Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 18

سورة الفرقان

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ مَا کَانَ یَنۡۢبَغِیۡ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَّخِذَ مِنۡ دُوۡنِکَ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ وَ لٰکِنۡ مَّتَّعۡتَہُمۡ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی نَسُوا الذِّکۡرَ ۚ وَ کَانُوۡا قَوۡمًۢا بُوۡرًا ﴿۱۸﴾

They will say, "Exalted are You! It was not for us to take besides You any allies. But You provided comforts for them and their fathers until they forgot the message and became a people ruined."

وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وہ نصیحت بھلا بیٹھے ، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاء ... They will say: "Glorified be You! It was not for us to take (Nattakhidh) any Awliya' besides You..." Most of the scholars recite a Fathah on the Nun of the word Nattakhidh in His saying: ... نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاء ... "...for us to take (Nattakhidh) any Awliya' besides You," meaning, `it is not right for any created being, neither us nor them, to worship anyone except You; we did not call them to do that, but they did it of their own accord, without us telling them to do it or accepting what they did. We are innocent of them and their worship.' This is like the Ayah, وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَـيِكَةِ أَهَـوُلاَءِ إِيَّاكُمْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ قَالُواْ سُبْحَـنَكَ And (remember) the Day when He will gather them all together, then He will say to the angels: "Was it you that these people used to worship" They (the angels) will say: "Glorified be You!" (34:40-41) Other scholars understand this phrase to mean: `it is not proper for us to take anyone except You as protectors or helpers (Awliya'),' meaning, `it is not proper for anyone to worship us, for we are Your servants and in need of You.' This meaning is close to the first. ... وَلَكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَابَاءهُمْ ... but You gave them and their fathers comfort, means, `You made such a long period of time pass that they forgot the Reminder, i.e., they forgot what had been sent down to them through the Messengers, calling them to worship You alone with no partner or associate.' ... حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ ... till they forgot the warning, ... وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا and became a lost people. Ibn Abbas said, "This means, they were destroyed." Al-Hasan Al-Basri and Malik narrated from Az-Zuhri: "There was no good in them." And Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کار ساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کی بجائے ہمیں اپنا ولی اور کار ساز سمجھو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی معبودوں کو بھی اور ان کی عبادت کرنے والوں کو بھی سب کو آمنے سامنے لا اکٹھا کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ پہلے معبودوں کو ہی مخاطب کرکے پوچھیں گے کہ && کیا تم نے میرے ان بندوں کو کہا تھا کہ ہم تمہارے مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ لہذا ہمارے ہاں نذرانے پیش کیا کرو۔ ہم قیامت کے دن تمہیں اللہ سے بخشوا لیں گے && یا ان عبادت گزاروں اور تمہارے عقیدت مندوں نے خود ہی ایسے عقیدے گھڑ لئے تھے ؟ اس سوال کے جواب میں معبود حضرات کہیں گے کہ یا اللہ ! ہم تو خود تجھے ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے رہے تیرے ہی سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے رہے۔ تیرے حضور ہی جھکتے اور نذریں نیازیں گزارتے رہے۔ تجھے ہی اپنا کارساز سمجھتے رہے۔ پھر بھلا ہم انھیں یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر تم ہمیں یا کسی دوسرے کو اپنا کارساز بنالو && اس سوال و جواب سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں۔ کیونکہ بےجان کا اللہ کو کارساز بنانے کا کچھ مطلب ہی نہیں۔ ایسے سوال و جواب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی کریں گے۔ جنہیں نصاریٰ نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ ( سورة مائدہ آیت نمبر ١١٦ تا ١١٨) اسی طرح آگے سورة سبا کی آیات نمبر ٤١، ٤٢ میں مذکور ہے کہ ایسا ہی سوال و جواب فرشتوں سے بھی ہوگا جن کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ رہی یہ بات کہ عموماً && ما && کا لفظ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور ذوی العقول کے لئے && من && کا لفظ آتا ہے تو یہ کوئی ایسا کلیہ نہیں جس پر استثناء نہ ہو یہ ذوی العقول کے لئے آسکتا ہے جیسے) الاعلی ازوجہم اوما ملکت ایما نہم) ( ٢٣: ٦) اور استفہامہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتا ہے جیسے مازید بمعنی زید کیا ہے ؟ ) منجد ( [ ٢٢] معبود اپنی بریت کا اظہار کرنے کے بعد کہیں گے کہ ان کے گمراہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ بدبخت خود ہی گمراہ اور تباہ ہونا چاہتے تھے جس کا ظاہری سبب یہ بن گیا کہ تو نے انھیں اور ان کے آباء واجداد کو عیش و آرام دیا تھا۔ یہ لوگ بس اسی عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تیری یاد سے بےنیاز ہوگئے۔ کسی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ پیغمبروں کی ہدایت سے آنکھیں بند کرلیں۔ تو نے ان پر جس قدر زیادہ مہربانیاں کیں اتنے ہی یہ نمک حرام ثابت ہوئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ان نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتے۔ مگر یہ الٹے متکبر بن کر کفر و عصیاں پر تل گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭقَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَآ ۔۔ : یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو یارو مددگار نہیں سمجھتے تھے اور تیری توحید پر قائم تھے، تو لوگوں کو اپنے بارے میں کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا لو۔ یہ بات تو ہمیں زیب ہی نہیں دیتی۔ دیکھیے آل عمران (٧٩، ٨٠) ۔ وَلٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَاٰبَاۗءَهُمْ ۔۔ : ” بُوْرًا “ ” بَارَ یَبُوْرُ “ سے مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، یا ” بَاءِرٌ“ کی جمع ہے، ہلاک ہونے والے، یعنی ہم نے انھیں گمراہ نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی کم ظرف اور کمینے لوگ تھے، تو نے انھیں اور ان کے آبا و اجداد کو ہر قسم کا رزق دیا، یہ کھا پی کر نمک حرام ہوگئے، حتیٰ کہ تیری یاد بھی بھول گئے، جو انھیں سب نعمتیں دینے والا تھا۔ ” اَلذِّکْرَ “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ وہ نصیحتیں بھول گئے جو انبیاء نے انھیں کی تھیں۔ دیکھیے سورة انبیاء (٤٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَآ اَنْ نَّــتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنْ مَّتَّعْتَہُمْ وَاٰبَاۗءَہُمْ حَتّٰي نَسُوا الذِّكْرَ ، وَكَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا۝ ١٨ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] بور البَوَار : فرط الکساد، ولمّا کان فرط الکساد يؤدّي إلى الفساد۔ كما قيل : كسد حتی فسد۔ عبّر بالبوار عن الهلاك، يقال : بَارَ الشیء يَبُورُ بَوَاراً وبَوْراً ، قال عزّ وجل : تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر/ 29] ، وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر/ 10] ، وروي : «نعوذ بالله من بوار الأيّم» ، وقال عزّ وجل : وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم/ 28] ، ويقال : رجل حائر بَائِر، وقوم حور بُور . وقال عزّ وجل : حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان/ 18] ، أي : هلكى، جمع : بَائِر . البوار ( ن ) اصل میں بارالشئ بیور ( ، بورا وبورا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ کہا جانا ہے کسد حتیٰ فسد اس لئے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر/ 29] اس تجارت ( کے فائدے ) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی ۔ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر/ 10] اور ان کا مکرنا بود ہوجائیگا ۔ ایک روایت میں ہے (43) نعوذ باللہ من بوارالایم کہ ہم بیوہ کے مندا پن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم/ 28] اور اپنی قوم کو تباہی کے گھرا تارا ۔ رجل جائر بائر مرد سر گشتہ خود رائے ۔ جمع کے لئے حور بور کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان/ 18] یہاں تک کہ وہ تیری یا د کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ۔ میں بوبائر کے جمع ہے بعض نے کہا ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے ۔ رجل بورو قوم بور

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) تو ان کے معبود یعنی بت وغیرہ عرض کریں گے معاذ باللہ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم اس کے سوا اور کارسازوں کو تجویز کریں یعنی وہ معبود کہیں گے کہ معاذ اللہ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم آپ کے سوا اوروں کی عبادت کریں تو پھر ہماری کیسے جرأت ہوسکتی تھی کہ ہم ان بدبختوں کو اپنی عبادت کا حکم دیتے لیکن آپ نے ان کو اور ان سے قبل ان کے بڑوں کو حالت کفر میں بہت ڈھیل اور آسودگی دی یہاں تک کہ یہ لوگ توحید اور آپ کی اطاعت ہی کو بھلا بیٹھے تو یہ لوگ خود ہی تباہ اور برباد ہوئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (قَالُوْا سُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَآءَ ) ” م اللہ اور اہل ایمان کے درمیان ولایت باہمی کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اللہ اہل ایمان کا ولی ہے اور اہل ایمان اللہ کے ولی ہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٧ میں اس رشتے کا ذکر یوں فرمایا گیا : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) ” اللہ ولی ہے مؤمنین کا ‘ وہ انہیں اندھیروں سے نکالتا ہے نور کی طرف “۔ سورة یونس میں اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا ذکر اس طرح کرتے ہیں : (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ” آگاہ رہو ! یقیناً جو اللہ کے ولی ہیں نہ انہیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے “۔ چناچہ اگر وہ سچے معبود ہوتے تو ضرور اپنے بندوں کے ساتھ ولایت کا رشتہ قائم کیے ہوتے ‘ لیکن وہ تو پوچھنے پر صاف انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا ولی تو اللہ ہے۔ ہم اللہ کے سوا کسی اور کے ساتھ ولایت کا رشتہ کیسے استوار کرسکتے تھے ! (وَلٰکِنْ مَّتَّعْتَہُمْ وَاٰبَآءَ ہُمْ ) ” لیکن (اے پروردگار ! ) ُ ان کو دنیا میں مال و دولت اور حیثیت ووجاہت سے بہرہ مند کیا اور پشت در پشت خوشحالی اور فارغ البالی عطا کیے رکھی۔ (حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَج وَکَانُوْا قَوْمًام بُوْرًا ) ” اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو مخاطب کر کے فرمائیں گے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, "They were mean people: You gave them all the provisions of life so that they may show gratitude to You, but they became ungrateful and ignored all the admonitions given by the Prophets. "

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :26 یعنی یہ کم ظرف اور کمینے لوگ تھے ۔ آپ نے رزق دیا تھا کہ شکر کریں ۔ یہ کھا پی کر نمک حرام ہو گئے اور وہ سب نصیحتیں بھلا بیٹھے جو آپ کے بھیجے ہوئے انبیاء نے ان کو کی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جن معبودوں کو اُنہوں نے خُدائی کا درجہ دے رکھا تھا، اُن میں سے کچھ تو فرشتے تھے جنہیں یہ خُدا کی بیٹیاں کہتے تھے یا بعض لوگوں نے کچھ انبیا یا بزرگوں کو خُدا بنا رکھا تھا، اُن کی طرف سے تو یہ جواب ظاہر ہی ہے، لیکن جو لوگ بتوں کو پوجتے تھے، اُن کے بارے میں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وہ تو پتھر تھے، اور ان میں بولنے کی صلاحیت کہاں تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں صرف ان مشرکین کا ذکر ہے جو اِنسانوں یا فرشتوں کو خدا بنائے بیٹھے تھے، اور اُن کی علامت کے طور پر بتوں کو پوجتے تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ اُن پتھروں میں بھی بولنے کی صلاحیت پیدا فرما دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:18) ماکان ینبغی لنا۔ ما کان ینبغی۔ ماضی استمراری منفی واحد مذکر غائب۔ ہمارے لئے تو (یہ بات بھی) کبھی زیبا نہ ہوئی (کہ ہم تیرے سوا کسی اور کو کارساز بنائیں ( چہ جائیکہ ہم ان کو راہ راست سے بھٹکاتے اور تیرے سوا دوسروں کی عبادت پر ان کو لگاتے) ۔ انبغاء (انفعال) مصدر۔ شان کے شایاں ہونا۔ سزاوار ہونا۔ لائق ہونا۔ قرآن مجید میں ہے وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ (36:69) اور ہم نے اس کو (پیغمبر کو) شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ ہی وہ اس کے شان کے شایاں ہے۔ نتخذ۔ مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) جمع متکلم اتخاذ (افتعال) مصدر ہم بنائیں۔ ہم بنا لیتے۔ من اولیاء میں من زائدہ تاکید نفی کے لئے لایا گیا ہے۔ یا عبارت کی تقدیر یوں ہو۔ ان نتخذ من دونک اولیائ۔ کہ ہم تیرے سوا کسی دوسرے کو کارساز بنا لیتے۔ متعتہم۔ ماضی واحد مذکر حاضر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب تمتیع (تفعیل) مصدر تو نے ان کو دنیوی سازوسامان اور آسودہ حالی سے نوازا۔ واباء ہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ متعت کا مفعول ثانی۔ اور ان کے بڑوں کو (بھی) ۔ نسوا۔ ماضی جمع مذکر غائب نسی ینسی (سمع) نسیان مصدر سے۔ انہوں نے بھلا دیا۔ وہ بھول گئے۔ الذکر۔ یاد ۔ ذکر۔ موعظت۔ یہ نسیان کی ضد ہے۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ (18: 63) شیطان نے ہی مجھ کو اس کا ذکر کرنا بھلا دیا۔ یا یہاں اس سے مراد القرآن بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔ ء انزل علیہ الذکرمن بیننا (38:8) کیا ہم سب میں سے بس اسی شخص پر کلام الٰہی نازل کیا گیا، یہاں مراد تیرا ذکرپندونصائح اور ایمان بالقرآن ہے بورا۔ بور اسم مصدر ہے اور اس کا اطلاق واحدو جمع پر ہوتا ہے۔ ہلاک ہونا۔ جمع کی مثال آیت ہذا ہے۔ وکانوا قوما بورا۔ اور یہ لوگ برباد ہو کر رہے۔ واحد کی مثال عبداللہ بن الزبعری السھمی (رض) کا شعر ہے :۔ یا رسول الملیک ان لسانی راتق ما فتقت اذا نابور۔ (اے بادشاہ کے قاصد جب کہ میں ہلاک ہو رہا ہوں تو میری زبان جو کچھ میں نے توڑا ہے اس کو جوڑ دے گی) یہاں انا واحد ہے اور بور اس کی صفت ہے۔ بعض کے نزدیک یہ بائر کی جمع ہے۔ جیسے ھود ھائد کی جمع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ تاکہ ان کی عبادت کرتے اور اسی طرح جب ہم خود توحید پر قائم تھے تو تیرے بندوں سے اپنی عبادت کیسے کرا سکتے تھے ؟ (ابن کثیر) 5 ۔ یعنی یہ کمینے لوگ تھے بجائے اس کے کہ شکر گزار ہوتے، تیری نعمتیں پا کر عیش میں پڑگئے۔ (نیز دیکھئے انبیاء آیت :44) 6 ۔ ” سو یہ ٔ تو مرکھپ کر (تباہ ہو کر) رہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن انبیاء و اولیاء کی یہ پوجا کرتے رہے ہیں ان کی نذریں مانتے رہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں۔ قیامت کے دن وہ یہ جواب دینگے یعنی سبحانک اللہ (فتح البیان)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ جس کا مقتضی تو یہ تھا کہ منعم کی معرفت اور اس کا شکر و اطاعت کرتے۔ 6۔ مطلب جواب کا ظاہر ہے کہ دونوں شقوں میں ضلوا السبیل کی شق کو اختیار کیا، اور ضلالت کی شناعت و فظاعت کو ذکر تمتیع سے موکد کیا، جس سے خوب ناراضی ان عابدین سے ظاہر ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قولہ تعالیٰ : (قوما بورا) ای ھالکین علی ان بورا مصدر و صف بہ الفاعل مبالغۃ او جمع بائر کعوذ جمع عائذ، قال ابن عباس ھالکین فی لغۃ عمان وھم من الیمن، وقیل بورا فاسدین فی لغۃ الازدو یقولون امر بائر ای فالد و بارت البضاعۃ اذا فسدت و قال الحسن بورا لاخیر فیھم من قولھم ارض بور ای متعطلۃ لانبات فیھا وقیل بورا عمیا عن الحق والجملۃ اعتراض تذییلی مقرر لمضمون ماقبلہ علی ماقال و ابو السعود۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” ولکن متعتھم الخ “ اے ہمارے پروردگار ان گمراہ لوگوں کو تو نے دنیوی منافع عطا کیے۔ یہ ظالم پکارتے تو رہے ہم کو لیکن بطور آزمائش ان کی حاجت روائی تو کرتا رہا اور دنیوی منافع بھی تو ہی ان کو عطا فرماتا رہا یہانتک کہ وہ تیری الوہیت سے غافل ہوگئے اور تیرے سوا اوروں کو برکات دہندہ سمجھنے لگے۔ ” وقوما بورا “ اس طرح شقاوت اور بدبختی ان پر غالب آگئی اور وہ گمراہ ہو کر ہلاک ہوگئے۔ الٰھی انت الذی اعطیتہ جمیع مطالبہ من الدنیا حتی صار کا لغریق فی بحر الشھوات واستغراقہ فیھا صار صادا لہ عن التوجہ الی طاعتک والاشتغال بخدمتک (کبیر ج 6 ص 459) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) وہ متفقہ طورپر عرض کریں گے تیری ذات پاک ہے ہماری یہ مجال نہ تھی اور ہم کو کسی طرح بھی یہ مناسب اور لائق نہ تھا کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو کارساز تجویز کریں لیکن بات یہ ہوئی کہ تو نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو ہر قسم کی آسودگی اور دینوی عیش و تنعم سے بہرہ مند کیا اور دینوی سازو سامان کے برتنے کا موقعہ دیا یہاں تک کہ یہ تیری یاد کو فراموش کر بیٹھے اور جون صیحت ان کو دی گئی تھی اس کو بھول گئے اور یہ تھے ہی ہلاک ہونے والے یعنی جب ہم خود ہی مجال نہ رکھتے تھے کہ تیرے سوا کسی دوسرے کو کارساز اور معبود ٹھہرائیں تو ان کو اس بات پر کس طرح آمادہ کرسکتے تھے کہ یہ ہماری پرستش کریں اور تیرے سوا ہم کو پوجنے لگیں بات تو یہ ہے کہ ان کو آپ نے نسلاً بعد نسل دنیوی آسودگی اور عیش سے بہرہ مند کیا یہ اس عیش و تنعم میں لگ کر تیری یاد اور تیری نصیحت کو بھلا بیٹھے ور یہ خود ہی ہلاک ہوئے یہ معبود خواہ اصنام اور بت ہوں خواہ ملاکئہ اور بزرگان دین ہوں سب یہی جواب دیں گے اور مشرک جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری پرستش سے یہ معبود خوش ہوتے ہیں اور یہ ہم کو ہر مصیبت سے نجات دیں گے جب ان کی تغلیط ہوجائے گی اور ان کے عقیدہ باطلہ کا اظہار ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ بطور تبکیت ان سے فرمائے گا کیونکہ اس سوال کا مقصد ہی یہ تھا چناچہ ارشاد ہوگا۔