Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 83

سورة القصص

تِلۡکَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ نَجۡعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۸۳﴾

That home of the Hereafter We assign to those who do not desire exaltedness upon the earth or corruption. And the [best] outcome is for the righteous.

آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں پرہیزگاروں کے لئے نہایت ہی عمدہ انجام ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Blessings of the Hereafter for the humble Believers Allah tells: تِلْكَ الدَّارُ الاْخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لاَ يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الاَْرْضِ وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ That is the home of the Hereafter, We shall assign to those who do not want to exalt themselves in the land nor cause corruption. And the good end is for those who have Taqwa. Allah tells us that He has made the home of the Hereafter, and its eternal delights which will never change or fade away, for His believing, humble servants who do not rebel against the truth with pride and oppression in the land. They do not exalt themselves above the creatures of Allah, arrogantly oppressing them and spreading corruption among them. Ikrimah said that this phrase referred to haughtiness and arrogance. Ibn Jurayj said: لاَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الاْاَرْضِ (those who do not want to exalt themselves in the land) Arrogance and tyranny, وَلاَ فَسَادًا (nor cause corruption) committing sins. Ibn Jarir recorded that Ali said, "If a man wants the straps of his sandals to be better than the straps of his companion's sandals, then he is one of those referred to in the Ayah, تِلْكَ الدَّارُ الاْخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لاَ يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الاَْرْضِ وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ That is the home of the Hereafter, We shall assign to those who do not want to exalt themselves in the land nor cause corruption. And the good end is for those who have Taqwa. This is understood to mean that if his intention is to show off and appear better than others, then that is to be condemned, as it was reported in the Sahih that the Prophet said: إِنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لاَ يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ وَلاَ يَبْغِي أَحَدٌ عَلَى أَحَد It has been revealed to me that you should be humble to the extent that none of you boasts to others or mistreats others. But if a person simply likes to look good, then there is nothing wrong with that. It was recorded that a man said: "O Messenger of Allah, I like to have my garment looking good and my shoes looking good -- is this a kind of arrogance" The Prophet said: لاَا إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَال No, for Allah is beautiful and loves beauty... And Allah says:

جنت اور آخرت فرماتا ہے کہ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی جن کے دل خوف الٰہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی تواضع فروتنی عاجزی اور اخلاق کے ساتھ گزاردیں ۔ کسی پر اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیلائیں سرکشی اور برائی نہ کریں ۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانیاں نہ کریں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی اسی آیت میں داخل ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور کرے ۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ !میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔ پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی لائے گا وہ بہت سی نیکیوں کا ثواب پائے گا ۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ صرف اسی کے مطابق سزا ہے ۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ۭ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 90؀ ) 27- النمل:90 ) جو برائی لے کر آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا ۔ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

831علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیثی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] عَلَوْا بمعنی سربلند، متکبر، مغرور یعنی وہ بڑا بن کر نہیں رہتے نہ دوسروں کو دبا کر رکھتے ہیں بلکہ متواضع اور منکسر المزاج بن کر اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے آخرت کا گھر مختص ہے۔ سربلندی اور ناموری چاہنے والوں اور متکبر بن کر رہنے والوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔ [١١٣] فساد کے لفظ کا اطلاق عموماً چوری، ڈاکہ، غصب، غبن لوٹ مار اور قتل و غارت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح فساد فی الارض کے معنوں میں اس سے بہت زیادہ وسعت ہے یعنی وہ کام جس میں انسان اپنے حق سے تجاوز کر رہا ہو یا دوسرے کے حق پامال کررہا ہو وہ فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ قارون کے قصہ میں اللہ نے قارون کو فساد فی الارض کا مجرم قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ نہ چوری کرتا تھا نہ لوٹ مار، نہ قتل و غارت ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کا فساد فی الارض یہ تھا کہ اس کے مال میں دوسروں کا حق شامل تھا وہ اسے ادا نہیں کر رہا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دھوکے سے یا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچ رہا ہے۔ تو اگرچہ معاشرہ اسے فسادی نہیں سمجھتا لیکن شرعی لحاظ سے وہ فسادی ہے۔ کیونکہ اس نے فریب یا جھوٹی قسم کے ذریعہ چیز کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرکے خریدار کو نقصان پہنچایا یا اس کا حق غصب کیا ہے گویا فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجہ میں لازماً رونما ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر احکام الٰہی سے تجاوز کرتے ہوئے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ فساد ہی فساد ہے اور سب سے بڑا فساد اللہ کی حق تلفی یا شرک ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ۔۔ : ” عُلُوًّا “ کا لفظی معنی اونچا ہونا ہے، مراد اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا ہے۔ ” َا فَسَادًا “ کا لفظی معنی خرابی ہے، عام طور پر یہ لفظ چوری، ڈاکے، غصب، لوٹ مار، قتل و غارت اور لوگوں کا حق مارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مراد اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے، خواہ کوئی بھی ہو، کیونکہ اسی سے زمین میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑا فساد اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ 3 آخرت کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آخری گھر جس کا ذکر تم سنتے رہتے ہو، ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو صرف یہ نہیں کہ تکبر اور سرکشی اختیار نہیں کرتے اور فساد فی الارض کا ارتکاب نہیں کرتے، بلکہ ان دونوں کاموں کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ مطلب یہ کہ دار آخرت میں فرعون، قارون اور ان جیسے لوگوں کا کوئی حصہ نہیں، جن کی زندگی سراسر علو اور فساد ہو۔ 3 عیاض بن حمار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن خطبہ دینے کے لیے ہم میں کھڑے ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی باتیں بیان فرمائیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَ إِنَّ اللّٰہَ أَوْحٰی إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَا یَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ وَلَا یَبْغِيْ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب الصفات التي یعرف بھا في الدنیا أھل الجنۃ و أھل النار : ٦٤؍٢٨٦٥ ] ” اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ عاجزی اختیار کرو، حتیٰ کہ کوئی شخص کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص کسی پر سرکشی نہ کرے۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَ نَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ] ” وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً اللہ جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے، تکبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ : اور اچھا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور ہر قسم کے کبر اور فساد سے بچ کر رہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لِلَّذِينَ لَا يُرِ‌يدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فَسَادًا (We assigned it to those who intend neither haughtiness on earth nor mischief. - 28:83). This verse tells us that only those will achieve salvation and success in the Hereafter who do not intend any mischief, nor are indulged in عُلُوًّا ` Uluww in this world. عُلُوًّا ` Uluww means pride or conceit, that is, to present oneself as superior before others, and to look down upon others and treat them in an insulting manner. Mischief is used here for oppression. (Sufyan Ath-Thauri). Some commentators have observed that every sin is a &mischief in the world&, because the nuisance of the sin curtails the blessings of the world. This verse tells us that those who intend to do cruelty and feel proud, or commit sin have no share in the Hereafter. Special Note Arrogance and conceit as condemned in this verse, is the behavior in which one shows off as being superior, and looks down upon others. Otherwise to strive for oneself a good dress, a good house, and good food, when it is not intended to show off, is no sin, as reported in a hadith in Sahih Muslim. Firm intention to commit a sin is also sin It is clarified in this verse that the intention for mischief and pride will debar one from the share of Hereafter. It is, therefore, clear that the firm intention of a sin is as much a sin. (Ruh) However, if one changes his mind for fear of Allah, then a reward is noted in his record instead of sin. But if he fails to act on that sin, due to reasons beyond his control, while he had firm intention to act upon it, then the sin stays against his name, and will be recorded as such. (Ghazzali) The last verse وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (And the (best) end is for the God-fearing - 28:83) elaborates that it is not enough to abstain from mischief and pride to get the share of the Hereafter, but following the righteous path is as much a requirement. To follow all the religious obligations is also essential for the salvation in the Hereafter.

خلاصہ تفسیر یہ عالم آخرت (جس کے ثواب کا مقصود ہونا اوپر (ثَوَاب اللّٰهِ خَيْرٌ میں بیان ہوا ہے) ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا (یعنی نہ تکبر کرتے ہیں جو باطنی گناہ ہے اور نہ کوئی ظاہری گناہ ایسے کرتے ہیں جس سے زمین میں فساد برپا ہو) اور صرف ان باطنی اور ظاہری برائیوں سے بچنا کافی نہیں بلکہ) نیک نتیجہ متقی لوگوں کو ملتا ہے، (جو برائیوں سے اجتناب کے ساتھ اعمال صالحہ کے بھی پابند ہوں اور کیفیت اعمال پر جزا و سزا کی یہ ہوگی کہ) جو شخص (قیامت کے دن) نیکی لے کر آوے گا اس کو اس (کے متقضا) سے بہتر (بدلہ) ملے گا (کیونکہ نیک عمل کا اصل مقتضی تو یہ ہے کہ اس کی حیثیت کے موافق عوض ملے مگر وہاں اس سے زیادہ دیا جاوے گا جس کا کم سے کم درجہ اس کی حیثیت سے دس گنا ہے) اور جو شخص بدی لے کر آوے گا سو ایسے لوگوں کو جو بدی کا کام کرتے ہیں اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا وہ کرتے تھے (یعنی اس کے مقتضی سے زیادہ بدلہ سزا کا نہ ملے گا۔ ) معارف و مسائل لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا، اس آیت میں دار آخرت کی نجات و فلاح کو صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا گیا ہے جو زمین میں علو اور فساد کا ارادہ نہ کریں۔ علو سے مراد تکبر ہے یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا بنانے اور دوسروں کو حقیر کرنے کی فکر۔ اور فساد سے مراد لوگوں پر ظلم کرنا ہے (سفیان ثوری) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر معصیت فساد فی الارض ہے کیونکہ گناہ کے وبال سے دنیا کی برکت میں کمی آتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ تکبر اور ظلم کا یا مطلق معصیت کا ارادہ کریں ان کا آخرت میں حصہ نہیں۔ فائدہ : تکبر جس کی حرمت اور وبال اس آیت میں ذکر کیا گیا وہ وہی ہے کہ لوگوں پر تفاخر اور ان کی تحقیر مقصود ہو، ورنہ اپنے لئے اچھے لباس اچھی غذا اچھے مکان کا انتظام جب وہ دوسروں کے تفاخر کے لئے نہ ہو مذموم نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے۔ معصیت کا پختہ عزم بھی معصیت ہے : اس آیت میں علو اور فساد کے ارادہ پر دار آخرت سے محروم ہونے کی وعید ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت کا پختہ ارادہ جو عزم مصمم کے درجہ میں آجائے وہ بھی معصیت ہی ہے (کما فی الروح) البتہ اگر پھر وہ خدا کے خوف سے اس ارادہ کو ترک کر دے تو گناہ کی جگہ ثواب اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے اور اگر کس غیر اختیاری سبب سے اس گناہ پر قدرت نہ ہوئی اور عمل نہ کیا مگر اپنی کوشش گناہ کے لئے پوری کی تو وہ بھی معصیت اور گناہ لکھا جائے گا (کما ذکرہ الغزالی) آخر آیت میں فرمایا والْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ اس کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی نجات اور فلاح کے لئے دو چیزوں علو اور فساد سے اجتناب بھی لازم ہے اور تقوی یعنی اعمال صالحہ کی پابندی بھی صرف ان دو چیزوں سے پرہیز کرلینا کافی نہیں بلکہ جو اعمال ازروئے شرع فرض و واجب ہیں ان پر عمل کرنا بھی نجات آخرت کی شرط ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۝ ٠ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ ٨٣ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) یہ جنت ہم ان ہی لوگوں کیلیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں مال و دولت کی وجہ سے نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ گناہ اور برائیاں کرتے ہیں اور جنت کفر وشرک تکبر و فساد سے بچنے والوں کے لیے ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ط) ” دراصل یہاں پر اقتدار کی طلب اور ہوس کی مذمت ہے نہ کہ بوقت ضرورت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالنے کی۔ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انقلابی جدوجہدّ کے نتیجے میں مدینہ کی چھوٹی سی ریاست وجود میں آگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔ لیکن نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کا مقصد حصول اقتدار تھا اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے خواہش مند تھے۔ چناچہ اقتدار کا خواہش مند ہونے اور اقتدار کی ذمہ داری نبھانے کے لیے آمادہ ہوجانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس حوالے سے یہاں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو اس کے دین کی سر بلندی کے لیے جدوجہد میں خود کو کھپا رہے ہیں۔ لیکن اس کٹھن راستے کے مسافروں کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اگر اس جدوجہد کے دوران میں دل کے کسی گوشے میں ہوس اقتدار کی کوئی کو نپل پھوٹ پڑی یا اپنا نام اونچا کرنے کی خواہش نے نفس کے کسی کونے میں جڑ پکڑ لی تو اللہ کے ہاں ایسا ” مجاہد “ نااہل (disqualified) قرار پائے گا اور اس کی ہر ” جدوجہد “ مستردکر دی جائے گی۔ (وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ) ” آخرت کی نعمتوں اور اس کے عیش و آرام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

103 That is, Paradise which is the abode of real success. 104 "Who do not seek glory": who are not desirous of establishing their own glory in God's earth: who do not live like rebels and tyrants and arrogant people but like humble servants: who do not seek to make God's servants their personal servants 105 "Mischief" implies the chaos that inevitably appears in human life in consequence of violating the truth. Whatever man does when he disobeys Allah and turns away from His service is nothing but mischief. Partly this mischief occurs when wealth is amassed through unlawful means and expended in unlawful ways. 106 . "The Godfearing": those who refrain from His disobedience.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 103 مراد ہے جنت جو حقیقی فلاح کا مقام ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 104 یعنی جو خدا کی زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنے کے خواہاں نہیں ہیں ، جو سرکش و جبار اور متکبر بن کر نہیں رہتے بلکہ بندے بن کر رہتے ہیں اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا کر رکھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 105 فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں لازما رونما ہوتا ہے ، خدا کی بندگی اور اس کے قوانین کی اطاعت سے نکل کر آدمی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سراسر فساد ہی فساد ہے ، اسی کا ایک جز وہ فساد بھی ہے جو حرام طریقوں سے دولت سمیٹنے اور حرام راستوں میں خرچ کرنے سے برپا ہوتا ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 106 یعنی ان لوگوں کے لیے جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:83) تلک الدار الخرۃ : تلک اسم اشارہ ۔ مبتداء الدار اس کی نعمت ۔ الاخرۃ صفت ہے الدار کی۔ نجعلہا ۔۔ فسادا خبر۔ تلک الدار الاخرۃ کا اشارہ الجنۃ کی طرف ہے۔ لجعلہا : نجعل مضارع جمع متکلم۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ اس کا مرجع الدار الاخرۃ ہے۔ ہم اس کو (مخصوص) کردیں گے۔ علوا : علی یعلوا کا مصدر ہے۔ بلند ہونا۔ سرکشی کرنا۔ کسی شخص پر غلبہ کرنا۔ تسلط جمانا۔ مطلب یہ کہ تکبر و رعونت سے دوسروں پر غلبہ پاکر حقوق کو پامال کرنا۔ العاقبۃ۔ نیک انجام کار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی جنت۔ 6 ۔ یعنی تکبر و غرور نہیں کرتے بلکہ خدا کے عاجز بندے بن کر رہتے ہیں۔ 7 ۔ یعنی نہ اللہ کی معصیت کا ارتکاب کر کے انسانی زندگی کے نظام میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ (قرطبی) 8 ۔ یعنی جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔ 9 ۔ یعنی دس سے لے کر سات سو نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (دیکھئے سورة نمل آیت 89)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 83 تا 88 اسرارومعارف اور آخرت کا گھر تو ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے جو دنیا میں اپنی بڑائی اور تکبر میں گرفتار نہیں ہوتے اور اللہ کی زمین پر فساد نہیں کرتے ۔ تکبر اور فساد : یعنی تکبر یہ ہے کہ اپنی رائے کو سب سے حتی کہ احکام شریعہ سے بھی بالا سمجھے تو اس کا یقینی نتیجہ فساد ہے محض اچھے کپڑے پہننا یا اچھا گھر اور اچھی گاڑی اگر حلال ذرائع سے نصیب ہو اور دکھاوے کے لیے نہ ہو ضرورت کے لیے ہو تو یہ بھی شکر ادا کرنے کا ایک انداز ہے لیکن اگر ذاتی نمائش کے لیے ہو تو تکبر شمار ہوگا اور دونوں صورتوں میں نتائج الگ الگ برآمد ہوں گے اور حق یہ ہے کہ عاقبت و آخرت کی سرفرازی انہی لوگوں کے لیے ہے جو دنیا میں پورے خلوص کے ساتھ اللہ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں جو بھی نیک عمل کے ساتھ میدان حشر میں حاضر ہوگا وہ اپنے اعمال کی نسبت بہت زیادہ صلہ پائے گا اور جو اپنے ساتھ گناہ اور برائیاں لائے گا وہ یقینا انہی برائیوں کا بدلہ پائے گا کہ وہی کچھ وہ کرے لایا ہوگا۔ فتح مکہ کی پیشگوئی : اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جس عظیم ذات نے آپ پر قرآن کی تبلیغ اور اس پر عمل فرض کیا ہے اور جس کی وجہ سے آپ کو ہجرت کرنا پڑی وہ آپ کو اپنے شہر عزیز میں یعنی مکہ مکرمہ میں واپس لائے گا یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہونے والی آیت فتح مکہ کی نوید بھی سنا رہی ہے اور یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ قرآن کریم پر عمل اور اس کے غلبہ کے لیے کوشش کی جائے تو بفضل اللہ فتح نصیب ہوتی ہے اور ایسی جماعت کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ اور ان سے کہ دیجئے کہ بھلائی اور برائی کا معیار یہ لوگ نہیں بلکہ اللہ کی پسند ہے لہذا وہ خوب جانتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔ بھلا آپ کو کیا خبر تھی کہ آپ کو یہ عظ مت رسالت نصیب ہوگی اور اللہ کی آخری کتاب آپ پر نازل ہوگی یہ تو سب اللہ کی رحمت ہے اور اس کا بےپناہ احسان ہے لہذا آپ کفار کی پرواہ نہ کیجیے ایسا نہ ہو کہ یہ آپ کو رواداری کے نام پر آپ کو اللہ کے احکام کی تبلیغ سے روکنے کی کوشش کریں بلکہ علی الاعلان اللہ کی طرف دعوت دیجیے اور کبھی ان مشرکین کا ساتھ مت دیجیے۔ اے مخاطب اللہ کے برابر کسی سے امید وابستہ نہ کر اور نہ کسی کو پکار اس لیے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی اس کا مستحق نہیں۔ اور سوائے ذات باری کے ہر شے مخلوق اور فانی ہے صرف اللہ کا حکم سب پر جاری ہے اور سب اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ الحمدللہ کہ سورة قصص تمام ہوئی

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (83 تا 88 ) ۔ علو (بڑائی ۔ برتری) ۔ العاقبتہ (انجام۔ نتیجہ) ۔ فرض (فرض کردیا۔ لازم کردیا) ۔ راد (وہ لوٹ گیا) ۔ معاد (لوٹنے کی جگہ ) ۔ لا یصدن (وہ ہرگز نہ روکیں گے) ۔ ھالک (ہلاک ہونے والا) ۔ وجہ (چہرہ۔ ذات) ۔ تشریح : آیت نمبر (83 تا 88 ) ۔ ” سورة القصص میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو عبرت و نصیحت کے لئے تفصیل سے بیان کرنے کے بعد بنی اسرائیل ہیہ کے ایک فرد قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو اپنی دولت کی کثرت، خوشامدیوں کی بھیڑ اور فخر و غرور کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگانے سے باز نہیں آیا تو اللہ نے اس کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اس کی دولت اور اس کے آگے پیچھے دوڑنے بھاگنے والے لوگ بھی اس کی مدد کر کے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔ مکہ کے وہ کافر جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم نے اپنے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کرلیا تو عرب کے لوگ ہمارا جینا دوبھر کردیں گے اور ہمیں اپنے بال بچوں، گھر بار اور مال و دولت سے محروم کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کا واقعہ سنا کر بتا دیا کہ قارون کے پاس بےپناہ اور بےحساب دولت تھی جس کے خزانوں کی چابیاں ہی طاقت ور جماعتیں اٹھانے سے قاصر تھیں جب اس پر اللہ کا عذاب آیا اور زمین میں دھنسا دیا گیا تو اس کی دولت اور اس کے لوگ اس کے کام نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کا دھن و دولت ‘ چمک دمک ‘ زیب وزینت اور رونقیں سب عارضی اور وقتی چیزیں ہیں جو موت کے ساتھ ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ اس کے برخلاف آخرت کا گھر یعنی جنت ‘ اس کا سکون ‘ راحت و رآام ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن اس آخرت کے گھر کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو زمین پر اپنی برائی قائم کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ غرور وتکبر سے بچتے ہیں اور زمین پر فساد نہیں مچاتے۔ اللہ سے ڈرنے والوں کا انجام ہی بہترین انجام ہوتا ہے۔ اللہ کا قانون اور دوستور یہ ہے کہ جو آدمی نیکی اور بھلائی لے کر آخرت میں پہنچے گا وہ اس کی نیکی کا اجر اور بدلہ اس سے بہتر عطا فرمائے گا جو اس نے کی ہوگی۔ لیکن جو لوگ گناہوں کے ڈھیر لے کر پہنچیں گے تو ان کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا انہوں نے کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس ذات نے آپ کو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب دی ہے تاکہ آپ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچا کر ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کردیں تو وہی اللہ آپ کو اس مقام تک پہنچائے گا جہاں ان کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے مراد جنت اور اس کی راحتیں بھی ہیں اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی وہ سرزمین جس میں اہل ایمان پر مکہ کی زمین کو تنگ کردیا گیا تھا اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو عزت و عظمت کے ساتھ کامیاب وبامراد کرکے واپس لایا جائے گا۔ بہر حال بتایا یہ جارہا ہے کہ دنیا ہو یا آخرت کی ابدی راحتیں وہ سب کی سب اہل ایمان کو عطا کی جائیں گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کون ہدایت اور سیدھے راستے پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ سورۃ القصص کی آیات کو اس مضمون پر مکمل فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو اس بات کی امید تک نہ تھی کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آپ پر نازل کی جائے گی یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل وکرم ہے جس نے آپ کو قرآن کریم جیسی شان دار اور با عظمت کتاب عطا فرمادی ہے۔ اب آپ کی اور آپ کی امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ (1) آپ کسی طرح کفار کے مدد گار نہ بنیں۔ (2) جب قرآن کریم نازل کردیا گیا ہے تو آپ اسکی پابندی کیجئے اور لوگوں کو اس قرآن مجید کی طرف بلایئے۔ (3) کفار و مشرکین (کی زیادتیوں) کا خیال چھوڑ دیجئے۔ (4) اللہ کی ہستی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریئے کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور سوائے اللہ کی ذات کے کسی چیز کو بقا نہیں ہے۔ (5) سارے فیصلوں کا اختیار اسی کا ہے۔ (6) اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ الحمد للہ سورة القصص کی آیات کا ترجمہ و تفسیر و تشریح تکمیل تک پہنچی واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ کوئی ظاہری گناہ کرتے ہیں خصوصا گناہ متعدی جیسا فرعون و قارون علووفساد کے مرتکب ہوئے، اور صرف ترک نواہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ جو ترک نواہی کے ساتھ امتثال اوامر بھی کرتے ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قارون کی بربادی فخر و غرور کی وجہ سے ہوئی، اس لیے غرور اور تکبر سے اجتناب کرنے والوں کے اجر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو دنیا کے مال و اسباب سے نوازا تھا۔ لیکن اس نے شکر اور عاجزی اختیار کرنے کی بجائے کفر اور تکبر کا رویہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اسے اس کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قارون کے انجام سے لوگوں کو بتلا دیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کا بالآخر یہ انجام ہوگا۔ جو لوگ اللہ کی نافرمانی اور فخر و غرور سے بچیں اور زمین میں دنگا و فساد کرنے سے اجتناب کریں گے۔ ان کے لیے آخرت کا بہتر گھر ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی بتلا دیا گیا کہ امیر ہو یا غریب، دنیا کے لحاظ سے چھوٹا ہو یا بڑا جو بھی شریعت کے مطابق نیکی کرے گا اسے اس کی نیکی سے بڑھ کر ثواب دیا جائے گا اور جو اپنے رب کے حضور برائی کے ساتھ آئے گا اسے اس کی برائی کے برابر ہی سزاد دی جائے گی۔ نیکی کی بہتر جزا : (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَاوَ مَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ) [ الانعام : ١٦٠] ” جو نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے اس کے برابر سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍوَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) [ البقرۃ : ٢٦١] ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔ “ اہل علم نے ” عُلُوًّا “ کا معنی ” زیادتی، فخر و غرور “ بیان کرنے کے ساتھ دوسروں کو نیچا دکھانا لکھا ہے۔ سورة قصص کی ابتداء فرعون کے ظلم و زیادتی کے ذکر سے ہوئی۔ سورة کا اختتام فرعون کے قریبی ساتھی ہامان کے انجام سے کیا گیا ہے۔ فرعون نے اقدار کے نشہ میں ” اللہ “ کی توحید کو ٹھکرا دیا اور قارون نے دولت کے نشے میں آکر اللہ کے بندوں پر تکبر کا اظہار کیا۔ دونوں کا انجام بدترین ہوا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ فخر و غرور اور فساد فی الارض سے بچتے ہیں ان کے لیے آخرت کا بہترین گھر ہوگا۔ ٢۔ متقین کا بالآخر انجام بہتر ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکی کی بہتر جزا دے گا اور برے کو اس کی برائی کے برابر سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن نیکی اور برائی کا بدلہ : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس گناکا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ (الدھر : ١٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس منظر پر بھی پر ودہ گر جاتا ہے۔ دست قدرت کی مداخلت سے اہل ایمان کے دلوں کو قوت ملی۔ اور اللہ کے پیمانوں میں ایمان کی قوت کو ترجیح ملی۔ اور اب ان مناظر پر بہترین تبصرہ : تلک الدار الاخرۃ ۔۔۔۔۔۔ والعاقبۃ للمتقین (83) یہ دار آخرت جس کی بات اہل علم کرتے ہیں یعنی وہ لوگ جن کے پاس سچا علم ہے جو اشیاء کی صحیح قدروقیمت متعین کرتا ہے یہ جہاں نہایت ہی بلند مرتبت ہے۔ بہت ہی وسیع ہے یہ جہاں کس کے لیے ہے ؟ نجعلھا للذین ۔۔۔۔۔ ولا فسادا (28: 83) ” یہ ہم نے ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں “۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ وہ زمین میں برتری اپنی ذاتی سربلندی کے لیے حاصل کریں۔ وہ تو اپنی ذات اور اپنی شخصیت پر بھی فخر نہیں کرتے۔ ان کی ذات بھی اللہ کے تصور ، اللہ کی یاد اور اللہ کے شعور میں گم ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے نظام حیات کے لیے ساعی ہوتے ہیں ، ان لوگوں کے پیمانوں میں ، اس زمین ، اس کی اشیاء ، اس کے سامان ، اور اس کی اقدار کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وہ اقتدار فساد فی الارض کے لیے نہیں حاصل کرتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ نے دار آخرت تیار کیا ہے جو عالی شان ہے۔ والعاقبۃ للمتقین (28: 83) ” اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے “۔ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، جو اس کے غضب سے خائف ہوتے ہیں اور اس کی رضا مندی کے طلبگار ہوتے ہیں “۔ اس جہاں آخرت میں سب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا ملے گی اور یہ بات اللہ نے اپنے اوپر لکھ دی ہے کہ نیکیوں کا اجر کئی گنا ملے گا اور برائیوں کی سزا ان کے برابر ہوگی۔ زیادہ نہ ہوگی۔ یہ ہے اللہ کی رحیمانہ شان۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے ہے جو زمین میں بلندی اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے یہ دو آیتیں ہیں پہلی آیت میں یہ بتایا کہ دار آخرت یعنی موت کے بعد جو مؤمنین صالحین کو ٹھکانہ ملے گا اسے ہم انہیں لوگوں کے لیے خاص کردیں گے جو زمین میں بڑائی، برتری اور بلندی کا ارادہ نہیں کرتے اور فساد کو نہیں چاہتے۔ اور اچھا انجام متقیوں ہی کا ہے، بندوں کو تواضع کے ساتھ رہنا لازم ہے۔ ساری بڑائی خالق اور مالک ہی کے لیے ہے جس نے سب کو پیدا فرمایا ہے۔ اس کی بڑائی اور کبریائی کے سامنے ہر بندہ کو جھک جانا لازم ہے۔ جن لوگوں کو جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوتی ہے ان میں اسی قدر تواضع ہوتی ہے۔ جو لوگ دنیا میں بڑا بننا چاہتے ہیں اس بڑائی کے حاصل کرنے کے لیے بہت سے گناہ کرتے ہیں اللہ کی مخلوق کو ستاتے ہیں دکھ دیتے ہیں قتل تک کرواتے ہیں۔ اللہ کے احکامات کو پا مال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے لیے دار آخرت یعنی جنت سے محرومی ہی کا نتظار کرتے ہیں پھر دنیا میں بھی انہیں وہ عزت حاصل نہیں ہوتی جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والوں کو حاصل ہوتی ہے اگر لوگ دنیاوی اقتدار کے دباؤ میں کچھ نہ کہیں تو دلوں سے تو برا سمجھتے ہی ہیں۔ تواضع کی منفعت اور تکبر کی مذمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ اسے بلند فرما دے گا وہ اپنے نفس میں چھوٹا ہوگا اور لوگوں کی آنکھوں میں بڑا ہوگا اور جس نے تکبر اختیار کیا اللہ اسے گرا دے گا۔ پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا اور اپنے نفس میں بڑا ہوگا۔ (لوگوں کے نزدیک اس کی ذلت کا یہ حال ہوگا کہ) وہ کتے اور خنزیر سے بڑھ کر ان کے نزدیک ذلیل ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٤) ایک حدیث میں ہے کہ دوزخ میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا۔ اور کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٣ از مسلم) نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تکبر کرنے والے انسانی صورتوں میں چیونٹیوں کے برابر چھوٹے چھوٹے جسموں میں جمع کیے جائیں گے انہیں دوزخ کے جیل خانہ کی طرف ہنکا کرلے جایا جائے گا جسکا نام بولس ہے ان کے اوپر آگوں کو جلانے والی آگ چڑھی ہوئی ہوگی، ان لوگوں کو طیْنۃ الخَبَال (یعنی دوزخیوں کے جسموں کا نچوڑ) پلایا جائے گا۔ (رواہ الترمذی) تکبر بری بلا ہے شیطان کو لے ڈوبا اس کی راہ پر چلنے والے انسانوں کو بھی برباد کردیتا ہے۔ دوسری آیت میں یہ بتایا کہ جو شخص قیامت کے دن نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا اس سے بہتر بدلہ ملے گا۔ سب سے بڑی نیکی تو ایمان ہے اس کا بہت بڑا بدلہ ہے یعنی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہونے کا انعام ہے اور صاحب ایمان جتنی بھی نیکیاں کرے گا ہر نیکی کا بہت بڑا ثواب پائے گا جو اس کی نیکی سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا اور ہر نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہو کر تو ملنا ہی ہے یہ تو اہل ایمان کا ذکر ہوا۔ اب رہے کافر ان کو بھی ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ سب سے بڑا برا عمل کفر و شرک ہے اور کفر کے ساتھ اہل کفر اور بھی بڑے بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں۔ کافروں میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو دنیا میں غریب تھے اصحاب اقتدار کی رعیت تھے ان کے سامنے ذلیل تھے تنگدست بھی تھے لوگوں کے سامنے حقیر بھی تھے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو بڑے بڑے مالدار تھے بادشاہ تھے امیر تھے وزیر تھے، کافر و مشرک امیر ہو یا غریب ہو عزت دار ہو یا ذلیل ہو اپنے کفر کی وجہ سے دوزخ کا ایندھن بنے گا اور کفر کے علاوہ جو گناہ کیے ہوں گے ان کی سزا بھی ملے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ یہ بشارت اخروی ہے۔ شروع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ انہوں نے دعوت توحید کی خاطر بہت مصائب اٹھائے اسی طرح اے پیغمبر آپ پر بھی اس دعوت کی وجہ سے مصائب آئیں گے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح آخر کامیابی آپ ہی کو ہوگی۔ اب سورت کے آخر میں چھ امور ایسے مذکور ہوں گے جن سے موسیٰ (علیہ السلام) اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان مماثلت و مشابہت ظاہر ہوگی۔ یہ امر اول ہے موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں فرمایا، ان فرعون علا فی الارض الخ، جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون ایسے سرکش اور متمرد سے واسطہ پڑاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایسے متمردین سے واسطہ پڑا۔ اس آیت میں بطور بشارت ان لوگوں کا ذکر کیا گیا جو تمردو سرکشی نہیں کرتے یعنی آخرت کی راحت ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوگی لیکن متمردین کو المناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83۔ یہ آخرت کا گھر اور عالم ہم ان ہی لوگوں کے لئے خاص کیا کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننے کی خواہش کرتے ہیں اور نہ فساد کرنا اور فساد پھیلانا اور انجام کار انہی لوگوں کا بھلا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں ۔ اوپر کی آیتوں میں ایک متکبر اور نجیل دولت مند کا ذکر فرمایا تھا اس کی مناسبت سے اب اچھے لوگوں کا ذکر فرمایا کہ پچھلا گھر اور عالم آخرت کی آسودگی اور دائمی بہشت ان لوگوں کے لئے ہم نے خاص طور پر مقرر کی ہے جو زمین میں اور دنیا میں نہ تو اونچا ہونے کا قصد اور عزم کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلانا یعنی گناہوں کا ارتکاب کرنا اور تکبر چونکہ دیگر منہیات اور مفاسد کے لئے بطور بنیاد ہے اس لئے اس کو مقدم فرمایا اور فساد سے عام گناہ مراد ہوں خواہ ان کا کرنا گناہ ہو یا ان کا ترک گناہ ہو۔ جیسے ، چوری ، غیبت ، قتل ناحق یا ترک صلوٰۃ اور ترک صوم اور ترک حج و زکوٰۃ وغیرہ ان تمام باتوں کا ارادہ بھی نہیں کرتے آخر میں پرہیز گاروں کو بشارت دی کہ انجام کار بھلا متقیوں کا ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قارون کی دولت کو نا دانوں نے کہا اس کی بڑی قسمت ہے بڑی قسمت یہ نہیں آخرت کا ملنا بڑی قسمت ہے سو وہ ان کو ہے جو دنیا کا عروج نہیں چاہتے ۔ 12