Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 1

سورة النمل

طٰسٓ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡقُرۡاٰنِ وَ کِتَابٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۱﴾

Ta, Seen. These are the verses of the Qur'an and a clear Book

طٰسٓ یہ آیتیں ہیں قرآن کی ( یعنی واضح ) اور روشن کتاب کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is Guidance and Glad Tidings for the Believers, a Warning to the Disbelievers, and it is from Allah Allah says: طس ... Ta Sin. In (the comments on) Surah Al-Baqarah, we discussed the letters which appear at the beginning of some Surahs. ... تِلْكَ ايَاتُ الْقُرْانِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ These are the Ayat of the Qur'an, and (it is) a Book (that is) clear. It is plain and evident. هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُوْمِنِينَ

حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورۃ بقرہ کے شروع میں ہم کرچکے ہیں ۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے ۔ یہ اسکی آیتیں ہیں جو مومنوں کے لئے ہدایت وبشارت ہیں ۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ بھی ، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں ۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں ۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے کہ ایمانداروں کے لئے تو یہ قرآن ہدایت اور شفاہے اور بے ایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں ۔ اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں ۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ انکی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے بیشک آپ اے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں ۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں ۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق وصداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁ ) 6- الانعام:115 )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

نَمْل، چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورة نمل کہا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی اس کتاب کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں جو کسی کی سمجھ میں نہ آسکے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ حق اور باطل سب کچھ بڑی وضاحت سے بتلا رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ : یہاں قرآن کا ذکر پہلے ہے جب کہ سورة حجر میں اس کے برعکس کتاب کا ذکر پہلے ہے، وہاں فرمایا : (الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ) [ الحجر : ١ ] ”۔ یہ کامل کتاب اور واضح قرآن کی آیات ہیں۔ “ یہ فرق کیوں ہے ؟ ابو حیان اور زمخشری کے مطابق یہ فرق ظاہر نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض معطوف علیہ اور معطوف ایسے ہوتے ہیں جن میں سے کسی کو پہلے ذکر کرنے کی کوئی وجہ ترجیح نہیں ہوتی، جسے چاہو پہلے ذکر کر دو اور جسے چاہو بعد میں، جیسا کہ ” وَقُوْلُوْا حِطَّةً “ اور ” وَادْخُلْوْا الْبَابَ سْجَّداً “ میں ہے۔ قرآن اور کتاب کے عطف کا معاملہ بھی یہی ہے، جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں معطوف علیہ کو پہلے لانے کی وجہ ظاہر ہوتی ہے، جیسے : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ) [ آل عمران : ١٨ ]” اللہ نے گواہی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ “ ابن عاشور نے ایک وجہ ترجیح بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سورة حجر میں اس آیت کے بعد کفار کے قیامت کے دن حسرت و افسوس کا ذکر ہے، جب کہ یہاں اس کے بعد ایمان والوں کے لیے اس کے ہدایت اور بشارت ہونے کا ذکر ہے۔ کفار کو چونکہ قرآن پڑھنے سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے وہاں کتاب کا ذکر پہلے فرمایا، کیونکہ کتاب تو ہر حال میں ان پر حجت ہے۔ مومنین کا تعلق قرآن لکھنے سے زیادہ پڑھنے کے ساتھ ہے، اس لیے یہاں قرآن کا ذکر پہلے فرمایا۔ (التحریر والتنویر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر طس (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (آیتیں جو آپ پر نازل کی جاتی ہیں) آیتیں ہیں قرآن کی اور ایک واضح کتاب کی (یعنی اس میں دو صفتیں ہیں قرآن ہونا اور کتاب مبین ہونا) یہ (آیتیں) ایمان والوں کے لئے (موجب) ہدایت اور (اس ہدایت پر جزائے نیک کا) مژدہ سنانے والی ہیں جو (مسلمان) ایسے ہیں کہ (عملاً بھی ہدایت پر چلتے ہیں چنانچہ) نماز کی پابندی کرتے ہیں (جو کہ عبادات بدنیہ میں سب سے بڑی ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں (جو کہ عبادات مالیہ میں سب سے بڑی ہے) اور (عقیدہ کے لحاظ سے بھی ہدایت یافتہ ہیں چنانچہ) وہ آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں (یہ تو ایمان والوں کی صفت ہے اور) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ہم نے ان کے اعمال (بد) ان کی نظر میں مرغوب کر رکھے ہیں سو وہ (اپنے جہل مرکب میں حق سے دور) بھٹکتے پھرتے ہیں (چنانچہ نہ ان کے عقائد درست ہیں نہ اعمال اس لئے وہ قرآن کو بھی نہیں مانتے تو جیسے قرآن اہل ایمان کو بشارت سناتا تھا منکروں کو وعید بھی سناتا ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے (دنیا میں مرنے کے وقت بھی) سخت عذاب (ہونے والا) ہے اور وہ لوگ آخرت میں (بھی) سخت خسارہ میں ہیں (کہ کبھی نجات ہی نہ ہوگی) اور (گو یہ منکر قرآن کو نہ مانیں مگر) آپ کو بالیقین ایک بڑی حکمت والے علم والے کی طرف سے قرآن دیا جا رہا ہے (آپ اس نعمت کے سرور میں ان کے انکار سے غمگین نہ ہو جئے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

طٰسۗ۝ ٠ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۝ ١ۙ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) طس، طاء سے طول اور سین سے خوبصورتی ونزاکت مراد ہے یا یہ کہ ایک قسم ہے یہ سورت قرآن کریم اور ایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو کہ حلال و حرام کو واضح کرنے والی ہیں یہ آیتیں ہیں ایمان والوں کے لیے گمراہی سے ہدایت کے لیے اور جنت کی خوشخبری سنانے والی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ) اگر ” و “ کو واؤ تفسیری مانا جائے تو پھر ترجمہ ہوگا : ” یہ قرآن یعنی کتاب مبین کی آیات ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :1 کتاب مبین کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنی تعلیمات اور اپنے احکام اور ہدایات کو بالکل واضح طریقے سے بیان کرتی ہے ، دوسرا یہ کہ وہ حق اور باطل کا فرق نمایاں طریقے سے کھول دیتی ہے ، اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کا کتاب الہی ہونا ظاہر ہے جو کوئی اسے آنکھیں کھول کر پڑھے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

سورة النمل : (١ تا ٤) سورتوں کے شروع میں جو حرف مقطعات ان کا حال مفصل طور سے سورة بقرہ کے شروع میں بیان ہوچکا ہے لفظ تلک سے یہ سورت اور تمام قرآن کی آیتیں مقصود ہیں اور مبین کے معنی واضح اور ظاہر کے ہیں اور دوسری آیت کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف سے اسی کو ہدایت اور بشارت ہوتی ہے جس نے قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا یقین کیا اور اس پر ایمان لایا اور جو احکام اس میں ہے ان پر عمل کیا فرض نماز پڑھے زکوٰۃ دے اور آخرت کو سچا جاننا کہ مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور نیکی بدی پر جزا و سزا ضرور ملے گی اور جنت اور دوزخ حق ہیں جیسا کہ سورة حم السجدہ میں فرمایا قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھَدْیً وَّشَفَآئٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُوْء مِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِھِمْ وَفُرْ وَّھُوْ عَلَیْھِمْ عَمًٰی اَوْ لٰئِکَ یُنَا دَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَّعِید جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمانداروں کو قرآن سے سوجھ ہے اور روگ کا دفعیہ اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کو اندھاپن ہے ان کی مثال ایسی جیسے کسی کو دور سے بلایا جائے اور وہ نہ سنے غرض اور اسی قسم کی اور آیتیں ہیں پھر فرمایا جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کو چھا کر دکھایا ان کے عملوں کو اس لیے وہ سرگرداں ہیں اپنی گمراہی میں اور یہ سزا ہے ان کو آخرت کے جھٹلانے کی جیسا کہ سورة الانعام میں فرمایا ونقلب افئد تھم وابصار ھم کمالم یؤمنوابہ اول مرۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ سے راہ راست پر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اس واسطے نہ ایسے لوگوں کے دل پر نیک بات کا اثر پڑتا ہے نہ وہ آنکھوں سے اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر فرمایا یہ لوگ ہیں جن کے لیے بری مار ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے یہ حدیث ھدی وبشری للمؤمنین کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی نصیحت سے اچھے ایمان دار لوگ نفع حاصل کرتے ہیں اور بدلوگوں کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے نیک عمل کے قبول ہونے میں عقبیٰ کے ثواب کی نیت اور دنیا کے دکھاوے سے بچنا ضروری ہے اس لیے نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ عقبیٰ کے یقین کا ذکر فرمایا رمضان کے روزے اور حج ہجرت کے بعد فرض ہوئے ہیں اس واسطے مکی آیتوں سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر ١ ؎ چکی ہے (١ ؎ ص ١٨ جلد ہذا۔ ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں بدقرار پاچکے ہیں ان کی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ حدیث زینا لھم اعمالھم کی گویا تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ برے کاموں کو اچھا جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ مجبور کر کے کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس لیے کہ دنیا نیک وبد کے امتحان کے لیے پیدا کی گئی ہے کسی کے مجبور کرنے کے لیے نہیں پیدا کی گئی سوء العذاب سے مقصود دنیا کا عذاب ہے جیسے مثلا مکہ کا قحط جس کا ذکر صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزرچکی ہے کیونکہ آخرت کے عذاب کا ذکر اسی آیت میں جدا آیا ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:1) طس۔ حروف مقطعات ہیں۔ تلک : ای ھذہ۔ سورة ہذا کی طرف اشارہ ہے۔ ایت القران۔ مضاف مضاف الیہ ۔ قران : قرأت الشیء قرانا کے معنی ہیں جمعتہ وضممت بعضہ الی بعض۔ میں نے اس چیز کو اکٹھا کیا اور اس میں نظم پیدا کیا۔ اور ارأت الکتاب کے معنی ہیں میں نے کتاب کو پڑھا ۔ گویا قرآن کے معنی ہیں وہ کتاب جس میں تمام صداقتیں اکٹھی کردی گئی ہوں اور جس میں ہر ایک حصہ کو دوسرے حصہ کے ساتھ ایسا نظم و ربط ہو کہ وہ تمام ایک مجموعہ نظر آئے وکتاب مبین میں واؤعاطف کی ہے۔ کتاب مبین موصوف و صفت مل کر آیات کا مضاف الیہ ہے کیونکہ کتاب مبین کا عطف القرآن پر ہے کعب احدی الصفتین علی الاخری جیسا کہ دو صفتوں میں سے ایک کا دوسرے پر عطف ہو مثلا ھذا فعل السخی والجواد الکریم۔ یہ قرآن اور ایک واضح کتاب کی آیات ہیں۔ یہاں قرآن کو معرفہ اور کتاب کو نکرہ لایا گیا ہے لیکن سورة الحجر میں قرآن کو نکرہ اور کتاب کو معرفہ کیا گیا ہے ارشاد ہے تلک ایت الکتاب وقران مبین (15:1) اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن اور کتاب کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں اس کلام الٰہی کے علم (نام) ہیں جو حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ دوسری یہ کہ یہ اس کلام کی صفتیں ہیں یعنی قرآن سے مراد مقرو (پڑھا جانے والا) اور کتاب سے مکتوب جو لکھا جاتا ہے جہاں انہیں معرفہ ذکر کیا جائے گا وہاں یہ بحیثیت علم (نام) مذکور ہیں اور جہاں نکرہ وہاں بحیثیت صفت (مظہری) ۔ بعض نے کتاب مبین سے لوح محفوظ مراد لی ہے اور اس کی تنکیر عظمت شان کے لئے ہے۔ (ضیاء القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ ” کھلی کتاب “ یعنی جو مضمون اور مدعا بیان کرنے میں بالکل صاف اور واضح ہے۔ اس سے مراد خود قرآن ہے یا یہ سورة یا لوح محفوظ۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة نمل رکوع نمبر 1: آیات 1 تا 14 ۔ اسرار و معارف : طس۔ یہ قرآن کی آیات ہیں جو ایک کھلی کتاب ہے یعنی جو حقائق کو واضح کرکے بیان کرتی ہے اور باعث ہدایت بھی ہے اور نوید کامرانی بھی ان لوگوں کے لیے جو اس پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے یقین کی دلیل یہ ہے کہ عملاً اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور عبادات کے ادا کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں یعنی کردار میں بھی اور معیشت میں بھی اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور یہ سب کسی دنیاوی فادے یا لالچ میں نہیں کرتے بلکہ انہیں آخرت اور روز جزا پر یقین کامل ہے لہذا اس روز کی کامیابی کے خواہشمند ہیں۔ اور ایسے لوگ جو آخرت پر یقین نہیں کرتے ان کو سزا کے طور پر ان کے اعمال بدہی خوبصورت دکھائے جاتے ہیں اور یوں وہ انہیں کاموں میں مزید آگے بھٹکتے چلے جاتے ہیں ایسے لوگ ایک دردناک عذاب میں مبتلا رہتے ہیں اور آخرت میں بھی بہت بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں لیکن ان کے نہ ماننے سے قرآن کی صداقت پہ تو حرف نہیں آسکتا۔ کہ یہ تو آپ کے پاس اللہ کی طرف سے جو بہت بڑا علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے نازل ہو رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے آپ دل برداشتہ نہ ہوں کہ پہلے انبیاء بھی بڑی صداقتوں اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے مگر بدنصیب لوگوں نے ان کی بات ماننے سے بھی انکار کردیا ۔ جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کہ جب مصر کو واپس روانہ ہوئے گھر والے بھی ساتھ تھے کہ جنگل میں راستہ بھول گئے اور سردی بھی تھی ایک طرف وادی میں آگ نظر آئی تو گھر والوں سے فرمایا کہ آپ بیٹھیں میں آگ دیکھ رہا ہوں امید ہے وہاں کسی سے راستہ بھی پوچھ لوں گا اور آپ کے لیے لکڑی سلگا کرلے آؤں گا تاکہ سرد رات میں تاپ سکو۔ مگر جب قریب پہنچے تو آواز آئی کہ برکت ہو ان پر بھی جو آگ کے اندر ہیں اور اس پر بھی جو پاس کھڑے ہیں۔ انوارات الہیہ کا مشاہدہ اور کلام باری : گویا وہ دنیا کی آگ نہ تھی انوارات تھے جن میں فرشتے بھی تھے اور ان پر سلامتی بھیجی گئی مگر کلام اللہ کا ذاتی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) نے بےکیف اور بےجہت سنا یعنی نہ اس کی کوئی کیفیت متعین ہوسکتی تھی اور نہ خاص جگہ بلکہ آواز ہر طرف سے آ رہی تھی جیسے صرف کان ہی نہیں سن پا رہے تھے بلکہ سارا بدن پاؤں سے سر تک کان کا کام کر رہا تھا۔ تجلی ذاتی تھی یا نہیں : یہ سوال کہ یہ انوارات تجلی ذاتی تھے یا نہیں اس پر مفسرین کرام نے بہت کچھ لکھا ہے مگر فقیر کو جو علم نصیب ہے اس کے مطابق یہ تجلی صفاتی تھی کہ اس میں ملائکہ بھی تھے نیز یہ تعلیم کے لیے تھی اور علم صفت ہے رہا یہ مسئلہ کہ نظر آنے والی آگ میں خود اللہ موجود تھے تو اس کی تردید فرما دی گئی کہ اللہ حلول سے پاک ہے وہ ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات کسی وجود میں حلول کرے بلکہ وہ سارے وجودوں کا خالق اور باقی رکھنے والا ہے نگہبان ہے لہذا خطاب فرماتے ہوئے مزید ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ میں اللہ ہوں جو غالب اور حکمتوں والا ہے اور آپ کو یہاں بلانا میری حکمت کا تقاضا ہے اب آپ میری قدرت کا تماشہ دیکھیں ذرا اس ہاتھ کی لاٹھی کو ڈال دیں جب انہوں نے عصا ڈال دیا تو ایک بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے اور یوں بھاگے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا تو ارشاد ہوا آپ ڈریں نہیں آپ کو تو رسالت عطا ہوئی ہے اور میرے رسول میری بارگاہ میں ڈرا نہیں کرتے۔ انبیاء میں بھی فطری خصوصیات ہوتی ہیں : اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ انبیاء کرام میں بھی انسانی فطری خصوصیات ہوتی ہیں اگر کہیں ان کا اظہار نہ ہو تو وہ بطور معجزہ ہوتا ہے۔ اور فرمایا آپ بھلا کیوں ڈریں میری بارگاہ میں تو اس گناہگار کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں جس نے گناہ سے توبہ کرکے نیکی کا راستہ اختیار کرلیا ہو کہ میں بخشنے والا اور مہربان ہوں اب دوسرا معجزہ یہ ہے اپنا ہاتھ گریبان کے اندر کیجیے اور باہر نکالیں گے تو چاند کی طرح روشن ہوگا اور ان سمیت ایسے نو معجزات آپ کو دئیے جاتے ہیں اب آپ فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیں کہ وہ گناہ آلود زندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور معجزات ظاہر فرما کر اللہ کی طرف دعوت دی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ سب جادو ہے۔ کفر جحودی : یہ ان کا کفر جحودی تھا کہ ان کے دل بھی مان چکے تھے کہ یہ سب جادو نہیں اللہ کے عطا کردہ معجزات ہیں مگر ضد کے باعث انکار کر رہے تھے اور یہ بہت بڑا ظلم اور اظہار تکبر تھا جس کے وہ مرتکب ہوئے چناچہ دیکھ لیجیے کہ ایسے فسادیوں کا کیسا برا انجام ہوا اور غرق ہو کر تباہ ہوگئے اور آگ میں داخل کیے گئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 6 : بشری (خوش خبری۔ اچھی اطلاع) ‘ یئو تون (وہ دیتے ہیں) ‘ زینا (ہم نے خوبصورت بنادیا) ‘ یعمھون (وہ اندھے بن رہے ہیں) ‘ الا خسرون (زیادہ نقصان اٹھانے والے) ‘ تلقی (دیا گیا ہے) ‘ لدن (قریب ۔ نزدیک) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 : ٭اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا فرمائے تھے جو راہ حق سے بھٹک جانے والوں کو کھلی آنکھوں سے نظر آتے تھے مگر سچائیوں کا انکار کرنے والوں نے ان کا بھی انکار کردیا اور اللہ کے غضب کا شکار ہوگئے۔ ان ہی انبیاء کرام میں سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی تھے جن کو اللہ نے نہ صرف انسانوں اور جنات پر حکومت عطا فرمائی تھی بلکہ چرند ‘ پرند ‘ درند ہواؤں اور ہر مخلوق کو ان کے تابع کردیا تھا۔ وہ ہر جاندار کی بولی سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ” وادی النمل “ یعنی چیونٹیوں کے میدان سے گذر رہے تھے ‘ چیونٹیوں کے سردار نے کہا کہ تم اپنی حفاظت کرو کہیں سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر تمہیں روند نہڈالے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) یہ سن کر ہنس پڑے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں ہر جاندار کی بولی اور اس کی سمجھ عطا فرمائی ہے۔ چونکہ اس میں ” النمل “ کا ذکر آیا ہے جس کے معنی چیونٹی کے ہیں اسی لئے اس سورت کا نام النمل رکھا گیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ سنا کر اللہ نے کفار مکہ سے فرمایا ہے کہ تمہارا یہ حال ہے کہ معمولی معمولی سرداریوں اور دولت کے گھمنڈ کر کے تم اللہ کے نبی اور ان کے جاں نثاروں پر ظلم توڑنے سے باز نہیں آتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جن کو اللہ نے ہر مخلوق پر سلطنت عطا کی تھی وہ چیونٹیوں کے ساتھ بھی انصاف کرتے تھے اور اللہ کی کسی مخلوق کو ستاتے نہیں تھے۔ ٭سورۃ النمل میں بنیادی عقیدوں کی اصلاح یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ‘ رسول کی رسالت ‘ آخرت پر یقین اور حسن عمل کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے اس کائنات کا خالق ‘ مالک ‘ حقیقی معبود اور کار ساز صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ وہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کو اپنی قدرت اور اپنی مرضی سے چلارہا ہے۔ وہ اس کائنات کے چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ البتہ جب انسان اپنے برے اعمال اور کفر و شرک سے کائنات کا تو ازن خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاکیزہ نفوس بندوں یعنی پیغمبروں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ان کی بری روش اور بد اعمالیوں کی اصلاح کی طرف متوجہ کرسکیں۔ اگر وہانبیاء کرام (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود اپنی گمراہی پر قائم رہتے ہیں تو ان پر عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ بنیوں اور رسولوں کا یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے شروع کیا گیا اور آخر میں اس نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا جن کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری رہے گی تمام نبیوں کی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ جو شخص بھی اللہ کی ذات اور صفات میں کسی طرح بھی شرک کرتا ہے وہ ایک بہت بڑا ظلم کرتا ہے جسے اللہ معاف نہیں کرتا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی اور آخری رسول بنا کر بھیجا ہے وہیں آپ کو ایک ایسی عظیم کتاب بھی عطا فرمائی گئی ہے جو قیامت تک آنے والوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کی محفوظ کتاب ہے۔ وہ کتاب اور اس کی آیات واضح اور کھلی ہوئی دلیلوں کے ساتھ نازل کی گئی ہیں جو نہ صرف اہل ایمان کے لئے ہدایت کے اصولوں کی روشن کتاب ہے بلکہ ان لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ لیکن یہ صاحبان ایمان کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ وہ لوگ جو نمازوں کو قائم کرتے ‘ زکوۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین کامل رکھنے والے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو آخرت کی زندگی ‘ اس کے حساب کتاب اور اچھے برے اعمال کے نتائج پر ایمان نہیں رکھتے وہ انتہائی ناکام لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے یہ بدلہ لیتا ہے کہ ان کے برے اور گندے اعمال کو ان کی نظروں میں خوبصورت بنا دیتا ہے اور وہ اپنے اعمال پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یہ خود فریبی ایک دن ان کو اللہ کے عذاب کا شکار بنا دیتی ہے اور ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ پہنچیں گے۔ اس وقت انہیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ وہ کس قدر نقصان اٹھانے والے بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ لوگوں کی بداعمالیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ آپ اللہ کے کلام کو ہر شخص تک پہنچانے کی جدوجہد کیجئے کیونکہ یہ قرآن کریم ایسی عظیم کتاب ہے جو اس علیم وخبیر اور حکمت و دانائی والی ذات کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے لئے کیا بہتر ہے اور انکی بھلائی کن کن چیزوں میں پوشیدہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اسمیں دو صفتیں ہیں، قرآن ہونا اور کتاب مبین ہونا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٠٧١ تشریح آیات ١………تا……٦ طس تلک ایت القرآن و کتاب مبین (١) حروف مقطعات دراصل اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ یہ سورت اسی مواد پر مشتمل ہے جو ان حروف سے بنا ہے۔ پورا قرآن بھی اسی سے بنا ہے۔ یہ مواد عام عربی دانوں کے دسترس میں ہے لیکن وہ اس مواد سے ایسی کتاب تصنیف کرنے سے عاجز ہیں۔ باوجود بار بار کی تحدی اور چیلنج کے۔ یہاں کتاب سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ یہاں قرآن مجید پر کتاب (خط) کا اطلاق اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کتاب اور قریش کی جانب سے اس کے حوالے سے ردعمل اور حضرت سلیمان کے خط اور ملکہ سبا کی جانب سے اس کے بارے میں ردعمل کے درمیان مقابلہ کیا جائے ، حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھے۔ اس تمہید اور چیلنج کے بعد قرآن کریم کا ذکر اور اس کی تعریف یوں ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ کتاب مبین کی آیات ہیں جو مومنین کے لیے ہدایت اور بشارت ہیں، کافروں کے لیے ان کے اعمال مزین کردیئے گئے ہیں یہاں سے سورة النمل شروع ہو رہی ہے۔ نمل چیونٹی کو کہتے ہیں اس سورت کے دوسرے رکوع میں ایک قصہ بیان فرمایا ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر آ رہا تھا تو ایک چیونٹی نے اپنی ہم جنس چیونٹیوں سے کہا کہ تم لوگ اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہارا چورا بنا کر رکھ دیں، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورة النمل معروف ہوا۔ اول تو یہ فرمایا کہ یہ قرآن کی اور واضح طور پر بیان کرنے والی کتاب کی آیات ہیں کتاب مبین سے بھی قرآن مجید ہی مراد ہے۔ جیسا کہ سورة یوسف کے شروع میں (تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتٰبٌ مُّبِیْنَ ) فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یہ تمہید اور ترغیب الی القرآن ہے۔ ” کتاب مبین “ سے مراد قرآن ہے از قبیل عطف صفت علی الصفۃ کیونکہ القرآن اور کتاب مبین دونوں ایک ہی چیز کی صفتیں ہیں۔ والمراد بہ القران و عطفہ علیہ مع اتحادہ معہ فی الصدق کعطف احدی الصفتین علی الاخری کما فی قولھم ھذا فعل السخی والجواد الکریم (روح ج 19 ص 155) ، ” کتاب مبین “ سے جنس کتاب مراد ہے جو تمام کتب سابقہ کو شامل ہے اس صورت میں ” ایت القران “ سے اس طرف اشارہ ہوگا کہ اس سورت میں بعض مضامین ایسے مذکور ہیں جو کتب سابقہ میں نہیں تھے جیسا کہ ” ان ھذا القران یقص علی بنی اسرائیل اکثر الذی ھم فیہ یختلفون “ سے معلوم ہوتا ہے۔ اور ” کتاب مبین “ سے ان مضامین کی طرف اشارہ ہے جو کتب سابقہ میں مذکور تھے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ 3:۔ یہ ” ایت القران “ سے حال ہے یا ” تلک “ کے لیے خبر بعد خبر ہے (مدارک) یعنی اس سورت کے مذکور چاروں قصوں کے ضمن میں توحید کے جو مضامین مذکور ہیں ان میں مومنوں کے لیے ہدایت اور صراط مستقیم کی طرف صحیح راہنمائی ہے نیز مذکورہ اوصاف سے متصف مومنوں کے لیے بشارت کا ذکر ہے۔ ” الذین یقیمون الصلوۃ الخ “ یہ سورت ان مومنوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے جو نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) طس وقف یہ سورت قرآن کریم کی اور واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ یعنی وہ کتاب جس کے احکام واضح ہیں۔