Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 50

سورة الفرقان

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنٰہُ بَیۡنَہُمۡ لِیَذَّکَّرُوۡا ۫ ۖفَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا ﴿۵۰﴾

And We have certainly distributed it among them that they might be reminded, but most of the people refuse except disbelief.

اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا ... And indeed We have distributed it among them in order that they may remember, means, `We cause rain to fall on this land and not on that, and We cause the clouds to pass over one land and go to another, where We cause sufficient rain to fall so that its people have plenty, but not one drop falls on the first land.' There is a reason and great wisdom behind this. Ibn Abbas and Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with them said: "One year does not have more rain than another, but Allah distributes the rain as He wills. Then he recited this Ayah: وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُورًا And indeed We have distributed it (rain or water) amongst them in order that they may remember the grace of Allah, but most men refuse (out of) ingratitude." meaning, so that they may be reminded, when Allah brings the dead earth back to life, that He is able to bring the dead and dry bones back to life, or that those from whom rain is withheld are suffering this because of some sin they have committed, so that they may give it up. ... فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُورًا but most men refuse (out of) ingratitude. Ikrimah said, "This refers to those who say that rain comes because of such and such a star." This view of Ikrimah is similar to the authentic Hadith recorded in Sahih Muslim; one day after a night's rain, the Messenger of Allah said to his Companions: أَتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ Do you know what your Lord says? They said: "Allah and His Messenger know best." He said: قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُوْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَاكَ مُوْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَاكَ كَافِرٌ بِي مُوْمِنٌ بِالْكَوْكَب He says: "This morning some of My servants became believers in Me, and some became disbelievers. As for the one who said, `We have been given rain by the mercy and grace of Allah,' he is a believer in Me and a disbeliever in the stars. As for the one who said, `We have been given rain by such and such a star,' he is a disbeliever in Me and a believer in the stars."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501یعنی قرآن کریم کو اور بعض نے صٓرفناہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے جس کا مطب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں حتی کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت ومشیت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں کبھی کسی اور علاقے میں۔ 502اور ایک کفر ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی جنتی بھی اللہ کی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لئے تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہیں۔ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان باتوں پر دھیان دیتی ہے اور نہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتی ہے۔ اور بعض انسان تو ایسے غلط عقائد میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بارش فلاں ستارہ کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ آپ کے زمانہ میں بھی ایسے عقائد عام تھے اور ہر اچھی اور بری بات کو سیاروں کی گردش سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر جہاں آپ چودہ سو صحابہ سمیت عمرہ کی عرض سے تشریف لائے۔ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بےآب وگیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت متصور ہوتی تھی تو صبح آپ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : && میرے بندوں میں میں سے کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے۔ یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور سیاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا && ( بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم ([ 1] lrm گویا ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان لانا دو متضاد باتیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے جو سیاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ ان اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ اگر ” صَرَّفْنٰهُ “ میں ” ہٗ “ کی ضمیر اوپر بیان کردہ دلائل کی طرف ہو، جیسا کہ اکثر مفسرین کا رجحان ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ ہم نے توحید کے دلائل کو قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر بیان کیا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، مگر اکثر لوگوں نے توحید قبول نہیں کی اور انھوں نے ناشکری اور کفر کے سوا کچھ مانا ہی نہیں۔ اور اگر ” صَرَّفْنٰهُ “ کی ضمیر ” مَاءً “ کی طرف ہو تو معنی یہ ہوگا کہ ہم نے اس پانی کو ان کے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے، چناچہ وہ کہیں زیادہ برستا ہے کہیں کم۔ سب جگہ ایک جیسا اور ایک وقت میں نہیں برستا، کسی جگہ بارش سے سیلاب آجاتا ہے تو دوسری جگہ بارش کا ایک قطرہ نہیں گرتا اور قحط پڑجاتا ہے، کہیں وہ مائع صورت میں ہے، کہیں پتھر کی طرح برف کی صورت میں اور کہیں بخارات کی صورت میں۔ غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ابن عباس اور ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ( مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَصْرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ : (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٣، ح : ٣٥٢٠۔ طبري : ٢١٢١٦۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٥؍٤٦٠، ح : ٢٤٦١ ] ” یعنی کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال سے زیادہ بارش ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ) [ الفرقان : ٥٠ ]” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ دکتور حکمت بن بشیر نے اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسی سند کے ساتھ روایت کرکے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے اور ابن مسعود (رض) کا قول طبری اور بیہقی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقي : ٣؍٣٦٣ ] ان دو جلیل القدر صحابہ کے قول کی رو سے یہ تفسیر زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ بات وہ اپنے پاس سے نہیں کہہ سکتے، اس لیے یہ حکماً مرفوع ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں : ” جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بارش زمین پر ہر سال مجموعی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے اور یہی بات سیکڑوں برس پہلے وحی کے ذریعے سے بتادی گئی تھی۔ “ لِيَذَّكَّرُوْا : یعنی بارش کو اس طرح پھیر پھیر کر مختلف جگہوں پر کم یا زیادہ نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، بارش کو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل کا نتیجہ مانیں، اس کے برسنے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور نہ برسنے پر توبہ و استغفار کریں۔ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا : ” كُفُوْرًا “ اور ” کُفْرٌ“ دونوں مصدر ہیں، ” كُفُوْرًا “ میں حرف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی سخت ناشکری۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں ایک بارش کے بعد، جو رات کے وقت ہوئی تھی، صبح کی نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ( ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُؤْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ رَحْمَتِہِ ، فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِيْ وَکَافِرٌ بالْکَوْکَبِ ، وَ أَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَ کَذَا، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِيْ وَ مُؤْمِنٌ بالْکَوْکَبِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوء : ٧١۔ بخاري : ٨٤٦ ] ” جانتے ہو آج رات تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ “ انھوں نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ “ کہا، اس نے فرمایا ہے : ” آج میرے بندوں نے صبح کی ہے کہ کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے ہیں اور کچھ کفر کرنے والے ہیں۔ جس نے کہا، ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستارے کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا، ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو یہ ستارے پر ایمان رکھنے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَاهُ بَيْنَهُمْ (And We have distributed it (the water) among them - 25:50). The verse says that We keep rotating the rainfall, that is, it sometimes falls in one locality and sometimes in another. Then sometimes a locality receives in one year more rain and in subsequent years less. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) says that the presumption of some people that the quantity of rains varies from year to year is not really correct. In fact the aggregate amount of water sent down to the world (at macro-level) is equal every year. However, according to Allah&s will, its allocation for different territories may change from year to year. Sometimes the quantity of water is curtailed for a specific habitation as a punishment and warning for it, and sometimes the quantity of rain is increased for a particular population, again as a punishment for their misdeeds. Thus the water that was a blessing in its origin turns into a torment for the people who are ungrateful and disobedient.

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ ، مطلب آیت کا یہ ہے کہ بارش کو ہم بدلتے اور پھیرتے رہتے ہیں کبھی ایک شہر میں کبھی دوسرے میں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جو لوگوں میں شہرت ہوتی ہے کہ اس سال بارش زیادہ ہے اس سال کم ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ بارش کا پانی تو ہر سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکساں نازل ہوتا ہے البتہ حکم الٰہی یہ ہوتا رہتا ہے کہ اس کی مقدار کسی شہر بستی میں زیادہ کردی کسی میں کم کردی۔ بعض اوقات کمی کرکے بستی کے لوگوں کو سزا دینا اور متنبہ کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات زیادتی بھی عذاب بن جاتی ہے۔ تو یہی پانی جو خالص رحمت ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کرتے ہیں ان کے لئے اسی کو عذاب اور سزا بنادیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَيْنَہُمْ لِيَذَّكَّرُوْا۝ ٠ۡۖ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا۝ ٥٠ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اور ہم اس پانی کو بقدر مصلحت سال بہ سال تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ اس کے ذریعہ سے نصیحت حاصل کریں لیکن لوگوں نے اللہ کے اس انعام کو قبول نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کے ساتھ کفر کیے بغیر نہ رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوْاز) ” سمندر کے بخارات سے بادلوں کا بننا ‘ اربوں ٹن پانی کا ہواؤں کے دوش پر ہزاروں میلوں کے فاصلے طے کر کے مختلف علاقوں میں بارش برسانا ‘ ان بارشوں سے ندی نالوں اور دریاؤں کے سلسلوں کا جنم لینا ‘ انسانی آبادیوں سے میلوں کی بلندیوں پر گلیشیرز کی صورت میں پانی کے کبھی نہ ختم ہونے والے ذخائر (over head tanks) کا وجود میں آنا ‘ پھر گلیشیرز کا پگھل پگھل کر ایک تسلسل کے ساتھ انسانی ضرورتوں کی سیرابی کا ذریعہ بننا ‘ اور اس سب کچھ کے بعد فالتو پانی کا پھر سے سمندر میں پہنچ جانا ! یہ ہے پانی کی گردش (water cycle) کا عظیم الشان نظام جو قدرت کے بڑے بڑے عجائبات میں سے ہے اور زبان حال سے انسانی عقل و شعور کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اس کے خالق کو پہچانے اور اس پر ایمان لائے۔ (فَاَبآی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا ) ” اس سب کے باوجود اکثر لوگ ناشکری ہی پر اڑے ہوئے ہیں اور اس کے سوا کوئی دوسرا طرزعمل اختیار کرنے سے انکاری ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64 "We present...before them" may have three meanings: (1)"We have cited the phenomenon of rainfall over and over again in the Qur'an in order to make plain to them the Reality." (2) "We are time and again showing them the wonderful phenomenon of the heat and drought, seasonal winds and clouds, rainfall and its lifeproducing effects." (3) "We go on changing the system of the distribution of rainfall throughout the , world year after year, so that the same place does not receive the same amount of rainfall every time: sometimes a place is left completely dry, another has more or less of rainfall than usual, while some other is flooded with rain water. They see all these different phenomena with their countless different results in their daily life." 65 The verse means to impress that the wonderful system of rainfall is by itself a proof of the existence of Allah, of One Lord of the universe, and of His attributes. Its wonderful distribution during the year and over different parts of the earth is a clear proof that there is an All-Wise Designer. But the obdurate disbelievers do not learn any lesson from it, and persist in their ingratitude, though this has been cited in the Qur'an repeatedly for this purpose. It is also a proof of the life-after-death, for the disbelievers themselves see and again that rainfall brings to life dead land year after year. This clearly that Allah has the power to bring the dead back to life, but the disbelievers it time proves do not learn any lesson from it and persist in their irresponsible ways . If verse 48 is taken in the metaphorical sense, the "pure water" of rain will mean the blessings of Prophet hood. Human history shows that whenever this blessing as been sent down, ignorance has been replaced by knowledge, injustice by justice and wickedness by righteousness. The coming of Prophets has always proved to be the harbinger of a moral revolution. But only those who accepted their guidance benefited from it. This is the lesson of history, yet the disbelievers reject it because of their ingratitude.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :64 اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَاہُ ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے ، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے ، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے ، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آ جاتی ہے ، اور ان سب حالتوں کے بے شمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :65 اگر پہلے رخ ( یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کمینگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوسرے رخ ( یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بے شمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے ، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بے وقوف اس زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں ۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا ، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا ، اور احسان تذکیر و تعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے ۔ اگر تیسرے رخ ( یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہو گئی اور فکر و اخلاق کی زمین میں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگا ۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آب حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا ، گلشن انسانیت لہلہا اٹھا ۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی ۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا ۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے ۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا ، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا ۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے ، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے ۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے ، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے ، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے ۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے ۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: پانی کی اُلٹ پھیر کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ پانی اﷲ تعالیٰ اِنسانوں کے درمیان اپنی حکمت سے ایک خاص تناسب کے مطابق تقسیم فرماتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پانی کا اصل ذخیرہ سمندر میں ہے۔ اﷲ تعالیٰ وہاں سے اُسے بادلوں کے ذریعے اٹھاتے ہیں، اور پہاڑوں پر برف کی صورت میں جما دیتے ہیں، جہاں سے وہ پِگھل پِگھل کر دریاوں کی صورت اختیار کرتا ہے، اور لوگ اُس سے اپنی ضروریات پوری کر کے اُسے ضائع کردیتے ہیں، لیکن یہی مستعمل پانی ندی نالوں کے ذریعے دوبارہ سمندروں میں جا گرتا ہے، اور پاک پانی کے اِس ذخیرے میں بہہ بہہ کر دوبارہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اُسے پھر بادلوں کے ذریعے اوپر اٹھایا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:50) صرفنہ : صرفنا۔ ماضی جمع متکلم ہ ضمیر مفعول واحد مذکر گا ئب ضمیر کا مرجع الماء المنزل من السماء ہے آسمان سے نازل کیا ہوا پانی یعنی بارش۔ ہم تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ ہم بانٹتے رہتے ہیں۔ لیذکرو۔ لام تعلیل کا ہے۔ صیغہ جمع مذکر غائب منصوب بوجہ عامل لام تعلیل ۔ تاکہ وہ غور و خوض کریں۔ تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ فابی : ابی یابی (باب فتح) اباء مصدر۔ ابی ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے سختی سے انکار کیا۔ ای ابوا عن عذکر۔ انہوں نے (اس کی ان نعمتوں پر غور کرنے اور خدا وند تعالیٰ کے حق النعمۃ کو پہچاننے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے سے) انکار کردیا۔ کفورا۔ کفر۔ کفران۔ انکار۔ مصدر ہے۔ الا کفورا سوائے کفران نعمت کے (یعنی انہوں نے خد کی نعمتوں کا حق پہچاننے سے انکار کردیا۔ اور کفران نعمت (یعنی اپنی ناشکری) پر اڑے رہے۔ ناشکری کی کئی صورتیں ہیں۔ نعمت میں ہی میں میخ نکالنا۔ یہ بارش تھوڑی ہے۔ وقت پر نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ جھکڑ تھا وغیرہ وغیرہ، یا اسے کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنا وغیرہ وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ یعنی بارش کہیں زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم۔ سب جگہ یکساں ہو۔ بیک وقت نہیں ہوتی۔ کسی جگہ بارش سے سیلاب آجاتا ہے اور کہیں بارش نہ ہونے سے خشک سالی ہوجاتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ (ابن کثیر) آیت کا یہ ترجمہ اور مفہوم اس صورت میں ہوگا جب ” صرفناہ “ میں ” ہ “ کی ضمیر بارش کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ ضمیر اوپر بیان شدہ دلائل کے لئے قرار دی جائے۔ کما ھو عند جھور المفسرین تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہم نے توحید کے دلائل کو مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر قرآن اور دیگر کتب سماویہ میں بیان کیا ہے۔ (شوکانی) 14 ۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ کہتے ہیں کہ ” مطرنا بنووکذا “ کہ فلاں ستارے کی تاثیر سے بارش ہوئی وہ لوگ مجھ سے کفر کرتے ہیں اور ستارو پر ایمان رکھتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد صرفنہ ……کبیراً (٥٢) ولقد صرفنہ بینھم لیذکروا (٢٥ : ٥٠) ” اس قرآن کو ہم پھیر پھیر کر ان کے سامنے لاتے ہیں تاکہ وہ سبق لیں۔ “ مختلف سورتوں کی شکل میں۔ متعدد اور متنوع اسالیب بیان میں۔ متعدد قطعات کی شکل میں اور اسی کے ذریعہ ہم نے ان کے شعور اور ان کی قوت مدرکہ کو مخاطب کیا۔ ان کی روح اور ان کے اذہان کو مخاطب کیا اور ان کے نفوس کے اندر اسے ہر طرح داخل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے ابلاغ کا ہر حربہ استعمال کیا تاکہ یہ لوگ نصیحت قبول کرلیں۔ یہاں تو صرف یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ وہ حقیقت اور سچائی کا شعور تو خود ان کے نفوس اور ان کی فطرت کے اندر موجود ہے اور انہوں نے حقیقت کے اس شعو رکو اس لئے دبا دیا ہے کہ خواہشات نفسانیہ کو انہوں نے الہ بنا دیا ہے۔ اس لئے اب ان کا رویہ یہ ہوگیا ہے۔ فابی اکثر الناس الاکفوراً (٢٥ : ٥٠) ” مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ “ حضور اکرم کی ذمہ داری تو ایک بھاری ذمہ داری ہے آپ نے پوری انسانیت کو درست کرنا ہے جبکہ انسانوں کی اکثریت ذاتی خواہشات کی بندہ بن گئی ہے اور باوجود اس کے کہ دلائل ایمان ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ اس نے کفر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ولو شئلا لبعثنا فی کل قریۃ نذیراً (٢٥ : ٥١) ” اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اٹھا کھڑا کرتے۔ “ اس طرح مشقت بٹ جاتی۔ ذمہ داریاں کم ہوجائیں لیکن اللہ نے تمام کائنات کی ہدایت کے لئے ایک ہی بندے کو بھیجا۔ آپ خاتم الرسل ہیں اور آپ کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے کہ آپ تمام لوگوں اور تمام بستیوں کو خبردار کریں اور ان کو اللہ کی آخری رسالت کی طرف متوجہ ریں اور یوں اللہ نے یہ چاہا کہ تمام انسانیت اس آخری رسالت پر جمع ہوجائے اور لوگ مختلف رسولوں کی باتیں سن کر اختلاف کا شکار نہ ہوجائیں اور اس کے بعد نبی آخر الزمان کو قرآن دیا تاکہ وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے جدوجہد کریں۔ فلا تطع الکفرین و جاھدھم بہ جہاد کبیراً (٢٥ : ٥٢) ” پس اے نبی تم کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔ “ اس قرآن کے اندر بڑی قوت اور گرفت ہے۔ گہری تاثیر ہے اس قدر جاذبیت ہے کہ جس کا کوئی سننے والا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کی یہ کشش دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ انسانی روح اور شعور کے اندر زلزلہ برپا ہوجاتا ہ۔ لوگ قرآن کریم کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے تمام تدابیر اختیار کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ قریش کے سردار عوام الناس کو کہتے تھے۔ لاتسمعوا الھذا القرآن و الغوافیہ لعلکم لغلبون ” اس قرآن کو نہ سنو اور جہاں یہ پڑھا جا رہا ہو وہاں شور مچائو شاید کہ اس طرح تم غالب ہو جائو۔ “ ان کے اس قول سے قریش اور ان کے متبین کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی اثر آفربینیوں نے بہت پریشان تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان کے متبعین صبح و شام قرآن کریم سے سحر زدہ ہوجاتے تھے۔ ایک ایک آیت ، دو دو آیات یا دو دو سورتیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے ۔ لوگوں کے دل ان کی طرف کھچ جاتے تھے اور ان کا دماغ مسحور ہوجاتا تھا۔ رئوساء قریش جو اپنے متبعین کو یہ حکم دیتے تھے ، کیا وہ خود قرآن کی تاثیر سے محفوظ تھے۔ اگر خود انہوں نے قرآن مجید کی بےپناہ تاثیر کو محسوس نہ کیا ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کہتے اور نہ وہ اپنی صفوں میں اس قدر خوف پھیلاتے۔ ان کی اس ہدایت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تاثیر کا کیا عالم تھا۔ ابن اسحاق ، حمد ابن مسلم ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ روایت پہنچی ہے کہ ابوسیان ابن ابو جہل ابن ہشام اور احسن ابن شریق ، ابن عمر ابن وھب ثقفی بنی زہرہ کے حلیف ایک رات نکلے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنیں۔ حضور اکرم رات کے وقت اپنے گھر پر نماز پڑھا کرتے تھ۔ ان میں سے ہر شخص اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا اور قرآن کریم سنتا رہا۔ ہر شخص دوسرے کے بارے میں نہ جانتا تھا۔ وہ رات گئے تک قرآن کریم سنتے رہے ۔ جب صبح طلوع ہوئی تو یہ لوگ لوٹنے لگے۔ راستے میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے ایک دور سے کو ملامت کیا اور ایک دوسرے سے کہا۔ یہ حرکت دوبارہ نہ کرو۔ اگر تمہیں تمہارے نادانوں نے دیکھ لیا تو تم خود ان کے دلوں میں بات ڈال دو گے۔ پھر یہ لوگ چلے گئے جب دوسری رات آئی تو ان میں سے ہر شخص پھر اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ پھر یہ لوگ رات کو کلام الٰہی سنتے رہے۔ صبح فجر نمودار ہوئی تو پھر بکھر گئے۔ راستے میں پھر انہوں نے ایک دور سے کو دیکھ لیا۔ پھر انہوں نے ایک دور سے کو وہی کہا جو اگلی رات انہوں نے کہا تھا۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ جب تیسری رات ہوئی تو پھر تینوں اپنی اپنی جگہ پہنچ گئے۔ ساری رات سنتے رہے۔ جب فجر نمودار ہوئی تو پھر یہ لوگ بکھر گئے لیکن راستے میں پھر ان کی ملاقات ہوگئی۔ اب انہوں نے ایک دوسرے سے کہا اب تو پختہ عہد کرنا ہوگا کہ پھر ہم یہ حرکت نہ کریں گے۔ چناچہ عہد کے بعد یہ لوگ جدا ہوئے۔ دوسرے دن صبح احنس ابن شریق نے اپنی عصالی۔ وہ سب سے پہلے ابوسفیان کو اس کے گھر میں ملا۔ اس نے اسے کہا ابو حنظلہ بتائو۔ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کلام سنا اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا ابو ثعلبہ ! خدا کی قسم میں نے بھی ان سے بعض ایسی چیزیں سنیں ہیں جن کو میں جانتا ہوں اور ان کا مطلب بھی سمجھتا ہوں۔ بعض ایسی باتیں بھی سنی ہیں جن کا مفہوم میں نہیں سمجھتا اور نہ میں یہ سمجھا ہوں کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ احنس نے کہا میری رائے بھی وہی ہے جس پر تم نے حلف اٹھایا ہے۔ وہاں سے نکل کر یہ شخص ابوجہل کے پاس آیا۔ اس کے گھر میں داخل ہوا اور کہا ابو الحکم بتائو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تم نے جو کچھ سنا ، اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے۔ ابوجہل نے کہا میں نے کیا سنا ہے ؟ بات یہ ہے کہ ہمارا اور بنی عبد مناف کے درمیان عزت اور شرف پر جھگڑا رہا۔ انہوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا تو ہم نے بھی مقابلے میں دستر خوان بچھائے۔ انہوں نے لوگوں کو تحفے دیئے اور ہم نے بار شتر تحفے دیئے۔ انہوں نے داد و دہش کی تو ہم نے بھی داد و دہش کی ۔ یہاں تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے ملا کر یوں چلے کہ جس طرح دو مقابل کے گھوڑے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ اب انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ ہم سے نبی آگیا ہے۔ اس پر آسمان سے وحی آتی ہے ، ان کے مقابلے میں ہم نبی کہاں سے لائیں۔ خدا کی قسم ، ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہ لائیں گے اور ہرگز ہم اس کی تصدیق نہ کریں گے۔ اس پر احنس ابن شریق اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ تھا عالم قرآن کریم کے اثرات کا۔ یہ لوگ ان اثرات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ پختہ عہد کرتے تھے کہ آئندہ مت سنو ورنہ لیڈر شپ کو خطرہ ہے۔ اگر عوام کو پتہ چل گیا کہ ہم لوگ کلام الٰہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو لوگ ٹوٹ پڑیں گے ان پر تو جادر جیسا اثر ہوتا ہے۔ قرآن کریم درحقیقت نہایت ہی سادہ فطری حقائق بیان کر رہا تھا۔ یہ سچائی تیر کی طرح دل میں اترتی تھی۔ جب انسانی دل و دماغ اس اصلی جانے تک پہنچ جاتے تھے تو اس سرچشمے کا جوش پھر تمتمانہ تھا۔ اثرات کے فوارے چھوٹ جاتے تھے اس میں قیامت کے مناظر عبرت اموز قصص اس کائنات کے مشاہد ، ہلاک شدہ اقوام کی عبرت آموز داستانیں اور انکے کھنڈرات کے مناظر ، قرآن کے تشخص مفہومات اور تمثیل واقعات اور دلال و آیات تھے ، ان سے دل دہل جاتے تھے۔ بعض اوقات صرف ایک سورت پڑھنے سے انسانی شخصیت کے اندر تزلزل پیدا ہوجاتا اور ایسے انسانی نفوس اس سے مفتوح ہوتے چلے جاتے تھے جو چٹان کی طرح مضبوط ہوتے تھے۔ اگر قرآن کے سوا لشکر جرار بھی ایسے نفوس کو فتح کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا۔ اس لئے یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیں ہے کہ اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دے کہ آپ کافروں کی اطاعت نہ کریں اور دعوت اسلامی کے حوالے سے آپ کے قدم نہ ڈگمگائیں اور اس قرآن کو لے کر کفار کے مقابلے میں عظیم جدوجہد کریں۔ کیونکہ آپ کے پاس قرآن کریم کی وہ قوت ہے جس کے مقابلے میں طاقتور سے طاقتور انسان نہیں ٹھہر سکتا۔ جس کے خلاف کوئی مجادلہ کارگر نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے خلاف کوئی قوت کارگر ہو سکتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ ہم نے پانی کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا یعنی اس پانی کو حکمت اور مصلحت کے مطابق مختلف مواقع میں پہنچاتے ہیں۔ کبھی کہیں بارش ہوتی ہے کبھی کہیں، کبھی تھوڑی کبھی خوب زیادہ، اس میں عبرت ہے اور نصیحت ہے لیکن لوگ اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے، اکثر لوگوں کا بس یہی کام ہے کہ نا شکری میں لگے رہتے ہیں، یہ نا شکری انسانوں میں عموماً کفر کی حد تک ہے کھاتے ہیں اور پہنتے ہیں اللہ کی پیدا کردہ چیزیں اور عبادت کرتے ہیں دوسروں کی، اور بہت سے لوگوں کی نا شکری کفر کی حد تک تو نہیں لیکن نافرمانی اور معاصی میں لگے رہتے ہیں یہ بھی ناشکری ہے دونوں قسم کی ناشکری کے بارے میں فرمایا (فَاَبٰی اَکْثَرُ النَّاسِ اِِلَّا کُفُوْرًا) (سو اکثر لوگ نا شکری کے بغیر نہ رہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ ” ولقد صرفنہ الخ “ یہ زجر ہے یعنی ہم دعوی توحید کو گناگوں دلائل سے اور مختلف اسالیب بیان سے واضح کر کے بتاتے ہیں تاکہ وہ اس میں غور وکفکر کریں اور اسے سمجھ لیں مگر اکثر لوگ پھر بھی انکار کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) اور ہم نے ہی اس پانی کو لوگوں کے درمیان مختلف مقدار سے تقسیم کردیا تاکہ غور کریں اور سمجھیں مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے کفران نعمت اور ناسپاسی کے اور کچھ نہیں کیا یعنی پانی کی تقسیم اس طرح کہ بارش کا حصہ ہر ایک کو پہنچانا تاکہ یہ غور کریں کہ وہ قادر و مختار کون ہے جس کے حکم سے آگے پیچھے بادل سب جگہ پہنچتے ہیں اور بارش ہوتی ہے لیکن اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ناشکری اور کفران نعمت کئے بغیر نہ رہے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بجائے نافرمانی اور ناسپاسی پر اڑے رہے بعض حضرات نے صرفناہ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف لوٹائی ہے اس تقدیر پر وہی معنی ہوں گے جو بنی اسرائیل میں ولقد صرفنا للناس فی ھذا القرآن کے تحت کئے گئے ہیں ہم نے یہاں راحج قول کو اختیار کرلیا ہے۔