Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 4

سورة القصص

اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۴﴾

Indeed, Pharaoh exalted himself in the land and made its people into factions, oppressing a sector among them, slaughtering their [newborn] sons and keeping their females alive. Indeed, he was of the corrupters.

یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَ فِي الاَْرْضِ ... Verily, Fir`awn exalted himself in the land, means, he was an arrogant oppressor and tyrant. ... وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا ... and made its people Shiya`, means, he made them into different classes, each of which he used to do whatever he wanted of the affairs of his state. ... يَسْتَضْعِفُ طَايِفَةً مِّنْهُمْ ... weakening a group among them. This refers to the Children of Israel, who at that time were the best of people, even though this tyrant king overpowered them, using them to do the most menial work and forcing them to hard labor night and day for him and his people. ... يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ weakening a group among them: killing their sons, and letting their females live. Verily, he was of the mischief-makers. At the same time, he was killing their sons and letting their daughters live, to humiliate them and because he feared that there might appear among them the boy who would be the cause of his destruction and the downfall of his kingdom. So Fir`awn took precautions against that happening, by ordering that all boys born to the Children of Israel should be killed, but this precaution did not protect him against the divine decree, because when the term of Allah comes, it cannot be delayed, and for each and every matter there is a decree from Allah. Allah says: وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الاَْرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَيِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔ 42جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔ 43اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ 44جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کردیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقینا ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ خوشحبری منتقل ہوتی چلی آرہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جسکے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کردیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کردیا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی فرعون نے سر اٹھا رکھا تھا۔ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا تھا، لوگوں پر ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھنے لگا تھا۔ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر مکمل خود مختاری کے مقام تک لے گیا تھا اور سخت باغیانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ بعد میں فرعون کا لفظ لغوی لحاظ سے متکبر، سرکش اور متمرد کے معنوی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ [٥] اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور مستحکم بنائے رکھنے کے سلسلہ میں اس کی سیاسی پالیسی یہ تھی کہ اس نے اپنی رعایا میں طبقاتی تقسیم پیدا کردی تھی۔ ایک تو اس کی اپنی قوم یا مصر کے قدیم باشندے تھے جنہیں قبطی کہتے ہیں اور یہ معزز طبقہ تھا۔ سرکاری مناصب بھی انھیں ہی مل سکتے تھے اور حکمران قوم ہونے کے ناطے سے ان کے حقوق کی ضرورت سے بھی زیادہ نگہداشت کی جاتی تھی۔ دوسرے بنی اسرائیل تھے۔ جو حضرت یوسف کے زمانہ یعنی تقریباً چار سو سال سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت وہ حکمران قوم کی حیثیت سے آئے تھے لیکن ایک صدی بعد ہی ان میں جب بےدینی اور اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ تو اللہ نے ان سے حکومت چھین لی اور مصری لوگ پر سے قابض ہوگئے۔ انہوں نے ان بنی اسرائیل سے انتقاماً اچھوتوں اور شودروں کا سا سلوک روارکھا ہوا تھا۔ معاشرہ میں ان کی کچھ عزت نہ تھی۔ کوئی سرکاری عہدہ انھیں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ لوگ عموماً حکمران قوم کے افراد کے غلام، ملازم اور ان کی عورتیں بھی ان کے گھروں کا کام کاج کرتی تھیں۔ اس طرح فرعون نے عملاً ان لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ [٦] مصر کی قومیت پرستی کی تحریک تو مدتوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اسی کے نتیجہ میں بنی اسرائیل (یعنی قبطیوں) سے ایسا ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم فرعون رعمیس نے اس کے لئے انتہائی قدم یہ اٹھایا کہ آئندہ سے بنی اسرائیل کی ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ لڑکیاں یا عورتیں تو از خود قبطیوں یا آل فرعون کے قبضہ میں آجائیں گی اور اس طرح کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر مصریوں میں مدغم ہوجائے گی۔ چناچہ فرعون کے اس حکم کی تعمیل کے لئے جاسوس قسم کی عورتیں مقرر کی گئی تھیں۔ جو بنی اسرائیل کے ہاں نوازائیدہ بچوں کی رپورٹ حکومت کو پیش کیا کرتی تھیں۔ اور یہ محض احتیاطی تدبیر تھی ورنہ بنی اسرائیل کے لئے آرڈر یہی تھا کہ وہ نوزائیدہ لڑکے کی اطلاع حکومت کو فراہم کریں اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے۔ بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ فرعون کو ایک پریشان کن خواب آیا تھا جس کی نجومیوں نے اسے تعبیر یہ بتلائی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوجائے گی اور فرعون نے اسی خطرہ کے سد باب کے لئے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کا یہ اقدام سراسر حماقت اور استبداد تھا۔ کیونکہ اگر نجومیوں کی یہ تعبیر درست تھی تو یہ کام ہو کے رہنا چاہئے تھا اور وہ ہو کے رہا۔ خواب یا اس کی تعبیر میں یہ اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ اگر فرعون اس خطرہ کا کوئی سدباب سوچ لے تو بچ سکے گاـ۔ اور اگر یہ تعبیر غلط تھی تو پھر ویسے ہی یہ ایک سفاکانہ حرکت تھی۔ بہرحال دونوں صورتوں میں اس کا یہ اقدام ظالمانہ اور وحشیانہ قسم کا تھا۔ اور جہاں اس واقعہ خواب یا اس کی تعبیر کا تعلق ہے، اس کی صحت اور عدم صحت کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اور یہ صورت نہ بھی ہوتی تو قومیت پرستی کی بنیاد پر حالات ایسے پیدا ہوچکے تھ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دینے کے لئے یہی اقدام مناسب سمجھا۔ اور ابن کثیر اس خواب اور اس کی تعبیر کے واقعہ کی صورت حال یہ بتلاتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ ایک اسرائیل نوجوان کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہوگی۔ رفتہ رفتہ یہ بات فرعون کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس احمق نے قضا و قدر کی روک تھام کے لئے یہ سفاکانہ اسکیم جاری کی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ : ” الْاَرْضِ “ سے مراد سرزمین مصر ہے، جس کا قرینہ فرعون کا ذکر ہے، کیونکہ اس کی حکومت صرف مصر میں تھی۔ جو لوگ اسے پوری زمین کا بادشاہ سمجھتے ہیں ان کی بات درست نہیں، کیونکہ ہجرت کے بعد مصر کے قریب ہی مدین پہنچنے پر موسیٰ (علیہ السلام) اس کی گرفت سے آزاد تھے۔ ” عَلَا “ کا لفظی معنی ہے ” اس نے سر اٹھایا، اونچا بن گیا “ یعنی اپنے اصل مقام بندگی سے اونچا ہو کر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور اپنی حقیقت کو بھول گیا۔ ” فِي الْاَرْضِ “ کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بلندی اور کبریائی تو اس ذات کا لباس ہے جو عرش پر بلند ہے، زمین پر رہنے والے کا حق تو عرش والے کے سامنے پستی اور عاجزی ہے، نہ کہ سرکشی کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کو ذلیل و خوار کرنا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا۔ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا : یعنی اس نے سر زمین مصر کے باشندوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ واضح رہے کہ فرعون کے زمانے کی تہذیب اور ان کے عقائد بہت حد تک ہندوؤں کی تہذیب اور عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ ہندو بھی چار طبقوں میں تقسیم ہیں، برہمن، کھتری، ویش اور شودر۔ جن میں برہمنوں کو سب پر بالادست رکھا گیا ہے اور شودر کو انسانیت کی حد سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے۔ مصری تہذیب بھی بادشاہ کی خدائی کے ساتھ گائے کی پجاری تھی، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے۔ فرعون مصر نے بھی مصر کے رہنے والوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا اور ان سب کو آپس میں دست و گریبان کر رکھا تھا اور مختلف قسم کی مراعات دے کر یا ان پر ظلم و ستم کر کے انھیں اتنا بےوقعت اور بےبس بنا رکھا تھا کہ وہ کسی بات میں اس سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اس کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کو بھی مان لیا۔ (دیکھیے زخرف : ٥١ تا ٥٤) آج کل بھی ملکوں اور قوموں کو محکوم رکھنے کے لیے بڑی طاقتوں کا یہی طریقہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ : ” أَضْعَفَ یُضْعِفُ “ (افعال) کا معنی کمزور کرنا ہے اور استفعال میں حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی وہ ان میں سے ایک گروہ کو بہت زیادہ ہی کمزور کر رہا تھا۔ مراد اس سے بنی اسرائیل ہیں، جو یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر آئے تھے اور مدت تک نہایت شان و شوکت اور عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، پھر اللہ کی نافرمانی اور اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مصر کے اصل باشندوں کو جو قبطی تھے، ان پر مسلط کردیا اور اس فرعون نے تو انھیں کمزور اور بےبس کرنے کی انتہا کردی۔ اس نے ایسا بندوبست کیا کہ قبطی آقا بن کر رہیں اور بنی اسرائیل غلام اور خدمت گار بن کر۔ چناچہ مشقت کا ہر کام زبردستی ان سے لیا جاتا، مثلاً کھیتی باڑی، عمارتیں بنانے اور نہریں وغیرہ کھودنے کا کام اور گھروں میں خدمت کا کام ان کی عورتوں سے لیا جاتا۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ذبح کرکے عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رکھا جاتا۔ يُذَ بِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ : اس حکم کی وجہ اور ذبح کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٤٩) ۔ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ : ” إِنَّ “ عموماً اپنے سے پہلے والے کلام کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اس کے اس ظلم اور سرکشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا کام ہی فساد اور جن کی پہچان ہی مفسدین کے نام سے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ٤ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔ اسْتَضْعَفْ واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص/ 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) ذبح أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة/ 67] ، وذَبَحْتُ الفارة شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح . ( ذ ب ح ) الذبح ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة/ 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة/ 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، أي : يستبقونهنّ ، نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) غرض کہ فرعون سرزمین مصر میں بہت بڑھ چڑھ گیا تھا اور اس نے ان کے باشندوں کی مختلف جماعتیں بنا رکھی تھیں۔ ان جماعتوں میں سے بنی اسرائیل زور کم کردیا تھا، اس طرح کہ انکے بیٹوں کو ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں سے خدمت لیتا تھا، واقعی وہ بڑا فساد پھیلانے والا، کفر وشرک اور قتل و غارت گری میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا) ” فرعون نے مصر کے عوام کو دو طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک طبقہ حاکم تھا اور دوسرا محکوم۔ یعنی قبطی قوم حاکم تھی جبکہ بنی اسرائیل ان کے محکوم تھے۔ (یَّسْتَضْعِفُ طَآءِفَۃً مِّنْہُمْ ) ” بنی اسرائیل کو اس نے محکومی اور غلامی کے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور ان پر وہ بہت سختی کا برتاؤ کرتا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The words ala fil-ard in the Text are comprehensive and mean that he adopted a rebellious attitude in the land, assumed independence and godhead and superiority instead of behaving like a servant and a subordinate, and started oppressing his subjects like a tyrannical and haughty ruler. 4 That is, "He did not rule his subjects with an even hand giving equal rights to all of them, but he had adopted the polity of dividing them into groups. He bestowed privileges and preferential rights on some to be made the ruling class and reduced others to serfs to be oppressed and exploited." Here, nobody should have the doubt that an Islamic government also discriminates between its Muslim and dhimmi subjects, and does not allow them equal rights and privileges in every way This doubt is misplaced because this distinction, contrary to Pharaonic discrimination, is not based on any distinction owing to race, colour, language or class, but on the distinction of ideology and way of life. In the Islamic system there is absolutely no difference between the legal rights of the Muslims and the dhimmis. The only difference is in their political rights, for the simple reason that in an ideological state the ruling class can only be the one which believes in its basic ideology. Every person who accepts this ideology can enter that class, and anyone who rejects it quits it. Thus, there can be no element of resemblance between this discrimination and the Pharaonic discrimination according to which no member of the oppressed race can ever enter the ruling class, under which the people of the oppressed race do not even enjoy the basic human rights, not to speak of their political and economic rights; so much so that they are even deprived of their right to live and survive, and denied security of any right whatever, all special privileges and benefits and high of offices and good things of life being reserved for the ruling class and for every such person who happens to have been born in it. 5 The Bible elucidates this as follows: "Now there arose up a new king over Egypt, which knew not Joseph. And he said unto his people, Behold, the people of the children of Israel are more and mightier than we: Come on, let us deal wisely with them: lest they multiply, and it come to pass, that, when there falleth out any war, they join also unto our enemies, and fight against us, and so get them up out of the land. Therefore they did set over them task masters to afflict them with their burdens. And they built for Pharaoh treasure cities, Pithom and Ra`amses ....And the Egyptians trade the children of Israel to serve with rigour; And they made their lives bitter with hard bondage, in mortar, and in brick, and in all manner of service in the field: all their service, wherein they made them serve, was with rigour .... And the king of Egypt spake to the Hebrew midwives .... And he said, When ye do the office of a midwife to Hebrew women, and see them upon the stools; if it be a son, then ye shall kill him: but if it be a daughter, then she shall live." (Exod. 1: 8-16). This shows that after the passing away of the Prophet Joseph a nationalist revolution took place in Egypt, and when the Copts regained power the new nationalist government employed every means to subdue the Israelites. They did not _ only humiliate and disgrace them and took mean services from them, but, over and above this, they adopted the policy of reducing their population, by killing their sons and allowing their daughters to live so that their women should gradually pass into the Copts' hands and produce the Coptic instead of the Israelite race. The Talmud adds that this revolution had taken place a little over a hundred years after the death of the Prophet Joseph. According to it, the new government, in the first instance, deprived the Israelites of their fertile lands and houses and possessions, and then removed them from the government jobs and offices. Even after this whenever the Coptic rulers felt that the Israelites and their Egyptian coreligionists were becoming formidable they would disgrace them and employ them in rigorous jobs on little or no wages at all. This is the explanation of the Qur'anic verse: "He debased a section of the Egyptian population", and of verse 49 of AlBaqarah: "They had inflicted a dreadful torment on you. " However, neither the Bible nor the Qur'an mentions that the Pharaoh was told by an astrologer that a boy would be born among the Israelites, who would become a cause of his deposition from power and to meet this danger he had issued orders to kill the male children born in the Israelite homes, or that Pharaoh himself had seen a dreadful dream and the explanation given was that a son would be born among the Israelites, who would cause his downfall. Our commentators have taken this °`legend from the Talmud and other Israelite traditions. (See Jewish Encyclopedia, under ;"Moses", and The Talmud Selections, pp. 123-24).

سورة القصص حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ علا فی الارض استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں سر اٹھایا ، باغیانہ روش اختیار کی ، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کے مقام سے اٹھ کر خود مختاری اور خداوندی کا روپ دھار لیا ، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالادست بن بیٹھا ، اور جبار و متکبر بن کر ظلم ڈھانے لگا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 4 یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں ، بلکہ اس نے تمدن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشنوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے ، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھہرایا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر یا دبایا اور پیسا اور لوٹا جائے ۔ یہاں کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی ۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے برعکس نسل ، رنگ ، زبان ، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے ، اسلامی نظام حکومت میں ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعا کوئی فرق نہیں ہے ، تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے ، اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو ، اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہوجائے ۔ آخر اس تفریق میں اور اس فرعونی طرز تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا ، جس میں محکوم نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے ، حتی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے ، جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ، تمام فوائد منافع اور حسنات و درجات صرف حکمران قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہوجائے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 5 بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے : تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا ، اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہوگئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوجائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں ۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخٹ کام لے کر انہیں ستائیں ۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتوم اور غمیس بنائے ۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کرایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قسم کی خدمت لیکر ان کی زندگی تلخ کی ، ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں ۔ تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائیوں سے باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی ( یعنی اسرائیلی ) عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔ ( خروج ، باب1 ۔ آیت 8 ۔ 16 ) اس سے معلوم ہوا کہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا اور انہیں ادنی درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کرلیا جاتا ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائین اور ان سے اسرائیلی کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا ۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ان کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا ۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناصب سے بے دخل کیا ، اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ لینے لگے ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اور سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کے اس ارشاد کی کہ آل فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے ۔ ( يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ) مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا پیدا ہونے والا ہے ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے ( ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلوپیڈیا مضمون موسی اور ( The Talmud Selections Page 124. 23 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۃ طٰہٰ :36 کے حاشیے میں ہم نے عرض کیا ہے، فرعون کو کسی نجومی نے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تمہاری سلطنت ختم کرے گا، اس لیے اس نے یہ حکم جاری کردیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ کو فکر ہوئی کہ ان کو بھی فرعون کے آدمی قتل کر ڈالیں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر الہام فرمایا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا اور فرعون کے کارندوں نے بچے کو اٹھا کر فرعون کے پاس پیش کیا، اور اس کی بیوی حضرت آسیہ نے اسے آمادہ کرلیا کہ اسے اپنا بیٹا بنا کر پالیں۔ یہی واقعہ آگے آیت نمبر 6 تا 8 میں بیان فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:4) علا۔ ماضی واحد مذکر غائب علو مصدر (باب نصر) وہ غالب آیا ۔ وہ چڑھ گیا۔ اس نے چڑھائی کی۔ العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ۔ سفل کی ضد ہے۔ علا فی الارض اس نے ملک مصر میں سر اٹھا رکھا تھا۔ بعض نے علا کے معنی تجبر و تکبر کے لئے ہیں یعنی جبر و تکبر میں بڑھا ہوا تھا۔ اور ظلم ۔ عدوان میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔ شیعا۔ شیعۃ کی جمع ہے بحالت نصب ۔ فرقے ۔ گروہ۔ وجعل اہلہا سیعا اور اس ملک الارض کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا۔ (مختلف مقاصد کے لئے) یستضعف۔ مضارع واحد مذکر غائب (بمعنی ماضی استعمال ہوا ہے) استضعاف (استفعال) مصدر۔ ضعف مادہ۔ اس نے کمزور کر رکھا تھا۔ طائقۃ۔ گروہ، جماعت ، یہاں مراد بنی اسرائیل ہیں ۔ یذبح ابناء ہم ویستحی نساء ہم۔ یہ تو جملہ سابقہ کا بدل ہے یا یستضعف کی ضمیر سے حال ہے۔ مضارع حال بمعنی ماضی مستعمل ہے۔ یذبح ابناء ہم : یذبح مضارع واحد مذکر غائب تذبیح (تفعیل) مصدر وہ ذبح کردیتا تھا۔ ضمیر فاعل فرعون کی طرف راجع ہے۔ یستحی مضارع واحد مذکر غائب استحیاء (استفعال) مصدر وہ زندہ رہنے دیتا تھا۔ ضمیر فاعل کا مرجع فرعون ہے۔ اس باب سے بمعنی شرم کرتا ہے۔ وہ جھجکتا ہے۔ بھی آیا ہے مثلاً ان ذلکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم (33:53) یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی تھی اور وہ تم سے (چلے جانے کے لئے کہنے سے) شرم کرتے تھے۔ اور فجاء تہ احدھما تمشی علی استحیاء (28:25) (کچھ دیر بعد ان دونوں میں سے) ایک خاتون شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب طائفۃ کی طرف راجع ہے۔ جمع کا صیغہ طائفۃ میں تعداد افراد کی رعایت سے آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ مصر میں ” قبطی “ بھی آباد تھے، جو فرعون کی اپنی قوم تھی اور ” بنی اسرائیل “ بھی۔ فرعون نے اپنی پالیسی یہ رکھی کہ قبطی آقا بن کر رہیں اور بنی اسرائیل غلام اور خدمتگار بن کر۔ 4 ۔ کیونکہ اس نے خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں وقت کے نجومیوں نے انہیں بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری بادشاہی چھین لے گا۔ (دیکھئے سورة بقرہ :49)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس طرح کہ قبطیوں کو معزز بنا رکھا تھا اور سبطیوں یعنی بنی اسرائیل کو پست اور خوار کر رکھا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ فرعون اس کے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں برسراقتدار آئے اور مدت دراز تک انہیں اقتدار اور اختیار حاصل رہا لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ مصر میں انھیں حقیر ترین شہری بنا دیا گیا۔ وہ مدّت تک فرعون کے مظالم سہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بےمثال جدوجہد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے لیے شام اور فلسطین کی فتح کا دروازہ کھول دیا گیا۔ جس سر زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ نے برکات وثمرات کے خزانے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے فرمائے اور انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ فرعون اور اس کی قوم جو کچھ کرتی تھی اسے نیست ونابود کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا وارث اور خلیفہ بناتا ہے : ١۔ اللہ چاہے تو تمہیں اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے خلیفہ بنائے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ تمہارا رب جلد ہی تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٣۔ ” اللہ “ ہی اقتدار اور اختیار دینے والا ہے۔ ( آل عمران : ٢٦) ٤۔” اللہ “ ہی ذلّت اور عزت دینے والا۔ ( البقرۃ : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ونری فرعون ۔۔۔۔۔ کانوا یحذرون (28: 6) ”“۔ جس طرح پورے قرآن میں قرآن کریم کا انداز بیان قصص ہوتا ہے ۔ قصہ فرعون و کلیم کو بھی یہاں مناظر کی شکل میں لایا گیا ہے۔ ان مناظر کے درمیان ان کڑیوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ جن کو انسان کی قوت متحیلہ خود بخود نظروں کے سامنے لے آتی ہے ، لہٰذا دو مناظر کے درمیان جو کڑیاں ترک کردی جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں انسان لاعلم نہیں رہتا ، بلکہ انسان کی قوت متحیلہ پر دہ خیال پر ان واقعات کو لے آتی ہے۔ یوں ظاہری اسکرین کے ساتھ ساتھ پردہ خیال پر بھی مناظر آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اس قصے کا پہلا حصہ پانچ مناظر ، دوسرا نو مناظر ، تیسرا حصہ چار مناظر پر مشتمل ہے۔ اور ان مناظر اور ٹکڑوں کے درمیان ایک خلا ہے ، کہیں یہ گیپ بڑا ہے اور کہیں چھوٹا ہے۔ جس طرح پردہ گرتا ہے اور منظر آنکھوں سے غائب ہوجاتا ہے اور خیال کی اسکرین پر مناظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ قصہ کے آغاز سے بھی پہلے اس فضا کی تصویر کشی کی جاتی ہے جس کے اندر واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ وہ حالات جن میں یہ قصہ واقع ہوا اور وہ مقاصد جن کے لیے دست قدرت نے یہ واقعات رونما کئے اور پھر وہ مقاصد جن کے لئے یہاں اس قصے کو دہرایا جا رہا ہے۔ یہ بھی قرآن کا ایک اسلوب ہے جو وہ قصہ پیش کرتے وقت اختیار کرتا ہے۔ ان فرعون علا فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔ ما کانوا یحذرون (4 – 6) واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہیں کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا “۔ یہ ہے وہ اسٹیج جس پر یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس ماحول کو وہ ذات بیان کر رہی ہے جو ان واقعات کو رونما کرا رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیتی ہے کہ ہم نے کیوں ایسا کیا اور یہ بھی صراحت کی کہ یہ ہم ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ اور اس لیے کر رہے ہیں۔ ” واقعات۔ قصہ “ کے آغاز ہی میں صاف صاف بنا دیا جاتا ہے ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ قصے کا ہدف واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ چناچہ اس عجیب انداز میں یہاں اس قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انداز اس کتاب کے عجائبات میں سے ہے۔ یہاں فراعنہ مصر میں سے اس فرعون کا نام نہیں لیا جاتا جس کے عہد میں یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ واقعات کا خالص تاریخی پہلو متعین کرنا مقاصد قرآن میں سے نہیں ہے۔ نہ اس سے اس علم و حکمت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے جو قرآن کریم اہل ایمان کو سکھانا چاہتا ہے۔ یہ کافی ہے کہ حضرت یوسف کے زمانہ مصر کے بعد یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں کی مصر منتقلی کے ساتھ بنی اسرائیل کی مصر منتقلی شروع ہوئی اور یہاں وہ پھلے پھولے۔ حضرت یوسف کے دور کے بعد سرکش فرعون نے مصر کا اقتدار اعلیٰ حاصل کیا۔ یہ بڑا جبار وقہار تھا۔ اس نے مصر میں طبقاتی نظام جاری کردیا تھا۔ ہر طبقے کے فرائض متعین کر دئیے تھے اور بنی اسرائیل پر اس دور میں بےحد مظالم ہو رہے تھے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے عقائد و نظریات مصریوں کے عقائد و نظریات سے بالکل جدا تھے۔ بنی اسرائیل اپنے دادا حضرت ابراہیم کے دین پر تھے۔ اگرچہ ان کے عقائد میں تغیر و انحراف واقع ہوگیا تھا لیکن دین کا بنیادی ڈھانچہ وہی تھا۔ وہ عقیدہ توحید کے قائل تھے۔ فرعون کی الوہیت کے منکر تھے۔ اس طرح فراعنہ جن بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ بنی اسرائیل ان کے قائل نہ تھے۔ فرعون کو یہ خوف لاحق تھا کہ بنی اسرائیل مصر میں ، اپنے خیالات کی وجہ سے اس کے تاج و تخت کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ مصر سے ان کو یکلخت نکال بھی نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے نیز اس صورت میں فرعون کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر اس قدر عظیم آبادی کو یکبارگی مصر سے نکال دیا جائے تو وہ دشمن مجاور اقوام سے مل کر مصر پر حملہ آر ہوجائیں گے ۔ اس لیے اس نے اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہایت ہی وحشیانہ طریقہ نکالا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یہ لوگ نہ فرعون کو مانتے ہیں اور نہ اس کی خدائی کے قائل ہیں ، اس لیے اس نے اس قوم کو سخت ترین مشقت کے سپرد کردیا ، ان کو ہر طرح ذلیل کرکے رکھا ، اور ان پر قسم قسم کے مصائب ڈھانے لگا۔ آخر کار اس نے یہ انتہائی فیصلہ کیا کہ ان کے تمام پیدا ہونے والے لڑکوں کو ذبح کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ بالکل ختم ہوجائے۔ مرد زیادہ نہ ہوں اس طرح کی عورتوں کی کثرت اور مردوں کی کمی کی وجہ سے ان کی قوت ٹوٹ جائے گی اور یہ لوگ اس سخت عذاب اور ظلم کی وجہ سے دبا کر بھی رکھے جاسکیں گے۔ روایات میں آتا ہے کہ اس نے تمام حاملہ عورتوں کے لیے دائیاں مقرر کر رکھی تھیں جو ہر پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں فوراً رپورٹ کرتی تھیں اور اور بچے کو فوراً ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔ اور اس سنگدلانہ منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی رو رعایت نہ برتی جاتی تھی۔ فرعون کا یہ اس قدر ظالمانہ منصوبہ تھا کہ بےگناہ بچوں کو یوں ذبح کرنے کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں حضرت موسیٰ کا قصہ یوں ان کی ولادت سے شروع ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ان فرعون علا ۔۔۔۔۔۔ من المفسدین (28: 4) ” واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ۔ اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا “۔ لیکن اللہ کا ارادہ اور منصوبہ فرعون کے منصوبے سے مختلف تھا۔ اللہ کا فیصلہ سرکش فرعون کے فیصلے سے جدا تھا۔ ہمیشہ یوں ہوتا ہے کہ ظالم اور سرکش اپنی قوت اور تدابیر پر مست ہوتے ہیں ، وہ اللہ کے فیصلوں اور قدرتوں کو بھلا دیتے ہیں۔ وہ یوں سوچتے ہیں کہ یہ لوگ جو سوچیں گے نتائج ویسے ہی ہوں گے۔ یہ لوگ اپنے دشمنوں کے لیے ان کا انجام خود متعین کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ حالات کے نتائج ان کے اندازوں کے مطابق ہی ہوں گے۔ اللہ یہاں اپنے ارادے کا اعلان کرتا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں ہماری تقدیر یہ ہے۔ یہاں فرعون ، ہامان اور ان کے لشکروں کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ تم جو تدابیر اختیار کر رہے ہو وہ تمہارے لیے مفید مطلب نہ ہوں گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرعون کی سرکشی اور بنی اسرائیل پر مظالم کا تذکرہ ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں پھر فرمایا کہ آپ کو موسیٰ اور فرعون کی بعض خبروں کو حق کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک آپ کو سناتے ہیں آپ کے واسطہ سے یہ خبریں اہل ایمان کو پہنچیں گی اور وہ ان سے عبرت حاصل کریں گے۔ پھر فرمایا کہ فرعون زمین میں یعنی سر زمین مصر میں حکومت اور اقتدار کے اعتبار سے بڑھ چڑھ گیا تھا۔ اس نے وہاں کے رہنے والوں کو کئی جماعتوں میں تقسیم کر رکھا تھا انہیں جماعتوں میں سے ایک جماعت بنی اسرائیل کی تھی ان کو اس نے ضعیف بنا رکھا تھا اور ان کے ضعف اور مجبوری کا یہ عالم تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ اتنی مظلومیت ہوتے ہوئے بنی اسرائیل اف نہیں کرسکتے تھے۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں لکھا جا چکا ہے کہ نجومیوں نے فرعون کو خبر دی تھی کہ تیری حکومت کا زوال بنی اسرائیل کے ایک لڑکے کے ہاتھوں ہوگا۔ لہٰذا اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہوتا تھا اسے ذبح کردیتا تھا اور لڑکیوں سے کیونکہ کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے انہیں زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ (اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (بلاشبہ وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا) (وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ ) (الآیتین) سارے بندے اللہ تعالیٰ ہی کے مخلوق ہیں۔ سب کی عزت اور ذلت، بلندی اور پستی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ جو لوگ سرزمین مصر میں ضعیف اور ذلیل بنائے ہوئے ہیں ان پر احسان فرمائے اور انہیں آنے والی نسلوں کے لیے پیشوا بنا دے اور انہیں زمین میں حکومت بھی عطا فرمائے۔ اور فرعون اس کا وزیر ہامان اور ان دونوں کے لشکر والے جن خطرات کا ان ضعیف لوگوں کی طرف سے خوف رکھتے تھے وہ خطرات واقعہ بن کر ان کے سامنے آجائیں چناچہ فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوئے اور ہلاکت اور زوال سلطنت کا جو انہیں اندیشہ تھا کہ بنی اسرائیل اس کا ذریعہ بن جائیں، آخر وہ واقعہ کی صورت میں سامنے آگیا اور بنی اسرائیل کے ذریعہ کو قتل کر کے جو اس کی پیش بندی کی تھی اس کا اسے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ فرعون ارض مصر میں سرکش ہوگیا ہے اور ظلم وعدوان کی انتہا کو پہنچ گیا۔ وجعل اھلہا شیعا الخ، مصر کے لوگوں کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیا اور ان سے مختلف قسم کی شدید اور شاق خدمات لیتا تھا یا مطلب یہ ہے کہ رعیت کو مختلف فرقوں میں پارہ پارہ کردیا اور ان کے درمیان بغض و عداوت کا بیج بو دیا تاکہ وہ متفق نہ ہوسکیں اور آپس کے اختلافات میں لگے رہیں اور اس کے نیک وبد کاموں پر کسی کو نقد و تبصرہ کا موقع ہی نہ ملے۔ انگریزوں کی بعینہ یہی پالیسی تھی بلکہ ہر ظالم اور جابر حکمران یہی پالیسی اختیار کرتا ہے۔ اصنافا فی است خدا مہ لیستعمل کل صنف فی عمل من بناء و حرث و حفر وغیر ذلک من الاعمال الشاقۃ او فرقا مکتلفۃ قد اغری بینھم العداوۃ والبغضاء لئلا تتفق کلمتھم (روح ج 20 ص 43) ۔ 5:۔ طائفۃ، سے بنی اسرائیل مراد ہیں جو عرصہ دراز تک قوم فرعون کے ہاتھوں مصائب میں مبتلا رہے اس جماعت کو اس نے بالکل ضعیف بےبس اور مغلوب کر رکھا تھا اور ان کو ہر نوع ستم کا نشانہ بنایا تھا۔ یذبح ابناء ھم، یہ ماقبل کی تفسیر ہے یا، یستضعف، کی ضمیر سے حال ہے۔ یذبح تبیین للاستضاعف و تفسیرہ او فی موضع الحال من ضمیر یستضعف الخ (بحر ج 7 ص 104) ۔ فرعون بنی اسرائیل کے گھروں میں پیدا ہونے والی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا کہ وہ بڑی ہو کر اس کی قوم کی خدمت کریں گی لیکن لڑکوں کو قتل کرا دیتا تھا کیونکہ فرعون نے خوب میں دیکھا کہ بیت المقدس سے آگ نکل کر سارے مصر پر چھا گئی ہے اور اس نے تمام قبطیوں (قوم فرعون) کو جلا دیا ہے لیکن بنی اسرائیل اس سے بالکل محفوظ و مامون رہے۔ فرعون نے تعبیر جاننے والوں سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جس شہر سے بنی اسرائیل آئے ہیں اس میں ایک شخص پیدا ہوگا مصر کی تباہی اس کے ہاتھ پر ہوگی اس لیے فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ یا وجہ یہ تھی کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) نے بنی اسرائیل میں اس جلیل القدر پیغمبر کے پیدا ہونے کی خوشخبری دے رکھی تھی۔ فرعون کو یہ بات معلوم تھی اس لیے وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا۔ یہ دونوں قول نقل کرنے کے بعد امام رازی فرماتے ہیں وھذا الوجہ ھو الاولی بالقبول (کبیر ج 6 ص 587) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4۔ بلا شبہ فرعون سر زمین مصر میں بہت بڑھ چڑھ رہا تھا اور اونچا ہو رہا تھا اور بڑ ی سرکشی اختیار کر رکھی تھی اور وہاں کے باشندوں کو کئی فرقے کر رکھا تھا ان میں سے ایک فرقے اور جماعت کو اتنا کمزور کر رکھا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا کرتا تھا۔ بیشک وہ فساد کرنے اور خرابی ڈالنے والوں میں سے تھا۔ مطلب یہ ہے کہ فرعون نے ملک مصر میں بڑی سر بلندی اور سرکشی اختیار کر رکھی تھی اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کی غرض سے لوگوں میں فرقہ بندی کر رکھی تھی ایک فرقہ کو اس قدر کمزور کر رکھا تھا بنی اسرائیل کو اس قدر دبا رکھا تھا کہ ان کی نرینہ اولاد ہی کو ذبح کرا دیتا تھا کہ نہ لڑکے ہوں گے نہ بڑے ہو کر بغاوت کریں گے ۔ کہتے ہیں کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی لڑکا بنی اسرائیل میں سے ہوگا جو بڑے ہو کر ملک مصر کو فرعون کے قبضے سے آزادکرائے گا یا ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی پیشین گوئی بنی اسرائیل میں مشہور تھی جیسا کہ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں سے ہوگا جو بڑے ہو کر مصر کی حکومت کو قبطیوں کے ہاتھ سے آزاد کرائے گا ۔ اس بنا پر وہ لڑکوں کو قتل کرا دیا کرتا تھا اور عورتوں سے چونکہ اس قسم کا خطرہ نہ تھا اور وہ باندیاں بنا لی جاتی تھیں لہٰذا ان کو زندہ چھوڑ دیا کرتا تھا۔ غرض ! اسرائیلی فرقہ یعنی سبطیوں کو ہر اعتبار سے کمزور کرتا چلا جاتا تھا اور دبا رہا تھا اور ان کے مقابلے میں قبطیوں کی ہمت افزائی کرتا تھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے دے رکھے تھے اور سبطیوں سے بیگار لیا کرتا تھا اور ان کو بہت تنگ کر رکھا تھا ایک طرف بنی اسرائیل کی پوری قوم کو ہمیشہ غلامی میں رکھنے اور ان کی خود داری کو پامال کرنے والی تجاویز زیر غور تھیں ۔ ادھر قدرت کا منشا کیا تھا اور حق سبحانہ و تعالیٰ کیا چاہتے تھے اس کا اظہار آگے آتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔