Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 75

سورة القصص

وَ نَزَعۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا فَقُلۡنَا ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ فَعَلِمُوۡۤا اَنَّ الۡحَقَّ لِلّٰہِ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿٪۷۵﴾  10

And We will extract from every nation a witness and say, "Produce your proof," and they will know that the truth belongs to Allah , and lost from them is that which they used to invent.

اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ الگ کرلیں گے کہ اپنی دلیلیں پیش کرو پس اس وقت جان لیں گے کہ حق اللہ تعالٰی کی طرف ہے اور جو کچھ افترا وہ جوڑتے تھے سب ان کے پاس سے کھو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ... And We shall take out from every nation a witness, Mujahid said, "This means a Messenger." ... فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ... and We shall say: "Bring your proof." meaning, `of the truth of your claim that Allah had any partners.' ... فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ ... Then they shall know that the truth is with Allah, meaning, that there is no god besides Him. Then they will not speak and they will not be able to find any answer. ... وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ and the lies which they invented will disappear from them. they will vanish and will be of no benefit to them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

751اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کردیں گے۔ 752یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔ 753یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہونگے، کوئی جواب اور دلیل انھیں نہیں سوجھے گی۔ 754یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] یہ گواہ وہ شخص ہوگا جس کے ذریعہ اللہ کا پیغام اس قوم یا گروہ کو پہنچا ہو۔ خواہ وہ کوئی پیغمبر ہو یا کوئی دوسرا بزرگ ہو۔ اور وہ گواہ اس بات کی گواہی دے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ [١٠٠] اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقعہ دیا جائے گا کہ وہ اس گواہی کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد بھی جو شرک میں ہی مبتلا رہے تو اس بات کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ اور اگر ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کرتے ؟ دلیل سے یہاں مراد کسی الٰہامی کتاب یا کتاب و سنت سے کی دلیل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی فلاں فلاں قسم کے اختیارات اپنے فلاں بندوں یا فلاں قسم کے بندوں کو تفویض کر رکھے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے سب اجتہادات، استنبا طات اور کج بحثیوں بھول جائیں گی۔ اس لئے کہ شریعت کے واضح احکام کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال اور مکاشفات کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ نہ ہی ایسی باتیں شرعی دلیل کہلا سکتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا : اس گواہ سے مراد وہ نبی ہے جس نے کسی امت کو حق کا پیغام پہنچایا اور اس کی امت کے وہ لوگ بھی جنھوں نے پیغمبر کے بعد لوگوں کو دین کی تبلیغ کی۔ اسی طرح ہر وہ ذریعہ بھی جس سے کسی قوم یا شخص تک حق کا پیغام پہنچا۔ وہ گواہ گواہی دے گا کہ میں نے ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ دوسری جگہ فرمایا : ( وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) [ الزمر : ٦٩ ] ” اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۔۔ : اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اس کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہیں کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد جو شرک ہی پر قائم رہے، اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔ تو اس وقت انھیں معلوم ہوجائے گا کہ سچی بات اللہ کی ہے، عبادت اسی کا حق ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور انھوں نے جو شریک بنائے تھے اور دنیا میں جو حجت بازی کرتے تھے، سب کچھ ان سے گم ہوجائے گا، نہ کوئی شریک ہاتھ آئے گا نہ اسے شریک بنانے کی کوئی دلیل پیش کرسکیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلہِ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ٧٥ۧ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) اور ہم ہر امت میں سے ایک ایک نبی بھی نکال کر لائیں گے جو دنیا میں ان امتوں کے اندر بھیجا گیا تھا اور وہ احکام خداوندی پہنچانے کی گواہی دے گا پھر ہم ان مشرکین سے کہیں گے کہ اپنی کوئی دلیل پیش کرو کہ تم نے انبیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو کیوں جھٹلایا تو ہر ایک امت جان جائے گی کہ سچی بات دین خداوندی اور عبادت خداوندی تھی اور ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق اللہ ہی کو ہے اور دنیا میں جو جھوٹے معبودوں کی پوجا کرتے تھے آج کسی کا پتا نہیں رہے گا

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (وَنَزَعْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا) ” یہ مضمون دو مرتبہ سورة النحل (آیت ٨٤ اور ٨٩) میں بھی آیا ہے ‘ لیکن سورة النساء کی یہ آیت تو گویا اس مضمون کا ذروۂ سنام ہے : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ” تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کو لائیں گے ہم ان پر گواہ بنا کر “۔ جو پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہوگا وہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کا گواہ (prosecution witness) بن کر گواہی دے گا کہ اے اللہ ! تیری طرف سے جو ہدایت مجھ تک پہنچی تھی میں نے وہ اپنی قوم تک پہنچا دی تھی۔ (فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ ) ” پھر متعلقہ امت سے پوچھا جائے گا کہ اب تم لوگ بتاؤ تمہارا کیا معاملہ تھا ؟ ہمارے رسول نے تو گواہی دے دی ہے کہ اس نے میرا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ اب اس سلسلے میں تمہارا کوئی عذر ہے تو پیش کرو۔ (فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰہِ ) ” کہ فیصلہ تو اب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی حق ہوگا۔ چناچہ انہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ (وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ” گویا ع ” جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا ! “ جب دوسری دنیا میں ان کی آنکھ کھلے گی تو ان کے خود ساختہ عقائد ‘ من گھڑت معبودوں کے بارے میں ان کے خوش کن خیالات وغیرہ سب ان سے گم ہوچکے ہوں گے اور اس کیفیت میں عذاب کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92 A witness": the Prophet who had warned that community, or a rightly-guided person from among the followers of the Prophets, who had performed the duty of preaching the Truth in the community, or a means through which the message of the Truth had reached the community . 93 That is, "Present a cogent argument in your defence so that you are pardoned. You should either prove that the shirk and the denial of the Hereafter and Prophethood in which you persisted were the correct creed and you had adopted it on rational grounds, or, if you cannot do that, you should at least prove that no arrangement had been made by God to warn you of this error and guide you to the right path."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 92 یعنی وہ نبی جس نے اس امت کو خبردار کیا تھا ، یا انبیاء کے پیرووں میں سے کوئی ایسا ہدایت یافتہ انسان جس نے اس امت میں تبلیغ حق کا فریضہ انجام دیا تھا ، یا کوئی ایسا ذریعہ جس سے اس امت تک پیغام حق پہنچ چکا تھا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 93 یعنی اپنی صفائی میں کوئی ایسی حجت پیش کرو جس کی بنا پر تمہیں معاف کیا جاسکے ، یا تو یہ ثابت کرو کہ تم جس شرک ، جس انکار آخرت اور جس انکار نبوت پر قائم تھے وہ برحق تھا اور تم نے معقول وجوہ کی بنا پر یہ مسلک اختیار کیا تھا ، یا یہ نہیں تو پھر کم از کم یہی ثابت کردو کہ خدا کی طرف سے تم کو اس غلطی پر متنبہ کرنے اور ٹھیک بات تم تک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٥۔ صحیح بخاری ماجہ اور مسند امام احمد میں حضرت ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ہے وہ حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہے حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ قیامت کے دن جب نبی اور ان کی امتیں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوں گی تو پہلے ہر ایک امت کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم کو تمہارے نبی نے اللہ کا حکم دنیا میں پہنچا دیا تھا پہلے تو مشرک لوگ اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کریں گے چناچہ اس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گذرا پھر جو لوگ دنیا میں اللہ کے رسول سے مخالفت کرتے ہیں وہ وہاں بھی اللہ کے رسول کی مخالفت میں جواب دیں گے اور اللہ سے یہ کہویں گے کہ یا اللہ ہم کو کسی نبی نے تیرا کوئی حکم نہیں پہنچایا اس پر اللہ تعالیٰ ہر ایک نبی سے دریافت فرمائے گا کہ کیوں تم نے ان لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا یا نہیں وہ عرض کریں گے ہاں ہم نے تو ان کو یا اللہ تیرا حکم ہر طرح پہنچا دیا تھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا بھلا تمہارا کوئی گواہ بھی ہے وہ کہویں گے نبی آخر الزماں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت ہماری گواہ ہیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے نیک لوگ گواہی دے دیں گے یا اللہ ہر ایک نبی نے بیشک تیرا حکم اپنی امت کے لوگ کو پہنچا دیا اللہ تعالیٰ ان گواہی دینے والوں سے پوچھے گا کہ تم کو کیا خبر کہ ایک نبی نے اپنی امت کو اللہ کا حکم پہنچا دیا وہ جواب دیویں گے کہ دنیا میں ہمارے رسول نبی آخرالزماں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے موافق ہم کو یہ خبردی ہے کہ ہر ایک نبی نے اپنی امت کو اللہ کے حکم پہنچا دیا اس لیے ہم کو اپنے رسول کی ہر ایک بات پر پورا بھر وسا ہے اور ہمارے دل میں اس بات کا یقین ہے کہ رسول اللہ نے اپنی امت کو اللہ کے حکم پہنچا دیا اس لیے ہم کو اپنے رسول کی ہر ایک بات پر پورا بھروسا ہے اور ہمارے دل میں اس بات کا یقین ہے کہ ہر نبی نے اللہ کا ہر طرح کا حکم اپنی امت کو پہنچادیا حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہوئے ہیں اس لیے بعضی روایتوں میں فقط حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کی امت کا ہی ذکر ہے لیکن سب روایتوں کے اور سورة اعراف کی آیت فلنسئل الذین ارسل الیھم وَلَنَسْئَلَنَّ المر سلین کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کی امت کی کچھ خصوصیت نہیں ہے سب نبی اور امتوں کے ساتھ یہ ہی معاملہ گزرے گا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے فقط اسی سبب سے تنہا حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کی امت کا ذکر بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ سب سے اول صاحب شریعت نبی ہیں اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے گواہی شاہدی سے کسی چیز کو جاننے کی اس کو کچھ ضرورت نہیں لیکن اس حدیث میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ گواہی قیامت کے دن فقط منکر لوگوں کے قائل کرنے کے لیے ہوگی اس گواہی شاہدی سے یہ مطلب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جزا سزا کا مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا اس لیے قیامت کے دن اس گواہی شاہدی کے بعد جب اللہ تعالیٰ منکر لوگوں سے فرمادے گا کہ تمہارے پاس اور کوئی سند اس انکار کی تصدیق میں ہو تو پیش کرو اس پر بعضے منکر جو عذر کریں گے اس کا ذکر صحیح مسلم میں انس بن مالک کی روایت ١ ؎۔ ایک سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز ہنس کر فرمایا قیامت کے دن ایک شخص اس طرح کے سوال جوا اب میں اللہ تعالیٰ سے کہے گا کہ جس پر ہنس آتی ہے پھر فرمایا وہ شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا یا اللہ کیا تیرا انصاف مجھ کو ظلم سے بچانے کا مقتضی نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرمادے گا کہ ضرور میرا انصاف ظلم سے ہر ایک شخص کے مو نہہ پر مہر لگادے گا اور اس شخص کے ہاتھ پیروں کو گویائی عنایت فرماے گا اور ہاتھ پیر جو کچھ اس شخص نے دنیا میں کیا ہے وہ سب بیان کر دیویں گے اس ہاتھ پیروں کی گواہی کے بعد ایسے لوگ اپنے ہاتھ پیروں کو برا بھلا کہویں گے اور اپنے جھوٹے عذروں کو چھوڑ کر لاچار اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوجاویں گے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ ان کی امت قیامت کے دن اللہ کے روبرو شہادت ادا کرے گی اور اللہ تعالیٰ ان کی گواہی کو قبول فرمادے گا چناچہ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ ٢ ؎ میں صحیح روایتیں ہیں جن میں بڑی خوشی اور فخر سے آپ نے اس گواہی کا ذکر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ امت کے لوگوں کو یہ توفیق دیوے کہ وہ اپنی رسول (رض) کی پوری فرما نبرداری کرکے اپنے آپ کو اس گواہی کے قابل بنادیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:75) نزعنا۔ ماضی جمع متکلم۔ نزع (فتح) مصدر ہم نکال لیں گے (ماضی بمعنی مستقبل) نزع الشیء کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں۔ یا باہر نکال لانا۔ اس کا عطف ینادیہم پر ہے ای یوم نزعنا ۔۔ شھیدا۔ شاہد۔ گواہ۔ جو ان کے متعلق شہادت دے کر وہ کیا کرتے رہے ہیں دنیا میں ۔ مراد یہاں انبیاء (علیہم السلام) ہیں جو جو اپنی اپنی امت کے کفر پر گواہی دیں گے۔ فقلنا ھاتوا برھانکم۔ فا ضمیر جمع متکلم۔ اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور مخاطبین امتیں ہیں۔ ای فقلنا لکل من تلک الامم ان امتوں میں سے ہر ایک سے ہم کہیں گے کہ لاؤ اپنی کوئی دلیل یا عذر (یعنی اپنی صفائی میں تم بھی کوئی دلیل پیش کرو) ھاتوا۔ اسم فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاجر ۔ تم لاؤ۔ تم پیش کرو۔ ان الحق للہ کے معنی دو ہوسکتے ہیں :۔ (1) ان الحق فی الا لوھیۃ للہ۔ بیشک خدائی کا حق صرف اللہ کو ہے۔ (2) بیشک سچی بات اللہ ہی کی تھی۔ ضل عنھم ماکانوا یفترون : ضل عن گم ہوجانا۔ غائب ہوجانا۔ ضائع ہوجانا ما موصولہ ہے۔ کانوا یفترون۔ وہ افترا باندھا کرتے تھے۔ وہ دروغ باقی کیا کرتے تھے۔ وہ بہتان باندھا کرتے تھے ۔ یعنی وہ من گھڑت جھوٹے سہارے جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔ سب ان سے غائب ہوجائیں گے۔ اور کنارہ کر جائیں گے۔ اور کوئی بھی ان کے کام نہ آئے گا۔ فبغی علیہم : البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا خواہ وہ تجاوز ہوسکے یا نہ ۔ بغی کا استعمال محمود اور مذموم ہر دو قسم کے تجاوز کے لئے ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں اکثر جگہ مذموم کے معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ بغی علی۔ مذموم معنی میں آیا ہے کسی پر تعدی کرنا۔ کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔ مثلاً فان بغت احدھما علی الاخری (49:9) اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے۔ انہی معنوں میں اس کا استعمال آیت ہذا میں ہے۔ فبغی علیہم۔ یعنی قارون نے قوم موسیٰ یعنی بنی اسرائیل (جن میں سے وہ کود بھی تھا) سے تعدی اور تکبر سے پیش آتا تھا۔ الکنوز۔ کنز کی جمع ۔ خزانے۔ بکشرت جمع کیا ہوا۔ مال۔ سونا۔ چاندی۔ کنز مصدر بھی ہے کنز یکنز (ضرب) سے۔ جس کے معنی ہیں دولت جمع کرکے اسے محفوظ رکھنا۔ یہ عربی محاورہ ہے کنزت المترفی الوعاء (میں نے کھجوروں کو برتن میں بھر کر محفوظ کرلیا۔ سے مشتق ہے۔ حدیث شریف میں ہے کل مال لا یؤدی زکوتہ فھو کنز۔ جس مال کی زکوۃ نہ دی جائے وہ کنز ہے۔ ما ان مفاتحہ۔ میں ما بمعنی الذی۔ موصولہ ہے۔ مفاتحہ ان کا اسم اور لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ۔ خبر ہے ان کی۔ مفاتحہ مضاف مجاف الیہ ای مفاتح صنادیقہ یہ مفتح کی جمع ہے وہ آلہ جس سے صندوق کے تالے کو کھولا جائے بمعنی مفاتیح جس کی واحد مفتاح ہے یا یہ مفتح (جمع کیا ہوا خزانہ) کی جمع ہے۔ ترجمہ : کہ جس کے تالوں کی چابیاں ّاپنے بوجھ سے) ایک طاقت ود جتھے (کی کمروں) کو جھکا دیتی تھیں۔ لتنوء ب مضارع واحد مؤنث غائب۔ ناء ینوء (نصر) نوء وتنواء سے بمعنی بھاری ہونا۔ یا بوجھ کے مارے گرے جانا۔ باء تعدیہ کے لئے ہے جیسے ذھبت بہ یعنی (اپنے بوجھ سے) جھکا دینا۔ گرا دینا۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ العصبۃ۔ جماعت۔ گروہ۔ جتھہ۔ اولی القوۃ : اولی۔ والے ۔ بحالت نصب و جر۔ اولوا بحالت رفع۔ جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ قوت والے۔ طاقت ور۔ زور آور۔ اذ قال لہ قومہ : ای اذکر اذ قال لہ قومہ۔ لا تفرح فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر۔ تو مت خوش ہو۔ تو مت اتراء فرح (باب سمع) مصدر۔ الفرحین : فرح کی جمع ۔ حالت نصب بوجہ مفعول۔ خوش ۔ اترانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس نے اس امت تک پیغام حق پہنچایا تھا کھڑے ہو کر گواہی دیگا کہ اس کی امت نے کہاں تک اس پیغام کو قبول کیا اور کہاں تک رد کردیا۔ اس احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آخر کار امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان انبیا ( علیہ السلام) کی شہادت کی تصدیق کے لئے پیش کیا جائے گا۔ دیکھئے سورة نساء آیت 41 ۔ (قرطبی) 7 ۔ جس کی بنا پر تم معافی کے مستحق قرار دے جا سکو۔ یا یہ ثابت کرو کہ واقعی ہمارے کچھ شریک تھے جو بندگی کے اسی طرح مستحق تھے جیسے ہم۔ (ابن کثیر) 8 ۔ ” جتنی جھوٹی باتیں انہوں نے گھڑ رکھی تھیں کافور ہوجائیں گی۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اس سے انبیاء میں کہ وہ ان کے کفر کی گواہی دیں گے۔ 5۔ کیونکہ انکشاف حق کے لئے باطل کا غائب ہوجانا لازم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ شہیدًا سے ہر امت کا نبی مراد ہے جو اپنی امت کے بارے میں بیان دے گا کہ اس نے اپنی امت کو دعوت پہنچا دی اور جب اس نے اپنی امت کو توحید کی دعوت دی امت نے کیا جواب دیا۔ یعنی نبی ہم لان الانبیاء للامم شہداء علیہم یشہدون بما کانوا علیہ (مدارک ج 3 ص 187) ۔ والشہید یشہد علی تلک المۃ بما صدر منہا وما اجابت بہ لما دعیت الی التوحید وانہ قد بلغہم رسالۃ ربہم (بحر ج 7 ص 131) ۔ ٖ 70:۔ مشرکین کو حکم ہوگا دنیا میں تم جو کچھ کفر و شرک تم کرتے رہے اس کی صحت پر کوئی دلیل یا اپنے جرائم و معاصی کے لیے کوئی عذر ہو تو پیش کرو۔ لیکن ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہوگی نہ عذر اس لیے اب انہیں عین الیقین حاصل ہوجائے گا کہ الوہیت اور کارسازی کا حق تو اللہ تعالیٰ ہی کو تھا ہم بلا دلیل غیروں کو کارساز سمجھتے رہے۔ ان الحق للہ فی الالوھیۃ لا یشار کہ سبحانہ فیھا احد (روح ج 20 ص 109) ۔ غیر اللہ کو کارساز اور سفارشی سمجھنے کے من گھڑت خیال کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہوگا اور ان کی تمام آرزوئیں باطل ہو کر رہ جائیں گی۔ ماکانوا یفترون من الوھیۃ غیر اللہ والشفاعۃ لھم (مدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75۔ اور ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ اور احوال بتانے والا نکال لائیں گے ، پھر ہم ان مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اپنے شرک کے جواز پر دلیل پیش کرو اور اپنی دلیل لائو تب ان کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ سچی بات اللہ تعالیٰ ہی کی تھی اور جو افترا پر دازیاں وہ کیا کرتے تھے وہ سب ان سے گم ہوجائیں گی اور سب کھوئی جائیں گی ۔ یعنی گواہ ہر امت میں سے میدان حشر میں ایک ایک گواہ لا کھڑا کریں گے پھر مشرکوں سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کفر کے دعوے کی صحت پر کوئی دلیل بیان کرو ، اس وقت وہ جان سکیں گے اور ان کو عین الیقین ہوجائے گا کہ بات وہی سچی تھی جو اللہ کی طرف سے تھی اور وہی دین حق تھا جو پیغمبر لے کر آئے تھے اور جو باتیں وہ دنیا میں بناتے تھے اور جو افترا پردازیاں وہ یہاں کیا کرتے تھے ، اس دن سب بھول جائیں گے اور کوئی بات بن نہ پڑیگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں احوال بتانے والا پیغمبر یا ان کے نائب جو نیک بخت تھے۔ 12