Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 4

سورة النمل

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فَہُمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

Indeed, for those who do not believe in the Hereafter, We have made pleasing to them their deeds, so they wander blindly.

جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انہیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے ہیں پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاْخِرَةِ ... Verily, those who believe not in the Hereafter, meaning, those who deny it and think that it will never happen, ... زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ We have made their deeds fair seeming to them, so that they wander about blindly. means, `We have made what they are doing seem good to them, and We have left them to continue in their misguidance, so they are lost and confused.' This is their recompense for their disbelief in the Hereafter, as Allah says: وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ And We shall turn their hearts and their eyes away, as they refused to believe therein for the first time. (6:110)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ 42یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی جو اللہ پر تو ایمان رکھتے ہوں مگر روز آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں وہ اپنا معیار خیر و شر صرف انہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہوسکتے ہیں۔ لہذا ان کی زندگی کسی اصول کی پابند نہیں ہوتی وہ جس کام میں اپنا ذاتی فائدہ دیکھتے ہیں۔ وہی کام ان کے نزدیک خیر ہے۔ دوسروں کے نفع و نقصان سے انھیں کچھ غرض نہیں ہوتی۔ دنیا میں تمام فسادات روز آخرت اور باز پرس سے انکار یا بھول کی بنا پر واقع ہوتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے دنیا پر نہ سمجھنے والے لوگوں کو اپنے ایسے ہی خود غرضی پر مبنی اعمال اچھے نظر آنے لگتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو طرز عمل انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہی سب سے اچھا اور بہتر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۔۔ : اہل ایمان کے لیے قرآن کے ہدایت اور بشارت ہونے کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، کہ ہم نے ان کے لیے ان کے اعمال مزیّن کردیے ہیں، یعنی انھیں ان کے کفر کی یہ سزا دی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) [ الأنعام : ١١٠ ] ” اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے اور انھیں چھوڑ دیں گے، اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں گے۔ “ یا ان کے کفر کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دنیا ہی میں مگن ہوگئے اور اسی کو اپنی تمام کوششوں کا مرکز سمجھنے لگے، گویا آخرت پر ایمان نہ لانے کی یہ سزا ملتی ہے کہ انسان اپنے برے کاموں کو بھی اچھا سمجھنے لگتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا ) [ الکہف : ١٠٣ تا ١٠٦ ] ” کہہ دے کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیشک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ ان کی جزا جہنم ہے، اس وجہ سے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کو مذاق بنایا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ (We have made their deeds adorned in their sight - 27:4)It means that those who do not believe in the Hereafter We have made their bad actions look adorned in their sight. Therefore they feel good about them and remain enthralled in depravity. Some commentators have interpreted that |"their deeds|" is used in this verse for good deeds. Hence meaning of the verse is that Allah had placed the good deeds before them with all their attractions. But those unjust people did not pay any attention to them, rather they remained engrossed in infidelity; hence lost their way in wilderness. However, the first interpretation looks more appropriate and straightforward. In the first place, in the Qur&an, the word (Zinah) &adornment& has been generally used for bad actions, for instance: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ (It has been made attractive for people to love the desires - 3:14) زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُ‌وا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا (Adorned is the present life for those who disbelieve - 2:212) زَيَّنَ لِكَثِيرٍ‌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ (6:137). Its use for good actions is very rare , such as: وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (But Allah has endeared to you belief, decking it fair in your hearts - 49:7). Secondly, the word اَعمَالَھُم (their deeds) used in the verse is also pointing out that bad actions are meant here and not the righteous actions.

معارف و مسائل زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ ، یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے اعمال بد ان کی نظروں میں مزین کردیئے ہیں۔ اس لئے وہ انہی کو بہتر سمجھ کر گمراہی میں مبتلا رہتے ہیں اور بعض مفسرین نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ اعمالھم سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو نیک اعمال کو مزین کر کے ان کے سامنے رکھ دیا تھا مگر ان ظالموں نے ان کی طرف التفات نہ کیا بلکہ کفر و شرک میں مبتلا رہے اس لئے گمراہی میں بھٹکنے لگے۔ لیکن پہلی تفسیر زیادہ واضح ہے، اول تو اس لئے کہ مزین کرنے کے الفاظ عموماً اعمال بد کے لئے استعمال ہوئے ہیں جیسے زُيِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ ، زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا، زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ الخ اور اچھے اعمال کے لئے اس لفظ کا استعمال بہت کم ہے جیسے حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ الآیتہ دوسرے آیت میں اعمالھم (ان کے اعمال) کا لفظ بھی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مراد اعمال بد ہیں نہ کہ اعمال صالحہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَ۝ ٤ۭ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کی نظر میں ان کے اعمال کفریہ مرغوب کر رکھے ہیں جیسا کہ ابوجہل اور ان کے ساتھی سو وہ بھٹکتے پھرتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں سوجھتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ ) ” ایسے لوگوں کو اپنے غلط کام بھی اچھے لگتے ہیں اور اپنا کلچر ہی مثالی نظر آتا ہے۔ (فَہُمْ یَعْمَہُوْنَ ) ” ع م ی کے مادہ میں بصارت ظاہری کے اندھے پن کا مفہوم ہے ‘ جبکہ ع م ہ کے مادہ میں بصیرت باطنی کے اندھے پن کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بصارت تو چاہے درست ہو مگر بصیرت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ انسان کی اس کیفیت کو سورة الحج میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : (فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ) ” تو اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ‘ بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is. "This is God's Law of Nature and the natural logic of human psychology that when man thinks that the results of his life's struggle are confined to this world only when he dces not believe in the existence of any court where his life's work has to be scrutinized and judged finally for good and evil, and when he dces not believe in any life hereafter when he will be requited strictly in accordance with the real worth of his life's deeds, he will inevitably develop in himself a material outlook on life, and every kind of conflict between the Truth and falsehood, good and evil, morality and immorality, will appear utterly meaningless to him. Then, whatever earns him pleasure and enjoyment, material progress and prosperity, power and authority, will be the good for him, no matter it be any philosophy of life, any way of life and any system of morality. He will have no concern for truth and reality. His real ambition will be to win successes and earn adornments only of this worldly life, and their pursuit will lead him astray into every valley. Then, whatever he dces with this object in view. will be a thing of beauty for him, and he will regard all those others as foolish, who are not absorbed like him in seeking the world, and doing anything and everything without any moral qualm and inhibition.

سورة النمل حاشیہ نمبر :5 یعنی خدا کا قانون فطرت یہ ہے ، نفسیات انسان کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک محدود سمجھے گا ، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہوگا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حسن و قبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو ، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو تو لازما اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطعہ نظر نشو و نما پائے گا ۔ اسے حق اور باطل ، شرک اور توحید ، نیکی اور بدی ، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بے معنی نظر آئیں گی ، جو کچھ اسے اس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوت و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرز زندگی اور نظام اخلاق ہو ، اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی ، اس کی اصل مظلوب صرف حیات دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی ، اور اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور الٹا ان لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جو اس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بے نیاز ہوکر ہر کام کر گزرنے میں بے باک نہیں ہیں ۔ کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجید میں کبھی اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اور کبھی شیطان کی طرف ، جب اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطہ نظر اختیار کرتا ہے اسے فطرۃ زندگی کا یہی ہنجار خویش آئند محسوس ہوتا ہے اور جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرز فکر اور طرز عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش برخوردار بہت اچھے جارہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یعنی ان کی ضد کی وجہ سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے سارے برے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں، اور ہدایت کی طرف نہیں آتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:4) زینا۔ ماضی جمع متکلم ہم نے زینت دی۔ ہم نے خوبصورت بنادیا۔ ہم نے خوشنما کردیا۔ ہم نے سنوارا۔ یعمھون۔ مضارع جمع مذکر غائب عمہ مصدر۔ (باب فتح، سمع) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی ہم نے ان کے کفر کی یہ سزا دی یا ان کے کفر کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دنیا ہی میں مگن ہوگئے اور اسی کو اپنی تمام کوششوں کا مرکز سمجھنے لگے۔ گویا آخرت پر عدم ایمان کی یہ سزا ملتی ہے کہ انسان اپنے برے کاموں کو بھی اچھا سمجھنے لگتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین ……یعمھون (٤) حقیقت یہ ہے کہ آخرت پر ایمان وہ قوت ہے جو اس دنیا میں انسانی خواہشات ، اس کے جذبات کو دباتی ہے اور ان کو اعتدال اور توازن بخشتی ہے۔ جو شخص ایمان نہیں رکھتا وہ اپنی کسی خواہش اور کسی میلان کو دبانے کی طاقت اور اخلاقی قوت ہی نہیں رکھتا وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ بابر بعیش کوش کو عالم دوبارہ نیست اور اس عالم میں زندگی بھی مختصر ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر ہم نے اس دنیا میں کوئی عیش اور کوئی لذت ترک کردی یا ہم حاصل نہ کرسکے تو اس زندگی میں ایک منٹ کی توسیع ہوجائے۔ جب سوچ یہ ہوجائے تو کسی کو عیش و عشرت اور لذات و رغبات کے ہاتھوں کون چھڑا سکتا ہے۔ الا یہ کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑ آجانے کا ایمان اپنے اندر پیدا کر دے۔ قیامت کے دن کے ثواب اور اجر کا امیدوار ہو اور آخرت کی سزائے خائف ہو جہاں تمام لوگ کھڑے ہوں گے۔ لہٰذا جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ان کے لئے ہر قسم کی شہوات اور لذات کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے۔ وہ بغیر خوف خدا ، بغیر خوف آخرت اور پھر بلاشرم و حیا ان کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ نفس کی فطرت اور پیدائش اس پر ہے کہ یہ لذت کا دلدادہ ہے۔ یہ حسن پرست اور جمال پر مٹنے والا ہے۔ الایہ کہ اسے آیات الہیہ اور رسول ان کریم کی راہنمائی نصیب ہوجائے اور وہ اسے دائرہ ایمان کے اندر لے آئیں اور وہ سمجھ لے کہ یہ جہاں تو فانی ہے۔ جب کوء نفس یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے اعمال کا رنگ بدل جاتا ہے۔ اس کا عالم اشواق بدل جاتا ہے۔ اسے پھر اچھے کاموں میں اسی طرح لذت آتی ہے جس طرح مادی لذت ہوتی ہے بلکہ پیٹ اور جسم کی لذت پھر اسے نہایت ہی حقیر و قلیل نظر آنے لگتی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے۔ اسے اس قابل بتایا ہے کہ اگر اس کا دل ہدایت کے لئے کھل جائے تو وہراہ ہدایت پا سکے۔ اور اگر اس کا دل بجھ جائے اور شمع ایمان گل کردی جائے تو پھر وہ گمراہی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا ہے۔ پھر اس انسانیت کی ہدایت پر ضلالت کے لئے اس نے ایک سنت بھی جاری کردی ہے اور اس کے مطابق وہ ہدایت پاتا ہے یا راہ ضلالت اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ صراحت کردیتا ہے اور خدا اسے اپنا فعل بتاتا ہے کہ وہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ ربنا لھم اعمالھم فھم یعمھون (٨٢ : ٣) ” ہم نے ان کے کرتوتوں کو ان کے لئے خوشنما بنا دیا ہے ، اس لئے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ “ چونک وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، اس لئے اس پر اللہ کی سنت کا نفاذ ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کے اعمال اور ان کی لذات اور خواہشات ان کے لئے خوشنما بنا دی جاتی ہیں۔ یہاں تزئین اعمال یعنی اعمال کو مزید بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس طرح بھٹکتے ہیں کہ جس شہر میں یہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں اس شہر نہیں سمجھتے۔ اس لئے یہ شر کے چکر میں رات دن بڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کو اس کا شعور ہرگز نہیں ہوتا۔ اور جس شخص کے لئے شر کو مزین کردیا گیا ہو اس کا انجام سب کو معلوم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ یہ منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ اس کے علاوہ شرک بھی کرتے ہیں اور اپنے مشرکانہ اعمال کو بہت عمدہ خیال کرتے ہیں۔ وہ غیر اللہ کو کارساز اور برکات دہندہ سمجھ کر پکارنے کو بہت بڑا عمل صالح تصور کرتے ہیں ان کو اس کی سخت ترین سزا دی جائیگی اور آخرت میں وہ سب سے زیادہ خسارے میں رہیں گے۔ کیونکہ وہ اجر وثواب سے محروم رہیں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور یہی سب سے بڑا خسارہ ہے۔ ای اشد الناس خسرانا لفوات الثواب و استحقاق العقاب (ابو السعود ج 6 ص 572) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کی نظر میں خوش منظر اور مستحسن کر رکھے ہیں سو وہ اپنی اس خوش فہمی میں بھٹکتے پھر رہے ہیں یعنی ان کے اعمال ان کی نگاہ میں بھلے معلوم ہوتے ہیں اس لئے انہی میں ڈانوا ڈول پھرا کرتے ہیں تزیین کی نسبت حضرت حق تعالیٰ کی خالق ہونے کے اعتبار سے کی گئی ہے۔