Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 14

سورة النمل

وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ظُلۡمًا وَّ عُلُوًّا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿٪۱۴﴾  16

And they rejected them, while their [inner] selves were convinced thereof, out of injustice and haughtiness. So see how was the end of the corrupters.

انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَحَدُوا بِهَا ... And they belied them, means, verbally, ... وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ... though they themselves were convinced thereof. means, they knew deep down that this was truth from Allah, but they denied it and were stubborn and arrogant. ... ظُلْمًا وَعُلُوًّا ... wrongfully and arrogantly, means, wronging themselves because this was the despicable manner to which they were accustomed, and they were arrogant because they were too proud to follow the truth. Allah said: ... فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ So, see what was the end of the mischief-makers. meaning, `see, O Muhammad, what were the consequences of their actions when Allah destroyed them and drowned every last one of them in a single morning.' The point of this story is: beware, `O you who disbelieve in Muhammad and deny the Message that he has brought from his Lord, lest the same thing that befell them befall you also.' But what is worse, is that Muhammad is nobler and greater than Musa, and his proof is stronger than that of Musa, for the signs that Allah has given him are combined with his presence and his character, in addition to the fact that previous Prophets foretold his coming and took a covenant from the people that they would follow him if they should see him, may the best of blessings and peace from his Lord be upon him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون کے ہمراہ فرعون کے دربار میں پہنچے اسے اللہ کا پیغام بھی پہنچایا اور اپنی رسالت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات بھی دکھلائے لیکن ان لوگوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے یا شعبدہ بازیاں کہہ دیا۔ حالانکہ ان کے دلوں میں یہ یقین آگیا تھا۔ کہ یہ معجزات فی الواقعہ اللہ کی عطا کردہ نشانیاں ہیں۔ جادو کے کرشمے نہیں ہیں۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) فی الواقعہ اللہ کے رسول ہیں اور دل میں یقین کے برعکس ان کا سزان سے انکار کردینا محض تکبر کی بنا پر تھا اور یہ بہت بڑی بےانصافی کی بات تھی۔ واضح رہے کہ تصدیق و تکذیب کے لحاظ سے ایمان اور کفر کے چار قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ دل بھی رسالت کی تصدیق کرے اور زبان سے بھی اقرار کرے یہ صحیح اور خالص ایمان ہے۔ دوسرے یہ کہ دل بھی تکذیب کرے اور زبان بھی انکار کرے۔ یہ خالص کفر ہے۔ تیسرے یہ کہ دل تکذیب کرے یعنی دل کفر ہو اور زبان سے ایمان کا اقرار کرے۔ یہ نفاق ہے۔ چوتھے یہ کہ دل تصدیق کرے لیکن زبان سے انکار کرے یہ جحور ہے۔ ان میں صرف پہلی قسم اللہ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے۔ اور تیسری اور چوتھی قسم بھی اگرچہ کفر میں شامل ہیں لیکن یہ بدترین قسم کا کفر ہیں۔ اور ایسے لوگ عام کافروں سے زیادہ سزا یا عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اپنے دلی کیفیت کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ۔۔ : ” أَیْقَنَ یُوْقِنُ “ کا معنی بھی یقین کرنا ہے، ” اِسْتَیْقَنَ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی کیا گیا ہے ” اچھی طرح یقین کرلیا۔ “ جحود یہ ہے کہ دل سے ایک بات کو درست سمجھتے ہوئے زبان سے اس کا انکار کر دے، یعنی فرعون اور اس کی قوم نے ان معجزوں کے سچا ہونے کے یقین کے باوجود ان کا انکار کردیا۔ یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہی تھی : (قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) [ بني إسرائیل : ١٠٢ ] ” بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا۔ “ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا : یعنی پوری طرح یقین کے باوجود ان کے انکار کی دو وجہیں تھیں، ایک ظلم، دوسرا علو۔ ظلم یہ کہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول ماننے کے بجائے جھوٹا کہہ دیا، بلکہ جادوگر قرار دے دیا اور علو کا بیان ان آیات میں ہے : (ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ڏ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَ فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) [ المؤمنون : ٤٥ تا ٤٧ ] ” پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی آیات اور واضح دلیل دے کر بھیجا۔ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انھوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔ تو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔ “ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور آپ کو جھٹلانے والوں کے لیے وعید ہے۔ ” فَانْظُرْ “ (پس دیکھ) کا مخاطب ہر شخص بھی ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۝ ٠ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ١٤ۧ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا ھکم لگاتے ہیں ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین سب درہم برہم ہوجائيں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اور غضب یہ کہ ظلم وعناد اور تکبر کی وجہ سے ان معجزات کے منکر ہوگئے حالانکہ ان کے دلوں نے اس بات کا یقین کرلیا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں تو آپ دیکھیے کہ ان مشرکین یعنی فرعون اور اس کی قوم کا کیسا برا انجام ہوا کہ ہم نے سب کو دریا میں غرق کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط) ” اس فقرے میں ظُلْمًا وَّعُلُوًّا کا تعلق آغاز کے لفظ وَجَحَدُوْا کے ساتھ ہے۔ مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اگرچہ انہوں نے بظاہر ان تمام نشانیوں کو جادو قرار دے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن ان کا یہ انکار سراسر ناانصافی اور سرکشی پر مبنی تھا ‘ کیونکہ ان کے دل یہ حقیقت تسلیم کرچکے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور یہ تمام خرق عادت واقعات حقیقت میں معجزات ہیں۔ ممکن ہے ان کے عوام کو یہ شعور نہ ہو لیکن کم از کم فرعون اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کی اس وقت یہی کیفیت تھی۔ (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) ” اس رکوع میں اجمالاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ تھا ‘ اب اگلے رکوع سے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 As mentioned at other places in the Qur'an, whenever a plague befell Egypt as foretold by the Prophet Moses, Pharaoh would say, "O Moses, pray to your Lord to remove this plague; then we shall submit to what you say." But as soon as the plague was removed, Pharaoh would break his promise. (Al-A'raf: 134, Az-Zukhruf: 49-50). The Bible also has mentioned it (Exod., chs. 8 to 10), and otherwise also it could not be imagined that the occurrence of a famine throughout the country and the coming of a violent storm and the incidence of the locusts and the frogs and the weevils in such abundance could be due to any trick of magic. The miracles were so manifest that even a stupid person could not help realizing that the occurrence of the plagues on such a large scale and their removal at the Prophet's prayer could be only due to Allah, Lord of all Creation's power and authority. That is why the Prophet Moses had told Pharaoh plainly: "You know it full well that none but the Lord of the heavens and the earth has sent down these Signs." (Bani lsra'il:102). But the reason why Pharaoh and his chiefs rejected Moses knowingly wa: "What! should we believe in these two men who are human beings like curselves and whose people are our bondsmen'?" (AIMu'minun: 47)

سورة النمل حاشیہ نمبر :17 قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسی علیہ اللام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصڑ پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسی سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو ، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے ، مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اسی ہٹ دھرمی پر تل جاتا تھا ( الاعراف ، آیت 134 ، الزخرف ، آیت 50 ، 49 ) بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ( خروج ، باب 8 تا 10 ) اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصور میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سرسریوں کے بے شمار لشکروں کا امڈ آنا کسی جادو کا کرشہ ہوسکتا ہے ، یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک یر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر پر ان کا دور ہوجانا صرف اللہ رب العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت موسی نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں ۔ ( بنی اسرائیل ، اایت 1002 ) لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے س رداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے؟ ( المومنون ، آیت 47 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: اس انجام کا مفصل ذکر سورۂ یونس : 90 تا 92 اور سورۃ شعراء : 60 تا 66 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ فرعون کے زمانہ کے بڑے بڑے جادوگر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ نہ کرسکے اور حضرت موسیٰ کے مقابلہ سے عاجز آن کر آخر کو مسلمان ہوگئے تو فرعون کے ساتھ کے لوگ اپنے دل میں یہ سمجھ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کا معاملہ بناوٹی اور جادو کا نہیں ہے کیونکہ اگر حضرت موسیٰ کا معاملہ بناوٹی اور جادو کا ہوتا تو اس طرح کے جادو گر جن کے باپ دادا سے جادو کا پیشہ چلا آتا تھا اسی کام کی تنخواہ اور جاگیر فرعون کی طرف سے ان کی مقرر تھی وہ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) سے عاجز نہ ہوتے لیکن باوجود اس بات کے دل میں سمجھ جانے کے وہ لوگ ظاہر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے اور انجام یہ ہوا کہ غرق ہو کر سب غارت ہوگئے یہی حال قریش کا تھا کہ بارہ تیرہ برس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے مکہ میں رہنے اور طرح طرح کے معجزہ دیکھنے سے ان کے دلوں کو تو یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہیں کیونکہ ان کے جتنے کام ہیں وہ بغیر تائید یعنی کے ممکن نہیں لیکن باوجود اس بات کے دل میں سمجھ جانے کے قریش بھی شیطان کے بہکاوے سے ظاہر میں ایمان نہ لاتے تھے اس لیے قریش کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ بیان فرما کر سمجھا دیا کہ یہ ضروری فہمایش طے ہوجانے کے بعد اگر یہ لوگ نبی وقت کی اطاعت قبول نہ کریں گے تو اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو انجام فرعون اور اس کا قوم کا ہوا اللہ کا وعدہ سچا ہے آخر وہی انجام ہوا کہ قریش میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ دنیا میں طرح طرح کی خواری سے ہلاک ہوئے اور عاقبت کا عذاب جدا اپنے سر لیا غرض ہر شخص کی نجات کی صورت اس میں ہے کہ ہر طرح ہر حال میں اللہ کے رسول کی اطاعت قبول کرے ورنہ دین و دنیا میں خوار ہوگا صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوٰۃ باب الا عتصام بالکتاب والنسۃ فصل اول ‘ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے لیکن وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس نے میری اطاعت سے کسی قدر بھی انکار کیا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک طرح کا انکار تو کفر ہے وہ یہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم اللہ کے رسول لائے ہیں اس کو سرے سے کوئی شخص سچا رسول جانے ہی نہیں یہ انکار تو کفار کی عادت ہے کلمہ گو لوگوں میں اگرچہ یہ عادت تو نہیں ہے لیکن جو شخص کلمہ گو ہو کر رسول وقت کے قول کی مخالف کسی رسم دنیایا کسی خواہش نفسانی پر چلے گا وہ بھی رسول وقت کا پورا اطاعت گزار نہیں کہلا سکتا اور آپ نے فرمایا ہے کہ اس طرح کا شخص پورا مسلمان نہیں ہے امام نووی نے اربعین میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی صحیح روایت ٢ ؎ سے جو حدیث روایت کی ہے (٢ ؎ ایضا فصل دوسری۔ ) اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں کہلا سکتا جب تک اپنی ہر طرح کی خواہش دلی کو اللہ کے احکام شریعت کے مقابلہ میں نہ چھوڑ دے جن احکام کو میں اللہ تعالیٰ کے طرف سے لایا ہوں حاصل معنی حدیث کے یہ ہیں کہ شریعت کے حکم کے آگے اور کوئی امر قابل اطاعت نہیں ہے حکم شرعی کے مخالف جو شخص کسی امر کی اطاعت کرے گا وہ اسی امر کا اطاعت گزار کہلاوے گا شریعت کا اطاعت گزرا نہیں کہلا سکتا اور جو شخص شریعت کا اطاعت گزار نہ ہو وہ ایماندار کیوں کر کہلا سکتا ہے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:14) جحدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ جحد وجحود مصدر (باب فتح) انہوں نے انکار کیا۔ جحد وجحود کے معنی ہیں کہ جس چیز کا دل میں اثبات ہو اس کی نفی اور جس کی نفی ہو اس کا اثبات کرنا۔ واستیقنتھا۔ ماضی واحد مؤنث غائب ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ استیقان (استفعال) یقین کرنا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ جو آیات کی طرف راجع ہے۔ واو حالیہ ہے حالانکہ (ان کے دلوں نے) ان معجزات کا یقین کرلیا تھا۔ ای علمت انفسھم علما یقینا انھا ایات من عند اللہ تعالیٰ ۔ حالانکہ ان کے دلوں نے یقینی طور پر جان لیا تھا کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ استیقان : ایقان سے زیادہ بلیغ ہے۔ ظلما وعلوا۔ (محض ظلم اور تکبر کی بناء پر) دونوں ضمیر فاعل جحدوا سے حال ہیں۔ علو علا یعلوا کا مصدر ہے۔ جس کے معنی ہیں بلند ہونا۔ سرکشی کرنا۔ کسی پر غلبہ کرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ سب کے سب بحر قلزم میں غرق کردیئے گئے ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑا گیا۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کہ دنیا میں غرق اور آخرت میں حرق کی سزا پائی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فائدہ : (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ) سے معلوم ہوا کہ توحید و رسالت کا یقین ہوجانا ایمان نہیں، یقین بھی ہو اور یقین کے ساتھ تسلیم بھی ہو (جسے ماننا کہتے ہیں) تب ایمان کا تحقق ہوتا ہے۔ آج کل کافروں میں بکثرت ایسے لوگ ہیں جو اسلام کو دین حق سمجھتے ہیں اس بارے میں مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن اسلام قبول نہیں کرتے یہ جحود اور عناد ہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ “ ظلما و علوا ” یہ دونوں “ جحدوا ” کے مفول لہ ہیں اور “ واستیقنتہا انفسہم ” جملہ “ جحدوا ” کے فاعل سے حال ہے۔ قوم فرعون کو دل سے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے برحق ہونے کا پورا پورا یقین تھا لیکن انہوں نے محض بےانصافی اور غرور و استکبار کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔ “ فانظر کیف کان الخ ”: پھر دیکھ لو ان معاندوں اور سرکشوں کا کیا حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کو غرق کر کے ان کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے مصیبتوں سے نجات دی اور دنیا و آخرت میں آرام و راحت اور اعزازو اکرام عطا فرمایا۔ اس میں مومنوں کے لیے بشارت کا پہلو ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور فرعون کی قوم والوں نے ازروئے ظلم اور اقتدار کے غرور وتکبر سے ان تمام نشانات اور معجزات کا انکار کردیا حالانکہ ان کے جی اور ان کے دل ان نشانات کا یقین کرچکے تھے لہٰذا اے پیغمبر دیکھئے ان مفسدوں اور شریروں کا انجام کیسا ہوا یعنی پے درپے نشانات کو دیکھ کر دل تو قائل ہوگئے تھے لیکن اقتدار کا گھمنڈ غرور تکبر اور ناانصافی اور ظلم کی عادت ان خرابیوں کے باعث ضمیر کے خلاف انکار کرتے رہے لہٰذا دیکھ لیجئے کہ فساد برپا کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا کہ دنیا میں غرق کئے گئے اور قیامت میں جہنم کے گھاٹ اتارے گئے۔