Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 3

سورة الفرقان

وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾

But they have taken besides Him gods which create nothing, while they are created, and possess not for themselves any harm or benefit and possess not [power to cause] death or life or resurrection.

ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں ، یہ تو اپنی جان کے نقصان نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت و حیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Foolishness of the Idolators Allah tells: وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ الِهَةً لاَّ يَخْلُقُونَ شَيْيًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلاَا يَمْلِكُونَ لاِاَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلاَا نَفْعًا ... Yet they have taken besides Him other gods who created nothing but are themselves created, and possess neither harm nor benefit for themselves, Allah tells us of the ignorance of the idolators in taking other gods instead of Allah, the Creator of all things, the One Who controls the affairs of all things; whatever He wills happens and whatever He does not will does not happen. In spite of that, they still worshipped others besides Him, idols who could not even create the wing of a gnat, but were themselves created. They could neither do harm nor bring benefit to themselves, so how could they do anything for their worshippers! ... وَلاَ يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلاَ حَيَاةً وَلاَ نُشُورًا and possess no power (of causing) death, nor (of giving) life, nor of raising the dead. means, they could not do any of that at all; that power belongs only to Allah, Who is the One Who gives life and death, and is the One Who will bring all people, the first and the last, back to life on the Day of Resurrection. مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ The creation of you all and the resurrection of you all are only as (the creation and resurrection of) a single person. (31:28) This is like the Ayat; وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And Our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50) فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ But it will be only a single Zajrah. When behold, they find themselves on the surface of the earth alive after their death. (79:13-14) فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنظُرُونَ It will be a single Zajrah, and behold, they will be staring! (37:19) إِن كَانَتْ إِلاَّ صَيْحَةً وَحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ It will be but a single Sayhah, so behold they will all be brought up before Us! (36:53) He is Allah besides Whom there is no other God and besides Whom there is no other Lord. No one should be worshipped except Him because whatever He wills happens and whatever he does not will does not happen. He has no offspring nor progenitor, nor equal nor likeness nor rival nor peer. He is the One, the Self-Sufficient Master, Whom all creatures need, He begets not, nor was He begotten, and there is none co-equal or comparable unto Him.

مشرکوں کی حالت مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق ، مالک ، قادر ، مختار ، بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں یا دوسرے کا نقصان کریں ۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں کی ان چیزوں کے مالک وہ کیسے ہوجائیں گے؟ بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا ۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا ، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا اس پر یکساں اور برابر ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہوجائے گی ۔ اور آیت میں فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک عبادت ہے ، اس کا چاہا ہوتا ہے اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ وہ ماں باپ سے ، لڑکی لڑکوں سے عدیل ، وزیرونظیر سے ، شریک وسہیم سب سے پاک ہے ۔ وہ احد ہے ، صمد ہے ، ولم یلدولم یولد ہے ، اس کا کفو کوئی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے الوہیت کے کئی معیار بیان فرمائے ہیں اور مشرکوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو ان معیاروں پر جانچ کر دیکھیں اور پھر بتلائیں کہ آیا ان کے معبودوں میں الوہیت کا کوئی شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے مثلاً (١) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کرسکے یا کسی بھی چیز کی خالق نہ ہو۔ وہ معبود نہیں ہوسکتی۔ (٢) جو چیز خود پیدا شدہ ہو یا مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی۔ اور فنا ہونے والی چیز الٰہ نہیں ہوسکتی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مشرکوں کے معبود خواہ وہ بت ہوں جنہیں انہوں نے خود ہی گھڑ رکھا ہے یا فرشتے ہوں یا کوئی اور چیز مثلاً : سورج، چاند، تارے، شجر، حجر ہوں۔ یہ سب چیزیں اللہ کی خلوق ہیں۔ لہذا ان میں کوئی چیز بھی الوہیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (٣) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو بالفاظ دیگر وہ حاجت روا یا مشکل کشا نہ ہو۔ وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ صفات ہیں جنہیں مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں) خواہ وہ جاندار ہو یا بےجان، زندہ ہوں یا مرچکی ہوں ( تسلیم کرتے ہیں اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ : (٤) جو چیز اپنے ہی نفع و نقصان کی بھی مالک نہ ہو، وہ دوسرے کسی کی حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہوسکتی۔ اور یہ معیار بھی ایسا معیار ہے جس کے مطابق اللہ کے سوا تمام تر معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ پتھر کے معبودوں کو حضرت ابراہیم نے تور پھوڑ ڈالا۔ تو وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ رہے بزرگان دین) خواہ وہ پیغمبر ہو یا ولی، زندہ ہو یا فوت ہوچکے ہوں ( سب کو ان کی زندگی میں بیشمار تکلیفیں پہنچتی رہیں لیکن وہ اپنی بھی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کرسکے تو دوسروں کی کیا کرتے یا کیا کریں گے۔ اس لئے بس وہ اللہ سے دعا ہی کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں۔ جنہیں اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انھیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا وہ کوئی دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ (٥) الوہیت کا پانچواں معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ چیز کو مار بھی سکتی ہو اور مردہ چیز کو زندہ بھی کرسکتی ہو۔ اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے۔ اور دوسرے معبودوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے چیلنج کے طور پر فرمایا کہ وہ ایک حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ سب مل کر اس سے اپنے سلب شدہ چز چھڑا بھی نہیں سکتے اور مردوں کو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنا تو اور بھی بڑی بات ہے۔ اس مقام پر الوہیت کے یہی معیار بیان کئے گئے ہیں جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں : مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ جو بےجان ہوں الٰہ نہیں ہوسکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو نہ سن سکتا ہو نہ دیکھ سکتا ہو یا جواب نہ دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ وغیرہ وغیرہ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــــًٔا ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معبود برحق ہونے کے چند معیار بیان فرمائے اور تمام مشرکوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے خداؤں کو ان معیاروں پر پرکھیں اور بتائیں کہ وہ کسی طرح بھی معبود ہوسکتے ہیں۔ وہ معیار یہ ہیں : 1 جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کرسکے، یا کسی چیز کی بھی خالق نہ ہو وہ معبود نہیں ہوسکتی۔ 2 جو چیز خود مخلوق ہو، اسے کسی نے پیدا کیا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے اللہ کے سوا جن کو بھی معبود بنایا گیا ہے سب مخلوق ہیں، وہ چاہے فرشتے ہوں یا جن، انسان، درخت، پتھر، بت، قبر، سورج، چاند، تارے یا کوئی اور، اس لیے انھیں معبود بنانا بہت بڑی جہالت ہے۔ 3 جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو، دوسرے لفظوں میں جو ہستی حاجت روا اور مشکل کشا نہ ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ صفت ہے جسے مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں تسلیم کرتے ہیں، خواہ وہ جان دار ہوں یا بےجان، زندہ ہوں یا مرچکی ہوں، اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا ردّ اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ جو چیز اپنے نفع و نقصان ہی کی مالک نہ ہو وہ کسی دوسرے کی حاجت روا یا مشکل کشا کیسے ہوسکتی ہے ! یہ معیار ایسا واضح اور زبردست ہے کہ اس کے مطابق اللہ کے سوا تمام معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑا اور وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ رہے بزرگان دین، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا ولی، زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں، سب کو ان کی زندگی میں بیشمار تکلیفیں پہنچتی رہیں، لیکن وہ اپنی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کرسکے، تو دوسروں کی کیا کرتے، یا کیا کریں گے، وہ تو خود صرف اللہ سے دعا کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے، تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں جن کے پاس اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انھیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے، لہٰذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ 4 معبود برحق ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ کو مار سکتی ہو اور مردہ کو زندہ کرسکتی ہو اور زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتی ہو، اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے، قیامت کو وہ سب کو زندہ کرکے سامنے لا کھڑا کرے گا، دوسری کسی ہستی کے اختیار میں کسی کو زندہ کرنا ہے نہ مارنا اور نہ قیامت برپا کرنا۔ اس مقام پر معبود برحق ہونے کے یہ معیار بیان ہوئے ہیں، جب کہ دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں، مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو بےجان ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جسے نیند یا موت آتی ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو ہر چیز کا علم نہ رکھتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو نہ سن سکتا ہو، نہ دیکھ سکتا ہو، نہ بول سکتا ہو، نہ جواب دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا وغیرہ۔ (تیسیر القرآن کیلانی بتصرف)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَيٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًا۝ ٣ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) مگر ان کفار مکہ یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کی پرستش شروع کردی ہے کہ ان میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ وہ کسی چیز کو پیدا کرسکیں بلکہ وہ تو خود مخلوق ان بتوں کے بچاریوں نے انکو خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور یہ بت خود اپنے لیے نہ کسی نقصان کے رفع کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ فائدہ حاصل کرنے کا تو پھر دوسروں کا کیا کام کرسکتے ہیں اور نہ کسی کے مارنے پر ان کو قدرت ہے اور نہ کسی کی زندگی میں اضافہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں یا یہ کہ نہ یہ نطفہ پیدا کرنے اک اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس میں روح ڈالنے کا اور نہ کسی کو مرنے کے بعد جلانے کا اختیار رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 The words are comprehensive and cover aII the false gods whom the mushriks worship whether they are angels, jinns, Prophets, saints, the sun, the moon, the stars, trees, rivers, animals etc., which have been created by AIIah, or those which have been created by man, as the idols of stone, wood, etc. 10 That is, "Allah has sent down AI-Furqan on His servant so that he may invite the people to the Truth, which they have forsaken due to heedlessness and waywardness, and warn them of the evil consequences of their folly. The Furqan is being revealed piecemeal so that he may distinguish right from wrong and the genuine from the counterfeit. "

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :9 جامع الفاظ ہیں جو ہر قسم کے جعلی معبودوں پر حاوی ہیں ۔ وہ بھی جن کو خدا نے پیدا کیا اور انسان ان کو معبود مان بیٹھا ، مثلاً فرشتے ، جِن ، انبیاء ، اولیاء ، سورج ، چاند ، سیارے ، درخت ، دریا ، جانور وغیرہ ۔ اور وہ بھی جن کو انسان خود بناتا ہے اور خود ہی معبود بنا لیتا ہے ، مثلاً پتھر اور لکڑی کے بت ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :10 حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بندے پر فرقان اس لیے نازل کیا کہ حقیقت تو تھی وہ اور لوگ اس سے غافل ہو کر پڑ گئے اس گمراہی میں ، لہٰذا ایک بندہ نذیر بنا کر اٹھایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس حماقت کے برے نتائج سے خبردار کرے ، اور اس پر بتدریج یہ فرقان نازل کرنا شروع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ حق کو باطل سے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر کے دکھا دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:3) واتخذوا۔ ماضی جمع مذکر غائب اتخاذ (افتعال) مصدر۔ انہوں نے ٹھہرا لیا ۔ انہوں نے اختیار کرلیا۔ ضمیر جمع مذکر غائب مشرکین اور کفار کے لئے ہے۔ واو بمعنی لیکن ہے۔ نشورا۔ مصدر منصوب۔ جی اٹھنا۔ یعنی جزاوسزا کے لئے قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہوکر اٹھ کھڑا ہونا۔ محض میت کے از سر نو زندہ ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ نشر المیت نشورا۔ مردہ دوبارہ زندہ ہوگیا۔ اور فانشرنا بہ بلدۃ میتا (43:11) پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا۔ اس آیت میں خداوند تعالیٰ کی صفات متذکرہ آیت 2 کے مقابلہ میں مشرکین کے معبودان باطل کی چھ کمزوریاں بیان کی گئی ہیں :۔ (1) انھا لا تخلق شیئا۔ وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے۔ (2) انھا مخلوقۃ کلھا وہ تمام کی تمام خود مخلوق ہیں۔ (3) انھا لا تملک لا نفسھا ضرا ولا نفعا۔ وہ اپنی ذات کے نفع و نقصان پر قادر نہیں ہیں۔ (4) انھا لا تملک موتا۔ وہ موت پر کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ (5) ولا حیوۃ۔ نہ زندگی پر۔ (6) ولا نشورا۔ اور نہ ہی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ اگر وہ ستارے ہیں یا فرشتے، انبیا اور جن تو یہ سب اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اگر مٹی اور لکڑی کے بت ہیں تو خود ان مشرکوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں۔ 8 ۔ یعنی نہ اپنے تئیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتے ہیں پھر دسروں کو کیا نفع پہنچائیں گے اور کیا انہیں نقصان سے بچائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی بادشاہی میں شریک نہیں کیا اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے پھر دوسروں کو اس کا شریک سمجھنا اور بنانے کا کیا مقصد ؟ شرک کرنے والے کے ذہن میں کسی نہ کسی حد تک یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ فلاں زندہ یا فوت شدہ شخصیت۔ اللہ کے ہاں اتنی معتبر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے احترام اور مقام کی وجہ سے اس کی بات مسترد نہیں کرسکتا۔ اسی تصور کے پیش نظر ہر دور میں لوگوں نے ملائکہ، جنات، انبیاء میں سے کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنی اولاد کی محبت اور تعلق کی بنیاد پر اولاد کی بات مسترد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی اولاد کی سفارش رد نہیں کرتا۔ جس طرح اولاد اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے اسی طرح یہ شخصیات اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں۔ اس عقیدہ کی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر نفی کی گئی ہے۔ جن کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا ودستگیر سمجھ کر بلایا اور پکارا جاتا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی اور نہ ہی کچھ پیدا کرسکتے ہیں وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مخلوق ہونے کے حوالے سے وہ اپنے رب کے سامنے بےبس اور مجبور ہیں اس حد تک بےبس اور مجبور ہیں۔ کہ وہ اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی موت وحیات اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی موت کے بعد اٹھا سکتے ہیں۔ مر کر جی اٹھنے کا علم تو بڑی دور کی بات ہے انسان کتنا ہی صالح اور نیک کیوں نہ ہو اسے گہری نیند میں اتنی بھی خبر نہیں ہوتی کہ نیند کے دوران اس کے آس پاس کیا ہوتا رہا ہے۔ جو لوگ من دون اللہ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کے الفاظ سے مغالطہ دیتے ہیں کہ اس سے مراد بت ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بتوں کے بارے میں کوئی آیت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن پیدا کرے گا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اور عقیدہ : (عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ (رض) إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللہ ] ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیں معاویہ نے مغیرہ (رض) کی جانب لکھا کہ مجھے لکھ کر بھیجئے۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے بعد آپ سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ “ مسائل ١۔ مشرک انہیں معبود مانتے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا۔ ٢۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ” اللہ “ ہے۔ ٣۔ اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ ٤۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو موت دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ٥۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندگی نہیں دے سکتا۔ ٦۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کچھ پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٢۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو ؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٣۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی تو وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٤۔ بیشک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سب کے سب جمع ہوجائیں۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا اپنے آپ کو خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ (الطور : ٣٥) ٦۔ تمام مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مشرکین کی گمراہی کا تذکرہ فرمایا کہ ان لوگوں نے اس ذات پاک کو چھوڑ کر جو آسمان اور زمین کا خالق ہے جس کا ملک میں کوئی شریک نہیں اور جس کی کوئی اولاد نہیں بہت سے معبود بنا لیئے یہ معبود کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کرتے وہ تو خود ہی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود اپنی جانوں کے لیے کسی بھی ضرر اور نفع کے مالک اور مختار نہیں ہیں نہ اپنی ذات سے کسی ضرر کو دفع کرسکتے ہیں اور نہ اپنی جانوں کو نفع پہنچا سکتے ہیں نیز وہ موت وحیات کے بھی مالک نہیں، نہ زندوں کو موت دے سکتے ہیں اور نہ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں پھر جب قیامت کا دن ہوگا اس وقت ان کو بھی اللہ تعالیٰ زندہ فرمائے گا مردوں کو یہ باطل معبود دو بارہ زندہ نہیں کرسکتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” واتخذوا من دونہ الخ “ یہ مشرکین پر زجر ہے اور اس کے ضمن میں چوتھی عقلی دلیل مذکور ہے۔ یہ مشرکین کیسے ضدی ہیں کہ ایسے واضح عقلی دلائل کی موجودگی میں بھی اپنے ایسے عاجز معبودوں کو برکات دہندہ سمجھتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا کرنا تو درکنار وہ خود مخلوق ہیں اور دوسروں کو نفع نقصان پہنچانا تو ایک طرف وہ خود اپنے نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ نہ موت وحیات ان کے قبضے میں ہے نہ دوبارہ زندہ کرنا ان کے اختیار میں۔ حالانکہ الہ اور برکات دہندہ وہی ہوسکتا ہے جو ان مذکورہ بالا صفات سے متصف ہو، مشرکین کے خود ساختہ معبود چونکہ ان صفات سے عاری ہیں اس لیے خیر و برکت بھی ان کے اختیار میں نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر اس کے سوا اور ایسے معبود بنا رکھے اور تجویز کر رکھے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرسکتے وہ کسی کے خالق نہیں ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ خود ہی پیدا شدہ ہیں اور وہ خود مخلوق ہیں اور نہ وہ خود اپنے برے اور بھلے کا کوئی اختیار رکھتے نہ اپنے نقصان اور نفع کے مالک ہیں اور نہ وہ کسی کے مرنے اور نہ وہ کسی کے زندہ کرنیکا اور نہ مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جلا کر اٹھانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ جو خالق اور مالک اور قادر مطلق ہے اس کو چھوڑ کر اور اس کی توحید کے منکر ہوکر اس کی مخلوق میں سے ایسے کمزوروں اور ناتواں کو معبود بناتے ہیں جو نہ کسی کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور قدرت کیا رکھیں گے وہ اپنی ذات میں اور اپنی پیدائش ہی میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں وہ اپنے ضرر اور نفع کا بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے تو بھلا ان مشرکوں و کیا نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اور نہ ہی کسی کی جان نکال سکتے ہیں نہ کسی بےجان میں جان ڈال سکتے ہیں نہ مرے پیچھے کسی کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں مطلب یہ کہ جو باتیں استحقاق معبودیت کے لئے ضروری اور لوازم میں سے ہیں ان میں سے کوئی بات بھی ان معبودان باطلہ میں نہیں پائی جاتی جب لازم نہیں تو ملزوم بھی نہیں۔ یہاں تک توحید الٰہی کا اثبات تھا اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر جو شکوک و شبہات کئے جاتے ہیں ان کا جواب ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔