Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 38

سورة الفرقان

وَّ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَ اَصۡحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوۡنًۢا بَیۡنَ ذٰلِکَ کَثِیۡرًا ﴿۳۸﴾

And [We destroyed] 'Aad and Thamud and the companions of the well and many generations between them.

اور عادیوں اور ثمودیوں اور کنوئیں والوں کو اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں کو ( ہلاک کر دیا ) ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ ... And (also) `Ad and Thamud, and the Dwellers of Ar-Rass, We have already discussed their story, which is referred to in more than one Surah, such as Surah Al-A`raf, and there is no need to repeat it here. As for the Dwellers of Ar-Rass, Ibn Jurayj narrated from Ibn Abbas about the Dwellers of Ar-Rass that: they were the people of one of the villages of Thamud. Ath-Thawri narrated from Abu Bukayr from Ikrimah that: Ar-Rass was a well where they buried (Rassu) their Prophet. ... وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا and many generations in between. means nations, many more than have been mentioned here, whom We destroyed. Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَاب الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورة البروج میں ہے (ابن کثیر) 382قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہوجائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر) ، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہوسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] قوم عاد وثمود کا ذکر تو قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے مگر اصحاب الرس یا کنویں والوں کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اسی جگہ اور دوسری سورة ق کی آیت نمبر ١٢ میں۔ ان مقامات پر ان کا ذکر اس قدر مختصر ہے جس سے ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ان کی طرف کون سا نبی مبعوث ہوا تھا۔ لغوی لحاظ سے رس بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں۔ جس میں پانی وافر مقدار میں موجود ہو ( ف ل ص ٢٦٣) اسی وجہ سے اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین میں کئی قسم کے اختلافات ہیں۔ زیادہ مشہور یہی بات ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں۔ ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انہوں نے انھیں جھٹلایا لیکن آپ بدستور انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بالاخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین دھنسا دیا۔ واللہ اعلم بالصواب

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی ہیں جن کی امت انھیں جھٹلانے کی وجہ سے غرق ہوئی اور موسیٰ (علیہ السلام) آخری نبی ہیں جن پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے فرعون اور اس کی آل غرق ہوئی۔ اس آیت میں ان کے درمیان کے لوگوں کا ذکر ہے جو پانی کے سوا ہلاک کیے گئے۔ ” الرَّسِّ “ کا معنی کنواں اور جمع ” رِسَاسٌ“ ہے۔ ابن جریر نے فرمایا : ” کلام عرب میں ” الرَّسِّ “ ہر کھودی ہوئی جگہ کو کہتے ہیں، مثلاً کنواں اور قبر وغیرہ۔ “ اس لیے بعض نے اس سے مراد ” اصحاب الاخدود “ بھی لیے ہیں۔ شنقیطی نے فرمایا : ” عاد وثمود کا قصہ قرآن کی متعدد آیات میں آیا ہے، رہے ” اَصْحٰبَ الرَّسِّ “ تو قرآن میں نہ ان کے قصے کی تفصیل آئی ہے نہ ان کے نبی کا نام آیا ہے۔ “ ان کے متعلق مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں جو سب بےدلیل ہیں، اس لیے ہم نے انھیں ذکر نہیں کیا۔ ” الرس “ ایک وادی کا نام بھی ہے، جس کا زہیر نے اپنے مُعَلَّقہ میں ذکر کیا ہے ؂ بَکَرْنَ بُکُوْرًا وَاسْتَحَرْنَ بِسُحْرَۃٍ فَھُنَّ لِوَادِی الرَّسِّ کَالْیَدِ لِلْفَمِ وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا :” قَرْنٌ“ ایک زمانے کے لوگ جو ایک دوسرے سے ملتے رہے ہوں، ” فَھُوَ مِنَ الْاِقْتِرَانِ ۔ “ ” بَيْنَ ذٰلِكَ “ (اس کے درمیان) سے مراد نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان کا یا عاد وثمود اور اصحاب الرس کے درمیان کا زمانہ ہے۔ دوسری جگہ ان کی کثرت کے متعلق فرمایا : (اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ ټ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ړ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ ۭ ) [ إبراہیم : ٩ ] ” کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اور عاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ اور فرمایا : (وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ ) [ بني إسرائیل : ١٧ ] ” اور ہم نے نوح کے بعد کتنے ہی زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ بائبل وغیرہ کے حوالے سے نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان آباء کی گنتی اور سالوں کی گنتی کا کچھ اعتبار نہیں، نہ دنیا کی مدت کا کوئی یقینی علم ہے۔ سائنسدانوں کی باتیں بھی محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًۢـــا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا۝ ٣٨ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ رس أَصْحابَ الرَّسِ قيل : هو واد، قال الشاعر : وهنّ لوادي الرَّسِّ کالید للفم وأصل الرَّسِّ : الأثر القلیل الموجود في الشیء، يقال : سمعت رَسّاً من خبر ورَسُّ الحدیث في نفسي، ووجد رَسّاً من حمّى ورُسَّ الميّتُ : دفن وجعل أثرا بعد عين . ( ر س س ) وأَصْحابَ الرَّسِ اور رس کے رہنے والوں نے ۔ بعض نے کہا ہے کہ رس ایک وادی کا نام ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (181) وھن لوادی الرس کالید للفم ۔ اور وہ وادی رس کے لئے جیسے ہاتھ منہ کیطرف ۔ اصل میں رس کسی چیز کے تھوڑے سے نشان کو کہا جاتا ہے ۔ عام محاورہ ہے :۔ سمعت رسا من خبر : میں نے کچھ یوں ہی سی خبر سنی ۔ رس الحدیث فی نفسی میرے دل میں تمہاری بات کا تھوڑا سا اثر ہوا ۔ وجد رسا من حمی ۔ اس نے بخار کا تھوڑا سا اثر محسوس کیا ۔ رس المیت ۔ میت دفن ہوگئی اور اس کی شخصیت کے بعد اب اس کے آثار باقی رہے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اور ہم نے ان مشرکین بالخصوص مشرکین مکہ کے لیے دوزخ میں دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ ( وَّعَادًا وَّثَمُوْدَا وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا ) ” ” اصحاب الرس “ کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ یہ کون سی قوم تھی اور ان کا زمانہ اور علاقہ کون سا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کسی کنویں میں بند کردیا تھا۔ اس لیے انہیں کنویں والے کہا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 There is no definite knowledge about "the people of the Raas'' . Different commentators have said different things about them, but nothing is convincing. The only thing that may be said about them is that they were a people who had killed their Prophet by throwing him into or hanging him down a "Rass " (an old or dry well).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :52 اصحاب الرس کے متعلق تحقیق نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے ۔ مفسرین نے مختلف روایات بیان کی ہیں مگر ان میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے پیغمبر کو کنوئیں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا ۔ رَس عربی زبان میں پرانے کنوئیں یا اندھے کو کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: عاد و ثمود کا تعارف سورۃ اعراف : 65 تا 84 میں گذر چکا ہے اور ’’ اصحاب الرس‘‘ کے لفطی معنی ہیں ’’ کنویں والے‘‘۔ بظاہر یہ لوگ کسی کنویں کے پاس آباد تھے۔ قرآن کریم نے بس اتنا ذکر فرمایا ہے کہ انہیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا، ان کے بارے میں مختلف تاریخی روایتیں ملتی ہیں، لیکن ان کے واقعے کی کوئی تفصیل نہ قرآن کریم نے بتائی ہے، نہ کسی مستند حدیث میں آئی ہے۔ اتنی بات ظاہر ہے کہ ان کے پاس کوئی پیغمبر بھیجے گئے تھے جن کی انہوں نے نافرمانی کی، اور اس کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں لٹکا کر پھانسی دی تھی۔ واللہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ ٤٤:۔ سیرۃ ابن اسحاق اور مسند عبد بن حمید وغیرہ میں ایک روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک حبشی غلام جنت میں جاوے گا کس لیے کہ پہلے زمانہ میں ایک نبی کو ان نبی کی قوم نے ایک کنویں میں ڈال کر اس کنویں کے منہ پر ایک پتھر کی سل ڈھانک دی تھی ‘ وہ حبشی غلام ان نبی پر ایمان لے آیا تھا ‘ اس لیے ہر روز لکڑیاں جنگل میں سے چن کر لاتا تھا اور ان لکڑیوں کو بیچ کر کچھ کھانے کی چیز خریدتا تھا اور قوم کے لوگوں سے چھپ کر اس کنویں پر آتا تھا اور اللہ تعالیٰ اس کو اتنی قوت دے دیتا کہ وہ اس بھاری پتھر کی سل کو کنویں کے منہ پر سے ہٹا کر ان نبی کو کھانا کھلاتا تھا ایک دفعہ جنگل میں جو وہ حبشی غلام سویا تو خدا کی قدرت سے چودہ برس تک اس کی آنکھ نہ کھلی ‘ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے لوگوں کو ہدایت دی اور ان لوگوں نے ان نبی کو کنویں سے سے نکالا اور ان نبی پر ایمان لائے ‘ یہ نبی قوم کے لوگوں سے اکثر اس حبشی غلام کا حال پوچھا کرتے تھے مگر کسی کو اس جنگل میں سوجانے کی خبر نہ تھی ‘ اس واسطے کسی نے اس کا کچھ حال نہ بتایا یہاں تک کہ جب وہ نبی وفات پاچکے تو اس حبشی غلام کی آنکھ کھلی اور وہ حسب عادت کنویں پر آیا اور ان نبی کو کنویں میں نہ پایا ‘ ابو جعفر ابن جریر نے اس قصہ کو اپنی تفسیر ٢ ؎ میں نقل کر کے کہا ہے کہ آیت میں جن کنویں والوں کا ذکر ہے ‘ وہ اس قصہ کے لوگ اس سبب سے نہیں قرار پاسکتے کہ یہ لوگ تو آخر ایمان لے آئے اور آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے ‘ ان کا ایمان لانا آیت سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا عذاب میں گرفتار ہونا آیت سے نکلتا ہے ‘ حافظ ابن کثیر نے اس کا جواب ٣ ؎ یہ دیا ہے کہ جن لوگوں نے ان نبی کو کنویں میں قید کیا تھا ‘ وہ عذاب سے ہلاک ہوگئے ہوں اور ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہو کہ انہوں نے نبی کو کنویں سے نکالا ہو اور ان نبی پر ایمان لائے ہوں تو اس صورت میں یہی قصہ آیت کی تفسیر قرار پاسکتا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے سے جس طرح قوم نوح اور قوم فرعون کے لوگ دنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑے گئے ‘ وہی حال عاد ‘ ثمود اور کنویں والوں کا اور بہت سی بستی والوں کا ہوا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کر ان لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ‘ جب یہ لوگ اپنی عادت سے باز نہ آئے تو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے۔ چناچہ ملک شام کے سفر میں قوم لوط کی الٹی ہوئی اور پتھروں کے مینہ سے اجڑی ہوئی بستی ان مشرکین مکہ کو نظر آتی ہوگی ‘ پھر فرمایا یہ لوگ کچھ اس لئے اللہ کے رسول کو نہیں جھٹلاتے کہ قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستی ان لوگوں کی نظر سے نہیں گزری بلکہ یہ لوگ تو اس لیے اللہ کے رسول کو مسخراپن میں اڑاتے ہیں کہ ان لوگوں کو ایک دن اللہ کے روبرو کھڑے ہونے کا اور جزا وسزا کا یقین نہیں ہے اسی واسطے ان لوگوں نے بت پرستی کے وبال کو دل سے بھلا رکھا ہے مگر وقت مقررہ پر ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ اللہ کے رسول ان کو جو طریقہ بتاتے تھے ‘ وہ اچھا تھا یا بت پرستی کا طریقہ اچھا تھا ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے ان لوگوں کی نادانی دیکھی کہ جس بت کی پوجا کو ان کا جی چاہتا ہے اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں اور جس کی پوجا کیا کرتے تھے اس کی پوجا جھوڑ دیتے ہیں ‘ اس لیے جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو تم ایسے نادان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں قرار پاسکتے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے کیا تم اپنے جی میں یہ خیال کرتے ہو کہ یہ لوگ قرآن سنتے اور اس کی نصیحت کو سمجھتے ہیں ‘ نہیں یہ لوگ تو اپنی نادانی کے سبب سے بالکل چوپایوں کی طرح کسی بات کو نہیں سمجھتے بلکہ یہ لوگ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ چوپائے اپنے پرورش کرنے والے کو خوب پہچانتے ہیں اور یہ لوگ اپنے پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کو نہیں پہچانتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ مسعود کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ‘ اس پر بھی جو لوگ اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ مشرکوں کی چوپایوں سے بدتر ہونے کی حالت اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ چوپائے اپنے شیطان کی فرمانبرداری کو برابر جانتے ہیں ‘ سوائے شرک کے اور باقی کے گناہوں کے کرنے میں شیطان کی فرمانبرداری سے شیطان کی پوجا نہیں آتی اس واسطے شرک سب گناہوں سے بڑا ہے ‘ سورة السبا میں آوے گا کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے خفگی کے طور پر دریافت فرماوے گا کہ کیا یہ بت پرست لوگ دنیا میں تمہاری مورتوں کو پوجا کرتے تھے تو اللہ کے فرشتے بہت ڈریں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ شیطان نے ان لوگوں کے دل میں ہمارے نام کی مورتوں کی پوجا کا وسوسہ ڈال دیا تھا اس لیے شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ شیطان کی پوجا کرتے تھے۔ ہماری مرضی کا اس میں ہرگز کوئی دخل نہیں تھا ‘ اوپر یہ جو بیان کیا گیا تھا کہ بت پرستی میں شیطان کی پوجا لازم آتی ہے ‘ اس کا مطلب سورة السبا کی ان آیتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٧١ ج ٥ ) (٢ ؎ ص ٥ ا ج ١٩ طبع جدید ) (٣ ؎ یہ حافظ ابن کثیر کا جواب نہیں بلکہ ابن جریر کے اپنے اشکال کے حل کی ان کی اپنی ایک توجیہ نقل کی ہے اور خود اس اثر پر فنی جرح کی ہے وفیہ غرابۃ ونکارۃ شدیدۃ ولعل فیہ ادر اجا (ص ٣١٩ ج ٣) (ع۔ ح )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:38) عادا (قوم عاد) اس کا عطف قوم نوح پر ہے۔ ای دمرنا عادا۔ یا اس سے قبل اذکر محذوف ہے اور یہ اس کا مفعول ہے ثمودا۔ اصحب الرس۔ قرونا۔ (ای اھل قرون بہت سی امتوں کے لوگ ! بہت سی امتیں ، قومیں) عادا کی طرح ان کا عطف بھی قوم نوح پر ہے یا ان کے قبل فعل اذکر محذوف ہے۔ ثمودا۔ بوجہ عجمہ ومعرفہ غیر منصرف ہے اس لئے اس کے آخر میں تنوین نہیں آتی ! بین ذلک۔ ان کے درمیان۔ (1) جن کے علاقے ان قوموں کے علاقوں کے درمیان تھے۔ (2) جو ان قوموں کے درمیانی زمانہ میں گذریں۔ کثیرا۔ قرونا کی صفت ہے۔ ای کثیر التعداد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ ” اصحاب الرش “ (کنویں والوں) سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ انطاکیہ کے لوگ مراد ہیں وہاں ایک کنواں تھا اس پر ان کے پیغمبر ” حبیب نجار “ انہیں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے انہیں قتل کر کے اس کنویں میں ڈال دیا۔ بعض نے آٰذربائیجان کے لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبروں کو مار ڈالا۔ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ ” اصحاب الرس “ ” اصحاب اخدود “ ہی ہیں۔ جن کا ذکر سورة بروج میں ہوا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ رس لغت میں کہتے ہیں کنوئے کو، اور کچھ لوگ قوم ثمود کے رہ گئے تھے اور کسی کنوے پر آباد تھے، وہ اصحاب الرس ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نوح (علیہ السلام) کی قوم اور فرعون عاد وثمود اور اصحاب الرس کی بربادی کا تذکرہ مشرکین کی گمراہی اور بدحالی کا حال ان آیات میں امم سابقہ کی تکذیب اور ہلاکت و تعذیب کا تذکرہ فرمایا ہے جو قرآن مجید کے مخاطبین کے لیے عبرت ہے اس کے بعد مشرکین مکہ کی شر پسندی کا تذکرہ فرمایا۔ ہلاک شدہ اقوام میں یہاں جن کا ذکر ہے ان میں اولاً فرعون اور اس کی قوم کا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا تذکرہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو غرق کردیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت بنا دیا۔ یہ ان کی دنیاوی سزا تھی اور آخرت میں ظالموں کے لیے عذاب الیم تیار فرمایا ہے اس کے بعد عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا (وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا) کہ ان کے درمیان میں اور بہت سی امتوں کو ہلاک فرما دیا۔ ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کی ہدایت کے لیے مثالیں یعنی موثر مضامین اور عبرت کی باتیں بیان کیں لیکن انہوں نے نہ مانا لہٰذا ہم نے ان کو بالکل ہی ہلاک کردیا۔ اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی کا ذکر فرمایا جن بستیوں میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم رہتی تھی ان بستیوں کو ان لوگوں کی تکذیب اور شرمناک افعال کی وجہ سے پلٹ دیا گیا تھا اور ان پر پتھر بھی برسائے گئے تھے جس کا تذکرہ سورة اعراف اور سورة ھود میں گزر چکا ہے اہل مکہ سال میں دو مرتبہ تجارت کے لیے ملک شام جایا کرتے تھے اور ان بستیوں کے پاس سے گزرا کرتے تھے اور انہیں ان لوگوں کی بربادی کا حال معلوم تھا۔ اسی کو فرمایا (وَلَقَدْ اَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ) (بلاشبہ یہ لوگ اس بستی پر گزرے ہیں جس پر بری بارش برسائی گئی تھی) ہلاک شدہ بستیوں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ گزر جاتے ہیں اور کچھ بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اسی کو سورة صافات میں فرمایا (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ ضرور تم ان بستیوں پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) یہ متعدد بستیاں تھیں یہاں لفظ قریہ مفرد لایا گیا ہے جس میں مرکزی اور بڑی بستی کا ذکر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ القریہ جنس کے لیے لایا گیا ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور عاد کو ثمود کو اور اہل رس یعنی کنویں والوں کو اور ان کے درمیان اور بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک اور برباد کردیا۔