Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 92

سورة النمل

وَ اَنۡ اَتۡلُوَا الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَقُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿۹۲﴾

And to recite the Qur'an." And whoever is guided is only guided for [the benefit of] himself; and whoever strays - say, "I am only [one] of the warners."

اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں جو راہ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لئے راہ راست پر آئے گا ۔ اور جو بہک جائے تو کہہ دیجئے! کہ میں صرف ہوشیار کرنے والوں میں سے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْانَ ... And that I should recite the Qur'an, means, to people, so as to convey it to them. This is like the Ayah, ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الايَـتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ This is what We recite to you of the Ayat and the Wise Reminder. (3:58) نَتْلُواْ عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ We recite to you some of the news of Musa and Fir`awn in truth. (28:3) meaning, `I am a conveyer and a warner.' ... فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِينَ then whosoever receives guidance, receives it for the good of himself; and whosoever goes astray, say (to him): "I am only one of the warners." meaning, `I have an example to follow in the Messengers who warned their people, and did what they had to do in order to convey the Message to them and fulfill the covenant they had made.' Allah will judge their nations to whom they were sent, as He says: فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ your duty is only to convey and on Us is the reckoning. (13: 40) إِنَّمَأ أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ But you are only a warner. And Allah is a Protector over all thing. (11:12)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

921یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوجائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا ؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] اور یہ حکم ہوا ہے کہ جس قدر قرآن نازل ہوتا جاوے۔ ساتھ کے ساتھ تم لوگوں کو سناتا جاؤں۔ رہی یہ بات کہ تم ان قرآنی آیات کا طرف توجہ دیتے ہو یا نہیں۔ یا سیدھی راہ کی طرف آتے ہو یا نہیں۔ یہ میری ذمہ داری نہیں، میری ذمہ داری صرف قرآن سنا دینا ہے۔ پھر اگر ہدایت قبول کرلو گے تو اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔ دنیا میں اللہ عزت اور اقتدار بخشے گا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ گے اور گمراہ ہی رہنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی میں اپنا کام سرانجام دے چکا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى ۔۔ : یعنی مجھے یہ حکم ہے کہ میں خود بھی مطیع اور فرماں بردار رہوں اور تمہیں بھی قرآن پڑھ کر سناتا رہوں۔ پھر جو شخص میری دعوت سے راہ راست پر آجائے تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بھٹکا رہے تو کہہ دے کہ میرا کام اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، کسی کو راہ حق پر لے آنا میرا کام نہیں، نہ ہی مجھ پر اس کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ) [ الرعد : ٤٠ ] ” تو تیرے ذمے صرف پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔ “ اور فرمایا : ( اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ ) [ ھود : ١٢ ]” تُو تو صرف ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ۝ ٠ ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝ ٩٢ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) اور مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ تمہیں قرآن کریم پڑھ پڑھ کر سناؤں سو جو شخص قرآن کریم پر ایمان لائے گا وہ اپنے فائدے کے لیے ایمان لائے گا اور جو شخص قرآن کریم کا انکار کرے گا تو آپ فرما دیجیے میں صرف قرآن کریم کے ذریعے دوزخ سے ڈرانے والا ہوں پھر اس کے بعد جہاد کا حکم ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج) ” مجھے تیسرا حکم یہ ملا ہے کہ میں قرآن پڑھوں ‘ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہوں اور اس کی تبلیغ کرتا رہوں۔ سورة المائدۃ کی آیت ٦٧ میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا ہی حکم دیا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ ط) کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے آپ وہ لوگوں تک پہنچادیجیے اور اگر بالفرض آپ نے ایسانہ کیا تو یہ گویا رسالت کے فرائض میں کوتاہی شمار ہوگی۔ (فَمَنِ اہْتَدٰی فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ ج) ” اس ہدایت کے بدلے میں اگر وہ آخرت میں کامیاب قرار پاتا ہے اور اسے (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) (الواقعۃ) سے نوازا جاتا ہے تو اس میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے۔ (وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ) ” جیسے کسی خطبہ کے آخر میں یہ الفاظ کہے جاتے ہیں : وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ بالکل اسی انداز میں اب اس سورت کا اختتام ہو رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:92) اتلوا مضارع منصوب بوجہ عمل ان واحد متکلم تلاوۃ مصدر۔ تلو مادہ۔ میں تلاوت کروں۔ میں پڑھوں۔ اھتدی۔ ماضی واحد مذکر غائب اھتداء (افتعال) مصدر۔ اس نے ہدایت اختیار کی ۔ وہ راہ پر آیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ کسی کو راہ حق پر لے آنا میرا کام نہیں ہے اور نہ مجھ پر اس کی ذمہ داری ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اس کو اجر وثواب و نجات ہوگی، میں اس سے کسی مالی یا جاہی نفع کا خواہاں نہیں ہوں۔ 2۔ یعنی میرا کام صرف حکم پہنچانا ہے، سو پہنچا کر سبکدوش ہوجاوں گا، آگے نہ ماننے کا وبال تم کو بھگتنا پڑے گا، مطلب یہ کہ میں پیغمبر ہوں اور تم سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا پہلا حکم اور پیغام یہ ہے کہ ایک ہی رب کی عبادت کی جائے مکہ والوں کو اس سے سخت اختلاف تھا جس بنا پر ان کا مطالبہ تھا کہ یہ قرآن نہ پڑھا جائے۔ مکہ والوں کی آپ کے ساتھ دشمنی کی بنیاد محض قرآن مجید تھا۔ قرآن مجید میں بھی ان کو بالخصوص ان آیات کے ساتھ شدید اختلاف تھا جن میں مکہ والوں کے کفر و شرک کی مذمت کرتے ہوئے انہیں توحید خالص کی دعوت دی گئی ہے۔ نبوت کے ابتدائی سالوں میں اہل مکہ کلی طور پر قرآن مجید کے خلاف تھے لیکن جوں جوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پھیلنے لگی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے اس دعوت پر پوری طرح استقامت کا مظاہرہ کیا تو مکہ والوں نے فکری پسپائی اختیار کرتے ہوئے بالآخر یہ مطالبہ کیا کہ آپ قرآن مجید میں کچھ تبدیلیاں کریں۔ آپ اپنے مؤقف میں نرمی کا مظاہرہ کریں گے، ہم بھی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بات کے اور بھی جواب دیئے گئے ان میں سے ایک جواب یہ ہے کہ مکہ کے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتارہوں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ مجھے حکم ہے کہ میں کعبے کے رب کی توحید بیان کرتا جاؤں۔ جس نے ہدایت پائی اس کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا جو شخص گمراہ ہوا اس کا اسے ہی نقصان ہوگا۔ میں اپنے رب کے فرمان کے مطابق لوگوں کو برے عقائد اور کردار کے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ سورۃ النمل کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے حوالے سے تیرہ (١٣) سوالات کیے جن کا جواب دینے میں ہر دور کا مشرک لاجواب رہا ہے اور قیامت تک کوئی مشرک ان سوالات کا الٹا جواب نہیں دے سکتا۔ یہی قرآن مجید کی عظمت اور سچائی ہے کہ کوئی شخص نہ اس کا توڑ پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کسی آیت جیسی آیت پیش کرسکتا ہے۔ اس لیے اس سورة کا اختتام اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ لوگ نہ آپ کی دعوت کی صداقت کو جھوٹا ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی توحید کے دلائل کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو عنقریب اللہ تعالیٰ انھیں اپنی قدرت کے ایسے معجزات دکھائے گا کہ یہ ان کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ آپ کا رب ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ نشانیوں سے مراد دونوں قسم کی نشانیان ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ ان میں بڑے بڑے لوگ اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی کامیابی دیکھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں، جو لوگ تسلیم کا روّیہ اختیار نہیں کریں گے وہ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں رسوا ہوں گے۔ آپ اپنا کام صبر و شکر کے ساتھ جاری رکھیں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں آپ کا رب اس سے غافل نہیں ہے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم تھا کہ آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کے احکام پڑھ کر سنائیں۔ ٢۔ جس نے ہدایت پائی اس ہدایت کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا۔ ٣۔ جس نے گمراہی اختیار کی وہ گمراہی کا خمیازہ بھگتے گا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبوت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں کو برے انجام سے ڈرائیں۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے مرکزی مقاصد : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے بیان کریں جو کچھ ان کی طرف بھیجا گیا ہے۔ (النحل : ٤٤) ٢۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا میری عبادت کرو۔ (الانبیاء : ٢٥) ٤۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٥٦) ٥۔ اللہ نے ان پڑھ لوگوں میں رسول مبعوث فرمایا۔ جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انہیں تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ (الجمعہ : ٢) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔ ( ابراہیم : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ ) (سو جو شخص ہدایت پر آجائے وہ اپنی ہی جان کے لیے اور اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت پر آئے گا اور دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوگا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی آخرت کے عذاب سے محفوظ رہے گا) (وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ) (اور جو شخص گمراہی کو اختیار کرے تو فرما دیجیے کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں) آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اس میں آپ کا کوئی ضرر بھی نہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ میری ذمہ داری صرف بات پہنچانے کی ہے نہ مانو گے تو تم پر اس کا وبال پڑے گا۔ سورة یونس میں فرمایا (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَکُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَ مَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ) (آپ فرما دیجیے کہ اے لوگو ! تمہارے رب کے پاس سے تمہارے پاس حق آگیا ہے سو جو شخص ہدایت پر آئے تو وہ اپنی جان کے لئے ہدایت اختیار کرتا ہے اور جو شخص گمراہی اختیار کرے تو وہ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے گمراہ بنتا ہے اور میں تمہارے اوپر مسلط نہیں ہوں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ میرا کام تو تبلیغ ہے۔ جو مان لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا میرا فرض یہ ہے کہ میں نہ ماننے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور تکذیب و انکار کے انجام بد سے انہیں خبردار کروں باقی اس چیز کا مجھے علم نہیں کہ وہ عذاب کب آئے گا کیونکہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں، میں غیب داں نہیں ہوں، عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ پہلے دونوں قصوں پر متفرع ہے۔ بطور لف و نشر مرتب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92۔ اور آپ کہہ دیجئے سب خوبیاں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا سو اس وقت تم ان نشانیوں کو پہچان لو گے اور آپ کا پروردگار ان کاموں سے بیخبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور کہو سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے سزا وار ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جن کو تم پہچان لو گے۔ یعنی قرآن کریم کی صداقت اور اسلام کی حقانیت اور وقوع قیامت کے ایسے ایسے نشان دکھائے گا جن کو تم بھی جان لو گے اب ان نشانیات کو دیکھ کر ایمان لائو یا نہ لائو یہ تمہاری مرضی ہے یا ایسے وقت ایمان لانے پر آمادہ ہو جب ایمان لانا مفید نہ ہو اور آپ کا پروردگار ان کاموں سے بیخبر اور غافل نہیں ہے جو تم کررہے ہو لہٰذا اس کا موافق تم کو بدلا دیاجائے گا ۔ تم تفسیر سورة النمل