Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 19

سورة النمل

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۹﴾

So [Solomon] smiled, amused at her speech, and said, "My Lord, enable me to be grateful for Your favor which You have bestowed upon me and upon my parents and to do righteousness of which You approve. And admit me by Your mercy into [the ranks of] Your righteous servants."

اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ... So he smiled, amused at her speech and said: "My Lord! Grant me the power and ability that I may be grateful for Your favors which You have bestowed on me and on my parents, and that I may do righteous good deeds that wi... ll please You, meaning: `inspire me to give thanks for the blessings that You have bestowed upon me by teaching me to understand what the birds and animals say, and the blessings that You have bestowed upon my parents by making them Muslims who believe in You.' ... وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ... and that I may do righteous good deeds that will please You, means, `deeds that You love which will earn Your pleasure.' ... وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ and admit me by Your mercy among Your righteous servants. means, `when You cause me to die, then join me with the righteous among Your servants, and the Higher Companion among Your close friends.' رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ "My Lord! Grant me the power and ability that I may be grateful for Your favors which You have bestowed on me and on my parents, and that I may do righteous good deeds that will please You, and admit me by Your mercy among Your righteous servants.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔ 192اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآل... ہ وسلم) نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔ صحیح بخاری۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] آپ نے چیونٹی کی یہ بات سمجھ کر فرط سرور و انبساط سے ہنش دیئے اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ پھر دست بدعا ہو کر فرمایا : پروردگار ! مجھے ان نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان لوگوں کے ہمراہ نماز استسقاء...  کے لئے ایک میدان کی طرف نکلے۔ وہاں ایک چیونٹی کو دیکھا جو چت لیٹ کر اور اپنے پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے اللہ سے دعا کر رہا تھی کہ یا اللہ ! میں بھی تیری مخلوق ہوں اگر تو کھانے پینے کو نہ دے گا تو میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں یا ہمیں کھانے کو دے یا مار ڈال۔ حضرت سلیمان نے چیونٹی کی یہ دعا سن کر لوگوں سے فرمایا : اب اپنے اپنے گھروں میں لوٹ جاؤ۔ ایک چیونٹی نے تمہارا کام پورا کردیا۔ اب انشاء اللہ بارش ہوگی۔ ) دارقطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستسقاء فصل ثالث ( [٢٢] یہاں اوزعنی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وزع کا لغوی معنی روکتا یا روکے رکھتا ہے۔ اور وزع الجیش یعنی فوج کو ترتیب دار صفوں میں رکھنا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) دعا یہ فرما رہے ہیں کہ جس قدر تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعامات کی بارش کی ہے۔ اس پر کہیں میرا نفس بےقابو اور بےلگام ہو کر سرکشی کی راہ نہ اختیار کرلے۔ جسیا کہ عموماً اللہ کی طرف سے انعامات کی فراوانی اکثر لوگوں کے ذہنوں کی بگاڑ دیتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں اور ایسی ژہنیت سے روکے رکھنا اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں ان نعمتوں پر تیرا شکر گزار بندہ بنوں اور وہی کام کروں جو تجھے پسند ہیں۔ عقل پرستوں نے اس وادی نمل کے قصہ میں بھی اپنی عقل کی جولانیاں دکھاوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی نمل فلاں مقام پر ایک بستی کا نام ہے اور نمل ایک قبیلہ کا نام تھا۔ اس کے افراد بھی نمل کہلاتے تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) کا لاؤ لشکر دیکھ کر ایک نملہ نے دوسرے نملہ سے یہ بات کہی تھی کہ اس تاویل یا تحریف میں جتنا وزن ہوسکتا ہے۔ وہ ان آیات کے سیاق وسباق میں رکھ کر دیکھ لیجوے کہ آیا اس تاویل میں کیوں معقولیت نظر آتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا : تبسم بعض اوقات غصے اور ناراضی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، جیسا کہ کعب بن مالک (رض) کی حدیث توبہ میں ہے : ( تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ) [ بخاري : ٤٤١٨ ] کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دیکھ کر مسکرائے، غصے والے کی طرح مسکرانا۔ تبسم کے بعد ” ضَاحِكًا...  “ اس لیے فرمایا کہ یہ مسکراہٹ ہنسنے کا پیش خیمہ تھی، جو خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسکرانے اور ہنسنے کی وجہ ایک تو چیونٹی کی دانش مندی اور اپنی قوم کی خیر خواہی پر تعجب تھا، دوسری وجہ اپنی نیک شہرت پر خوشی تھی کہ چیونٹیاں تک جانتی ہیں کہ سلیمان دانستہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔۔ : چیونٹی کی آواز سن لینا، پھر اس کی بات سمجھ لینا، پھر اپنی نیک شہرت، یہ سب ایسی چیزیں تھیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا دل فخر و غرور کے بجائے شکر کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ مگر یہ سوچ کر کہ میں اس نعمت کا اور ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق عطا کرنے کی دعا کی۔ والدین پر نعمت بھی آدمی کے حق میں نعمت ہوتی ہے۔ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ : عمل صالح وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا ہونے پر عمل کی فکر دامن گیر ہوئی، کیونکہ عمل کے بغیر علم انسان کے خلاف حجت ہوتا ہے۔ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے صالح بندوں میں شمولیت اور جنّت کا حصول اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : ( لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ لَا، وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَۃٍ ) [ بخاري، المرضٰی، باب تمني المریض الموت : ٥٦٧٣ ] ” کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں ! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ “ 3 سلیمان (علیہ السلام) نے نبی ہو کر صالحین میں داخل ہونے کی دعا کیوں کی ؟ دیکھیے سورة یوسف (١٠١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْ‌ضَاهُ (and that I do the good deeds You like - 27:19). Here رضا (liking) means acceptance. Thus the meaning is ` Ya Allah! Grace me with Divine help for such righteous deeds which are acceptable to You&. From this it is argued in Ruh ul-Ma’ ani that it is not necessary for the righteous deeds to be accepted, but their acceptance is dependent on certain conditions... . It is further explained that there is no relation between righteousness and acceptance either rationally or in religious law. It is for this reason that the prophets used to pray for the acceptance of their righteous deeds. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and Ismail (علیہ السلام) prayed while constructing the House of Allah رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا (Our Lord accept from us - 2:127). It shows that after doing a good deed, one should not be complacent, but should pray to Allah for its acceptance. Despite having done good deeds and their acceptance the entry into Paradise will not be possible without the grace of Allah وَأَدْخِلْنِي بِرَ‌حْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (And admit me, by your mercy, among your righteous slaves - 27:19). Despite having performed good deeds and their acceptance, the entry into Paradise will depend on the grace and kindness of Allah Ta’ ala. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that no one will enter into Paradise relying only on his deeds. So the companions enquired from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) |"Even you too?|", and he answered |"Yes, me too, but I am surrounded by Allah&s favour and grace|". (Ruh u1-Ma’ ani) Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was also praying for the grace of Allah for the entry into Paradise in these words ` O Allah, grace me also with your favour so that I become entitled to enter Paradise&.  Show more

وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ ، یہاں رضا بمعنے قبول ہے۔ معنے یہ ہیں کہ یا اللہ مجھے ایسے عمل صالح کی توفیق دیجئے جو آپ کے نزدیک مقبول ہو۔ روح المعانی میں اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ عمل صالح کے لئے قبولیت لازم نہیں ہے بلکہ قبولیت کچھ شرائط پر موقوف ہوتی ہے اور فرمایا کہ صالح اور مقبول ہونے م... یں نہ عقلاً کوئی لزوم ہے نہ شرعاً اسی لئے انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے کہ اپنے اعمال صالحہ کے مقبول ہونے کی بھی دعا کرتے تھے جیسے حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا فرمائی، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا، اس سے معلوم ہوا کہ جو عمل نیک ہے صرف اس کو کر کے بےفکر ہونا نہیں چاہئے، اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرے کہ اس کو قبول فرما دے۔ عمل صالح اور مقبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا بغیر فضل خداوندی کے نہیں ہوگا : وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ، عمل صالح اور اس کے قبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے بھروسہ پر جنت میں داخل نہیں ہوگا، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بھی، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں بھی لیکن مجھے میرے خدا کی رحمت اور فضل گھیرے ہوئے ہے۔ (روح المعانی) حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی ان کلمات میں دخول جنت کے لئے فضل ربی کی دعا فرما رہے ہیں یعنی اے اللہ، مجھے وہ فضل بھی عطا فرما جس سے جنت کا مستحق ہوجاؤں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ١٩ بسم قال تعالی: فَتَبَسَّمَ ضاحِكاً مِنْ قَوْلِها[ النمل/ 19] . ضح... ك الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل، ( ض ح ک ) الضحک ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے وزع يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] قيل : معناه : ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران . ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) غرض کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی بات سنی اور اس عقل مندی متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اور ان کا لشکر اس کی بات نہ سمجھ سکا اور کہنے لگے اے میرے رب مجھے اس بات کی توفیق دیجیے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا کروں جو آپ نے توحید کے صلہ میں مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں او... ر یہ کہ میں ایسے نیک کام کروں جن کو آپ قبول فرمائیں اور مجھ کو اپنے خصوصی فضل سے جنت میں اپنے نیک بندوں یعنی انبیاء کرام میں شامل کر لیجیے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا) ” حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی اس بات کو سن بھی لیا اور سمجھ بھی لیا۔ چناچہ جذبات تشکرّ کے باعث آپ ( علیہ السلام) کے چہرے پر بےاختیار تبسم آگیا اور زبان پر ترانۂ حمد جاری ہوگیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 "Restrain me...thanks to Thee" means this: "O my Lord! the wonderful powers and abilities that You have given me are such that if I become even a little forgetful and heedless, I might transgress the bounds of service and be puffed up with pride and go astray. Therefore, O my Lord, restrain me so that I may remain grateful to You for all Your blessings instead of being ungrateful. " 26 "Admit ... me..righteous servants" probably implies this: "I should be included among the righteous in the Hereafter and should enter Paradise along with them." For a person who dces righteous acts will automatically be righteous, but one's entry into Paradise in the Hereafter cannot come about merely on the strength of one's good works, but it will depend on Allah's mercy. According to a Hadith, the Holy Prophet once said, "Merely the deeds of any one of you will not enable him to enter Paradise." It was asked, "In your case too, O Messenger of Allah?" He replied, "Yes, I also shall not enter Paradise only on the strength of my deeds, unless Allah Almighty covers me with His mercy." This prayer of the Prophet Solomon on this occasion becomes irrelevant if an Naml is taken to mean a vibe of human beings and namlah a member of that tribe. After all, there could be nothing extraordinary in the warning given by a member of a human tribe to the people of his vibe about the approaching troops of a powerful king that it should have induced the king to make such a prayer to Allah. However, a person's having such a wonderful power of comprehension that he may hear the speech of an ant from a distance and also understand it, is certainly something extraordinary, which can involve a person in self-conceit and vanity. In such a case only the prayer of the Prophet Solomon can be relevant.  Show more

سورة النمل حاشیہ نمبر : 25 اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔ وزع کے اصل معنی عربی زبان میں روکنے کے ہیں ، اس موقع پر حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ( مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں ) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قو... تیں اور قابلیتیں تونے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجاؤں تو حد بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں ، اس لیے اسے میرے پروردگار تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 26 صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی ، البتہ آخعرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن یدخل احکم الجنۃ عملہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچاوے گا ۔ عرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسول اللہ کیا حضور کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ؟ فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالی برحمتہ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالی اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے ۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بے محل ہوجاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ، ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کون سی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے ۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرور نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو ۔ اسی صورت میں حضرت سلیمان کی یہ دعا بر محل ہوسکتی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:19) فتبسم ضاحکا وہ مسکرا کر ہنس پڑا۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ تبسم تو آپ نے اپنی عادت کے معمول کے مطابق کیا پھر وہ تبسم اضطرار اضحک کے درجہ تک پہنچ گیا۔ اوزعنی امر واحد مذکر حاضر۔ ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم اوزع وایزاع سے جس کے معنی کسی چیز پر جما دینے کے ہیں اور الہام کرنے کے ہیں مجھے جما د... ے۔ مجھے توفیق دے۔ میری قسمت میں کر اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزاری کا الہام کیا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ اگر بالفرض ” نملۃ “ سے مراد کوئی انسان ہوتا تو اس میں متعجبانہ ہنسی کی کوئی بات نہ تھی اور نہ یہ کوئی ایسا واقعہ تھا جس کے متعلق حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے احساس شکر گزاری کی اہمیت واضح کی جاتی۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ اظہار تشکر اس بات پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ای... ک حقیر جانور کی بولی سمجھنے کا علم عطا فرمایا جو ان کے سوا اور کسی کو حاصل نہ تھا۔ 5 ۔ یہاں ” صالحین “ سے وہ کامل صالح لوگ مراد ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا خیال تک نہیں آ پاتا۔ (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) انتہائی خوشی کے عالم میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکرا ادا کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی آواز سنی تو مسکرائے اور سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس قدر علم اور اقتدار عطا فرمایا ہے کہ میں ایک چیونٹی کی آواز کو...  سنتا اور سمجھتا ہوں۔ اتنے بڑے اقبال اور اقتدار کے مالک ہونے کے باوجود اتراتے نہیں بلکہ اپنے رب کا ان الفاظ میں شکر ادار کرتے ہیں۔ الٰہی ! جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر احسانات فرمائے ہیں میں ان کا اعتراف کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں۔ الٰہی ! مجھے اپنے انعامات کے نتیجہ میں ایسے اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرما جن اعمال کو تو پسند کرتا ہے۔ مجھے اپنی خاص رحمت کے ساتھ اپنے نیک بندوں میں شامل فرما ! حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں ” اَوْزِعْنِیْ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مجھے اس طرح پابند کیجیے جس بناء پر میں وہی کام کروں جنھیں تو پسند کرتا ہے۔ جن کا عام الفاظ میں یہ معنٰی ہے کہ میرے رب مجھے ان کا موں کی ہمت اور طاقت نصیب نہ کرنا جن کاموں کو تو پسند نہیں کرتا۔ کسی آدمی کے صالح فکر اور نیک ہونے کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرے اور اس کا شکر بجا لانے کی پوری کوشش کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا پریشانیوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے، مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے یہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ شکر کے مقابلہ میں ناشکری ہے جو کفر کے مترادف ہے۔ (بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ ) [ الزمر : ٦٦] ” پس اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزاربندوں میں شامل ہوجائیے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ ہونے کے ساتھ مزید ملنے کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں یہ واضح کردیا گیا کہ اس کی گرفت سے بچنے کے ساتھ مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ (وَلَاتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِےْنَ ) [ الاعراف : ١٧] ” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُوْلَ فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ سنن النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَآءِ ] ” حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے معاذ ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کے بعد اس دعا کو ضرور پڑھا کرو۔ اے میرے پروردگار ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ اللَّہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی وَأَہْلِی وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیح بالْیَدِ ] ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داؤد (علیہ السلام) کی دعا دوہرایا کرتے تھے اور کہتے۔ اے اللہ میں تم سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت جو تم سے محبت رکھتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تمہاری محبت کے قریب کر دے۔ اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کا حق دار بنا دے اے اللہ ! میرے لیے اپنی محبت میرے نفس، اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر عزیز بنا دے۔ “ مسائل ١۔ سلیمان (علیہ السلام) ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے۔ ٢۔ سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب سے صالح اعمال کرنے کی توفیق مانگتے تھے۔ ٣۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دنیا کے ساتھ اپنے رب سے جنت میں نیک لوگوں کی رفاقت کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیّت اور اس کی فضیلت : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تمہیں زیادہ دے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تم سے خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اگر تم اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو تمہیں عذاب کرنے کا اسے کیا فائدہ ؟ (النساء : ١٤٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فائدہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں جو (فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِہَا) فرمایا اس میں لفظ تبسم (مسکرانا) اور ضاحکاً (ہنسنا) دونوں کو جمع فرما دیا ہے جب کسی کو ہنسی آتی ہے تو عموماً مسکراہٹ سے شروع ہوتی ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اولاً مسکراہٹ آگئی جو ہنسی تک پہنچ گئی اس میں اس طر... ف اشارہ ملتا ہے کہ ہنسنا محمود کام نہیں ہے کبھی کبھار کوئی ہنسی آجائے تو دوسری بات ہے زیادہ تر مسکرانے سے کام چلانا چاہیے۔ حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ پوری طرح ہنسے ہوں اور آپ کے گلے کا کوا دیکھنے میں آگیا ہو، آپ تو بس مسکرایا کرتے تھے۔ (رواہ البخاری) حضرت جابر بن سمرہ (رض) نے آپ کی صفت بیان کی وَ کَانَ لاَ یَضْحَکُ الاَّ تَبَسُّمًا (آپ نہیں ہنستے تھے مگر مسکرا کر) ۔ (رواہ الترمذی) بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ہنسی آئی ہو اور آپ کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئی ہوں، شمائل ترمذی میں ہے لقد رایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضحک یوم الخندق حتی بدت نواجذہ، اور بھی بعض روایات میں ایسا وارد ہوا ہے، آپ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا ہے حضرت ابوذر (رض) کو چند نصیحتیں ایک ہی مجلس میں فرمائی تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی ایاک و کثیرۃ الضحک فانہ یمیت القلب و یذھب بنور الوجہ کہ زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ دل کو مردہ کردیتا ہے اور چہرے کے نور کو ختم کردیتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ص ٤١٥) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا میں یہ بھی ہے کہ اے پروردگار آپ نے مجھے اور میرے والدین کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں مجھے اس حال پر باقی رکھیئے کہ میں ان کا شکر گزار رہوں اس سے معلوم ہوا کہ والدین پر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہوں ان کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے، بات یہ ہے بہت سی نعمتیں والدین کے ذریعہ اولاد کی طرف منتقل ہوتی ہیں اور وہ نعمتوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ علوم دینیہ اور اعمال صالحہ پر ڈالنے میں عموماً والدین ہی کا دخل ہوتا ہے والدین میں جو دینداری کے جذبات ہوتے ہیں یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ نعمت اولاد کی دینداری کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا اولاد کو اس نعمت کا بھی شکر ادا کرنا ضروری ہوا، نیز والدین سے جو میراث ملتی ہے وہ پہلے ماں باپ کو ملتی ہے پھر اولاد کو پہنچتی ہے لہٰذا اس کا بھی شکر ادا کیا جائے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے چیونٹی کی بات حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں ڈال دی تو اس کی بات پر تعجب سے مسکرائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ انہ (علیہ السلام) لم یسمع صوتا اصلا وانما فھم ما فی نفس النملۃ الھاما من اللہ تعالیٰ (روح ج 19 ص 176) ۔ “ رب اوزعنی ” میرے پروردگار مجھے توفیق ع... طا فرما کہ میں ہمیشہ ان انعامات کے شکر میں مصروف رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائے مثلاً میری آمد کا علم چیونٹی کے دل میں ڈال دیا اور چیونٹی کی بات میرے دل میں ڈال دی یہ بھی اس کا انعام ہے اور بقیہ زندگی میں اعمال صالحہ کی بجا آوری پر قائم رکھ اور محض اپنی مہربانی سے مجھے زمرہ صالحین یعنی انبیاء سابقین (علیہم السلام) میں شامل فرما۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) چیونٹی کی اس بات پر سلیمان (علیہ السلام) مسکرایا اور مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور اس نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھ کو توفیق دے اور اس بات پر مجھ کو مداومت نصیب کر کہ میں تیرے ان احسانات شکرکرتارہوں جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر کئے ہیں اور نیز یہ کہ میں ایسے نیک کام کرتا رہوں جن کو تو پسند کرتا...  ہو اور جن سے تو خوش ہو اور تو مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل رکھیو یعنی اللہ تعالیٰ اس نعمت سے متاثر ہوکر اللہ تعالیٰ سے دوامعلی الشکر کی توفیق طلب کی اور حضرت حق کے پسندیدہ کاموں کے بجا لانے کی دعا کی اور نیک بندے یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل رہنے کی دعا کی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان کے باپ پر تو ہزاروں احسان تھے اور ماں پر بھی کچھ ہوں گے ایک تو مشہور ہے کہ بڑی پارسا تھی کہتے ہیں وہی تھی جس کا ذکر سورة ص میں ہے اس چیونٹی کی بات سمجھ کر ان کو شکرآیا 12 اللھم وفقنی لما تحب وترضی  Show more