Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 17

سورة القصص

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ فَلَنۡ اَکُوۡنَ ظَہِیۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۷﴾

He said, "My Lord, for the favor You bestowed upon me, I will never be an assistant to the criminals."

کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ ... He said: "My Lord! For that with which You have favored me, meaning, `what You have given me of prestige, power and blessings -- ' ... فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ I will nevermore be a helper of the criminals! `those who disbelieve in You and go against Your commands.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہوگا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] موسیٰ پر اللہ تعالیٰ کا انعام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا پر پردہ ڈال دیا۔ کہ حکومتی اہلکاروں میں سے کسی کو بھی یہ پتا نہ چل سکا۔ کہ اس مقتول قبطی کا قاتل کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکریہ کے طور پر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ آئندہ وہ کسی مجرم کی حمایت یا مدد نہیں کریں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ نے پہلے کون سے مجرم کی حمایت کی تھی جو اب اللہ سے ایسا عہد کررہے ہیں۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ موسیٰ کی اس سے مراد وہ سبطی تھا جو آپ سے یہ جرم کروانے کا باعث بنا تھا۔ ممکن ہے اس کا بھی کچھ قصور ہو۔ لیکن آپ نے بلاتحقیق اس سبطی کی حمایت میں قبطی کو گھونسا رسید کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن ہمارے خیال میں اس کی وہی توجیہہ درست ہے جسے اکثر مفسرین نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسیٰ نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ اس مجرم اور کافرانہ حکومت کی امداد و اعانت سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ عہد تھا جسے انہوں نے بعد میں ساری عمر نباہا تھا۔ یعنی اس واقعہ کے بعد انہوں نے شاہی خاندان کا فرد رہنے سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ ۔۔ : ” بما “ میں باء سببیت کے لیے ہے، یعنی اے میرے رب ! تو نے جو مجھ پر انعام کیا کہ مجھے ہر قسم کی نعمت سے نوازا اور میرے فعل پر پردہ ڈال دیا، اس وجہ سے میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ ممکن ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی مراد مجرم سے وہ اسرائیلی ہو جس کی انھوں نے مدد کی تھی، کیونکہ وہ جرم کا سبب بنا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ” مجرمین “ سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مراد لیے ہوں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مجرم تھے اور ان کے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد کرنے کا مطلب یہ ہو کہ تو نے جو مجھے نعمت و عزت اور راحت و قوت عطا فرمائی ہے اس کا شکر یہ ہے کہ اسے ان مجرموں کی حمایت و اعانت میں صرف نہ کروں، بلکہ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلوں اور اس ظالم حکومت کا کل پرزہ نہ بنوں۔ ابن جریر اور بہت سے دوسرے مفسرین نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اس عہد کا یہی مطلب لیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس کے مطابق تفسیر فرمائی ہے۔ اس آیت سے ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے اور ان کا تعاون کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالَ رَ‌بِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرً‌ا لِّلْمُجْرِ‌مِينَ (He [ Musa ] said, |"0 my Lord, since You have favoured me, I will never be a supporter to the sinners.|" -28:17). When Allah Ta’ ala pardoned this slip of Sayyidna Musa (علیہ السلام) he said in gratitude to Allah Ta` ala that he would never again help a criminal. The second incident of the quarrel had proved that the Isra&ili in whose defense Musa (علیہ السلام) had involved himself in the brawl was quarrelsome. Therefore, by declaring him a criminal he vowed not to help such a person again. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) while explaining this verse, has maintained that the word &criminals& stands here for infidels. Qatadah has also interpreted the verse in almost the same way. On the basis of these commentaries it seems that actually the Isra&ili, whom Sayyidna Musa (علیہ السلام) had defended, was not a Muslim but he helped him considering that he was an oppressed person. Rulings It is worth noting here that this saying of Musa (علیہ السلام) has established two rulings about two issues. One, that even if an oppressed person is a sinner or infidel, he should be helped. The second ruling is that it is not permitted to help any criminal or oppressor. Scholars have argued on the basis of this verse that working in the employment of cruel rulers is also not permitted, for they too would be regarded as their associates. Many citations from the righteous salaf (elders) have also been quoted in support of this argument. (Ruh u1-Ma’ ani) To provide support to the oppressors or to the infidels may take different forms. The different rulings about these forms are laid down in the books of fiqh in detail. This humble writer has also dealt with the subject in his Arabic book Ahkamul-Qur&an with greater elaboration. The scholars interested in the subject may consult it.

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس لغزش کو جب حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو آپ نے اس نعمت کے شکر میں یہ عرض کیا کہ میں آئندہ کسی مجرم کی مدد نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس اسرائیلی کی مدد کے لئے یہ اقدام کیا تھا دوسرے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ وہ خود ہی جھگڑالو ہے، جھگڑا لڑائی اس کی عادت ہے اس لئے اس کو مجرم قرار دے کر آئندہ کسی ایسے شخص کی مدد نہ کرنے کا عہد فرمایا اور حضرت ابن عباس سے اس جگہ مجرمین کی تفسیر کافرین کے ساتھ منقول ہے اور قتادہ نے بھی تقریباً ایسا ہی فرمایا ہے اس تفسیر کی بنا پر واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی جس کی امداد موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تھی یہ بھی مسلمان نہ تھا مگر اس کو مظلوم سمجھ کر امداد فرمائی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے دو مسئلے ثابت ہوئے۔ مسئلہ : اول یہ کہ مظلوم اگرچہ کافر یا فاسق ہی ہو اس کی امداد کرنا چاہئے۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کسی مجرم ظالم کی مدد کرنا جائز نہیں۔ علماء نے اس آیت سے استدلال فرما کر ظالم حکام کی ملازمت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کہ وہ بھی ان کے ظلم کے شریک سمجھے جائیں گے اور اس پر سلف صالحین سے متعدد روایات نقل کی ہیں (کما فی روح المعانی) کفار یا ظالموں کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں۔ احقر نے احکام القرآن میں بزبان عربی اسی آیت کے ذیل میں اس مسئلہ کی پوری تحقیق و تنقیح لکھ دی ہے اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَہِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ۝ ١٧ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اور آئندہ کے لیے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار آپ نے جو مجھ پر معرفت توحید اور مغفرت کے انعامات فرمائے ہیں تو آپ کبھی بھی ان مشرکین یعنی فرعون اور اس کی قوم کی مدد کا مجھے موقع نہ دیجیے کہ میں مجرموں کی مدد کروں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ ) ” یعنی چونکہ تو نے مجھے معاف فرما کر مجھ پر احسان فرمایا ہے ‘ لہٰذا میں عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی بھی کسی غلط کار شخص کا حمایتی نہیں بنوں گا۔ [ مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا فیصلہ کرلیا ‘ کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے اللہ کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ (اضافہ از مرتب) ]

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 That is, "The favour of concealing my `act' from my enemies and enabling me to escape unharmed from Egypt. " 26 This pledge of the Prophet Moses is in very comprehensive words. What he meant by this was that he would neither become a helper of an individual nor of those who perpetrated cruelty and tyranny in the world. Ibn Jarir and several other commentators have rightly understood this to mean that on that very day the Prophet Moses pledged to sever his relations with Pharaoh and his government, for it was a tyrannical government, which had set up a wicked system on God's earth. He realized that it was not for any honest person to continue as a functionary of a tyrannical kingdom and become an instrument of increasing its power and grandeur. The Muslim scholars in general have deduced from this pledge of the Prophet Moses that a believer should completely refrain from helping a tyrant, whether the tyrant is an individual, or a group, or a government or kingdom. Somebody asked Hadrat `Ata' bin Abi Rabah the well-known follower of the Companions, "My brother is secretary to the governor of Kufah, under the Umayyids. Though he does not decide the disputes of the people, the decisions, however, ate issued through his pen. He has to continue in this service because this is his only source of income." Hadrat 'Ata`recited this verse, and said, "Your brother should throw away his pen: the Providence is Allah. Another secretary asked `Amir Sha`bi, "O Abu `Amr, I am only responsible for writing down and issuing the judgements: I have nothing to do with passing them. Is it lawful provision for me ?" He replied, "It is just possible that a sentence of murder is passed against an innocent person and it is issued under your pen; or a person's property is confiscated unjustly; or somebody's house is ordered to be pulled down, and the orders are issued under your pen." Then the said Imam recited this verse, hearing which the secretary said, "After this day my pen will not be used for issuing judgements of the Umayyids." The Imam said, "Then AIlah also will not deprive you of your daily bread." 'Abdur Rehman bin Muslim had only asked Dahhak to go to Bukhara and distribute the salaries of the officials there, but he declined even this. When his friends said there was nothing wrong in it, he replied, "I do not want to be a helper of the unjust in any way." (Ruh al-Ma`ani, Vol. XX. p. 49) All of Imam Abu Hanifah's authentic biographers including Al-Muwaffaq al-Makki, lbn al-Bazzaz al-Karvari, Mulla `AIi Qari, etc.. have related that Hasan bin Qahtubah, the commander-in-chief of Mansur, had tendered his resignation only on his instruction, saying, "Whatever I have done to support your kingdom until today, is enough for me if it was in the cause of AIIah, but if it was for injustice and tyranny, then I do not want to add to my crimes in my conduct-book.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 25 یعنی یہ احسان کہ میرا فعل چھپا رہ گیا اور دشمن قوم کے کسی فرد نے مجھ کو نہیں دیکھا ، اور مجھے بچ نکلنے کا موقع مل گیا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 26 حضرت موسی کا یہ عہد بہت وسیع الفاظ میں ہے ۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ میں کسی مجرم فرد کا مددگار نہیں بنوں گا ، بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ میری امداد و اعانت کبھی ان لوگوں کے ساتھ نہ ہوگی ، جو دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور متعدد دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسی نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا عہد کرلیا ، کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا ، انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ظالم سلطنت کا کل پرزہ بن کر رہے اور اس کی حشمت و طاقت میں اضافے کا موجب بنے ۔ علماء اسلام نے بالعموم حضرت موسی کے اس عہد سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مومن کو ظالم کی اعانت سے کامل اجتناب کرنا چاہیے ، خواہ وہ ظالم فرد ہو یا گروہ یا حکومت و سلطنت ، مشہور تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرا بھائی بنی امیہ کی حکومت میں کونے کے گورنر کا کاتب ( سکرٹری ) ہے ۔ معاملات کے فیصلے کرنا اس کا کام نہیں ہے ۔ البتہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اس کے قلم سے جاری ہوتے ہیں ۔ یہ نوکری وہ نہ کرے تو مفلس ہوجائے ۔ حضرت عطاء نے جواب میں یہی آیت پڑھی اور فرمایا تیرے بھائی کو چاہیے کہ اپنا قلم پھینک دے ، رزق دینے والا اللہ ہے ۔ ایک اور کاتب نے عامر شعبی سے پوچھا اے ابو عمرو ، میں بس احکام لکھ کر جاری کرنے کا ذمہ دار ہوں ، فیصلے کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں ، کیا یہ رزق میرے لیے جائز ہے؟ انہوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کا فیصلہ کیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کا مال ناحق ضبط کیا جائے ، یا کسی کا گھر گرانے کا حکم دیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ، پھر امام موصوف نے یہ آیت پڑھی جسے سنتے ہی کاتب نے کہا آج کے بعد میرا قلم بنی امیہ کے احکام جاری کرنے میں استعمال نہ ہوگا امام نے کہا پھر اللہ بھی تمہیں رزق سے محروم نہ فرمائے گا ۔ ضحاک کو تو عبدالرحمن بن مسلم نے صرف اس خدمت پر بھیجنا چاہا تھا کہ وہ بخارا کے لوگوں کی تنخواہیں جاکر بانٹ آئیں ، مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا ، ان کے دوستوں نے کہا آخر اس میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا میں ظالموں کے کسی کام میں بھی مددگار نہیں بننا چاہتا ( روح المعانی ، ج 2 ، ص 49 ) امام ابو حنیفہ کا یہ واقعہ ان کے تمام مستند سوانح نگاروں ، الموفق المکی ، ابن البزاز اکروری ، ملا علی قاری وغیرہم نے لکھا ہے کہ انہی کی تلقین پر منصور کے کمانڈر انچیف حسن بن قحطبہ نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا کہ آج تک میں نے آپ کی سلطنت کی حمایت کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ اگر خدا کی راہ میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ، لیکن اگر یہ ظلم کی راہ میں تھا تو میں اپنے نامہ اعمال میں مزید جرائم کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: اب تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے ساتھ رہ رہے تھے اور اس کے ساتھ آتے جاتے تھے، اس واقعہ نے ان کے دل میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ سارا جھگڑا در حقیقت فرعون کے جابرانہ طرز حکومت کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے مصریوں کو اسرائیلیوں پر ظلم ڈھانے کی جرأت ہوئی ہے، اس لئے اس واقعے کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا کہ آئندہ میں فرعون اور اس کے اہل کاروں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلوں گا تاکہ اس کی بالواسطہ بھی کسی بھی قسم کی مدد کا، ارتکاب نہ ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:17) رب : ای یاربی۔ بما انعمت علی۔ میں باء قسم کی ہے ما مصدریہ ہے۔ اور جواب قسم محذوف ہے۔ ای اقسم بانعامک علی لا متنعن عن مثل ھذا الفعل۔ مجھے قسم ہے تیرے انعام کی جو تو مجھ پر کیا ہے کہ میں ایسا فعل ہرگز نہ کروں گا۔ یا میں ایسے فعل سے باز رہوں گا۔ (یہاں انعام سے مراد مغفرت الٰہی ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ کا یہ فعل، یعنی قتل قبطی بخش دیا) ۔ باء سببیہ بھی ہوسکتی ہے اس صورت میں معنی ہوں گے تیرے اس انعام کی وجہ سے جو تو نے مجھ پر کیا ہے اب ہرگز مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا۔ فلن اکوت ظھیرا للمجرمین۔ اس کا عطف جواب قسم (مذکورہ بالا پر) ہے ۔ پس میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ لن اکون مضارع نفی تاکید بہ لن واحد متکلم۔ میں ہرگز نہ بنوں گا۔ ظھیرا بروزن فعیل بمعنی فاعل مظاھرۃ سے صفت کا صیغہ ہے۔ معین ، مددگار۔ یاور۔۔ پشیتبان ۔ واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی مراد اس اسرائیلی ہی سے ہو اور اسی کو آپ نے مجرم قرار دیا ہو جس کی آپ نے مدد کی تھی کیونکہ وہ جرم کا سبب بنا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ” مجرمین “ سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مراد لئے ہوں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مجرم تھے اور ان کے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد کرنے کا مطلب یہ ہو کہ تو نے مجھے جو نعمت عزت اور راحت و قوت عطا فرمائی ہے اسی کا شکریہ ہے کہ اسے ان لوگوں کی حمایت و اعانت میں صرف نہ کروں۔ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلوں اور اس ظالم حکومت کا کل پرزہ نہ بنوں۔ ابن جریر (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین (رح) نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ۔ اس عہد کا یہی مطلب لیا ہے اور حافظ ابن کثیر (رح) نے بھی اسی کے مطابق تفسیر کی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہاں مجرمین سے مراد وہ ہیں جو دوسروں سے گناہ کا کام کرانا چاہیں، کیونکہ گناہ کرانا کسی سے بھی یہ جرم ہے، پس اس میں شیطان بھی داخل ہوگیا، کہ وہ گناہ کراتا ہے اور گناہ کرنے والا اس کی مدد کرتا ہے۔ خواہ عمدا یا خطا، مطلب یہ ہوا کہ میں شیطان کا کہنا کبھی نہ مانوں گا، یعنی مواقع محتملہ خطاء میں احتیاط و تنقیظ سے کام لوں گا، اور اصل مقصود اتنا ہی ہے، مگر شمول حکم کے لئے مجرمین جمع کا صیغہ لایا گیا کہ اوروں کو بھی عام ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں، بما انعمت علی کے بعد فلا تھنی محذوف ہے یعنی مجھے رسوا نہ کرنا۔ یا بما میں باء قسمیہ ہے اور جواب قسم محذوف ہے اور فلن اکون الخ جواب پر معطوف ہے ای اقسم بانعامک علی لا متنعن عن مثل ھذا الفعل الخ (روح ج 20 ص 55) ۔ اور انعام سے یا تو فرعون کے شر سے محفوظ رہنا مراد ہے یا مذکورہ لغزش پر مغفرت کیونکہ الہام یا رویائے صادقہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا تھا کہ اللہ نے ان کی لغزش معاف فرما دی ہے (ایضا) ۔ اس پر امر خامس یعنی فلا تکونن ظھیرا للکفرین متفرع ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کیا کہ اے میرے پروردگار چونکہ تو نے مجھ پر بڑا فضل فرمایا ہے اور بڑے بڑے احسانات کئے ہیں آئندہ کبھی مجرموں کا مدد گار نہ بنوں گا ۔ مجرموں سے مراد وہ ہیں جو انسانوں کو گناہ پر ابھاریں خواہ وہ شیاطین الانس ہوں یا شیاطین الجن ہوں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی غلطی پر توجہ بھی کی اور آئندہ کے لئے شیطانی اور طاغوتی قوتوں سے بچنے کا بھی عہد کیا ، توبہ کی تکمیل میں یہ دونوں باتیں ہوا کرتی ہیں ۔ کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انشاء اللہ نہ کہا اس لئے دوسرے دن پھر اسی قسم کے قضیے میں مبتلا ہوئے اور یہ بھی مشہور ہے کہ اس فرعونی مقتول کو رات ہی میں دبا دیا تھا تا کہ پتہ نہ چلے چناچہ قاتل کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید اس فریادی کی بھی تقصیر ہوگی اور بخشا انہوں نے جانا الہام سے پیغمبر لوگ نبوت سے پہلے ولی تو ہوتے ہیں ۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) اسرائیلی کی تقصیر کی طرف اس لئے اشارہ فرمایا کہ کم ازکم اس نے فرعونی کے خلا موسیٰ (علیہ السلام) کو ابھارا اور کسی جرم پر ابھارنا بھی جرم ہے۔ اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فلن اکون ظھیر للمجرمین کہا اور جمع کا صیغہ استعمال کیا تا کہ شیطان اور شیطانی کام پر ابھارنے والے سب شامل ہوجائیں۔