Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 51

سورة النمل

فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکۡرِہِمۡ ۙ اَنَّا دَمَّرۡنٰہُمۡ وَ قَوۡمَہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۵۱﴾

Then look how was the outcome of their plan - that We destroyed them and their people, all.

۔ ( اب ) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہو ا ؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کردیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یعنی ہم نے مذکورہ9سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کردیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہوسکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو9افراد نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ مَكْرِہِمْ۝ ٠ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ٥١ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ دمر قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان/ 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء/ 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد/ 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف . ( د م ر ) التدمیر ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان/ 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء/ 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد/ 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) سو دیکھیے ان کی اس شرارت کا کیا انجام ہوا ہم نے ان کو اس طریقے سے مذکور اور بقیہ انکی ساری قوم کو پتھروں کا عذاب نازل کر کے ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْلا اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ ) ” یعنی اس قوم پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑا اور ان نو سرداروں سمیت تمام منکرین ہلاک ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:51) دمرنا ہم۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب جس کا مرجع تسعۃ رھط ہے۔ ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ ہم نے ہلاک و برباد کردیا۔ خاویۃ۔ افتادہ۔ گری ہوئی۔ خواء مصدر۔ خوی یخوی (ضرب) گر جانا (گھر کا) اجڑ جانا۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث بمعنی مفعول۔ بیوتھم کا حال ہے۔ بما ظلموا۔ باسببیہ ہے۔ ما مصدریہ ہے بسبب ان کے ظلم کے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام۔ ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی ترقی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) صالح (علیہ السلام) کی قوم کے انجام میں لوگوں کے لیے درس عبرت ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کی چال کارگر نہیں ہوتی جو بھی مکروفریب سے کام لے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے صالح (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نشان عبرت بنا دے گا اور ان کی بستیاں آج بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر کے مقام سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو۔ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیز کیا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَمَرَہُمْ أَنْ لاَ یَشْرَبُوا مِنْ بِءْرِہَا، وَلاَ یَسْتَقُوا مِنْہَا فَقَالُوا قَدْ عَجَنَّا مِنْہَا وَاسْتَقَیْنَا فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَطْرَحُوا ذَلِکَ الْعَجِینَ وَیُہَرِیقُوا ذَلِکَ الْمَاءَ وَیُرْوَی عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ وَأَبِی الشُّمُوسِ أَنَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَرَ بِإِلْقَاء الطَّعَامِ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ عَنِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنِ اعْتَجَنَ بِمَاءِہِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاہُمْ صَالِحًا)] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے حجر میں اترے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اس کنواں سے نہ پانی پئیں اور نہ اس سے پلائیں انہوں نے کہا ہم نے تو اس سے آٹا گوندہ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آٹے کو پھینک دو اور پانی بہا دو ۔ حضرت سبرۃ بن معبد اور ابی الشموس بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانا گرانے کا حکم دیا۔ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں آپ نے کھانا گرانے کا انہیں حکم دیا تھا جنہوں نے اس پانی سے آٹا گوندھا تھا۔ “ مسائل ١۔ تباہ شدہ اقوام کی تاریخ اور ان کے آثارات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھنا اور دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے دنیا و آخرت میں فوائد : ١۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) ٢۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٣۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦) ٤۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٥۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بےخوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦٢) ٦۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٧۔ متقی کے کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فانظر ……ظلموا ط ایک لمحے کے اندر ان کو برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ اگلے لمحے میں ان کے محلات ان پر الٹ دیئے گئے۔ گھر خالی رہ گئے ۔ ایک لمحہ پہلے وہ تو اہل ایمان کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور ان کو پورا یقین تھا کہ وہ اپنی سازشوں پر عمل کرسکیں گے۔ سیاق کلام میں یہ شتابی کہ ادھر سازش ہوئی ادھر وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ اس اچانک اور فیصلہ کن گرفت سے ڈرانا مقصود ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں قوت آجاتی ہے۔ وہ مغرور نہ ہوں اور غرے میں نہ آجائیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو اسی طرح اچانک گرفت میں لے سکتا ہے اور ان کو ان کی مکاریوں اور تدابیر کے ساتھ ہلاک کرسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ یہ ان کے مکر و فریب کے انجام کا بیان ہے۔ اور خطاب ہر مخاطب سے ہے۔ دیکھ لو ان کے مکر و فریب کا انجام کیا ہوا ہم نے نہ صرف ان بد معاشوں کو بلکہ ان کی ساری قوم کو تباہ و برباد کردیا۔ فتلک بیوتہم خاویۃ الخ ان کے گھر ویران پڑے ہیں یہ سزا ان کو ان کے ظلم وعدوان کی وجہ سے ملی۔ اس واقعہ میں علم وفہم رکھنے والوں اور غور وفکر کرنے والوں کے لیے بہت بڑی عبرت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) پس اے پیغمبر دیکھئے ان کی خفیہ سازش کا انجام کیسا ہوا اور ہم نے ان نو فسادی اشخاص کو اور ان کی قوم کو سب کو ہلاک کرڈالا اور کھیڑ مارا یعنی آسمانی عذاب سے پوری قوم تباہ کردی گئی۔