Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 31

سورة النمل

اَلَّا تَعۡلُوۡا عَلَیَّ وَ اۡتُوۡنِیۡ مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۱﴾٪  17

Be not haughty with me but come to me in submission [as Muslims].' "

یہ کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, it is from Suleiman, and it (reads): `In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful; Be you not exalted against me, but come to me submitting (as Muslims).' Thus they knew that it was from Allah's Prophet Suleiman, upon him be peace, and that they could not match him. This letter was the utmost in brevity and eloquence, coming straight to the point. أَلاَّ تَعْلُوا عَلَيَّ .... Be you not exalted against me, Qatadah said: "Do not be arrogant with me. وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ but come to me submitting (as Muslims)." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said: "Do not refuse or be too arrogant to come to me, وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (but come to me submitting (as Muslims)."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھر اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کا راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔ اس آیت میں واتو فی مسلمین کے الفاظ آئے ہیں۔ مسلمین کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میرے فرمانبردار بن کر میرے ہاں آؤ۔ اور یہ حکم آپ کی فرمانروائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو ۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چناچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ : تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو ؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۝ ٣١ۧ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, "The letter l s important for several reasons: (1) It has reached me in an unusual way. Instead of an envoy it has been brought and dropped at me by a bird. (2) It is from Solomon, the great ruler of Palestine and Syria. (3) It has heen begun with the name of AIIah, the Compassionate, and Merciful, which is an unusual way of correspondence and is not followed by any kingdom in the world. l41 Then, it is also unusual that a letter should be written only in the name of AIIah, the Exalted, spare from alI other gods and goddesses. (5) The most important thing in it is that it quite clearly and plainly invites us to give up rebellion and adopt obedience and present ourselves before Solomon in submission (or as MUSlImS)." "Present yourselves as Muslim" can have two meanings: (I) "Present yourselves in submission"; and (2) "present yourselves as Muslims (after embracing lslam)." The tirst meaning is in accordance with the Prophet Solomon's position as a ruler, and the second with his position as a Prophet. Probably this comprehensive word was used in order to convey both the meanings through the letter. The same sort of invitation has always been extended by Islam to independent nations and governments that they should either accept Islam and become equal partners in the Islamic system of life, or surrender political independence and submit to the system of Islam and pay Jizyah

سورة النمل حاشیہ نمبر : 37 یعنی خط کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے ، ایک یہ کہ وہ عجیب غیر معمولی طریقے سے آیا ہے ، بجائے اس کے کہ کوئی سفارت اسے لاکر دیتی ، ایک پرندے نے اسے لاکر مجھ پر ٹپکا دیا ہے ، دوسرے یہ کہ وہ فلسطین و شام کے عظیم فرمانروا سلیمان کی جانب سے ہے ، تیسرے یہ کہ اسے اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے ، حالانکہ دنیا میں کہیں کسی سلطنت کے مراسلوں میں یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا ، پھر سب دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف خدائے بزرگ و برتر کے نام پر خط لکھنا بھی ہماری دنیا میں ایک غیر معمولی بات ہے ، ان سب باتوں کے ساتھ یہ امر اس کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے کہ اس میں بالکل صاف صاف ہم کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ ہم سرکشی چھوڑ کر اطاعت اختیار کرلیں اور تابع فرمان بن کر یا مسلمان ہوکر سلیمان کے آگے حاضر ہوجائیں ۔ مسلم ہوکر حاضر ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مطیع بن کر حاضر ہوجاؤ ، دوسرے یہ کہ دین اسلام قبول کر کے حاضر ہوجاؤ ، پہلا مفہوم حضرت سلیمان کی شان فرماں روائی سے مطابقت رکھتا ہے اور دوسرا مفہوم ان کی شان پیغمبری سے ۔ غالبا یہ جامع لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خط میں یہ دونوں مقاصد شامل تھے ۔ اسلام کی طرف سے خود مختار قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ یہی دعوت دی گئی ہے کہ یا تو دین حق قبول کرو اور ہمارے ساتھ نظام اسلامی میں برابر کے حصہ دار بن جاؤ ، یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دست بردار ہوکر اسلامی نظام کی ماتحتی قبول کرلو اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یمن کا یہ علاقہ بھی اصل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ماتحت تھا، لیکن کسی وقت اس عورت نے خفیہ طور پر یہاں اپنی حکومت قائم کرلی تھی، جس کی خبر آ کر ہد ہد نے دی۔ اسی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس مختصر مگر نہایت بلیغ خط میں کوئی تفصیلی بات کرنے کے بجائے بلقیس اور اس کی قوم کو سرکشی سے باز رہنے اور تابع دار بننے کا حکم دیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:31) الا تعلوا میں ان یا مفسرہ ہے یا مصدر یہ ہے اور ناصب فعل ہے لا تعلوا فعل نہی جمع مذکر مخاطب تم سرکشی مت کرو۔ علو مصدر (باب نصر) تم بڑائی مت کرع۔ تم تکبر مت کرو۔ علی۔ میرے مقابلہ میں (لفظا مجھ پر۔ علی حرف جار ی ضمیر واحد متکلم مجرور) واتونی مسلمین۔ اور چلے آؤ میرے پاس مطیع ہوکر۔ فرمانبردار بن کر ، اس میں جسمانی حاضری مراد نہیں۔ محض دعوت اسلام و اطاعت مقصود ہے۔ فائدہ : یہ ضروری نہیں کہ خط کی عبارت بجنسہٖ یہی ہو بلکہ ممکن ہے عبارت کچھ اور ہو۔ یہاں صرف اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہو۔ یہ مکتوب ملکہ کے نام تھا لیکن مخاطبین ملکہ کے علاوہ اس کے رؤسا اور دیگر اہل سباء بھی تھے اسی لئے مکتوب میں صیغہ جمع استعمال کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) تم لوگ میرے مقابلے میں زور اور تکبر نہ کرو اور میرے سامنے حکم بردار ہوکر چلے آئو یعنی زور دکھانے اور تکبر کرنے کی ضرورت نہیں میرے سامنے مطیع ہوکرچلے آئو اتنا مختصر خط اور اتنا جامع اور پرشوکت ایک پیغمبر ہی کا ہوسکتا ہے جو نبوت اور ملک و سلطنت دونوں رکھتا ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان کو دین حق سکھانا منظور تھا 12