Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 55

سورة القصص

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۵۵﴾

And when they hear ill speech, they turn away from it and say, "For us are our deeds, and for you are your deeds. Peace will be upon you; we seek not the ignorant."

اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعما ل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے ، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے ( الجھنا ) نہیں چاہتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ ... And when they hear evil vain talk, they withdraw from it, meaning, they do not mix with the people who indulge in such talk, rather they do as Allah says: وَإِذَا مَرُّواْ بِاللَّغْوِ مَرُّواْ كِراماً and if they pass by some evil vain talk, they pass by it with dignity. (25:72) ... وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَمٌ عَلَيْكُمْ لاَ نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ and they say: "To us our deeds, and to you your deeds. Peace be to you. We seek not (the way of) the ignorant." means, if some foolish person speaks to them in a foolish manner and says something to which it does not befit them to respond, they turn away from him and do not respond in kind with ugly speech. They never say anything but good words. Allah says of them that they say: لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَمٌ عَلَيْكُمْ لاَ نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ (To us our deeds, and to you your deeds. Peace be to you. We seek not (the way of) the ignorant), meaning, `we do not seek the way of the ignorant and we do not like it.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

551یہاں لغو سے مراد وہ سب و شتم اور دین کے ساتھ استہزاء ہے جو مشرکین کرتے تھے۔ 552یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک بول چال اور آمنا سامنا ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] ایسے مسلمانوں کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ لغو کاموں یا بےہودہ باتوں میں نہ صرف یہ کہ ان میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ایسے کاموں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگوں سے سابقہ پڑجائے تو ان سے تعرض نہیں کرتے بلکہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں جس سے ان کی مراد ایسے کاموں سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ سیرت کی کئی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد جب حبشہ کے لوگ اسلام اور اس کی دعوت سے متعارف ہوئے تو وہاں سے بیس آدمی، جو عیسائی تھے اس غرض کے لئے مکہ آئے کہ یہ تحقیق کریں کہ پیغمبر اسلام کیسے شخص آئے ہیں۔ جب وہ لوگ آپ سے ملے اور گفتگو شروع ہوئی تو آپ نے انھیں قرآن پڑھ کر سنایا جس سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بڑے پرزور طریقہ پر آپ کی تصدیق و تائید کی۔ جب مشرف بہ اسلام ہو کر حبشہ واپس جانے لگے تو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔ جو ایک شخص کی تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے۔ اور اب اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جارہے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا : ہماری طرف سے تم پر سلام ہے ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دینا چاہتے۔ ہم میں اور تم میں جو جس حال پر ہے وہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ ہم نے اپنے آپ کا بھلا چاہتے ہیں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٨٢) ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص سے یہ توقع نہ ہو کہ ہدایت کی بات قبول کرلے گا بلکہ یہ خطرہ ہو کہ یہ الٹا چڑ جائے گا ایسے شخص کو سمجھانے کے بجائے اس سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ : یعنی جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) [ الفرقان : ٧٢ ] ” جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔ “ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ : یعنی جب کوئی جاہل بےوقوفی کی کوئی حرکت کرے یا نامناسب بات کرے تو جواب میں ایسی بات یا حرکت نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں، ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل، تم جہالت کرو گے ہم صبر ہی کریں گے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ (١٥) اور سبا (٢٥، ٢٦) ۔ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ : دوسری جگہ فرمایا : ( وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ) [ الفرقان : ٦٣ ] ” اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔ “ جاہلوں کو سلام محبت اور دعا کا سلام نہیں، بلکہ جدائی اور قطع تعلق کا سلام ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ سلام ایمان والوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے دعا ہے اور جاہلوں کا جہل برداشت کرنے کی علامت ہے۔ 3 اس سے معلوم ہوا کہ جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھانے سے سمجھے گا تو اس سے کنارا ہی بہتر ہے۔ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ : یعنی ہم نہ دوستی اور مجلس کے لیے جاہلوں کو چاہتے ہیں، نہ جہالت میں مقابلے یا گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے لیے انھیں چاہتے ہیں، بلکہ دور ہی سے سلام کہہ کر ان سے کنارا کرتے ہیں۔ یہ بات دل میں کہتے ہیں، کیونکہ اونچی کہنے سے تو خواہ مخواہ جھگڑا ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ (Peace be on you. We do not seek (the way of) the ignorant. - 28:55). These people have a good quality in that when they hear something stupid from an ignorant foe, they simply say salam, instead of giving a reply. They do not entangle themselves with the ignorant. Imam Jassas (رح) has said that there are two kinds of salarns. One is for salutation, as Muslims do to one another. The other type is for musalamah (adopting peaceful attitude with others) and mutarakah, (to avoid debate) which is to convey to one&s adversary that he does not wish to take note of the latter&s stupidity. At this place the latter meaning is intended.

سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ ، یعنی ان لوگوں کی ایک عمدہ خصلت یہ ہے کہ جب یہ کسی جاہل دشمن سے لغویات سنتے ہیں تو اس کا جواب دینے کے بجائے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سلام لو ہم جاہل لوگوں سے الجھنا پسند نہیں کرتے۔ امام جصاص نے فرمایا کہ سلام کی دو قسمیں ہیں، ایک سلام تحیہ جو مسلمان باہم ایک دوسرے کو کرتے ہیں، دوسرا سلام مسالمت و متارکت یعنی اپنے حریف کو یہ کہہ دینا کہ ہم تمہاری لغو بات کا کوئی انتقام تم سے نہیں لیتے، یہاں سلام سے یہی دوسرے معنے مراد ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝ ٠ۡسَلٰمٌ عَلَيْكُمْ۝ ٠ۡلَا نَبْتَغِي الْجٰہِلِيْنَ۝ ٥٥ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : 407- عن اللّغا ورفث التّكلّم «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : 408- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سلامِ تحیت اور اسلامِ متارکت قول باری ہے : (واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ ۔ اور جب انہوں نے بیہودہ بات سنی تو ان سے کنارہ کش ہوگئے) تاآخر آیت۔ مجاہد کا قول ہے کہ کچھ اہل کتاب ایمان لے آئے، مشرکین نے انہیں ستانا شروع کردیا انہوں نے ان سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلی کہ تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ سلام تحیت نہیں ہے بلکہ سلام متارکت ہے جس کے ذریعے ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : (واذا خا طبھم الجاھلون قالوا سلاما۔ اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام) نیز قول باری ہے (واھجونی ملیا قال سلام علیک سا ستغفرہ لک ربی۔ بس تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا۔ ابراہیم نے کہا سلام ہے آپ ک و میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے) بعض لوگوں کا خیال ہے یہ بات کافر کے ساتھ سلام کی ابتداء کرنے کے جواز پر دلالت کررہی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ لفظ سلام دو مفہوم پر دلالت کرتا ہے ایک تو اس سلام پر کنارہ کشی اختیار کرنے اور جھگڑے سے پیچھا چھڑانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔ دوسرے اس سلام پر جس میں سلامتی اور امن کی دعا ہوتی ہے جسے سلام تحیت کہتے ہیں اور اہل اسلام ایک دوسرے کو یہی سلام کہتے ہیں۔ اسی سلام کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” کہ ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق ہوتے ہیں، ایک حق یہ ہے کہ جب اس سے ملاقات ہو تو السلام علیکم کہے “ قول باری : (فانا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا) اور جب تمہیں سلام تحیت کہا جائے تو اس کا جواب اس سے بہتر طریقے سے دو یا کم از کم یہی الفاظ لوٹا دو ۔ میں بھی اسی سلام کی طرف اشارہ ہے۔ نیز قول باری (اتحیتھم فیھا سلام۔ جنت میں ان کی تحیت لفظ سلام کے ساتھ ہوگی) میں بھی یہی سلام مراد ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا۔ کافروں کے ساتھ سلام میں پہل نہ کرو۔ اور اگر اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو جواب میں صرف ” وعلیکم “ کہہ دیا کرو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) اور جب کسی سے اپنی نسبت جھوٹی بات یعنی کفار کا طعنہ سنتے ہیں تو اس کو بھی خوبی کے ساتھ ٹال جاتے ہیں اور نرمی سے کہہ دیتے ہیں ہمارا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور ہمارا دین اسلام ہمارے سامنے ہے اور تم پر تمہارے بتوں کی پرستش اور شیطان کی پیروی اور شرک کا بوجھ ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے ہم مشرکین کے طریقہ پر چلنا نہیں چاہتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(سَلٰمٌ عَلَیْکُمْز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ ) ” یہاں اس مکالمے کی طرف اشارہ ہے جو حبشہ کے وفد کے ارکان کا مشرکین مکہ کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ وفد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کے لیے مکہ آیا تھا۔ واقعہ دراصل یوں تھا کہ مکہ سے حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کرنے والے صحابہ (رض) کی تبلیغ سے حبشہ میں کچھ عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ جیسے بعد میں دوسری ہجرت کے مہاجرین ‘ صحابہ کی تبلیغ سے شاہ حبشہ نجاشی بھی ایمان لے آئے تھے ‘ جو اپنی زندگی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کر کے صحابیت کا درجہ تو نہ پا سکے ‘ البتہ صحابہ (رض) سے ملاقات کی بنا پر وہ تابعی ضرو رہیں۔ حضرت نجاشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور یہ واحد غائبانہ نماز جنازہ ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پڑھانا ثابت ہے۔ حبشہ میں جن لوگوں نے صحابہ (رض) کی کوششوں سے ایمان قبول کیا تھا بعد میں ان میں سے کچھ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کے ارمان میں ایک وفد کی صورت میں مکہ آئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ جب مشرکین مکہّ کو ان لوگوں کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے ان لوگوں سے بہت بےہودہ باتیں کیں ‘ انہیں طعنے دیے اور ان کا خوب تمسخر اڑایا کہ تم لوگ بہت احمق ہو جو اپنی الہامی کتاب کو چھوڑ کر اس نئے دین میں شامل ہوگئے ہو۔ آیت زیر مطالعہ میں اس وفد کے لوگوں کا جواب نقل ہوا ہے جو انہوں نے مشرکین مکہ کو دیا تھا کہ ہمارا آپ لوگوں سے کچھ سروکار نہیں ‘ ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم لوگ اپنے اعمال کے۔ ہم اللہ کے فضل سے پہلے بھی حق پر تھے اور اب ہمیں اس حق پر بھی ایمان لانے کی سعادت ملی ہے جو قرآن کی صورت میں ہمارے رب کی طرف سے آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78 The reference is to the "vain talk" that Abu Jahl and his men had with the Christians from Habash, as mentioned in E.N. 72 above.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 78 اشارہ ہے اس بیہودہ بات کی طرف جو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے حبشی عیسائیوں کے اس وفد سے کی تھی ، جس کا ذکر اوپر حاشیہ حاشیہ نمبر 72 میں گزر چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: یعنی تم سے بحث میں الجھنا نہیں چاہتے، وہاں یہ دعا کرتے ہیں کہ تمہیں اسلام کی توفیق ملے، اور اس کے نتیجے میں تمہیں سلامتی عطا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:55) سلم علیکم مقصود اس پورے فقرہ سے سلامت روی کا اظہار ہے یہ نہیں کہ اپنے مخالفین کو سلام کرتے رہتے ہیں ۔ یہ سلام متارکت و علیحدگی کے لئے ہے سلام متعارف مراد نہیں۔ (28:55) لانبتغی مضارع منفی جمع متکلم ابتغاء افتعال مصدر۔ بغی مادہ ہم نہیں چاہتے (چوہلوں سے الجھنا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور اس کے کرنے والوں سے کوئی میل جول نہیں رکھتے۔ دیکھئے سورة فرقان 72 ۔ (قرطبی) 4 ۔ یہ محبت اور دعا کا سلام نہیں ہے بلکہ جدائی اور قطع تعلقی کا سلام نہیں ہے بلکہ جدائی اور قطع تعلقی کا سلام ہے دیکھئے فرقان :63 ۔ (قرطبی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے پر لگے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق قبول کرنے والوں کی چوتھی خوبی۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول لکھتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ جب عیسائیوں کے ایک وفد نے اسلام قبول کیا تو مشرکین مکہ نے انھیں طعنہ دیا کہ تم عجب لوگ ہو کہ تمہارے پچھلے لوگوں نے تمہیں حقیقت حال جاننے کے لیے بھیجا ہے اور تم انھیں اطلاع دیے اور ان سے مشورہ کیے بغیر اپنا دین چھوڑ رہے ہو یہ تمہاری کیسی جہالت ہے اس موقعہ پر مسلمان ہونے والوں نے جو جواب دیا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔ ” اللہ “ کے نیک بندے اور نصیحت قبول کرنے والوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ باطل دین اور اپنی ضد پر اڑے نہیں رہتے بلکہ جوں ہی ان کے سامنے حق بات واضح ہوتی ہے تو وہ بلا تردّد حق بات قبول کرتے ہوئے اس پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر برائی چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور حق بات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بےہودہ اور بےمقصد باتوں اور کاموں سے پرہیز کرتے ہیں کوئی انھیں بےہودہ کام یا بات کی طرف بلائے تو یہ پوری ایمانی قوت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی برائی کے معاملہ میں اصرار کرے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتے ہیں کہ تمہارے عمل تمہارے لیے، ہمارے اعمال ہمارے لیے، تمہیں سلام ہو ہم جاہلوں سے الجھنے ان جیسا کردار اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے مقام پر انھیں الرّحمن کے بندے قرار دے کر ان کے اوصاف کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ (وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا) [ الفرقان : ٦٣ ] ” رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں جاہل ان سے جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔ “ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ )[ لمومنون : ١ تا ٥ ] ” یقیناً مؤمن فلاح پا گے۔ وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ فضولیات سے دور رہتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے بہترین اسلام کی تعریف یہ ہے کہ وہ لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔ “ مسائل ١۔ ” اللہ “ کے بندے لغو سے اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ ” اللہ “ کے بندے جاہلوں سے نہیں الجھتے۔ ٣۔ بروں کے لیے برے اعمال اور نیکوں کے لیے نیک اعمال ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جاہلوں سے اعراض کرنا چاہیے : ١۔ نبی محترم کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : ١٩٩) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ : ٦٧) ٣۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٤۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پانچویں آیت میں مؤمنین اہل کتاب کی ایک صفت بیان فرمائی (جو دیگر اہل ایمان کی صفات میں بھی مذکور ہے کہ) جب وہ کوئی لغویات سنتے ہیں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ یعنی اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے سنا ہی نہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ بیہودہ باتوں سے پیش آتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ) (ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال) تم لغو باتیں کیوں کرتے ہو اپنے اعمال کو دیکھو اور اپنی جان کی خیر منانے کی فکر کرو۔ عذاب میں مبتلا ہونے کا کام کر رہے ہو اور ہم سے بلا وجہ الجھتے ہو (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) تم پر سلام ہو۔ یہ سلام وہ نہیں ہے جو اہل ایمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں بلکہ یہ جان چھڑانے کا ایک طریقہ ہے جیسے اہل اردو کسی بیہودہ آدمی سے جان چھڑانے کے لیے یوں کہہ دیتے ہیں کہ بھیا سلام کریں اور اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تمہاری حرکتوں کا جواب نہ دیں گے بدلہ نہ لیں گے تم ہماری طرف سے با سلامت رہو، ہم تم سے کوئی انتقام نہیں لیں گے۔ (لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ) (ہم جاہلوں سے بات چیت کرنا الجھنا نہیں چاہتے۔ ) (تفسیر قرطبی ص ٢٩٦: ج) میں حضرت عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے کہ آیت بالا نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ نجاشی نے بارہ آدمی بھیجے یہ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے ابو جہل ان کے ساتھ ہی وہیں قریب تھا جب یہ لوگ ایمان قبول کر کے خدمت عالی سے اٹھے تو ابو جہل اور اس کے ساتھی ان کے پیچھے پڑگئے کہنے لگے کہ تم تو نامراد لوگ نکلے تمہاری یہ جماعت بری جماعت ہے تم نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ سواروں کی کوئی جماعت ہم نے تم سے بڑھ کر احمق اور جاہل نہیں دیکھی ان حضرات نے جواب میں کہا کہ (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) (اور یہ بھی کہا کہ ہمارے سامنے جب ہدایت آگئی تو ہم نے اسے قبول کرلیا اور اپنی جانوں کی خیر خواہی میں کوتاہی نہیں کی، اور ساتھ ہی یوں بھی کہا کہ (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ) (ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں) ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو جواب دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جواب نقل فرمایا اور ان کی توصیف فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ ہر بری اور فضول بات یا شرک جیسا کہ امام ضحاک نے فرمایا ہے (روح) یعنی جب وہ مشرکین سے لغو، بیہودہ اور مشرکانہ باتیں سنتے ہیں تو ان سے منہ موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں تم ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو، تمہیں سلام ہے ہم تم ایسے نادانوں کے پاس بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سلام متارکہ ہے نہ کہ سلام تحیہ، قال الزجاج سلام المتارکۃ لا سلام تحیۃ (بحر ج 7 ص 126)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55۔ اور وہ لوگ جب اپنی نسبت کوئی لغو اور بیہودہ بات مخالفین سے سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور بےتوجہی برتتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ہمارا تو سلام ہے تم پر ہم بےسمجھ لوگوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا نہیں چاہتے اور ہم کو ناسمجھ نہیں چاہئیں ۔ یعنی جب کوئی ان کو برا کہتا ہے اور بیہودہ گوئی سے پیش آتا ہے تو یہ ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ بھائی ہمارے اعمال ہمارے واسطے ہیں اور انکا بدلہ ہم کو ہی ملنے والا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا تم کو ملنے والی ہے اور ایسے لوگوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور صاحب سلامت کر کے الگ ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم کو ناسمجھ لوگوں کی ضرورت نہیں اور ہم جاہلوں کے منہ لگنا نہیں چاہتے اور ہم بےسمجھ لوگوں کی صحبت نہیں چاہتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ حبشہ کے نصاریٰ تھے نجاشی کے رفیق اس قرآن کریم کو سن کر یقین لائے اور جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے نہ سمجھے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے۔ 12