Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 26

سورة الفرقان

اَلۡمُلۡکُ یَوۡمَئِذِ ۣ الۡحَقُّ لِلرَّحۡمٰنِ ؕ وَ کَانَ یَوۡمًا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ عَسِیۡرًا ﴿۲۶﴾

True sovereignty, that Day, is for the Most Merciful. And it will be upon the disbelievers a difficult Day.

اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الْمُلْكُ يَوْمَيِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ ... The sovereignty on that Day will be the true (sovereignty) of the Most Gracious, This is like the Ayah, لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَحِدِ الْقَهَّارِ Whose is the kingdom this Day: It is Allah's, the One, the Irresistible! (40:16) In the Sahih it says: أَنَّ اللهَ تَعَالَى يَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ وَيَأْخُذُ الاَْرَضِينَ بِيَدِهِ الاُْخْرَى ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الدَّيَّانُ أَيْنَ مُلُوكُ الاَْرْضِ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ Allah, may He be exalted, will fold up the heavens in His Right Hand, and will take the earths in His other Hand, then He will say: "I am the Sovereign, I am the Judge. Where are the kings of the earth? Where are the tyrants Where are the arrogant?" ... وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا and it will be a hard Day for the disbelievers. means it will be very difficult, because it will be the Day of justice and the decisive judgement, as Allah says: فَذَلِكَ يَوْمَيِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكَـفِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ Truly, that Day will be a hard Day -- Far from easy for the disbelievers! (74:9-10) This is how the disbelievers will be on the Day of Resurrection. As for the believers, Allah says: لااَ يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الااٌّكْبَرُ The greatest terror will not grieve them. Then Allah says: وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلً

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] قیامت کے دن اللہ اکیلے کی فرمانبرداری اور بادشاہی ہوگی اور سب انسان بالکل برہنہ قبروں سے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے چناچہ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : لوگ ( قیامت کے دن) ننگے پاؤں، ننگے بدن حشر کئے جاؤ گے && میں کہا &&: یارسول اللہ ! اس طرح تو مرد اور عورت سب ایک دوسرے کے ستر کو دیکھیں گے ! آپ نے فرمایا : عائشہ (رض) ! ( قیامت کا معاملہ ایسے خیالوں سے شدید تر ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر ( اور ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم لوگوں کو خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا : تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن حشر کئے جاؤ گے۔ جیسے ( اللہ تعالیٰ نے قرآن میں) فرمایا جس طرح تمہیں شروع میں پیدا کیا اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔ اور تمام مخلوق میں جسے سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم ہوں گے && (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر ( اب دیکھئے جہاں یہ صورت حال ہو ہر کسی کو اپنی اپنی ہی پری ہو تو کسی کو بادشاہی کا خیال آسکتا ہے اور دنیا کے بادشاہ تو اور بھی سخت حالت میں ہوں گے۔[ ٣٧] جس طرح مومن کے لئے قیامت کے دن کی مدت انتہائی مختصر اور آسان بنادی جائے گی اتنی ہی کافر کے لئے یہ مدت طویل اور سخت تر ہوگی۔ کیونکہ دنیا میں بھی یہ چیز تجربہ شدہ ہے کہ مصیبت کے چند لمحات اتنے طویل تر اور شدید تر معلوم ہوتے ہیں جیسے کئی سالوں سے وہ یہ دکھ سہہ رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۔۔ : یعنی دنیا کی وہ تمام عارضی اور مجازی حکومتیں ختم ہوجائیں گی، جن سے انسان دھوکے میں پڑا رہتا ہے اور ظاہراً ، باطناً ، صورتاً ، یعنی ہر لحاظ سے اکیلے رحمٰن کی بادشاہت ہوگی اور صرف اسی کا حکم چلے گا اور وہ دن کافروں پر بہت سخت ہوگا۔ یہ بھی مومنوں پر اس کی رحمت کا تقاضا ہوگا، کیونکہ ان کے دشمنوں کو سزا دینے سے جو خوشی انھیں حاصل ہونی ہے وہ اور کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتی ؟ (بقاعی) عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَطْوِي اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُھُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنٰی ثُمَّ یَقُوْلُ أَنَا الْمَلِکُ ، أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ؟ ) [ مسلم، صفات المنافقین، باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار : ٢٧٨٨ ] ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ دے گا، پھر انھیں اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر فرمائے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار لوگ ؟ کہاں ہیں متکبر لوگ ؟ “ اور دیکھیے سورة زمر (٦٧) اور مومن (١٦) کفار پر اس دن کے سخت ہونے اور مومنوں پر آسان ہونے کا مضمون دیکھیے سورة مدثر (٨ تا ١٠) میں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝ ٠ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا۝ ٢٦ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عسر العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح/ 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة/ 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق/ 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان/ 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر/ 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ. ( ع س ر ) العسر کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح/ 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة/ 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق/ 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان/ 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر/ 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) اس روز حقیقی حکومت اور عادلانہ فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ دن کفار پر بہت ہی سخت ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ط) ” بادشاہی اور حکمرانی تو آج بھی اللہ ہی کی ہے ‘ لیکن دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے حقیقت کو مختلف پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ آج بظاہر کئی صاحبان اختیار و اقتدار نظر آتے ہیں ‘ لیکن اس دن ہر طرح کا اختیار صرف اس بادشاہ حقیقی کے پاس ہی ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, "On that Day all other kingdoms, which deluded man in the world, will come to an end, and there will be only the Kingdom of Allah, Who is the real Sovereign of the universe. In Surah Mu'min: 16, the same thing has been stated thus: "On that Day when aII the people will stand exposed, and nothing of them will be hidden from Allah, it will be asked, `Whose is the Sovereignty today?' The response from every side will he: `Of Allah, the Almighty'." According to a Tradition, the Holy Prophet said, "AIlah will take the heavens in one hand and the earth in the other, and will declare: `I am the Sovereign: I am the Ruler. Where are the other rulers of the earth? Where are those tyrants`? Where are the arrogant people?" (Musnad Ahmad, Bukhari, Muslim, and Abu Da'ud, with slight variations).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :39 یعنی وہ ساری مجازی بادشاہیاں اور ریاستیں ختم ہو جائیں گی جو دنیا میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہیں ۔ وہاں صرف ایک بادشاہی باقی رہ جائے گی اور وہ وہی اللہ کی بادشاہی ہے جو اس کائنات کا حقیقی فرمانروا ہے ۔ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یَوْمَ ھُمْ بٰرِزُوْنَ لَا یَخْفٰی عَلَی اللہِ مِنْہُمْ شَیْءٌ ، لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ، لِلہِ الوَاحدِ الْقَھَّارِ ۔ وہ دن جبکہ یہ سب لوگ بے نقاب ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو گی ۔ پوچھا جائے گا آج بادشاہی کس کی ہے ؟ ہر طرف سے جواب آئے گا اکیلے اللہ کی جو سب پر غالب ہے ( آیت 16 ) ۔ حدیث میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیا گیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ میں آسمانوں اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا : انا الملک ، انا الدیان ، این ملوک الارض؟ این المتکبرون؟ میں ہوں بادشاہ ، میں ہوں فرمانروا ، اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ ؟ ( یہ روایت مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، اور ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بیان ہوئی ہے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:26) الملک الحق۔ موصوف وصفت دونوں مل کر مبتدا للرحمن خبر۔ یومئذ ظرف زمان متعلق مبتدا الملک یومئذ ن الحق للرحمن۔ اس روز حکومت حقیقی (خدائے ) رحمان ہی کی ہوگی۔ کان یوما۔ ای کان ذلک الیوم یوما۔۔ اور وہ دن کافروں پر بہت سخت ہوگا۔ عسیرا (یسیرا کی ضد) سخت ، مشکل ، بھاری، عسر سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ دنیا کی وہ تمام عارضی اور مجازی حکومتیں ختم ہوجائینگی جن سے انسان دھوکے میں پڑا رہتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور زمین کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائے گا۔ ” میں ہوں بادشاہ، میں ہوں بدلہ دینے والا، کہاں ہیں دنیا کے جبار و متکبر لوگ۔ (دیکھئے سورة فاطر آیت :16 ۔ (ابن کثیر) 10 ۔ رہے اہل ایمان تو وہ ان کے لئے نہایت ہلکا ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی حساب و کتاب و جزا و سزا میں کسی کو دخل نہ ہوگا۔ 5۔ کیونکہ ان کے حساب کا انجام جہنم ہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(الْمُلْکُ یَوْمَءِذٍ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ) (آج کے دن صرف رحمن کی حکومت ہوگی) قیامت کے دن جب آسمان پھٹ جائے گا تو ساری بادشاہت ظاہری طور پر اور باطنی طور پر صرف اور صرف رحمن مجدہ ہی کے لیے ہوگی اس دن کوئی مجازی حاکم اور بادشاہ بھی نہ ہوگا، سورة غافر میں فرمایا : (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) (آج کس کی بادشاہت ہے ؟ اللہ ہی کے لیے ہے جو واحد ہے قہار ہے) (وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا) (اور وہ دن کافروں پر سخت ہوگا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اس دن حقیقی حکومت اور حقیقی راج رحمان ہی کا ہوگا اور وہ دن منکرین دین حق پر بڑا ہی سخت ہوگا یعنی اس دن مجازی ملکیت کی تمام نسبتیں ختم ہوجائیں گے اور رحمان ہی کی حکومت اور اس کی فرمانبرداری ہوگی اور وہ کافروں پر بڑا سخت اور دشوارتر ہوگا۔