Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 75

سورة الفرقان

اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ۷۵﴾

Those will be awarded the Chamber for what they patiently endured, and they will be received therein with greetings and [words of] peace.

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالا خانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Servants of the Most Gracious, and a Warning to the People of Makkah After mentioning the beautiful attributes of His believing servants, and their fine words and deeds, Allah then says: أُوْلَيِكَ ... Those, meaning, the people who are described in this manner, ... يُجْزَوْنَ ... will be rewarded, on the Day of Resurrection, ... الْغُرْفَةَ ... with the highest place, which is Paradise. Abu Jafar Al-Baqir, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak and As-Suddi said, "It was so called because of its elevation." ... بِمَا صَبَرُوا ... because of their patience. means, their patience in doing what they did. ... وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا ... Therein they shall be met, means, in Paradise. ... تَحِيَّةً وَسَلَمًا with greetings and the word of peace and respect. This means that they will be greeted first with words of welcome and honor. Peace will be theirs and they will be wished peace. And angels shall enter unto them from every gate, saying, "Peace be upon you for that you persevered in patience! Excellent indeed is the final home!"

مومنوں کے اعمال اور اللہ کے انعامات مومنوں کی پاک صفتیں ان کے بھلے اقوال عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی ۔ جو بلند تر جگہ ہے اس وجہ سے یہ ان اوصاف پر جمے رہے وہاں ان کی عزت ہوگی اکرام ہوگا ادب تعظیم ہوگی ۔ احترام اور توقیر ہوگی ۔ ان کے لئے سلامتی ہے ان پر سلامتی ہے ہر ایک دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کرکے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہوگیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے ۔ یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے نہ نکلیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں نہ راحتیں فناہوں یہ سعید بخت ہیں جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے ان کے رہنے سہنے راحت وآرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی پاک صاف طیب وطاہر دیکھنے میں خوش منظر رہنے میں آرام دہ ۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح وتہلیل کے لئے پیدا کیا ہے اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے ۔ اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں ۔ کافرو! تم نے جھٹلایا اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہوگیا ۔ نہیں اس کا وبال دنیا اور آخرت میں تمہارے ساتھ ساتھ ہے تم برباد ہوگے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے الحمدللہ کہ سورۃ فرقان کی تفسیر ختم ہوئی فالحمدللہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] بالاخانہ سے مراد یہ نہیں کہ وہ کسی دو منزلہ عمارت کی اوپر کی منزل میں واقع ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد بلند درجوں میں واقع رہائش گاہ ہے اور جنت کے اوپر نیچے سو درجے ہیں۔ یعنی اللہ کے بندوں میں مذکورہ بالا صفات جس حد تک پائی جائیں گی اسی کے مطابق ان کو بلندی درجات اور ان میں سکونت نصیب ہوگی۔ پھر ایسے اللہ کے بندوں کے استقبال کے لئے فرشتے موجود ہوں گے جو انھیں سلام بھی کہیں گے اور سلامتی کی دعائیں بھی دیں گے۔ جنت میں رہائش پذیر ہوجانے کے بعد ان کی باہمی ملاقاتوں میں یہ ہی کلمات سلام و دعا ان کی تکریم اور عزت افزائی کے لئے استعمال ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ ۔۔ :” غُرْفَۃٌ“ ہر بلند عمارت اور اونچا محل، بالا خانہ۔ ” الْغُرْفَةَ “ سے مراد کوئی ایک بالا خانہ نہیں بلکہ مراد جنس ہے، یعنی عباد الرحمان کو صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے یعنی اونچے محل عطا کیے جائیں گے، جن کی بلندی ان کے مراتب کے اعتبار سے ہوگی۔ ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَھْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاءَوْنَ أَھْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِھِمْ ، کَمَا یَتَرَاءَوْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَھُمْ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ ۔۔ : ٣٢٥٦ ]” اہل جنت اپنے اوپر کی طرف بالا خانوں والوں کو دیکھیں گے جیسے تم مشرق یا مغرب کے افق پر دور چمک دار تارے کو دیکھتے ہو، ان کی ایک دوسرے کے درمیان درجوں کی برتری کی وجہ سے۔ “ اور دیکھیے سورة زمر (٢٠) اور عنکبوت (٥٨) ۔ بِمَا صَبَرُوْا : یعنی عباد الرحمان کو یہ نعمت ان کے صبر کی وجہ سے حاصل ہوگی کہ انھوں نے نیکی پر صبر کیا، برائی سے اجتناب پر صبر کیا اور راہ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “ وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا : ” تَحِيَّةً “ ” حَیّٰ یُحَیِّيْ “ کا مصدر ہے، زندگی کی دعا دینا۔ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے جنتیوں کے استقبال اور سلام کے لیے دیکھیے سورة رعد (٢٣، ٢٤) ، انبیاء (١٠١ تا ١٠٣) ، زمر (٧٣) اور سورة یٰس (٥٥ تا ٥٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْ‌فَةَ (Such people will be rewarded with the high place - 75) The literal meaning of غُرفَہ (ghurfah) is upper story. The righteous people having special closeness to Allah will be given high chambers in Paradise which will look like stars to common people. (al-Bukhari, Muslim, Mazhari) It is narrated in Musnad of Ahmad, Bayhaqi, Tirmidhi and Hakim on the authority of Sayyidna Abu Malik al-Ash&ari that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said |"In Paradise there will be such upper Houses that their interior could be seen from outside and the exterior from inside|". Sahabah inquired from him as to who will live in them. Then he replied |"Those who keep their speech clean and soft, greet every Muslim, feed the poor, and offer Tahajjud prayers at night when others are sleeping.|" (Mazhari) وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا (And will be received therein with prayers of their eternal life and peace - 25:75). That is beside other boons of Paradise they will have the honour that angels will greet and felicitate them. Upto this point the traits and deeds of the sincere believers and their rewards and recompense were described. Then in the last verse the infidels and disbelievers have been warned again of the chastisement on which the Surah is concluded.

اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ ، غرفہ کے لغوی معنی بالاخانہ کے ہیں۔ جنت میں مقربین خاص کے لئے ایسے غرفات ہوں گے جو عام اہل جنت کو ایسے نظر آئیں گے جیسے زمین والے ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ (رواہ البخاری و مسلم وغیرھما۔ مظہری) مسند احمد، بیہقی، ترمذی، حاکم میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں ایسے غرفے ہوں گے جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ، یہ غرفے کن لوگوں کے لئے ہیں۔ آپ نے فرمایا، جو شخص اپنے کلام کو نرم اور پاک رکھے اور ہر مسلمان کو سلام کرے اور لوگوں کو کھانا کھلائے اور رات کو اس وقت تہجد کی نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں (مظہری) وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا یعنی جنت کی دوسری نعمتوں کے ساتھ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ فرشتے ان کو مبارکباد دیں گے اور سلام کریں گے۔ یہاں تک مومنین مخلصین کی خصوصی عادات و اعمال اور ان کی جزا وثواب کا ذکر تھا، آخری آیت میں پھر کفار و مشرکین کو عذاب سے ڈرا کر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْہَا تَحِيَّۃً وَّسَلٰمًا۝ ٧٥ۙ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ غرف الْغَرْفُ : رفع الشیء وتناوله، يقال : غَرَفْتُ الماء والمرق، والْغُرْفَةُ : ما يُغْتَرَفُ ، والْغَرْفَةُ للمرّة، والْمِغْرَفَةُ : لما يتناول به . قال تعالی:إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ، ومنه استعیر : غَرَفْتُ عرف الفرس : إذا جززته «3» ، وغَرَفْتُ الشّجرةَ ، والْغَرَفُ : شجر معروف، وغَرَفَتِ الإبل : اشتکت من أكله «4» ، والْغُرْفَةُ : علّيّة من البناء، وسمّي منازل الجنّة غُرَفاً. قال تعالی: أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ، وقال : لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ، وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] . ( غ ر ف ) الغرف ( ض) کے معنی کسی چیز کو اٹھانے اور کڑنے کے ہیں جیسے غرفت الماء لنا لمرق ہیں نے پانی یا شوربہ لیا ) اور غرفۃ کے معنی چلو پھر پانی کے ہیں اور الغرفۃ ایک مرتبہ چلو سے پانی نکالنا المخرفۃ چمچہ وغیرہ جس سے شوربہ وغیرہ نکال کر برتن میں ڈالا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو پھر پانی لے لے ( تو خیر) اسی سے ابطورہستعارہ کہاجاتا ہے غرفت عرف الفرس میں نے گھوڑے کی پیشانی کے بال کاٹ ڈالے غرفت الشجرۃ میں نے درخت کی ٹہنیوں کو کاٹ ڈالا ۔ الغرف ایک قسم کا پودا جس سے چمڑے کو دباغت دی جاتی ہے ) غرفت الابل اونٹ غرف کھا کر بیمار ہوگئے ۔ الغرفۃ بلا خانہ ( جمع غرف وغرفات قرآن میں ) جنت کے منازل اور درجات کو الغرف کہا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ان صفات کے لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے ۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ان کو ہم بہشت کے اونچے اونچے محلوں میں جگہ دیں گے ۔ وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقا«2» ويقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ تحیۃ وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها [ النساء/ 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء/ 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٦) ان اوصاف والوں کو جنت میں بلند درجات ملیں گے بوجہ اس کے کہ وہ اطاعت خداوندی فقر اور تکالیف پر ثابت قدم رہے اور وہ لوگ جس وقت جنت میں داخل ہوں گے تو فرشتے ان کو منجانب اللہ بقاء اور سلام کی دعائیں دیں گے اور وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے وہ کیسا اچھا ٹھکانا اور مقام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا) ” اللہ تعالیٰ دنیا میں بندوں کو آزماتا رہتا ہے۔ ایک نیک انسان کی زندگی میں ایسے بیشمار مواقع آتے ہیں جب اس کے سامنے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ یہ راستہ بےحد پر کشش بھی ہے اور آسان بھی۔ دوسری طرف نیکی اور اللہ کی فرمانبرداری کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے کے لیے قدم قدم پر انسان کو صبر کرنا پڑتا ہے اور شہوات نفسانی کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک بندۂ مؤمن کی پوری زندگی ہی صبر سے عبارت ہے۔ چناچہ اس کے اس صبر کا بدلہ اسے آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94 The word sabr (fortitude) has been used here in its most comprehensive sense. The true servants courageously endured their persecution by the enemies of the Truth; they remained firm and steadfast in their struggle to establish Allah's way in the land; they carried out their duties enjoined by Allah sincerely and tearlessly without any concern for the worldly losses and deprivation; and they withstood all temptations held out by Satan and all the lusts of the flesh. 95 "Ghurfah " is a high mansion and the word is generally used for the "upper chamber" of a double-storeyed house. But the reality is that the highest buildings made by tnan in this world, even the Taj Mahal of India and the skyscrapers of New York, are an ugly imitation of the "excellent abodes" in Paradise. They are so magnificent, grand and beautiful that human imagination cannot form any picture of their grandeur.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :94 صبر کا لفظ یہاں اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ دشمنان حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا ۔ دین حق کو قائم اور سربلندی کرنے کی جدو جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا ۔ ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہ راست پر ثابت قدم رہنا ۔ شیطان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرغم فرض کو بچا لانا ، حرام سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا ۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دینا اور نیکی و راستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا ۔ غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا کی دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :95 اصل میں لفظ غُرْفَہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند و بالا عمارت کے ہیں ۔ اس کا ترجمہ عام طور پر بالا خانہ کیا جاتا ہے جس سے آدمی کے ذہن میں ایک دو منزلہ کوٹھے کی سی تصویر آ جاتی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان جو بڑی سے بڑی اور اونچی سے اونچی عمارتیں بناتا ہے ، حتّیٰ کہ ہندوستان کا روضہ تاج اور امریکہ کے ’‘ فلک شگاف ( Sky-scrapers ) تک جنت کے ان محلات کی محض ایک بھونڈی سی نقل ہیں جن کا ایک دھندلا سا نقشہ اولاد آدم کے لا شعور میں محفوظ چلا آتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:75) اولئک۔ جن کی اوپر صفات بیان ہوئی ہیں۔ ان کی طرف اشارہ ۔ وہ سب (عباد الرحمن) اسم اشارہ ہے۔ یجزون۔ مضارع مجہول۔ جمع مذکر غائب۔ ان کو جزاء دء جائے گی۔ ان کو بدلہ میں دیا جائیگا۔ جزی یجزی (ضرب) جزی مادہ ۔ الجزاء (کافی ہونا) الجزاء (اسم) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو۔ جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے۔ جیسے فلہ جزاء ن الحسنی (18:88) اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے اور وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا (42:40) اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی ہے۔ الغرفۃ۔ بالاخانہ۔ اونچے محل اس کی جمع غرف وغرفات ہے۔ غرفہ کے معنی چلو بھر پانی کے بھی ہیں۔ جیس ا کہ قرآن مجید میں ہے الا من اغترف وغرفۃ بیدہ (2:249) ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی لے لے (تو مضائقہ نہیں) ۔ بما۔ میں باء سببیہ ہے اور ما مصدریہ۔ یلقون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ تلقیۃ (تفعیل) مصدر ان کا استقبال کیا جائے گا۔ ان کو پیش کیا جائے گا۔ لقی مادہ۔ تحیۃ۔ دعائے خیر۔ دعائے زندگی۔ حیاۃ سے ماخوذ ہے یہ مصدر ہے بمعنی کسی کو حیات اللہ (خدا تمہاری عمر دراز کرے) کہنا۔ بوجہ حال کے منصوب ہے۔ سلاما۔ سلامتی کی دعا کرنا۔ حال ہے۔ ویلقون فیہا تحیۃ وسلاما وہاں (جنت میں یا بالاخانہ میں) ان کا درازی عمر اور سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ خیر مقدم کیا جائے گا۔ یعنی فرشتے ان دعاؤں کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی ہرحال میں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کے بدلے میں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن کے بندوں کا آخرت میں مرتبہ و مقام۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف دنیا میں صالح کردار ہوتے ہیں بلکہ وہ نیکی کے کاموں میں قوموں کے پیشوا بنتے ہیں۔ ایسے نیکو کاروں کو آخرت میں بھی بلند مرتبہ اور اعلیٰ مقام دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دکھ اور سکھ، کامیابی اور ناکامی، عسر اور یسر میں اپنے رب کی رضا پر راضی اور اس کے دین کے پابند رہے۔ موت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا اور ملائکہ ہر مقام پر انھیں دعا دیں گے، اور سلام پیش کریں گے۔ یہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ جو رہنے کے اعتبار سے نہایت ہی پرسکون اور بہترین قیام گاہ ہے۔ مسائل ١۔ عباد الرّحمن جنت کے بالا خانوں میں قیام کریں گے۔ ٢۔ عباد الرّحمن کو ملائکہ ہر مقام پر سلام پیش کریں گے۔ ٣۔ عباد الرّحمن ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٤۔ جنت پر سکون قیام گاہ اور بہترین قرار گاہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں اور اس کے اعلیٰ مقامات کا ذکر : ١۔ ہم جنتیوں کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنت میں سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کریں گے۔ ( حٰم السجدہ : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولئک یجزون ……ومقاماً (٧٦) غرفہ کا مفہوم منزل بلند ہے ، جس سے جنت مراد ہے۔ یا یہ جنت کا کوئی خاص مقام ہوگا۔ جیسا کہ بالا خانہ عام افتادہ مکان کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے۔ ہر شخص مسلمانوں کو بالا خانوں میں بٹھاتا ہے اور یہ لوگ بھی چونکہ اللہ کے معزز اور مکرم بندے ہیں اور ان کے لئے عباد الرحمٰن کا ٹائیٹل استعمال ہوا ہے اور ان کی صفات بھی گنوائی گئی ہیں لہٰذا ان کا اس خاص مقام میں تحیہ اور مبارک و سلامت سے استقبال ہوگا۔ اس لئے کہ انہوں نے دنیا میں صبر کیا۔ اور ان صفات پر رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عباد الرحمٰن کی ان صفات و علامات پر چلنا کارے دارد۔ بڑے صبر اور مصابرت کی ضرورت ہے۔ زندگی کی راہ پر دھوکہ دینے والی مرغوبات ہر طرف سے دامن کش رہتی ہیں۔ اس راہ پر گرنے اور پھسلنے کے مقامات جگہ جگہ موجود ہیں۔ زندگی کی اس طویل شاہراہ پر سیدھا چلنے کے لئے عزم و مصابرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے اللہ نے یہاں بما صبروا (٢٥ : ٨٥) کا ذکر فرمایا۔ اور اس جہنم کے بالمقابل جس سے وہ بچنے کی دعا ہر وقت کرتے رہتے ہیں اور جو بہت ہی برا مقام ہے ، ان کے لئے ایک ایسا مقام ہوگا۔ یعنی جنت جو نہایت اچھا مقام ہوگا اور جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ خلدین فیھا حسنت مستقرا و مقاماً (٢٥ : ٨٩) ” یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور مستقرد مقام کے طور پر وہ بہترین جگہ ہوگی۔ “ یہاں سے انہیں نکلنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی وہ نہایت سکون وقرار سے وہاں رہیں گے۔ …… عباد الرحمٰن کی تصویر کشی تو ہوچکی۔ بشریت کے نمک اور خلاصہ کی صفات کی تفصیلات تو دے دی گئیں۔ اب یہاں ان لوگوں کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ اگر اللہ کے یہ بندے نہ ہوں تو اللہ کے نزدیک پوری انسانیت پر کا ہ کے اہمیت بھی نہیں رکھتی۔ رہے مکذبین تو ان کے لئے تو عذاب جہنم کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عباد الرحمن کی صفات بیان کرنے کے بعد ان کا آخرت کا مقام بتایا (اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا) (یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بالا خانے ملیں گے بوجہ ان کے ثابت قدم رہنے کے) اس میں الغرفۃ جنس کے معنی میں ہے سورة سبا میں فرمایا (فَاُولٰٓءِکَ لَھُمْ جَزَآء الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ ھُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ ) (سو یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے دو ہری جزا ہے اور وہ بالا خانوں میں امن وامان کے ساتھ رہیں گے) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت والے اپنے اوپر بالا خانوں کے رہنے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکدار ستارے کو دیکھتے ہو جو مشرق یا مغرب کی افق میں دورچلا گیا ہو اور یہ فرق مراتب کی وجہ سے ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ) یہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے منازل ہوں گے ان کے علاوہ وہاں کوئی اور نہ پہنچے گا آپ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور جنہوں نے پیغمبروں کی تصدیق کی۔ (رواہ البخاری ص ٤٦١) حضرت ابو مالک اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر ان کے باطن سے اور باطن ان کے ظاہر سے نظر آتا ہے اللہ نے یہ بالا خانے اس شخص کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرمی سے بات کرے اور کھانا کھلائے اور کثرت سے روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے جبکہ لوگ سو رہے ہوں۔ (وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلاَمًا) (یعنی یہ حضرات بالا خانوں میں آرام سے بھی ہوں گے اور معزز بھی ہوں گے ان کی بیش بہا نعمتوں کے ساتھ یہ بھی ہوگا کہ فرشتے انہیں زندگی کی دعا دیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یہیں رکھے اور ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے اور فرشتے سلام بھی کریں گے) جب جنت میں داخل ہونے لگیں گے تو فرشتے یوں کہیں گے کہ (سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا کَالِدِیْنَ ) (تم پر سلام ہو، خوش عیش رہو سو اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” اولئک یجزون الک “ الئک، عباد الرحمن کی خبر ہے یعنی مذکورہ بالا صفات سے متصف اللہ کے بندوں کو جنت میں بطور جزا بالا خانے دئیے جائیں گے انہوں نے اپنے کو اللہ کی اطاعت و بندگی پر قائم رکھا اور نفس کو خواہشات سے روکا۔ جنت میں فرشتے مبارکباد اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کرینگے۔ ” خلدین فیھا “ وہ جنت کی نعیم و راحت میں ہمیشہ رہیں گے، نہ جنت فنا ہوگی، نہ ان کو موت آئیگی اور نہ انہیں جنت سے نکالا جائیگا۔ تو یہ کیا ہی اچھا مقام اور عمدہ ٹھکانا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) یہی عباد الرحمن وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر و استقامت کے صلے اور بدلے میں بالاخانے دئیے جائیں گے اور وہ دعائے خیر اور سلام کے ساتھ اس جنت میں استقبال کئے جائیں گے یعنی طاعت و فرماں برداری میں ثابت قدم رہے اور غیروں کے طعن وتشنیع پر صبر کرتے رہے تو ان کو صلے میں بہشت اور بہشت میں بالاخانے دئیے جائیں گے اور ان بالاخانوں میں فرشتے دعائے خیر اور سلام سے ان کا استقبال کریں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں فرشتے آگے آکر لے جاویں گے 12