Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 36

سورة النمل

فَلَمَّا جَآءَ سُلَیۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ ۫ فَمَاۤ اٰتٰىنِۦَ اللّٰہُ خَیۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىکُمۡ ۚ بَلۡ اَنۡتُمۡ بِہَدِیَّتِکُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ ﴿۳۶﴾

So when they came to Solomon, he said, "Do you provide me with wealth? But what Allah has given me is better than what He has given you. Rather, it is you who rejoice in your gift.

پس جب قاصد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Gift and the Response of Sulayman Allah tells: فَلَمَّا جَاء سُلَيْمَانَ قَالَ ... So, when (the messengers with the gift) came to Suleiman, he said: More than one of the scholars of Tafsir among the Salaf and others stated that she sent him a huge gift of gold, jewels, pearls and other things. It is apparent that Suleiman, peace be upon him, did not eve... n look at what they brought at all and did not pay any attention to it, but he turned away and said, rebuking them: ... أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ ... "Will you help me in wealth!" meaning, `are you trying to flatter me with wealth so that I will leave you alone with your Shirk and your kingdom!' ... فَمَا اتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا اتَاكُم ... What Allah has given me is better than that which He has given you! means, `what Allah has given to me of power, wealth and troops, is better than that which you have.' ... بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ Nay, you rejoice in your gift! means, `you are the ones who are influenced by gifts and presents; we will accept nothing from you except Islam or the sword.'   Show more

بلقیس نے بہت ہی گراں قدر تحفہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا ۔ سونا موتی جواہر وغیرہ سونے کی کثیر مقدار اینٹیں سونے کے برتن وغیرہ ۔ بعض کے مطابق کچھ بچے عورتوں کے لباس میں اور کچھ عورتیں لڑکوں کے لباس میں بھیجیں اور کہا کہ اگر وہ انہیں پہچان لیں تو اسے نبی مان لینا چاہیے ۔ جب یہ حضرت سل... یمان علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے سب کو وضو کرنے کا حکم دیا ۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر اپنے ہاتھ دھوئے اور لڑکوں نے برتن میں ہی ہاتھ ڈال کر پانی لیا ۔ اس سے آپ نے دونوں کو الگ الگ پہچان کر علیحدہ کر دیا کہ یہ لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس طرح پہچانا کہ لڑکیوں نے تو پہلے اپنے ہاتھ کیے اندرونی حصہ کو دھویا اور لڑکوں نے انکے برخلاف بیرونی حصے کو پہلے دھویا یہ بھی مروی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس کے برخلاف ہاتھ کی انگلیوں سے شروع کر کے کہنی تک لے گئے ۔ ان میں سے کسی میں نفی کا امکان نہیں ، واللہ اعلم ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ بلقیس نے ایک برتن بھیجا تھا کہا اسے ایسے پانی سے پر کردو جو نہ زمین کا ہو نہ آسمان کا تو آپ نے گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینوں سے وہ برتن بھر دیا ۔ اسنے کچھ خرمہرے اور ایک لڑی بھیجی تھی آپ نے انہیں لڑی میں پرو دیا ۔ یہ سب اقوال عموماً بنی اسرائیل کی روایتوں سے لئے جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ البتہ بظاہر الفاظ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس رانی کیے تحفے کی طرف مطلقاً التفات ہی نہیں کیا ۔ اور اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا تم مجھے مالی رشوت دے کر شرک پر پاقی رہنا چاہتے ہو ؟ یہ محض ناممکن ہے مجے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ ملک ، مال ، لاؤ ، لشکر سب میرے پاس موجود ہے ۔ تم سے پر طرح بہتر حالت میں میں ہوں فالحمدللہ ۔ تم ہی اپنے اس ہدیے سے خوش رہو یہ کام تم ہی کو سونپاکہ مال سے راضی ہوجاؤ اور تحفہ تمہیں جھکا دے یہاں تو دو ہی چیزیں ہیں یا شرک چھوڑو یا تلوار روکو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس سے پہلے کہ اسکے قاصد پہنچیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کردئے ۔ جس وقت قاصد پائے تخت میں پہنچے ان محلات کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا ۔ یہاں تو سونا مٹی کی وقعت بھی نہیں رکھتا ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بادشاہوں کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے ۔ پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایا کہ یہ ہدیے انہیں کو واپس کردو اور ان سے کہدو مقابلے کی تیاری کرلیں یاد رکھو میں وہ لشکر لے کر چڑھائی کروں گا کہ وہ سامنے آہی نہیں سکتے ۔ انہیں ہم سے جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ ہم انہیں انکی سلطنت سے بیک بینی و دوگوش ذلت و حقارت کے ساتھ نکال دیں گے ان کے تخت و تاج کو رونددیں گے ۔ جب قاصد اس تحفے کو واپس لے پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنادیا ۔ بلقیس کو آپ کی نبوت کا یقین ہو گیا فورا خود بھی اور تمام لشکر اور رعایا مسلمان ہوگئے اور اپنے لشکروں سمیت وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے جب آپ نے اس کا قصد معلوم کیا تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

361یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کرسکتے ہو ؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ 362یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میر... ا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] جب یہ وفد تحائف لے کر حصرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واضح طور پر بتلا دیا کہ مال و دولت سے مجھے کچھ غرض نہیں۔ نہ ہی میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادہ سے باز رہ سکتا ہوں۔ میں یہ دولت لے کر کیا کروں گا وہ تو میرے پاس پہلے ہی تم...  سے بہت زیادہ موجود ہے۔ یہ تمہارے تحفے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ تمہارے لئے صرف دو صورتیں ہیں کہ تم مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ اس صورت میں تمہارا ملک تمہارے ہی پاس رہے گا۔ مجھے کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کا شوق نہیں ہے بلکہ میں شرک کا استیصال کرکے تمہیں اللہ کا فرمانبردار بنانا چاہتا ہوں۔ ورنہ پھر دوسری یہ صورت ہے کہ ہم تم لوگوں پر ایک پرزور حملہ کرینگے جس کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ اس صورت میں تمہارا جو حشر ہوسکتا ہے وہ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔ یہاں درمیان میں ایک خلا ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہ وفد واپس آیا اور تحائف کی واپسی اور حضرت سلیمان سے گفتگو کی تفصیلات ملکہ سبا نے سنیں تو انھیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ حضرت سلیمان کوئی دنیا دار بادشاہ نہیں۔ وہ آپ کی شان و شوکت اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترسی کے قصے پہلے بھی سن چکی تھی۔ تحائف کی واپسی اور وفد کے تاثرات نے تائید مزید کردی۔ لہذا ملکہ سبا نے یہی مناسب سمجھا کہ ایسے پاکیزہ سیرت بادشاہ کے حضور خود حاضر ہونا چاہئے۔ چناچہ اس نے حصرت سلیمان (علیہ السلام) کو یروشلم میں عنقریب اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھیج دی۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ سبا کے آپ کے ہاں آنے کی اطلاع مل گئی۔ تو آپ نے چاہا کہ ملکہ سبا کا وہی تخت، جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ بڑا عظیم الشان ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے یہاں اپنے پاس منگوا لیا جائے۔ جن آپ کے تابع فرمان تھے اور وہ یہ کام کر بھی سکتے تھے اس سے حضرت سلیمان کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھلا دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہوجائے کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں۔ بلکہ اللہ نے انھیں بہت بڑی بڑی نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ آپ صرف ایک سلطنت کے فرمانروا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں۔ آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا : تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے ؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا : آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَيْمٰنَ ۔۔ : جب سفیر تحائف لے کر سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انھوں نے وہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور صاف کہہ دیا کہ مجھے تمہارے مال و دولت سے کوئی غرض نہیں اور نہ میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادے سے باز رہ سکتا ہوں۔ میں یہ دولت لے کر کیا کروں گا، وہ تو میرے پاس...  پہلے ہی تم سے بہت زیادہ موجود ہے، کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم سے مال و دولت لے کر خوش ہوجاؤں اور تمہیں کفر و شرک پر قائم رہنے دوں ؟ ” اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہدیہ مال و زر کی صورت میں تھا۔ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ : ” فَرِحَ “ کا معنی خوش ہونا بھی ہے اور پھول جانا بھی، یعنی یہ تمہارا ہی کام ہے کہ اس قسم کے تحفوں سے خوش ہوجاتے ہو اور پھول جاتے ہو، مجھے تو اگر تحفہ چاہیے تو تمہارے ایمان کا چاہیے، اگر تم اس پر آمادہ نہیں تو لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Return of the presents of Bilqis by Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّـهُ خَيْرٌ‌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَ‌حُونَ |"Are you giving me an aid of wealth? So what Allah has given me is much better than He has given to you. But you yourselves are proud of your gift. 27:36. When Bilqis&s envoys reached the court of Sayyidna...  Sulaiman (علیہ السلام) with the gifts and presents sent by her, he said to them ` Do you wish to help me with wealth? Whatever wealth and bounties I have been given by Allah is much better than your wealth and material. Therefore, I do not accept your presents of wealth. You better take them away, and enjoy them yourself. Is it permissible to accept presents from infidels? Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) did not accept the presents of Queen Bilqis, which indicates that it is not permissible or not preferable to accept presents from infidels. The correct position about this question is that if this may lead to weakening of one&s position or that of Muslim community, or is likely to go against the expediency of the national interest, then it is prudent not to accept their presents. (Ruh ul-Ma’ ani). But if the interest of the Muslims is in favour of acceptance, for instance if this gesture may lead the non-Muslims to the acceptance of Islam, or may ward off some impending danger to Islam, in such situations it is permitted. It was the practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to accept presents from some infidels and reject them from others. It is reported in ` Umdatul Qari Sharh al-Bukhari (Kitab ul-hibah) and Sharh-As- Siyar-Al-Kabr on the authority of Sayyidna Ka&b ibn Malik (رح) that ` Amir ibn Malik, brother of Bra&, went to Madinah on some work, when he was a disbelieving infidel, and presented two horses and two pairs of garments to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He sent back these presents with the remarks |"We do not accept presents from disbelievers|". Once ` Iyad ibn Himar al-Mujashi` i presented to him something. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) enquired from him whether he was a Muslim, to which he replied in the negative. So he returned his presents, explaining that Allah Ta’ ala has commanded him not to accept presents from the disbelievers. As against this there are other narrations reporting that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had accepted presents from some disbelievers. In one such narration, it is related that Abu Sufyan had presented to him a piece of leather when he was still a disbeliever, which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had accepted. Another narration has reported that a Christian had presented to him a very shiny piece of fine silk, which was also accepted by him. Shamsul &A` immah has commented after citing these narrations that, in his view, the reason of rejection and acceptance of these presents by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was that where he thought that by their rejection the disbeliever would come near Islam, he rejected them, and where he considered that their acceptance will help bring the disbeliever close to Islam he did that. (Umdatul Qari) Bilqis took the rejection of her presents by Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) as a sign of his prophethood - not because the acceptance of gifts from disbelievers is not permissible - but she had purposefully sent those presents as a bribe, in order to save herself from any attack from him.  Show more

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ہدیہ بلقیس کی واپسی : قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ ، یعنی جب بلقیس کے قاصد اس کے ہدایا اور تحفے لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے قاصد سے فرمایا...  کہ کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ مجھے اللہ نے جو مال و دولت دیا ہے وہ تمہارے مال و سامان سے کہیں زیادہ بہتر ہے اس لئے میں یہ مال کا ہدیہ قبول نہیں کرتا اس کو واپس لے جاؤ اور اپنے ہدیہ پر تم ہی خوش رہو۔ کسی کافر کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں اس کی تفصیل و تحقیق : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس کا ہدیہ قبول نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں یا بہتر نہیں۔ اور تحقیق اس مسئلے میں ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنے میں اگر اپنی یا مسلمانوں کی کسی مصلحت میں خلل آتا ہو یا ان کے حق میں رائے کی کمزوری پیدا ہوتی ہو تو ان کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں۔ (روح المعانی) ہاں اگر کوئی دینی مصلحت اس ہدیہ کے قبول کرنے کی داعی ہو، مثلاً اس کے ذریعہ کافر کے مانوس ہو کر اسلام سے قریب آنے پھر مسلمان ہونے کی امید ہو یا اس کے کسی شر و فساد کو اس کے ذریعہ دفع کیا جاسکتا ہو تو قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اس معاملے میں یہی رہی ہے کہ بعض کفار کا ہدیہ قبول فرما لیا، بعض کا رد کردیا۔ عمدة القاری شرح بخاری کتاب الہبتہ میں اور شرح سیر کبیر میں حضرت کعب بن مالک سے روایت کیا ہے کہ براء کا بھائی عامر بن ملک مدینہ طیبہ میں کسی ضرورت سے پہنچا جبکہ وہ مشرک کافر تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو گھوڑے اور دو جوڑے کپڑے کا ہدیہ پیش کیا۔ آپ نے اس کا ہدیہ یہ فرما کر واپس کردیا کہ ہم مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتے، اور عیاض بن حمار مجاشعی نے آپ کی خدمت میں ایک ہدیہ پیش کیا تو آپ نے اس سے سوال کیا کہ تم مسلمان ہو اس نے کہا کہ نہیں آپ نے ان کا ہدیہ بھی یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے عطایا لینے سے منع فرمایا ہے اس کے بالمقابل یہ روایات بھی موجود ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مشرکین کے ہدایا قبول فرمائے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوسفیان نے بحالت شرک آپ کو ایک چمڑا ہدیہ میں بھیجا آپ نے قبول فرما لیا اور ایک نصرانی نے ایک ریشمی حریر کا بہت چمکتا ہوا کپڑا ہدیہ میں پیش کیا، آپ نے قبول فرما لیا۔ شمس الائمہ اس کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سبب یہ تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض کا ہدیہ رد کردینے میں اس کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی امید تھی وہاں رد کردیا اور بعض کا ہدیہ قبول کرنے میں اس کے مسلمان ہوجانے کی امید تھی تو قبول کرلیا۔ (از عمدة القاری کتاب الہبتہ) اور بلقیس نے جو رد ہدیہ کو نبی ہونے کی علامت قرار دیا اس کا سبب یہ نہ تھا کہ نبی کے لئے ہدیہ قبول کرنا مشرک کا جائز نہیں بلکہ سبب یہ تھا کہ اس نے اپنا ہدیہ درحقیقت ایک رشوت کی حیثیت سے بھیجا تھا کہ اس کے ذریعہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حملے سے محفوظ رہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ۝ ٠ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللہُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ ۝ ٠ ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ۝ ٣٦ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، ... والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ هَدِيَّةُ والهَدِيَّةُ مختصّة باللُّطَف الذي يُهْدِي بعضنا إلى بعضٍ. قال تعالی: وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ [ النمل/ 35] ، بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ [ النمل/ 36] والمِهْدَى الطّبق الذي يهدى عليه، والْمِهْدَاءُ : من يكثر إِهْدَاءَ الهديّة، قال الشاعر۔ وإنّك مهداء الخنا نطف الحشا والْهَدِيُّ يقال في الهدي، وفي العروس يقال : هَدَيْتُ العروسَ إلى زوجها، وما أحسن هَدِيَّةَ فلان وهَدْيَهُ ، أي : طریقته، وفلان يُهَادِي بين اثنین : إذا مشی بينهما معتمدا عليهما، وتَهَادَتِ المرأة : إذا مشت مشي الهدي . الھدیۃ ان تحائف کو کہا جاتا ہے جو ہم ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ [ النمل/ 35] اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہون ۔ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ [ النمل/ 36] بلکہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہوں گے ۔ المھدی طباق وغیرہ جس میں ہدیہ بھیجا جاتا ہے اور اس شخص کو جو بہت زیادہ تحائف پیش کرنے کا عادی ہو اسے مھداء کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے وانک مھداء الخنانطف النشا بیشک تو فحش گو اور بد باطن ہے ۔ لھدی کے معنی قربانی کا جانور اور دلہن اور سیرت کے آتے ہیں چناچہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ ھدیت العروس الیٰ زوجھا دلہن کو شوہر کے پاس بھیجا ما احسن ھدیۃ فلان وھدیۃ یعنی اس کی سیرت کتنی اچھی ہے فلان یھا ویٰ بین اثنین فلاں دو آدمیوں چلتا ہے ۔ تھا دت امرء ۃ عورت کا قرابانی کے جانور کی طرح لڑ کھڑا کر چلنا ۔ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) چانچہ جب قاصد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ کر تحائف پیش کیے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم لوگ ان تحائف سے میری مدد کرنا چاہتے ہو سو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے بادشاہت اور نبوت دے رکھی ہے وہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دے رکھا ہے اگر میں تمہارے تحفہ کو...  واپس کردوں تو تم ہی اس پر اتراؤگے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 This sentence is not meant to express pride and vanity. What it means to say is this: "1 have no desire for your wealth; I only desire that you should believe, or at least submit to a righteous system. if you agree to neither of these alternatives, it is not possible for me to accept the bribes of wealth and leave you tree in the , matter of a polytheistic and wicked system of life. What my Lor... d has given me is enough for me to cherish any desire for your wealth.  Show more

سورة النمل حاشیہ نمبر : 41 اس جملے سے مقصود اظہار فخر و تکبر نہیں ہے ، اصل مدعا یہ ہے کہ مجھے تمہارا مال مطلوب نہیں ہے بلکہ تمہارا ایمان مطلوب ہے ، یا پھر کم سے کم جو چیز میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ایک صالح نظام کے تابع ہوجاؤ ، اگر تم ان دونوں باتوں میں سے کسی کے لیے راضی نہیں ہو تو میرے لیے...  یہ ممکن نہیں ہے کہ مال و دولت کی رشوت لے کر تمہیں اس شرک اور اس فاسد نظام زندگی کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دوں ، مجھے میرے رب نے جو کچھ دے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے کہ میں تمہارے مال کا لالچ کروں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:36) اتمدونن۔ ہمزہ استفہام کا ہے۔ تمدونن امداد (افعال) سے مضارع جمع مذکر حاضر ہے۔ ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم (محذوف) کیا تم میری مدد کرتے ہو ؟ بمال یہاں مال سے مراد مال حقیر ہے۔ فما اتنے اللہ۔ میں ما موصولہ ہے بمعنی الذی۔ اتی ماضی واحد مذکر غائب (ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے) ن وقایہ ی ضمیر واح... د متکلم ۔ جو عطا فرما رکھا ہے مجھے اللہ نے (نبوت ، مال و متاع، جاہ وحشم) بل۔ حرف اضراب ہے بل سے ماقبل کی تصحیح اور مابعد کا ابطال مقصود ہے کہ اللہ نے جو نعمتیں مجھے عطا کر رکھی ہیں وہ ان نعمتوں سے بہتر ہیں جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں لیکن تم ان حقیر تحفوں پر اترا رہے ہو جو سراسر اوچھا پن ہے ! تفرحون مضارع جمع مذکر حاضر ۔ تم خوش ہوتے ہو۔ تم ریجھتے ہو۔ فرح (باب سمع) سے مصدر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تم سے مال و دولت لے کر خوش ہوجائوں اور تمہیں کفر و شرک پر قائم رہنے دوں ؟ 5 ۔ یعنی یہ تمہارا ہی کام ہے کہ اس قسم کے تحفوں سے خوش ہوجاتے ہو۔ مجھے تو اگر تحفہ چاہیے تو تمہارے ایمان کا تحفہ چاہیے۔ اگر تم یہ نہیں دے سکتے تو لڑنے کو تیار ہوجائو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ تمہارے پاس صرف دنیا ہے اور میرے پاس دین بھی، اور دنیا تم سے زیادہ، سو میں تو ان چیزوں کا حریص نہیں ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تحائف پہنچنے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ردِّ عمل۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ بلقیس کے تحائف پہنچے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے نمائندوں کو فرمایا کہ جن تحائف کے ساتھ مجھے خوش کرنا چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے زیادہ اور بہترین مال عطا فرمارکھا ہے۔ ا... س لیے تم اپنے تحائف کے ساتھ خوش رہو اور واپس لے جاؤ۔ ہم اپنے لشکروں کے ساتھ تم پر ضرور پیش قدمی کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تم طاقت نہیں رکھتے اور ہم مقابلہ میں آنے والوں کو زیر اور ذلیل کریں گے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مشرک ملکہ کے تحائف کو قبول کرنے سے اس لیے انکار کیا کہ اس طرح ان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز کمزور ہوجاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ مراسلہ بھیجنے والا حکمران کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کشورکشائی اور دنیا کے مال کا حریص ہے وہ اس کمزوری یا مرّوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مشرکانہ عقیدہ پر قائم رہتے۔ جو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے گوارا نہ تھا۔ کیونکہ شرک ایسا جرم اور گناہ ہے کہ جسے مواحد حکمران برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے کچھ عرصہ بعد جب طائف کے سردار مسلمان ہونے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دو شرائط پیش کیں ایک تو ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ دین ہی کیا جس میں نماز نہیں۔ طائف کے لوگ مان گئے ہم نماز پڑھا کریں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے طائف کے بت کو نہ چھیڑا جائے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ ہم اسے فی الفور مسمار کریں گے۔ بالآخر انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ آپ اپنے آدمیوں کے ذریعے یہ کارروائی کریں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط تسلیم فرمائی اور چند صحابہ کو طائف بھیجا جنہوں نے بت خانے کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا۔ تفصیل کے لیے سیرت ابن ہشام کا مطالعہ فرمائیں۔ عام حالات میں مشرک کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے : (قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَاجَرَ إِبْرَاہِیمُ بِسَارَۃَ فَدَخَلَ قَرْیَۃً فیہَا مَلِکٌ أَوْ جَبَّارٌ فَقَالَ أَعْطُوہَا آجَرَ وَأُہْدِیَتْ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شَاۃٌ فیہَا سُموَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ أَہْدَی مَلِکُ أَیْلَۃَ للنَّبِیِّ َبغْلَۃً بَیْضَاءَ ، وَکَسَاہُ بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ بِبَحْرِہِمْ ) [ رواہ البخاری : باب قَبُولِ الْہَدِیَّۃِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے سائرہ[ کے ساتھ ہجرت کی تو آپ کا گزر ایسی بستی سے ہوا جہاں جابر حکمران رہتا تھا اس نے کہا ابراہیم کو ہاجرہ تحفہ میں دو ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زہر ملی ہوئی بکری تحفے میں دی گئی امام بخاری کے استاد ابو حمیدبیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایلہ کے بادشاہ نے سفید خچر، چادر تحفے میں دیے اور ان کے لیے بحری سفر کا پروانہ تحریر کروایا۔ “ (عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّہِ الْخُرَاسَانِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَصَافَحُوا یَذْہَبِ الْغِلُّ وَتَہَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْہَبِ الشَّحْنَاءُ ) [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ ] ” عطاء بن ابی مسلم عبداللہ خراسانی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو ! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ “  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما جآء ……صغرون (٧٣) ان لوگوں کے ہدایا کو رد کرتے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دولت کی حقارت کا اظہار بھی کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ دولت کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن نظریات اور ایمانیات کے مقابلہ میں دولت ایک حقیر چیز ہوتی ہے۔ اتمدونن بمال (٨٢ : ٦٣) ” کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ “ کیا تم...  یہ حقیر چیز میرے سامنے پیش کرتے ہوے اور میری اس قدر کم قیمت لگاتے ہو۔ فما اتن اللہ خیر مما اتکم (٨٢ : ٦٣) ” جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے۔ “ مجھے مال بھی تم سے زیادہ دیا ہے اوپر منصب نبوت بھی دیا ہے جو جنس مال سے خیر ہے۔ علم نبوت جو بڑی دولت ہے۔ انسانوں ، جنوں اور طیور کی تسخیر جو روپے کے ذریعے نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا اس زمین کی کوئی چیز مجھے خوش نہیں کرسکتی۔ بل انتم بھدیتکم تفرحون (٨٢ : ٦٣) ” تمہارا یہ ہدیہ تمہیں مبارک ہو۔ “ تم دنیا پرست لوگ ایسی چیزوں پر خوش ہوتے ہو ، لیکن ہمارے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہم تو اللہ سے لو لگائے ہوئے ہیں اور اللہ کے ہدایا قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں سخت تہدید آمیز جواب دیا جاتا ہے۔ ارجع الیھم (٨٢ : ٨٣) ” واپس جا اپنے بھیجنے والے کی طرف۔ “ یہ ہدایا ان کو دو اور عبرت آمیز انجام کو انتظار کرو۔ فلنا تینھم بجنودلا قبل لھم بھا (٦٢ : ٨٣) ” ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کا مقابلہ وہ نہ کرسکیں گے۔ “ یہ ایسی افواج ہیں جو دنیا کے کسی انسان کے پاس نہیں ہیں اور ملکہ سبا اور اس کی قوم ہماری افواج کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ولنخر جنھم منھا اذلۃ و ھم صغرون (٨٢ : ٨٣) ” اور ہم انہیں ایسی ذلت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ “ اب یہاں پر وہ گرتا ہے اور یہ چیلنج اور تہدید کا منظر ختم ہوجاتا ہے۔ سفارت واپس ہوجاتی ہے۔ اب سیاق کلام یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ اگلے اقدام کے بارے میں یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان یہ جانتے ہیں کہ ملکہ کے ساتھ معاملہ ختم ہوگیا ، وہ نہ مقابلہ کرسکتی ہے۔ نہ دشمنی چاہتی ہے۔ کیونکہ ہدایا کے ساتھ سفارت بھیجنے کا مقصد ہی یہ تھا۔ حضرت سلیمان جان گئے کہ یہ ملکہ مطابق حکم سلیمان دعوت قبول کرے گی اور اطاعت کرلے گی جیسا کہ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن سیاقکلام میں یہ بات نہیں ہے کہ یہ سفارت واپس ہوئی ۔ اس نے ملکہ کے سامنے یہ یہ رپورٹ پیش کی۔ نہ سیاق کلام میں ملکہ کے اگلے ارادے کا ذکر ہے۔ یہ سب خود بخود معلوم ہوجائیں گے جب ملکہ کا دورہ دار الخلافہ معلوم ہوگا اب حضرت سیمان علیہ ال سلام یہ حکم دیتے ہیں کہ کون ہے جو ملکہ کے پہنچنے سے قبل ہی اس کے عرش کو لے کر آجائے اور پھر اس عرش اور تخت کو اس کے سامنے ذرا انجان ہو کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ عرش وہ اپنے علاقے میں چھوڑ کر آئی ہے اور یہ وہاں اس کے دارالخلافہ میں محفوظ و مامون ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31 جب بلقیس کے ایلچی تحائف لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان سے خطاب کر کے فرمایا کیا تم مجھے مال و دولت کا محتاج سمجھ کر میری مالی امداد کرنا چاہتے ہو ؟ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی نعمتوں سے جو کچھ مجھے عطا فرمایا ہے وہ تمہاری دولت و سلطنت سے کہیں زیادہ اور ... فزوں تر ہے۔ تم یہ ہدیہ دے کر بڑے خوش ہو رہے ہو۔ مجھے تمہارے تحائف کی ضرورت نہیں نہ میں دولت دنیا کا طالب ہوں میرا مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم ایمان لائے آؤ۔ وما ارضی منکم بشیء ولا افرح بہ الا بالایمان و ترک المجوسیۃ (مدارک ج 3 ص 162) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) پھر جب وہ فرستادہ ہدیہ لیکر سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کیا تم لوگ مال و دولت سے میری امداد کرنا چاہتے ہو سو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ کو دے رکھا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو اس نے تم کو دیا ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ تم ہی اس تحفہ سے جو تم کو پیش کیا جائے...  خوش ہوا کرتے ہو اوپر کی آیت میں جمع فرمایا تھا اور بلقین نے مرسلون کہا تھا یہاں مفرد فرمایا شاید تحفہ کے انچارج کو مفرد فرمایا یا فلما جا سے مراد گروہ ہو بہرحال ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں رعایت رکھی ہے یعنی تمہارا مال دولت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دین اور دنیا دونوں کی دولت عطا کر رکھی ہے تو مجھ کو اس کی ضرورت نہیں تم ہی اپنے اس ہدیہ اور تحفہ پر اتراتے ہو گے یا یہ مطلب ہے کہ تم ہی اس قسم کا تحفہ لے کر خوش ہوتے ہوگے۔ بھدتیکم تفرحون کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں کما قال صاحب الروح۔  Show more