Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 23

سورة الفرقان

وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾

And We will regard what they have done of deeds and make them as dust dispersed.

اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ ... And We shall turn to whatever deeds they did, This refers to the Day of Resurrection, when Allah will bring mankind to account for their deeds, good and bad alike. Allah tells us that the deeds which these idolators thought would bring them salvation will be of no avail to them, because they were not in accordance with the Shariah or Laws of Allah, whether in terms of sincere intention or in terms of following the Laws set out by Allah. Every deed that is neither sincere nor in accordance with the Laws of Allah is futile, and the deeds of the disbelievers are either one or the other, or they may include both, in which case they are even less likely to be accepted. Allah says: وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاء مَّنثُورًا And We shall turn to whatever deeds they did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. Sufyan Ath-Thawri, narrated from Abu Ishaq, from Al-Harith that Ali, may Allah be pleased with him, commented on Allah's saying: فَجَعَلْنَاهُ هَبَاء مَّنثُورًا and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust (Haba'). "The rays of the sun when they pass through a small aperture." A similar view was also narrated through a different chain of narrators from Ali, and something similar was also narrated from Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, As-Suddi, Ad-Dahhak and others. Al-Hasan Al-Basri said, "This refers to the rays coming through a small window, and if anyone tries to grasp them, he cannot." Abu Al-Ahwas narrated from Abu Ishaq from Al-Harith that Ali said: "Haba' refers to the dust raised by animals." A similar view was also narrated from Ibn Abbas and Ad-Dahhak, and this was also said by Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. هَبَاء مَّنثُورًا (scattered floating particles of dust (Haba')). Qatadah said: "Have you not seen dry trees when they are blown by the wind? This refers to those leaves." It was narrated that Ya`la bin Ubayd said: "Ashes or dust when it is stirred up by the wind." In conclusion, all of these views are pointing out that the deeds of the disbelievers will be like some worthless scattered thing, and will be of no avail to them whatsoever. As Allah says: مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ The parable of those who disbelieved in their Lord is that their works are as ashes, on which the wind blows furiously. (14:18) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالاذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِيَاء النَّاسِ وَلاَ يُوْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ O you who believe! Do not render in vain your Sadaqah (charity) by reminders of your generosity or by injury, like him who spends his wealth to be seen of men, and he does not believe in Allah, nor in the Last Day. His likeness is the likeness of a smooth rock on which is a little dust; on it falls heavy rain which leaves it bare. They are not able to do anything with what they have earned. (2:264) وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْأنُ مَأءً حَتَّى إِذَا جَأءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْياً As for those who disbelieved, their deeds are like a mirage in a desert. The thirsty one thinks it to be water, until he comes up to it, he finds it to be nothing. (24:39) The Abode of the People of Paradise Allah says: أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَيِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلً

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انھیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بےحیثیت ہونگے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہونگے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بےحیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :264) (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ ) 14 ۔ ابراہیم :18)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ گر تم کچھ اچھے کام کرتے ہو تو ہم بھی بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔ ہم حاجیوں کی خبرگیری کرتے ہیں۔ انھیں پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کی امداد کرتے ہیں۔ غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں وظیفے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں کافروں کے ایسے ہی اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ان کے ایسے اعمال کی طرف بڑھیں گے تو انھیں اڑتا غبار بنادیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعمال اس غرض سے تو کئے ہی نہیں تھے کہ ان کو آخرت میں ان کا بدلہ ملے۔ کیونکہ وہ آخرت پر تو یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اعمال کی کچھ بنیاد ہی نہ تھی۔ جس پر وہ قائم رہ سکتے۔ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے اعمال کئے تھے۔ تو صرف اس غرض سے کہ لوگ انھیں اچھا سمجھیں اور اچھا کہیں اور یہ کام دنیا میں ہوچکا۔ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا میں مل چکا۔ آخرت میں ان کو اب کیا ملے گا ؟ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورة کہف میں یوں بیان فرمایا : (فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥۔ ) 18 ۔ الكهف :105) && یعنی ہم ایسے لوگوں کے لئے میزان الاعمال رکھیں گے ہی نہیں && وجہ یہ ہے کہ ان کے اچھے عمل تو اڑتا ہوا غبار بن گئے۔ اب نیکیوں کے پلڑے میں رکھنے کے لئے کیا چیز باقی رہ گئی کہ ان کے لئے میزان رکھی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ ۔۔ : ” هَبَاۗءً “ غبار کے ان ذرّات کو کہتے ہیں جو روشن دان کے ذریعے سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کوئی شخص جسے کسی چیز سے شدید کراہت و نفرت ہو وہ اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں تباہ و برباد کرنے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ وہ خود اسے تباہ و برباد کرتا ہے، اس لیے فرمایا کہ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے، دنیا میں دیکھیں یا آخرت میں، تو انھوں نے اپنے خیال میں جو بھی اچھا عمل کیا ہوگا، خواہ سخاوت ہو یا صلہ رحمی یا مظلوم کی مدد یا بیت اللہ کی آباد کاری اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، ہم خود اس کی طرف آئیں گے اور اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے ایمان، اخلاص اور اس کا شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے، جب کہ ان کے اعمال اس سے خالی تھے۔ روشن دان سے آنے والی روشنی میں سکون کی حالت میں غبار کے ذرات پھر بھی کچھ مرتب اور موجود نظر آتے ہیں، لیکن جب انھیں ہوا یا کوئی اور چیز حرکت دیتی ہے تو کچھ ہاتھ نہیں آتا اور وہ سب بکھر کر کالعدم ہوجاتے ہیں، اس لیے انھیں بکھرا ہوا غبار فرمایا۔ (بقاعی) کفار کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کہیں ” رَمَادٌ“ (راکھ) کے ساتھ تشبیہ دی ہے (دیکھیے ابراہیم : ١٨) ، کہیں سراب کے ساتھ (دیکھیے نور : ٣٩) اور کہیں فرمایا کہ ہم ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (دیکھیے کہف : ١٠٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ہم (اس روز) ان کے (یعنی کفار کے) ان (نیک) کاموں کی طرف جو کہ وہ (دنیا میں) کرچکے تھے متوجہ ہوں گے سو ان کو (علانیہ طور پر) ایسا (بیکار) کردیں گے جیسے پریشان غبار (کہ کسی کام نہیں آتا، اسی طرح ان کفار کے اعمال پر کچھ ثواب نہ ہوگا البتہ) اہل جنت اس روز قیام گاہ میں بھی اچھے رہیں گے اور آرامگاہ میں بھی خوب اچھے ہوں گے (مراد مستقر اور مقیل سے جنت ہے یعنی جنت ان کے لئے جائے قیام اور جائے آرام ہوگی اور اچھا ہونا اس کا ظاہر ہے) اور جس روز آسمان ایک بدلی پر سے پھٹ جائے گا اور (اس بدلی کے ساتھ آسمان سے) فرشتے (زمین پر) بکثرت اتارے جائیں گے (اور اسی وقت حق تعالیٰ حساب و کتاب کے لئے تجلی فرما دیں گے اور) روز حقیقی حکومت (حضرت) رحمان ( ہی) کی ہوگی (یعنی حساب و کتاب و جزا و سزا میں کسی کو دخل نہ ہوگا جیسا دنیا میں ظاہری تصرف تھوڑا بہت دوسروں کے لئے بھی حاصل ہے) اور جس روز ظالم (یعنی کافر آدمی غایت حسرت سے) اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھاوے گا (اور) کہے گا کیا اچھا ہوتا میں رسول کے ساتھ (دین کی) راہ پر لگ لیتا ہائے میری شامت (کہ ایسا نہ کیا اور) کیا اچھا ہوتا کہ میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا اس (کم بخت) نے مجھ کو نصیحت آئے پیچھے اس سے بہکا دیا ( اور ہٹا دیا) اور شیطان تو انسان کو (عین وقت پر) امداد کرنے سے جواب دیدیتا ہے (چنانچہ اس کافر کی اس حسرت کے وقت اس نے کوئی ہمدردی نہ کی، گو کرنے سے بھی کچھ نہ ہوتا صرف دنیا ہی میں بہکانے کو تھا) اور (اس دن) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق تعالیٰ سے کافروں کی شکایت کے طور پر) کہیں گے اے میرے پروردگار میری (اس قوم) نے اس قرآن کو ( جو کہ واجب العمل تھا) بالکل نظر انداز کر رکھا تھا (اور التفات ہی نہ کرتے تھے عمل تو درکنار مطلب یہ کہ خود کفار بھی اپنی ضلالت کا اقرار کریں گے اور رسول بھی شہادت دیں گے۔ کقولہ تعالیٰ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤ ُ لَاۗءِ شَهِيْدًا اور ثبوت جرم کی یہی دو صورتیں معتاد ہیں، اقرار اور شہادت اور دونوں کے اجتماع سے یہ ثبوت اور بھی موکد ہوجاوے گا اور سزا یاب ہوں گے) اور ہم اسی طرح مجرم لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بناتے رہتے ہیں (یعنی یہ لوگ جو انکار قرآن کرکے آپ کی مخالفت کر رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں جس کا غم کیا جاوے) اور (جس کو ہدایت دینا منظور ہو اس کی) ہدایت کرنے کو اور ( جو ہدایت سے محروم ہے اس کے مقابلہ میں آپ) کی مدد کرنے کو آپ کا رب کافی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝ ٢٣ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے هبا هَبَا الغبار يَهْبُو : ثار وسطع، والهَبْوَة کا لغبرة، والهَبَاء : دقاق التّراب وما نبت في الهواء فلا يبدو إلّا في أثنا ضوء الشمس في الكوّة . قال تعالی: فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] ، فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] . ( ھ ب و ) ھبا ( ن ) الغبار کے معنی غبار کے اڑنے اور فضا میں پھیل جانے کے ہیں اور ھبرۃ ( بر وزن غبرۃ اور ھباء کے معنی غبار یا ان باریک ذرات کے ہیں جو کمرے کے اندر رو شندان سے دھوپ کی کر نیں اندرپڑتے سے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور ان کو ( اس طرح رائگاں کردیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] تو ( پہاڑ ایسے ) ہوجائیں گے ( جیسے ذرے پڑے ہوئے اڑ رہے ہیں ۔ نثر نَثْرُ الشیء : نشره وتفریقه . يقال : نَثَرْتُهُ فَانْتَثَرَ. قال تعالی: وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] ويسمَّى الدِّرْع إذا لُبِسَ نَثْرَةً ، ونَثَرَتِ الشاةُ : طَرَحَتْ من أنفها الأَذَى، والنَّثْرَة : ما يَسِيلُ من الأنف، وقد تسمَّى الأنفُ نَثْرَةً ، ومنه : النَّثْرَة لنجم يقال له أنْفُ الأسد، وطَعَنَهُ فَأَنْثَرَهُ : أَلْقَاه علی أنفه، والاسْتِنْثَارُ : جعل الماء في النَّثْرة . ( ن ث ر ) نثر الشئیء کے معنی کسی چیز کو بکھیر نے اور پرا گندہ کردینے کے ہیں ۔ یہ نثر تہ ( ض ) کا مصدر ہے اور انتثر ( انفعال ) کے معنی بکھر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] اور جب تارے جھڑ پڑیں ۔ اور پہنی ہوئی زرہ کو نثرۃ کہا جاتا ہے ۔ نثرت الشاۃ بکری کا چھینک کر فضلہ باہر پھینکنا اور چھینک سے جو فضلہ ناک سے بہہ نکلتا ہے اسے بھی نثرۃ کہا جاتا ہے کبھی نثرۃ کا لفظ ناک پر بھی بولا جاتا ہے اسی سے نثرۃ ایک ستارہ کا نام ہے جسے انف الاسد کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ طعنہ فانتثر اسے نیزہ مارا تو وہ ناک کے بل گر پڑا ۔ الا ستنتا ر ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) اور ہم اس روز ان کے ان نیک کاموں کی طرف جو کہ وہ دنیا میں کرچکے تھے متوجہ ہوں گے تو آخرت میں ان کو ایسا بےکار کردیں گے جیسا کہ جانوروں کے قدموں سے دھول اڑتی ہے یا یہ کہ ایسا کردیں گے جیسا کہ کسی کمرہ میں سوراخ میں سے دھوپ کی روشنی جاتی ہے اور اس روشنی میں غبار کی سی ایک لکیر نظر آتی ہے پر اس کو کوئی ہاتھ میں نہیں لے سکتا اسی طرح ان کے اعمال کو ختم کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا ) ” یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمان حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہوگی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں ‘ یتیم خانے کھولے تھے ‘ ہسپتال بنائے تھے ‘ مسجدیں تعمیر کرائی تھیں ‘ مدارس کی سرپرستی کی تھی ‘ حج و عمرے کیے تھے ‘ مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر وثواب کو کہیں بھیّ مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیزگاری کا سکہّ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد کارفرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدورّ ہے ‘ اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چناچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمال صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کردیا جائے گا۔ یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورة ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بےبضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ط ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ) ” مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ (ایسی ہے) کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند ‘ جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہوگی ان (اعمال) میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی “۔ پھر سورة ّ النور میں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰٹہُ حِسَابَہٗط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ” اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں ‘ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا ‘ البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا ‘ تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 For explanation, see Ibrahim: 18 and E. N.'s 25, 26 thereof.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :37 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ ابراہیم ، حواشی 25 ۔ 26 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: جن اعمال کو انہوں نے نیکی سمجھ رکھا تھا، وہ آخرت میں گرد و غبار کی طرح بے حقیقت نظر آئیں گے۔ اور ان کے جو کام واقعی اچھے تھے، ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں دے دیا ہوگا، لیکن آخرت میں تمام نیکیوں کے قبول ہونے کے لیے ایمان لازمی شرط ہے، اس لیے وہاں یہ نیکیاں بھی کام نہیں آئیں گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ ٢٤:۔ مشرک اور بےدین لوگوں سے جو نیک کام ہوتا ہے تو وہ نہ شریعت کی پابندی سے ہوتا ہے اور نہ خالص اس نیت سے ہوتا ہے کہ آخرت میں اس کا ثواب ان کو ملے کیونکہ شریعت اور عقبیٰ کے ثواب اور عذاب کے یہ لوگ منکر ہیں اس لیے جو نیک کام ان سے ہوتا ہے بغیر پابندی شریعت اور بغیر آخرت کے یقین کے محض رسم کے طور پر ہوتا ہے اور یہ ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ اس طرح کا نیک کام اللہ کی درگاہ میں مقبول نہیں ہے اس واسطے ایسے نیک عمل اللہ کے نزدیک اس طرح اڑ جانے کے قابل ہیں جس طرح آندھی میں ریت اڑ جاتی ہے اسی واسطے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت ١ ؎ میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جو کوئی شخص ایسا کام کرے جس کا پتہ شریعت میں نہیں ہے تو ایسا کام اللہ کے نزدیک اکارت ہے اسی طرح صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلکہ اس کی نظر ہمیشہ انسان کے دلی ارادے پر ہے کہ جو کام کیا گیا ہے وہ کس نیت سے ہے ‘ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ بغیر پابندی شریعت اور بغیر آخرت کے اجر کی نیت سے کوئی کام بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ‘ آگے فرمایا ‘ ان نافرمان منکر شریعت لوگوں کے نیک عمل تو اس طرح قیامت کے دن اڑ جاویں گے جس طرح آندھی میں ریت اڑ جاتی ہے اور فرمانبردار پابند شریعت لوگوں کے نیک عملوں کا بدلہ یہ ہوگا کہ ان نافرمان لوگوں کے دنیا کے عیش و آرام کے ٹھکانوں سے بہتر ٹھکانے ان پابند شریعت لوگوں کو جنت میں دیئے جاویں گے ‘ جہاں یہ لوگ ہمیشہ آرام سے رہیں گے ‘ صحیح ابن حبان اور مسند ابی یعلی میں ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ١ ؎ ہے ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہوگا اور اس دن کی دوپہر تک لوگوں کا حساب و کتاب پورا ہوجاوے گا ‘ آخر آیت میں جنت کو دوپہر کی آرام کی جگہ جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حساب و کتاب سے فارغ ہو کر جنتی لوگ پہلے پہل دوپہر کے وقت جنت میں جاویں گے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتب واسنتہ ) (٢ ؎ ایضا باب الریاء والسمعۃ۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٩٠ ج ٤ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:23) قدمنا الی۔ ماضی جمع متکلم (باب سمع ) قدم مصدر۔ آگے بڑھنا۔ ہم آگے بڑھیں گے ہم متوجہ ہوں گے۔ لیکن اگر قدوم یا قدمان مصدر سے اسی باب سے آئے تو معنی سفر سے واپسی کے ہوں گے۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل استعمال ہوا ہے۔ ھبائ۔ اسم مفرد۔ باریک خاک۔ باریک ذرات۔ جو سورج کے رخ پر کواڑ کے سوراخوں میں سے دکھائی دیتے ہیں۔ جعلنہ کا مفعول ثانی ہے۔ مفعول اول ہ ضمیر واحد مذکر غائب ہے۔ منثورا۔ ھباء کی صفت ہے۔ بکھیرا ہوا۔ غیر منظوم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی انہیں بالکل ضائع اور برباد کردیں گے جن سے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا کیونکہ ایمان و اخلاص اور شریعت کی موافقت کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوسکتا۔ ” ھباء “ دراصل ان ذرات کو کہتے ہیں جو دھوپ کے ساتھ روشن دان کے راستے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ کفار کے اعمال کو ” سراب “ اور ” رماد “ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ (دیکھئے ابراہیم : 18 و نور :39)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جس طرح غبار کسی کام نہیں آتا اسی طرح ان کفار کے اعمال پر کچھ ثواب نہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میں حق قبول کرنے والوں کا مرتبہ و مقام۔ جن لوگوں نے رب کی ذات اس کے رسول کی رسالت کا انکار کیا۔ بیشک دنیا میں وہ کتنے ہی اچھے عمل کرتے رہے۔ موت کے بعد ان کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوجائیں گے۔ یعنی وزن اور قدر کے اعتبار سے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے اعمال کے پیچھے عقیدہ توحید کا اقرار نبی آخر الزّمان کی رسالت پر ایمان اور قیامت کے حساب و کتاب پر یقین نہیں ہوگا۔ اس لیے ان کے اعمال اڑتے ہوئے ریت کے ذرّات کی مانند ہوں گے۔ نیک عمل کی قبولیت کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں کوئی ایک شرط مفقود ہو۔ تو انسان کے بڑے سے بڑے عمل کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے اپنے اعمال کو ان شرائط کے مطابق کیا ان کے اعمال کی نہ صرف قدر و قیمت ہوگی بلکہ رب کریم اپنے کرم سے ان کے اعمال میں برکات فرما کر انھیں بہترین مقام بالخصوص حشر کی کڑکڑاتی دھوپ میں سکون سے ہمکنار فرمائے گا۔ مَقِیْلًا یاقَیْلُوْلَۃً دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ۔ قیامت کا دن طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے عرش کے نیچے جگہ عنایت فرمائے گا اور پینے کے لیے حوض کوثر کا پانی دے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْءَٓتِی یَوْمَ الدِّیْنِ ) [ رواہ مسلم : باب لدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہٗ ) [ رواہ البخاری : باب من جلس فی المسجد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) عدل کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب وہ مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں آنے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو باہم اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین و جمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) جس نے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوں گے۔ ٢۔ کفار اور مشرکین کے مقابلہ میں عباد الرحمن کو جنت میں داخلہ اور دوپہر کا آرام نصیب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن وزن کے اعتبار سے کفار، مشرکین اور مومنین کے اعمال میں فرق : ١۔ متّقین کے نیک اعمال والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنوں : ١٠٢) ٢۔ خسارہ پانے والے لوگوں کا برائیوں والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنوں : ١٠٣) ٣۔ کفار کے اعمال مٹی کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہونگے۔ ( الفرقان : ٢٣) ٤۔ آخرت کے منکرین کے اعمال کا وزن تک نہیں کیا جائے گا۔ ( الکہف : ١٠٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” وقدمنا الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” قدمنا “ ارادہ کریں گے اور متوجہ ہوں گے قدمنا ای عمدنا (مظہری ج 7 ص 13) ۔ ” ھباء “ غبار یہ باطل کرنے اور ثواب نہ دینے سے کنایہ ہے ای باطلا لا ثواب لہ (معالم و خازن ج 5 ص 98) ۔ مشرکین و کفار دنیا میں جو نیک کام کرتے ہیں مثلاً صدقہ و خیرات اور صلہ رحم وغیرہ ان کا بدلہ ان کو کسی نہ کسی صورت میں دنیا ہی میں دے دیا جائیگا اور آخرت میں ان پر کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا کیونکہ قبول اعمال کے لیے ایمان خالص شرط ہے جس سے مشرکین و کفار محروم ہیں۔ اس لیے ان کے تمام اعمال خیر باطل ہیں۔ ھباء منثورا ای باطلا لا ثواب لہ لفوات شرط الثواب علیہ من الایمان والاخلاص للہ تعالیٰ (مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور ہم ان مجرموں کے ان اعمال کی جانب جو انہوں نے اپنے زعم میں اچھے سمجھ کر کئے تھے توجہ فرمائیں گے اور ان کے اعمال کو ایسا کردیں گے جیسے اڑتا ہوا غبار یعنی کفر کی بنیاد پر جو اعمال ان کافروں نے کئے تھے وہ سب بیکار کردئیے جائیں گے اور ان پر کوئی ثواب مرتب نہ ہوگا اور جس طر ح غبار کے پراگندہ ذرات بیکار ہوتے ہیں اسی طرح ان کے اعمال بھی بیکار اور بےنتیجہ ہوں گے۔