرح خشک اور غیر آباد ہوگئے جس طرح خشک سالی کے نتیجے میں زمین غیر آباد ہو کر بےآب وگیاہ ہوجاتی ہے۔ یہاں لفظ بوار استعمال ہوا ہے جو ہلاکت کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن ہلاکت کے ساتھ اس کے مفہوم میں خشک سالی اور بےآب وگیاہ ہونا بھی داخل ہے یعنی دلوں کی خشکی اور زندگی کا خلا۔ چناچہ یہاں اس مقام پر انہیں توہین آمیز خطاب کے ذریعہ شرمسار کیا جاتا ہے : فقد کذبو۔۔۔۔۔ صرفا و نانصرا (٢٥ : ١٩) ” یوں جھٹلادیں گے وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو ‘ پھر تم نہ اپنی شامت کو ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پاسکو گے “۔ یعنی نہ اس مصیبت کا منہ کسی اور طرف موڑ سکو گے اور نہ کسی جانب سے تمہیں کوئی امداد مل سکے گی۔ یہ منظر تو آخرت کا چل رہا ہے اور حشر کا میدان ہے لیکن بیچ میں ایک جھلک دنیا کی بھی دکھا دی جاتی ہے۔ یہ مکذبین اب زمین پر اس دنیا ہی میں نظر آتے ہیں۔ اور ان سے کہا جاتا ہے۔ ومن یظلم۔۔۔۔۔ کبیرا (٢٥ : ١٩) ” اور جو تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے “۔ اور قرآن کریم کا ایک مخصوص اسلوب ہے کہ وہ دلوں کو اس وقت چھوتا ہے جب وہ قبولیت کے لیے تیار ہوتے ہیں اور قیامت کا خوفناک منظر دیکھ کر وہ بات ماننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین جن کی عبادت کرتے تھے ان سے سوال و جواب، یہ لوگ مال و متاع کی وجہ سے ذکر کو بھول گئے روز قیامت عذاب میں داخل ہونگے وہاں کوئی مددگار نہ ہوگا قیامت کے دن مشرکین بھی محشور ہونگے اور وہ معبود بھی موجود ہوں گے جن کی عبادت کر کے مشرک بنے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر جن کی عبادت کی ان میں فرشتے بھی ہیں اور حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) بھی، اور اوثان و اصنام یعنی بت بھی ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کا سوال ہوگا کہ یہ میرے بندے جنہوں نے شرک کیا اور تمہاری عبادت کی کیا تم نے انہیں گمراہ کیا یا یہ خود ہی گمراہ ہوگئے ؟ وہ اس کے جواب میں کہیں گے کہ اے اللہ آپ کی ذات پاک ہے۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم آپ کو چھوڑ کر دوسروں کو ولی بنائیں ہم ان مشرکین سے دوستی رکھنے والے اور تعلق جوڑنے والے نہیں تھے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جن سے مذکورہ بالا سوال و جواب ہوگا اس سے ملائکہ اور دیگر عقلاء مراد ہیں اور جن حضرات نے الفاظ عموم میں اصنام کو بھی شامل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس دن اصنام کو بھی زبان دے دی جائے گی اور وہ بھی اپنے معبودوں سے برأت ظاہر کریں گے۔ جواب دینے والے کہیں گے کہ ہم نے ان کو گمراہ نہیں کیا آپ نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو مال و دولت عطا فرمایا یہ لوگ شہوتوں اور خواہشوں میں پڑکر آپ کی بھی یاد بھول گئے نہ تو خود ہدایت کے لیے فکر مند ہوئے اور نہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی طرف دھیان دیا لہٰذا ہلاک ہونے والے بن گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” ویوم یحشرھم الخ “ یہ تخویف اخروی ہے اور خصوصیت سورت کا ذکر ہے۔ ” و یعبدون من دون اللہ “ سے یہاں انبیاء علیہم السلام، فرشتے اور اللہ کے نیک بندے مراد ہیں جن کی دنیا میں پرستش کی گئی اور جنہیں برکات دہندہ سمجھ کر پکارا گیا۔ یرید المعبودین من الملائکۃ والمسیح و عزیر (مدارک ج 3) ۔ ” وال الجمہور من عبد ممن یعقل ممن لم یامر بعبادتہ کالملائکۃ و عیسیٰ و عزیر وھو الاظہر (بحر ج 6 ص 488) ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان معبودین سے پوچھے گا کیا میرے ان بندوں کو جو دنیا میں تمہیں کارساز اور برکات دہندہ سمجھتے تھے تم نے گمراہ کیا تھا اور اپنی الوہیت کی ان کو تعلیم دی تھی ؟ یا وہ خود ہی گمراہ ہوئے تھے ؟ ” قالوا سبحنک الخ “ اللہ کے وہ نیک بندے بصد عجز و نیاز عرض کریں گے بارے الٰہا ! تو پاک ہے اور تیری شان اس سے برتر ہے کہ تیرا کوئی شریک ہو۔ ہمارے لیے تو یہ بھی جائز نہ تھا کہ ہم تیرے سوا خود اپنے لیے بھی کسی اور کو کارساز اور برکات دہندہ تجویز کرتے تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ ہم دوسروں کو اپنی کارسازی اور الوہیت کی تلقین کرتے۔ ماکان لنا ان نامرھم بعبادتنا و نحن نعبد و نحن عبیدک (معالم و خازن ج 5 ص 96) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو اور جن معبودان باطلہ کو یہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے ہیں سب کو یکجا جمع کرے گا پھر ان معبودوں سے دریافت کرے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی سیدھی راہ سے بھٹک گئے تھے یعنی آخر ان کے کفرو شرک اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے تم ان کو اپنی پرستش کے لئے ابھارا اور بہکایا تھا انہوں کے خود بخود سیدھی راہ اختیار نہ کی اور گمراہی اختیار کرلی۔