Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 30

سورة الفرقان

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾

And the Messenger has said, "O my Lord, indeed my people have taken this Qur'an as [a thing] abandoned."

اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger will complain against His Opponents Allah tells: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْانَ مَهْجُورًا And the Messenger will say: "O my Lord! Verily, my people deserted this Qur'an." Allah tells how His Messenger and Prophet Muhammad will say: "O my Lord! Verily, my people deserted this Qur'an." The idolators would not listen to the Qur'an, as Allah says: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لاَ تَسْمَعُواْ لِهَـذَا الْقُرْءَانِ وَالْغَوْاْ فِيهِ And those who disbelieve say: "Listen not to this Qur'an, and make noise in the midst of it." (41:26) When he would recite Qur'an to them, they would talk nonsense or speak about something else, so that they would not hear it. This is a form of forsaking it and rejecting it, and not believing in it is the same as forsaking it, and not pondering its meanings and trying to understand it is the same as forsaking it, and not acting upon it and following its commandments and heeding its prohibitions is the same as forsaking it, and turning away from it in favor of poetry or other words or songs or idle talk or some other way is the same as forsaking it. We ask Allah, the Most Generous, the Bestower of bounty, the One Who is able to do what He wills, to keep us safe from doing that which earns His wrath and to use us to do that which will earn His pleasure of preserving and understanding His Book, following its commandments night and day in the manner which He loves and which pleases Him, for He is Generous and Kind.

شکایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀ ) 41- فصلت:26 ) اس قرآن کو نہ سنو اور اسکے پڑھے جانے کے وقت شور وغل کرو ۔ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا ۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے ، نہ اسے سچا جانتے تھے نہ اس پر غورو فکر کرتے تھے ، نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے نہ اس پر عمل تھا ، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اسکے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے ، یہی اسے چھوڑ دینا تھا ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ومنان جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں ۔ وہ ہمیں اپنے کلام سمجھا دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے ، جس سے وہ خوش ہو ، وہ کریم وہاب ہے ۔ پھر فرمایا جس طرح اے نبی آپ کی قوم قرآن کو نظر انداز کردینے والے لوگ ہیں ۔ اسی طرح اگلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کرکے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ١١٢؁ ) 6- الانعام:112 ) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین وانسان بنادئیے ہیں پھر فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے ، کتاب اللہ پر ایمان لائے ، اللہ کی وحی پر یقین کرے اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی اس سے انکی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں ۔ اس لئے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے ۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا ۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

ّ [ ٤٠] مھجورا کا مادہ ھ ج م ہے اب اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ( سے مفعول تسلیم کیا جائے تو ھجورا کا معنی ایسی مہمل گفتگو ہے جو کوئی شخص بیماری یا خراب یا نیم خوابی یا بےہوشی کی حالت میں کرتا ہے یعنی بڑبڑاہٹ یا ہذیان۔ پھر چونکہ ایسی باتیں ہنسی مذاق کا باعث ہوتی ہیں لہذا اس کا مطلب قرآن کی آیات کا ہنسی استہزاء اور مذاق اڑانا ہوگا اور قرآن کو نشانہ تضحیک بنانا جیسا کہ کفار مکہ کا معمول تھا۔ اور اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ( سے مفعول تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی قرآن کو متروک العمل سمجھتا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہوگا۔ جیسا کہ آج کل کے مسلمان کیا عوام اور کیا علماء سب کے سب اس جرم کے مجرم ہیں۔ علماء کی قرآن سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں جو درس قطامی رائج ہے اس میں قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کی باری آخری سال ہی آتی ہے اور کبھی وہ بھی نہیں آتی۔ کسی مدرسہ میں چھ سالہ کو رس ہے، کسی میں سات کسی میں آٹھ اور کسی میں نو سال تک نصاب ہے۔ اور اس طویل مدت کا بیشتر حصہ قرآن کو سمھجنے کے لئے امدادی علوم کی تعلیم و تدریس پر صرف کردیا جاتا ہے۔ ابتدائی تین چار سال صرف و نحو، منطق وغیرہ یا اخلاقیات و بعد میں فقہ اور حدیث اور آخری سال میں قرآن، گویا ساری توجہ اور محنت بنیادی باتوں میں صرف کردی جاتی ہے اور طالب علموں کو قرآن پڑھنے کا اگر وقت مل جائے تو ان کی خوش قسمتی ہے ورنہ اکثر حالات میں نہیں ملتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے عوام کو یہ بات ذہین نشین کرا رکھی ہے کہ قرآن کریم ایک انتہائی مشکل کتاب ہے۔ اسی لئے اس کی تدریس سب سے آخری سال رکھی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کا دعویٰ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے اور تجربہ و مشاہد ہے کہ ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی کسی ترجمہ والے قرآن کے مطالعہ سے جو سادہ اور سیدھی سادی سمجھ حاصل کرتا ہے۔ وہ اس سمجھ سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جو فرقہ پرست اور مقلد حضرات کسی طالب علم پہلے اپنے مسلک کو فقہ پڑھا کر ذہین نشین کرانا چاہتے ہیں۔ یہ تو علماء کا قرآن پر ظلم ہوا اور عوام کا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن بس ایک عملیات کی کتاب ہے اور اس میں ہماری دینی اور دنیوی سب طرح کی تکلیفوں کا حل موجود ہے مگر ضرورت انھیں صرف دنیوی تکلیفیں کے دور کرنے کی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کچھ تجربے بھی کر رکھے ہیں مثلاً اس کی فلاں آیت کی تسبیحات نکالنے سے فلاں تکلیف دور ہوتی ہے اور فلاں سورت کی زکات نکالنے سے فلاں فلاں مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ پھر قرآن کو بطور تعظیم ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر مکان کے کسی اوپر والے طاقچے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یا پھر مرنے والے انسان پر۔۔ پڑھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی کبھی قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ نزول قرآن کی اصل غرض وغایت تو یہ تھی کہ انسان اس سے ہدایت حاصل کرے تو اس بنیادی مقصد کے لحاظ سے فی الحقیقت قرآن آج متروک العمل ہوچکا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حضور یہی شکایت کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ۔۔ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت دنیا میں کی، کیونکہ کفار نے کہا تھا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٢٦ ] ” اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ اور دوسرا یہ کہ قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شکایت کریں گے، کیونکہ قرآن مجید میں یقینی مستقبل کے لیے ماضی کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ” میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا “ کے الفاظ سے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرنے کا مفہوم واضح ہو رہا ہے، جو صرف ” چھوڑ رکھا تھا “ کے الفاظ سے واضح نہیں ہوتا۔ ” ھٰذَا الْقُرْاٰنَ “ میں ” ھٰذَا “ کے لفظ سے قرآن کی عظمت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی انھوں نے اتنی عظمت والے قرآن کو اس طرح بنا رکھا تھا جیسے کوئی ایسی چیز ہو جسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔ رہا یہ سوال کہ آیت میں مذکور ” میری قوم “ سے مراد کیا ہے ؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ” میری قوم “ کے لفظ سے سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں قرآن پر ایمان نہ لانے والے مراد ہیں، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے، کیونکہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت اور آپ کی قوم ہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی امت تھی، جو ایمان نہ لانے کے باوجود ان کی امت اور ان کی قوم تھی۔ ان کے قرآن کو چھوڑنے سے مراد اسے سننے، پڑھنے، اس پر غور و فکر کرنے سے اجتناب اور اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ اس کے بعد ” قَوْمِیْ “ میں وہ تمام ایمان لانے والے بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی طرح بھی قرآن کو چھوڑا۔ حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” قرآن کو سننے سے گریز، اس میں شور ڈالنا اور اس پر ایمان نہ لانا، اسے چھوڑنا ہے۔ اسی طرح بقدر ضرورت اس کا علم حاصل نہ کرنا اور اسے حفظ نہ کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز نہ آنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اختیار کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے، مثلاً گانے بجانے کو، عشقیہ اشعار کو، لوگوں کے اقوال و آراء کو اور ان کے بنائے ہوئے طریقوں کو قرآن پر ترجیح دینا اسے چھوڑنا ہے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ نے جس طرح جان بوجھ کر قرآن کو پس پشت پھینک رکھا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ پھینکا ہو۔ ان کے اکثر لوگ دنیا کمانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، تاجر اور صنعت کار بنائیں گے اور اس کام کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے، مگر انھیں قرآن کی تعلیم نہیں دلوائیں گے اور دلوائیں گے بھی تو صرف ناظرہ قرآن کی یا حفظ کی، جس سے انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ کتنا ستم ہے کہ دنیا کی کوئی زبان سیکھی جائے تو اس کا ایک لفظ بھی مطلب سمجھے بغیر نہیں پڑھا جاتا، جب کہ قرآن پورا ناظرہ پڑھ لیا جاتا ہے، بعض اوقات حفظ کرلیا جاتا ہے، اس سے آگے اس کی تجوید اور حسن قراءت بھی حاصل کرلی جاتی ہے، مگر اس کا مطلب سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ جب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھا گیا، تو اس پر غور و فکر کا اور اس پر عمل کا مرحلہ کب آئے گا ؟ پورا قرآن تو دور کی بات ہے روزانہ پانچ وقت جو نماز وہ پڑھتے ہیں انھیں اس کا مطلب معلوم نہیں، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنے مالک سے کلام کرتے ہوئے کیا عرض کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام ممالک میں (إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ ) قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے عملاً نکال باہر کردیا گیا ہے۔ ان کی سیاست کفار سے لی ہوئی جمہوریت ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی دخل نہیں، یا قرآن و سنت کے احکام کی پابندی سے آزاد استبدادی ملوکیت ہے، ان کی تجارت و صنعت کا دار و مدار سود پر ہے، ان کی عدالتوں میں کفار کے قوانین رائج ہیں اور ان کی وضع قطع اور تمدن و تہذیب یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کی سی ہے۔ ان کے ہاں قرآن صرف برکت کے لیے ہے، یا مجلس کے افتتاح کے لیے، یا دم درود اور پیری مریدی میں خود ساختہ وظائف کے لیے، یا محبت و عداوت اور تسخیر قلوب کے عملیات کے لیے، یا اچھے سے اچھے کاغذ اور اچھی جلد والا خرید کر جہیز میں دینے کے لیے ہے، یا خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اونچی سے اونچی جگہ رکھنے کے لیے۔ وہ اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، مگر بات اس کی ایک نہیں مانتے۔ ان کے دینی مدارس میں سالہا سال تک انسانوں کے مرتب کیے ہوئے مسائل پڑھائے جاتے ہیں، جب وہ دل و دماغ میں خوب راسخ ہوجاتے ہیں تو انھیں قرآن و حدیث سے دورے کی شکل میں سال دو سال میں فارغ کردیا جاتا ہے۔ (الا ما رحم ربی) حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم قرآن کو چھوڑنے کی یہ روش ترک کرکے صحابہ و تابعین کی طرح قرآن کی طرف واپس نہیں آئیں گے، اسے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نہیں بنائیں گے، نصرتِ الٰہی اور باعزت زندگی سے محروم ہی رہیں گے۔ سچ فرمایا امام مالک (رض) نے : ” لَنْ یَّصْلُحَ آخِرُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہِ أَوَّلُھَا “ [ شرح سنن أبي داوٗد لعبد المحسن العباد : ٢؍٣٣٤ ] ” اس امت کا آخر بھی اسی کے ساتھ درست ہوگا جس کے ساتھ اس کا اول درست ہوا تھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (That is Rasul will say, 0 my Lord my people have forgotten and forsaken Qur&an - 25:30). There is a difference of opinion among the commentators whether this complaint of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to Allah Ta’ ala about his people would be on Dooms Day or was made in his life time. Both views appear valid. But the verse following this verse suggests that he made this complaint during his lifetime and the next verse was revealed to appease him.

وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا یعنی کہیں گے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور و متروک کردیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت بارگاہ حق تعالیٰ میں قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں آپ نے یہ شکایت فرمائی ؟ ائمہ تفسیر اس میں مختلف ہیں، احتمال دونوں ہیں۔ اگلی آیت بظاہر قرینہ اس کا ہے کہ یہ شکایت آپ نے دنیا ہی میں پیش فرمائی تھی جس کے جواب میں آپ کو تسلی دینے کے لئے اگلی آیت میں فرمایا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝ ٣٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) اس روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے اے میرے پروردگار اس قوم نے اس قرآن کریم کو جو واجب العمل اور واجب الاعتقاد تھا، بالکل نظر انداز کر رکھا تھا کہ اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے تھے اس پر عمل تو درکنار۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا ) ” تاویل خاص کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قریش مکہّ کے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے ‘ لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ‘ جبکہ اس آیت کی تاویل عام یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہوگی جو اس ” مہجوری “ کے مصداق ہیں ‘ کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع ” خوار از مہجورئ قرآں شدی “ کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش مکہّ نے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑلیا ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں ‘ مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے ‘ نہ اسے پڑھنا سیکھے ‘ نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔ چناچہ اس آیت کے حاشیے (ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن (رح ) میں مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ” آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ‘ اس میں تدبر نہ کرنا ‘ اس پر عمل نہ کرنا ‘ اس کی تلاوت نہ کرنا ‘ اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا ‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں۔ “ مقام غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں ‘ تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟ چناچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے ‘ اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔ اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ ” مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق “ دستیاب ہے۔ اس کا انگلش ‘ عربی ‘ فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 The Arabic word mahjur is capable of several meanings. As such, the sentence may mean:" "these people did not regard the Qur'an as worthy of their consideration: they neither accepted it nor followed it"; or "They considered it to be a nonsense or the delirium of insanity: or "They made it the target of their ridicule and mockery."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا ، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اگرچہ سیاق وسباق کی روشنی میں یہاں قوم سے مراد کافر لوگ ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے لئے بھی ڈر نے کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کہیں وہ بھی اس سنگین جملے کا مصداق نہ بن جائیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت کے بجائے شکایت پیش کریں، والعیاذ باللہ العلی العظیم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣١:۔ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قرآن شریف پڑھتے تو مشرکین مکہ تالیاں اور سیٹیاں بجاتے تھے ‘ سورة لقمان اور حٰم السجدہ میں بھی اس مضمون کی آیتیں آویں گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کی عبداللہ بن مسعود کی یہ حدیث ١ ؎ مشہور ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے نماز پڑھتے وقت اونٹ کی اوجھری اللہ کے رسول کی پیٹھ پر ڈال دی تھی ‘ حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی ان بےہودہ باتوں کی شکایت اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کی ‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی کے طور پر فرمایا اے رسول اللہ کے پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کے قصے جو قرآن میں جگہ جگہ ذکر کئے گئے ہیں ان سے تم کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ ہر ایک نبی کے ساتھ مخالف لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں قریش کی یہ باتیں تمہارے ساتھ کچھ خاص نہیں ہیں لیکن ان لوگوں کی مخالفت سے دین اسلام کی ترقی رک نہیں سکتی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ راہ راست پر آنے والے ٹھہر چکے ہیں ان کی ہدایت میں اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا صحیح بخاری وغیرہ کی روایتوں کے حوالہ سے منی گھاٹی کی بیعت کا قصہ اس تفسیر میں کئی جگہ بیان کردیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اہل مکہ نے قرآن کی نصیحت کو اس طرح کی بےہودہ باتوں سے ٹالنا شروع کیا تو موسم حج میں ادھر ادھر کے باہر کے لوگوں کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی آیتیں سنانی شروع کردیں ‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کی نصیحت کے اثر سے قبیلہ خزرج میں کے کچھ لوگوں نے منیٰ کی گھاٹی میں اسلام کی بیعت کی اور اس بیعت کے بعد نواح مدینہ میں اسلام کے پھیلانے والے بارہ نقیب مقرر ہوئے اور اسلام کی ترقی شروع ہوئی ‘ آیتوں میں اسلام کی ترقی کے لیے مدد الٰہی کا جو وعدہ ہے اس وعدہ کا ظہور اس قصہ سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٣٣ باب البعث وبدء الوحی۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:30) وقال الرسول۔ اس کا عطف وقال الذین لا یرجون لقاء نا ۔۔ الخ پر ہے۔ اور دونوں جملوں کے درمیان کا کلام بطور جملہ معترضہ ہے۔ اور یہاں الرسول سے مراد نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ مھجورا۔ اسم مفعول واحد مذکر ھجر سے ای متروکا بالکلیۃ۔ کلی طور پر اس پر ایمان نہ لائے نہ سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اور غور کیا اور نہ اس کے وعدہ اور وعید کی طرف توجہ کی ۔ یا ھجر سے مراد بکواس ۔ بدگوئی۔ نامناسب کلام۔ یعنی کسی نے قرآن کو بکواس کہا۔ کسی نے سحر کہا ۔ اور کسی نے شعر۔ نشانہ تضحیک۔ کفی۔ کفی یکفی (ضرب) کفایۃ۔۔ الشی کافی ہونا۔ کاف اسم صفت ۔ کہا جاتا ہے کفیتہ شر عدوہ میں نے اس کو اس کے دشمن کے شر سے بچا دیا۔ کفی بربک۔ میں با زائدہ ہے اور رب حالت رفعی میں ہے ای کفی ربک تیرا رب کافی ہے۔ ھادیا ونصیرا۔ منصوب بوجہ حال یا تمیز کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی اس پر ایمان نہیں لائی اور اس کی بجائے دوسری باتوں پر عمل کرتی رہی۔ یا مطلب یہ ہے کہ میری امت نے اس قرآن کو اپنی بکواس کا نشانہ بنا لیا۔ ” مھجورا “ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی یہ یا تو ہجران (چھوڑنا) سے مشتق ہے اور یا ” ھحر “ سے جس کے معنی ” بکواس کرنا “ ہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 30 تا 34 : (مھجور) چھوڑا ہوا۔ چھوڑا گیا ‘(عدو) دشمن ‘(ھادی) ہدایت دینے والا۔ راستے دکھانے والا ‘(نصیر) مدد کرنیوالا ‘(نزل ) اتارا گیا ‘(جملۃ واحدۃ) ایک ہی مرتبہ ‘(نثبت) ہم مضبوط کریں گے ‘(فئواد) دل ‘ (رتلنا) ہم نے آہستہ پڑھا ‘(احسن) بہترین ‘۔ تشریح : آیت نمبر 30 تا 34 : جب کوئی قوم علم و عمل سے دور اور جہالت سے قریب ہوتی ہے تو ان میں ایک خاص ٹیڑھے پن کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سوائے بےتکی بحثوں ‘ کٹ حجتیوں ‘ ضد ‘ بےفائدہ سوالات اور بےعملی کے کچھ بھی نہیں کرتے۔ ان کو سچائی اور بھلی بات سے نفرت اور ہر جہالت سے خاص دلی لگائوہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہر سچی بات کو لوگوں کی نظروں میں بےقیمت بنا دیا جائے اور ہر جھوٹی بات کو خوبصورت رنگ دے کر لوگوں کی نگاہوں میں با عظمت بنا دیا جائے۔ چنانچہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے سامنے قرآن کریم کی سچی اور حقیقی تعلیم کو پہنچانے کی جدوجہد فرمائی تو جہالت میں ڈوبے ہوئے عرب معاشرہ میں ہر ایک کی ایک ہی کوشش رہتی تھی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ اور قرآن کریم کی سچائیوں کو بےقیمت بنادیا جائے اور اتنے بےت کے اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کردی جائے اور ایسے ایسے سوالات کئے جائیں کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان سچائیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ نیگذشتہ آیات میں پڑھ لیا ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر ‘ مجنون ‘ کاہن ‘ کسی جادو کے زیر اثر اور بہکا ہوا انسان ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے کہتے تھے کہ یہ قرآن کیا ہے ؟ یہ تو ہمارے گذرے ہوئے بزرگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کو اللہ کا کلام کہہ کر پیش کردیا جاتا ہے اور نعوذ باللہ اس کلام کو آپ خود ہی گھڑ کر پیش کردیتے ہیں۔ جو نبی گذرے ہیں ان پر چند روز میں پوری پوری کتابیں نازل کی گئی تھیں یہ کیسا قرآن ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا جارہا ہے۔ اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بےت کے سوالات اور باتوں کا بھر پورجواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے ہمارے پیارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی باتوں کی پروانہ کیجئے کیونکہ یہ لوگ اس سے زیادہ نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔ آپ اللہ کے دین کو پہنچانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیے۔ اس طرح کی باتیں ہر اس شخص کے ساتھ پیش آتی ہیں جو حق و صداقت کے راستے پر چلتا ہے۔ چنانچہ جب بھی اللہ کے نبی اور رسول آئے ہیں ان پر ان کی قوم کے جاہلوں اور مفاد پرستوں نے اسی طرح کے اعتراضات کئے ہیں اور نبی کی دشمنی میں بہت آگے تک جاپہنچے تھے۔ کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ قرآن ایک دم نازل کیوں نہیں کیا گیا فرمایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا دل قوی اور مضبوط رہے یعنی ہر شخص کے دل میں اس قرآن کی سچائی کو اتار دیا جائے۔ ہر شخص اسکو پڑھ کر ‘ سمجھ کر اور عمل کر کی نہایت مضبوطی اور اخلاص سے اس کو اپنے دل میں جمالے اور یاد کر دلے۔ اگر ذرا بھی غر کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپ پہل جتنی کتابیں نازل کی گئی ہیں وہ وقتی طور پر ہدایت و رہنمائی کیلئے اتاری گئی تھیں۔ صحابہ کرام (رض) ان کو یاد کرلیا کرتے تھے ‘ ان کو سمجھ کر عمل کر کے اپنے دل کا نور بنا لیا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کریم آیات کے لاکھوں حافظ پیدا ہوگئے۔ اور جہری نمازوں میں پڑھے جانے سے اور بھی قرآن کریم کا ورد جاری ہوگیا اور قرآن کریم کی ہر آیت عمل میں ڈل کر آسان ہوگئی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآنی تعلیمات سے دشمنی کا انداز اختیار کئے ہوئے تھے فرمایا گیا کہ ان کا انجام بہت بھیانک ہے کیونکہ جب قیامت کی دن ایسے لوگوں کو چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں جھونکا جائے گا تو اس وقت ان کو معلوم ہوگا۔ کہ انہوں نے وقتی فائدوں کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے آخرت میں کس قدر برا اور گھٹیامقام بنایا ہے۔ لیکن اس وقت شرمندہ ہونے سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یہ شکوہ کریں گے الہی ! جب میں نے اپنی قوم کو سچائی پر لانا چاہا تو انہوں نے اس کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور قرآنی تعلیمات کیا نکار نے انہیں حقیقت سے بہت دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کی پروانہ کیجئے کیونکہ اللہ نے ہر نبی کے دشمن پیداکئے ہیں لیکن جن لوگوں نے بھی اسلام دشمنی میں ان شیطانوں کی پیروی کی ہے ان کی آخرت برباد ہو کر رہی۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے الہی ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا یعنی میں نے آپ کا کلام ان تک پہنچانے کی جدوجہد کی مگر انہوں نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور دشمنی میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس سے نہ گھبرائیں کیونکہ اس طرح کے گناہ گاروں نے ہمیشہ دین اسلام اور نبیوں کی اسی طرح دشمنی کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو ہدایت دینا چاہتا ہے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سچائی کے راستے پر چلیں اور ہدایت حاصل کریں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق ضرور عطا فرماتا ہے۔ اور ان کفار کا یہ کہنا کہ ہم نے اس قرآن کو ایک دم کیوں نازل نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وحی کا یہ سلسلہ جتنے عرصے بھی قائم رہے گا اس سے آپ کے دل کو قوت و طاقت ملتی رہے گی کیونکہ کفار اسلام دشمنی میں جتنے آگے جاتے رہیں گے اللہ ان کی بروقت گرفت کرسکے گا اور اس طرح آہستہ آہستہ قرآن کے اترنے سے آپ کی ڈھارس بھی بند رہے گی۔ آپ ان کفار کو اعتراضات کرنے دیجئے ہم ان کے ہر اعتراض کا جواب دیتے رہیں گے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو اپنا برا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ جب قیامت کے دن فرشتے ان کفار اور اسلام دشمنوں کو چہروں کے بل گسیٹ گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں گے تو ان کو اندازہ ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے لئے کتنے برے ٹھکانے کا انتخاب کیا تھا اور راستے سے بھٹکنے کا برانجام کتنا بھیانک ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ کہ خود کفار بھی اپنی ضلالت کا اقرار کریں اور رسول بھی شہادت دیں گے، اور ثبوت جرم کی یہی دو صورتیں معتاد ہیں، اقرار اور شہادت۔ اور دونوں کے اجتماع سے یہ ثبوت اور بھی موکد ہوجاوے گا، اور سزا یاب ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(وقال الرسول۔۔۔۔۔۔۔ واضل سیلا) ” انہوں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا جو اللہ نے اپنے بندے پر نازل کیا تھا تاکہ ان کو ڈرائے۔ اور ان کو بصیرت عطا کرے۔ انہوں نے قرآن کو اس طرح چھوڑا کہ اسے سننے سے بھی دور بھاگے ‘ مارے اس خوف کے کہ اگر انہوں نے سن لیا تو وہ اپنی بےپناہ تاثیر سے ان کو متاثر کرے گا۔ اور وہ اس وے اثرات کو مسترد نہ کرسکیں گے۔ انہوں نے اگر سنا بھی تو اس کے مضامین پر غور و فکر نہ کیا تاکہ وہ سچائی کو پا سکیں اور اس کی راہ پر چلیں۔ انہوں نے اسے اس طرح چھوڑا کہ اسے اپنا دستور حیات نہ بنایا۔ حالانکہ وہ نازل اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ اسے نظام حیات بتائیں۔ (وقال الرسول یرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مھجورا) (٢٥ : ٣٠) ” اور رسول کہے گا اے میرے رب ‘ میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا “۔ اور رب تعالیٰ تو جانتا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن یہ فریاد اور انابت الی اللہ کے طور پر دعا ہے اور اللہ کو بھی معلوم ہے اور اللہ اس کی شہادت دے رہا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے لیکن یہ قوم کا قصور ہے کہ اس نے اس قرآن کو نہ سنا اور نہ اس پر غور کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتا ہے کہ یہ تو تمام نبیوں کو پیش آنے والا ایک عام طرز عمل ہے۔ یہ سنت جاریہ ہے اور تمام رسولوں نے ایسی ہی صورت حالات کا مقابلہ کیا۔ تمام انبیاء کو ایسے حالات پیش آئے کہ ان کی اقوام نے قرآن کریم اور ان کی دعوت کے ساتھ مذاق کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا لیکن اللہ کی مدد اپنے رسولوں کے ساتھ شامل رہی اور اللہ نے اپنے رسولوں کو ایسے راستے بتائے کہ وہ اپنے دشمنوں پر غاب ہو کر رہے۔ (وکذلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونصیرا) (٢٥ : ٣١) ” اے نبی ؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا شمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے “۔ اللہ کی حکمت اچھے انجام تک پہنچنے والی ہے۔ کسی اسلامی تحریک کے مقابلے میں جب مجرم اٹھ کھڑے ہوں اور مخالفت پر کمربستہ ہوجائیں تو اس سے تحریک کے اندر قوت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس طرح تحریک سنجیدہ ہوجاتی ہے۔ ایک سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کے درمیان فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ سچی دعوت کے مقابلے میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک سچی دعوت کے حاملین کو مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اور یہ کشمکش ہی دعوت حق کو باطل دعوتوں سے ممیز کرتی ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں سچے پیرو کار چھٹ کر جم جاتے ہیں اور باطل کے حاملین بھاگ جاتے ہیں۔ دعوت کی پشت پر وہی لوگ رہ جاتے ہیں جو خالص اور مخلص ہوں جو مفادات کے بندے نہیں ہوتے۔ صرف اور صرف دعوت اسلامی ہی ان کا نصب العین ہوتی ہے۔ اور وہ صرف رضائے الہی چاہنے والے ہوتے ہیں۔ اگر دعوت اسلامی کا کام آسان ہوتا اور اس کے سامنے ردعمل واہ واہ کا ہوتا اور داعی کی راہ پر پھول بچھائے جاتے اور کوئی دشمن اور ناقد نہ ہوتا تو ہر کہ دمہ دعوت اسلامی کا حامل ہوجاتا۔ کیونکہ نہ کوئی عناد کرنے والا ہوتا اور نہ کوئی جھٹلانے والا اور پھر دعوت حق اور دعوت باطل کے درمیان کوئی فرق بھی نہ ہوتا اور دنیا میں انتشار اور فتنہ برپا ہو اتا۔ لیکن ہر سچی دعوت کے مقابلے میں اللہ نے دشمن اور مدعی پیدا کردیئے اور اللہ نے داعیوں کے لیے جدوجہد کرنا اور مقابلہ کرنا ضروری قرار دیا اور راہ حق میں قربانی دینا اور مشکلات برداشت کرنا اور راہ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد وہی کرتا ہے جو سچا ہو۔ مشکلات اور قربانیوں کو وہی شخص برداشت کرتا ہے جو سچا مومن ہو۔ ایسے لوگ جو اپنے آرام اور عیش و عشرت کو دعوت حق کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اور حیات دنیا کی لذتوں کو خیر باد کہتے ہیں بلکہ وہ اس راہ میں جان تک دے دیتے ہیں اگر دعوت کا تقاضا ہو کہ اب جان دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس عظیم جدوجہد کے لیے وہی لوگ تیار ہوتے ہیں جو مضبوط اور ثابت قدم ہوں جو پکے مومن ہوں۔ پختہ ایمان رکھتے ہوں۔ وہ اس اجر کے زیادہ مشتاق ہوں جو اللہ کے ہاں ہے بجائے اس اجر کے جو لوگوں کے پاس ہے۔ جب یہ صورت حالات پیش آجائے تو پھر سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ایسیحالات میں دعوت اسلامی کی صفوں کی تطہیر ہوجاتی ہے اور مضبوط قوی اور ثابت قدم لوگ چھٹ کر جدا ہوجاتے ہیں اور کمزور لوگ علحدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر دعوت اسلامی ان لوگوں کو لے کر آگے بڑھتی ہے جنہوں نے ثابت قدمی کا انتحان پاس کرلیا ہوتا ہے۔ اور وہی لوگ پھر اس دعوت کے امین اور لیڈرہوت ہیں اور یہی اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ بھاری قیمت ادا کرکے اس نام تک پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ سچائی کیساتھ اس دعوت کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ پختہ ایمان کے ساتھ ‘ تجربے اور آزمائشوں نے ان کو بتادیا ہوتا ہے کہ اس دعوت کو مشکل سے مشکل حالات میں انہوں نے کس طرح لے کر چلنا ہے۔ شدائد اور مشکلات نے ان کی پوری قوت کو حساس بنا لیا ہوتا ہے اور ان کی قوت کا سرچشمہ اور طاقت کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے اور وہ مشکل سے مشکل صورت حالات میں دعوت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں عموما یوں ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اور ان کے مخالفین کے درمیان جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ لوگوں کی ایک عظیم تعداد اس میں غیر جانبدار ہو کر تماشادیکھتی ہے۔ یہ تماشا بین آبادی جب دیکھتی ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اپنے نظریہ اور مقصد کی خاطرعظیم قربانیاں دے رہے ہیں اور بےحدو حساب مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور بڑی ثابت قدمی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر جارہے ہیں تو پھر یہ یہ تماشا بین عوام الناس سوچنے لگتے ہیں کہ دعوت اسلامی کے ساتھ ملیں آخرکیوں اس قدر قربانیاں دے رہے ہیں اور مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقاصد بہت ہی مفید ‘ بہت ہی قیمتی ہوں گے اور وہ جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے رہے ہیں شاید ان چیزوں سے وہ مقاصد زیادہ قیمتی ہوں۔ اب یہ لوگ دعوت اسلامی کی اصل قدرو قیمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بات عامتہ الناس کی سمجھ میں آجاتی ہے تو وہ پھر فوج درفوج دعوت اسلامی میں داخل ہوتے ہیں اور وہ تماشادیکھنے کے بجائے اب خود تماشا بن جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہر نبی کے لی مجرمین میں سے ایک دشمن پیدا کیا۔ یہ مجرمین دعوت اسلامی کی راہ روکنے کی سعی کرتے ہیں۔ پھر نبی اور ان کے عبد ہر حامل حق ان مجرمین کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کو مشکلات درپیش آتی ہیں اور وہ اپنی راہ میں چلتے ہی جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ اور ان کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ آخرکار وہ اس انجام تک پہنچیں گے۔ آخر میں ان کو ہدایت اور نصرت مل جاتی ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (٢٥ : ٣١) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ انبیاء کے راستے میں مجرمین کا نمودار ہونا ایک طبیعی امر ہے۔ اس لیے کہ دعوت حق ہمیشہ اپے مناسب اور مقرر وقت پر نمودار ہوتی ہے جبکہ کوئی مخصوص سوسائٹی فساد پذیر ہوجاتی ہے یا پوری انسانیت فساد کا شکار ہوجاتی ہے۔ لوگوں کے قلب و نظر فساد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ لوگوں کے باہم روابط بگڑ جاتے ہیں۔ اس فساد اور بگاڑ کی پشت پر مجرم لوگ ہوتے ہیں ‘ جو ایک طرف فساد کرتے ہیں پھر وہ اس فساد اور بگاڑ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اس فساد کے ہم مسلک اور ہم مشرب ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات اسی فساد زدہ معاشرے میں پوری ہوتی ہیں۔ اور ان کے وجود میں جو فساد اور بگاڑ ہوتا ہے اس کے لیے وجو جوز وہ معاشرے سے نکالتے ہیں کہ بس معاشرہ ہی ایسا ہے۔ اس لیے یہ بالکل طبیعی بات ہے کہ ایسے لوگ انبیاء کی راہ روک کر کھڑے ہوجائیں اور انبیاء کے دور کے بعد ان لوگوں کی راہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو انبیاء کی دعوت کو لے کر رکھتے ہیں کیونکہ یہ مجرم دراصل ان کے بگڑے ہوئے وجود کا دفاع ہوتا ہے ‘ اس لیے کہ حشرات میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پاک و صاف اور خوشبودار اور شفاف ماحول میں زندہ ہی نہیں رہتے ‘ فوراً مرجاتے ہیں اس لیے کہ یہ گندے ماحول میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ بعض کیڑے ایسے ہوتے ہیں جو صاف پانی میں مرجاتے ہیں ‘ کیونکہ وہ صرف گندے اور سڑے ہوئے پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی حال ان مجرموں کا ہوتا ہے لہٰذا یہ طبیعی امر ہے کہ وہ دعوت حق کے دشمن ہوں اور اس کے مقابلے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں اور یہ بھی بالکل طبیعی امر ہے کہ آخر میں دعوت اسلامی کو کامیابی ہو کیونکہ دعوت اسلامی زندگی کی ترقی پذیر لائٹوں پر چلنے والی ہوتی ہے۔ اور اس طرح دعوت اسلامی کو وہ عروج نصیب ہوتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمایا ہوتا ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (٢٥ : ٣١) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ اس کے بعد اب کفار کے اعتراضات بابت طریقہ نزول قرآن نقل کیے جاتے ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے۔ (وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیلا) (٢٥ : ٣٢) ” منکرین کہتے ہیں اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ “۔۔۔۔۔ ہاں ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے ہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے “۔ قرآن کریم نازل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ایک امت کی تربیت کی جائے۔ ایک نیا معاشرہ وجود میں لایا جائے۔ اس معاشرے میں ایک نیا نظام وجود میں لایا جائے۔ اور تربیت اس بات کی محتاج ہے کہ انسان کو بار بار تلقین کی جائے اور وہ متاثر ہوتا جائے۔ اور یہ تاثیر اور تاثر ایک مسلسل حرکت کے ذریعہ جاری رہے کیونکہ انقلاب انسانوں کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہی اور انسان ایک ایسیذات ہے کہ اسے صرف ایک شب و روز میں تربیت نہیں دی جاسکتی کہ بس اس کے ہاتھ میں ایک نئے نظام پر مشتمل ایک کتاب پکڑا دی جائے۔ اور اس میں جدید معاشرے کے مکمل خدوخال ہوں بلکہ انسانوں کی تربیت یوں ہوتی ہے کہ اسے تدریج کے ساتھ ایک طویل عرصے کے بعد بدلا جاتا ہے۔ اور یہ تبدیلی اس کے اندر آہستہ آہستہ آتی رہتی ہے۔ ہر دن کی غذا کے بعد دوسرے دن وہ زیادہ غذا کے لیے تیار ہوتا ہے اور دوسرے دن کی خوراک وہ پھر بڑی خوشی سے لیتا ہے اور بڑے مزے سے قبول کرتا ہے۔ قرآن کریم زندگی کا ایک مکمل نظام لے کر آیا ہے اور قرآن کریم نے انسانوں کی تربیت کے لیے بھی ایک فطری منہاج اختیار کیا۔ یہ منہاج اس ذات کی طرف سے تھا جس نے انسان کو پیدا کیا تھا اس لیے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا گیا تاکہ وہ جماعت مسلمہ کی حقیقی اور زندہموجود ضروریات کو پورا کرتا چلاجائے۔ کیونکہ یہ جماعت آہستہ آہستہ تعمیر ہورہی تھی۔ وہ اپنی استعداد کے مطابق ‘ اپنی قوت کے مطابق ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ ٹھیک ٹھیک اللہ کے حقیقی منہاج تربیت کے مطابق۔ چناچہ قرآن مجید کو بیک وقت منہاج تربیت اور نظام زندگی کی تشکیل کے لیے اتارا گیا۔ اس لیے اس کا متفرق نزول لازمی تھا۔ یہ محض کوئی علمی ثقافتی اور ادبی کتاب نہ تھی کہ مکمل شکل میں اسے تصنیف کر کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔ اور لوگ اسے پڑھتے رہتے اور مزے لیتے رہتے۔ اور پس اس پر عمل کی ضرورت نہ ہوتی۔ بلکہ یہ تو حرف حرف ‘ کلمہ اور ایک ایک حکم کے طور پر آیا۔ اس کی ہر آیت حکم الیوم (آرڈر آف دی ڈے) کے طور پر آئی۔ مسلمان حکم پاتے اور ان پر عمل کرتے۔ جیسا کہ ایک فوجی احکام لیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ اس حکم کو لیتا ہیسمجھتا ہے اور نافذ کردیتا ہے۔ خود بھی اس کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور معاشرے کو اس میں غرق کردیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قرآن متفرق طور پر نازل ہوا ہے ‘ تاکہ رسول کے قلب کے اندر اچھی طرح جاگزیں ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے خود اس پر ثابت قدم ہوجائیں اور ایک ایک جز کے بعد اس کا دوسرا جز آئے اور اس پر عمل ہوتا رہے۔ کذلک لنثبت بہ فوء دک ورتلنہ ترتیلا (٢٥ : ٣٢) ” ہاں ایسا ہی کہا گیا تاکہ ہم اس کو اچھی طرح ہمارے ذہن نشین کرتے رہیں اور ہم نے اسے ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی “۔ ترتیل کا مفہوم یہاں اللہ کی حکمت کے مطابق آگے پیچھے نازل کرنا ہے ‘ اللہ کے علم کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق اور اللہ کی اس حکمت کے مطابق جس کی رو سے اللہ جانتے تھے کہ لوگوں کے اندر کس قدر احکام و ہدایات قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے اپنے پے درپے منہاج نزول کے ذریعہ ان لوگوں کی تربیت کے میدان میں معجزات دکھائے۔ لوگ اس کے نزول سے دن بدن تاثرات لیتے رہے۔ اور ان کے اخلاق کی تشکیل آہستہ آہستہ ہوتی رہی۔ بسبب مسلمانوں نے قرآن مجید کا منہاج تربیت فراموش کردیا اور قرآن مجید کو انہوں نے محض علم و ثقافت کے طور پر پڑھنا شروع کردیا اور قرآن کو ایک ایسی کتاب تصور کرلیا جسے فقط پڑھا جاتا ہے ‘ اس کے مطابق معاشرے کو ڈھالنا ضروری نہیں ہے ‘ اس کی کیفیات میں ڈوبنا ضروری نہیں ہے اور نہ اس کے مطابق نظام زندگی قائم کرنا ضروری ہے تو مسلمانوں نے اس قرآن سے نفع لینا ترک کردیا اور قرآن نے ان کو نفع دینا چھوڑ دیا کیونکہ مسلمانوں نے وہ منہاج تربیت ہی ترک کردیا جو ان کے لیے علیم وخبیر نے قرآن میں منضبط کیا تھا۔ یعنی یہ کہ اسے ایک ایک کر کے عمل میں لایا جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین جو نکتہ اعتراض اٹھاتے تھے۔ جو نئے نئے اعتراضات کرتے تھے جو مطالبات کرتے تھے۔ یہ قرآن اپنے منہاج نزول متفرق کے ذریعے ایک ایک کا تشفی بخش جواب دے دیتا تھا۔ (ولا یاتونک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیرا) (٢٥ : ٣٣) ” اور جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات لے کر آئے اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی “۔ یہ لوگ باطل طریقے سے مجادلہ کرتے تھے اور اللہ ان کے جواب میں حق اتار تا تھا جو باطل کا سر کچل کر رکھ دیتا تھا۔ کیونکہ قرآن مجید کی غرض وغایت ہی یہ تھی کہ دنیا میں حق جم جائے۔ محض بحث و مباحثے میں کامیابی مقصود نہ تھی بلکہ حق کو دنیا میں قوت دینا ‘ واضح کرنا اور غالب کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کے درمیان ہر قسم کے مجادلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرے گا۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر ہیں اور حق کے ساتھ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امداد کرتا ہے اور باطل کو مٹاتا ہے۔ تو اللہ کی بنائی ہوئی حجت بالغہ کے مقابلے میں ان کا مجادلہ اور مباحثہ کس طرح ٹھہر سکتا تھا کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رب تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی سچائی تھی جو ایک گولے کی طرح باطل کے سر پر لگتی تھی اور اسے کچل کر رکھ دیتی تھی۔ یہ بات اب اس مضمون پر ختم ہوتی ہے کہ کس طرح وہ قیامت کے دن جہنم رسید کیے جائیں گے۔ کیونکہ وہ حق کا انکا کرتے تھے اور اسلام کے خلاف مجادلے میں اور مقابلے میں وہ الٹی منطق استعمال کرتے تھے ‘ اس لیے قیامت میں بھی انہیں منہ کے بل الٹا گرایاجائے گا۔ (الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضل سبیلا) (٢٥ : ٣٤) ” جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ‘ انکا موقف بہت برا ہے اور ان کی راہ حد درجہ غلط “۔ حشر کے دن ان کی حالت کو ذرا دیکھئے ‘ منہ کے بل اٹھیں گے نہایت ہی توہین آمیز انداز میں۔ اس لیے کہ دنیا میں یہ تکبر کی وہ سے منہ پھیرتے تھے ۔ ان کا یہ منظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ‘ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو کہ یہ لوگ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں لیکن ان کا انجام بہت ہی برا ہونے والا ہے۔ اور اس کا ایک منظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ مجردیہ منظر ہی ان کی اکڑ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور یہ لوگ ایسے مناظر سے ڈر کر متاثر بھی ہوتے تھے مگر پھر بھی حجت کر کے اپنے اوپر اس برے انجام کو لازم کرتے تھے اور اس عناد کی وجہ سے وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ اب روئے سخن ان سابق اقوام کی طرف پھرجاتا ہے جنہوں نے تکذیب کی اور ہلاک کردیئے گئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا) (اور رسول کا کہنا ہوگا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا) اس آیت کریمہ میں یہ بتایا کہ قیامت کے دن جب کافر اور مشرک پچھتائیں گے کہ اے کاش ہم دنیا میں گمراہ کرنے والوں کو دوست نہ بناتے اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرک ایمان لے آتے اور آپ کے ساتھیوں میں شامل ہوجاتے اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ اے میرے رب میری قوم یعنی امت دعوت نے قرآن کو بالکل نظر انداز کردیا تھا لہٰذا مشرکین اور کافرین کا جرم ان کے اقرار سے بھی ثابت ہوجائے گا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت سے بھی الفاظ کے عموم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو بظاہر اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن سیاست اور معیشت اور حکومت اور معاشرت میں نہ صرف قرآن کے خلاف چلتے ہیں بلکہ قرآن کے احکام پر کافروں کے قوانین کو ترجیح دیتے ہیں اور اس پر مزید یہ ہے کہ حدود و قصاص کے احکام کو ظالمانہ بتاتے ہیں ایسی باتیں کرنے والے اگرچہ مدعی اسلام ہیں مگر اپنے اقوال ضلال اور اضلال کی وجہ سے اسلام سے خارج ہیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ الفاظ کے عموم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو قرآن پڑھتے ہی نہیں اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جو پڑھ لیتے ہیں لیکن کھول کر کبھی ہاتھ نہیں لگاتے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” وقال الرسول الخ “ الرسول سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں۔ قیامت کے دن آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اپنی قوم کی شکایت کریں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا، نہ اس کو مانا اور نہ اس پر عمل کیا۔ یا یہ جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا میں اپنی قوم کا انکار و طغیان اور عناد وعدوان دیکھ کر اظہار افسوس کے طور پر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میری قوم ضد وعناد اور رد و انکار میں انتہا کو پہنچ چکی ہے اور کسی صورت میں قرآن کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان لما اکثروا من الاعتراضات الفاسدۃ ووجوہ التعنت ضاق صدر الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و شکاھم الی اللہ تعالیٰ وقال یا رب اکثر المفسرین انہ قول واقع من الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقال ابو مسلم بل المراد ان الرسول (علیہ السلام) یقول فی الاخرۃ والاول اولی لانہ موافق للٖظ الخ (کبیر ج 6 ص 470) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور رسول فرمائیں گے اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کریم کو بالکل ایک ناقابل توجہ اور متروک شی بنادیا تھا یعنی قیامت کے دن منکرین اسلام کی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارگاہ خداوندی میں شکایت کریں گے یا یہ مطلب کہ کفار کی شکایت آپ نے دنیا میں کی اور ان کے کافرانہ طرز عمل کی بنا پر یہ فرمایا ہو کہ میری قوم نے اس قرآن کریم کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ بعض حضرات نے مہجور کا ترجمہ جھک جھک کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھاجاتا ہے تو شور کرتے ہیں اور بےہودہ بکواس کرتے ہیں آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہیں۔