Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 76

سورة الفرقان

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶﴾

Abiding eternally therein. Good is the settlement and residence.

اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَالِدِينَ فِيهَا ... Abiding therein, means, they will settle there and never leave or move or die, they will never exit or wish to move to somewhere else. This is like the Ayah, وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِى الْجَنَّةِ خَـلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَـوَتُ وَالاٌّرْضُ And those who are blessed, they will be in Paradise, abiding therein for all the time that the heavens and the earth endure. (11:108) ... حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا excellent it is as an abode, and as a place to rest in. Its appearance is beautiful and it is a good place in which to rest and to dwell. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] جنت کے بہترین رہائش گاہ ہونے کا اندازہ سہل بن سعد ساعدی سے مروی حدیث سے ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && جب میں ایک کوڑا رکھنے کے برابر جگہ ساری دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے && ( بخاری۔ کتاب بدو الخلق۔ باب فی صفہ نالجنہ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ۭ حَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا۝ ٧٦ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ) ” یہ گویا ان الفاظ کا تقابل (contrast) ہے جو آیت ٦٦ میں وارد ہوئے : (سَآءَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:76) حسنت مستقرا ومقاما۔ ملاحظہ ہو ساءت مستقرا ومقاما (آیت 25:66) وہ جہنم کا نقشہ تھا اور یہ جنت کی تصویر ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے دعا وسلام کہتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا) (یہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ اچھی جگہ ہے ٹھہرنے اور رہنے کے لیے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) وہ ان بہشت کے بالا خانوں میں ہمیشہ اور سدا رہیں گے وہ جنت کے ٹھہرنے کے اعتبار سے بھی اچھی اور رہنے کے اعتبار سے بھی خوب ہے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایسی جگہ تھوڑی دیر ٹھہرنے کو بھی ملے تو بھی غنمیت ہے ان کا تو وہی گھر ہے 12