Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 54

سورة النمل

وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۵۴﴾

And [mention] Lot, when he said to his people, "Do you commit immorality while you are seeing?

اور لوط کا ( ذکر کر ) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو ۔ ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Lut and His People Allah tells: وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ ... And (remember) Lut! When he said to his people: Allah tells us about His servant and Messenger Lut, peace be upon him, and how he warned his people of Allah's punishment for committing an act of immorality which no human ever committed before them -- intercourse with males instead of females. This is a major sin, whereby men are satisfied with men and women are with women (i.e., homosexuality). Lut said: ... أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ Do you commit immoral sins while you see! meaning, `while you see one another, and you practice every kind of evil in your meetings.' أَيِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ

ہم جنسوں سے جنسی تعلق ( نتیجہ ایڈز ) اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی امت یعنی اپنی قوم کو اس کے نالائق فعل پر جس کا فاعل ان سے پہلے کوئی نہ ہوا تھا ۔ یعنی اغلام بازی پر ڈرایا ۔ تمام قوم کی یہ حالت تھی کہ مرد مردوں سے عورت عورتوں سے شہوت رانی کرلیا کرتی تھیں ۔ ساتھ ہی اتنے بےحیا ہوگئے تھے کہ اس پاجی فعل کو پوشیدہ کرنا بھی کچھ ضروری نہیں جانتے تھے ۔ اپنے مجمعوں میں واہی فعل کرتے تھے ۔ عورتوں کو چھوڑ مردوں کے پاس آتے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اپنی اس جہالت سے باز آجاؤ تم تو ایسے گئے گزرے اور اتنے نادان ہوئے کہ شرعی پاکیزگی کے ساتھ ہی تم سے طبعی بھی جاتی رہی ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے ( اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥؀ۙ ) 26- الشعراء:165 ) کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑ بنائے ہیں چھوڑتے ہو؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ۔ قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جب لوط اور لوط والے تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور نہ وہ تمہاری مانتے ہیں نہ تم ان کی ۔ تو پھر ہمیشہ کی اس بحث و تکرار کو ختم کیوں نہیں کردیتے؟ لوط علیہ السلام کے گھرانے کو دیس نکالا دے کر ان کے روزمرہ کے کچوکوں سے نجات حاصل کرلو ۔ جب کافروں نے پختہ ارادہ کرلیا اور اس پر جم گئے اور اجماع ہوگیا تو اللہ نے انہیں کو ہلاک کردیا اور اپنے پاک بندے حضرت لوط کو اور ان کی اہل کو ان سے جو عذاب ان پر آئے ان سے بچالیا ۔ ہاں آپ کی بیوی جو قوم کے ساتھ ہی تھی وہ پہلے سے ہی ان ہلاک ہونے والوں میں لکھی جا چکی تھی وہ یہاں باقی رہ گئی اور عذاب کے ساتھ تباہ ہوئی کیونکہ یہ انہیں ان کے دین اور ان کے طریقوں میں مدد دیتی تھی انکی بد اعمالیوں کو پسند کرتی تھی ۔ اسی نے حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر قوم کو دی تھی ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ معاذاللہ ان کی اس فحش کاری میں یہ شریک نہ تھی ۔ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بزرگی کے خلاف ہے کہ ان کی بیوی بدکار ہو ۔ اس قوم پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہر ایک پر اسی کے نام پتھر آیا اور ایک بھی ان میں سے بچ نہ سکا ۔ ظالموں سے اللہ کی سزا دور نہیں ۔ ان پر حجت ربانی قائم ہوچکی تھی ۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاچکا تھا ۔ تبلیغ رسالت کافی طور پر ہوچکی تھی ۔ لیکن انہوں نے مخالفت میں جھٹلانے میں اور اپنی بے ایمانی پر اڑنے میں کمی نہیں کی ۔ نبی اللہ علیہ السلام کو تکلیفیں پہنچائیں بلکہ انہیں نکال دینے کا ارادہ کیا اس وقت اس بدترین بارش نے یعنی سنگ باری نے انہیں فناکردیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541یعنی لوط (علیہ السلام) کا قصہ یاد کرو، جب لوط (علیہ السلام) نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔ 542یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بےحیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہونگے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] یہاں لفظ تبصرون استعمال ہوا ہے جو دیکھنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور سمجھنے کے معنوں میں بھی۔ اس لحاظ سے ان دو آیات کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم خود بھی یہ سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور بےحیائی کا کام ہے۔ اور خلاف فطرت ہے۔ حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے تم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ایسا کام کرتے ہو۔ دوسرا یہ کہ تم خوب سمجھتے ہو کہ اس کام کے لئے اللہ نے بیویاں پیدا کی ہیں۔ لیکن تم ان سے بےتعلق ہو کر مرعوں سے ہی یہ کام کرتے ہو۔ تیسرے یہ کہ تم اس قدر بےحیا ہوچکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کے قصے کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٠ تا ٨٤) ، ہود (٧٧ تا ٨٣) ، حجر (٦١ تا ٧٧) ، انبیاء (٧١ تا ٧٥) ، شعراء (١٦٠ تا ١٧٥) ، عنکبوت (٢٨ تا ٣٥) ، صافات (١٣٣ تا ١٣٨) اور قمر (٣٣ تا ٣٩) ۔ صالح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد، جو قرابت رکھنے والوں کی طرف مبعوث تھے اور جن کی قوم مومن و کافر دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اس پیغمبر کا ذکر کیا جو اپنی قوم میں اجنبی تھا اور جس پر اہل سدوم میں سے ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا، یہ پیغمبر لوط (علیہ السلام) تھے۔ ” اَلْفَاحِشَةُ “ وہ کام جو برائی میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ ” تبصرون “ یہ بصیرت سے بھی ہوسکتا ہے اور بصارت سے بھی۔ بصیرت سے ہو تو مطلب یہ کہ تم یہ انتہائی بےحیائی کا کام کرتے ہو جب کہ خود بھی سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور خلاف فطرت فعل ہے، جو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا اور حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے اور بصارت سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ تم اس قدر بےحیا ہوچکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ) [ العنکبوت : ٢٩ ] ” اور تم اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو (پیغمبر کر کے ان کی قوم کے پاس) بھیجا تھا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو حالانکہ سمجھدار ہو (کیا اس کی برائی نہیں سمجھتے، آگے اس بےحیائی کا بیان ہے یعنی) کیا تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر (اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی) بلکہ (اس معاملے میں) تم (محض) جہالت کر رہے ہو (اس تقریر کا) ان کی قوم سے کوئی (معقول) جواب نہ بن پڑا بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ لوط (علیہ السلام) کے لوگوں کو (یعنی ان پر ایمان لانے والوں کو مع ان کے) تم اپنی بستی سے نکال دو (کیونکہ) یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں سو (جب یہاں تک نوبت پہنچ گئی تو) ہم نے (اس قوم پر عذاب نازل کیا اور) لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے متعلقین کو (اس عذاب سے) بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ اس کو (بوجہ ایمان نہ لانے کے) ہم نے انہیں لوگوں میں تجویز کر رکھا تھا جو عذاب میں رہ گئے تھے اور (وہ عذاب جو ان پر نازل ہوا یہ تھا کہ) ہم نے ان پر ایک نئی طرح کا مینہ برسایا (کہ وہ پتھروں کی بارش تھی) سو ان لوگوں کا کیسا برا مینہ تھا جو (اول عذاب خدا سے ڈرائے گئے تھے (جس پر انہوں نے التفات نہ کیا) آپ (بیان توحید کے لئے بطور خطبہ کے) کہئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے سزاوار ہیں اور اس کے ان بندوں پر سلام (نازل) ہو جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے (یعنی انبیاء و صلحاء۔ آگے مضمون ہماری طرف سے بیان کیجئے وہ یہ کہ لوگو یہ بتلاؤ کہ کیا (کمالات اور احسانات میں) اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں (بہتر ہیں) جن کو (الوہیت میں) شریک ٹھہراتے ہیں (یعنی ظاہر اور مسلم ہے کہ اللہ ہی بہتر ہے پس مستحق عبادت بھی وہی ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝ ٥٤ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا جس وقت انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم جان بوجھ کر بےحیائی کا کام کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ) ” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ علی الاعلان اپنی مجالس کے اندر ایسی فحش حرکات کا ارتکاب کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67 For comparison, See Al-A`raf: 80-84; Hud, 74-83, Al-Hijr: 57-77, Al-Anbiya': 71-75, Ash-Shu`ara': 160-174, Al-`Ankabut: 28-75, As-Saffat: 133138, Al-Qamar: 33-39. 68 This can have several meanings and probably all are implied: (1) `That you are not unaware of this act's being wicked, but you commit it knowing it to be so"; (2) "You are also not unaware that the man has not been created for the man's sex satisfaction but the woman, and the distinction between them (man and woman) is not such as you cannot perceive, yet with open eyes you commit this abominable act." (3) "You indulge in this indecency publicly when there are people watching you", as stated in Surah `Ankbut: 29, thus: " ..... and you indulge in indecencies in your assemblies."

سورة النمل حاشیہ نمبر : 67 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 80 تا 84 ، ہود 74 تا 83 ، الحجر 57 77 ، الانبیاء 71 تا 75 ، الشعراء 16 تا 174 ، العنکبوت 28 تا 75 ، الصافات 133 تا 138 ، القمر 33 تا 39 سورة النمل حاشیہ نمبر : 68 اس ارشاد کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ، اور غالبا وہ سب ہی مراد ہیں ، ایک یہ کہ تم اس فعل کے فحش اور کار بد ہونے سے ناواقف نہیں ہو ، بلکہ جانتے بوجھتے اس کا ارتکاب کرتے ہو ۔ دوسرے یہ کہ تم اس بات سے بھی ناواقف نہیں ہو کہ مرد کی خواہش نفس کے لیے مرد نہیں پیدا کیا گیا بلکہ عورت پیدا کی گئی ہے ، اور مرد و عورت کا فرق بھی ایسا نہیں ہے کہ تمہاری آنکھوں کو نظر نہ آتا ہو ، مگر تم کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ جیتی مکھی نگلتے ہو ، تیسرے یہ کہ تم علانیہ یہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جب کہ دیکھنے والی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں ، جیسا کہ آگے سورہ عنکبوت میں آرہا ہے: ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ، اور تم اپنی مجلسوں میں برا کام کرتے ہو ۔ ( آیت 29 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:54) ولوطا۔ میں واؤ عطف کا ہے اس کے بعد ارسلنا محذوف ہے۔ ای وارسلنا لوطا۔ جملہ ارسلنا لوطا کا عطف ارسلنا ۔۔ صلحا (آیت 45) پر ہے۔ یا لوطا اذکر (فعل محذوف) کا مفعول ہے ای واذکر لوطا۔ اذ قال میں اذ ظرف زمان ہے۔ جب۔ اتاتون الفاحشۃ۔ الف استفہامیہ ہے مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اتیان (جرب) مصدر۔ تاتون اصل میں تاتیون تھا ی کا ضمہ ماقبل کو دیا اجتماع ساکنین سے یا ساقط ہوگئی تاتون ہوگیا۔ انی انا اور اتی کرنا۔ جیسے والتی یاتین الفاحشۃ (4:15) اور جو عورتیں بےحیائی کا کام کریں۔ یہاں اتاتون الفاحشۃ کا معنی کیا تم بےحیائی کا کام کرتے ہو ؟ وانتم تبصرون : تاتون سے جملہ حالیہ ہے کہا تم یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو۔ درآں حالیکہ تم سمجھ رکھتے ہو۔ تبصرون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ ابصار (افعال) مصدر تم دیکھتے ہو۔ تم بصیرت رکھتے ہو۔ دل سے دیکھتے ہو۔ سمجھ بوجھ رکھتے ہو۔ وانتم تبصرون کے مندرجہ ذیل مطلب ہوسکتے ہیں :۔ (1) تم اس کو جانتے بوجھتے ہو کہ یہ فحش اور کاربد ہے۔ (2) تم جانتے ہو کہ مرد کی خواہش نفس کے لئے مرد نہیں عورت پیدا کی گئی ہے۔ (3) تم علانیہ یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو یعنی ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو۔ جیسے کہ اور جگہ آیا ہے وتاتون فی نادیکم المنکر (29:29) اور تم بھری مجلس میں ممنوعات کا ارتکاب کرتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 54 تا 59 : اناس (انس) (لوگ۔ انسان) یتطھرون (پاک باز بنتے ہیں) ‘ قدرنا (ہم نے ٹھہرادیا) ‘ الغبرین (پیچھے رہ جانے والے) ‘ امطرنا ( ہم نے برسایا) ‘ سلام (سلامتی) اصطفی (چن لیا۔ منتخب کرلیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 54 تا 59 : اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اس کا دستور یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور اس سے توبہ نہیں کرتا تو اس کو اسی دنیا میں مختلف شکلوں میں سزادی جاتی ہے اور آخرت کا نقصان تو واضح ہے لیکن اگر ساری قوم ایک گناہ پر راضی ہوجائے اور گاہ کو گناہ نہ سمجھا جائے تو پھر اس قوم کی طرف اللہ کا عذاب متوجہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے شاعر نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ قدرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف یعنی جب تک خطاؤں کا دائرہ افراد تک محدود رہتا ہے تو قدرت بھی ان کے معافی مانگنے پر ان کو معاف کرسکتی ہے لیکن جب پوری قوم مل کر بڑی ڈھٹائی سے گناہوں میں اجتماعی طور پر مبتلا ہوجاتی ہے تو پھر اللہ کا عذاب آکررہتا ہے۔ دنیا بھرکے انسانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اب دنیا پر وہ عذاب تو نہ آئیں گے جو گذری ہوئی امتوں پر آئے تھے لیکن زلزلے ‘ طوفان ‘ قحط سالی ‘ خون خرابہ اور آپس کے شدید اختلافات وغیرہ آتے رہیں گے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھتیجے اور اللہ کے نبی تھے۔ وہ اس قوم کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے جو ایک گھنائو نے اور شرمناک فعل یعنی ہم جنس پرستی کے فعل میں مبتلا تھے۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کے لوگوں کو اس فعل بد سے روکنے اور دنیا وآخرت میں اس کے شدید ترین نقصانات سے آگاہ کرتے تو آپ ؐ کی قوم اس کی شدید مخالفت کرتی یہاں تک کہ پوری قوم آپ کی دشمن ہوگئی اور کہنے لگی کہ لوط کو اور اس کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کیونکہ یہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور نیک سمجھتے ہیں۔ ہم جیسے ناپاک لوگوں میں ان جیسے پاک باز لوگوں کا کیا کام ہے ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پھر بھی اپنی قوم کے لوگوں کو ہر طرح نصیحت کرتے رہے۔ جب وہ قوم ہم جنس پرستی سے باز نہیں آئی تو اللہ کا عذاب اس قوم کی طرف متوجہ ہوا ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا ‘ اوپر سے پتھروں کی بارش کی گئی اور ان کی بستیاں زمین کے اندر دھنسادی گئیں اور ان بستیوں پر سمندر کا پانی چڑھ گیا۔ آج وہ سمند جس کے نیچے قوم لوط کی بستیاں ڈبو دی گئیں اسی کو بحر میت (DeadSea) کہتے ہیں۔ اس پانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی کشتی بھی نہیں چل سکتی اور کسی جاندار کو وہ اپنے اندر برداشت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو ان کے برے اعمال کے سبب تابہ و برباد کردیا لیکن حضرت لوط ؐ اور ان کے گھر والوں (سوائے ان کی بیوی کے جو کافرہ تھی) اور ان کے اوپر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمادی ۔ قرآن کریم کی ان آیات اور قوم لوط کے برے انجام کو سامنے رکھ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے نہ صرف اس ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے بلکہ میڈیا کے ذریعہ اس کی بےانتہا ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ ان کے اپنے کلب ہیں ‘ انجمنیں ہیں اور یہ بات بہت تیزی سے آگے جارہی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا پھر سے ہم جنس پرستی کے سمندر میں غرق ہونے کے قریب ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی کیا اس کی قباحت نہیں سمجھتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا انجام۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ نہ معلوم انہوں نے کتنی مدّت تک قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے سمجھنے کی بجائے ان سے بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں انہیں نیست ونابود کردیا گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو۔ مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو اور ہر قسم کی برائی کرتے ہو۔ (العنکبوت : ٢٩) قوم کا جواب : اسے اور اس کے ساتھیوں کو شہر سے نکال دیا جائے۔ اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت : ٢٩) قوم کے مطالبے پر اللہ کا عذاب : ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور اس پر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔ “ [ ھود : ٨٢، ٨٣] (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَجَدْتُمُوہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ ) [ رواہ ابوداؤد : باب فیمَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کسی کو قوم لوط والا فعل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ۔ “ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جنس پرستی کا شکار تھی۔ ٢۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو علاقہ سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ ٤۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو عذاب سے بچا لیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب ہم جنسی کرنا تھی۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : ٨٤، ٨٥) ٤۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ قوم ثمود نے اونٹنی کا معجزہ مانگا اور پھر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ (ھود : ٦٤، ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولوطا……قوم تجھلون (٥٥) پہلے فقرے میں اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ تم جس بگاڑ میں مبتلا ہو یہ نہایت ہی عجیب و غریب ہے ، تم دیکھتے نہیں ہو کہ تمام زندہ مخلوقات کی فطرت کیا ہے۔ تم تو اچھی طرح دیکھتے ہو کہ حیات انسانی و حیوانی کے اندر قانون فطرت کیا ہے۔ تمام زندہ مخلوق میں سے صرف تم ایسے ہو کہ خلاف فطرت روش میں مبتلا ہو اور دوسرے فقرے میں اس بات کی وضاحت کردی کہ تمہار ایہ فعل انسانیت کے خلاف ہے کہ تم اپنی جنس ضرورت عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے پوری کرتے ہو۔ محض یہ بیان کہ وہ ایسا کرتے تھے ، اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ فعل غیر فطری اور عجیب ہے اور پوری حیوانی نباتاتی بلکہ کائنتای فطرت کے خلاف ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کی کہ تم بہت ہی جاہل ہو۔ اس مفہوم میں بھی جاہل ہو کہ تمہیں فطرت کائنات اور ناموس کائنات کا علم نہیں ہے اور اس لحاظ سے بھی جاہل اور احمق ہو کہ تم ایسے برے افعال کا ارتکاب کرتے ہو کیونکہ جو شخص فطرت کے تقاضوں سے نابلد ہو ، وہ جاہل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بیوقوف اور احمق بھی ہوتا ہے۔ اب آپ کی قوم کا جواب کیا تھا ؟ ان سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اس جہالت اور حماقت کو چھوڑ کر اصل راہ فطرت کی طرف آ جائو جس کے مطابق تم پیدا ہوئے ہو تو ان کا جواب یہی تھا جو ہر جاہل کا ہوتا ہے یعنی یہ کہ تم بہت پاک لوگ ہونکلو ہمارے گائوں سے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بےحیائی کے کاموں میں مشغول ہونا نصیحت قبول نہ کرنا، اور بالآخر ہلاک ہونا ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا سوال و جواب اور پھر ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے، تفصیل سے یہ واقعہ سورة اعراف سورة حجر اور سورة شعراء میں گزر چکا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے یہ لوگ برے کام کرتے تھے یعنی مرد مردوں سے شہوت پوری کرتے تھے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ایمان کی بھی دعوت دی اور یہ بھی سمجھایا کہ اس کام کو چھوڑو تمہارا دل بھی جانتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے، یہ جاہلوں کا کام ہے تم پر جہالت سوار ہے کہ تم اسے برا کام جانتے ہوئے بھی نہیں چھوڑتے، ان لوگوں نے الٹے الٹے جواب دیئے اور کہنے لگے کہ اجی لوط کو اور ان کے ساتھیوں کو (جنہوں نے ایمان قبول کرلیا) اور ان کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو یہ لوگ پاک باز بنتے ہیں، پاک آدمیوں کا ناپاک آدمیوں میں کیا کام (یہ ان لوگوں نے بطور طنز و تمسخر کہا تھا) ۔ آخر ان لوگوں پر عذاب آگیا بحکم الہٰی حضرت سیدنا لوط (علیہ السلام) اہل ایمان کو اور گھر والوں کو آخر رات میں بستی سے لے کر نکل گئے اللہ پاک نے ن کی قوم پر پتھروں کی بارش بھیج دی اور زمین کا تختہ بھی الٹ دیا۔ بارش میں جو پتھر برسائے گئے انہیں سورة ھود اور سورة حجر میں (حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا اور سورة ذاریات میں (حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ) فرمایا سجیل کا ترجمہ کنکر کیا گیا ہے یعنی یہ اس قسم کے پتھر تھے جیسے مٹی کو آگ میں پکا لیا ہو اور اس سے اینٹیں بنائی جائیں اسی کو فرمایا کہ ہم نے خاص قسم کی بارش بھیج دی آخر میں فرمایا (فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ ) (سو بری بارش تھی ان لوگوں کی جنہیں ڈرایا گیا) یعنی پہلے نہیں سمجھایا گیا تھا کہ ڈرو، ایمان لاؤ، برے اعمال چھوڑو اس کا انہوں نے کوئی اثر نہیں لیا لا محالہ عذاب آیا اور پتھروں کی بارش ہوئی اور انہیں ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ یہ چوتھا قصہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو افعال قبیحہ سے منع کیا مگر وم نے ان کی اطاعت نہ کی اور سرکشی پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون، بصر سے بصر قلب مراد ہے یعنی علم، مطلب یہ ہے کہ تم اس بےحیائی کے فعل کا ارتکاب کرتے ہو حالانکہ تمہیں خوب معلوم ہے کہ یہ سراسر بےحیائی ہے۔ من بصر القلب ای اتفعلونھا کذلک (روح ج 19 ص 216) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو پیغمبر نا کر بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم دیدہ و دانستہ اور جانتے بوجھتے بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دیکھتے ہو کیسا برا کام ہے 12