Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 3

سورة القصص

نَتۡلُوۡا عَلَیۡکَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰی وَ فِرۡعَوۡنَ بِالۡحَقِّ لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳﴾

We recite to you from the news of Moses and Pharaoh in truth for a people who believe.

ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ ... We recite to you some of the news of Musa and Fir`awn in truth, This is like the Ayah, نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ We relate unto you the best of stories. (12:3) which means, `We tell you about things as they really were, as if you are there and are seeing them yourself.' ... لِقَوْمٍ يُوْمِنُونَ for a people who believe. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کردینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] قرآن کریم میں اکثر مقامات پر حض موسیٰ اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے ذکر میں حضرت موسیٰ کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسیٰ کو رسول اللہ سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ ئرسالت سرانجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے، فرعون نے انھیں اچھوتوں کی طرح کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ آپ اپنی قوم قریش ہی کے ایک فرد تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کو فرعون جیسے مغرور، متمرد اور سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لئے بھیجا گیا تھا جبکہ آپ کے مخاطبین اول آپ کی اپنی ہی قوم کے افراد تھے۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ کو یہ بھی حکم تھا کہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کا بھی مطالبہ کریں جبکہ رسول اللہ کو ایسا کوئی حکم نہ تھاـ۔ چوتھے یہ کہ آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے۔ اور اس قصہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرکے انھیں فرعونیوں سے نجات دلاتے ہیں اور فرعون اور آل فرعون کو دریا میں غرق کرکے ایسے ظالموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں۔ گویا اس قصہ میں آپ کے لئے اور مسلمانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ جب موسیٰ نے ایسے شدید حالات اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کئے تو آپ کو بھی کرنا چاہئیں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتا ہے اور ان کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں۔ [٢] شاہان مصر کا لقب، جیسے قدیم زمانہ میں ترکوں کے بادشاہ خاقان، یمن کے بادشاہ تبع، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، روم کے بادشاہ قیصر اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے ایسے ہی مصر کے بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ موسیٰ کو دو فرعونوں یا دو بادشاہوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جس فرعون نے آپ کی پرورش کی تھی اس کا نام رعمیس تھا اور نبوت ملنے کے بعد جس کے ہاں آپ کو بھیجا گیا تھا وہ رعمیس کا بیٹا متطتاح تھا ـ۔ ان کا عہد حکومت تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح ہے۔ [٣] یعنی قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں کا کیا ؟ لیکن اس قصہ سے نصیحت، ہدایت اور سبق وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور و فکر کرکے ایمان لانے والے ہوں اور جو لوگ اسے محض تاریخی داستان یا افسانہ سمجھتے ہوں، انھیں اس سے کیا عبرت حاصل ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ : ” نَّبَاِ “ اس خبر کو کہتے ہیں جو اہم اور شان والی ہو۔ ” مِن “ بعض کے معنی میں ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ خبر “ کیا گیا ہے۔ شوق دلانے کے لیے قصے کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا، ہم تجھ پر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے اہم واقعے کا کچھ حصہ حق کے ساتھ، یعنی ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ :” یعنی مسلمان اپنا حال قیاس کرلیں ظالموں کے مقابلہ میں۔ “ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا اور بنی اسرائیل سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو کمزور ہونے کے باوجود فرعون کے مقابلے میں کامیاب کیا، اسی طرح جو مسلمان مکہ میں کمزور اور مغلوب ہیں، یا دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی بھی وقت مظلوم و مجبور ہوں گے، انھیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ ان کی بھی اسی طرح مدد فرمائے گا، انھیں دشمنوں سے نجات دلائے گا اور ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے گا۔ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں اس کتاب لا ریب کو صرف متقین کے لیے ہدایت قرار دیا، اسی طرح یہاں فرمایا کہ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کے قصے کا کچھ حصہ ان لوگوں کے لیے سنا رہے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ سنتے اگرچہ کافر بھی ہیں مگر فائدہ صرف اہل ایمان ہی اٹھاتے ہیں۔ جن لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں، انھیں اس واقعے سے بلکہ پورے قرآن سے کچھ حاصل نہیں۔ کچھ حصہ اس لیے فرمایا کہ اس قصے کے بہت سے حصے اس سورت کے بجائے دوسری سورتوں میں ہیں اور قرآن کوئی بھی واقعہ بطور تاریخ پورا بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے صرف وہ حصے بیان کرتا ہے جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 3 اس واقعہ کے لیے مزید ملاحظہ کریں سورة بقرہ (رکوع ٦) ، اعراف (رکوع ١٣ تا ١٦) ، یونس (رکوع ٨، ٩) ، ہود (رکوع ٩) ، بنی اسرائیل (رکوع ١٢) ، مریم (رکوع ٤) ، طٰہٰ (رکوع ١ تا ٥) ، مومنون (رکوع ٣) ، شعراء (رکوع ٢ تا ٤) ، نمل (رکوع ١) ، عنکبوت (رکوع ٤) ، مومن (رکوع ٣ تا ٥) ، زخرف (رکوع ٥) ، دخان (رکوع ١) ، ذاریات (رکوع ٢) اور نازعات (رکوع ١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَـاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٣ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) ہم آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا کچھ واقعہ بذریعہ قرآن کریم سناتے ہیں ان لوگوں کے فائدہ کیلیے جو آپ کی اور قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) ” گویا سورت کا آغاز ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر سے ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 For comparison, see AI-Baqarah: 47-59, AI-A'raf: 100-141, Yunus: 75-92. Hud: 96-109, Bani Isra'il: 101-111, Maryam: 51-53. Ta Ha: 1-89, Al- Mu'minun: 45-49, Ash-Shu`araa: 10-68, An-Naml: 7-14, Al-`Ankabut: 39-40, AlMu'min: 23-50, Az-Zukhruf: 46-56, Ad-Dukhan: 1 7-33, Adh-Dhariyat: 38-40, An-Naziyat: 1 5-26. 2 That is, "For the benefit of those who are not obstinate and stubborn, for it would be useless to address those who are not at all inclined to listen to you.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 1 تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو البقرہ رکوع 6 ۔ الاعراف رکوع 13 تا 16 ۔ یونس رکوع 8 ۔ 9 ۔ ہود رکوع 9 ۔ بنی اسرائیل رکوع 12 ۔ مریم رکوع4 ۔ طہ رکوع 4 ۔ المومنون رکوع 3 ۔ الشعراء رکوع2 ۔ 4 ۔ النمل رکوع 1 ۔ العنکبوت رکوع 4 ۔ المومن رکوع 3 ۔ 5 ۔ الزخرف رکوع 5 ۔ الدخان رکوع 1 ۔ الذاریات رکوع 2 ۔ النازعات رکوع1 ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 2 یعنی جو لوگ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں ان کو سنانا تو بےکار ہے ، البتہ جنہوں نے ہٹ دھرمی کا قفل اپنے دلوں چڑھا نہ رکھا ہو وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣ تا ٧۔ اوپر گزر چکا ہے کہ فرعون نے ایک رات کو سوتے میں خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ مصر میں آن کر پھیل گئی اور فرعون کی قوم کے تمام گھر تو اس آگ میں جل گئے لیکن مصر میں بنی اسرائیل کا محلہ اس آگ سے بچ گیا ہے صبح کو فرعون جب سو کر اٹھا تو اس نے اپنے نجومیوں اور جادو گروں کو جمع کر کے اس خواب کی تعبیر پوچھی انہوں نے کہا بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے ہاتھوں سے تیری بادشاہت غارت ہوجائے گی اور مصر کو صدمہ پہنچے گا اس خواب اور اس تعبیر کے ڈر سے فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ جب ہزارہا لڑکے بنی اسرائیل کے قتل ہونے لگے تو فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے آکر کہا کہ بنی اسرائیل کی فقط عورتیں باقی رہ جائیں گی پھر بادشاہی حکم سے طرح طرح کی محنت مزدوری کے کام جو بنی اسرائیل کو سونپے گئے ہیں آخر وہ کیوں کر چلیں گے اس پر فرعون نے یہ حکم دیا تھا کہ ایک سال بنی اسرائیل کے لڑکے مارے جاویں اور ایک سال چھوڑ دیے جاویں حضرت ہارون ( علیہ السلام) تو اس سال میں پیدا ہوئے جو لڑکوں کے زندہ چھوڑ دینے کا سال تھا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) لڑکوں کے مارے جانے والے سال میں پیدا ہوئے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دیویں۔ یہ اوپر سورة یوسف میں گزر چکا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ سے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد جو بنی اسرائیل کہلاتی ہیں ملک شام سے مصر میں آن کر رہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد جب فرعون کی حکومت ہوئی تو فرعون اپنی قبطی قوم کو تو عزت سے رکھتا تھا اور بنی اسرائیل کو غیر قوموں کے لوگ پا کر ذلت سے رکھتا تھا اور محنت مزدوری کے ذلیل کام ان سے لیتا تھا یہ قصہ تفسیر ١ ؎ سدی میں ہے یہ تفسیر ایک معتبر تفسیر ہے اس تفسیر میں اکثر روایتیں حضرت عبداللہ بن معسود اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اسماعیل سدی نے نقل کی ہیں سفیان ثوری اور شعبہ نے اکثر روایتیں اسماعیل سدی سے اپنی تفسیروں میں نقل کی ہیں اور ابن جریر (رح) نے بھی اپنی تفسیر میں جگہ جگہ اسماعیل سدی سے روایت کی ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بھی اکثر جگہ تفسیر سدی سے روایتیں نقل کی ہیں چناچہ اس قصہ کو بھی حافظ ابن حجر (رح) نے تفسیر سدی کے حوالہ سے فتح الباری میں نقل کیا ٢ ؎ ہے اور اس کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کی اصل ہے امام احمد (رح) نے اسماعیل سدی کو ثقہ کہا ہے اور ابن عدی نے صدوق ٹھہرایا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اپنے خواب کی تعبیر سے ڈر کر فرعون نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے بنی اسرائیل کے بےگناہ لڑکوں کو مار ڈالنا ایک ظلم تھا اسی واسطے فرعون کو دنیا میں خرابی ڈالنے والا فرمایا اس سے بڑھ کر اور پیدا ہونے والے لڑکوں کو یہ ظالم مروا ڈالنا صحیح مسلم کے حوالہ ٣ ؎ سے جابر (رض) بن عبداللہ کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام ٹھہرالیا ہے اور لوگوں کو بھی ظلم سے منع فرمایا ہے اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ ظلم کیسی خرابی کی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خود بھی اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرایا اور لوگوں کو بھی اس کے برتاؤں سے روکا۔ اب آگے فرمایا کہ فرعون نے تو اپنے خواب کی تعبیر کے مٹانے کی بہت کوشش کی مگر تقدیر الٰہی کے آگے انسان کی تدبیر کیا چل سکتی ہے اللہ کا ارادہ ازلی تو یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل پر یہ احسان کرے کہ فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو ملک شام میں بادشاہ اور مصر میں فرعون کا قائم مقام بنا دیوے تاکہ فرعون اس کا وزیر ہامان اور ان کے لشکر کے لوگ فرعون کی جس خواب کی تعبیر سے ڈرتے ہیں وہی تعبیر ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے اور فرعون کو خدائی کے دعویٰ کی اور اس کے ساتھیوں کو اس کا ساتھ نباہنے کی پوری سزا مل جاوے لکنا اس انتظام کی ظہور موسیٰ (علیہ السلام) کے پرورش پانے اور نبی ہونے پر منحصر تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں اللہ نے یہ بات ڈال دی تھی کہ جس سال لڑکے مارے جاتے تھے اس سال موسیٰ کے پیدا ہونے کا کچھ اندیشہ نہ کیا جاوے اور دودھ پلانے کے بعد بلا خوف بچہ کو ایک صندوق میں لٹا کر اس صندوق میں ایک رسی باندھ دی جائے اور اس رسی کے ایک سرے کو کسی پیڑ میں باندھ دیا جائے تاکہ اس بچہ پر کسی فرعونی کی نظر نہ پڑے اتنے سے بچہ کے دریا میں ڈالنے سے کچھ اندیشہ نہ کیا جاوے کیوں کہ اس بچہ کو ہر آفت سے بچانا اور صحیح سلامت ماں کے پاس لے آنا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذمہ لیا ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رسولوں کے گروہ میں داخل کرنا چاہتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ ١ ؎ سے عبداللہ بن (رض) عمرو بن العاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے دینا میں جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس حدیث کو آیتوں کو تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکوں کو قتل کرایا موسیٰ (علیہ السلام) کا جادو گروں سے مقابلہ ٹھہرایا غرض اس نے کوئی تدبیر اپنے خواب کی تعبیر کو اڑا دینے کی اٹھا نہیں رکھی لیکن دنیا سے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو بات لوح محفوظ میں لکھی جاچکی تھی وہ کسی تدبیر سے ٹل نہ سکتی قتادہ کا قول ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں جو بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی وہ نبوت کی وحی نہیں تھی کیوں کہ نبوت کی وحی میں امت کی ہدایت کے طرح طرح کے احکام ہوتے ہیں جو اس الہام میں نہیں تھے اس لیے یہ الہام خاص دنیوی انتظام کا ایک الہام تھا نبوت کی وحی نہ تھی معتبر سند سے ترمذی میں انس بن مالک (رض) سے ٢ ؎ اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ٣ ؎ سے عورتوں کی فضیلت میں جو روایتیں ہیں لیکن بروایت مسند امام احمد (رح) ان میں حضرت خدیجہ (رض) فاطمہ (رض) مریم (رض) اور آسیہ (رض) فرعون کی بیوی ان چار عورتوں کا ذکر ہے علاوہ ان روایتوں کے اور بعضی صحیح روایتوں میں حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت کا بھی ذکر ٤ ؎ ہے ان سب روایتوں سے قتادہ قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا الہام اگر تبوت کی وحی کے برابر ہوتا تو وہ نبی ہوتیں اور عورتوں کی فضیلت کی حدیثوں میں ان کا ذکر ضرور ہوتا۔ (١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٢٧ پارہ ٢٠ طبع جدید و تفسیر الدر المنثور ص ١١٩ ج ٥۔ ) (٢ ؎ فتح الباری ص ٢٤٨ ج ٣ طبع دہلی۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم ص ٣٢ ج ٢۔ ) ) ١ ؎ مشکوۃ باب الایمان بالقدر۔ ( (٢ ؎ مشکوۃ باب مناقب ازواج النبی ‘ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٤ ح ٤ (٤ ؎ مثلا مشکوٰۃ ص ٥٠٩ باب بدر الخلق۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:3) نتلوا مضارع جمع متکلم تلاوۃ مصدر۔ ہم تلاوت کرتے ہیں۔ ہم پڑھتے ہیں۔ ہم پڑھ کر سناتے ہیں۔ نباء خبر۔ واقعہ۔ قصہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ ” یعنی مسلمان اپنا حال قیاس کرلیں ظالموں کے مقابلہ میں۔ “ مطلب یہ ہے کہ اس قصہ میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کمزور ہونے کے باوجود فرعون کے مقابلہ میں کامیاب کیا اسی طرح اب جو مسلمان مکہ میں کمزور اور مغلوب ہیں انہیں بھی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب کرے گا۔ اس کے بعد ” ان فرعون “ سے اسی قصہ کی تفصیل شروع ہو رہی ہے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کیونکہ مقاصد قصص کے کہ عبرت و استدلال علی النبوة وغیرہما ہیں مومنین ہی کو نافع ہیں، خواہ حقیقة مومن ہوں یا حکما۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نتلوا علیک من نبا موسٰی وفرعون بالحق لقوم یومنون (3) ” “۔ یہ کتاب اب لوگوں کے لیے آرہی جو ایمان لانے والے ہوتے ہیں ، یہ ان کی تربیت کرتی ہے ، ان کو اٹھاتی ہے اور ان کے لیے منہاج حیات وضع کرتی ہے ۔ راستہ بتاتی ہے ۔ یہ قصص بھی ایسے ہی اہل ایمان کے لیے لائے جارہے ہیں اور ایسے ہی لوگ ان سے نفع اٹھاتے ہیں ۔ اس کتاب کی یہ تلاوت براہ راست اللہ کی طرف سے ہے ، یہ اللہ کی عنایات میں سے ایک عنایت ہے ۔ اور اہل ایمان کے لیے اس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ یہ کتاب اہل ایمان کو بتاتی ہے کہ وہ نمایت ہی بلند مر تبہ اور قیمتی لوگ ہیں اور اللہ کے نزدیک وہ مرتبہ بلند رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر یہ کتاب ان کے لیے تلاوت کرتا ہے اور ان کے لیے یہ کتاب ان کی صفت ایمان کی وجہ سے تلاوت کی جارہی ہے ۔ لقوم یومنون (3:28 ) ” ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں “۔ اس کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے ، یہاں قصے کا آغاز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے آغاز یعنی آپ کی ولادت سے ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ کئی سورتوں میں آیا ہے لیکن آپ کی ولادت کے واقعات کا بیان صرف اس سورت میں اس انداز سے ہے کیونکہ آپ کی سیرت کا پہلا دور یعنی آپ کی ولادت اور وہ حالات جن میں ولادت ہوئی بےبسی کا دور تھا ولادت ہوتے ہی آپ بےبس تھے ۔ آپ کی قوم بھی بےبس تھی ۔ فرعون کی غلامی میں یہ لوگ بندھے ہوئے تھے ، ذلیلوخوار تھے اور یہی ذلت ومسکنت یہاں اس سورت کا حقیقی موضوع ہے ۔ ایسے مشکل حالات میں صاف صاف نظر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچانے کے لیے دست قدرت واضح طور پر سرگرم ہے ۔ جو تدابیر اختیار کی گئیں وہ بالکل ظاہر ہیں ۔ ایسے حالات میں جبکہ ظلم زیادتی اور سرکشی کے خلاف تمام انسانی قوتیں عاجزآگئی ہیں۔ دست قدرت اس عظیم قوت پر ایسی ضرب لگاتی ہے جس کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اس طرح مستضعفین کی نصرت کا آغاز ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ ان کے پاس حالات کو بدلنے کا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ قوم بنی وسرائیل کو سخت ترین عذاب اور ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کے پاس بچاؤ کی کوئی ظاہری سبیل نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جس سے مکہ میں مٹھی بھر ایمان والے دوچار تھے۔ مکہ کے اہل ایمان کو بھی اس طرح دست قدرت کی غیبی امداد کی ضرورت تھی اور مکہ میں تشدد کرنے والوں کو ضرورت تھی کہ ان کو متنبہ کیا جائے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔ دوسری سورتوں میں اکثر اوقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا آغاز رسالت کے سپرد کیے جانے کے واقعات سے ہوتا ہے۔ کسی جگہ اس قصے کا آغاز ولادت موسیٰ کے واقعات سے نہیں ہوا۔ دوسرے مقامات پر جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک قوی مومن کی طرح ایک سرکش مقتدر اعلیٰ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں اور یہ قوت ایمان غالب آتی ہے اور ظلم اور سرکشی سرنگوں ہوتی ہے لیکن یہاں یہ مفہوم بتانا مقصود نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ شر جب ننگا ہوکر اپنے عروج تک جا پہنچتا ہے تو اس کے اس عروج کے اندر سے اس کی خرابی کا سامان نمودار ہوتا ہے۔ شر اور ظلم جب کھل کر سامنے آجاتے ہیں تو پھر ان کی شکست و ریخت کا سامان قدرتی طور پر فراہم ہوتا ہے۔ کسی بیرونی دفاع کی ضرورت نہیں رہتی۔ شر کے خاتمے کے قدرتی عوامل شروع ہوجاتے ہیں ، اور دست قدرت خود اس کا دفعیہ کرتا ہے اور مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو ظلم کی چکی سے نجات دے دی جاتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے ، خیر پھلتا اور پھولتا ہے۔ اس کی تربیت ہوتی ہے اور اہل خیروقت کے امام بن جاتے ہیں اور تمام اقتدار ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور وہ اس کے وارث ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ حکمت ہے جس کے لیے سورة قصص میں قصہ موسیٰ کو لایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں اس قصے کی وہ کڑی لی گئی ہے جو پوری طرح اس مفہوم کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن کریم میں قصص جہاں جہاں بھی لائے گئے ہیں ، ہر جگہ ان سے ایک مخصوص غرض سامنے آتی ہے۔ لوگوں کی ، ایک زاویہ سے ، تربیت مقصود ہوتی ہے اور کچھ معانی ، کچھ حکمتیں اور کچھ اصول ان کو بنانے مقصود ہوتے ہیں۔ چناچہ جس مقصد کے لیے قصہ لایا جاتا ہے ، وہ نہایت ہی ہم آہنگی کے ساتھ اور مربوط طریقے سے ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ حقائق پر ودئیے جاتے ہیں اور قلب و نظر کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوتی ہے۔ یہاں اس قصے کی جو کڑیاں لائی گئی ہیں ، مثلاً ولادت موسیٰ (علیہ السلام) ، وہ سخت حالات جن میں آپ کی ولادت ہوئی ، ان حالات میں جس معجزانہ انداز میں اللہ نے آپ کو بچانے کی تدابیر کیں ، پھر آپ کی پرورش کا معجزانہ انتظام اور آپ کو جوانی ، علم اور حکمت کا عطا ہونا ، قبطی کا قتل ہونا ، فرعون اور اس کے سرداروں کا آپ کے خلاف مشورت کرنا ، حضرت موسیٰ کا مصر سے مدین کی طرف بھاگنا ، وہاں شادی کرنا ، خدمت گزاری کی مدت پوری کرنا ، پھر طور پر آپ کا ندائے ربی سنتا اور منصب رسالت پانا ، پھر آپ کا فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے فریضہ تبلیغ رسالت پورا کرنا۔ ان کی جانب سے تکذیب ، حضرت ہارون کو بحیثیت معاون نبی متعین کرنا اور آخری انجام کہ فروعون کی غرقابی۔ یہ سب امور نہایت ہی تیزی کے ساتھ سین پر آتے ہیں۔ یہاں قصے کی دو کڑیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ ان کو قرآن کریم میں پہلی بار لایا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے ذریعے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ کس طرح کھل کر ظلم کے خلاف اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ، فرعون کی تمام قوتیں اور مکاریاں فیل ہوجاتی ہیں۔ تمام احتیاطی تدابیر بےاثر ہوجاتی ہیں اور اللہ کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ یہاں سے لے کر، ماکانوا یحذرون، تک میں موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ مجملا ذکر کیا گیا ہے آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔ لقوم جار مجرور نتلوا کے متعلق ہے۔ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا عجیب و غریب قصہ صحیح صحیح آپ کو سناتے ہیں تاکہ مومنین اس سے عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ انہوں نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے دعوت توحید پیش کی اور اس کی خاطر طویل عرصہ تک تکلیفیں اٹھاتے رہے آخر وہ کامیاب ہوئے۔ اے پیغمبر آپ بھی ہمت و استقلال سے دعوت کا کام جار رکھیں اور جس قدر مصائب آئیں حوصلہ مندی سے ان کا مقابلہ کریں آخر آپ کامیاب ہوں گے اور آپ کا دشمن نامراد و سرنگوں ہوگا۔ انبیاء (علیہم السلام) پر ہمیشہ مصیبتیں آئی ہیں۔ آن بلا ہا کہ شدہ با انبیاء ہیچ کس نہ دہد نشاں در کربلاء۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3۔ اے پیغمبر ! ہم آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے بعض صحیح صحیح واقعات پڑھ کر ان لوگوں کے لئے سناتے ہیں جو لوگ ایمان رکھتے اور تصدیق کرتے ہیں ۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے احوال و واقعات تو بہت ہیں ان میں سے کچھ واقعات اس موقع پر نازل فرماتے ہیں اور آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں اور آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور یہ سنانا انہی لوگوں کو مفید ہوسکتا ہے جو فی الحال ایمان رکھتے ہیں یا آئندہ ایمان لانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ اقوام سابقین کے قصص اور واقعات سے وہی لوگ عبرت آموز سبق حاصل کرتے ہیں جو ایمان والے ہوں یا ایمان لانے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ تحقیق کرنا چاہتے ہوں۔