Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 42

سورة الفرقان

اِنۡ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنۡ اٰلِہَتِنَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ صَبَرۡنَا عَلَیۡہَا ؕ وَ سَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ حِیۡنَ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ مَنۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۴۲﴾

He almost would have misled us from our gods had we not been steadfast in [worship of] them." But they are going to know, when they see the punishment, who is farthest astray in [his] way.

۔ ( وہ تو کہئے ) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ الِهَتِنَا ... He would have nearly misled us from our gods, They meant: `he nearly turned us away from worshipping idols, and he would have done so, had we not been patient and persevered in our ways.' ... لَوْلاَ أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ... had it not been that we were patient and constant in their worship!" So Allah said, warning and threatening them: ... وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ... And they will know, when they see the torment... ... مَنْ أَضَلُّ سَبِيلً who it is that is most astray from the path! They took Their Desires as their gods and were more astray than Cattle Then Allah tells His Prophet that if Allah decrees that someone will be misguided and wretched, then no one can guide him except Allah, glory be to Him:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

421یعنی ہم ہی اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس میں فخر کر رہے ہیں 422یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیر اللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انھیں شرک کی وجہ سے عذاب الہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا در در پر اپنی جبینیں جھکانے والے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے اس میں جادو کا اثر ہوتا ہے۔ جو بڑے بڑوں کے قدم پھسلا سکتا ہے اور سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے۔ اور اگر ہم لوگ پوری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اپنے باپ دادا کے دین پر جمے نہ رہتے تو اس نے تو کب سے ہمیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کردیا ہوتا۔ اب دیکھئے اس نبی کی دعوت سے کچھ اس طرح بوکھلائے ہوئے تھے کہ خود ہی اپنی باتوں کی تردید بھی کرتے جاتے تھے۔ ایک طرف تو وہ یہ استہزاء کرتے تھے کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ اللہ نے اسے ہی اپنی رسالت اور نبوت کے لئے منتخب کیا ہے ؟ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ التبہ اس نبی میں یہ خوبی ضرور ہے کہ اس کا پیش کردہ کلام اس قدر پر تاثیر اور زور دار ہے۔ جس کا اثر ہر ایک کے دل کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے وہ تو ہم ہی تھے جو اپنے دین پر ایسے پکے اور ثابت قدمی سے جمے رہے اور اس کے کلام کا اثر قبول نہیں کیا۔ ورنہ یہ سب کو اپنے دام۔۔ میں پھنسا چکا ہوتا۔ قریش کی ان دو متضاد باتوں سے ضمناً چند باتیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ رسالت کے لئے جو خوبیاں درکار ہوتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود تھیں۔ آپ اللہ کا کلام جس انداز میں پیش کرتے تھے اور اس کا نمونہ اپنی ذات سے پیش کرتے تھے وہ عام لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے بہت کافی تھا۔ دوسرے یہ کہ کفار دلائل کے میدان میں مات کھاچکے تھے۔ اب ان کا انکار محض ضد، ہٹ دھرمی اور تقلید آباء کی بنا پر تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا ۔۔ : ” ان کاد “ اصل میں ”إِنَّہُ کَادَ “ تھا، یعنی بیشک وہ قریب تھا۔ یعنی یہ تو یقیناً قریب تھا کہ ہمیں ہمارے معبودوں کی عبادت ہی سے نہیں خود ان معبودوں ہی سے گمراہ کردیتا، یہ ہماری بہادری ہے کہ ہم ان کی عبادت پر ڈٹے رہے ہیں۔ 3 اس سے کفار کا اپنے شرک پر شدت کے ساتھ ڈٹے رہنا ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسے چھوڑنے کو گمراہ ہونا قرار دے رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا یہ کام کسی دلیل کی بنا پر نہ تھا، بلکہ محض آبا و اجداد کی تقلید اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تھا۔ 3 اس آیت سے ان کا اعتراف ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق کی دعوت پیش کرنے، اس کے لیے دلائل و معجزات پیش کرنے اور ہر اعتراض کا جواب دینے میں اتنی محنت سے کام لیا کہ کفار کو حق تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، پھر انھوں نے حق قبول نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف اور صرف ان کی ہٹ دھرمی تھی۔ 3 پچھلی آیت کے ساتھ ملا کر اس آیت کو دیکھیں تو کفار کی عجیب تضاد بیانی سامنے آتی ہے کہ ابھی جس شخص کے متعلق انھوں نے نہایت حقارت سے کہا کہ کیا یہی ہے وہ جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ تو ابھی اس کی شخصیت کی تاثیر اور اس کے دلائل کی قوت کے بےپناہ ہونے کا اپنے منہ سے اعتراف کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت سے کس قدر مرعوب اور بوکھلائے ہوئے تھے کہ مذاق بھی اڑاتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور برتری کا احساس ان پر اس قدر حاوی بھی تھا کہ بلا ارادہ ان کے منہ سے وہ باتیں نکلوا دیتا تھا جو وہ ہرگز کہنا نہیں چاہتے تھے۔ وَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۔۔ : یہ ان کے لیے حق کو گمراہی کہنے پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے سخت وعید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَيْہَا۝ ٠ۭ وَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِيْلًا۝ ٤٢ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) کہ اس نے ہمیں ہمارے معبودوں کی عبادت سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان کی عبادت پر مضبوطی کے ساتھ قائم نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ بطور وعید کے فرماتا ہے کہ ان کو جلدی ہی معلوم ہوجائے گا جب عذاب کا معائنہ کریں گے کہ کون شخص دین وحجت کے اعتبار سے گمراہ تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (اِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْہَا ط) ” اگر ہم نے اپنے ان معبودوں کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار نہ کر رکھا ہوتا تو یہ شخص ضرور ہمیں ان سے برگشتہ کر کے راستے سے بھٹکا دیتا۔ (وَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ) ” انہیں بہت جلد یہ حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ اصل گمراہ کون تھا ؟ جنہیں یہ گمراہی کا الزام دیتے ہیں وہ یا یہ خود !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 Obviously there is a contradiction between the question posed by the disbelievers and the assertion made by them about their deities. The question was meant to bring the Holy Prophet into contempt, as if to say, "You are making a claim that is far above your low position." On the other hand, their assertion shows that ,they indirectly admitted the force of the arguments and the high character of the Holy Prophet and were even afraid of the effectiveness and success of his Message, because, according to them, it was going to turn them away from their false gods.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :55 کفار کی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ پہلی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو حقیر سمجھ رہے ہیں ور مذاق اڑا کر آپ کی قدر گرنا چاہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک آنحضرت نے اپنی حیثیت سے بہت اونچا دعویٰ کر دیا تھا ۔ دوسری بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے دلائل کی قوت اور آپ کی شخصیت کا لوہا مان رہے ہیں اور بے ساختہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہم تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر اپنے خداؤں کی بندگی پر جم نہ گئے ہوتے تو یہ شخص ہمارے قدم اکھاڑ چکا ہوتا ۔ یہ متضاد باتیں خود بتا رہی ہیں کہ اسلامی تحریک نے ان لوگوں کو کس قدر بوکھلا دیا تھا ۔ کھسیانے ہو کر مذاق بھی اڑاتے تھے تو احساس کمتری بلا ارادہ ان کی زبان سے وہ باتیں نکلوا دیتا تھا جن سے صاف ظاہر ہو جاتا تھا کہ دلوں میں وہ اس طاقت سے کس قدر مرعوب ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:42) ان ۔ نون تقیلہ سے مخففہ ہے۔ اور لیضلنا میں لام فارقہ ہے۔ جو ان مخففہ اور ان نافیہ میں فرق نمایاں کرنے کے لئے آیا ہے۔ ان کاد لیضلنا عن الھتنا قریب تھا کہ ہمیں یہ بہکا دیتا اپنے خداؤں سے۔ علیھا : ای علی عبادتھا۔ ان خداؤں کی عبادت سے ھا ضمیر کا مرجع الھتنا ہے۔ من اضل سبیلا : من استفہامیہ مبتدای۔ اضل خبر (بصیغہ تفضیل ) سبیلا تمیر۔ یہ جملہ یعلمون سے موضع مفعول میں ہے۔ اور یہ جواب ہے۔ مخالفین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ کہ کاد لیضلنا۔ یعنی جب وہ عذاب آخرت دیکھیں گے تب ان کو علم ہوجائے گا کہ گمراہی میں وہ خود تھے یا خدا کا رسول جو درحقیقت ان کی راہ ہدایت کی طرف بلا رہا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“ 12 ۔ یعنی ہمیں نے تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ورنہ اس نے تو ہمیں اس طرح لاجواب کردیا تھا کہ بت پرستی سے ہمارے قدم ڈگمگا گئے تھے۔ 1 ۔ یہ یا وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کی ؟ اس میں ان کے قول کی تردید کی طرف اشارہ ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ہم تو ہدایت پر ہیں، اور یہ ہم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کی مخالفت اور استہزاء کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کے بڑھتے ہوئے اثرات۔ دور نبوت کے ابتدائی سالوں میں کفار کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہم توحید و رسالت کی دعوت کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی جس کے لیے انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہاں کفار کی انہی کوششوں کا ذکر ہے جس سے حق و باطل کے درمیان ہونے والی کشمکش کا پتہ چلتا ہے۔ قرآن مجید نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرمایا کہ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ نور ہدایت دنیا پر پھیل کر رہے گا۔ (الصف : ٨۔ ٩) اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اور اس کا رسول ہر صورت غالب آئیں گے کیونکہ اللہ بڑا طاقت ور اور غالب آنے والا ہے۔ (المجادلہ : ٢١) اس لیے کفار کو یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی مذموم کوششوں سے باز آجائیں کیونکہ وہ کسی صورت بھی اللہ کے دین کے پھیلاؤ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اگر پھر بھی باز آنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے سے گمراہ ہوچکا اور کس کا انجام بدترین ہوگا ؟ بالخصوص جب جہنم کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تو سوائے حسرت کے ان کے پلے کچھ نہیں ہوگا۔ مذکورہ آیت کے الفاظ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےمثال جدوجہد اور کفار کی طرف سے شدید ردّ عمل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب فرمایا اور کافر ناکام ہوئے یہ آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا ہونگے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) اگر ہم لوگ سختی اور مضبوطی کے ساتھ اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے نہ رہتے تو اس شخص نے تو ہم کو ان معبودوں سے منحرف اور برگشتہ ہی کردیا ہوتا اور عنقریب ان کافروں کو جس وقت یہ عذاب کا معائنہ کریں گے تو ان کو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ سیدھی راہ سے منحرف اور بھٹکا ہوا کون تھا یعنی استہزاء کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ایسا چرب زبان ہے اگر ہم مضبوط نہ ہوتے تو اس شخص نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے باتیں بنا کر بچلا ہی دیا ہوتا وہ تو یوں کہو ہم اپنے عقیدے پر جمے رہے اور ا س کی باتوں میں نہیں آئے ورنہ یہ تو ہم کو گمراہی کردیتا۔ حضرت حق تعالیٰ نے جواب دیا کہ یہ بہت جلد جب عذاب الٰہی دیکھیں گے خواہ یہ معائنہ عذاب دنیا میں ہو یا مرتے وقت یا قیامت میں اس وقت ان کو یہ بات معلوم ہوجائے گی اور یہ جان لیں گے کہ گم کردہ راہ کون تھا اور راستے سے بھٹکا ہوا کون تھا۔