Surat ul Qasass
Surah: 28
Verse: 2
سورة القصص
تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾
These are the verses of the clear Book.
یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی ۔
تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾
These are the verses of the clear Book.
یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی ۔
These are the Ayat of the manifest Book. means the Book which is clear and makes plain the true reality of things, and tells us about what happened and what will happen.
Commentary Surah Al-Qasas is the very last among the Makki Surahs. It was revealed between Makkah and Juhfah (Rabigh) during the migration. It is mentioned in some narrations that during the journey from Makkah to Madinah when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) reached near Juhfah or Rabigh, Jibra&il (علیہ السلام) came to him and enquired whether he was feeling home sick, as he was leaving the place where he was born and spent all his life. To this the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied in the affirmative. Then Jibra&il (علیہ السلام) recited this Surah and gave him the good tiding that ultimately Makkah will fall to him and come under his control. The related verse is as follows: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ Surely the one who has enjoined the Qura&n upon you will surely bring you back to the place of return - 28:85 Surah Al-Qasas begins with the story of Sayyidna Musa first briefly then in detail. Firs- half of the Surah contains Sayyidna Musa&s (علیہ السلام) episodes with the Pharaoh, and towards the end of the Surah his episode with Qarun is related. The story of Sayyidna Musa (علیہ السلام) is related extensively in the Qur’ an, at places briefly while at others in detail. In Surah Al-Kahf (Cave) that part of the story is related in which he encountered Al-Al-khadir (علیہ السلام) . Then, in Surah Taha other parts of the story are related in some detail, while some details are related in Surah An-Naml. Now, in Surah Al-Qasas they are being reiterated. In Surah Taha where Allah Ta` ala has said about Musa (علیہ السلام) فَتَنَّاكَ فُتُونًا (And We tested you with a great ordeal - 20:40). Imam Nasa&i and some other commentators have penned down the entire story at that point. The writer has followed suit, and by quoting Ibn Kathir has written the whole story under Surah Taha. All the relevant parts of the story, it&s related important issues, and rulings have been discussed in detail under Surahs al-Kahf and Taha. For any reference of an issue or ruling it would be apt to look up there. Now in this Surah commentary will be restricted to brief explanation of the wordings of these verses.
معارف و مسائل سورة قصص مکی سورتوں میں سب سے آخری سورت ہے جو ہجرت کے وقت مکہ مکرمہ اور جحفہ (رابغ) کے درمیان نازل ہوئی۔ بعض روایات میں ہے کہ سفر ہجرت میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جحفہ یعنی رابغ کے قریب پہنچے تو جبرئیل امین تشریف لائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو آپ کا وطن جس میں آپ پیدا ہوئے یاد آتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ضرور یاد آتا ہے۔ اس پر جبرئیل امین نے یہ سورت قرآن سنائی جس کے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی بشارت ہے کہ انجام کار مکہ مکرمہ فتح ہو کر آپ کے قبضہ میں آئے وہ آیت یہ ہے اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ، سورة قصص میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ پہلے اجمال کے ساتھ پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ نصف سورت تک موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ فرعون کے ساتھ اور آخر سورت میں قارون کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ پورے قرآن میں کہیں مختصر کہیں مفصل بار بار آیا ہے سورة کہف میں تو ان کے اس قصہ کی تفصیل آئی ہے جو خضر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا، پھر سورة طہ میں پورے قصہ کی تفصیل ہے اور یہی تفصیل سورة نمل میں بھی کچھ آئی ہے پھر سورة قصص میں اس کا اعادہ ہوا ہے۔ سورة طہ میں جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ارشاد ربانی یہ آیا ہے کہ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا حضرات محدثین امام نسائی وغیرہ نے اس پورے قصے کی مکمل تفصیل وہاں لکھی ہے احقر نے بھی ابن کثیر کے حوالہ سے یہ مکمل تفصیل سورة طہ میں بیان کردی ہے۔ اس قصہ کے متعلقہ اجزاء کی تمام بحثیں اور ضروری مسائل اور فوائد کچھ سورة کہف میں باقی سورة طہ میں ذکر کردیئے گئے ہیں۔ مسائل و مباحث کے لئے ان کو دیکھنا کافی ہوگا یہاں صرف الفاظ آیات کی مختصر تفسیر پر اکتفا کیا جائے گا۔
1 ۔ یعنی جو حق کو باطل سے واضح کرنے والی ہے یا جو اپنا مدعا بیان کرنے میں واضح ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 6 : نتلوا (ہم پڑھتے ہیں) نبا (خبر۔ حال) ‘ علا (اس نے سرکشی کی) شیع (فرقے۔ گروہ) ‘ یستضعف (وہ کمزور کرتا ہے) ‘ یذبح (وہ ذبح کرتا ہے) یستحی (وہ زندہ رکھتا ہے) ‘ نمن (ہم احسان کرتے ہیں) ‘ ائمۃ (امام) پیشوا۔ رہنما ‘ نری (ہم دکھائیں گے) ‘ یحذرون (وہ ڈرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 : سورۃ القصص کی ابتداء حروف مقطعات سے کی گئی ہے۔ یہ وہ حروف ہیں جن کے معنی اور مراد کا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ ممکن ہے ان حروف کے معنی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادیئے ہوں اور آپ نے امت کو بتانا ضروری نہ سمجھا ہو۔ لہٰذا ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ ان حروف کے معنی اور مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اگر امت کو بتانا ضروری ہوتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سلسلہ میں ضرور ارشاد فرماتے یا صحابہ کرام (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور پوچھتے۔ سورۃ القصص میں کل 83 آیات ہیں جن میں سے 43 آیات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا گیا ہے جس میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فرمایا (1) اس کتاب قرآن مجید کی واضح اور کھلی ہوئی آیات ہیں جن کو سمجھنے اور عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ وہ اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے نہایت واضح روشن اور آسان آیات ہیں۔ اگر ذرا بھی ان پر توجہ اور دھیان دیا جائے تو اس سے عمل اور نجات کی راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔ (2) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کو با لکل صحیح اور درست انداز میں پیش کیا ہے اور بنی اسرائیل نے اس دعوے کے باوجود کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ہیرو ہیں ان کی شخصیت کے بعض پہلوؤں کو داغ دار کر رکھا تھا۔ اور ان کے واقعات زندگی کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کر رکھا تھا کہ اس سے عظمت کے تاثرات کے بجائے پہلو نمایاں ہو کر سامنے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برے پہلوؤں کو دور رک کے صحیح واقعات کو بیان کیا ہے۔ (3) فرعون نے سرزمین مصر میں بنی اسرائیل کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود ان کو انتہائی ذلیل کرکے رکھا ہوا تھا اور ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ جب فرعون اور اس قوم کی سرکشی ‘ تکبر و غرور اور ظلم و ستم اپنی انتہاؤں پر پہنچ گیا تو اللہ نے ان کی اصلاح کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو چند معجزات دے کر بھیجا تاکہ ان کی اصلاح کی جاسکے ۔ (4) ” لڑائو اور حکومت کرو “ اس سیاسی اصول کی ابتداء شاید فرعون نے کی تھی۔ صورت حال یہتھی کہ اس وقت مصر میں بنی اسرائیل پچانوے فیصد تھے اور قبطی حکم ران اور اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت تھوڑی سی تھی مگر انہوں نے طاقت وقوت ‘ ظلم و جبر کی ایسی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی کہ جس سے پوری قوم بنی اسرائیل پست سے پس اور ذلیل کام کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور کردی گئی تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ اس کے بعد اس قوم میں ظالم حکمرانوں کے ظلم کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت ختم ہی ہوکر رہ گئی تھی۔ فرعون نے اس شخصی حکومت کی بقا کے لئے ہر طرف قدم قدم پر اپنے جاسوس پھیلارکھے تھے۔ اور پوری قوم بنی اسرائیل کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر کے ایک کو دوسرے سے بھڑکا رکھا تھا۔ حکومتی جبر کے ان اقدامات سے بنی اسرائیل تباہی اور ذلت کے آخری کنارے تک پہنچ چکے تھے۔ (5) قوم بنی اسرائیل مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے اور اریاستی جبر اور ظلم و ستم کے سامنے اس قدر بےبس ‘ مجبور اور کمزور ہوچکی تھی کہ ماؤں کی گود سے ان کے معصوم بچوں کو چھین کر ان کے سامنے ذبح کیا جاتا اور بچوں کے ٹکڑے کردیئے جاتے مگر اس پر کسی کو اعتراض کرنے یا اس سلسلہ میں احتجاج تک کرنے کی اجازت نہ تھی۔ لڑکیوں کو اس لئے زندہ رکھتے تھے کہ ان سے فرعون کی سلطنت کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور ان کو یقین تھا کہ آئندہ وہ ان کی باندیاں اور غلام بن کر ان کے کام آئیں گی۔ (6) فرعون زبردست فسادی آدمی تھا جس نے اپنے اقتدار اور سلطنت کو بچانے کے لئے ہر طرف تباہی و بربادی کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اس کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا۔ (7) فرعون کی ان سازشوں اور کوششوں کے برخلاف اللہ نے یہ فیصلہ فرمادیا تھا کہ اس کمزور اور بےبس قوم کو ایسی طاقت و قوت عطاکر دی جائے جس سے فرعون اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائے اور بنی اسرائیل کو وہ عظمت ‘ حکومت اور سلطنت دے دی جائے جس کا وہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پرجوش خطبات سے قوم بنی اسرائیل میں ایک نئی زندگی کی لہر پیدا ہوگئی اور وہ فرعون کے ظلم و ستم کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دس سات تک مدین میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر واپس تشریف لائے تو اللہ نے ان کو نبوت و رسالت سے نواز کر ایسے معجزات عطا کئے جن کے سامنے فرعون اور اس کی طاقتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ اور اس طرح فرعون اور ہامان کو جو خطرہ تھا جس کی وجہ سے وہ قوم بنی اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اللہ نے اپنی مشیت اور ارادے سے فرعون کی تدبیریں خود اس پر الٹ دیں۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ماننے والے لشکریوں کو پانی میں غرق کر کے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنادیا۔ جب تک قوم بنی اسرائیل فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہے وہ فرعون کے غلاموں جیسی زندگی گذارتے رہے لیکن جب وہ اللہ کے دین پر چلتے ہوئے متحد و متفق ہوء تو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے فرعون کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کردیا اور اہل ایمان کو عظمت کی بلندیاں عطا فرمادیں۔ ان آیات میں درحقیقت کفار مکہ کو یہ سمجھایاجارہا ہے کہ کفر کتنا بھی طاقت ور ہو جب لوگ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں تو قدرت کا غیبی ہاتھ ان کی مدد کر کے اس بلند مقام تک پہنچادیتا ہے جہاں ان کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ بتایا جارہا ہے کہ کفار مکہ یہ نہ سمجھیں کہ اہل ایمان کمزور ہیں اور ان پر ظلم و ستم کیا جارہا ہے اس کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ بلکہ وہ وقت بہت قریب ہے جب اللہ تعالیٰ ان کمزور اور بےبس مسلمانوں کو اتنی طاقت و قوت عطا فرمادے گا کہ کفر کے ایوانوں میں زلزلے آجائیں گے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خلوص کو قبول کرکے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو اتنی زبردست قوت و طاقت بنادیا کہ ساری دنیا کی سلطنتیں ان کے سامنے بےبس ہو کر رہ گئیں۔ اہل ایمان کامیاب و بامراد ہوئے اور کافر اس دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوئے اور انہوں نے اپنی آخرت بھی برباد کر ڈالی۔
فہم القرآن ربط کلام : سورة نمل کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ اے لوگو ! عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھلائے گا، کیونکہ آپ کا رب کسی کے اچھے اور برے عمل سے غافل نہیں ہے۔” اللہ “ کی نشانیوں میں یہ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل جیسی مظلوم قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے وسائل کے لحاظ سے کمزور شخص کو فرعون جیسے ظالم شخص سے نجات دی اور بنی اسرائیل کو پوری دنیا میں معزز بنایا۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مکہ اور آل فرعون کے کردار میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : ” اے موسیٰ ! تو اور تیرا بھائی میرے معجزات لے کر دونوں فرعون کے ہاں جاؤ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔ ہاں میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا اور دیکھو اسے نرمی سے سمجھانا کہنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے۔ انھوں نے عرض کی اے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا مزید سرکشی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ڈرنے کی ضرورت نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور اسے کہنا ہم تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ “ [ طٰہٰ : ٤٢۔ ٤٧] اہل تاریخ بنی اسرائیل پر فرعون کے بد ترین مظالم کی دو وجوہات تحریر کرتے ہیں۔ ایک جماعت کا نقطۂ نظر ہے کہ نجومیوں نے فرعون کو اس بات کی خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے خوف سے فرعون نے ان کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو باقی رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یاد رہے بنی اسرائیل کے جوانوں کا قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو باقی رکھنے کا معاملہ دو مرتبہ ہوا۔ ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اور دوسری مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بعد۔ (المؤمن : ٢٣) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بےخانماں مسلمانوں کے خلاف مکہ والوں کی حمایت کررہے ہو۔ تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا۔ تمہاری ماؤں اور بہو ‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم مظلوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے بدترین مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے دشمن کو ذلّت کی موت مارتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا تھم گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دنیا کا بد ترین مغرور، سفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والاڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو ! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ (قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا حَتّآی اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ا آلْءٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ فَالْیَوْمَ نُنَجَّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْن)[ یونس : ٨٩ تا ٩٢] ” فرمایا بلا شبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا جو نہیں جانتے اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات اور احکام بالکل واضح ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید میں بیان کردہ واقعات افراط، تفریط اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہیں۔ ٣۔ فرعون نے طبقاتی کشمکش کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کر رکھا تھا۔ ٤۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑتا تھا۔ ٥۔ فرعون فساد کرنے والوں میں سب سے بڑا فسادی تھا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے مظالم اور اس کا بدترین کردار : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص : ٤) ٢۔ بنی اسرائیل قتل و غارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٧ تا ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : ٥، ٦) ٤۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٥۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ (التحریم : ١١)
2:۔ یہ تمہید مع ترغیب ہے یعنی یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں انہیں توجہ سے سنیں اور ان پر عمل کریں۔ الکتاب کی صفت المبین سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس سورت میں اگرچہ عقلی دلیلیں بھی مذکور ہیں لیکن زیادہ زور دلیل نقلی پر دیا گیا ہے۔