Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 35

سورة القصص

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیۡکَ وَ نَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۚ ۛ بِاٰیٰتِنَاۤ ۚ ۛ اَنۡتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۳۵﴾

[ Allah ] said, "We will strengthen your arm through your brother and grant you both supremacy so they will not reach you. [It will be] through Our signs; you and those who follow you will be the predominant."

اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے بسبب ہماری نشانیوں کے ، تم دونوں اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ ... Allah said: We will strengthen your arm through your brother, meaning, `We will add strength to your cause and give you help through your brother, who you have asked to be made a Prophet alongside you.' This is like the Ayat; قَدْ أُوتِيتَ سُوْلَكَ يمُوسَى You are granted your request, O Musa! (20:36) وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَأ أَخَاهُ هَـرُونَ نَبِيّاً And We granted him his brother Harun, (also) a Prophet, out of Our mercy. (19:53) One of the Salaf said, "There is no one who has ever done a greater favor to his brother than Musa did for Harun, may peace be upon them both, for he interceded for him until Allah made him a Prophet and Messenger with him to Fir`awn and his chiefs." Allah said concerning Musa: وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهاً he was honorable before Allah. (33:69) ... وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا ... and (We will) give you both power, means, overwhelming evidence. ... فَلَ يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِأيَاتِنَا ... so they shall not be able to harm you, with Our Ayat; means, `they will have no way or means of harming you because you are conveying the signs of Allah.' This is like the Ayat: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ O Messenger! Convey what has been sent down to you from your Lord. And if you do not, then you have not conveyed His Message. Allah will protect you from mankind. (5:67) الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالاَتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلاَ يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلاَّ اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا Those who convey the Message of Allah and fear Him, and fear none save Allah. And sufficient is Allah as a Reckoner. (33:39) And sufficient is Allah as a Helper and Supporter. And Allah told them the consequences in this world and the next, for them and for those who followed them, ... أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ you two as well as those who follow you will be the victors. This is like the Ayat: كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ Allah has decreed: "Verily, it is I and My Messengers who shall be the victorious." Verily, Allah is All-Powerful, All-Mighty. (58:21) إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ امَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاَْشْهَادُ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth, -- (40:51)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

351یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنادیا گیا۔ 352یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ 353یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً ، (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭوَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ :68، ( الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ۭوَكَفٰى باللّٰهِ حَسِيْبًا) 33 ۔ الاحزاب :39) (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ) 58 ۔ المجادلہ :21) ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52؀) 40 ۔ غافر :52-51)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اس مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تین امور بیان فرمائے۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ لوگ تم پر ہرگز درست درازی نہ کرسکیں گے۔ اور تمہارا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ تمہیں قتل کرنے کی بجائے انھیں اپنے معاملات حکومت کی فکر پڑجائے گی۔ دوسرے تمہارے ہارون کو نبی بناکر تمہارے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ منظور کیا جاتا ہے۔ وہ تمہارے ہمراہ فرعون کے دربار میں جائے گا اور تیسرے یہ کہ تم اس بات کا یقین رکھو کہ بالآخر فتح تمہاری ہی ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور تین باتوں کا وعدہ فرمایا، پہلا یہ کہ ہم ہارون کو نبی بنا کر تمہارا بازو ضرور مضبوط کریں گے (سین تاکید کے لیے ہے) ، وہ تمہارے ساتھ فرعون کے دربار میں جائیں گے۔ بعض سلف نے فرمایا، کسی بھائی پر اس کے بھائی کا اتنا بڑا احسان نہیں جتنا بڑا احسان موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) پر ہے کہ ان کی شفاعت سے انھیں نبوت مل گئی، اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا) [ الأحزاب : ٦٩ ] ” اور وہ (یعنی موسیٰ (علیہ السلام ) اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔ “ فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ڔبِاٰيٰتِنَآ : دوسرا وعدہ یہ کہ فرعونیوں کے مقابلے میں تم دونوں کو ہم ایسا غلبہ اور دبدبہ عطا کریں گے کہ ہمارے معجزے تمہارے ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ تم تک پہنچ نہیں پائیں گے اور نہ کسی قسم کی دست درازی کرسکیں گے۔ چناچہ بعد میں ایسے ہی ہوا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کو تمام تر اسباب و وسائل اور اسلحہ و افواج کے باوجود کبھی اس بات کی جرأت و ہمت نہ ہوسکی کہ ان پر کسی طرح ہاتھ اٹھا سکیں۔ یہ تفسیر ” بایتنا “ کو ” فلا یصلون “ کے متعلق کرنے کی صورت میں ہے۔ بِاٰيٰتِنَآ ڔ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ : یہ تیسرا وعدہ ہے کہ تم دونوں اور تمہارے پیروکار ہی آخر کار غالب ہوں گے۔ ” بِاٰيٰتِنَآ “ کو ” الْغٰلِبُوْنَ “ کے متعلق کرنے سے معنی یہ ہوگا کہ تم دونوں اور تمہارے پیروکار ہی ہمارے معجزات کی بدولت غالب رہو گے۔ یہ مضمون کہ رسول اور ان کے پیروکار ہی آخر غالب ہوں گے، قرآن میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة مومن (٥١) اور مجادلہ (٢١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا۝ ٠ۚۛ بِاٰيٰتِنَآ۝ ٠ۚۛ اَنْتُـمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ۝ ٣٥ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ عضد العَضُد : ما بين المرفق إلى الکتف، وعَضَدْتُهُ : أصبت عضده، وعنه استعیر : عَضَدْتُ الشّجر بالمِعْضَد، وجمل عاضد : يأخذ عضد النّاقة فيتنوّخها، ويقال : عَضَدْتُهُ : أخذت عضده وقوّيته، ويستعار العضد للمعین کالید قال تعالی: وَما كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً [ الكهف/ 51] . ورجل أَعْضَدُ : دقیق العضد، وعَضِدٌ: مشتک من العضد، وهو داء يناله في عضده، ومُعَضَّدٌ: موسوم في عضده ويقال لسمته عِضَادٌ ، والمِعْضَد : دملجة، وأَعْضَاد الحوض : جو انبه تشبيها بالعضد . ( ع ض د ) العضد ( بازو ) ہاتھ کا کہنی سے لیگر کندھے تک کا حصہ عضدتہ میں نے اس کے بازو پر مارا اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے : ۔ عضدت الشجر بالمعضد میں نے اہنسیا سے درخت کو کاٹا جمل عاضد نر شتر جو مادہ کے بازو کو پکڑ کر جفتی کرنے کے لئے اسے بٹھا لیتا ہے اور عضدتہ کے معنی کسی کا باز ۔ وپکڑنے اور اسے سہارا دینے کے ہیں اور ید کی طرح بطور استعارہ عضدہ کا لفظ بھی مدد گار کے معنی میں آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً [ الكهف/ 51] اور میں ایسا نہیں تھا کہ گمراہ کرنیوالوں کو مددد گار بناتا ۔ رجل اعضد پتلے بازو کا آدمی جس کے بازو پر نشان ہوا ایسے نشان کو عضاد کہا جاتا ہے اور م (علیہ السلام) ضد کے معنی بازو بند کے ہیں ۔ اعضاد الحوض حوض کے جوانب ( میں جو پشتہ اس کی حفاظت کے لئے بنا دیا جاتا ہے جو اس کے لئے بازو کا کام دیتے ہیں ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ وصل الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني . يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] ( و ص ل ) الا تصال کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) ارشاد خداوندی ہوا اچھا ہم ابھی تمہارے بھائی ہارون کو تمہارا قوت بازو بنادیتے ہیں اور ہم تم دونوں کو ایک خاص شوکت عطا کرتے ہیں جس سے ان لوگوں کو تمہارے قتل کی جرأت نہ ہو سکے گی یہ معجزات لے کر جاؤ تم دونوں اور جو تم پر ایمان لائے گا فرعون اور اس کی قوم پر غالب رہو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًافَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا ج) ” جس طرح بچپن میں ہم نے آپ ( علیہ السلام) کے چہرے پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر فرعون کو آپ ( علیہ السلام) کے قتل سے باز رکھا تھا ایسے ہی اب بھی ہم آپ ( علیہ السلام) کی حفاظت کریں گے۔ ہم آپ کی شخصیت میں ایسا رعب اور دبدبہ ڈال دیں گے کہ دشمن آپ ( علیہ السلام) کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکیں گے ‘ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48 This meeting of the Prophet Moses with Allah and the mutual conversation has been described in much greater detail in Surah Ta Ha (vv. 9-48). Anyone possessed of fine taste, who compares this Qur'anic version with the story given in the Bible (Exod., chs. 3, 4), will be himself able to judge which of the two is Divine Revelation and which the result of human story-telling. Besides, he will also be able to judge whether the Qur'anic version is, God forbid, a plagiarism of the Bible and Israelite traditions, or that God Himself is describing the actual event, Who had honoured Moses by calling him up into His Presence. (For further explanation, see E.N. 19 of Surah Ta Ha).

سورة القصص حاشیہ نمبر : 48 اللہ تعالی کے ساتھ حضرت موسی کی اس ملاقات اور گفتگو کا حال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ طہ آیت 9 تا 48 میں بیان ہوا ہے ۔ قرآن مجید کے اس بیان کا جو شخص بھی اس داستان سے مقابلہ کرے گا جو اس سلسلہ میں بائیبل کی کتاب خروج ( باب 3 ۔ 4 ) بیان کی گئی ہے ، وہ اگر کچھ ذوق سلیم رکھتا ہو تو خود محسوس کرلے گا کہ ان دونوں میں سے کلام لہی کونسا ہے اور انسانی داستان گوئی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کرسکے گا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذ اللہ بائیبل اور اسرائیلی روایات کی نقل ہے ، یا وہ خدا خود اصل واقعہ بیان فرما رہا ہے جس نے حضرت موسی کو باریاب فرمایا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طہ حاشیہ 19 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٥۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ فرعون کے ساتھ اگرچہ بہت کچھ بھیڑ بھاڑ لشکر یک تھی اور اس لشکر کے مقابلہ میں ادھر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کل دوہی شخص تھے لیکن حضرت موسیٰ ہی اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے موافق ہیمشہ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر ایسے غالب رہے کہ فرعون اور اس کے ساتھ عاجز آگئے اور باوجود اس قدر لاؤ لشکر کے دو آدمیوں کا مقابلہ نہ کرسکے پہلے برسر میدان جادو گروں نے مقابلہ کیا وہ عاجز ہو کر مسلمان ہوگئے پھر قحط پڑا تو ایسا ہی کہ جنگل میں تمام کھیت اور شہر میں تما باغ خشک ہوگئے پھر آٹھ روز تک مینہ بر ساتو ایسا ہی برسا کہ بنی اسرائیل کو کچھ صدمہ نہ پہنچا اور قبطیوں کی زراعت ان کے باغ مکانوں کی چھتیں بدن کے کپڑے اور گھر کا سب سامان ٹڈیوں نے کھا کر برابر کردیا پھر جچڑیوں کا وبال ایسا ہی آیا جس سے ہر ایک قبطی زیست سے بےزار ہوگیا پھر مینڈکوں کا وبال ایسا ہی آیا کہ کھانے پینے میں جہاں دیکھوں وہاں مینڈک تھے یہاں تک کہ پکتی ہنڈیا اور گرم تنور سب میں مینڈک ہی بینڈک تھے پھر خون کا عذاب ایسا ہی آیا تمام پینے کا پانی یہاں تک کہ نیل دریاسب خون ہی خون ہوگیا غرض سورة اعراف میں ان و بالوں کی تفصیل گذر چکی ہے کہ جادو گروں کے مسلمان ہونے کے زمانہ سے فرعون کے غرق ہونے کے زمانہ تک چالیس برس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد میں غیب سے یہی آنتیں فرعون پر آئیں اور اس کے ساتھیوں نے رسول وقت کی فرما نبر داری قبول نہ کی تو آخر کو ایک دم غرق ہو کر سب ہلاک ہوگئے حاصل کلام یہ ہے کہ مدد غیبی کے سبب سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کو اور ان کے طفیل سے نبی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ساتھیوں پر جو کچھ غلبہ رہا ہے اس غلبہ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس وقت فرمایا ہے جب مدین سے مصر آتے وقت حضرت موسیٰ کو نبوت ملی ہے اس وعدہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے اسی طرح کتب اللہ لاغلبن و رسلی کے موافق ہر رسول سے اللہ تعالیٰ کی مدد غیبی کا وعدہ ہے اور اس وعدے کا یہ ظہور ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک جو صاحب شریعت نبی ہیں۔ آخر کو ان کا ہی غلبہ رہا اور ان کے مخالف طرح طرح کے و بالوں سے ہلاک ہوگئے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے مدد غیبی کا وعدہ فرمایا ہے اسی طرح سچے دل سے جو لوگ اللہ کے رسولوں کے فرما نبر دار ہیں ان کی مدد کا بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے چناچہ سورة غافر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انا لننصر رسلنا والذین آمنو فی الحیوٰۃ الدنیا ویوم یقوم الا شھاد مطلب یہ ہے کہ رسولوں اور ایمانداروں کو دنیا اور عقبیٰ میں مدد دینے کا اللہ کا وعدہ ہے امتحان کے طور پر اللہ کے رسولوں کے سچے فرما نبرداروں کو مخالفوں کے ہاتھ سے کچھ تکلیف پہنچ گئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق پھر مخالفوں سے پورا بدلہ لیا ہے حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حسین (رض) شہید کے بدلہ میں ہزا رہا آدمی قتل ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے جیسی تکلیف دی اللہ تعالیٰ نے اہل روم کو پھر ان پر مسلط کیا اور ویساہی ان سے بدلہ لیا مکہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف کے درپے جو لوگ تھے جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھیج کر کیا کچھ ان کو ذلیل کیا یہ سب کچھ تو دنیا کی مدد غیبی کا ذکر ہوا جو لوگ اللہ کے عہد پر پورے قائم رہیں گے اور اللہ کے رسولوں کی پوری فرمانبرداری کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مدد آخرت کا جو ان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ایک نیکی کا دس سے لے کر سات سو تک بدلہ اور بہت سے گناہوں سے درگزر کرے گا اس اپنے وعدے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ضرور پورا فرمائے گا اوفو بعھدی اوف بعھد کم پر ہر مسلمان کو پورا ایمان رکھنا چاہیے اور اپنی عہد کو خالص دل سے پورا کرنا چاہیے ‘ پھر اللہ کے عہد کا اپنے وقت پر ضرور ظہور ہونے والا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ١ ؎ سے معاذبن جبل (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ لوگ خالص دل سے اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اور اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ ان کو اپنے عذاب سے بچادے یہ حدیث اور بندوں کے عہد اور اس کہ پورا ہونے کی گویا تفسیر ہے (١ ؎ مشکوۃ کتاب الایمان )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:35) سنشد۔ س مستقبل قریب کے لئے ہے نشد۔ مضارع جمع متکلم شد مصدر (باب نصر) ہم مضبوط کردیں گے۔ شدۃ مضبوطی۔ قوت جو کسی چیز میں ہو مثلاً گرہ کی مضبوطی ۔ بدن کی قوت۔ گرمی کی شدت۔ عذاب کی سختی وغیرہ۔ سلطانا۔ قوت، غلبہ، شوکت، سند، حجت، برہان، حکومت۔ لایصلون۔ مضارع منفی۔ جمع مذکر غائب وصل (باب ضرب) وہ تمہیں پہنچیں گے ای لایصلون الیکما باستیلاء او محاجۃ۔ یعنی نہ وہ تم پر غلبہ پاسکیں گے اور نہ تمہارے خلاف مباحثے میں فوقیت حاصل کرسکیں گے۔ بایتنا۔ متعلق بمحذوف ای اذھبا بایتنا تم دونوں ہمارے نشانوں کے ساتھ (فرعون اور اس کی قوم کے پاس) جاؤ۔ (تم اور تمہارے پیروکار غالب رہیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں درخواستیں منظور فرما لیں اور فرمایا تیرے بھائی کو تیرا معاون بھی بنا دوں گا اور تمہیں ایسا غلبگہ دوں گا کہ وہ تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے اور تمہیں ایسا رعب عطا کردوں گا کہ وہ مارے خوف وہیبت کے برے ارادے سے تمہارے قریب بھی نہ آسکیں گے۔ بایاتنا کا متعلق محذوف ہے ای اذھبا بایاتنا، یا نجعل یا سلطانا، یا لا یصلون کے متعلق ہے، یا یہ ظرف الغالبون کے متعلق ہے اور ظرف کی تقدیم رعایت فاصلہ یا حصر کے لیے ہے (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35۔ حضرت حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کی وجہ سے ابھی مضبوط کردیں گے اور ہم تم دونوں کو ایک ایسی ہیبت اور غلبہ عطا کردیں گے اور تم کو ایسی شوکت دیں گے کہ وہ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ، ہماری نشانیاں لیکر جائو تم دونوں اور جو تم دونوں کے متبع اور پیرو ہوں وہ سب غالب رہنے والے ہو ۔ باتینا کا ترجمہ اپنے اکابر نے دو طرح کیا ہے ہم نے ایک طریقہ اختیار کرلیا ہے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم کو ایذا پہنچا نے کی غرض سے تم تک نہ پہنچ سکیں گے ہم نے صاحب روح کے قول کو اختیار کیا ہے اور فاذھباباتینا کی آیت کو ملحوظ رکھا ہے ، خلاصہ یہ کہ تمہاری دونوں درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ ہارون (علیہ السلام) کی ہمراہی بھی منظور اور وہ تم کو ایذا نہ پہنچائیں گے ایذا رسانی کے اندیشے سے بھی بےخوف فرما دیا تم دونوں کو اور جو تم دونوں کی پیروی کرے گا ان کو بھی غلبہ حاصل رہے گا ۔