Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 5

سورة الفرقان

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۵﴾

And they say, "Legends of the former peoples which he has written down, and they are dictated to him morning and afternoon."

اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الاَْوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا ... And they say: "Tales of the ancients which he has written down..." meaning, the ancients wrote them down, and he has copied it. ... فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ ... and they are dictated to him, means, they are read or recited to him. ... بُكْرَةً وَأَصِيلً morning and afternoon. at the beginning and end of the day. Because this idea is so foolish and is so patently false, everyone knows that it is not true. It is known through Mutawatir reports and is a common fact that Muhammad the Messenger of Allah never learned to read or write, either at the beginning or the end of his life. He grew up among them for approximately forty years, from the time he was born until the time when his mission began. They knew all about him, and about his honest and sound character and how he would never lie or do anything immoral or bad. They even used to call him Al-Amin (the Trustworthy One) from a young age, until his mission began, because they saw how truthful and honest he was. When Allah honored him with that which He honored him, they declared their enmity towards him and came up with all these accusations which any reasonable person would know he was innocent of. They were not sure what to accuse him of. Sometimes they said that he was a sorcerer, at other times they would say he was a poet, or crazy, or a liar. So Allah said: انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُواْ لَكَ الاٌّمْثَالَ فَضَلُّواْ فَلَ يَسْتَطِيعْونَ سَبِيلً See what examples they have put forward for you. So they have gone astray, and never can they find a way. (17:48) In response to their stubbornness, Allah says here:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا ۔۔ : یعنی خود تو اَن پڑھ ہے، اس لیے دوسرے لوگوں کے ذمے اس نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ صبح و شام یہ لکھوائی ہوئی کہانیاں اسے پڑھ پڑھ کر سنائیں، تاکہ اسے زبانی یاد ہوجائیں۔ یہ بات ایسی تھی جس کے جھوٹ اور بہتان ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ چالیس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں رہ چکے تھے، اگر کوئی شخص چھوٹے سے شہر میں چند دن صبح و شام کسی کے پاس رہے تو اس کا پتا ہر ایک کو چل جاتا ہے اور ان لوگوں کا اصرار ہے کہ اب بھی دوسروں کی لکھوائی ہوئی باتیں صبح و شام آپ کے سامنے پڑھی جاتی ہیں۔ پھر اگر ایسا ہی تھا تو وہ بھی کسی سے لکھو اکر ایسی ایک سورت ہی پیش کردیتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِيَ تُمْلٰى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝ ٥ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔ اکتتاب والاکْتِتَابُ متعارف في المختلق نحو قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها[ الفرقان/ 5] الاکتتاب ( افتعال) کا لفظ عموما جھوٹی اور جعلی تحریر کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها[ الفرقان/ 5] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے ۔ ملي الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا . أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] أي : أمهلهم، وقوله : الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] . ( م ل ی ) الا ملاء کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ الملا ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔ بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔ أصل وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح/ 9] . ( ا ص ل ) اصل الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : { أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء } [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا } [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا) ” کَتَبَ یَکْتُبُ : لکھنا۔ اس سے اِکْتَتَبَ باب افتعال ہے ‘ یعنی کسی سے لکھوا لینا۔ (فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ) ” ان کے پیچھے خفیہ طور پر جو لوگ یہ قصے کہانیاں گھڑ رہے ہیں وہ صبح شام ان سے ملتے ہیں اور اپنی گھڑی ہوئی باتیں انہیں لکھوا دیتے ہیں۔ پھر وہی باتیں یہ ہمیں سنا کر دھونس جماتے ہیں کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:5) اساطیر۔ اسطورۃ کی جمع (وہ جھوٹی خبر جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ وہ جھوٹ گھڑ کر لکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح ارجوحۃ (لکڑی کا جھولا) کی جمع اراجیح ہے اثفیۃ (ہنڈیا کا پایہ) کی جمع اثافی اور احدوثۃ (قصہ ، کہانی، خبر) کی جمع احادیث ہے۔ السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی۔ سطر یسطر (نصر) لکھنا۔ جیسے ن والقلم وما یسطرون (68: 1) ن : قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ اکتتبھا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب اس نے اس کو گھڑ کر لکھ رکھا ہے۔ اس نے اس کو لکھوا دلیا ہے۔ اکتتاب (افتعال) من گھڑت چیز کو لکھنا۔ کسی سے لکھوانا۔ ھا کا مرجع اساطیر ہے۔ فھی۔ میںھی اساطیر کی طرف راجع ہے تملی۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب وہ لکھوائی جاتی ہیں۔ (اساطیر) وہ پڑھی جاتی ہیں۔ املاء کی صورت یہ ہے کہ ایک بولتا جائے یا پڑھتا جائے اور دوسرا لکھتا جائے۔ املاء دراصل املال تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے فلیکتب ولیملل الذی علیہ الحق (2:282) پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور چاہیے کہ وہ شخص بول کر لکھوائے جس کے ذمہ حق واجب ہے لام کو ہمزہ سے تخفیف کے لئے بدل دیا گیا ہے۔ ملل مادہ ہے۔ بکرۃ دن کا اول حصہ ۔ صبح۔ اصیلا۔ شام ۔ عصر ومغرب کے درمیان وقت کو کہتے ہیں۔ فائدہ :۔ کفار مکہ و مشرکین انکار رسالت میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کتاب اللہ کے متعلق بھی بہتان تراشی میں بڑے شد ومد سے کام لینے لگے۔ کبھی کہتے کہ اسے تو ایک دوسرا آدمی سکھلاتا ہے حالانکہ جس آدمی کی طرف ان کا اشارہ تھا وہ عجمی تھا اور عربی اس کی مادری زبان ہی نہ تھی۔ کبھی کہتے کہ یہ من گھڑت کہانیوں کا مجموعہ ہے اور اس میں اس کی ایک دوسری قوم کے افراد مدد کررہے ہیں۔ جن میں عبید بن الحصر حبشی کاہن، ابو فکیہہ، یسار، عدس، جبر وغیرہ کا نام لیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان ہی مشرکین کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اور ان کی مادری زبان عربی نہیں تھی۔ بھلا ایسے آدمی ایسی کتاب کے مصنف کیسے ہوسکتے تھے ؟ جس کی فصاحت و بلاغت، حسن بیان اور زور استدلال نے عرب بھر کے ادیبوں، دانشوروں، فصحا وبلغا کے چھکے چھڑا دئیے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی خود تو ان پڑھ ہے اس لئے دوسرے لوگوں کے ذمہ اس نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ صبح و شام یہ لکھوائی ہوئی کہانیاں اسے پڑھ پڑھ کر سنائیں تاکہ اسے زبانی یاد ہوجائیں اور یہ بات ایسی تھی جس کے کذب و بہتان ہونے سے کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر منکرین کے ایک باطل دعویٰ کا تذکرہ فرمایا (وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا) (الایۃ) اور ان لوگوں نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو یوں کہتے ہیں کہ میرے اوپر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے اس میں نازل ہونے والی کوئی بات نہیں ہے یہ پرانی لکھی ہوئی باتیں ہیں جو پہلے سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں انہیں کو انہوں نے لکھوا لیا ہے یہ صبح شام بار بار ان کے اوپر پڑھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں یاد ہوجاتی ہیں انہی کو پڑھ کر سنا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور یہ دین حق کے منکر قرآن کریم کے متعلق یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن کریم محض اگلے لوگوں کی بےسرد پا کہانیاں ہیں جو بےسند پہلے لوگوں سے منقول ہوتی چلی آرہی ہیں ان کہانیوں کو اس نے کسی سے لکھوا لیا ہے پھر یہی منضبط اور لکھی ہوئی کہانیاں اس کو صبح اور شام پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی اور یاد کرادی جاتی ہیں یعنی اول تو یہ بےسند باتیں ہیں جن کو ایک پارٹی مرتب کرتی اور لکھتی ہے پھرص بح اور شام اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور یہ یاد کرکے لوگوں کے روبرو پڑھ کر خدا کا کلام بتاتا ہے اور عوام کو سنا کر منزل من اللہ بتاتا ہے آگے اس کا جواب ارشاد ہوتا ہے۔