سورة الْقَصَص نام : آیت نمبر ۲۵ کے اس فقرے سے ماخوذ ہے وَ قَصَّ عَلیہ القَصَصَ ، یعنی وہ سورة جس میں القصص کا لفظ آیا ہے ۔ لغت کے اعتبار سے قصص کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنے کے ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ لفظ باعتبار معنی بھی اس سورة کا عنوان ہو سکتاہے ، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ کا مفصل قصہ بیان ہوا ہے ۔ زمانہ نزول : سورة نمل کے دیباچے میں ابن عباس اور جابر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ قول ہم نقل کر چکے ہیں کہ سورة شعراء ، سورة النمل اور سورة القصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں ۔ زبان ، اندازبیان اور مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں سورتوں کا زمانہ نزول قریب قریب ایک ہی ہے ۔ اور اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے کے مختلف اجزاء جو ان میں بیان کیے گئے ہیں وہ باہم مل کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں ۔ سورة شعراء میں نبوت کا منصب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے حضرت موسیٰ عرض کرتے ہیں کہ ” قوم فرعون کا ایک جرم میرے ذمہ ہے جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہاں جاؤں گا تو وہ مجھے قتل کر دیں گے “پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے ” کیا ہم نے اپنے ہاں تجھے بچہ سا نہیں پالا تھا ، اور تو ہمارے ہاں چند سال رہا پھر کر گیا جو کچھ کہ کر گیا ۔ “ ان دونوں باتوں کی کوئی تفصیل وہاں نہیں بیان کی گئی ۔ اس سورة میں اسے بتفصیل بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورة نمل میں قصہ یکایک اس بات سے شروع ہوگیا کہ حضرت موسیٰ اپنے اہل و عیال کو لے کر جارہے تھے ، اور اچانک انھوں نے ایک آگ دیکھی ، وہاں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کیسا سفر تھا ، کہاں سے وہ آرہے تھے اور کدھر جارہے تھے ۔ یہ تفصیل اس سورة میں بیان ہوئی ہے ۔ اس طرح یہ تینوں سورتیں مل کر قصہ موسیٰ علیہ السلام کی تکمیل کر دیتی ہیں ۔ موضوع اور مباحث : اس کا موضوع ان شبہات اور اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر وارد کیے جا رہے تھے ، اور ان عذرات کو قطع کرنا ہے جو آپ پر ایمان نہ لانے کے لئے پیش کیے جاتے تھے ۔ اس غرض کے لئے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو زمانہ نزول کے حالات سے مل کر خود بخود چند حقیقتیں سامع کے ذہن نشین کردیتاہے ۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتا ہے ، اس کے لئے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب وذرائع فراہم کر دیتا ہے ۔ جس بچے کے ہاتھوں آخر کار فرعون کا تختہ الٹنا تھا ، اسے اللہ نے خود فرعون ہی کے گھر میں اس کے اپنے ہاتھوں پرورش کرادیا اور فرعون یہ نہ جان سکا کہ وہ کسے پرورش کر رہا ہے ۔ اس خدا کی مشیت سے کون لڑ سکتا ہے اور کس کی چالیں اس کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ نبوت کسی شخص کو کسی بڑے جشن اور زمین اور آسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی ۔ تم کو حیرت ہے کہ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو چپکے سے یہ نبوت کہاں سے مل گئی اور بیٹھے بٹھائے یہ نبی کیسے بن گئے ۔ مگر جن موسیٰ ﴿علیہ السلام ﴾ کا تم خود حوالہ دیتے ہو لَو لَا اُوتِیَ مِثلَ ماَ اُوتِیَ مُوسیٰ ، ﴿آیت ٤۸﴾ ، انہیں بھی اسی طرح راہ چلتے نبوت مل گئی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی تھی کہ آج طور سینا کی سنسان وادی میں کیا واقعہ پیش آگیا ۔ موسیٰ علیہ السلام خود ایک لمحے پہلے تک نہ جانتے تھے کہ انہیں کیا چیز ملنے والی ہے ۔ آگ لینے چلے تھے اور پیمبری مل گئی ۔ تیسرے یہ کہ جس بندے سے خدا کوئی کام لینا چاہتا ہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سرو سامان کے اٹھتا ہے ۔ کوئی اس کا مددگار نہیں ہوتا ، کوئی طاقت بظاہر اس کے پاس نہیں ہوتی ، مگر بڑے بڑے لاؤ لشکر اور سروسامان والے آخر کار اس کے مقابلے میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جو نسبت آج تم اپنے اور محمد﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾کے درمیان پا رہے ہو اس سے بہت زیادہ فرق موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا ۔ مگر دیکھ لو کون جیتا اور کون ہارا ۔ چوتھے یہ کہ تم لوگ بار بار موسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہو کہ ”محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا “ یعنی عصا اور ید بیضا اور دوسرے کھلے کھلے معجزے ۔ گو یا تم ایمان لانے کو تو تیار بیٹھے ہو ، بس انتظار ہے تو یہ کہ تمہیں وہ معجزے دکھائے جائیں جو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دکھائے تھے ۔ مگر تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ جن لوگوں کو وہ معجزے دکھائے گئے تھے انھوں نے کیا کیا تھا ؟ وہ انہیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے ۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ یہ جادو ہے ۔ کیونکہ وہ حق کے خلاف ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھے ۔ اسی مرض میں آج تم مبتلا ہو ۔ کیا تم اسی طرح کے معجزے دیکھ کر ایمان لے آؤ گے؟ پھر تمہیں کچھ یہ بھی خبر ہے کہ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق کا انکار کیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ؟ آخر کار اللہ نے انہیں تباہ کر کے چھوڑا ۔ اب کیا تم بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ معجزے مانگ کر اپنی شامت بلانا چاہتے ہو؟ یہ وہ باتیں ہیں جو کسی تصریح کے بغیر آپ سے آپ ہر اس شخص کے ذہن میں اتر جاتی ہیں جو مکے کے کافرانہ ماحول میں اس قصے کو سنتا تھا ، کیونکہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان ویسی ہی ایک کشمکش برپا تھی جیسی اس سے پہلے فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان برپا ہوچکی تھی ، اور ان حالات میں یہ قصہ سنانے کے معنی یہ تھے کہ اس کا ہر جز وقت کے حالات پر خود بخود چسپاں ہوتا چلا جائے ، خواہ ایک لفظ بھی ایسا نہ کہا جائے جس سے معلوم ہو کہ قصے کا کون سا جز اس وقت کے کس معاملے پر چسپاں ہورہا ہے ۔ اس کے بعد پانچویں رکوع سے اصل موضوع پر براہ راست کلام شروع ہوتا ہے ۔ پہلے اس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ آپ امی ہونے کے باوجود دو ہزار برس پہلے گزرا ہوا ایک تاریخی واقعہ اس تفصیل کے ساتھ من و عن سنا رہے ہیں ۔ حالانکہ آپ کے شہر اور آپ کے برادری کے لوگ خوب جانتے تھے کہ آپ کے پاس ان معلومات کے حاصل ہونے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس کی وہ نشاندہی کر سکیں ۔ پھر آپ کے نبی بنائے جانے کو ان لوگوں کے حق میں اللہ کی ایک رحمت قرار دیا جاتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے اور اللہ نے ان کے لئے ہدایت کا انتظام کیا ۔ پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے جو وہ بار بار پیش کرتے تھے کہ ” یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ معجزے کیوں نہ لایا جو اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام لائے تھے ۔ “ ان سے کہا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ، جن کے متعلق تم خود مان رہے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے معجزے لائے تھے ، انہی کو تم نے کب مانا ہے کہ اب اس نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہو؟ خواہشات نفس کی بندگی نہ کرو تو حق اب بھی تمہیں نظر آسکتا ہے ۔ لیکن اگر اس مرض میں تم مبتلا رہو تو خواہ کوئی معجزہ آجائے ، تمہاری آنکھیں نہیں کھل سکتیں ۔ پھر کفار مکہ کو اس واقعہ پر عبرت اور شرم دلائی گئی جو اسی زمانے میں پیش آیا تھا کہ باہر سے کچھ عیسائی مکہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سن کر ایمان لے آئے ، مگر مکہ کے لوگ اپنے گھر کی اس نعمت سے مستفید تو کیا ہوتے ، ان کے ابو جہل نے الٹی ان لوگوں کی کھلم کھلا بے عزتی کی ۔ آخر میں کفار مکہ کے اس اصل عذر کو لیا جاتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے کے لئے وہ پیش کرتے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم اہل عرب دین شرک کو چھوڑ کر اس نئے دین توحید کو قبول کرلیں تو یکا یک اس ملک سے ہماری مذہبی ، سیاسی اور معاشی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی اور ہمارا حال یہ ہوگا کہ عرب کے سب سے زیادہ با اثر قبیلے کی حیثیت کھو کر اس سر زمین میں ہمارے لئے کوئی جائے پناہ تک باقی نہ رہے گی ۔ یہ چونکہ سرداران قریش کی حق دشمنی کا اصل محرک تھا اور باقی سارے شبہات و اعتراضات محض بہانے تھے جو وہ عوام کو فریب دینے کے لئے تراشتے تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر آخری سورة تک مفصل کلام فرمایا ہے اور اس کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈال کر نہایت حکیمانہ طریقے سے ان تمام بنیادی امراض کا مداوا کیا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ حق اور باطل کا فیصلہ دنیوی مفاد کے نقطہ نظر سے کرتے تھے ۔
سورۃ القصص تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت سورۃ نمل (سورت نمبر ٢٧) کے بعد نازل ہوئی تھی، اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، کیونکہ اس کی آیت نمبر ٨٥ اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غرض سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ سورت کا مرکزی موضوع حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔ سورت کی پہلی ٤٣ آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات ٤٤ تا ٤٧ میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرما رہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ کفار مکہ کی طرف کی سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے، ان کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیا گیا ہے، اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر کفار مکہ جن جھوٹے خداؤں پر ایمان رکھتے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ ان کی عبرت کے لیے آیات ٧٦ تا ٨٢ میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا، لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچا سکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اس پر آکر رہی۔ سورت کے آخر میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بے سروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں اٹھاسی آیتیں اور نو رکوع ہیں
سورة نمبر 28 کل رکوع 9 آیات 88 الفاظ وکلمات 1454 حروف 6011 سورۃ القصص مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس کے ابتدائی پانچ رکوعوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں رکوع میں قرآن کریم کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ بیشک تو ریت اور انجیل کو اللہ نے نازل فرمایا لیکن لوگوں نے ان میں ایسی باتوں کو شامل کردیا تھا جن کا تعلق اللہ کی اتاری ہوئی بنیادی تعلیمات سے نہیں تھا اب قیامت تک ساری انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ قرآن کریم کی سچی تعلیمات پر چل کر راہ ہدایت حاصل کریں۔ قارون جو حضرت موسیٰ کی قوم سے تھا اور بےپناہ دولت کا مالک تھا۔ جس کے خزانوں کی چابیاں اٹھا کر ایک مضبوط جماعت بھی تھک جاتی تھی جب اس نے غرور وتکبر کیا تو اللہ نے اس کو اور اس کی دولت کو زمین میں دھنسا دیا وہ دولت اس کو اللہ کے عذاب سے نہ بچاسکی۔ اللہ کو کسی کا غرور وتکبر پسند نہیں ہے۔ سورۃ القصص جس کے ابتدائی پانچ رکوعوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو بڑی تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر اپنا کلام نازل کیا مگر انسانی ہاتھوں نے اللہ کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب اللہ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے وہی قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے۔ بنی اسرائیل کی ہدایت کا سامان قرآن کریم میں ہے۔ اگر انہوں نے اس راستے کو چھوڑ دیا تو پھر قیامت تک ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوگی۔ مصر میں دو قومیں آباد تھیں ایک قبطی حکمران ٹولہ جس کے حکمران کو فرعون کہا جاتا تھا۔ وہ پورے ملک میں پانچ فیصد بھی نہ تھے مگر ظالم حکمراں ہونے کی وجہ سے اپنی فوج کی قوت سے ان بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا جو پورے ملک میں واضح اکثریت رکھتے تھے۔ چونکہ بنی اسرائیل بےعمل ہوچکے تھے اور پوری قوم اس قدر منتشر تھی کہ وہ کسی کو اپنا رہنما تسلیم نہ کرتی تھی۔ ان کے اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر قبطیوں کا یہ مختصر سا ٹولہ ہر طرح کے ظلم وستم کرنے میں آزاد تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں آئے جن کی تعدادایک سو سے بھی کم تھی لیکن دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی وجہ سے ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ قبطی اچھی طرح جانتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک بہت بڑی قوت ہیں ان میں اگر اس کا شعور بیدار ہوگیا تو پھر قبطی اپنی تمام تر طاقت وقوت کے باوجود حکمرانی نہ کرسکیں گے۔ ان کے خوف کی انتہا یہ تھی کہ جب کسی نے یہ بتادیا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو فرعون کے اقتدار کا خاتمہ کردے گا۔ فرعون نے حکم جاری کیا کہ اب بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہوگا اس کو قتل کردیا جائے گا چناچہ بنی اسرائیل میں جوب بھی لڑکا پیدا ہوتا اس کو ماں کی گود سے چھین کر قتل کردیا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل کی کمزوریوں کی انتہا یہ تھی کہ جن ماؤں کی گود سے ان کے لخت جگر کو چھینا جاتا وہ اس پر احتجاج تک نہ کرسکتی تھیں۔ اسی دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہکو بھی یہ خطرہ تھا کہ ان کی گود بھی ویران ہوجائے گی۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے قلب میں یہ الہام فرمایا کہ وہ اس بچے کو کسی صندوق یا ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ایسا ہی کیا۔ ادھر اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اس طرح اظہار فرمایا کہ وہ صندوق فرعون کے گھر والوں نے ہی پانی سے نکالا۔ سب کی رائے یہی تھی کہ اسے بچے کو قتل کردیا جائے مگر فرعون کی بیو حضرت آسیہ نے کہا کہ ہم اس بچے کو پرورش کریں گے اور اپنا بیٹا بنائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو اس کام پر مامور کیا تھا کہ وہ دیکھتی چلی جائیں کہ یہ صندوق کہاں پہنچتا ہے۔ جب وہ فرعون کے گھر میں پہنچ گیا تو انہیں اطمینان ہوا۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو ایک چھوٹے سے دودھ پیتے بچے تھے انہوں نے رونا شروع کیا اور بھوک سے تڑپنا شروع کیا اور کسی کا دودھ نہ پیتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے کہا کہ میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں جو بچے کی پرورش اچھی طرح کرسکتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلایا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح اللہ نے ایک ماں کو اپنے بیٹے سے ملادیا فرعون کے گھر میں اسی بچے کی شاہانہ پرورش کرادی جس کے خوف سے وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر ارہا تھا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوگئے تو وہ قبطیوں کے ظلم کو برداشت نہ کرسکے۔ ایک دن کوئی قبطی اور بنی اسرائیلی شخص کسی بات پر جھگڑ رہے تھے ۔ قبطی بنی اسرائیلی کو گھسیٹ رہا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیلی کو اس ظلم سے بچانا چاہا تو وہ قبطی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے الجھ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک گھونسا مارا تو وہ قبطی وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو افسوس ہوا کہ ان کے ہاتھوں ایک شخص کا قتل ہوگیا۔ انہوں نے اللہ سے اس خطا پر معافی مانگی جس کو اللہ نے قبول کرلیا اگلے دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہی بنی اسرائیلی شخص کسی دوسرے آدمی سے جھگڑرہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو بڑاہی جھگڑا لو آدمی ہے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہ کر شور مچا دیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) جس طرح تم نے گذشۃ کل ایک قبطی کو مار دیا تھا مجھے بھی قتل کر دو گے۔ یہ بات فرعون کے کان تک پہنچ گئی اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کا حک جاری کردیا۔ کسی مخلص آدمی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتادیا کہ فرعون کے دربار سے آپ کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے اس ظلم سے بچنے کے لئے مصر سے نکل کر مدین کی طرف ہجرت کر گئے۔ مدین پہنچ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں لیکن دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو روکے ہوئے الگ تھلگ کھڑی ہوئی ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پے پوچھا کہ تم الگ تھلگ کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے کہا یہ تو ہمارے ہر روز کا معمول ہے جب سارے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلالیتے ہیں تب ہمارا نمبر آتا ہے اور ہم اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کڑیل جوان تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلادیا۔ جب وہ دونوں لڑکیاں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر فریاد کی الٰہی ! مجھے اس غربت میں آپ جو کچھ بھی عطا کریں گے اس کے لئے میں حاجت مند ہوں۔ ابھی وہ دعا اور فریاد کررہے تھے کہ وہی دونوں لڑکیاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں۔ ان میں سے ایک جو شرم وحیا کا پیکر تھی کہنے لگی ہمارے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلانے کی زحمت کی ہے اس کا کچھ بدلہ دے سکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روانہ ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جن کے پاس آئے تھے وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام واقعات سن کر فرمایا کہ اب تم مت گھبرائو۔ اللہ نے تمہیں ایک ظالم قوم سے نجات عطا کردی ہے۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے کہا ابا جان ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیں کیونکہ یہ انتہائی مضبوط اور دیانت دار آدمی ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر آٹھ سال تک میری خدمت کرو تو میں اپنی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی سے تمہارا نکاح کرسکتا ہوں۔ اور زور زبردستی تو ہے نہیں اگر تم خوشی سے دس سل پورے کرلو تو یہ تمہارا احسان ہوگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو قبول کرلیا اور اس طرح دس سال تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت کی۔ چناچہ ان کی ایک لڑکی سے ان کی شادی کردی گئی۔ دس سا ل کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بیوی کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید وہ اس اندھیری رات میں سردی کے موسم میں راستہ بھٹک گئے تھے۔ انہوں نے دور سے ایک روشنی کو دیکھا۔ کہنے لگے کہ میں ابھی اس آگ میں سے کوئی انگارہ لے کر آتا ہوں اور اگر کسی نے راستہ بتادیا تو اسی پر چل پڑیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کوہ طور کے دامن میں تھے۔ جب وہ ایک درخت کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک درخت میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ اچانک آواز آئی اے موسیٰ یہ میں ہوں تیرا رب اللہ۔ یہی وہ موقع ہے جہاں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور عصا اور ید بیضا کے معجزات عطا کر کے فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جائو اور اس کی سرکشی کے گھمنڈ کو توڑ کر رکھ دو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی ! میرے لیے ہارون کو جو زبان کے بڑے فصیح وبلیغ ہیں ان کو میرا مدد گار بنادیجئے۔ چناچہ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون و مدد گار بنادیا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لے کر یہ دونوں بھائی فرعون کے پاس پہنچے۔ اس کو سمجھایا اور معجزات دکھائے ۔ اس نے ان معجزات کو جادو قرار دے کر ملک بھر کے جادو گروں کو جمع کرلیا۔ لیکن جب ان جادوگروں نے دیکھا کہ ان کے بےحقیقت جادو کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزے کے طو پر اپنا عصا پھینکا تو وہ اژدھا بن گیا اور اس نے ان جادوگروں کے جادو اور طلسم کو توڑ کر رکھ دیا اور وہ سب جادو گر دائرہ اسلام میں دخل ہوگئے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کامیابی اور فتح نصیب کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) راتوں رات تمام بنی اسرائیل کو مصر سے فلسطین کی طرف لے چل پڑے۔ ادھر فرعون نے ان کا پیچھا کیا۔ اللہ نے پانی میں راستے بنادیئے۔ بنی اسرائیل پار اتر گئے مگر فرعون اور اس کے لشکر یوں کو پانی کی لہروں میں ڈبودیا گیا۔ اس طرح اللہ نے بنی اسرائیل کو کامیاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی ہدایت کے لئے ایک عظیم کتاب توریت عطا فرمائی تاکہ یہ قوم دین کے اصولوں کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرسکے۔ مگر انہوں نے اسی توریت میں اپنی طرف سے طرح طرح کی باتیں گھڑ کر اس کتاب کو مشکوک بنادیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک توریت و انجیل اللہ نے نازل فرمائیں لیکن انسانی ہاتھوں نے اور بنی اسرائیل کی بےعملی نے ان کی کتاب میں کافی بڑی مقدار میں ایسی باتیں شامل کردیں جو اللہ نے نازل نہیں کی تھیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اب قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے قرآن حکیم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے جس کی حفاظت کا اس نے خود ذمہ لیا ہے۔ فرمایا کہ اب یہی قرآن ساری انسانیت کے لیے کافی ہے۔ اگر بنی اسرائیل اور دنیا کی سب قوموں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنا لیا تو ان کو ہدایت اور دین و دنیا کی تمام عظمتیں حاصل ہوجائیں گی۔ لیکن اگر اس قرآن کریم سے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے منہ موڑا گیا تو پھر قیامت تک ان کو کوئی اور ہدایت دینے والا نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سچائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساری دنیا کے لیے رہبر و رہنما بنایا ہے۔ آخر میں فرمایا گیا کہ لوگو ! یہ سارا نظام کائنات اللہ کے حکم سے چل رہا ہے۔ وہی دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کو پیدا کرنے والا ہے۔ اگر وہ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کو ختم کرکے ایک ہی چال پر رہے دے تو انسانی حیات مٹ کر رہ جائے گی۔ یہ رات اور دن کا پورا نظام اس کی قدرت کاملہ سے چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ایک شخص قارون کا ذکر کیا ہے جو بےپناہ دولت کا مالک تھا مگر اس کا غرور وتکبر اس کو لے ڈوبا۔ وہ مال و دولت اس کے کام نہ آئے بلکہ اللہ نے قارون اور اس کی دولت کو زمین میں دھنسا دیا۔ فرمایا کہ جو لوگ غرور وتکبر سے کام نہیں لیتے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہی عزت و سربلندی سے نوازتا ہے لیکن جو لوگ غرور تکبر اور بڑائی اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
سورة النّمل کا تعارف ربط سورة : الشعرآء کے آخر میں ایمانداروں کی صفت بیان ہوئی کہ وہ ” اللہ “ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ النّمل کی ابتدا میں بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے قرآن مجید ہدایت اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ یہ سورة 7 رکوع اور 93 آیات پر مشتمل ہے۔ النّمل کا لفظ اس سورة کی اٹھارویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ کی ابتدا میں قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن اپنے مدعا اور دلائل کے حوالے سے واضح اور مدلّل کتاب ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان لاتے ہیں، نماز قائم، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور آخرت پر یقین کامل رکھتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو آخرت کی جواب دہی پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے لیے ان کے برے اعمال خوبصورت بنا دئیے گئے ہیں اور وہ اپنی روش میں اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں آخرت میں بدترین عذاب ہوگا اور یہی لوگ آخرت میں دائمی نقصان پانے والے ہیں۔ بنیادی ہدایات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ابتدائی واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ کہ ” اللہ “ نے انہیں سفر میں کس طرح نبوت اور عظیم معجزے عطا فرمائے، اس کے بعد حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اقتدار اور اختیارات کا ذکر فرماکر ملکہ بلقیس کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سفارت اور ملاقات کے مثبت نتائج کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قدم، قدم پر ذہانت نمایاں ہے اور ملکہ بلقیس ہر قدم پر اپنی بےعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے بالآخر مسلمان ہوجاتی ہے۔ پھر صالح (علیہ السلام) کی قوم اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام پر تبصرہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام سے اہل مکہ کو متنبہ کیا ہے۔ کہ تم جو کچھ بھی ہو لیکن فرعون اور اس کے ساتھیوں سے تمہاری طاقت اور بغاوت زیادہ نہیں۔ جب فرعون اور اس کے لشکر حق کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکے تو تم کس باغ کی مولی ہو لہٰذا سمجھ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی آل فرعون جیسا ہوگا۔ حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کا واقعہ ذکر کر کے یہ سمجھایا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے اسے کس طرح دوسرے کو توحید کی دعوت دینا ہے اور جس تک توحید کی دعوت پہنچے اسے تسلیم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے النّمل کے آخر میں سوالات کی صورت میں توحید سمجھائی گئی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت دئیے گئے ہیں پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اہل مکہ پر واضح کردیں جس رب نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ میں اسی رب کی توحید کی دعوت دیتا اور اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کو قبول کیا اس کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا جو اپنے انکار پر قائم رہا میرا کام تو اسے سمجھانا اور برے انجام سے ڈرانا ہے۔ سورۃ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہیں، وہ عنقریب اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائے گا۔ جنہیں دیکھ کر منکرین کو یقین ہوجائے گا، کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے یاد رکھیں کہ آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
سورة القصص ۔ 28 آیات 1 ۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 88 سورة قصص ایک نظر میں یہ مکی سورت ہے۔ یہ اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان مکہ میں ایک کمزور اور قلیل جماعت کی شکل میں تھے جبکہ مشرکین مکہ شان و شوکت اور قوت و دبدبہ کے مالک تھے۔ ان کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار تھا۔ چناچہ اس سورت کے پیش نظر یہ بتانا ہے کہ حقیقی قوت کیا ہے اور حقیقی اقدار کیا ہیں۔ یہ بتاتی ہے کہ اس پوری کائنات میں ایک ہی حقیقی قوت کام کر رہی ہے۔ یہ اللہ کی قوت ہے اور اس کائنات میں ایک ہی اعلیٰ قدر ہے اور وہ ایمانی قدر ہے۔ لہٰذا جس شخص کی پشت پر اللہ کی قوت ہو ، اسے کوئی ڈر نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ قوت کے سرچشموں سے محروم اور خالی نظر آتا ہو اور جس شخص کے مخالف محاذ میں اللہ کی قوت کام کر رہی ہو ، وہ کبھی بھی امن و سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ اگرچہ دنیا کی پوری قوتیں اس کی پشتیبان ہوں اور جس شخص نے ایمان کی دولت کو پالیا تو اس نے گویا تمام بھلائیوں کو پالیا اور جس شخص نے اس متاع کو گم کردیا تو وہ گویا مفلس ہوگیا۔ اب کوئی چیز اسے فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سورت کے آغاز میں فرعون و کلیم کی کشمکش کو لایا گیا ہے۔ قارون اور اس کی مفلس قوم کا تذکرہ آخر میں آتا ہے۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش میں حکومت و اقتدار کی جابرانہ اور سرکش قوت کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو عظیم قوت ہے اور پوری قوم پر اس کی نظر ہے اور سخت احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ اس عظیم قوت کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک چھوٹے شیرخوار بچے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ جس کے پاس کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے زندہ بچنے کے لیے جائے پناہ بھی نہیں ہے۔ زمین پر فرعون کو مکمل برتری حاصل ہے۔ اس نے اپنی قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ Divide & Rule کے اصول کے مطابق ان گروہوں میں سے پھر بنی اسرائیل کو خوب دبا کر رکھا ہے۔ ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی ذبح کردیتا ہے۔ ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ یہ فرعون بنی اسرائیل سے ڈرتا ہے۔ ان کی گردنوں پر سوار ہے اور اس نے ان کو غلام بنا رکھا ہے۔ لیکن فرعون کی یہ عظیم قوت ، اس کی یہ جباری و قہاری اور اس کی تمام احتیاطی تدابیر اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ وہ اپنی ان تمام قوتوں اور احتیاطوں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) جیسے ایک ناتواں بچے کو بھی نہیں پکڑ سکتا۔ اس لیے کہ عالم بالا کی عظیم اور حقیقی قوت اس کی نگران ہے۔ اللہ کی عنایات اسے ہر قدم پر بچائے چلی جا رہی ہیں۔ تمام حملے خود بخود پسپا ہو رہے ہیں۔ فرعون اور اس کی قوتوں کی آنکھیں اندھی ہو رہی ہیں۔ فرعون اور اس کی قوتیں اس سے مصروف اور غافل نظر آتی ہیں اور یہ لاچار بچہ خود فرعون کی کفالت میں جا پہنچتا ہے۔ بلکہ اس کی بیوی اس کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ فرعون کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں اس کے قتل سے ہاتھ روک لیتا ہے اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے وہ مصیبت فراہم کرتا ہے جس سے وہ رات دن خائف ہے۔ دوسرے قصے میں دولت کی قدرو قیمت کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علم کی قدرو قیمت کیا ہے۔ یہ دولت انسانوں کو حقیر سمجھتی ہے۔ قارون زیب وزینت کے ساتھ نکلا۔ لوگوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ بہت مالدار ہے ، اس قدر کہ قوی لوگوں کی ایک جماعت اس کے خزانوں کی چابیاں بھی بمشکل اٹھاتی تھی۔ پھر قارون کو علم بھی دیا گیا تھا وہ اپنے علم پر فخر کرتا تھا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ وہ اس علم کے ذریعے مالدار بن گیا ہے لیکن قارون کی قوم میں سے جن لوگوں کو صحیح علم دیا گیا تھا ، قارون کے خزانے اور قارون کی آرائش و زیبائش انہیں ہلکا نہ کرسکی بلکہ وہ لوگ ایسے تھے جن کی نظریں رضائے الٰہی کے بلند مقاصد پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ رضائے الٰہی کا حصول بہت ہی بلند مقصد ہے لیکن اس قصے میں دست قدرت سامنے آتا ہے۔ اس کا محل اس کی دولت سمیت زمین میں دھنس جاتا ہے۔ اس کا علم اور اس کی دولت اسے بالکل کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ دست قدرت کی یہ مداخلت براہ راست اور کھلی مداخلت ہے۔ دست قدرت نے اس سے قبل فرعون کے معاملے میں ایسی ہی مداخلت کی تھی۔ فرعون کو غرق کردیا گیا تھا اور وہ اور اس کے لشکری غرق ہونے والوں میں سے ہوگئے تھے۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر دست درازی کی۔ اور اپنی حکومتی قوت اور اقتدار اعلیٰ کے بل بوتے پر ان پر مظالم ڈھائے اور قارون نے بھی اپنی قوم پر ظلم کیا اور اپنے علم اور دولت کے بل بوتے پر لوگوں کا استحصال کیا۔ انجام فرعون و قارون دونوں کا ایک ہی ہوا۔ یہ اور اس کا محل زمین میں دھنس گئے اور وہ اور اس کی فوجیں سمندر کی نذر ہوئیں۔ اور زمین کی قوتوں میں سے کوئی قوت ان کی مدد کو نہ پہنچ سکی۔ دست قدرت نے علانیہ دونوں جگہ مداخلت کی۔ یوں اللہ نے ظلم اور فساد کے لیے حدود متعین کر دئیے لیکن دست قدرت نے یہ کام اس وقت کیا جب لوگ سرکشی اور فساد فی الارض کا دفعیہ کرنے سے عاجز آگئے۔ ان دونوں واقعات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب شر خالص ہوکر چھا جائے ، اور فساد ہر طرف ظاہر ہوجائے ، بھلائی کی راہیں مسدود ہوجائیں اور اصلاح اور نیکی کا پروگرام ناکام ہوجائے اور امن وامان ختم ہوجائے اور لوگ مال و دولت کے فتنے میں مبتلا ہوں تو پھر اللہ کی قدرت چیلنج کرکے سامنے آتی ہے ۔ وہ پس پردہ نہیں ہوتی بلکہ کھل کر سامنے آتی ہے۔ کیونکہ انسانی قوتیں اس وقت شرو فساد کا مقابلہ کرنے سے عاجز آجاتی ہیں۔ قصص کے درمیان قرآن کریم پھیر پھیر کر مشرکین کو سمجھاتا ہے۔ کبھی تو کہا جاتا ہے کہ اس کائنات میں جو نشانیاں تم ظاہر و باہر دیکھتے ہو ، ان سے نصیحت حاصل کرو ، پھر اقوام سابقہ کی ہلاکتوں کے قصص اور واقعات بھی ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ پھر قیامت کے مناظر میں سے پرتاثیر مناظر بھی سامنے لائے جاتے ہیں۔ غرض ان تمام طریقوں سے وہ نصیحت ان کے ذہن نشین کی جاتی ہے جو ان قصص سے نکلتی ہے۔ نہایت ہی مربوط انداز میں تاکید بتایا جاتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں سنت الہیہ ایک ہی جیسی رہی ہے ، اٹل رہی ہے اور تمام نتائج سنت الہیہ کے مطابق نمودار ہوتے ہیں۔ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے۔ ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا (28: 57) ” اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے “۔ چناچہ ہدایت نہ قول کرنے کا عذر وہ یہ کرتے تھے کہ اگر ہم نے اسلام قبول کرلیا تو لوگ ہمیں اپنے گھروں اور اراضی سے نکال دیں گے۔ اگر انہوں نے ان قدیم نظریات کو ترک کردیا جن کی وجہ سے عربوں نے ان کی سیادت کو قبول کرلیا تھا اور جن کی وجہ سے لوگ ان کا اور بیت الحرام کا احترام کرتے تھے تو ان کا یہ مقام جاتا رہے گا۔ ان لوگوں کے ان خدشات کو ختم کرنے کے لیے اللہ نے اس سورت میں فرعون اور موسیٰ کا قصہ بیان کیا اور ان کو سمجھایا کہ امن وامان کا مرجع اور سرچشمہ کہاں ہے۔ اور ڈرناکس سے چاہئے۔ چناچہ بتایا گیا کہ امن تو اللہ کے ہا نصیب ہوگا۔ اگر چہ کسی انسان کو ان اسباب امن و اطمینان میں سے کو ئی سبب حا صل نہ ہو جو لوگوں کے ہاں متعارف ہیں اور خوف و ہر اس اس میں ہے کہ انسان امن و اطمینان کے اس حقیقی سرچشمے سے کٹ جائے ۔ اگر چہ لوگوں کے ہاں متعارف امن و سکون کے رسائل موجود ہوں ۔ اس حقیقت کو دوسرے پیرائے میں بیان کرنے کے لیے قاردن کا قصہ بھی بیان کردیا کہ امن و سکون دولت سے بھی نصیب نہیں ہوتا۔ لہٰذا نہایت تاکید کے ساتھ ان قصص میں اس حقیقت کو ثابت کیا گیا۔ اور ان کے اس قول پر یہ تبصرہ کیا گیا۔ اولم نمکن لھم حرما امنایجبی الیہ ثمرت کل شئی رزقامن لدنا ولکن اکثر ھم لا یعلمون (57:68) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں ، ہماری طرف سے ، رزق کے طور پر ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو یاد دہانی فرماتا ہے ہیں کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کو خوف سے نجات دی اور امن وامان عطا کیا اور پورے حرم کو ان کے لیے پرامن بنادیا۔ یہ اللہ وہی ہے جو ان کے لیے اس امن کو دوام بخشتا ہے یا امن ان سے سلب کرلیتا ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کو سرکشی اور ناشکری کے انجام سے ڈراتا ہے۔ وکم اھلکنا من ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا نحن الوارثین (58:28) ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اتر آتے تھے ، سو دیکھ لو ، وہ ان کے مسکن پر پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے ، آخرکار ہم ہی وارث ہو کے رہے “۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے انجام بد سے ڈراتا ہے کہ رسول کے بھیجنے کے بعد اب ان کے عذرات ختم ہوگئے ہیں ۔ اب اگر لوگ پھر بھی تکذیب کر وگے تو ڈر انے والوں کے بعد اقوام سابقہ کا جو انجام ہوا وہ تمہارا بھی ہوگا ۔ وما کان ربک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واھلھا ظلمون (59:28) ” اور تیرا رب بستیوں کو بلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سناتا اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے “۔ اس کے بعد ان سا منے قیامت کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے کہ جب ان کے شرکاء کھلے بندوں ان سے اپنی برات کا اظہار کردیں گے۔ اس منظر میں اللہ تعالیٰ ان کے سامنے آخرت کے عذاب کی تصویر کشی کرتا ہے جبکہ اس سے قبل بتا دیا گیا کہ دنیا میں بدکاروں کا انجام کیا ہوا کرتا ہے اور یہ کہ دنیا میں امن وسلامتی کے حصول کا طریقہ کیا ہے ۔ اس سورت کا خاتمہ ایک وعدے پر ہوتا ہے ۔ یہ وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ قرآن کے تقاضے پورے کرتے ہوئے آپ ؐکو اس زمین سے نکالا جارہا ہے ۔ لیکن آخرکار اللہ آپ کو آپ کے اسی شہر کی طرف لوٹائے گا اور شرک اور شرک والوں پر آپ کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اے پیغمبر آپ سوچتے نہیں کہ آپ کو اللہ نے رسالت سے نواز احالان کہ آپ کو یہ امید بھی نہ تھی کہ آپ رسول بھی بن سکتے ہیں ۔ یہی اللہ ہے جو آپ کو آپ کے اس شہر کی طرف لوٹادے گا جس سے مشرکین نکال رہے ہیں ۔ آپ جلد ہی امن اور کامرانی کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوں گے ۔ اس سورت کے اندر جا قصص لائے گئے ہیں وہ ان حقائق کی تائید کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جس شہر سے نکالا گیا تھا آپ پھر وہاں پر امن طور پر لوٹ گئے تھے ۔ اس کے بعد آپ پوری قوم بنی اسرائیل کو غلامی سے نجات دلاکو مصر سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ۔ فرعون اور اس کا لشرا عظیم غرق ہوگیا اور موسیٰ اور ان کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں معجزانہ طور پر نجات پاگئی ۔ یہ وعدہ ہوتا ہے اس پر سورت کے مضامین ختم ہوتے ہیں ۔ اور دل و دماغ کی تاروں پر آخری ضرب یوں لگتی ہے ۔ ولا تدع مع اللہ الھا اخر لا الہ الا ھو کل شی ھالک الا وجھہ لہ الحکم والیہ ترجعون (88:28) ” اور اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ، سوائے اس کی ذات کے ۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹا ئے جانے والے ہو “۔ یہ ہے اس سورت کا موضوع ۔ اس کی فضا اور اس کا پر تو ۔ ہمیں چاہئے کہ اس کے چار اسباق کو ایک ایک کرکے لیں ۔ یعنی حضرت موسیٰ کا قصہ اور اس پر تبصرہ قاردن کا قصہ اور اس پر زبر دست ڈراوا۔