Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 61

سورة القصص

اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰہُ وَعۡدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیۡہِ کَمَنۡ مَّتَّعۡنٰہُ مَتَاعَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ثُمَّ ہُوَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مِنَ الۡمُحۡضَرِیۡنَ ﴿۶۱﴾

Then is he whom We have promised a good promise which he will obtain like he for whom We provided enjoyment of worldly life [but] then he is, on the Day of Resurrection, among those presented [for punishment in Hell]?

کیا وہ شخص جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا ہے جسےوہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہو سکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانی ٔ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is he whom We have promised an excellent promise -- which he will find true -- like him whom We have made to enjoy the luxuries of the life of the world, then on the Day of Resurrection, he will be among those brought up! Is the one who believes in the reward which Allah has promised in return for righteous deeds, which he will undoubtedly attain, like one who disbelieves in the meet... ing with Allah and in His promises and threats. He is only enjoying a few days in this life. Mujahid and Qatadah said concerning the Ayah: ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (then on the Day of Resurrection, he will be among those brought up). "He will be among those who are punished." It was said that this was revealed concerning the Messenger of Allah and Abu Jahl, or that it was revealed concerning Hamzah and Ali, and Abu Jahl. Both views were narrated from Mujahid. The apparent meaning is that it is more general than that. This is like the Ayah where Allah describes a believer in Paradise looking out at his companion who is in Hell, and saying: وَلَوْلاَ نِعْمَةُ رَبِّى لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ Had it not been for the grace of my Lord, I would certainly have been among those brought forth (to Hell). (37:57) And Allah says: وَلَقَدْ عَلِمَتِ الجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ but the Jinn know well that they have indeed to appear (before Him). (37:158)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اس آیت میں دو آدمیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو آخرت کے بہتر انجام پر نظر رکھتا ہو اور اس بہتر انجام کے لئے ہی اپنی کوششیں صرف کر رہا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کا مطمع نظر صرف دنیوی مفادات اور ساز و سامان تک محدود ہو اور آخرت میں اس سے سختی سے باز پرس کی جانے والی ہو۔ اور سوال یہ اٹھایا گیا ... کہ خود ہی فیصلہ کرلو۔ ان دونوں میں سے کون بہتر ہے ؟ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں نے یہ غلط نتیجہ نکالا کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور دنیا کے مفادات کا حصول مذموم چیز ہے اور اس سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہئے اور اپنی نظر صرف اخروی مفادات پر رکھنی چاہئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھلائی اور جسے رسول اللہ اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے : (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ٢٠١۔ ) 2 ۔ البقرة :201) اس آیت میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کا اللہ سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ بلکہ دنیا کی بھلائی کا مطالبہ آخرت سے پہلے ہے۔ ان سب آیات کو ملانے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور اس کا ساز و سامان صرف اس صورت میں مذموم ہوگا جب کہ اس سے اخروی مفادات کا نقصان ہو رہا ہو۔ مذموم چیز صرف یہ ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی جائے۔ جب آخرت کا نقصان ہو رہا ہو تو اس وقت ایک مسلمان کا طرز عمل یہی ہوگا کہ دنیوی مفادات کو لات مار دے۔ پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک شخص نے اخروی انجام سے آنکھیں بند رکھی ہوں تاکہ وہ دنیوی مفادات تو حسب خواہش حاصل کرلے مگر اسے زندگی بھر سوائے غربت اور مصائب و مشکلات کے کچھ حاصل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کا مطمع نظر تو صرف اخروی مفادات ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں بھی ہر طرح کی بےبہا نعمتوں اور ساز و سامان سے نواز دے۔ جیسا کہ بعض انبیاء بادشاہ وقت بھی تھے۔ اس لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جنہیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی نصیب ہو اور یہ سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں آخرت کی بھلائی تو نصیب ہو لیکن دنیا میں مشکل سے گزر بسر کریں۔ ان کا شمار بھی بہتر لوگوں میں ہے۔ تیسرے وہ جن کی آخرت تو خراب ہو مگر دنیا میں عیش و آرام مسیر ہو۔ یہ حقیقت میں برے لوگ ہیں اور چوتھے وہ جن کی دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ہو۔ ایسے لوگ ہر لحاظ سے بدترین ہوئے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧ اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَـنًا ۔۔ : اس آیت میں مومن و کافر کی زندگیوں کا موازنہ کیا گیا ہے اور سوال کی صورت میں سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آیا یہ دونوں زندگیاں کسی صورت برابر ہوسکتی ہیں ؟ جب یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتیں تو تم دنیا کے فائدے کے لیے رسول کی پیروی کیوں چھوڑتے ہو ؟ دنیا کی نعمتیں...  مومن و کافر دونوں کو ملتی ہیں، مگر مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند رہ کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے، جس کی وجہ سے آخرت کی نعمتیں صرف اس کے لیے خاص ہوجاتی ہیں۔ (دیکھیے اعراف : ٣٢) اور ایمان اور عمل صالح والوں سے اللہ تعالیٰ کا یہی وعدۂ حسنہ ہے، جو ہر حال میں مومن کو مل کر رہے گا، کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ اس کے مقابلے میں کافر ہے، مومن کے متعلق جو فرمایا کہ وہ ہمارے اچھے وعدے کو ملنے والا ہے، تو یہ اشارہ ہے کہ کافر کو بھی شیطان اور اس کے بنائے ہوئے شریک وعدے دلاتے رہتے ہیں، مگر ان کے دلائے ہوئے وعدے اسے کبھی حاصل نہیں ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم میں ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان کہے گا : ( اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ) [ إبراہیم : ٢٢ ] ” بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ “ کافر کو دنیا کی زندگی کا کچھ سامان دیا گیا، ملنا اسے بھی اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے، مگر اس نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے بجائے اپنی خواہش نفس کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں وہ ان لوگوں میں شامل ہونے والا ہے جو قیامت کے دن حاضر کیے جانے والے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ” الْمُحْضَرِيْنَ “ (حاضر کیے جانے والے) کا لفظ عذاب میں حاضر کیے جانے والوں کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے۔ دیکھیے سورة صافات (٥٧ اور ١٢٧) اس لفظ میں بھی یہ مفہوم موجود ہے، کیونکہ حاضر اسی کو کیا جاتا ہے جو حاضر نہ ہونا چاہے، جنت میں تو ہر شخص شوق سے جائے گا۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” تو کیا وہ شخص جو مومن ہے، اس وعدے کو سچا جاننے والا ہے جو اللہ نے اس کے صالح اعمال پر اس سے ثواب کی صورت میں کیا ہے، جو لا محالہ اسے ملنے والا ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو کافر ہے، اللہ کی ملاقات اور اس کے وعدہ و وعید کو جھٹلانے والا ہے۔ سو اسے دنیا کی زندگی میں تھوڑے سے دن کچھ سامان ملنے والا ہے، پھر قیامت کے دن وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہے۔ مجاہد نے فرمایا، یعنی عذاب دیے جانے والوں میں سے ہے۔ “ (ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The very first question infidels and disbelievers will be asked at the Tumultuous Place (mahshar) will be about shirk (associating someone else with Allah), that is, ` where are those Shaitans today whom you used to associate with Us? Can they provide you any help today?& In response to these queries the disbelievers would say that it was not a fault of theirs, as they did not assoc... iate them with Allah on their own. It was the Shaitan who deluded them. Then Allah Ta’ ala would ask the Shaitans to say if they had anything in their defense; who, while accepting their role of deceit, would plead that they had only misled them but did not force them to act upon the same. Thus, the Shaitans would confess that they did commit the crime, but the infidels too were not free from its commission. Because just as they led them astray, similarly at the same time, the prophets and their deputies also guided them towards the Right Path with sound arguments; making the Truth crystal clear to them . They rejected the Truth presented by the prophets and instead listened to us using their free will and discretion. So, how could they be free from the blame? It proves that if someone chooses to follow those who wish to put him on the wrong path on his own good will, despite the fact that he has before him clear cut arguments against them and the righteous way to follow, then he has no excuse-to offer.  Show more

خلاصہ تفسیر بھلا وہ شخص جس سے ہم نے ایک پسندیدہ وعدہ کر رکھا ہے پھر وہ شخص اس (وعدہ کی چیز) کو پانے والا ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا چند روزہ فائدہ دے رکھا ہے پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہوگا جو گرفتار کر کے لائیں جائیں گے (مراد پہلے شخص سے مومن ہے جس سے جنت کا وعد... ہ ہے اور دوسرے سے مراد کافر جو مجرم ہو کر آوے گا اور چونکہ متاع دنیا ہی ان لوگوں کی بھول کا سبب ہے اس لئے اس کی تصریح فرما دی، ورنہ ان دونوں کا برابر نہ ہونا تو دراصل اس وجہ سے ہے کہ وہ گرفتار کر کے حاضر کئے جاویں گے یہ جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے) اور (آگے اس تفاوت اور کیفیت احضار کی تفصیل ہے کہ وہ دن قابل یاد کرنے کے ہے) جس دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کو (بطور سزا کے) پکار کر کہے گا کہ وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم (ہمارا شریک) سمجھ رہے تھے (مراد اس سے شیاطین ہیں کہ انہی کی اطاعت مطلقہ سے شرک کرتے تھے اس لئے ان کو شرکاء کہا اس کو سن کر شیاطین) جن پر (لوگوں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے) خدا کا فرمودہ (یعنی استحقاق عذاب اس قول سے کہ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ) ثابت ہوچکا ہوگا وہ (بطور عذر کے) بول اٹھیں گے کہ اے ہمارے پروردگار بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے بہکایا ( یہ جواب کی تمہید ہے اس حکایت کی تصریح اس لئے فرمائی گئی کہ جن کی شفاعت کی ان کو امید ہے وہ برعکس ان کے خلاف شہادت دیں گے اور آگے جواب ہے کہ ہم نے بہکایا تو ضرور لیکن) ہم نے ان کو ویسا ہی (بلا جبر واکراہ) بہکایا جیسا ہم خود (بلا جبر واکراہ) بہکے تھے (یعنی جس طرح ہم خود اپنے اختیار سے گمراہ ہوئے کسی نے انہیں مجبور نہیں کیا اسی طرح ہم کو ان پر جابرانہ تسلط نہ تھا ہمارا کام صرف بہکانہ تھا پھر اس کو انہوں نے اپنی رائے اور اختیار سے قبول کرلیا جیسا سورة ابراہیم میں ہے وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ الآیتہ، مطلب یہ ہے کہ ہم بھی مجرم ہیں مگر یہ بھی بری نہیں) اور ہم آپ کی پیشی میں ان کے (تعلقات) سے دست برداری کرتے ہیں (اور) یہ لوگ (درحقیقت صرف) ہم کو (ہی) نہ پوجتے تھے (یعنی جب یہ اپنے اختیار سے بہکے ہیں تو یہ خود خواہش پرست ہوئے نہ کہ صرف شیطان پرست، مقصود اس سب حکایت سے یہ ہے کہ جن کے بھروسے بیٹھے ہیں وہ قیامت کے روز ان سے دست بردار ہوجائیں گے) اور (جب وہ شرکاء اس طرح ان سے بیزاری و بےرخی کریں گے تو اس وقت ان مشرکین سے) کہا جائے گا کہ (اب) اپنے ان شرکاء کو بلاؤ چناچہ (وہ فرط حیرت سے بالاضطرار) ان کو پکاریں گے سو وہ جواب بھی نہ دیں گے (اور اس وقت) یہ لوگ (اپنی آنکھوں) سے عذاب کو دیکھ لیں گے، اے کاش یہ لوگ دنیا میں راہ راست پر ہوتے (تو یہ مصیبت نہ دیکھتے) اور جس دن ان کافروں سے پکار کر پوچھے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا، سو اس روز ان (کے ذہن) سے سارے مضامین گم ہوجائیں گے تو وہ (خود بھی نہ سمجھ سکیں گے اور) آپس میں پوچھ پاچھ بھی نہ کرسکیں گے البتہ وہ شخص (کفر و شرک سے دنیا میں) توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کیا کرے تو ایسے لوگ امید ہے کہ (آخرت میں) فلاح پانے والوں سے ہوں گے (اور ان آفات سے محفوظ رہیں گے۔ ) معارف ومسائل محشر میں کفار و مشرکین سے پہلا سوال شرک کے متعلق ہوگا کہ جن شیاطین وغیرہ کو تم ہمارا شریک کہا کرتے تھے اور ان کا کہا مانتے تھے آج وہ کہاں ہیں، کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ظاہر یہ تھا کہ مشرکین یہ جواب دیں کہ ہمارا کوئی قصور نہیں، ہم نے از خود شرک نہیں کیا بلکہ ہمیں تو ان شیاطین نے بہکایا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ خود ان شیاطین کی زبانوں سے کہلوا دیں گے کہ ہم نے بہکایا ضرور تھا مگر مجبور تو ہم نے نہیں کیا۔ اس لئے مجرم ہم بھی ہیں مگر جرم سے بری یہ بھی نہیں کیونکہ جس طرح ہم نے ان کو بہکایا تھا اس کے بالمقابل انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائبوں نے ان کو ہدایت بھی تو کی تھی اور دلائل کے ساتھ ان پر حق واضح کردیا تھا، انہوں نے اپنے اختیار سے انبیاء کی بات نہ مانی ہماری مان لی تو یہ کیسے بری ہو سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے سامنے حق کے دلائل واضحہ موجود ہوں اور وہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کے بجائے گمراہ کرنے والوں کی بات مان کر گمراہی میں پڑجائے تو یہ کوئی عذر معتبر نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَـنًا فَہُوَ لَاقِيْہِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ثُمَّ ہُوَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ۝ ٦١ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَ... دْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) بھلا وہ شخص جس سے ہم نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یا یہ کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اور پھر وہ اس کو آخرت میں پانے والا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیا میں چند روزہ مال و دولت دے رکھا ہے پھر وہ دوز... خ میں جلے گا یعنی ابوجہل۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ افمن وعدنہ “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوجہل بن ہشام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور دوسرے طریق سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت حمزہ (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیْہِ کَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) ” یعنی ایک وہ بندہ جو اپنی دنیوی زندگی میں آخرت کے بارے میں اللہ کے اچھے وعدوں کا مصداق بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے وعدوں کے مطابق جنت اور اس کی نعمتیں عطا فرمانے والا ہے ‘ کیا کبھ... ی اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا گیا ہو ؟ ( ثُمَّ ہُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ) ” ظاہر ہے دونوں طرح کے لوگ برابر تو نہیں ہوسکتے۔ قیامت کے دن نیک لوگ اللہ کے وعدوں کے مطابق اس کی رحمت کے سائے میں ہوں گے ‘ جبکہ دنیا میں عیش و عشرت کے مزے لینے والے اور اپنے من پسند انداز میں گل چھرے ّ اُڑانے والے باغی اس دن بیڑیاں پہنے ہوئے مجرموں کی حیثیت سے اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 This is the fourth answer to their excuse. To understand it fully one should bear in mind two things: First, the present life which is no more than a few years for anyone, is only the temporary phase of a journey. The real life which will be everlasting is yet to come. In this life man may amass as much provision as he may please and live the few years at his disposal as comfortably as he can, ... it will in any case come to an end, and man will depart from the world empty-handed. No sensible person will like to make the bad bargain of suffering the everlasting distress and affliction in the Hereafter in exchange for the pleasures and comforts of his brief sojourn in the world. As against this, he would rather prefer to face a few years of hardships here and earn the goodness that may earn him everlasting bliss and comfort in the eternal life of the Next World. Secondly, Allah's religion does not demand that tnan should totally refrain from seeking and enjoying the good things of life and discard its adornments in any case. Its only demand is that he should prefer the Hereafter to the world, for the world is perishable and the Hereafter everlasting; and the pleasures of the world are inferior and of the Hereafter superior. Therefore, tnan must try to attain those provisions and adornments of the world that may enable him to fare well in the everlasting life of the Next World, or at least protect him from the eternal loss there. But in case there is a question of a comparison between the two, and thesuccess of the world and of the Hereafter oppose and contradict each other, the Faith demands, and this is the demand of man's good sense too, that he should sacrifice the world to the Hereafter, and should never adopt the way of only seeking the transitory provisions and adornments of this world, which inevitably lead to his ruin in the Hereafter forever. Keeping these two things in view Iet us see what Allah says to the disbelievers of Makkah in the foregoing sentences. He does not tell them to wind up their business, stop their trade and follow His Prophets and become mendicants. What He says is that the worldly wealth of which they are so enamoured, is very meager and they can utilize it only for a few days in this worldly life. Contrary to this, that which is with Allah is much better both in quality and in quantity and is also everlasting. Therefore, they would be foolish if for the sake of benefiting by the limited blessings of this transitory life, they adopted the way whose evil results they will have to suffer in the form of everlasting loss in the Next World. They should judge for themselves as to who is successful: He who exerts himself in the service of his Lord and then is blessed with His favours for ever, or he who will be produced as a culprit in His Court, only after having had an opportunity of enjoying unlawful wealth for a few days in the world.  Show more

سورة القصص حاشیہ نمبر : 84 یہ ان کے عذر کا چوتھا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہیں ۔ اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی ، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے ، اصل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، آگ... ے آنی ہے ، موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سروسامان جمع کرلے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کرلے ، بہرحال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کا سب سروسامان آدمی کو یونہی چھوڑ کر اٹھ جانا ہے ۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائما خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے ، تو کوئی صاحب عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کرسکتا ، اس کے مقابلے میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے ، مگر یہاں سے وہ بھلائٰیاں کما کر لے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے ہمیشگی کے عیش کی موجب بنیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی مار دے ۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے ، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی ، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر ، اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخسرو کرے ، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے ، لیکن جہاں معابلہ مقابلے کا آپڑے ، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے کی ضد ہوجائیں ، وہاں دین حق کا مطالبہ انسان سے یہ ہے ، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ بھی ہے کہ آدمی دنیا کو آخر پر قربان کردے اور اس دنیا کی عارضی متاع و زینت کی خاطر وہ راہ ہرگز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو ۔ ان دو باتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالی اوپر کے فقروں میں کفار مکہ سے کیا فرماتا ہے ۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو ، اپنے کاروبار ختم کردو ، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہوجاؤ ، بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو ، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیات دنیا میں اٹھا سکتے ہو ، اس کے برعکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف ( Quality اور Quantity ) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے ۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو گے اگر اس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے ، تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے انعام سے سرفراز ہو ، یا وہ شخص جو گرفتار ہوکر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦١ تا ٦٣۔ ان آیتوں میں یہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جاوے گا کہاں ہیں وہ اللہ کے شریک جن کا تم کو دنیا میں بڑا گھمنڈ تھا کیا وہ عذاب سے بچلانے میں تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں پھر فرمایا کہ بہکانے والے کہیں گے اس رب ہمارے یہ لوگ ہیں جن کا بہکا یا ہم نے جس طرح ہم بہکے پھر پوجا کرنے والوں ... سے بیزاری ظاہر کریں گے اور کہیں گے کہ وہ ہم کو نہیں پوجتے تھے بہکانے والوں سے مطلب وہی شیاطین الانس والجن ہیں جن ذکر سورة الانعام کی آیت وان الشیطین لیوحون الی اولیائھم میں گزر چکا ہے اور قل اعوذ برب الناس کی تفسری میں بھی یہ ذکر آوے گا پھر قائل کرنے کے لیے مشرکوں سے دوبارہ کہا جائے گا کہ بلاؤ اپنے شریکوں کو کہ وہ تم کو اس عذاب سے بچاویں یہ مشرک ان کو پکاریں گے لیکن کچھ جواب نہ پاویں گے اور جب دیکھیں گے عذاب اس وقت یہ آرزو کریں گے کہ ہم بھی کاش دنیا میں ہدایت پانے والوں میں سے ہوتے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ١ ؎ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک گہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں لوگوں کو کو لیاں بھر بھر کر دوزخ کی آگ میں گر جانے سے روکتا ہوں مگر یہ لوگ اس آگ میں گر جانے کی ایسے جرأت کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرتے ہیں۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن جس عذاب کو دیکھ کر ان مشرکوں کے جھوٹے معبودان سے بیزار ہوجاویں گے اور جس عذاب کو دیکھ کر اوس دن یہ مشرک اپنے شرک پر پچتاویں گے اسی عذاب سے میں ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر یہ لوگ میری نصیحت نہیں سنتے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:61) لاقیہ : لاقی اسم فاعل واحد مذکر مضاف ہ ضمیر مفعول واحد مذکر اس کو پانے والا۔ اس کو حاصل کرنے والا۔ لقی یلقی (سمع) لقائ۔ لقاء ۃ مصدر۔ متعنہ : متعنا ماضی جمع متکلم۔ تمتیع (تفعیل) مصدر۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ ہم نے اس کو دنیاوی سامان سے بہرہ یاب کیا۔ المحضرین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ وہ لو... گ جن کو حاضر کیا جائے گا۔ ای محضرین للنار او العذاب۔ وہ دوذخ یا عذاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے قرآن مجید میں اور جگہ انہی معنوں میں ارشاد ہے فکذبوہ انھم لمحضرون ۔ (37:127) تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا۔ سو وہ (دوزخ میں) حاضر کئے جاویں گے اور ولولا نعمۃ ربی لکنت من المحضرین (37:57) اور اگر میرے پروردگار کی مہربانی نہ ہوئی تو میں بھی ان میں ہوتا (جو عذاب میں) حاضر کئے گئے ہیں ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ خلاف نہیں ہوسکتا۔ 3 ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں شخص ہرگز یکساں نہیں ہوسکتے ہر مومن اور کافر اس آیت کا مصداق بن سکتے ہیں گو بعض نے لکھا ہے کہ حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مزے معمولی بھی ہیں اور عارضی بھی اور آخرت کی نعمتیں اعلیٰ درجہ کی ب... ھی ہیں اور ہمیشہ رہنیوالی بھی اب یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ دنیا کے چند روزہ مزوں کی خاطر اپنی آخرت تباہ کرلی جائے۔ (وحیدی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 61 تا 75 اسرارو معارف اور بھلا جس شخص کو بہت حسین وعدہ دیا اگیا ہو یعنی آخرت کی کامیابی کا اور وہ اسے پانے والا بھی ہو اس کی برابری وہ شخص تو نہیں کرسکتا جس کے پاس چند روز مال و دولت دنیا تو ہو مگر قیامت کے روز اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہو وہ ایسا دن ہوگا کہ جب ان کفار و مشرکین پر سوا... ل ہوگا کہ جن لوگوں کو تم نے میرا شریک مان رکھا تھا وہ کہاں ہیں تو وہ لوگ جو یہاں دنیا میں ان کے پیشوا بنے ہوئے ہیں اپنے اوپر جرم ثابت ہوچکنے کے بعد یہ عذر کریں گے کہ اے اللہ خود گمراہ تھے لہذا انہیں بھی وہی کچھ بتایا جس پر خود عمل کرتے تھے لیکن انہوں نے ہماری بات اپنے اختیار سے مانی ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا حتی کہ شیطان بھی لوگوں سے کہے گا مجھے تم پر کوئی اختیار نہ تھا تم نے اللہ کی بات قبول نہ کی اور میرے جھوٹ کو مان لیا جیسا کہ یہ دوسری جگہ مرکوز ہے۔ چناچہ وہ سب کہیں گے کہ اے اللہ ہم ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں یعنی ہمیں ان کا شریک جرم نہ بنایا جائے کہ یہ ہماری پرستش نہ کرتے تھے بلکہ اپنی خواہش نفس کے غلام تھے۔ پھر انہیں حکم ہوگا کہ پکارو اپنے معبودان باطلہ کو اور پکاریں گے مگر انہیں کوئی جواب تک نہ ملے گا اور جہنم کا (علیہ السلام) ذاب سامنے دیکھ رہے ہوں گے کیا ہی اچھا ہوتا کہ انہوں نے ہدایت قبول کرلی ہوتی۔ پھر اعلان کیا جائے گا کہ اب سوچو کہ تم نے اللہ کے فرستادہ نبیوں اور رسولوں کو کی اجواب دیا تھا لیکن عذاب ان کی یادداشتیں تک کھو دے گا آپس میں بھی ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ نہ سکیں گے ہاں مگر جو اب توبہ کرلے ۔ توبہ کیا ہے : اور توبہ یہ ہے کہ عقائد درست کرے اور عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لائے سو ایسے لوگوں کے کامیاب ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ تیرا پروردگار جس چیز کو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور اپنی مخلوق سے جسے چاہے پسند کرلے یہ پسند و ناپسند ان کے اختیار میں نہیں بلکہ ان کے مشرکانہ عقائد سے اللہ کریم بہت بلند ہے اور اس نے فیصلہ کردیا کہ جس کے دل میں جتنی انابت اور جس قدر خلوص ہوگا اللہ اسے اتنا پسند فرمائے گا۔ فضیلت کا معیار : علما کے نذدیک معیار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک اختیاری اور ایک غیر اختیاری۔ غیر اختیاری یہ ہے کہ زمانوں پہ ایک خاص زمانے کو یا زمین پر ایک خاص جگہ کو جیسے بیت اللہ شریف یا دنوں پر جمعہ کے روز کو رمضان کو مہینوں پر یا لیلۃ القدر کو راتوں پر اور دوسری اختیاری جیسے انبیاء کے علاوہ انسانوں کو ان کے خلوص اور کردار پر یا جس جگہ نیک کام کے لیے جائیں ان کے باعث اس جگہ کو دوسرے مقامات پر ایسے ہی عالم کو پھر تابعی اور پھر صحابہ کو اور ان میں بااتفاق علماء حق سب میں خلفائے راشدین کو اور ان سب پر ابوبکر صدیق (رض) کو پھر حضرت عمر (رض) حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کو۔ یہخیال کرو کہ اگر تم لوگوں پہ ہمیشہ کے لیے رات ہی طاری کردی جاتی تو کتنی نعمتوں سے تمہاری حیات محروم ہوجاتی۔ بھلا کسی میں ہمت ہے کہ رب جلیل کے علاوہ تمہیں روشنی مہیا کرتا اور دن پیدا کردیتا پھر تمہیں کیا ایسی باتیں سنائی ہی نہیں دیتیں اور اگر اللہ ہمیشہ کے لیے دن کردیتے سورج کبھی غروب ہی نہ ہوتا قیامت تک دن ہی دن چلا جاتا تو کوئی ایسا معبود اللہ کے بغیر تھا جو تمہیں رات کے آرام مہیا کرتا اور رات کا سکون واپس لا دیتا۔ کیا یہ حقائق تمہاری نظر میں نہیں آتے ۔ یہ تو اس کا کرم ہے کہ کاروبار حیات کے لیے دن بخشا اور سکون و آرام کے لیے رات عطا فرما دی اور اتنے انعامات اس لیے بخشے کہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ وہ دن آنے والا ہے جب اعلان ہوگا کہ لوگو ! کہاں ہیں تمہارے معبودان باطلہ جن کو تم اللہ کے برابر سمجھ بیٹھے تھے۔ اور ہر امت سے ان پر گواہ بھی لائیں گے یعنی ہر امت کا نبی جو تم تک حق کے پہنچنے کی گواہی دے گا اور ارشاد ہوگا کہ اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو تب انہیں معلوم ہوگا اللہ کی بات ہی حق ہے اور جو کچھ انہوں نے زندگی بھر خرافات جمع کی تھیں ان کا کوئی پتہ ہی نہ مل سکے گا۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد پہلے شخص سے مومن ہے جس سے جنت کا وعدہ ہے، اور دوسرے سے مراد کافر ہے جو مجرم ہو کر آوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا مشرکین سے خطاب اور یہ سوال کہ جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا وہ کہاں ہیں ؟ مذکورہ بالا سات آیات ہیں۔ پہلی آیت میں آخرت کے انجام کے اعتبار سے مومن اور کافر کا فرق بتایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ ایک تو وہ شخص ہے جس سے ہم نے اچھا وعدے کر رکھا ہے کہ اس کو ایمان اور اعمال صالحہ کی ... وجہ سے ابدی نعمتیں ملیں گی، اور ایک وہ شخص ہے جو مومن نہیں ہے لیکن اسے ہم نے دنیا والی زندگی کا سامان دے رکھا ہے جسے وہ استعمال کرتا ہے دنیا میں تو بظاہر کامیاب سمجھا جاتا ہے لیکن کیونکہ وہ کافر ہے اس لیے وہ قیامت کے دن گرفتار ہو کر آئے گا۔ اور پھر دوزخ میں چلا جائے گا۔ غور کرنے والے غور کریں اور سمجھنے والے بتائیں کیا یہ مومن اور کافر برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس میں جہاں کافروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ چند روزہ زندگی اور سامان عشرت پر نہ اترائیں وہاں مسلمانوں کو بھی بتادیا گیا ہے کہ کافروں کے سامان کی طرف نظریں نہ اٹھائیں یہ تھوڑے دن کی حقیر دنیا ہے اس کو دیکھ کر للچانا ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہرگز کسی فاجر کی نعمت پر رشک نہ کر، کیونکہ تجھے معلوم نہیں کہ موت کے بعد کس چیز سے ملاقات کرنے والا ہے بیشک اللہ کے نزدیک اس کے لیے ایک قاتل ہے جسے کبھی موت نہ آئے گی یعنی دوزخ۔ (اس میں داخل ہوگا اور چھٹکارہ کا کوئی راستہ نہ ہوگا) ۔ دوسری آیت سے لے کر چھٹی آیت کے ختم تک مشرکین اور کافرین سے جو خطاب ہوگا اس کا ذکر ہے۔ اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے پکار کر سوال فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں ؟ جنہیں تم میرا شریک سمجھ رہے تھے اس کے جواب میں ان کے گمراہ کرنے والے شیاطین جن کے بارے میں یہ طے ہوچکا ہے کہ انہیں دوزخ میں جانا ہی ہے یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب بیشک یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا ہم نے انہیں ایسے ہی بہکایا جیسے ہم بہکے تھے یعنی نہ ہم پر کسی نے کوئی زبردستی کی تھی نہ ہم نے ان پر زبردستی کی، ہم گمراہ ہوئے انہیں بھی گمراہی کی باتیں بتائیں انہوں نے بات مان لی۔ دنیا میں ہم نے انہیں گمراہی پر لگایا اور یہ بھی ہماری باتوں میں آگئے اب یہاں تو ہم آپ کے حضور میں ان سے بیزار ہیں جب بہکانے والے اور گمراہ کرنے والے اپنے متبعین سے بیزاری ظاہر کریں گے تو وہ یوں کہیں گے کہ اگر ہمیں دنیا میں واپس جانا نصیب ہوجاتا تو ہم بھی ان سے بیزاری ظاہر کرتے (کما فی سورة البقرۃ) ۔ (وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا) بہکانے والے ساتھ ہی یوں بھی کہیں گے (مَا کَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ ) کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے (یہ حقیقت میں اپنی خواہشوں کے بندے تھے گمراہی کی باتیں ان کی خواہشوں کے مطابق تھیں لہٰذا انہیں قبول کرلیا اور وہ اپنی بربادی کا سبب خود بنے) مشرکین سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جنہیں تم اپنے خیال میں ہمارا شریک سمجھتے تھے انہیں پکارو ! وہ حیرانی کے عالم میں انہیں پکاریں گے لیکن وہ ان کی بات کا جواب نہ دیں گے وہ اپنی ہی مصیبت میں مبتلا ہوں گے کسی کو کیا جواب دیں۔ (وَ رَاَوُا الْعَذَابَ ) (اور گمراہی کی دعوت دینے والے اور جنہیں گمراہی کی دعوت دی گئی عذاب کو دیکھ لیں گے) (لَوْ اَنَّھُمْ کَانُوْا یَھْتَدُوْنَ ) (اس وقت وہ آرزو کریں گے کہ ہائے کاش ہم دنیا میں ہدایت پر ہوتے) اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ کاش اس وقت کوئی ایسی تدبیر جان لیتے جس سے یہ عذاب دفع ہوسکتا۔ اگر کوئی تدبیر ہوتی تو اس کو اختیار کرلیتے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ استفہام انکاری ہے۔ ایک وہ مومن ہے جس سے اللہ نے جنت اور نعیم دائم کا وعدہ فرمایا ہے اور لا محالہ وعدے کے مطابق اسے سب کچھ ملنے والا ہے اور ایک وہ مشرک ہے جو دولت ایمان سے محروم ہے لیکن دنیوی ساز و سامان اور دولت و ثروت سے مالا مال ہے اور آخر قیامت کے دن عذاب جہنم میں مبتلا ہونے والا ہے۔ کیا یہ ... دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61۔ آگے قیامت کی مختصر تفصیل ہے بھلا ایک وہ شخص جس سے ہم نے ایک اچھا اور پسندیدہ وعدہ کررکھا ہے پھر وہ شخص اس وعدے کی چیز سے ملنے والا اور اس وعدے کو پانے والا بھی ہے کیا ایسا شخص اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا کچھ سامان برتنے کو دے رکھا ہے پھر وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں سے ہونے و... الا ہے جو مجرمانہ حیثیت سے پیش کئے جانے والے ہیں ۔ شاید حضرت علی اور حضرت حمزہ (رض) اور ابو جہل کے مابین سخت گفتگو ہوئی تھی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی یا شاید عمار بن یاسر (رض) ، اور ولید بن مغیرہ کی باہمی تکرار کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ بہر حال ! ایک مومن کامل اور دنیادار کافر کے مابین جو فرق ہے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک شخص وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور وہ چیزیں حسب وعدہ اس کو ملنے والی بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تو یہ شخص یعنی مومن اس کافر جیسا کیسے ہوسکتا ہے جس کو کچھ سامان عیش دنیوی زندگی میں برتنے کو دے رکھا ہے اور وہ قیامت کے دن پکڑا ہواحاضر کیا جائیگا ۔ اور ان مجرموں سے ہوگا جن کو گرفتار کرکے حاضر کیا جائے یعنی ایک مومن کامل اور دین حق کا منکر دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ کہاں ایک بد کردارمجرم اور کہاں ایک شاہی مہمان دونوں میں مساوات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ، آگے مومن اور مجرم کے حالات کا ذکر ہے۔  Show more