25 "Restrain me...thanks to Thee" means this: "O my Lord! the wonderful powers and abilities that You have given me are such that if I become even a little forgetful and heedless, I might transgress the bounds of service and be puffed up with pride and go astray. Therefore, O my Lord, restrain me so that I may remain grateful to You for all Your blessings instead of being ungrateful. "
26 "Admit ... me..righteous servants" probably implies this: "I should be included among the righteous in the Hereafter and should enter Paradise along with them." For a person who dces righteous acts will automatically be righteous, but one's entry into Paradise in the Hereafter cannot come about merely on the strength of one's good works, but it will depend on Allah's mercy. According to a Hadith, the Holy Prophet once said, "Merely the deeds of any one of you will not enable him to enter Paradise." It was asked, "In your case too, O Messenger of Allah?" He replied, "Yes, I also shall not enter Paradise only on the strength of my deeds, unless Allah Almighty covers me with His mercy." This prayer of the Prophet Solomon on this occasion becomes irrelevant if an Naml is taken to mean a vibe of human beings and namlah a member of that tribe. After all, there could be nothing extraordinary in the warning given by a member of a human tribe to the people of his vibe about the approaching troops of a powerful king that it should have induced the king to make such a prayer to Allah. However, a person's having such a wonderful power of comprehension that he may hear the speech of an ant from a distance and also understand it, is certainly something extraordinary, which can involve a person in self-conceit and vanity. In such a case only the prayer of the Prophet Solomon can be relevant. Show more
سورة النمل حاشیہ نمبر : 25
اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔ وزع کے اصل معنی عربی زبان میں روکنے کے ہیں ، اس موقع پر حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ( مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں ) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قو... تیں اور قابلیتیں تونے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجاؤں تو حد بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں ، اس لیے اسے میرے پروردگار تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں ۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 26
صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی ، البتہ آخعرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن یدخل احکم الجنۃ عملہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچاوے گا ۔ عرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسول اللہ کیا حضور کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ؟ فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالی برحمتہ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالی اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے ۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بے محل ہوجاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ، ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کون سی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے ۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرور نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو ۔ اسی صورت میں حضرت سلیمان کی یہ دعا بر محل ہوسکتی ہے ۔ Show more