Surat ul Furqan
Surah: 25
Verse: 66
سورة الفرقان
اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾
Indeed, it is evil as a settlement and residence."
بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے ۔
اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾
Indeed, it is evil as a settlement and residence."
بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے ۔
Evil indeed it is as an abode and as a place to rest in. means, how evil it looks as a place to dwell and how evil it is as a place to rest.
[٨٣] یعنی راتوں کی عبادت یا ان کے دوسرے نیک اعمال انھیں اس غلط فلمی میں مبتلا نہیں کردیتے کہ اب وہ یقینی طور پر جنت کے مستحق ہوگئے ہیں۔ نہ ہی ان میں ان اعمال کی بجا آوری پر پندار نفس یا غرور پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : غرور زہد نے سیکھلا دیا ہے واعظ کو “ کہ بندگان خدا ہر زبان دراز کرے ” بلکہ وہ اللہ سے یہ دعا بھی کرتے رہتے ہیں کہ اگر ان اعمال کی بجاآوری میں کچھ تقصیر ہوگئی ہے تو معاف فرما دے۔ ان اعمال کو جیسے بھی وہ ہیں قبول فرما لے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا گویا اللہ کے بندوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کر بیٹھتے بلکہ ان کا اصل اعتماد اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا ” مُسْتَــقَرًّا “ کچھ مدت ٹھہرنے کی جگہ گناہ گار مسلمانوں کے لیے اور ” مُقَامًا “ ہمیشہ اقامت کی جگہ کفار کے لیے۔ یہ جملہ بھی رب رحمٰن اور عباد الرحمان دونوں کا ہوسکتا ہے۔
اِنَّہَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا ٦٦ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے
آیت ٦٦ (اِنَّہَا سَآءَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ) ” دنیا میں عام طور پر انسانی طبیعت کا خاصہّ ہے کہ وہ ہر دم تبدیلی چاہتا ہے۔ تبدیلی کے طور پر وہ تھوڑی دیر کے لیے بری سے بری جگہ پر بھی تفریح محسوس کرتا ہے اور اگر اسے اچھی سے اچھی جگہ پر بھی مستقل رہنا پڑے تو وہاں اسے بہت جلد اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کے برعکس جنت اور جہنم کی کیفیت یکسر مختلف ہے۔ قرآن کے مطابق جنت ایسی پر کشش جگہ ہے کہ وہاں مستقل رہنے کے باوجود اہل جنت کو اس کی دلچسپیوں اور رعنائیوں میں ذرہ بھر کمی محسوس نہیں ہوگی اور جہنم میں اگر کوئی انسان ایک لمحہ کے لیے بھی چلا گیا تو وہ اپنی ساری سختیاں اس پر اسی ایک لمحے میں ظاہر کر دے گی۔
82 That is, their worship has not made them vain and proud to presume that they are the beloved ones of AIIah and that the Fire of Hell will not touch them. On the other hand, in spite of all their worship and good deeds, they are so tilled with the fear of the torment of Hell that they pray to their Lord to save them from it, for they do not depend upon their own work for success in the Hereafter but upon the mercy of Allah.
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :82 یعنی یہ عبادت ان میں کوئی غرور پیدا نہیں کرتی ۔ انہیں اس بات کا کوئی زعم نہیں ہوتا کہ ہم تو اللہ کے پیارے اور اس کے چہیتے ہیں ، بھلا آگ ہمیں کہاں چھو سکتی ہے ۔ بلکہ اپنی ساری نیکیوں اور عبادتوں کے باوجود وہ اس خوف سے کانپتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہیاں ہم کو مبتلائے عذاب نہ کر دیں ۔ وہ اپنے تقویٰ کے زور سے جنت جیت لینے کا پندار نہیں رکھتے ، بلکہ اپنی انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذاب سے بچ نکلنے ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں ، اور اس کے لیے بھی ان کا اعتماد اپنے عمل پر نہیں بلکہ اللہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔
(25:66) انھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جھنم کے لئے ہے۔ ساء ت : ساء یسوء (نصر) سوء سے ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے وہ بری ہے ۔ مستقرا۔ اسم ظرف مکان منصوب، بوجہ تمیز۔ استقرار (استفعال) مصدر بمعنی قرار گاہ۔ ٹھہرنے کی جگہ۔ مقام۔ اسم ظرف مکان۔ منصوب بوجہ تمیز اقامۃ (افعال) مصدر۔ رہنے کی جگہ یعنی جہنم بطور قرار گاہ اور جائے مقام بہت بری ہے
فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ” عباد الرحمن “ کے اوصاف۔ اس سے پہلے ” عباد الرحمن “ کی چال ڈھال، گفتار اور رات کے وقت ان کی اپنے رب کے حضور آہ و زاریوں کا تذکرہ ہوا۔ اب مالی معاملات میں ان کے کردار کا ذکر ہوتا ہے۔ ” الرحمن “ کے بندے جس طرح گفتار اور رفتار میں اعلیٰ معیار رکھتے ہیں اسی طرح ہی وہ خرچ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ خرچ کرتے وقت نہ وہ بےجا خرچ کرتے ہیں اور نہ وہ بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ معیشت کو متوازن رکھنے کا بنیادی اصول ہے اسی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ (اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ تو سائل کو نرمی کے ساتھ جواب دیں۔ ) (وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا) [ بنی اسرائیل : ٢٨] اور اگر آپ اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں جس کی آپ امید رکھتے ہیں تو سائل سے بےتوجہگی کرتے وقت ان سے نرم بات کریں۔ “ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا “ [ رواہ أحمد : مسند عبداللہ بن مسعود ] (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمْرِہِ فیمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہِ فیمَا أَبْلاَہُ وَمَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَ أَنْفَقَہُ وَمَاذَا عَمِلَ فیمَا عَلِمَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی القیامۃ ] ” حضرت ابن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آد م کا بیٹا اس وقت تک قدم نہیں اٹھا پائیگا جب تلک پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے۔ اس کی عمر کے متعلق پوچھا جائیگا کہ کیسے گذاری، بالخصوص جوانی کے متعلق سوال ہوگا کہ شباب کیسے گزارا۔ مال کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ علم کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس پر کس قدر عمل کیا۔ “ پورا مال صدقہ کرنا ٹھیک نہیں : ” حضرت سعد (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اجازت نہ دی۔ انہوں نے نصف کی اجازت مانگی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی۔ آپ نے یہ فرماکر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، میراث البنات ] کنجوسی کی مذمت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْبَخِےْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَےْنِ عَلَےْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِےْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَےْدِےْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِےْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) [ رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ کس جاتی ہے۔ “ مسائل ١۔ ” الرّحمن “ کے بندے فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ الرّحمن کے بندے خرچ اخراجات میں اعتدال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے اور بخیلی سے بچنے کا حکم : ١۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دوگنا تین گنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١) ٤۔ رحمن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی اختیار کرتے ہیں۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧)