Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 24

سورة الفرقان

اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ یَوۡمَئِذٍ خَیۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّ اَحۡسَنُ مَقِیۡلًا ﴿۲۴﴾

The companions of Paradise, that Day, are [in] a better settlement and better resting place.

البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The dwellers of Paradise will, on that Day, have the best abode, and have the fairest of places for repose. meaning, on the Day of Resurrection. لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَأيِزُونَ Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise. It is the dwellers of Paradise that will be successful. (59:2... 0) That is because the people of Paradise will ascend to lofty degrees and secure dwellings, so they will be in a place of safety, beauty and goodness, خَـلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً Abiding therein -- excellent it is as an abode, and as a place to rest in. (25:76) The people of Hell will go down to the lowest levels and continual regret, with all kinds of punishments and torments. إِنَّهَا سَأءَتْ مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً Evil indeed it (Hell) is as an abode and as a place to rest in. (25:66) means, how evil a dwelling place to look at, and how evil an abode in which to stay. Allah says: أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَيِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلً The dwellers of Paradise will, on that Day, have the best abode, and have the fairest of places for repose. meaning, in return for what they have done of acceptable deeds, they will attain what they will attain and reach the status they will reach, in contrast to the people of Hell, who will not have even one deed to their credit that would qualify them to enter Paradise and be saved from the Fire. Allah points out the situation of the blessed in contrast to that of the doomed, who will not enjoy any goodness at all. Sa`id bin Jubayr said: "Allah will finish the Judgement halfway through the Day, and the people of Paradise will take their mid day rest in Paradise and the people of Hell in Hell. Allah says: أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَيِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلً (The dwellers of Paradise will, on that Day, have the best abode, and have the fairest of places for repose)." Ikrimah said, "I know the time when the people of Paradise will enter Paradise and the people of Hell will enter Hell. It is the time which in this world is the time when the late forenoon starts and people go back to their families to take a siesta. The people of Hell will go to Hell, but the people of Paradise will be taken to Paradise and will have their siesta in Paradise, and they will be fed the liver of a whale and they will all eat their fill. This is what Allah says: أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَيِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلً (The dwellers of Paradise will, on that Day, have the best abode, and have the fairest of places for repose).   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہونگے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں د... نیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا (مسند احمد475  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] قیامت کا دن ہمارے موجودہ حساب سے پچاس ہزار سال کا دن ہے۔ اس دن کی بھی، دوپہر اور شام ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوپہر سے پہلے پہلے لوگوں کے حساب کتاب سے فارغ ہوجائیں گے۔ اہل جنت، جنت میں اور اہل دوزخ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت دوپہر کے بعد جنت میں ہ... ی جاکر سوئیں گے۔ کیونکہ قیولہ دوپہر کے بعد سونے کو اور مقیلاً دوپہر کے بعد سونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ مومنوں یا اہل جنت کو یہ پچاس ہزار سال کا دن ایسا ہلکا محسوس ہوگا جیسے کسی فریضہ نماز کا وقت ہوتا ہے۔ ( بیہقی۔ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الفتن۔ باب الحساب ذالقصاص والمیزان فیصل الثالث)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا ۔۔ : جہنمیوں کے ذکر کے ساتھ اہل جنت کا ذکر فرمایا کہ وہ اس دن کفار سے ٹھکانے کے اعتبار سے نہایت بہتر اور آرام گاہ کے اعتبار سے کہیں اچھے ہوں گے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کفار کے لیے تو خیر کا وجود ہی نہیں ہوگا، پھر اہل جنت کا ٹھ... کانے اور آرام گاہ میں ان سے بہتر ہونے کا کیا مطلب ؟ جواب یہ ہے کہ دنیا میں کفار کو جو عیش و آرام میسر تھا اہل جنت اس دن اس سے کہیں اچھے ٹھکانے اور آرام گاہ میں ہوں گے، یا یہ بات جہنمیوں پر طنز کے طور پر کہی گئی ہے۔ وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا : اصل میں ” مَقِيْلًا “ کے لفظی معنی ہیں ” قیلولہ کرنے کی جگہ “ اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( لَا یَنْتَصِفُ النَّھَارُ مِنْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَقِیْلَ ھٰؤُلَاءِ وَ ھٰؤُلَاءِ ثُمَّ قَرَأَ : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٢، ح : ٣٥١٦، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبي ] ” قیامت کے دن ابھی دوپہر نہ ہوئی ہوگی کہ یہ لوگ اور وہ لوگ دوپہر کا آرام کر رہے ہوں گے، پھر (کفار کے متعلق) یہ آیت پڑھی : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) [ الصافات : ٦٨ ] ” بلاشبہ ان کی واپسی یقیناً اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگی۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary خَيْرٌ‌ مُّسْتَقَرًّ‌ا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا (The best in (terms of their) abode and best in (terms of their) resting-place - 25:24). Permanent residence is called مُّسْتَقَرًّ while مَقِيلً is derived from قَیلُولہ which means siesta. Hence مَقِيلً means the place for having siesta. Probably مَقِيلً is specifically mentioned here because it is referred in one of the traditions that on th... e Dooms day Allah Ta’ ala will complete reckoning of the entire creation by noon and the people of paradise will reach Paradise at the time of siesta and so will the condemned in the Hell. (Qurtubi)   Show more

معارف و مسائل خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا، مستقر، مستقل جائے قیام کو کہا جاتا ہے اور مقیل قیلولہ سے مشتق ہے دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ کو مقیل کہتے ہیں اور اس جگہ مقیل کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے بھی ہوا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز حق تعالیٰ نصف النہار کے وقت ساری مخ... لوقات کے حساب کتاب سے فارغ ہوجاویں گے اور دوپہر کے سونے کے وقت اہل جنت جنت میں پہنچ جائیں گے اور اہل جہنم جہنم میں (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا۝ ٢٤ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال ... تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ قيل ( قيلوله) قوله تعالی: أَصْحابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا[ الفرقان/ 24] مصدر : قِلْتُ قَيْلُولَةً : نمت نصف النهار، أو موضع القیلولة، وقد يقال : قِلْتُهُ في البیع قِيلًا وأَقَلْتُهُ ، وتَقَايَلَا بعد ما تبایعا . ( ق ی ل ) المقیل ۔ مقام استراحت چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا[ الفرقان/ 24] اس دن اہل جنت کا ٹھکانہ بھی بہتر ہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا ۔ میں مقیلا قلت قیلولتہ کا مصدر ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت استراحت کے لئے لیٹنے کے ہیں اور یاظرف مکان ہے یعنی قیلولہ کی جگہ : ۔ محاورہ قلتہ فی البیع واقلتہ وتقایلا بیع فسخ کرنا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) البتہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) قیامت کے دن ابو جہل وغیرہ سے قیام گاہ میں بھی اچھے ہوں گے اور آرام گاہ میں بھی بہت اچھے ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 In contrast to the miserable plight of the disbelievers on the Day of Resurrection, the Believers will be protected from the hardships of that Day; they will be treated with honour and will have a blissful place for midday rest. According to a Tradition, the Holy Prophet said: "I declare on oath by AIIah, in Whose hand is my life, that the long, horrible Day of Resurrection will be made very sh... ort and light for a Believer, as short and light as the time taken in offering an obligatory Prayer." (Musnad Ahmad).  Show more

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :38 یعنی میدان حشر میں جنت کے مستحق لوگوں کے ساتھ مجرمین سے مختلف معاملہ ہو گا ۔ وہ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے اور روز حشر کی سخت دوپہر گزارنے کے لیے ان کو آرام کی جگہ دی جائے گی ۔ اس دن کی ساری سختیاں مجرموں کے لیے ہوں گی نہ کہ نیکو کاروں کے لیے ۔ جیسا کہ حدیث میں ... آیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والذی نفسی بیدہ اِنّہ لیخفف علی المؤمن حتی یکون اخف علیہ من صلوۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قیامت کا عظیم الشان اور خوفناک دن ایک مومن کے لیے بہت ہلکا کردیا جائے گا ، حتیٰ کہ اتنا ہلکا جتنا دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے ۔ ( مسند احمد بروایت ابی سعید خدری ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:24) اصحب الجنۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ آیت (25:15) میں ان کی طرف اشارہ ہے ہم المومنون المتقون۔ وہ وہی متقون ہوں گے جن کا ذکر آیت 15 میں ہے۔ خیر۔ بہتر۔ اچھا۔ اور احسن بہت اچھا، بہتر۔ تفضیل کا صیغہ۔ یا تو خیریت اور حسن کی زیادتی کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ وہ خیریۃ المستقر او حسن المقیل کے انتہائی مدارج م... یں ہوں گے یا مقابلہ کیا ہے کفار کے تنعم، سامان عیش و عشرت سے جو انہیں دنیا میں حاصل رہا۔ مستقرا خیر کی تمیز ہے۔ مستقر اسم ظرف مکان۔ قرار گاہ ۔ یعنی جہاں تک ان کی قیام گاہ کا تعلق ہے وہ سب سے اچھے رہیں گے۔ مقیلا۔ اسم ظرف مکان وزمان۔ قیلولہ کرنے کی جگہ یا قیلولہ کرنے کا وقت ۔ قیلولۃ مصدر دوپہر میں آرام کرنا۔ مطلقا بمعنی آرام گاہ۔ یا وقت استراحت۔ مقیلا بھی احسن کی تمیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے (جنت) بہترین قرار گاہ ہوگی اور بہترین آرام گاہ  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ اصل میں ” مقیل “ کے لفظی معنی ہیں ” قیلولہ کرنے کی جگہ ” اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں اس لئے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ” قیامت کے روز ابھی دوپہر نہ ہوگی کہ جنتی لوگ حساب سے فارغ ہو کر جنت میں پہنچ جائیں گے اور وہاں قیلولہ کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ مومنوں کے لئے ... قیامت کا دن نہایت ہلکا ہوگا۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مراد مستقر اور مقیل سے جنت ہے، یعنی جنت ان کے لئے جائے قیام اور جائے آرام ہوگی، اور اچھا ہونا اس کا ظاہر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” اصحب الجنۃ الخ “ یہ مومنوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ ” مستقرا “ رہنے سہنے کی جگہ۔ ” مقیلا “ استراحت کی جگہ۔ قیامت کے دن ایمان والوں کو رہنے سہنے اور استراحت کیلئے جنت میں جو مقام عطا ہوگا وہ کافروں کے ٹھکانے سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ ” ویم تشقق السماء الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” الغمام “ سفید بادل مرا... د فرشتے ہیں۔ فرشتے اس کثرت سے نازل ہوں گے کہ ان کی مجموعی ہیئت سفید بادلوں کی طرح نظر آئیگی اس طرح ” سنزل الملئکۃ تنزیلا “ ما قبل کا بیان ہے اور واؤ تفسیریہ ہے یعنی قیامت کے دن آسمان پھٹ پڑے گا اور اس طرح فرشتوں کے بادلوں کے بادل نازل ہوں گے۔ ” الملک یومئذ الحق الخ “ بادشاہ تو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یہاں مجازی بادشاہ بھی موجود ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا۔ اس دن سب پر ظاہر ہوجائیگا کہ بیشک آج بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے آج دنیا کے بادشاہ بھی اس شہنشاہ حقیقی کے سامنے سر افگندہ کھڑے ہیں۔ ” وکان یوما الخ “ کان کا اسم اس میں ضمیر مستتر ہے جو یوم مذکور کی طرف راجع ہے اور علی الکفرین، عسیرا کے متعلق ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اہل جنت اس دن با اعتبار قیام گاہ کے بھی بہتر ہوں گے اور با اعتبار آرام استراحت کے بھی اچھے ہوں گے یعنی ان کے مقابلہ میں اصحاب بہشت اور اہل جنت ہر اعتبار سے اچھے ہی اچھے اور بہتر ہی بہتر ہوں گے قیام گاہ بھی جملہ آفات بےمامون اور آرام و آسائش کا سامان بھی بےانتہا