Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 19

سورة الفرقان

فَقَدۡ کَذَّبُوۡکُمۡ بِمَا تَقُوۡلُوۡنَ ۙ فَمَا تَسۡتَطِیۡعُوۡنَ صَرۡفًا وَّ لَا نَصۡرًا ۚ وَ مَنۡ یَّظۡلِمۡ مِّنۡکُمۡ نُذِقۡہُ عَذَابًا کَبِیۡرًا ﴿۱۹﴾

So they will deny you, [disbelievers], in what you say, and you cannot avert [punishment] or [find] help. And whoever commits injustice among you - We will make him taste a great punishment.

تو انہوں نے تو تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا اب نہ تو تم میں عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے ، نہ مدد کرنے کی تم میں سے جس جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ ... Thus they will deny you because of what you say; meaning, `those whom you used to worship besides Allah will show you to be liars in your claims that they were your helpers and protectors bringing you closer to Allah.' This is like the Ayat: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ وَهُمْ عَن دُعَأيِهِمْ غَـفِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And who is more astray than one who calls on besides Allah, such as will not answer him till the Day of Resurrection, and who are unaware of their calls to them. And when mankinds are gathered, they will become their enemies and will deny their worshipping. (46:5-6) ... فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلاَ نَصْرًا ... then you can neither avert nor find help. means: they will not be able to avert the punishment from themselves, nor will they be able to help themselves. ... وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ ... And whoever among you does wrong, means by associating others in worship with Allah, ... نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا We shall make him taste a great torment.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] یعنی آج تم یہ کہتے ہو کہ اگر قیامت ہوئی بھی تو تمہارے یہ معبود وہاں بھی تمہارے کام آئیں گے اور اگر عذاب کی کوئی بات ہوئی تو یہ چھڑا لیں گے۔ مگر اس دن تمہارے یہی معبود جن کی اعانت پر تمہیں بھروسا تھا۔ تم سے علانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے۔ اور یہ کہہ کر تمہیں جھٹلا دیں گے کہ ہم نے کب ان سے کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کیا کرنا۔ اس طرح معبود تو بری الذمہ ہوجائیں گے اور سارا بوجھ ان کے عبادت کرنے والوں پر پڑجائے گا۔ جن کی عذاب سے رہائی کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ [ ٢٤] ظلم کا لفظ عدل کی ضد ہے۔ اور اس کا اطلاق پر بےانصافی کی بات اور غیر معقول بات پر ہوسکتا ہے۔ نبی کی دعوت کو جھٹلانا، اسلام کی راہ سے روکنا، ایمان لانے والوں کو ایذائیں پہنچانا، انھیں پریشان کرنا یا ان کا تمسخر اڑانا، بتوں یا دوسرے معبودوں کی عبادت کرنا یا انھیں حاجت کے لئے پکارنا، آخرت کے عذاب وثواب سے انکار کرنا سب ظلم کی ہی قسمیں ہیں اور ان کاموں کا ارتکاب کرنے والے سب ظالم ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ : یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو وہ مشرکین سے مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ تم نے جنھیں معبود بنا رکھا تھا انھوں نے تو تمہیں تمہاری بات میں جھٹلا دیا اور تم سے بری ہوگئے۔ قیامت کے دن تمام خود ساختہ معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بری ہونا اور ان کا دشمن بن جانا قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے، دیکھیے سورة یونس (٢٨) ، نحل (٨٦) ، مریم (٨٢) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٦) ۔ ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا ۚ : یعنی جن سے تم مدد کی توقع رکھتے تھے وہ تمہارے دشمن بن گئے، تو اب تم عذاب سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، نہ اسے اپنے آپ سے کسی سفارش یا فدیے سے ہٹا سکتے ہو اور نہ ہی خود یا کوئی اور تمہاری مدد کو آسکتا ہے۔ وَمَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا : ظلم سے مراد شرک ہے، دیکھیے سورة انعام کی آیت (٨٢) : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) کی تفسیر اور عذاب کبیر سے مراد جہنم ہے۔ مطلب یہ کہ تم سب نے ظلم کا ارتکاب کیا، اس لیے ہم تمہیں جہنم کا عذاب چکھائیں گے، یعنی جہنم میں پھینکنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ۝ ٠ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا۝ ٠ۚ وَمَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا كَبِيْرًا۝ ١٩ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اس وقت اللہ تعالیٰ ان غیر اللہ کے پجاریوں سے فرمائے گا سو تمہارے ان معبودوں نے تو تمہیں تمہاری سب باتوں میں جھوٹا ٹھہرا دیا سو تم اب ان فرشتوں یا بتوں کی گواہی کو اپنے سے نہ تو خود ٹال سکتے ہو یا یہ کہ اس دوزخ کے عذاب کو اپنے سے نہ تو خود ٹال سکتے ہو اور نہ کوئی تمہاری مدد کرسکتا ہے۔ اور اے گروہ مسلمین جو جو تم میں سے کفر کرے گا یا یہ کہ اے گروہ کفار جو جو تم میں سے کفر پر قائم رہے گا تو ہم اس کا دوزخ میں بڑ عذاب دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (فَقَدْ کَذَّبُوْکُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَلا) ” کہ جن ہستیوں کو تم لوگ اپنے معبود اور ولی مانتے تھے انہوں نے تو تمہارے دعو وں کو رد کردیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, "On that Day your religion, which you now believe, to be true. will prove to be false and even your gods, whom you yourselves have set up,' will declare it to be a lie; for none of them ever asked you to make them your deities and worship them as such. Consequently, instead of interceding on your behalf; they will bear witness against you." 28 "... who will be guilty of iniquity ...": " .... who will be unjust to the Reality and the Truth and guilty of disbelief and shirk "The context shows that those who reject the Prophet and set up other deities instead of Allah and deny life in the Hereafter, are guilty of zulm (iniquity).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :27 یعنی تمہارا یہ مذہب ، جس کو تم حق سمجھے بیٹھے ہو ، بالکل بے اصل ثابت ہو گا ، اور تمہارے وہ معبود جن پر تمہیں بھروسہ ہے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ، الٹے تم کو خطا کار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جائیں گے ۔ تم نے جو کچھ بھی اپنے معبودوں کو قرار دے رکھا ہے ، بطور خود ہی قرار دے رکھا ہے ۔ ان میں سے کسی نے بھی تم سے یہ نہ کہا تھا کہ ہمیں یہ کچھ مانو ، اور اس طرح ہماری نذر و نیاز کیا کرو ، اور ہم خدا کے ہاں تمہاری سفارش کرنے کا ذمہ لیتے ہیں ۔ ایسا کوئی قول کسی فرشتے یا کسی بزرگ کی طرف سے نہ یہاں تمہارے پاس موجود ہے ، نہ قیامت میں تم اسے ثابت کر سکو گے ، بلکہ وہ سب کے سب خود تمہاری آنکھوں کے سامنے ان باتوں کی تردید کریں گے اور تم اپنے کانوں سے ان کی تردید سن لو گے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :28 یہاں ظلم سے مراد حقیقت اور صداقت پر ظلم ہے ، یعنی کفر و شرک ۔ سیاق و سباق خود ظاہر کر رہا ہے کہ نبی کو نہ ماننے والے اور خدا کے بجائے دوسروں کو معبود بنا بیٹھنے والے اور آخرت کا انکار کرنے والے ظلم کے مرتکب قرار دیے جارہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:19) کذبوکم۔ کذبوا ماضی جمع مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ضمیر فاعل۔ معبودین کے لئے اور ضمیر مفعول عابدین کے لئے ہے۔ یعنی (سواے کافرو) تمہارے معبودوں نے ہی تم کو جھٹلا دیا۔ بما تقولون ان باتوں میں جو تم کہہ رہے ہو۔ فما تستطیعون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ سو اے کافرو ! نہ تم میں طاقت ہے (اس عذاب کو ٹال دینے کی یا پھیر دینے کی اور نہ ہی تم کو مدد پہنچ سکتی ہے) ۔ صرفا۔ پھیرنا۔ ٹالنا۔ صرف یصرف (ضرب) کا مصدر ہے۔ اسی طرح نصرا۔ نصر ینصر کا مصدر بمعنی مدد ہے۔ یعنی پھر نہ اس عذاب کا ٹال دینا تمہاری استطاعت میں ہے اور نہ ہی کوئی مدد (بالواسطہ یا بلاواسطہ ) تمہارے بس میں ہے۔ من یظلم۔ جو ظلم کرے گا۔ ظلم سے مراد کسی شے کا اپنی صحیح جگہ سے دوسری جگہ رکھ دینا ہے شرک کو بھی ظلم کہتے ہیں کیونکہ خالق کو معبود بنانے کی بجائے مخلوق کو معبود ٹھہرانا کسی شے کو اپنے اصلی موقع کی بجائے غلط جگہ رکھنے کی بدترین مثال ہے۔ اسی لئے شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ ان الشرک لظلم عظیم (31:13) یظلم مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ شرط کی وجہ سے مجزوم ہے اور اسی طرح نذقہ جواب شرط کی وجہ سے مجزوم ہے۔ (ہم اسے چکھائیں گے) ۔ عذابا کبیرا۔ موصوف وصفت ہو کر نذق کا مفعول ثانی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی پھر اللہ تعالیٰ کافروں سے کہے گا ” یہ تو……8 ۔ یعنی تمہاری اس بات کو جھٹلا چکے کہ یہ عبادت کئے جانے کے قابل ہستیاں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صلحاء کی عاجزانہ وضاحت کے بعد اللہ تعالیٰ کا اعلان۔ انبیاء کرام، نیک علماء اور صلحاء حضرات کی عاجزانہ اور معذرت خواہانہ وضاحت سننے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تمہاری معذرت قبول کی جاتی ہے کیونکہ تم لوگوں کو عقیدہ توحید بتلاتے اور سمجھاتے رہے لیکن انہوں نے تمہیں جھٹلادیا لہٰذا تم میں اس بات کا کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ تم ان کی کسی قسم کی مدد کرسکو یا ان سے عذاب ٹال سکو۔ اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں، کیونکہ میرا فیصلہ تھا اور ہے کہ تم میں جو بھی ظلم کرے گا میں اس کو زبردست عذاب میں مبتلا کروں گا لہٰذا آج شرک کرنے والوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ ظلم سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ (الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ) قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلّ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی (الَّذِینَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے پوچھا ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بلا شبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “ (اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہ النَّارُوَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍٍ ) [ المائدہ : ٧٢] ” بیشک جو شخص اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ظالم کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ ) [ رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے لیے ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردے گا وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا راوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک کرنے سے باز نہ آیا۔ “ مسائل ١۔ شرک کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ ٢۔ ظالم کی قیامت کے دن کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ ظالم کو زبردست عذاب دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن شرک پرلے درجے کا ظلم ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان۔ (الانعام : ١٦٤) ٢۔ جو اللہ کی ملاقات چاہتا ہے وہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ (النساء : ٤٨ تا ١١٦) ٤۔ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٥۔ حضرت لقمان کی نصیحت کہ اے بیٹے شرک نہ کر شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کی گئی ان سے مذکورہ بلا سوال ہوگا ان کا جواب نقل فرما کر ارشاد فرمایا (فَقَدْ کَذَّبُوکُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ فَمَا تَسْتَطِیعُوْنَ صَرْفًا وَلاَ نَصْرًا) اس میں اس خطاب کا ذکر ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں سے ہوگا کہ تم جو ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کے معبود ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اسے تمہارے معبودین نے جھٹلا دیا اب تمہیں عذاب ہی میں جانا ہے عذاب دفع کرنے کی تمہارے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے اور کوئی مدد کا راستہ بھی نہیں ہے نہ تم خود اپنی کوئی مدد کرسکتے ہو نہ کوئی تمہاری مدد کرسکتا ہے۔ مذکورہ سوال و جواب سے مشرکین کی بیوقوفی اور حماقت ظاہر ہوجائے گی دنیا میں جن لوگوں کی عبادت کرتے تھے وہ ان سے بیزاری ظاہر کریں گے۔ ان سے جو نفع کی امید کی تھی وہ منقطع ہوجائے گی۔ (وَّمَنْ یَّظْلِمْ مِنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًا) اس میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو دنیا میں موجود ہیں کہ موت سے پہلے ایمان لے آؤ ظلم یعنی کفر کو چھوڑو جو شخص کفر پر مرجائے ہم اسے آخرت میں بڑا عذاب چکھا دیں گے۔ قال صاحب الروح و تفسیر الظلم بالکفر ھو المروی عن ابن عباس والحسن و ابن جریج وایدبان المقام یقتضیہ فان الکلام فی الکفر و عیدہٖ من مفتتح السورۃ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” فقد کذبوک الخ “ اس سے پہلے فیقال لھم مقدر ہے یعنی نیک بندوں کے جواب کے بعد مشرکین سے کہا جائے گا کہ دیکھ لو جن کو تم برکات دہندہ سمجھ کر پکارا کرتے تھے انہوں نے بھی تمہیں جھٹلا دیا ہے تمہارا دعوی تھا کہ وہ تمہارے کارساز اور برکات دہندہ ہیں مگر انہوں نے اپنی الوہیت کا صاف انکار کردیا ہے اور یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ انہیں تمہاری پکار کی خبر تک نہ تھی۔ جیسا کہ دوسری جگہ ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ ” فکفی باللہ شہیدا بیننا و بینک ان کنا عن عبادتکم لغفلین “ ( سورة یونس رکوع 3) ۔ ” فما تستطیعون الخ “ جن کو تم برکات دہندہ سمجھتے تھے آج وہ تم سے عذاب کو نہیں ہٹا سکیں اور نہ کسی اور طریقے سے تمہاری کچھ مدد کرسکیں گے۔ ” ویظلم منکم الخ “ خطاب عام ہے تمام مکلفین سے یعنی تم میں سے جو بھی ان مشرکین کی طرح کفر و شرک کرے گا اسے ہم بہت سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ومن یظلم ای کفر منکم ایھا المکلفون و یعبد من دون اللہ تعالیٰ الھا اخر کھؤلاء الکفرۃ الخ (روح ج 18 ص 2) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اب تو تمہارے ان معبودوں نے ہی تمہاری تکذیب کردی اور تمہاری باتوں کو جھوٹا بتادیا اور تم جو کچھ کہتے تھے اس کو جھوٹا کردیا لہٰذا اب تم نہ تو اپنے پر سے عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ تم کسی طرف سے مدد ہی دئیے جاسکتے ہو اور جو تم میں سے گناہ گار ہے ہم اس کو بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ یعنی جو توقعات معبودان باطلہ سے قائم کر رکھی تھیں وہ سب غلط ہوئیں معبود ان باطلہ نے تمہاری پرستش کی خود تمہارے سامنے تردید کردی اب نہ تو تم میں خود دم ہے کہ عذاب الٰہی کو ٹلا دو اور نہ تمہارے معبودوں میں اتنی جان ہے کہ تمہاری مدد کرسکیں کیونکہ وہ خود محتاج ہیں نیز یہ کہ وہ تمہارے شرک کی وجہ سے خود تم سے بیزار ہیں لہٰذا امداد کی بھی کوئی شکل باقی نہیں رہی۔ آگے فرمایا تم میں سے جو مشرک ہوگا اس کو ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے بعض حضرات نے یظلم کا ترجمہ گناہ گار کیا ہے ہم نے تیسر میں اس کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے ظلم سے مراد کسی نے شرک لیا ہے اور کسی نے گناہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عذاب پھیر دینا یا بات پلٹ ڈالتی 12 حضرت شاہ صاحب نے یہ تفسیر صرفاً کے لفظ سے کی ہے۔