Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 2

سورة الفرقان

ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾

He to whom belongs the dominion of the heavens and the earth and who has not taken a son and has not had a partner in dominion and has created each thing and determined it with [precise] determination.

اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے اور ہرچیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازہ ٹھہرادیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ... He to Whom belongs the dominion of the heavens and the earth, and Who has begotten no son and for Whom there is no partner in the dominion. Allah states that He is above having any offspring or partner. Then He tells us: ... وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا ...  He has created everything, and has measured it exactly according to its due measurements. meaning, everything apart from Him is created and subject to Him. He is the Creator, Lord, Master and God of all things, and everything is subject to His dominion, control and power.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔ 22اس میں نصاریٰ ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ 23اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔ 24ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطا... بق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی پوری کائنات کا مکمل اقتدار و اختیار) آج کی زبان میں اقتدار اعلیٰ (Sovereignty) اسی کے ہاتھ میں ہے اور جب یہ بات تسلیم کرلی جائے تو سب قسم کے شریکوں کی از خود نفی ہوجاتی ہے کیونکہ سب چیزیں اللہ کی مملوک اور وہ ان کا مالک ہے۔ اور بیٹا چونکہ مملوک نہیں ہوتا اور ہم یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ہر چیز...  اللہ کے مملوک ہے تو اس کا کسی سے نسبی تعلق ہونے کی بھی از خود نفی ہوگئی۔ [ ٦] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو، خواہ وہ جاندار ہے یا بےجان، پیدا بھی کیا پھر اس نے ہر ایک چیز کا وظیفہ اور اس کے لئے قوانین بھی بنا دیئے۔ جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتی۔ مثلاً کوئی جاندار ایسا نہیں جسے موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ہر چیز کو جو بنتی ہے وہ ضرور کسی نے کسی وقت فنا بھی ہوجائے گی۔ پانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی وقت بلندی کی طرف بہنا بھی شروع کردے یا پستی کی طرف بہنا رک جائے۔ نہ آگ کے لئے ممکن ہے کہ وہ ٹھنڈک پہنچانا شروع کر دے۔ آپ کسی کتے کو عمدہ اور بکثرت عذائیں کھلا پلا کر گھوڑے کے قد کے برابر نہیں کرسکتے غرض ہر ایک چیز کے لئے کچھ حدود اور کچھ وظائف اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیئے ہیں۔ اور یہی ہر چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کا اندازہ ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات بیان فرمائی ہیں جو اس کی توحید کی دلیل ہیں۔ پہلی یہ کہ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں۔ ان دونوں کو چلانے والا وہی ہے، دوسرے سب اپنے وجود اور اپنی بقا میں اسی کے محتاج ہیں۔ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَ... دًا : یہ دوسری صفت ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس میں یہود و نصاریٰ کا ردّ ہے اور ان جھوٹے مسلمانوں کا بھی جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رض) کو، یا کسی اور کو اللہ کے نور کا ٹکڑا مانتے ہیں۔ وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ : یہ تیسری صفت ہے۔ ” لَمْ يَكُنْ “ میں نفی کا استمرار ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے۔ “ اس میں ہر قسم کے مشرکین کا ردّ ہے، جیسے بت پرست، قبر پرست، دو خدا ماننے والے اور شرک خفی کا ارتکاب کرنے والے وغیرہ۔ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا : یہ چوتھی صفت ہے کہ ہر چیز اسی نے پیدا کی، پھر اس کے لیے ایک خاص اندازہ مقرر فرما دیا، جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت، جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں، مثلاً انسان کو فہم و ادراک، غور و فکر، صنعت و حرفت اور مفید کام بجا لانے کی صلاحیت بخشی، اسی طرح ہر حیوان اور پودے اور جماد کو اس مصلحت کے مطابق بنایا جو اس سے مطلوب تھی۔ جب اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو کسی اور کی عبادت کیوں ؟ دیکھیے سورة انعام (١٠٢) ، رعد (١٦) ، فاطر (٣) ، زمر (٦٢) ، مؤمن (٦٢) ، حج (٧٣) ، نحل (٢٠) اور اعراف (١٩١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Special Wisdom in every creation فَقَدَّرَ‌هُ تَقْدِيرً‌ا (And designed it in a perfect measure - 25:2): Here تَقْدِير‌ (designing in a perfect measure) is mentioned after تخلِیق (Creation). تخلِیق means to create something from nothing that is to bring in something without any pre-existing substance whatsoever. And (designed in a perfect measure) means that, whatever has been created, its compo... nents, appearance, properties and signs are made to suit the purpose of its creation. The form of the sky, its constituents and its shape are in conformity to that purpose for which Allah Ta’ ala has created it. Similarly, the stars and planets possess those qualities for which they are created. Whatever we see on the earth is absolutely perfect in its form, shape and construction to suit the purpose and requirement of its creation. For instance, earth is not made in such a liquid form, that anything put on it is drowned, nor is it made too hard like steel or concrete to be dug. It is made in the solid form and given a Hardness that it could be dug to take out underground water or to place foundations for the buildings. Water is given the liquid form which again is full of Divine Wisdom and helps meet the multifarious needs of the creatures spread all over the earth. Water does not reach on its own at all the places where it is needed. Man has to put in some skill and labour to take it to places where it is required. On the other hand air is a compulsory gift which reaches every place without any labour or an active role from human beings. Even if someone wants to avoid it, he has to exert extra labour. It is not the place to describe Divine creations and their characteristics as it needs volumes for the purpose. Each and every creation of Allah Subhanahu wa Ta’ ala is perfect in its purpose and has its own peculiar properties and traits. Imam Ghazzali has written a book on the subject by the name الحکمۃ فی مخلوقات اللہ تعالیٰ . These verses define the sacred and exalted position of the Holy Qur’ an and by addressing the person on whom the book is revealed as عَبدَہ (His slave) in the very beginning of the Surah, his honoured position is highlighted. There cannot be a greater honour for any one than to be called by Allah Ta’ ala as &His own&..  Show more

فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا، تخلیق کے بعد تقدیر کا ذکر فرمایا گیا۔ تخلیق کے معنی تو اتنے ہیں کہ بغیر کسی سابق مادہ وغیرہ کے ایک چیز کو عدم سے وجود میں لایا جائے وہ کیسی بھی ہو۔ مخلوقات میں سے ہر ایک چیز میں خاص خاص حکمتیں : اور تقدیر کا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو بھی پیدا فرمایا اس کے اجزاء کی ساخت اور ... شکل و صورت اور آثار و خواص بڑی حکمت کے ساتھ اس کام کے مناسب پیدا کئے جس کام کے لئے اس چیز کو پیدا کیا گیا ہے۔ آسمان کی ساخت اس کے اجزاء ترکیبی اس کی ہیئت اس کام کے مناسب ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان بنایا ہے۔ سیاروں اور ستاروں کی تخلیق میں وہ چیزیں رکھی گئیں جو ان کے منشاء وجود کے مناسب ہیں۔ زمین اور اس کے پیٹ میں پیدا ہونے والی ہر چیز جس پر نظر ڈالو ہر ایک کی ساخت، شکل و صورت، نرمی، سختی اس کام کے مناسب بنائی گئی ہے۔ جس کام کے لئے قدرت نے اس کو پیدا کیا ہے۔ زمین کو نہ اتنا رقیق مادہ پانی کی طرح بنایا کہ جو کچھ اس پر رکھا جائے وہ اس کے اندر ڈوب جائے، نہ اتنا سخت پتھر اور لوہے کی طرح بنایا کہ اس کو کھود نہ سکیں کیونکہ اس سے یہی ضرورتیں متعلق تھیں کہ اس کو کھود کر پانی بھی نکالا جاسکے۔ اس میں بنیادیں کھود کر بڑی اونچی عمارتیں اس پر کھڑی کی جاسکیں۔ پانی کو سیال بنایا جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں۔ ہوا بھی سیال ہی ہے مگر پانی سے مختلف، پانی ہر جگہ خود بخود نہیں پہنچتا اس میں انسان کو کچھ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ ہوا کو قدرت نے اپنا جبری انعام بنایا کہ وہ بغیر کسی محنت و عمل کے ہر جگہ پہنچ جاتی ہے بلکہ کوئی شخص ہوا سے بچنا چاہے تو اس کو اس کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ جگہ مخلوقات الہیہ کی حکمتوں کی تفصیل بیان کرنے کی نہیں۔ ایک ایک مخلوق کو دیکھو ان میں سے ہر ایک قدرت و حکمت کا شاہکار ہے۔ امام غزالی نے اپنی ایک مستقل کتاب اس موضوع پر لکھی ہے بنام الحکمتہ فی مخلوقات اللہ تعالیٰ ۔ ان آیات میں شروع ہی سے قرآن کی عظمت اور جس ذات گرامی پر وہ نازل ہوا ہے اس کو عبدہ کا خطاب دے کر اس کی عزت و عظمت کا عجیب و غریب بیان ہے۔ کیونکہ کسی مخلوق کے لئے اس سے بڑا کوئی شرف نہیں ہوسکتا کہ خالق اس کو یہ کہہ دے کہ یہ میرا ہے۔ بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام تو بزبان خود بگو بندہ نواز کیستی   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِيْرًا۝ ٢ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، ت... ولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) وہ ایسی ذات ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین یعنی نظام بارش ونباتات وغیرہ کی حکومت حاصل ہے اور بقول یہود و نصاری کے اس نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے حکومت میں جیسا کہ مشرکین عرب بکتے رہتے ہیں اور اس نے ہر موجود چیز کو پیدا کیا خواہ وہ شے موجود اس کی عابد ہو یا نہ ہو اور پھ... ر سب کی عمریں رزق اور اعمال کا الگ الگ انداز رکھا یا یہ کہ ہر ایک نر کے لیے مادہ بنائی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا ) ” یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت سے بہت مشابہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 Another translation may be: "To Him belongs the Sovereignty of the heavens and the earth." That is, He alone has an exclusive right to it, and no one else has any right to it nor any share in it 6 That is, "He has neither any relation of direct parenthood to anyone, nor has He taken anyone as a son. Therefore, none else in the universe is entitled to worship. He is Unique and there can be no pa... rtner in His Godhead. Thus alI those who associate with Him angels or jinns or saints as His offspring, are ignorant. Likewise, those who believe that some one, is His "son", are also ignorant. They have no true conception of the Greatness of AIIah and consider Him to be weak and needy like human beings, who require some one to become their inheritor. It is sheer ignorance and folly." For further details, see E.N.'s 66 to G8 of Surah Yunus . 7 The Arabic word mulk means Sovereignty, Supreme Authority, and Kingship. Thus the sentence will mean: "AIIah is the Absolute Ruler of the whole universe and there is none other who may have any right to authority; therefore He alone is God." For whenever a man takes anything else as his lord, he does so under the presumption that his deity has the power to do good or bring harm and make or mar his fortune; nobody will like to worship a powerless deity. Now when it is recognized that none but AIIah has the real power and authority in the universe, nobody will bow before anyone other than Him in worship, nor will sing anybody else's hymns, nor commit the folly of bowing in worship before any thing else except his real God, or recognize any other as his ruler, because "To AIIah belongs the Sovereignty of the heavens and the earth and to Him alone." 8 There may be other translations of this also: "He has ordained it in due proportion"; or "He has appointed an exact measure for everything." But no translation can convey its real meaning, which is: "Allah has not only created everything in the universe but also determined its shape, size, potentialities, characteristics, term of existence, the limitations and extent of its development and aII other things concerning it. Then, He has created the means and provisions to enable it to function properly in its own separate sphere. " This is one of the most comprehensive verses of the Qur'an with regard to the Doctrine of Tauhid. According to Traditions, the Holy Prophet himself taught this verse to every child of his family as soon as it was able to speak and utter a few words. Thus, this verse is the best means of impressing the Doctrine of Tauhid on our minds, and every Muslim should use it for educating his children as soon as they develop understanding.  Show more

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے ، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہے کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا اسمیں کوئی حصہ ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :6 یعنی نہ تو کسی سے ا... س کا کوئی نسبی تعلق ہے ، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے ۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو ۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے ، کوئی اس کا ہم جنس نہیں ، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گئے ہوں ۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں ، یا جنوں ، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی ، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی ، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ بیٹا بنا لینے کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو ۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی برتری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ۔ انہوں نے اس ذات بے ہمتا و بے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں ، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں ، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو ۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے ، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ۔ یونس ، حواشی 66 تا 68 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :7 اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ ، اور حاکمیت ( Sovereignty ) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا ۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی ، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا ، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی ، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے ، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :8 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ، یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا ۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہرحال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا ۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت ، جسامت ، قوت و استعداد ، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق ، بقاء کی مدت ، عروج و ارتقاء کی حد ، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جب کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ( مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:2) لہ۔ میں لام اختصاص کے لئے ہے۔ خاص اسی کے لئے ۔ بلا شرکت غیرے۔ ملک۔ بادشاہت ۔ سلطنت۔ لم یتخذ۔ مضارع نفی حجد بلم مجزوم بوجہ عمل لم۔ اتخاذ (افتعال) مصدر۔ اس نے نہیں بنایا۔ اس نے قرار نہیں دیا۔ ولم یتخذ ولدا۔ اور نہیں بنایا اس نے (کسی کو اپنا) بیٹا۔ ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد۔ کسی کو بطور پسر ... نہیں ٹھہرایا۔ یہ جملہ، جملہ ماقبل (الذی لہ ملک السموت والارض) پر معطوف ہے۔ اسی طرح جملہ ولم یکن لہ شریک فی الملک اور جملہ وخلق کل شیء اور جملہ فقدرہ تقدیرا کا عطف اسی جملہ (الذی لہ ملک السموت والارض) پر ہے۔ قذرہ۔ ماضی واحد مذکر غائب تقدیر (تفعیل) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع کل شیء ہے۔ القدر (ضرب) اور التقدیر (تفعیل) کسی چیز کی مقدار (کمیت) کو بیان کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ جیسے فقدرنا فنعم القدرون (77 : 23) پھر ہم نے اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ کرنے والے ہیں۔ اور واللہ یقدر اللیل والنھار (73:20) اور اللہ تعالیٰ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اسی سے قدر بمعنی مقدور ۔ حیثیت ۔ بساط ہے۔ جیسے علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ (2: 236) یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق (دے) اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ فقدرہ تقدیرا۔ پھر ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا۔ باب تفعیل سے جب استعمال ہو تو معنی ہوتے ہیں سوچ سمجھ کر۔ پورے غوروخوض کے بعد۔ اور جب مصدر کو بھی تاکید کے لئے لایا جائے تو مطلب ہوگا کہ اس نے جو اندازہ مقرر کیا ہے اس میں کسی تغیر وتبدل کی گنجائش نہیں ہے (تا آنکہ خود اس قادر مطلق کی مشیت ایسا چاہے) ۔ اس آیت میں الذی (فی قولہ تعالیٰ تبارک الذی) کی مندرجہ ذیل صفات بیان کی گئی ہیں۔ (1) انہ ھو الذی لہ ملک السموت والارض۔ وہ وہ ذات ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے۔ (2) انہ لم یتخذ ولدا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (3) انہ لا شریک لہ فی ملکہ۔ اس کی حکومت میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے۔ (4) انہ خالق کل شیئ۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ (5) انہ قدر کل شیء تقدیرا۔ اس نے ہر چیز کا جسے اس نے پیدا کیا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی اسے ایک خاص اندازے میں رکھا جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوئے جن کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کسی چیز کے آثار و خواص کچھ ہیں کسی کے کچھ ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے لوگوں کو شرک کے انجام، مضمرات سے ڈرایا اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لیے بھی شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اکیلا ہی زمینوں آسمانوں کا مالک ہے اس کی نہ کوئی اولاد ہے او... ر نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی کسی اعتبار سے سھیم اور شریک ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر ٹھیک ٹھیک اس کا اندازہ مقرر فرمایا۔ اس مختصر آیت میں چار طویل ترین مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ 1 زمین و آسمان کی بادشاہی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی سے مراد جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے وہسب کا سب اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اور اس پر اسی کی حکومت ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اور نہ ہی اسے اولاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اولاد سے بےنیاز ہونے کے قرآن مجید میں درجنوں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس نے جن، انس، ملائکہ اور اپنی مخلوق میں کسی کو نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بیٹی ہے۔ سورة اخلاص میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہ کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز پیدا ہوئی ہے۔ 3 زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے ان پر صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہے نہ کائنات کی تخلیق کے وقت کوئی اس کا شریک تھا اور نہ ہی اس نے کسی کو ان میں شریک بنایا ہے 4 اس نے ناصرف ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کی شکل و صورت، قدوقامت، خوراک اور ماحول یہاں تک کہ اس کے ذمہ وہی کام لگایا گیا ہے جو اس کے لائق تھا آپ مخلوق میں سے کسی چیز کو اس کی شکل و صورت اور قدوقامت کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں کہ تربوز کی بیل اتنا بڑا پھل اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس لیے اسے زمین پر بچھا دیا گیا۔ آم کا درخت تربوز سے وزنی آم اٹھا سکتا تھا لیکن اتنا بڑا آم اگر درخت کے نیچے بیٹھے شخص کے سر پر گرجائے تو اس کا کیا حشر ہوتا۔ گھوڑے نے شاہسوار کو لیکر دوڑنا تھا اس کے مطابق ہی اس کے وجود میں سرعت اور طاقت رکھ دی گئی۔ اونٹ نے صحراؤں کے اندر چلنا اور باربرداری کا کام کرنا تھا اس کے وجود کو اسی انداز کا بنایا۔ تاکہ وہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا رہ کر سفر کرتا رہے علی ھذ القیاس، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اپنی ہیئت اور ذمہ داری کے حوالے سے ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ہے۔ پھول کو دیکھیے کہ وہ اپنے وجود میں گلدستہ کی ترتیب لیے ہوئے ہے کیا مجال ہے کہ پھول میں کوئی پتی ایک حد سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہو۔ انسان اپنے آپ پر غور کرے کہ ذات کبریا نے اسے پیدا فرما کر کس طرح اسے متوازن اعضاء عطا فرمائے اگر کسی انسان کے کان ہی اس کی عمر کے مطابق بڑھتے جائیں تو وہ انسان کس قدر خوفناک شکل اختیار کر جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے کہ اس نے انسان ہی نہیں بلکہ اس نے ہر چیز کے اعضاء خوبصورت اور متوازن پیدا فرمائے ہیں۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس نے ہر چیز کا ٹھیک ٹھیک انداز مقرر فرمایا۔ 1 کان تو ایک طرف اگر ہاتھ کی ایک انگلی ہی انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ لمبی ہوجائے تو ناصرف پورے کا پورا ہاتھ بیکار ہوگا بلکہ انسان کے لیے اپنا ہاتھ بند کرنا ہی ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح ناک کو سامنے رکھیں اگر انسان کی ناک لمبی بنا دی جاتی تو اس کی ناصرف شکل ہی خوفناک ہوتی بلکہ اس کے لیے کھانا پینا ہی مشکل ہوجاتا۔ مسائل ١۔ صرف اللہ ہی زمین و آسمانوں کا بادشاہ ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے کسی چیز کو اپنی اولاد نہیں بنایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو متوازن پیدا فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ : ٢١۔ ٢٢) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام : ١٠٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے پانی کے درمیان پردہ حائل کیا۔ ( الفرقان : ٥٣) ٨۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر قرآن نازل فرمانے والی ذات بابرکات کی صفات بیان فرمائیں جس کی طرف سے ہر طرح کی برکت اور خیر کثیر ملتی ہے فرمایا (الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (جس کے لیے ملک ہے آسمانوں کا اور زمین کا) (وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا) (اور اس نے اپنے لیے کوئی اولاد تجویز نہیں کی) (وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ ... شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ) (اور ملک میں اس کا کوئی شریک نہیں) (وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ ) (اور اس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا) (فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا) یعنی جس چیز کو پیدا فرمایا اس کی ساخت اور شکل و صورت کا ایک خاص انداز بنایا اور اس کے آثار و خواص بھی پیدا فرمائے اور ہر چیز کو اپنی حکمت کے مطابق اعمال و اشغال میں لگا دیا۔ آسمان کی ساخت اس کے اجزاء ترکیبی اس کی ہیئت اس کے حال کے مناسب ہے اسی طرح سیاروں اور ستاروں کی تخلیق میں وہ چیزیں رکھی گئیں جو ان کے احوال کے مناسب ہیں زمین اور اس کے پیٹ میں پیدا ہونے والی جس چیز پر نظر ڈالو ہر ایک کی ساخت شکل و صورت، نرمی سختی وغیرہ ہر حالت اور ہر صفت اس کام کے مناسب بنائی ہے جس کے لیے اس کو پیدا فرمایا زمین کو نہ اتنا رقیق مادہ بنایا کہ جو کچھ اس پر رکھا جائے وہ اس کے اندر ڈوب جائے اور نہ پتھر اور لوہے کی طرح ایسا سخت بنایا کہ اس کو کھود نہ سکیں چونکہ اس سے یہ ضرورتیں بھی متعلق تھیں کہ اس کو کھود کر پانی نکالا جاسکے اور بنیادیں کھود کر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کی جاسکیں اس لیے اس کو ایسی ہی ہیئت کذائیہ پر رکھا گیا، پانی کو سیال بنایا جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں ہوا بھی سیال مادہ کی طرح ہے مگر پانی سے مختلف ہے پانی ہر جگہ خود بخود نہیں پہنچتا اس میں انسان کو کچھ محنت بھی کرنی پڑتی ہے ہوا کو قادر مطلق نے اپنا ایسا جبری انعام بنایا کہ وہ بغیر کسی محنت و عمل کے ہر جگہ پہنچ جاتی ہے بلکہ کوئی شخص ہوا سے بچنا چاہے تو اس کو اس کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے قال صاحب الروح فقدرہ ای ھیاہ لما ارادبِہٖ من الخصائص والا فعال اللّائقہ بِہٖ تقدیرا بدیعًا لا یقادرُ قدرہ ولا یبلغ کنھہ کھیءۃ الانسان للفھم والا دراک والنظر والتدبر فی امور المعاد والمعاش واستنباط الصنائع المتنوعۃ و مزاولۃ الاعمال المختلفۃ الی غیر ذلک۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” الذی لہ الخ “: یہ دوسری عقلی دلیل ہے زمین و آسمان کی سلطنت اور سارے جہان کا نظام کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی میں کوئی اس کا نائب اور شریک نہیں لہذا اس کے سوا برکات دہندہ بھی کوئی نہیں۔ ” وخلق کل شیء الخ “ یہ تیسری عقلی دلیل ہے اور اسی ہی نے ہر چیز کو اس کے صحیح معیار کے مطا... بق پیدا فرمایا۔ جب ہر چیز کا خالق ومالک وہی ہے اور تخت بادشاہی پر بھی بھی وہی متمکن ہے تو بتاؤ برکات دینے والا کوئی اور ہوگا ؟ ہرگز نہیں ! لہذا وہی برکات دہندہ ہے۔ ” لم یتخذ ولدا “ کی تعبیر بتا رہی ہے کہ یہاں نسبی ولدیت کی نفی مقصود ہے جو اللہ کے نیک بندوں کو اس کے لیے بمنزلہ اولاد سمجھتے تھے یعنی کسی کو اس نے اولاد کی طرح نائب اور کار مختار نہیں بنا رکھا، ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد (روح ج 18 ص 232) ولم یخذ ولدا الظار نفی الاتخاذ ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد (بحر ج 6 ص 480) ولم یتخذ ولدا فبین سبحانہ انہ ھو المعبود ابدا ولا یصح ان یکون غیرہ معبود او وارثا للملک عنہ (کبیر ج 6 ص 445) ۔ ” فقدرہ تقدیرا “ ہر چیز کو ٹھیک ٹھیک اندازے کیساتھ وہی رکھتا ہے تو کیا برکت ڈالنے والا کوئی اور ہوگا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) وہ ذات ایسی ہے کہ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے اور نہ اس نے کسی کو اپنی اولاد بنایا اور قراردیا اور نہ اس کی حکومت میں کوئی اس کا شریک اور ساجھی ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ہر چیز کا ایک مناسب اور موزوں انداز رکھا یعنی حضرت حق تعالیٰ کی ذات اقدس ایسی ہے کہ خواہ آسمانوں کی سلطنت...  ہو یا زمین کی سب اسی کی ہے اس کی کوئی اولاد بھی نہیں نہ اس نے کسی کو اولاد مقرر کیا نہ اس کی حکومت اور اس کے راج میں کوئی اس کا شریک ہوا اسی نے ہر موجود ہر چیز کو بنایا اور پیدا کیا پھر ہر چیز کا الگ الگ انداز رکھا جو نہایت موزوں اور مناسب ہے کسی چیز کے خواص کچھ رکھے اور کسی کے کچھ رکھے۔  Show more