Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 31

سورة الفرقان

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا ﴿۳۱﴾

And thus have We made for every prophet an enemy from among the criminals. But sufficient is your Lord as a guide and a helper.

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناہگاروں کو بنا دیا ہے اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا اور مدد کرنے والاکافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ... Thus have We made for every Prophet an enemy among the criminals. means, `just as there is for you, O Muhammad, those people who scorned the Qur'an, so in all the previous nations did Allah make for every Prophet an enemy among the criminals, who called people to their misguidance and disbelief,' as Allah says: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِىٍّ عَدُوّاً شَيَـطِينَ الاِنْسِ وَالْجِنِّ And so We have appointed for every Prophet enemies -- Shayatin among mankind and Jinn, (6:112), as stated in these two Ayat. Allah says here: ... وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا But sufficient is your Lord as a Guide and Helper. meaning, for the one who follows His Messenger and believes in His Book, Allah will be his Guide and Helper in this world and the Hereafter. Allah says هَادِيًا وَنَصِيرًا (a Guide and Helper), because the idolators used to try to prevent people from following the Qur'an lest anyone be guided by it. They wanted their way to prevail over the way of the Qur'an. Allah says: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ... Thus have We made for every Prophet an enemy among the criminals.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311یعنی جس طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ ) 6 ۔ الانعام :112) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ 312یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے ؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] یعنی نبی کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ رسول کی اطاعت کریں۔ اب جو لوگ پہلے سے مطاع بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ جو لوگ پہلے ان کے فرمانبردار و اطاعت گزار تھے وہ انھیں چھوڑ کر یا ان کے ساتھ کسی دورے کی بھی اطاعت کرنے لگیں۔ بالفاظ دیگر معاشرہ کے آسودہ حال لوگ یا ایسے لوگ جن کا عوام پر کسی نہ کسی طرح کا اثر اور بالادستی ہوتی ہے اس نبی کو اپنا رقیب سمجھ کر اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی مجرموں کا ذکر قرآن نے بعض مقامات پر مترفین کے لفظ سے کیا ہے اور بعض مقامات پر ملا کے لفظ سے اور چونکہ ایسے لوگوں کی تعداد کافی ہوتی ہے۔ لہذا نبی کی دعوت دراصل بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہوتی ہے۔ دعوت کے آغاز میں ہی معرکہ حق و باطل شروع ہوجاتا ہے اور دنیا کے یہ خونخوار کتے سینہ تان کر نبی کے مقابلہ میں آن کھڑے ہوتے ہیں۔ [ ٤٢] یعنی اس معرکہ حق و باطل میں حالات جونسا رخ اختیار کرتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو ہدایات بھی دیتا جاتا ہے کہ اب انھیں یوں کرنا چاہئے اور اس سے اگلا قدم اس طرح اٹھنا چاہئے پھر وہ صرف ہدایات اور احکام پر ہی اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ ان کافروں کی طاقتور جماعت کے مقابلہ میں ایمانداروں کی مدد بھی فرماتا ہے اور ایسے طریقوں سے مدد فرماتا ہے جس کا پہلے سے مسلمانوں کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ تمام ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کی قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ وہ حالات ہی ایسے پیدا کردیتا ہے جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہوتے ہیں اور کافرون کا کچومر نکال دیتے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ اطلاق دی کہ نبی کے دشمن پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ اللہ اپنے نبی اور اس پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو دشمنوں کے حوالے نہیں کردیتا بلکہ انھیں بروقت ہدایات بھی دیتا اور پھر ان کی مدد بھی کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ : چونکہ اس شکایت میں دل کی جلن اور شدید غم کا اظہار تھا، اس لیے اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ قرآن کو چھوڑنے والوں کا یہ طرز عمل صرف تمہارے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسے ہی رہا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١١٢، ١٢٣) ۔ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا : اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو بشارتیں دی ہیں، ایک یہ کہ جو لوگ اب اعراض کر رہے ہیں ان میں سے کئی ہدایت قبول کریں گے، یا ان کی پشتوں سے آنے والے ہدایت قبول کریں گے، جیسا کہ پہاڑوں کے فرشتے نے اللہ کے حکم سے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کش کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر مکہ کے دو پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلاَبِھِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا ) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین ۔۔ : ٣٢٣١ ] ” بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے۔ “ اور دوسری بشارت نصرت الٰہی کی ہے۔ ” وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا “ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اپنے سارے کام اس کے سپرد کر دو ، کیونکہ ہدایت و نصرت کے لیے کفایت کرنے والا وہی ہے۔ (ابن عاشور)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse reads وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ (In a similar way We made for every prophet an enemy from among the sinners - 25:31). It means that if your adversaries do not accept Qur&an, it is not something new. In the past as well people have defied Our message and the messengers had to contend with that. The best course for you also is to be contended. Abandoning to follow Qur&an is a great sin On the face of it abandonment of Qur&an means its denial or non non-acceptance, which is expected only from the infidels. However, in certain traditions it is reported that those Muslim who do believe in the Qur&an but neither they read it nor try to follow it fall as much within the ambit of this category of people. Sayyidna Anas (رض) has quoted the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as saying:\ من تعلّم القرآن و علّق مصحفہ لم یتعاھدہ ولم ینظر فیہ جاء یوم القیامۃ متعلقا بہ یقول : یا ربّ العالمین ان عبدک ھذا اتخزنی مھجوراً فاقض بینی و بینہ ۔ ذکرہ الثعلبی (قرطبی) The person who has learnt Qur&an and then hanged it (on the wall), neither he recites it routinely nor ponders over its injunctions will be brought on the Doomsday with Qur&an hanging by his neck with a sling, and will complain before Allah Ta’ ala &this servant of Yours had abandoned me, so decide between me and him|". (Qurtubi)

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ ، یعنی اگر آپ کے دشمن قرآن کو نہیں مانتے تو آپ کو اس پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ سنت اللہ ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہر نبی کے کچھ مجرم لوگ دشمن ہوا کرتے ہیں اور انبیاء علہیم السلام اس پر صبر کرتے رہے ہیں۔ قرآن کو عملا ترک کردینا بھی گناہ عظیم ہے : اس سے ظاہر یہ ہے کہ قرآن کو مہجور ومتروک کردینے سے مراد قرآن کا انکار ہے جو کفار ہی کا کام ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : من تعلم القران وعلق مصحفہ لم یتعاھدہ ولم ینظر فیہ جاء یوم القیمة متعلقا بہ یقول یا رب العلمین ان عبدک ھذا اتخذنی مھجورا فاقض بینی و بینہ۔ ذکرہ الثعلبی (قرطبی) |" جس شخص قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی نہ اس کے احکام میں غور کیا، قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرما دیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ ہَادِيًا وَّنَصِيْرًا۝ ٣١ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور ہم اسی طرح جیسا کہ ابوجہل آپ کا دشمن ہے مشرک لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بناتے رہتے ہیں کہ آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ان کی قوم دشمن رہی ہے اور آپ کا رب آپ کی حفاظت کرنے اور آپ کے دشمن کے مقابلہ میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کافی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ط) ” یہ مضمون سورة الانعام کی آیت ١١٢ میں بھی آچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آزمائش کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت کی بھٹی خوب گرم ہو ‘ ان کے خلاف کشمکش اور تصادم کا ماحول بنے اور باطل کے مقابلے میں انہیں عملی طور پر میدان کارزار میں اترنا پڑے تاکہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو اور ایمان کے سچے دعویدار نکھر کر سامنے آجائیں۔ ورنہ اگر ٹھنڈی سڑک پرچہل قدمی کرتے ہوئے جنت تک پہنچنا ہو تو کوئی بھی اس سعادت میں پیچھے نہیں رہے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (حُجِبَتِ النَّار بالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ ) (١) یعنی جہنم کو انسان کے مرغوبات نفس سے ڈھانپ دیا گیا ہے ‘ جبکہ جنت کو ایسی چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے جو انسان کو ناپسند اور ناگوار ہیں۔ حق کے راستے پر چلتے ہوئے انسان کو طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں ‘ مصائب جھیلنے پڑتے ہیں اور کٹھن آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس مضمون کو سورة البقرۃ ‘ آیت ١٥٥ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) ” اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کسی قدر خوف سے ‘ بھوک سے اور جان و مال اور فصلوں کے نقصان سے “۔ مصیبتوں اور آزمائشوں کی اس چھلنی کے ذریعے اللہ اپنے ان بندوں کو چھانٹ کر الگ کرلیتا ہے جو جنت کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں اور پھر ان لوگوں سے جنت کا سودا کرتا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط) ( التوبۃ : ١١١) ” یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ (وَکَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّنَصِیْرًا ) ” جو شخص ہدایت کا طلب گار ہو اسے اللہ ہدایت بھی دیتا ہے اور پھر اس رستے پر چلانے کے لیے اس کی مدد بھی کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 That is, "It is not a new thing that the disbelievers have become your enemies, for it has always been so with all the former Prophets and Messengers. (See also Al-An'am: 112-113). This is inevitable because it is Our Law that the criminals will always oppose the Truth. You should, therefore, pursue your mission with full confidence and determination without expecting any immediate results." 43 "Guidance" does not only imply bestowing of the knowledge of the Truth, but it also means giving the right guidance at the right time to guide the Islamic Movement on the right lines and to defeat the strategy and scheme of the enemies of Islam "Help" means all kinds of moral, spiritual and material help to the followers of the Truth in their conflict against falsehood. Thus, Allah is AllSufficient for the righteous people and they need no other support provided they have full faith in Allaln and fight falsehood with all their energies and strength. This meant to encourage the Holy Prophet, otherwise the previous assertion would have been very discouraging without this. It meant to say, "Even :f the unbelievers have become your enemies, you should continue your mission, for We shall guide you in every stage and situation and help you against them. We shall defeat aII the schemes of your enemies and help you in every way in your conflict with falsehood. We shall provide you with material means also, but you should trust in Us and exert your utmost against falsehood."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :42 یعنی آج جو دشمنی تمہارے ساتھ کی جا رہی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی نبی حق اور راستی کی دعوت دینے اٹھا تو وقت کے سارے جرائم پیشہ لوگ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ۔ یہ مضمون سورہ اَنعام آیات 112 ۔ 113 میں بھی گزر چکا ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے ان کو دشمن بنایا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے ، لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو ، اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دو چار ہونا نا گزیر ہے ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے چاؤ ۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور ادھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :43 رہنمائی سے مراد صرف علم حق عطا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ، اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بر وقت صحیح تدبیریں سمجھانا بھی ہے ۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے ۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ، ہر ایک پر اہل حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے ۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجت بالغہ عطا کرتا ہے ۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہل حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے ۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہل حق کے دل جوڑتا ہے ۔ مادی وسائل کی ضرورت ہو ، تو وہی اہل حق کے تھوڑے مال و اسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہل باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے ۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہ نمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہل حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انہیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو ، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان و اعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سرگرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑائیں ۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ آیت کا یہ دوسرا حصہ نہ ہوتا تو پہلا حصہ انتہائی دل شکن تھا ۔ اس سے بڑھ کر ہمت توڑ دینے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص کو یہ خبر دی جائے کہ ہم نے جان بوجھ کر تیرے سپرد ایک ایسا کام کیا ہے جسے شروع کرتے ہی دنیا بھر کے کتے اور بھیڑیے تجھے لپیٹ جائیں گے ۔ لیکن اس اطلاع کی ساری خوفناکی یہ حرف تسلی سن کر دور ہو جاتی ہے کہ اس جاں گُسِل کشمکش کے میدان میں اتار کر ہم نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہم خود تیری حمیت کو موجود ہیں ۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ خداوند عالم آپ ہماری مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے ۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ کفار مکہ آپ کے ساتھ جو دشمنی کررہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر پیغمبر کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، پھر جن کے مقدر میں ہدایت قبول کرنا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے دیتے ہیں اور اپنے پیغمبروں کی مدد فرماتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی یہ سنت قدیمہ ہے کہ کفار انبیاء کے ساتھ عداوت کرتے رہے ہیں، سو یہ کوئی نئی بات نہیں جس کا غم کیا جاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو چھوڑ نے کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اس لیے نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں۔ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں اور دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ لیکن نبی کے دشمن اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ لوگ آپ پر ایمان لائیں۔ یہاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ اے رسول پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجرموں میں سے بڑے مجرموں کو ہر نبی کا مخالف بنایا تھا۔ تاکہ حق و باطل کی کشمکش میں نبی اور اس کی امت کا امتحان لیا جائے۔ اسی اصول کے تحت یہ مجرم لوگ آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آپ کو ان کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ مجرم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ آپ کا رب ہر اعتبار سے آپ کے لیے کافی ہے۔ وہی راہنمائی اور مدد کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ مجرم لوگ ہر دور میں انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دینے اور مدد کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی مدد فرمانے والا ہے : ١۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ : ٤٠) ٢۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( الاحزاب : ٩) ٥۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ٦۔ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٢٥) ٧ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٢٦) ٨۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( النصر : ١) ٩۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ١٠۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ) (اور اسی طرح ہم نے مجرم لوگوں میں سے ہر نبی کے لیے دشمن بنائے ہیں) یعنی یہ لوگ جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں جس کا غم کیا جائے (وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا) جس کو ہدایت دینا منظور ہو اس کے لیے آپ کا رب کافی ہے اور جو ہدایت سے محروم ہو اس کے مقابلہ میں آپ کی مدد کرنے کے لیے بھی آپ کا رب کافی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” وکذلک الخ “ کاف بیان کمال کے لیے ہے۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے نیز مشرکین کی طرف سے بےجا اعتراضات کی وجہ بیان کی گئی ہے یعنی مشرکین آپ سے یہ حجت بازی محض عداوت اور ضد وعناد کی بنا پر کرتے ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر زمانے میں ہر پیغمبر کے ایسے دشمن ہوئے ہیں اور ہر زمانے میں مشرکوں نے پیغمبروں کو اسی طرح ستایا ہے۔ اس لیے جس طرح انہوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر کریں۔ مدد کیلئے اور ان سے انتقام لینے کی راہ بتانے کے لیے میں آپ کو کافی ہوں۔ ای کذلک کان کل نبی قبلک مبتلی بعداوۃ قومہ وکفاک بی ھادیا الی طریق قھرہم والانتصار منھم وناصرا لک علیھم (مدارک ج 3 ص 126) ۔ وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین تسلیۃ للرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کبیر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور جس طرح اے پیغمبریہ کافر اور منکر آپ کے دشمن ہیں اسی طرح ہم مجرموں اور گناہگاروں میں سے ہر نبی کے دشمن بناتے رہے ہیں یعنی دین حق کی مخالفت اور اہل حق سے عداوت کا یہ سلسلہ پرانا ہے آج کل کفار مکہ آپ سے اور آپ کی جماعت سے جو سلوک کر رہے ہیں اور جس عداوت کا اظہار ان کی طرف سے ہورہا ہے یہی سلوک ہر زمانے کے نبی کے ساتھ ہوتا رہا ہے اس قسم کی مخالفت سے اندیشہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا آپ کا پروردگار ہے یعنی کافروں کے بہکانے کی پروا نہ کیجئے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا ہدایت سے بہرہ مند کردے گا اور جن کو ہدایت نہ ہوگی ان کے مقابلہ میں آپ کی مدد کرے گا۔