Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 22

سورة الفرقان

یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ﴿۲۲﴾

The day they see the angels - no good tidings will there be that day for the criminals, and [the angels] will say, "Prevented and inaccessible."

جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day they will see the angels -- no good news will there be for the criminals that day. And they will say: "Hijran Mahjura." means, when they do see the angels, it will not be a good day for them, for on that day there will be no good news for them. This is also confirmed at the time when they are dying, when the angels bring them the tidings of Hell and the wrath of the Compeller, and when the disbeliever's soul is being taken out, the angels say to it, "Come out, O evil soul from an evil body, come out to fierce hot wind and boiling water, and the shadow of black smoke." It refuses to come out and it scatters throughout his body, so they beat him, as Allah says: وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَلَـيِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَـرَهُمْ And if you could see when the angels take away the souls of those who disbelieve; they smite their faces and their backs..." (8:50) ... وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَليِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ ... And if you could but see when the wrongdoers are in the agonies of death, while the angels are stretching forth their hands. that is, to beat them: ... أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ ايَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (saying): "Deliver your souls! This day you shall be recompensed with the torment of degradation because of what you used to utter against Allah other than the truth. And you used to reject His Ayat with disrespect!" (6: 93) Hence in this Ayah Allah says: يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَيِكَةَ لاَ بُشْرَى يَوْمَيِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ ... On the Day they will see the angels -- no good news will there be for the criminals, This is in contrast to the state of the believers when death approaches them, for they are given glad tidings of joy and delight. Allah says: إِنَّ الَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَـمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَـيِكَةُ أَلاَّ تَخَافُواْ وَلاَ تَحْزَنُواْ وَأَبْشِرُواْ بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَأوُكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِى الاٌّخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِى أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ Verily, those who say: "Our Lord is Allah," and then they stand firm, on them the angels will descend (saying): "Fear not, nor grieve! But receive the good news of Paradise which you have been promised! We have been your friends in the life of this world and are (so) in the Hereafter. Therein you shall have what your souls desire, and therein you shall have what you ask for. Entertainment from, the Oft-Forgiving, Most Merciful." (41:30-32) According to an authentic Hadith narrated from Al-Bara' bin Azib, the angels say to the believer's soul (at the time of death): "Come out, O good soul in a good body, as you were dwelling in it. Come out to rest and pleasant fragrances and a Lord Who is not angry." Other scholars said that the Ayah: يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَيِكَةَ لاَ بُشْرَى (On the Day they will see the angels -- no good news), refers to the Day of Resurrection. This was the view of Mujahid, Ad-Dahhak and others. But there is no contradiction between these two views, because on both of these days -- the day of death and the Day of Resurrection -- the angels will appear to the believers and disbelievers, and they will give glad tidings of divine mercy and pleasure to the believers, while they will give the disbelievers news that will bring regret and sorrow, so there will be no glad tidings for the evildoers and criminals on that Day. ... وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا And they (angels) will say: "Hijran Mahjura." The angels will say to the disbelievers: `success is forbidden to you this day.' The basic meaning of Al-Hijr is preventing or prohibition, hence the word is used in the phrase "Hajara Al-Qadi `Ala Fulan" (or, "The judge prohibited so and so.") when he forbids him to dispose of his wealth in cases of bankruptcy, folly, being underage, etc. The name of Al-Hijr (the low semicircular wall near the Ka`bah) is also derived from this root, because it prevents people from Tawaf inside it, since they have to go behind it. The mind is also called Al-Hijr, because it prevents a person from indulging in things that do not befit him. In conclusion, the pronoun in the phrase وَيَقُولُونَ (And they will say), refers to the angels. This was the view of Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan, Ad-Dahhak, Qatadah, Atiyyah Al-`Awfi, Ata' Al-Khurasani, Khusayf and others; it was also the view favored by Ibn Jarir. Ibn Jarir recorded that Ibn Jurayj said that, this referred to the words of the idolators. يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَيِكَةَ ... On the Day they will see the angels, means, they will seek refuge from the angels. This is because when disaster and hardship struck, the Arabs would say: حِجْرًا مَّحْجُورًا (Hijran Mahjura). Although there is a point to what Ibn Jurayj said, from the context it is unlikely that this is what was meant, and the majority of scholars said something different.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی اس لیے کہ فرشتے انھیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ ) 8 ۔ الانفال :50) ، (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :93) میں ہے اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ سورة حم السجدۃ3032میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مسند احمد، ابن ماجہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں مومنوں کو رحمت ورضوان الہی کی خوشخبری اور کافروں کو ہلاکت و خسران کی خبر دیتے ہیں۔ 222حِجْر کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بےوقوفی یا کم عمری کی وجہ سے اس کے اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک دے تو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِیْ عَلٰی فُلَان قاضی نے فلاں کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے حطیم کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے طواف کرتے وقت اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سے ممتاز کردیا گیا ہے اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسان کے لائق نہیں ہیں معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوشخبری متقین کو دی جاتی ہے یعنی یہ حراما محرما علیکم کے معنی میں ہے آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پر حرام ہیں اس کے مستحق صرف اہل ایمان وتقوی ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] ان کے فرشتوں کے دیکھنے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ دو دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں ایسے لوگ اس وقت فرشتوں کو بچشم خود دیکھ لیتے ہیں جب وہ ان پر قہر الٰہی اور عذاب الٰہی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ دوسرے اس وقت جب وہ ان کی جانیں نکالنے کے لئے ان کے پاس آئیں گے اور قیامت میں تو یہ ہر وقت ہی فرشتوں کو دیکھا کریں گے۔ جو بھی وقت اور جو بھی صورت ہو، ان کے لئے کوئی خوشی کی بات نہ ہوگی بلکہ جب بھی وہ ان کے پاس آئیں گے قہر الٰہی بن کر ہی آئیں گے۔ [ ٣٢] یہ محاورہ ہے۔ مجارہ ١ بمعنی پتھر اور حجر ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو پتھر کی طرح سخت بھی ہو اور روک یا آڑ کا کام بھی دے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ جب اپنے کسی دشمن کو، جس سے انھیں تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہوتا، دیکھ کر، یا کسی دوسری آفت کو دیکھ کر حجرا محجورا کہنے لگتے۔ جیسے ہم کہتے ہیں && اس سے اللہ کی پناہ && یا && اللہ اس سے ہمیں بجائیو && تو سننے والا عموماً یہ قول سن کر تکلیف نہیں پہنچاتا تھا۔ ایسے مجرمین بھی جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو یہی الفاظ بول کر ان سے پناہ مانگیں گے لیکن اس دن انھیں کوئی پناہ نہ ملے سکے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ : یعنی رب تعالیٰ کو دیکھنا تو بہت دور، فرشتوں کو دیکھنا بھی معمولی بات نہیں، جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن ان مجرموں کے لیے کوئی خوشی کی خبر نہیں ہوگی، کیونکہ وہ ان کے لیے عذاب ہی لے کر آتے ہیں (حجر : ٨) خواہ وہ دنیا میں کوئی عذاب لے کر آئیں یا موت کے وقت ان کے پاس آئیں (انعام : ٩٣۔ انفال : ٥٠۔ محمد : ٢٧، ٢٨) یا قیامت کے دن انھیں دکھائی دیں۔ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا : ” حِجْـرًا “ کا معنی آڑ، رکاوٹ ہے، ” مَّحْجُوْرًا “ تاکید کے لیے ہے، یعنی بہت مضبوط رکاوٹ۔ یعنی جب مجرم فرشتوں کو دیکھیں گے تو چاہیں گے کہ ان کے اور فرشتوں کے درمیان کوئی مضبوط آڑ ہو، کوئی سخت رکاوٹ ہو جس کے ذریعے سے وہ ان سے بچ جائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حِجْرً‌ا مَّحْجُورً‌ا (25:22) The literal meaning of حِجر is protection, and مَّحْجُورًا is fully protected. This word was used in Arabic language at the time of danger, when there was a danger in sight. The word was used to seek protection - that is to ask for protection against the imminent danger. Likewise, on the Dooms Day when the infidels will see angels approaching toward them with chastisement, they will utter this word as per their habit in this world to seek protection. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has described the meaning of this word حَرَاماً مُحَرَّماً (that is banned, prohibited). According to this interpretation, the phrase will mean that on the Dooms Day when the infidels will see the angels approaching them with chastisement, they will seek their pardon and plead to let them in the paradise. In response to their pleading the angels will reply حِجْرً‌ا مَّحْجُورً‌ا that is the Paradise is banned and prohibited for infidels. (Mazhari)

حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا، حجر کے لفظی معنے محفوظ جگہ کے ہیں اور محجوراً اس کی تاکید ہے۔ یہ لفظ محاورہ عرب میں اس وقت بولا جاتا تھا جب کوئی مصیبت سامنے ہو۔ اس سے بچنے کے لئے لوگوں سے کہتے تھے کہ پناہ ہے پناہ، یعنی ہمیں اس مصیبت سے پناہ دو تو قیامت کے روز بھی جب کفار فرشتوں کو سامان عذاب لاتا ہوا دیکھیں گے دنیا کی عادت کے مطابق یہ لفظ کہیں گے۔ اور حضرت ابن عباس سے اس لفظ کے یہ معنے منقول ہیں حَرَامًا مُحرّمًا اور مراد یہ ہے کہ قیامت کے روز جب یہ لوگ فرشتوں کو عذاب کے ساتھ دیکھیں گے اور ان سے معاف کرنے اور جنت میں جانے کی درخواست کریں گے یا تمنا ظاہر کریں گے تو فرشتے ان کے جواب میں کہیں گے حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا، یعنی جنت کافروں پر حرام اور ممنوع ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا۝ ٢٢ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ حِجْر ( ممنوع) والحِجْر : الممنوع منه بتحریمه، قال تعالی: وَقالُوا : هذِهِ أَنْعامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ [ الأنعام/ 138] ، وَيَقُولُونَ حِجْراً مَحْجُوراً [ الفرقان/ 22] ، کان الرجل إذا لقي من يخاف يقول ذلک «2» ، فذکر تعالیٰ أنّ الکفار إذا رأوا الملائكة قالوا ذلك، ظنّا أنّ ذلك ينفعهم، قال تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَهُما بَرْزَخاً وَحِجْراً مَحْجُوراً [ الفرقان/ 53] ، أي : منعا لا سبیل إلى رفعه اور آیت کریمہ : وَيَقُولُونَ حِجْراً مَحْجُوراً [ الفرقان/ 22] میں حجر مھجورا ایک محاورہ ہے جاہلیت کا دستور تھا جب کسی کے سامنے کوئی ایسا شخص آجاتا جس کے ازیت کا خوف ہوتا تو حجرا مھجورا کہدیتا ( یعنی ہم تمہاری پناہ چاہتے ہیں ) یہ الفاظ سن کر دشمن اسے کچھ نہ کہتا ) تو قرآن نے یہاں بیان کیا کہ کفار بھی ( عزاب کے ) فرشتوں کو دیکھ کر ( حسب عادت ) الفاظ کہیں گے کہ شاید عزاب سے پناہ مل جائے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَجَعَلَ بَيْنَهُما بَرْزَخاً وَحِجْراً مَحْجُوراً [ الفرقان/ 53] اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بتادی ۔ میں حجرا مھجورا سے مراد ایسی مضبوط رکاوٹ ہے جو دور نہ ہوسکے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) جس دن یہ لوگ مرنے کے وقت فرشتوں کو دیکھیں گے اور وہ قیامت کا دن ہے تو فرشتے ان سے کہیں گے آج مشرکین کو خوشی کی بات یعنی جنت نصیب نہ ہوگی اور عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر کفار کہیں گے پناہ ہے پناہ یا یہ مطلب ہے کہ فرشتے ان کافروں سے کہیں گے کہ کفار کے لیے قطعی طور پر جنت کی بشارت بھی حرام کردی گئی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلآءِکَۃَ لَا بُشْرٰی یَوْمَءِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ ) ” جس دن انہیں فرشتے نظر آئیں گے وہ دراصل قیامت کا دن ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ بھی نزول فرمائے گا اور غیب کے سارے پردے بھی اٹھا دیے جائیں گے۔ وہ دن مجرموں کے لیے کڑے احتساب کا دن ہوگا۔ تب ان کے لیے تو بہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا اور انہیں کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں مل پائے گی۔ (وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ) ” اس وقت وہ دہائی دے رہے ہوں گے کہ کسی طرح سے انہیں بچایا جائے اور قیامت کے عذاب کو ان پر مسلط ہونے سے روکا جائے۔ کاش ‘ ان کے اور اس عذاب کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہوجائے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 This very theme has been expressed in much greater detail in AlAn'am: 8, Al-Hijr: 7-8 and 51-64, and also in Bani Isra`il: 90-95

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :36 یہی مضمون سورہ اَنعام آیت 8 اور سورہ حجر آیات 7 ۔ 8 اور آیات 51 تا 64 میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ ۔ سورہ بنی اسرائیل آیات 90 تا 95 میں بھی کفار کے بہت سے عجیب و غریب مطالبات کے ساتھ اس کا ذکر کر کے جواب دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو دیکھنے کی ان میں تاب ہی نہیں ہے، اور فرشتے انہیں اس وقت دکھائے جائیں گے جب وہ انہیں دوزخ میں ڈالنے کے لیے آئیں گے اس وقت یہ ان کو دیکھنے سے پناہ مانگیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢:۔ مشرک لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے فرشتے آن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی شہادت ادا کریں تو ہم کو ان کی نبوت کا یقین آسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ اس کا جواب دیا ہے ‘ حدیث شریف میں اس جواب کی تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں دو موقع اللہ تعالیٰ نے ایسے ٹھہرائے ہیں جن میں فرشتے انسانوں کے روبرو ان کی آنکھوں کے سامنے آویں گے ایک موقع تو قبض روح کا ہے کہ آدمی کی جان نکالنے کو فرشتے اس کے روبرو آتے ہیں دوسرا موقع حشر کا ہے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے ان کو حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں لے جاویں گے اور یہ دونوں موقع بےدین لوگوں پر باری ہیں چناچہ مسند امام احمد اور ابوداود کی براء بن العازب ٢ ؎ کی صحیح روایت کے حوالہ سے کئی جگہ اوپر گزر چکا ہے کہ بےدین لوگوں کے قبض روح کے وقت ڈراؤنی صورت بنا کر فرشتے ایسے لوگوں کے سامنے آتے ہیں اور روح کو جسم سے الگ ہونے کے بعد طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر سناتے ہیں ‘ اس خبر کو سن کر روح جسم میں جگہ جگہ چھپتی ہے اور فرشتے ان لوگوں کے منہ اور پیٹھ پر طرح طرح کی مار مارتے ہیں اور بڑی سختی سے جان نکالتے ہیں اور حشر کا ذکر صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک کی روایت ٣ ؎ سے آیا ہے کہ بےدین لوگوں کو منہ کے بل بری طرح سے کھینچتے ہوئے میدان محشر میں فرشتے لے جاویں گے ‘ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اب تو نخوت سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک فرشتے ہمارے سامنے نہ آویں گے ہم ہرگز ایمان نہ لاویں گے لیکن جب فرشتوں کے سامنے آنے کا وقت آوے گا تو ان کو اس نخوت کی قدر کھل جاوے گی کہ فرشتے قبض روح کے اور حشر کے وقت ایسے لوگوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر یہ کہیں گے کہ دنیا میں تم لوگ بہت عیش و آرام میں رہے اب تم کو ایسی سختی بھگتنی پڑے گی کہ جس میں کسی طرح کی راحت کی کوئی خبر بھی تمہارے کانوں تک نہ پہنچنے گی ‘ بڑی سختی پیش آنے والی ہو تو عرب کے محاوے میں ایسے موقع پر حِجْرًا مَّحْجُوْرًا بولتے ہیں اس میں سلف کا ابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے اور مطلب اس کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جو مفسر یہ کہتے ہیں کہ یہ نافرمان لوگوں کا قول ہے وہ اس قول کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ فرشتوں کی سختی کے وقت اپنے اس قول سے کسی آڑ یا اوٹ میں چھپ جانے کی تمنا ظاہر کریں گے ‘ ترجمہ میں یہی قول لیا ہے مگر حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ عرب کی بول چال میں حجرا محجورا کے معنی آڑ یا اوٹ کے کہیں پائے نہیں جاتے اگرچہ فارسی اور اردو کے لفظی ترجمہ میں پہلا قول لیا گیا ہے اس اعتراض کے خیال سے پہلا قول لیا ہے لیکن آگے بیٹے اور کھاری دو دریاؤں کے نہ ملنے کے ذکر میں حِجْرًا مَّحْجُوْرًا کا لفظ آڑ اور اوٹ کے معنوں میں آیا ہے اس واسطے یہ معنی بھی صحیح ہیں۔ (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ١٤٢ باب مایقال عند من حضرہ الموت ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب الحشر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ بعض نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ جیسا کہ بعد کی آیت : وقدمنا الی ما عملوا سے معلوم ہوتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے ان کی موت کا دن مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے انفال 50 و انعام 93 (ابن کثیر) 5 ۔ یا یہ کلمہ مجرمین خود کہیں گے (یعنی خدا کی پناہ) یعنی فرشتوں سے ڈر کر پناہ مانگیں گے۔ یہ محاورہ (حجراً محجوراً ) عرب عموماً اس وقت استعمال کرتے جب کوئی سخت آفت ان پر آپڑتی۔ جیسے ہم ایسے موقع پر کہتے ہیں ” یا اللہ بچائیو “۔ قاضی شوکانی نے اسی مطلب کو ترجیح دی ہے مگر حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اختیار کیا ہے (ابن کثیر۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ وہ دن قیامت کا دن ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلآءِکَۃَ ) (الآیۃ) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جبکہ فرشتوں کو دیکھیں گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے اس سے موت کا دن مراد ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے قیامت کا دن مراد ہے مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو دیکھنے کا جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کا وقوع بھی ہوجائے گا جب مرنے لگیں گے تو فرشتے نظر آجائیں گے لیکن اس وقت فرشتوں کی حاضری مکذبین کے حق میں نا مبارک ہوگی اس دن مجرمین یعنی مکذبین کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی بشارت یعنی خوشخبری نہیں ہوگی موت کے وقت سے لے کر ابدالا باد ہمیشہ عذاب اور تکلیف میں رہیں گے جب قیامت کا دن ہوگا عذاب میں مبتلا ہوں گے اس وقت عذاب سے محفوظ ہونے کی دہائی دیتے ہوئے یوں کہیں گے (حِجْرًا مَّحْجُوْرًا) کہ کسی بھی طرح یہ عذاب روک دیا جائے اور یہ مصیبت ٹل جائے لیکن عذاب دفع نہیں ہوگا اور چیخ و پکار اور مصیبت ٹلنے کی دہائی ذرا بھی فائدہ مند نہ ہوگی۔ اور کافر لوگ دنیا میں بعض اعمال نیکیوں کے عنوان سے کرتے ہیں (اس میں راہبوں کی عبادات اور جوگیوں کی ریاضات بھی داخل ہیں) اس میں سے اگر کوئی چیز ایسی تھی جسے نیکی قرار دیا جاسکے جیسے صلہ رحمی وغیرہ تو کفر کی وجہ سے اس کا کچھ بھی ثواب نہیں ملے گا آخرت میں کافروں کے سارے اعمال اکارت اور باطل ہوں گے سورة ابراہیم میں فرمایا (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ) (جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی یہ حالت ہے جیسے راکھ ہو جسے تیز آندھی کے دن میں تیز ہوا اڑا کرلے جائے ان لوگوں نے جو اعمال کیے ان کا کچھ بھی ان کو حاصل نہ ہوگا یہ دور کی گمراہی ہے) ۔ یہاں سورة الفرقان میں کافروں کے اعمال کو (ھَبَآءً مَّنْثُورًا) فرمایا ھباء اس غبار کو کہتے ہیں جو کسی روشن دان سے اس وقت نظر آتا ہے جب اس پر سورج کی دھوپ پڑ رہی ہو یہ غبار اول تو بہت زیادہ باریک ہوتا ہے پھر کسی کام کا نہیں ہوتا ہاتھ بڑھاؤ تو ہاتھ میں نہیں آتانہ پینے کا نہ پوتنے کا، جس طرح یہ بےکار غبار روشن دان میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے لیکن کام کا نہیں اسی طرح کافروں کے اعمال بھی بیکار ثابت ہوں گے اور ان کے حق میں ذرا بھی فائدہ مند نہ ہوں گے۔ یہ تو کافروں کا حال ہے اس کے بعد اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا کہ یہ حضرات اس دن ایسی جگہ میں ہوں گے جو رہنے کی بہترین جگہ ہے اور آرام کرنے کے اعتبار سے نہایت عمدہ ہے لفظ مقیلا قال یقیل قیلولۃ سے ظرف کا صیغہ ہے دوپہر کو آرام کرنے کے لیے جو لیٹتے ہیں اس قیلولہ کہتے ہیں جنت میں نیند نہ ہوگی آرام کی جگہ ہونے کے اعتبار سے (اَحْسَنُ مَقِیْلًا) سے تعبیر فرمایا اسی کو سورة کہف میں (نِعْمَ الثَّوَابُ وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا) فرمایا (کیا ہی اچھی آرام کی جگہ ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” یوم یرون الخ “ یہ پانچویں شکوے کا جواب ہے یہ مطالبہ محض ان کی ضد اور سرکشی ہے ورنہ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن انہیں کوئی خوشی حاصل نہیں ہوگی۔ اس دن فرشتے کہیں گے آج مجرموں کو ہر خوشی اور مسرت سے کوسوں دور رکھا جائے گا۔ ” حجرا “ مفعول مطلق ہے اور اس کا فعل متروک ہے۔ اور ” محجورا “ اس کی تاکید ہے وھو من المصار المنصوبۃ بافعال متروک اظھارھا و محجورا لتاکید معنی الحجر کما قالوا موت مائت (مدارک ج 3 ص 125) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گناہ گاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی اور کوئی بشارت ان کو نصیب نہ ہوگی اور ان کو دیکھ کر یہ مجرم یوں کہیں گے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اوٹ اور آڑ حائل کردی جائے غالباً یہ دیکھنا قیامت کے دن ہوگا اس دن فرشتے ان کو کوئی بشارت اور خوش خبری نہیں دیں گے بلکہ یہ آن کی ہیبت ناک شکلیں دیکھ کر کہیں گے کہ ہمارے ان فرشتوں کے درمیان کوئی اوٹ اور آڑ حائل ہوائے کہ ہم ان کی صورتیں دکھائی نہ دیں یعنی ان کو دیکھ کر پناہ پناہ پکاریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دیکھنا موت کے وقت کا دیکھنا ہو اور جس طر ح فرشتے مومنین کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے آتے ہیں وہ بشارت ان کو میسر نہ ہوگی اور حجزاً محجورا کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے یوں کہیں گے کہ آج تم پر فوزو فلاح کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں اور تم خدا تعالیٰ کی رحمت و شفقت سے محروم کردئیے گئے ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)