5 Another translation may be: "To Him belongs the Sovereignty of the heavens and the earth." That is, He alone has an exclusive right to it, and no one else has any right to it nor any share in it
6 That is, "He has neither any relation of direct parenthood to anyone, nor has He taken anyone as a son. Therefore, none else in the universe is entitled to worship. He is Unique and there can be no pa... rtner in His Godhead. Thus alI those who associate with Him angels or jinns or saints as His offspring, are ignorant. Likewise, those who believe that some one, is His "son", are also ignorant. They have no true conception of the Greatness of AIIah and consider Him to be weak and needy like human beings, who require some one to become their inheritor. It is sheer ignorance and folly." For further details, see E.N.'s 66 to G8 of Surah Yunus .
7 The Arabic word mulk means Sovereignty, Supreme Authority, and Kingship. Thus the sentence will mean: "AIIah is the Absolute Ruler of the whole universe and there is none other who may have any right to authority; therefore He alone is God." For whenever a man takes anything else as his lord, he does so under the presumption that his deity has the power to do good or bring harm and make or mar his fortune; nobody will like to worship a powerless deity. Now when it is recognized that none but AIIah has the real power and authority in the universe, nobody will bow before anyone other than Him in worship, nor will sing anybody else's hymns, nor commit the folly of bowing in worship before any thing else except his real God, or recognize any other as his ruler, because "To AIIah belongs the Sovereignty of the heavens and the earth and to Him alone."
8 There may be other translations of this also: "He has ordained it in due proportion"; or "He has appointed an exact measure for everything." But no translation can convey its real meaning, which is: "Allah has not only created everything in the universe but also determined its shape, size, potentialities, characteristics, term of existence, the limitations and extent of its development and aII other things concerning it. Then, He has created the means and provisions to enable it to function properly in its own separate sphere. " This is one of the most comprehensive verses of the Qur'an with regard to the Doctrine of Tauhid. According to Traditions, the Holy Prophet himself taught this verse to every child of his family as soon as it was able to speak and utter a few words. Thus, this verse is the best means of impressing the Doctrine of Tauhid on our minds, and every Muslim should use it for educating his children as soon as they develop understanding. Show more
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :5
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے ، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہے کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا اسمیں کوئی حصہ ہے ۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :6
یعنی نہ تو کسی سے ا... س کا کوئی نسبی تعلق ہے ، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے ۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو ۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے ، کوئی اس کا ہم جنس نہیں ، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گئے ہوں ۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں ، یا جنوں ، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی ، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی ، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ بیٹا بنا لینے کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو ۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی برتری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ۔ انہوں نے اس ذات بے ہمتا و بے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں ، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں ، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو ۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے ، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ۔ یونس ، حواشی 66 تا 68 ) ۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :7
اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ ، اور حاکمیت ( Sovereignty ) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا ۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی ، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا ، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی ، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے ، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :8
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ، یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا ۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہرحال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا ۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت ، جسامت ، قوت و استعداد ، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق ، بقاء کی مدت ، عروج و ارتقاء کی حد ، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔
اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جب کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ( مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے ۔ Show more