Commentary لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا (We assigned it to those who intend neither haughtiness on earth nor mischief. - 28:83). This verse tells us that only those will achieve salvation and success in the Hereafter who do not intend any mischief, nor are indulged in عُلُوًّا ` Uluww in this world. عُلُوًّا ` Uluww means pride or conceit, that is, to present oneself as superior before others, and to look down upon others and treat them in an insulting manner. Mischief is used here for oppression. (Sufyan Ath-Thauri). Some commentators have observed that every sin is a &mischief in the world&, because the nuisance of the sin curtails the blessings of the world. This verse tells us that those who intend to do cruelty and feel proud, or commit sin have no share in the Hereafter. Special Note Arrogance and conceit as condemned in this verse, is the behavior in which one shows off as being superior, and looks down upon others. Otherwise to strive for oneself a good dress, a good house, and good food, when it is not intended to show off, is no sin, as reported in a hadith in Sahih Muslim. Firm intention to commit a sin is also sin It is clarified in this verse that the intention for mischief and pride will debar one from the share of Hereafter. It is, therefore, clear that the firm intention of a sin is as much a sin. (Ruh) However, if one changes his mind for fear of Allah, then a reward is noted in his record instead of sin. But if he fails to act on that sin, due to reasons beyond his control, while he had firm intention to act upon it, then the sin stays against his name, and will be recorded as such. (Ghazzali) The last verse وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (And the (best) end is for the God-fearing - 28:83) elaborates that it is not enough to abstain from mischief and pride to get the share of the Hereafter, but following the righteous path is as much a requirement. To follow all the religious obligations is also essential for the salvation in the Hereafter.
خلاصہ تفسیر یہ عالم آخرت (جس کے ثواب کا مقصود ہونا اوپر (ثَوَاب اللّٰهِ خَيْرٌ میں بیان ہوا ہے) ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا (یعنی نہ تکبر کرتے ہیں جو باطنی گناہ ہے اور نہ کوئی ظاہری گناہ ایسے کرتے ہیں جس سے زمین میں فساد برپا ہو) اور صرف ان باطنی اور ظاہری برائیوں سے بچنا کافی نہیں بلکہ) نیک نتیجہ متقی لوگوں کو ملتا ہے، (جو برائیوں سے اجتناب کے ساتھ اعمال صالحہ کے بھی پابند ہوں اور کیفیت اعمال پر جزا و سزا کی یہ ہوگی کہ) جو شخص (قیامت کے دن) نیکی لے کر آوے گا اس کو اس (کے متقضا) سے بہتر (بدلہ) ملے گا (کیونکہ نیک عمل کا اصل مقتضی تو یہ ہے کہ اس کی حیثیت کے موافق عوض ملے مگر وہاں اس سے زیادہ دیا جاوے گا جس کا کم سے کم درجہ اس کی حیثیت سے دس گنا ہے) اور جو شخص بدی لے کر آوے گا سو ایسے لوگوں کو جو بدی کا کام کرتے ہیں اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا وہ کرتے تھے (یعنی اس کے مقتضی سے زیادہ بدلہ سزا کا نہ ملے گا۔ ) معارف و مسائل لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا، اس آیت میں دار آخرت کی نجات و فلاح کو صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا گیا ہے جو زمین میں علو اور فساد کا ارادہ نہ کریں۔ علو سے مراد تکبر ہے یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا بنانے اور دوسروں کو حقیر کرنے کی فکر۔ اور فساد سے مراد لوگوں پر ظلم کرنا ہے (سفیان ثوری) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر معصیت فساد فی الارض ہے کیونکہ گناہ کے وبال سے دنیا کی برکت میں کمی آتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ تکبر اور ظلم کا یا مطلق معصیت کا ارادہ کریں ان کا آخرت میں حصہ نہیں۔ فائدہ : تکبر جس کی حرمت اور وبال اس آیت میں ذکر کیا گیا وہ وہی ہے کہ لوگوں پر تفاخر اور ان کی تحقیر مقصود ہو، ورنہ اپنے لئے اچھے لباس اچھی غذا اچھے مکان کا انتظام جب وہ دوسروں کے تفاخر کے لئے نہ ہو مذموم نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے۔ معصیت کا پختہ عزم بھی معصیت ہے : اس آیت میں علو اور فساد کے ارادہ پر دار آخرت سے محروم ہونے کی وعید ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت کا پختہ ارادہ جو عزم مصمم کے درجہ میں آجائے وہ بھی معصیت ہی ہے (کما فی الروح) البتہ اگر پھر وہ خدا کے خوف سے اس ارادہ کو ترک کر دے تو گناہ کی جگہ ثواب اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے اور اگر کس غیر اختیاری سبب سے اس گناہ پر قدرت نہ ہوئی اور عمل نہ کیا مگر اپنی کوشش گناہ کے لئے پوری کی تو وہ بھی معصیت اور گناہ لکھا جائے گا (کما ذکرہ الغزالی) آخر آیت میں فرمایا والْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ اس کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی نجات اور فلاح کے لئے دو چیزوں علو اور فساد سے اجتناب بھی لازم ہے اور تقوی یعنی اعمال صالحہ کی پابندی بھی صرف ان دو چیزوں سے پرہیز کرلینا کافی نہیں بلکہ جو اعمال ازروئے شرع فرض و واجب ہیں ان پر عمل کرنا بھی نجات آخرت کی شرط ہے۔