Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 85

سورة القصص

اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۸۵﴾

Indeed, [O Muhammad], He who imposed upon you the Qur'an will take you back to a place of return. Say, "My Lord is most knowing of who brings guidance and who is in clear error."

جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے کہہ دیجئے کہ میرا رب اسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور ا سے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to convey the Message of Tawhid Here Allah commands His Messenger to convey the Message and recite the Qur'an to people. He tells him that he will be brought back to the return, which is the Day of Resurrection, where he will be asked about the Prophethood he was entrusted with. So Allah says: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْانَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ... Verily, He Who has given you the Qur'an, will surely bring you back to the return. meaning, `the One Who has commanded you to put it into practice among mankind,' ... لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ... will surely bring you back to the return. `On the Day of Resurrection, where He will question you concerning that,' as Allah said: فَلَنَسْـَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْـَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ Then surely, We shall question those to whom it was sent and verily, We shall question the Messengers. (7:6) Allah said: يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ On the Day when Allah will gather the Messengers together and say to them: "What was the response you received!" (5:109) And He said: وَجِـىءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَاءِ and the Prophets and the witnesses will be brought forward. (39: 69) In his Tafsir of his Sahih, Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas commented on the Ayah: لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (will surely bring you back to the return). "To Makkah." This was also recorded by An-Nasa'i in his Tafsir in his Sunan, and by Ibn Jarir. Al-`Awfi also reported from Ibn `Abbas that the phrase: لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (will surely bring you back to the return), means, "will surely bring you back to Makkah as He brought you out of it." Muhammad bin Ishaq recorded that Mujahid commented on: لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (will surely bring you back to the return). He said, "Back to your place of birth in Makkah." Ibn Abbas is also reported to have interpreted it variously referring to death, to the Day of Resurrection which will come after death, and to Paradise which will be his reward and his destiny for putting the Message of Allah into practice and conveying it to the humans and Jinns, and because he is the most perfect, most eloquent and most noble of all the creation of Allah. Allah's saying: ... قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاء بِالْهُدَى وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ Say: "My Lord is Aware of him who brings guidance, and of him who is in manifest error." means: "Say, O Muhammad, to those among your people who oppose you and disbelieve you, among the idolators and those who follow them in their disbelief, `My Lord knows best which of us, you or I, is rightly guided, and you will come to know for which of us will be the (happy) end in the Hereafter, and for which of us will be a good end and victory in this world and in the Hereafter'." Then Allah reminds His Prophet the numerous blessings He granted to him and mankind by virtue of sending him to them:

جوکروگے سو بھروگے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ Č۝ۙ ) 7- الاعراف:6 ) یعنی امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے ۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کرکے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا ۔ معاد سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں ۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی ۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ کے دل میں مکے کاشوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ سے وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکے پہنچائے جائیں گے ۔ اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے ۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے ۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن عباس نے کبھی تو آپ کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی ۔ اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ نے سورۃ اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی موافقت کی تھی ۔ اور فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادیہ افضل تھے ۔ پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے ۔ تم دیکھ لوگے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے؟ پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل ہوگی ۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی ۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے ۔ ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعلان کر دینا چاہیے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں ۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے ۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے ۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے ۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم ہے تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ موت سے دور ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27۝ۚ ) 55- الرحمن:27 ) جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت وکرامت والاہے ۔ وجہ سے مراد ذات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر ( الا کل شئی ماخلا اللہ باطل ) یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ مجاہد وثور سے مروی ہے کہ ہر چیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کالفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ۔ شعر ( استغفر اللہ ذنبا لست محصیہ رب العباد الیہ الوجہ والعمل ) میں اللہ سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کرسکتا ۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں ۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے کی ہوں ۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے ۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا ۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور دردناک آواز سے کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔ حکم وملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی ہے ۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا ۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا ۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا ۔ الحمد اللہ سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

851یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔ 852یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چناچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ8ہجری میں فاتحانہ طور پر مکہ میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔ 853یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] یعنی قرآن لوگوں پر پڑھ کر سنانے، قرآن کی تعلیم دینے، اس پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو دکھانے اور اس کی اشاعت و تبلیغ کی ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے۔ [١١٦] معاد کے معنی ہیں عود کرنے یا لوٹنے کی جگہ بھی اور وقت بھی۔ چونکہ اس لفظ کے معنی میں کافی وسعت ہے۔ لہذا اس کی تعبیر میں اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین سے معاد سے مراد فتح مکہ ہی لیا ہے ان کے قول کے مطابق یہ آیت مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس وقت ہی آپ کو یہ خوشخبری سنادی گئی تھی کہ آپ پھر اس شہر مکہ کو آنے والے ہیں اور یہی مفہوم ( وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۝ ۙ ) 90 ۔ البلد :2) سے بھی متبادر ہوتا ہے اور بعض لوگوں نے معاد سے جنت اور اس سلسلہ میں اللہ نے آپ سے جو وعدہ کئے ہیں، یہ سب کچھ مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے معاد سے مراد آپ کی زندگی کا آخری وقت لیا ہے۔ جبکہ پورے کا پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیرنگین آگیا تھا۔ اور یہ برتری آپ سے پہلے کسی شخص کو بھی حاصل نہ ہوئی تھی کہ کم از کم سیاسی طور پر ہی سارا عرب اس کے زیر نگین ہو اور پورے جزیرۃ العرب کے محض سیاسی حکمران ہی نہیں تھے بلکہ اسلام کے بغیر کوئی بھی دین جزیرۃ العرب میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔ [١١٧] کفار مکہ جن جن القابات سے آپ کو نوازا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تم آبائی دین کو چھوڑ کر ایک ہوگئے ہو اور یہ بات ایک دفعہ نہیں کئی بار وہ دہرا چکے تھے لہذا یہ اور ایسی ہی دیگر آیات آپ کی تسلی کے لئے مختلف اوقات میں اور مختلف سورتوں میں نازل ہوتی رہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ ۔۔ : ” مَعَادٍ “ میں تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کیا گیا ہے۔ قرآن فرض کرنے سے مراد اس پر عمل اور اسے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچانے اور اس کے لیے جہاد کرنے کا فریضہ عائد کرنا ہے۔ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ : پہلے فرمایا تھا : ” وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ “ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس اچھے انجام کا ذکر فرمایا اور سورت کا اختتام عظیم الشان خوش خبری کے ساتھ فرمایا، یعنی جس اللہ نے آپ پر قرآن پر عمل کا اور اس کی دعوت کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کی محنت و مشقت اور ادائیگی فرض کے نتیجہ میں آپ کو ایک عظیم الشان انجام تک پہنچانے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس طرح کہ آپ اس شہر مکہ سے ہجرت کریں گے اور دوبارہ پھر اس میں واپس آئیں گے اور اس شاندار طریقے سے آئیں گے کہ پورا جزیرۂ عرب آپ کے زیرنگین ہوگا۔ جیسا کہ صحیح بخاری (٤٧٧٣) میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس ” مَعَادٍ “ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ چناچہ ہجرت کے آٹھویں سال اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اور آخرت میں عظیم الشان مقام محمود پر پہنچانے والا ہے، جس کی وجہ سے پہلے اور پچھلے سب آپ پر رشک کریں گے۔ اسے ” معاد “ اس لیے فرمایا کہ قرآن مجید میں آخرت کو سب کے لیے لوٹنے کی جگہ قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٢٨١ ] ” اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ اور فرمایا : (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٨ ] ” پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ اور فرمایا : (اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ ) [ المائدۃ : ٤٨ ] ” اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے۔ “ مفسرین میں سے بعض نے ” مَعَادٍ “ سے مراد مکہ اور بعض نے جنت لی ہے، دونوں اقوال اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بالْهُدٰى ۔۔ : یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو اسی مکہ میں فاتحانہ شان سے واپس لائے گا، کفار کے نزدیک ایسی بات تھی جو کوئی گمراہ شخص ہی کرسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے آنے والی بات کا جواب پہلے ہی بتادیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کون ہے جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور بہت جلد یہ حقیقت تم پر واضح ہوجائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary إِنَّ الَّذِي فَرَ‌ضَ عَلَيْكَ الْقُرْ‌آنَ لَرَ‌ادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ (Surely the One who has enjoined the Qur’ an upon you will surely bring you back to a place of return. - 28:85). At the end of Surah these verses were revealed to console the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and to make him firm in his mission as a messenger. These verses are relevant to the previous verses in that in this Surah, Allah Ta’ ala has narrated in detail the story of Sayyidna Musa (علیہ السلام) with the Pharaoh, his enmity with Bani Isra&il, their fear of him and how he overpowered the people of the Pharaoh. Since the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) faced a similar situation in that he was harassed, and plans were made to kill him, the lives of Muslims were made miserable in Makkah, but following His (Allah) old tradition, Allah graced them with victory over all of them. He finally gifted the Muslims possession of Makkah, from where they were made to vacate. الَّذِي فَرَ‌ضَ عَلَيْكَ الْقُرْ‌آنَ (The One who has enjoined the Qur’ an upon you - 28:85). It means that the Lord of the universe who has made it obligatory on you to recite, teach and act on it, will take you back to Ma` ad, which lexically means &a place of return&. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has explained that Ma` ad in this verse refers to Makkah, as reported in Sahih al-Bukhari. So, the meaning of the sentence is that although the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have to leave his hometown, especially the Haram for a short while, he would be brought back in Makkah by Allah Ta’ ala, who had revealed the Qur&an on him, and had made it obligatory to act upon it. The Imam of tafsir, Muqatil, has narrated that during the Hijrah (emigration) from Makkah to Madinah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came out from the cave of Thaur at night, and by passing the conventional route, treaded the unfamiliar paths, because the enemies were pursuing him. When he reached Juhfah, which was a well-known place on the way to Madinah near Rabigh, and where the conventional route to Madinah separates from that of Makkah, at that time he glanced back toward the route of Makkah and remembered his hometown. On that moment, Jibra&l (علیہ السلام) descended with this verse, in which he was given the good tiding that separation from Makkah was temporary and he would return there soon. That was in fact the advance news of the victory of Makkah. It is in this background that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has observed in a narration that this verse was revealed in Juhfah, and that it is neither Makki nor Madani. (Qurtubi). Qur’ an is a means of victory over enemies and of one&s success in his objectives While promising to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he will be brought back by Allah to his hometown which will be conquered by him, Allah Ta’ ala has made a special reference to Himself as &the One who has enjoined the Qur’ an on him&. This reference contains a hint to the fact that recitation of Qur’ an and acting on its injunctions would actually be the cause of the Divine help and manifest victory.

خلاصہ تفسیر (اور آپ کے ان مخالفین نے جو آپ کو پریشان کر کے ترک وطن پر مجبور کیا ہے جس کی اضطراری مفارقت کا آپ کو صدمہ ہے تو آپ تسلی رکھیں) جس خدا نے آپ پر قرآن (کے احکام پر عمل اور اس کی تبلیغ) کو فرض کیا ہے (جو مجموعاً دلیل ہے آپ کی نبوت کی) وہ آپ کو (آپ کے) اصلی وطن (یعنی مکہ) میں پھر پہنچا دے گا (اور اس وقت آپ آزاد اور غالب اور صاحب سلطنت ہوں گے اور ایسی حالت میں اگر دوسری جگہ قیام کے لئے تجویز کی جاتی ہے بمصلحت و با اختیار ہوتی ہے جس سے رنج نہیں ہوتا اور باوجود آپ کے تحقق نبوت کے جو یہ لوگ آپ کو غلطی پر اور اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں تو) آپ (ان سے) فرما دیجئے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون سچا دین لے کر (منجانب اللہ) آیا ہے اور کون صریح گمراہی میں (مبتلا) ہے (یعنی میرے حق پر ہونے اور تمہارے باطل پر ہونے کے دلائل قطعیہ موجود ہیں مگر جب ان سے کام نہیں لیتے تو اخیر جواب یہی ہے کہ خیر، خدا کو معلوم ہے وہ بتلا دے گا) اور (آپ کی یہ دولت نبوت محض خدا داد ہے حتی کہ خود) آپ کو (نبی ہونے کے قبل) یہ توقع نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جاوے گی مگر محض آپ کے رب کی مہربانی سے اس کا نزول ہوا، سو آپ (ان لوگوں کی خرافات کی طرف توجہ نہ کیجئے اور جس طرح اب تک ان سے الگ تھلگ رہے آئندہ بھی اسی طرح) ان کافروں کی ذرا تائید نہ کیجئے اور جب اللہ کے احکام آپ پر نازل ہوچکے تو ایسا نہ ہونے پاوے (جیسا اب تک بھی نہیں ہونے پایا) کہ یہ لوگ آپ کو ان احکام سے روک دیں اور آپ (بدستور) اپنے رب (کے دین) کی طرف (لوگوں کو) بلاتے رہئے اور (جس طرح اب تک مشرکوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، اسی طرح آئندہ ہمیشہ) ان مشرکوں میں شامل نہ ہو جئے اور (جس طرح اب تک شرک سے معصوم ہیں اسی طرح آئندہ بھی) اللہ کے ساتھ کسی معبود کو نہ پکارنا (ان آیتوں میں کفار و مشرکین کو ان کی درخواستوں سے ناامید کرنا ہے اور روئے سخن ان ہی کی طرف ہے کہ تم جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین میں موافق ہونے کی درخواست کرتے ہو اس میں کامیابی کا کبھی احتمال نہیں، مگر عادت ہے کہ جس شخص پر زیادہ غصہ ہوتا ہے اس سے بات نہیں کیا کرتے اپنے محبوب سے باتیں کر کے اس شخص کو سنایا کرتے ہیں۔ معالم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ خطاب صرف ظاہر میں آپ کو ہے اور مقصود آپ نہیں۔ یہاں تک رسالت کے متعلق مضمون قصداً تھا، گو توحید کا بھی ضمنًا آگیا، آگے توحید کا مضمون قصدا ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اس لئے کہ) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں، بجز اس کی ذات کے پس اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہ ٹھہرا، یہ مضمون توحید کا ہوگیا، آگے معاد کا مضمون ہے کہ) اسی کی حکومت ہے (جس کا ظہور کامل قیامت میں ہے) اور اسی کے پاس تم سب کو جانا ہے (پس سب کو ان کے کئے کی جزا دے گا یہ معاد کا مضمون بھی ختم ہوگیا۔ ) معارف و مسائل اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ، آخر سورت میں یہ آیات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور اپنے فریضہ رسالت و نبوت پر پوری طرح قائم رہنے کی تاکید کے لئے ہیں اور مناسبت اس کی سابقہ آیات سورت سے یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیلی قصہ فرعون اور اس کی قوم کی دشمنی اور اس سے خوف کا پھر اپنے فضل سے ان کو قوم فرعون پر غالب کرنے کا ذکر فرمایا تو آخر سورت میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے ہی حالات کا خلاصہ بیان فرمایا کہ کفار مکہ نے آپ کو پریشان کیا، قتل کے منصوبے بنائے، مسلمانوں کی زندگی مکہ میں اجیرن کردی مگر حق تعالیٰ نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق آپ کو سب پر فتح اور غلبہ نصیب فرمایا اور مکہ مکرمہ جہاں سے کفار نے آپ کو نکالا تھا وہ پھر مکمل طور پر آپ کے قبضہ میں آیا۔ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ جس ذات پاک نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے یعنی اس کی تلاوت اور تبلیغ اور اس پر عمل آپ پر فرض فرمایا ہے وہ ہی ذات آپ کو پھر معاد پر لوٹائے گی۔ معاد سے مراد مکہ مکرمہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے معاد کی یہ تفسیر منقول ہے مطلب یہ ہے کہ اگر چند روز کے لئے آپ کو اپنا وطن عزیز خصوصاً حرم اور بیت اللہ چھوڑنا پڑا مگر قرآن کا نازل کرنے والا اور اس پر عمل کو فرض کرنے والا اللہ تعالیٰ آخر کار آپ کو پھر مکہ میں لوٹا کر لائے گا۔ ائمہ تفسیر میں سے مقاتل کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے وقت غار ثور سے رات کے وقت نکلے اور مکہ سے مدینہ جانے والے معروف راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں سے سفر کیا کیونکہ دشمن تعاقب میں تھے۔ جب مقام جحفہ پر پہنچے جو مدینہ طیبہ کے راستہ کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے اور وہاں سے وہ مکہ سے مدینہ کا معروف راستہ مل جاتا ہے اس وقت مکہ مکرمہ کے راستہ پر نظر پڑی تو بیت اللہ اور وطن یاد آیا، اسی وقت جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے جس میں آپ کو بشارت دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ سے جدائی چند روزہ ہے اور بالاخر آپ کو پھر مکہ مکرمہ پہنچا دیا جائے گا جو فتح مکہ کی بشارت تھی۔ اسی لئے حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ یہ آیت جحفہ میں نازل ہوئی ہے نہ مکی ہی نہ مدنی (قرطبی) قرآن دشمنوں پر فتح اور مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ ہے : اس آیت میں آپ کو دوبارہ مکہ مکرمہ میں فاتحہ واپسی کی بشارت اس عنوان سے دی گئی ہے کہ جس ذات حق نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے آپ کو دشمنوں پر غالب کر کے دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹائے گا، اس میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل ہی اس نصرت خداوندی اور فتح مبین کا سبب ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝ ٠ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْہُدٰى وَمَنْ ہُوَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٨٥ فرض الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] ، أي : معلوما، وقیل : مقطوعا عنهم، والفَرْضُ كالإيجاب لکن الإيجاب يقال اعتبارا بوقوعه وثباته، والفرض بقطع الحکم فيه «3» . قال تعالی: سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] ، أي : أوجبنا العمل بها عليك، وقال : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ، أي : أوجب عليك العمل به، ومنه يقال لما ألزم الحاکم من النّفقة : فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] ، وقوله : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] ، وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، وفَرَائِضُ اللہ تعالی: ما فرض لأربابها، ورجل فَارِضٌ وفَرْضِيٌّ: بصیر بحکم الفرائض . قال تعالی: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَ إلى قوله : فِي الْحَجِّ «4» أي : من عيّن علی نفسه إقامة الحجّ «5» ، وإضافة فرض الحجّ إلى الإنسان دلالة أنه هو معيّن الوقت، ويقال لما أخذ في الصّدقة فرِيضَةٌ. قال : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ «1» وعلی هذا ما روي (أنّ أبا بکر الصّدّيق رضي اللہ عنه كتب إلى بعض عمّاله کتابا وکتب فيه : هذه فریضة الصّدقة التي فرضها رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم علی المسلمین) . والفَارِضُ : المسنّ من البقر «3» . قال تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] ، وقیل : إنما سمّي فَارِضاً لکونه فارضا للأرض، أي : قاطعا، أو فارضا لما يحمّل من الأعمال الشاقّة، وقیل : بل لأنّ فَرِيضَةُ البقر اثنان : تبیع ومسنّة، فالتّبيع يجوز في حال دون حال، والمسنّة يصحّ بذلها في كلّ حال، فسمّيت المسنّة فَارِضَةً لذلک، فعلی هذا يكون الفَارِضُ اسما إسلاميّا . ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس ( کے احکام ) کو فرض کردیا ۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ( اے پیغمبر ) جس نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا ہے ۔۔۔۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ حاکم کسی کے لئے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فرئض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہوا سے فارض و فرضی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَإلى قوله : فِي الْحَجِّ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج ( کے کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے ( کہ میں امسال حج کرونگا یا آئندہ سال اور زکوۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ صدقات ( یعنی زکوۃ نہ خیرات ) تو مفلسوں ۔۔۔۔ کا حق ہے ( یہ ) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ایک عامل کیطرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا کہ یہ یعنی جو مقادیرلکھی جاری ہی میں فریضہ زکوۃ ہے ۔ جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔ الفارض عمر رسیدہ گائے یا بیل ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ بعض نے کہا کہ بیل کو فارض اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ تا یعنی جو تنا ہے اور یا اس لئے کہ اس پر سختکاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ گائے کی زکوۃ میں تبیع اور مسنۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مسنۃ کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہوتی ہے اس لئے مسنۃ کو فارضۃ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بناپر فارض کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ مَعادُ والمَعادُ يقال للعود وللزّمان الذي يَعُودُ فيه، وقد يكون للمکان الذي يَعُودُ إليه، قال تعالی: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ [ القصص/ 85] ، قيل : أراد به مكّة «3» ، والصحیح ما أشار إليه أمير المؤمنین عليه السلام وذکره ابن عباس أنّ ذلك إشارة إلى الجنّة التي خلقه فيها بالقوّة في ظهر آدم «4» ، وأظهر منه حيث قال : وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف/ 172] . المعاد کے معنی لوٹنے کے ہیں اور لوٹنے کہ جگہ یا زمانہ کو بھی المعاد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ [ القصص/ 85]( اے پیغمبر ) جس خدا ) نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دیگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ معاد سے مکہ مکرمہ مراد ہے مگر اس کے صحیح معنی وہ ہیں جن کی طرف حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے بھی ذکر کئے ہیں ۔ کہ اس سے جنت مراد ہے ۔ جس میں آنحضرت کو بالقوہ اس وقت پیدا کیا تھا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلب آدم (علیہ السلام) میں تھے پھر وہاں سے عالم دنیا میں لاکر آنحضرت کو دنیا پر جو اہ گر کیا گیا جیسا کہ آیت : ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف/ 172] الایۃ میں مذکور ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) جس ذات نے آپ پر بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم نازل کیا ہے وہ آپ کو آپ کے اصلی وطن مکہ مکرمہ میں پہنچا دے گا یا یہ کہ جنت میں تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون توحید و قرآن کریم لے کر آیا اور کون صریح کفر اور گمراہی میں مبتلا ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ ان الذی فرض علیک القران “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے اور مقام حجفہ میں پہنچے تو آپ کو مکہ مکرمہ کا اشتیاق ہوا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی جس ذات نے آپ پر قرآن حکیم فرض کیا ہے وہ آپ کو آپ کے اصلی وطن کی طرف پھر لوٹا دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط) ” یہاں پر فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ کے حوالے سے سورة النمل کی آیت ٩٢ کے یہ الفاظ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیں : (وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج) یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تم لوگوں کو قرآن سناتا رہوں۔ قرآن ہی کے ذریعے سے انذار ‘ تبشیر اور تبلیغ کا فرض ادا کرتا رہوں اور اسی کی مدد سے تمہارے نفسانی اور روحانی امراض کی شفا کے لیے کوشاں رہوں۔ گویا سورة النمل کی مذکورہ آیت میں قرآن پڑھ کر سنانے کے جس حکم کا ذکر ہے اسی کی تعبیر یہاں آیت زیر مطالعہ میں فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ کے الفاظ میں کی گئی ہے۔ یعنی قرآن کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے فرض کردی ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت ٦٧ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس ذمہ داری کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ ط) ” اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچا دیجیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی جانب سے۔ اور اگر (بالفرض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ بھاری ذمہ داری اپنی امت کو منتقل کردی اور اس سلسلے میں حکم دیا : (فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ ) ” پس جو حاضر ہے وہ اس تک پہنچا دے جو حاضر نہیں ہے “۔ گویا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر امتی اپنی استطاعت کے مطابق تبلیغ دین کا یہ فریضہ لازماً ادا کرے۔ اس حکم کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ” فریضۂ رسالت “ کا سلسلہ قیام قیامت تک دراز فرما دیا۔ چناچہ اس امت کے افراد ہونے کے ناتے سے اب یہ ذمہ داری ہم میں سے ہر ایک پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے اپنے کتابچے ” مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق “ میں اس ذمہ داری کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس لحاظ سے اس ذمہ داری کے پانچ پہلو ہیں ‘ یا یوں سمجھئے کہ قرآن کے یہ پانچ بنیادی حقوق ہیں جو ہم میں سے فرداً فرداً سب کے ذمہ ہیں۔ یعنی : (١) قرآن پر ایمان لانا ‘ جیسا کہ اس پر ایمان لانے کا حق ہے۔ (٢) قرآن کی تلاوت کرنا ‘ جیسا کہ اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (٣) قرآن کو سمجھنا ‘ جیسا کہ اسے سمجھنے کا حق ہے۔ (٤) قرآن پر عمل کرنا ‘ جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور (٥) قرآن کی تبلیغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہچانا ‘ جیسا کہ اس کا حق ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی ذمہ داری کے حوالے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس اللہ نے آپ پر قرآن کی یہ بھاری ذمہ داری ڈالی ہے وہ یقیناً آپ کو لوٹائے گا لوٹنے کی بہت اچھی جگہ پر۔ مَعَاد اسم ظرف ہے عاد یَعُوْدُ سے ‘ یعنی لوٹنے کی جگہ۔ اس سے مراد آخرت بھی لی جاتی ہے اور اسی لیے ایمان بالآخرت کو ” ایمان بالمعاد “ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس آیت کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ یہاں ” مَعاد “ سے مراد ” مکہ “ ہے اور ان الفاظ میں گویا ہجرت کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنائی گئی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ کی طرف لوٹادے گا۔ اس سلسلے میں جو روایات ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت کے دوران جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار ثور میں تین راتیں گزارنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو چونکہ تعاقب کا اندیشہ تھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احتیاطاً ایک ایسا غیر معروف پہاڑی راستہ اختیار فرمایا جو آگے جا کر مکہ سے مدینہ جانے والے معروف راستے سے مل جاتا تھا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے چلتے جب اس معروف راستے پر پہنچے تو وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی جذباتی اور رقت آمیز صورت حال پیدا ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راستوں کے ملاپ کی جگہ (T) پر کھڑے تھے۔ دائیں طرف کا راستہ مدینہ کو جاتا تھا جبکہ بائیں جانب مکہ تھا۔ اس وقت مکہ اور خانہ کعبہ کی جدائی کے غم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے ایک ہوک اٹھی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کیفیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اطمینان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل گرفتہ نہ ہوں ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرور مکہ واپس لے کر آئیں گے۔ اگرچہ اب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے مجبور ہو کر نکلے ہیں لیکن عنقریب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل کرنے والے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ایسی ہی کیفیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ سے روانگی کے وقت بھی طاری ہوئی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ سے لپٹ کر فرمایا تھا : اے کعبۃ اللہ ! مجھے تجھ سے بہت محبت ہے ‘ مگر میں کیا کروں ‘ یہاں کے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ بہر حال میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہی ہے کہ یہاں ” مَعاد “ سے مراد آخرت اور جنت ہے۔ جیسا کہ سورة الضحیٰ میں بھی فرمایا گیا ہے : (وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی ) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یقیناً آخرت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہوگی “۔ اس معنی میں یہاں پر ” مَعاد “ بطور اسم نکرہ گویا ” تفخیم شان “ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی لوٹنے کی وہ جگہ بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہوگی۔ اس مفہوم کی مزید وضاحت سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں بھی ملتی ہے : (عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) ” اُمید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا “۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی ” مقام محمود “ کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس مقام (معاد) کی شان کیسی ہوگی ؟ کسی انسان کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107 That is, "He has placed on you the responsibility of conveying the Qur'an and teaching it to the people, and reforming the world according to the guidance contained in it." 108 The word ma ad in the original means the place to which one has to return ultimately. Its use as a common noun implies that it is a place of eminence and glory. Some commentators think it refers to Paradise. But there is no reason why it should be restricted only to Paradise. Let it remain indefinite as Allah Himself has put it so that the promise become applicable both his world and to the Next World. The context also requires that it should be looked upon as a promise to bestow the highest glory and eminence on the Holy Prophet ultimately not only in the Hereafter but in this world too. In the saying of the disbelievers of Makkah, which has been the theme of the discourse from verse 57 until now, they had said, "O Muhammad (Allah's peace be upon him), do you want us also to be doomed with you ? If we join you and adopt this Faith, it will become hard for us to live in Arabia." In response to this, Allah tells His Prophet: "O Muhammad, that God Who has placed the burden of conveying the message of the Qur'an on you, will not destroy you: rather He will exalt you to the rank which these people cannot even imagine today." And, in actual fact, in a few years after this, even in this world, Allah granted the Holy Prophet complete authority over the whole of Arabia, and there was no power to resist him, and no religion to stand its ground. There had been no precedent in the history of Arabia that the whole peninsula might have come under the sway of one man so completely that no opponent might be there to challenge him and no soul to dare disobey his orders. Then it was not only a political domination but religious too, for the whole population had been won over to Islam. Some commentators opine that this verse of Surah Al-Qasas was sent down on the way during the Holy Prophet's migration from Makkah to Madinah, and in this Allah had promised His Prophet that He would again bring him back to Makkah. But, firstly, the words of the verse do not allow that "ma `ad" be taken to mean "Makkah". Secondly, this Surah, both according to the traditions and the internal evidence of its theme, was revealed some time during the time of the migration to Habash, and one cannot understand that if this verse was revealed after several years on the way during the migration to Madinah. why was it inserted in this context without any relevance? Thirdly, in this context, the mention of the Holy Prophet's return to Makkah seems quite irrelevant. For if the verse is taken to mean this, it will not be a reply to the disbelievers' excuse but would rather strengthen it. It would mean this: "No doubt, what you say, O people of Makkah, is correct. Muhammad will be expelled from this city, but he will not remain an exile for ever, but eventually We will bring him back to this very place." Though this tradition has been reported by Bukhari, Nasa'i, Ibn Jarir and other traditionists on the authority of Ibn `Abbas, it is, in fact, Ibn `Abbas's own opinion; it is not a tradition that might have been received direct from the Holy Prophet that one may have to accept it.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 107 یعنی اس قرآن کو خلق خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 108 اصل الفاظ ہیں لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۔ تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے ۔ معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو ، اور اسے نکرہ استعمال کرنے سے اس میں خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اور عظمت کا مقام ہے ، بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے ، لیکن اسے صرف جنت کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے ، تاکہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہوجائے ۔ سیاق عبارت کا اقتضاء بھی یہ ہے کہ اسے آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے ۔ کفار مکہ کے جس قول پر آیت نمبر 57 سے لے کر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے اس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبنا چاہتے ہو ، اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور اس دین کو اختیار کرلیں تو عرب کی سرزمین میں ہمارا جینا مشکل ہوجائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ اے نبی جس خدا نے اس قرآن کی علم برداری کا بار تم پر ڈالا ہے وہ تمہیں برباد کرنے والا نہیں ہے ، بلکہ تم کو اس مرتبے پر پہنچانے والا ہے جس کا تصور بھی یہ لوگ آج نہیں کرسکتے ۔ اور فی الواقع اللہ تعالی نے چند ہی سال بعد حضور کو اس دنیا میں ، انہی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تمام ملک عرب پر ایسا مکمل اقتدار عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھہر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لیے وہاں گنجائش نہ رہی ۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجود نہ تھی کہ پورے جزیرۃ العرب پر کسی ایک شخص بے غل و غش بادشاہی قائم ہوگئی ہو کہ ملک بھر میں کوئی اس کا مد مقابل باقی نہ رہا ہو ، کسی میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارانہ ہو ، اور لوگ صرف سیاسی طور پر ہی اس کے حلقہ بگوش نہ ہوئ؁ ہوں بلکہ سارے دینوں کو مٹا کر اسی ایک شخص نے سب کو اپنے دین کا پیرو بھی بنا لیا ہو ۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورہ قصص کی یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالی نے اپنے نبی سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا ۔ لیکن اول تو اس کے الفاظ میں کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ۃے کہ معاد سے مکہ مراد لیا جائے ۔ دوسرے یہ سورۃ روایات کی رو سے بھی اور اپنے مضمون کی اعلی شہادت کے اعتبار سے بھی ہجرت حبشہ کے قریب زمانہ کی ہے اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت مدینہ کے راستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اسے کس مناسبت سے یہاں اس سیاق و سباق میں لاکر رکھ دیا گیا ۔ تیسرے اس سیاق و سباق کے اندر مکہ کی طرف حضور کی واپسی کا ذکر بالکل بے محل نظر آتا ہے ، آیت کے یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ کفار مکہ کی بات کا جواب نہیں بلکہ ان کے عذر کو اور تقویت پہنچانے والا ہوگا ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بیشک اے اہل مکہ ، تم ٹھیک کہتے ہو ، محمد اس شہر سے نکال دیے جائیں گے ، لیکن وہ مستقل طور پر جلا وطن نہیں رہیں گے ، بلکہ آخر کار ہم انہیں اسی جگہ واپس لے آئیں گے ، یہ روایت اگرچہ بخاری ، نسائی ، ابن جریر اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے نقل کی ہے ، لیکن یہ ہے ابن عباس کی اپنی ہی رائے ۔ کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے کہ اسے ماننا لازم ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’معاد ‘‘استعمال ہوا ہے، بعض مفسرین کے نزدیک یہ ’’عادت‘‘ سے نکلا ہے، یعنی وہ جگہ جس میں رہنے اور آنے جانے کا اِنسان عادی اور اس سے مانُوس ہو۔ اور بعض حضرات نے اس کے معنیٰ ’’لوٹنے کی جگہ‘‘ بیان کئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس سے مکہ مکرَّمہ مراد ہے، اور یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ تشریف لے جارہے تھے، جب جحفہ کے قریب اُس جگہ پہنچے جہاں سے مکہ مکرَّمہ کا راستہ الگ ہوتا تھا، تو آپ کو اپنے وطن سے جدائی کا اِحساس ہوا، اِس موقع پر اِس آیت کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے تسلی دی، اور وعدہ فرمایا کہ آپ کو دوبارہ اِس سرزمین میں فاتح کی حیثیت سے لایا جائے گا۔ چنانچہ آٹھ سال کی مدت میں یہ وعدہ پورا ہوگیا اور مکہ مکرَّمہ میں آپ فاتح بن کر داخل ہوئے، اور بعض مفسرین نے ’’انسیت کی جگہ‘‘ یا ’’لوٹنے کی جگہ‘‘ سے مراد جنّت لی ہے اور آیت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ کو اگرچہ اس دُنیا میں تکلیفیں پہنچ رہی ہیں، لیکن آخر کار آپ کا مقام جنّت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٥ تا ٨٨۔ صحیح بخاری اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے جس میں انہوں نے فرمایا معاد سے مقصود مکہ معظمہ ہے جس کا حاصل فتح مکہ کی خوشخبری ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول ہے۔ جس میں انہوں نے معاد کی تفسیر قیامت کی فرمائی ہے حقیقت میں دونوں تفسیریں صحیح ہیں کیوں کہ پہلی تفسیر کا ظہور تو فتح مکہ کے وقت ہوچکا دوسری تفسیر کا حاصل یہ ہے۔ کہ قرآن کی نصیحت سن کر راہ راست پر آنے والوں کا اور گمراہی پر جمنے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے۔ اے رسول اللہ کے تم اپنا کام کیے جاؤ۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان گمراہی پر جمے رہنے والوں سے ماذا اجبتم المرسلین کا سوال کرے گا۔ تو یہ لوگ لاجواب ہوجا ہیں گے اس دوسری تفسیر کی زیادہ تفصیل صیح بخاری نسائی وغیرہ کی ابو سعید حذری (رض) کی حدیث کے حوالہ سے آیت ونزعنا من کل امۃ شھیدا کی تفسیر (صفحہ ٣٢١ جلد اول) میں گذر چکی ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس کو جو ہدایت پر ہے۔ اور جو کھلا گمراہ ہے اور اے رسول اللہ کے تم کو امید نہ تھی کہ تم پر خدا کی کتاب اتاری جائے گی جب اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی نعمت دی ہے۔ تو تم مشرکوں کے مددگار مت بنو مطلب یہ ہے۔ کہ ان کی مخالفت تم کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی نصیحت سے نہ روک دے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا بول بالا کرنے والا ہے اس لیے تم لوگوں کو اس معبود کی عبادت کی رغبت دلاؤ جو وحدہ لاشریک ہے۔ اور اپنی مشرک قوم کی کچھ پاس داری نہ کرو اس کے بعد اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر مشرکوں کو جتلایا کہ سوا اللہ کے اور کسی کی عبادت جائز نہیں ہے کیوں کہ سوا اس کی ذات پاک کے اور سب کو فنا ہے پھر فنا ہونے والی چیز نہ لائق عبادت ہے نہ ایسی چیز کے ہاتھ میں جزا وسزا ہے بلکہ جزاو سزا کے لیے سب اسی ذات پاک کے روبرو ایک دن حاضر کئے جاویں گے اوپر چند آیتوں کی تفسیر میں یہ ذکر گذر چکا ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں تمام اہل مکہ کے راہ راست پر آجانے کی بڑی تمنا تھی ان مکی آیتوں میں بھی یہی ذکر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے لولا اوتی مثل ما اوتی موسیٰ کہہ کر تو رات کی طرح کسی کتاب آسمانی کے اہل مکہ پر نازل ہونے کا آپس میں چرچا کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں بھی یہ بات تھی۔ کہ کوئی معجزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا عطا ہوجائے جس سے یہ لوگ راہ راست پر آجاویں اس پر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ راہ راست پر آنے والوں کا اور گمراہی کی حالت پر مرجانے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے۔ اس لیے علم الٰہی کے موافق جو لوگ ان میں سے گمراہی کی حالت میں دنیا سے اٹھنے والے ہیں۔ وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر راہ راست پر نہیں آنے والے اس واسطے اے رسول اللہ کے تم مشرکوں کی ایسی باتوں میں ان کے اور پاسدار بنو۔ جب یہ گمراہی کہ حالت پر مرجانے والے لوگ مرمٹ جاویں گے تو اللہ تعالیٰ تم کو فتح مند کر کے مکہ میں داخل کرے گا اور اور میدان محشر میں سب مخلوقات کے روبرو ان لوگوں سے جب تمہاری نافرمانی کی پرستش ہوگی تو یہ لوگ لاجواب ہو کر اپنی گمراہی پر بہت بچتاویں گے۔ اسی طرح کی چند آیتیں نازل ہوجانے کے بعد جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم الٰہی کا یہ حال اچھی طرح سے کھل گیا تو آپ نے بھی پھر چند حدیثوں میں اچھی طرح یہ مطلب امت کو سمجھا دیا۔ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ ( علیہ السلام) اشعری (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور نیک وبد لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی اس قسم کی سب حدیثوں کو حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی میں جو لوگ گمراہ قرار پاچکے ہیں وہ کسی معجزہ یا نصیحت سے راہ راست پر آنے والے نہیں یہی مضمون آیتوں کا ہے اس لیے یہ حدیثیں گویا ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:85) لرادک میں لام تاکید کے لئے ہے۔ راد اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ رد یرد رد (باب نصر) سے۔ جس کے معنی پھیر دینے کے ہیں۔ راد پھیرنے والا لوٹانے والا۔ دور کرنے والا۔ رد کرنے والا۔ دفع کرنے والا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر وہ تجھے ضرور (اپنے وطن کی طرف ) لوٹا دینے والا ہے۔ معاد۔ اسم ظرف مکان۔ لوٹ کر آنے کی جگہ۔ جائے بازگشت۔ عود کی جگہ (یعنی مکہ مکرمہ عاد یعود عود (باب نصر) بمعنی لوٹنا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یا ” جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کے احکام و فرامین پر عمل کرنا فرض کیا۔ اس کے یہ دونوں مطلب مفسرین (رح) نے بیان کئے ہیں۔ (شوکانی) 12 ۔ مراد ہے مکہ کی طرف۔ اکثر مفسرین (رح) نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے نکل کر حجفہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں مکہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (شوکانی) اس میں فتح مکہ کی خوشخبری دی ہے۔ (قرطبی) یہ آیت اتری ہجرت کے وقت۔ یہ تسلی فرمائی کہ پھر مکہ آئو گے سو خوب طرح آئے پورے غالب ہو کر۔ (موضح) بعض نے ” معاد “ سے مراد موت اور بعض نے جنت لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر ” آخرت “ سے بھی کی ہے۔ دراصل فتح مکہ ہی قرب موت کی علامت تھی جیسا کہ سورة ” اذا جاء نصر اللہ الخ “ کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے مکہ کی طرف لوٹنا موت سے کنایہ ہوسکتا ہے اور موت ذریعہ ہے عالم آخرت میں پہنچنے کا، جس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کے اعلیٰ مقام میں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا ان اقوال میں اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 13 ۔ یہ دراصل کفار مکہ کا جواب ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” انک فی ضلال “ کہتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2 حاصل کلام یہ ہے کہ جس نے آپ کو نبی وصاحب وحی بنایا ہے اور نبی سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ بوجہ قطعی ہونے وحی کے یقینا صادق ہوتا ہے، وہ آپ سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ پس بالیقین واقع ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختلاف قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی مرکزی دعوت توحید سے ہوا۔ اس لیے آخر میں آپ کی نبوت کے بارے میں وضاحت اور توحید کی مخالفت کرنے والوں کا انجام ذکر کیا گیا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور کفار کے الزام کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حالات جیسے بھی ہوں قرآن مجید کو لوگوں تک من و عن پہنچانا ہم نے آپ پر فرض قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے آپ کے ذہن میں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر قرآن نازل کرے گا اور اپنے کام کے لیے آپ کو منتخب فرمائے گا۔ آپ حوصلے اور جوانمردی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام لوگوں کے سامنے پڑھیں اور کھول کھول کر اس کی توحید بیان فرمائیں، کسی اعتبار سے بھی کفار کے ساتھ معاونت نہ کریں یہ قرآن آپ پر آپ کے رب کی طرف سے رحمت بن کر نازل ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کے مقام کو سب سے اعلیٰ اور بہتر بنائے گا، آپ کی کامیابی کا پھریرا بلند ہوگا اور آخرت میں آپ حوض کوثر کے مالک ہوں گے۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون شخص گمراہ ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ آپ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور جہاں تک کفار کے اس الزام کا تعلق ہے کہ یہ قرآن آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ آپ کو بالکل خبر نہ تھی کہ آپ کا رب آپ پر قرآن نازل کرے گا۔ یہ محض اس کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ ” مَعَادْ “ کا معنی لوٹنے کی جگہ ہے جس کا معنی آخرت میں جنت اور دنیا میں کامیابی کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف لوٹنا ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کا یہی مفہوم لیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ ) قَالَ إِلَی مَکَّۃَ ) [ رواہ البخاری : باب (إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ ) الآیَۃَ ] ” حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آپ کا مکہ کی طرف لوٹنا ہے۔ “ مسائل ١۔ توحید کا پرچار، قرآن مجید کا ابلاغ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٢۔ توحید کی سمجھ اور قرآن کا فہم ” اللہ “ کی رحمت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہدایت پانے والے اور گمراہ شخص کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نزول وحی سے پہلے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے : ١۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٢) ٢۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠ ) ٣۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے ساری بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا آسمانوں و زمین کا غیب کوئی نہیں جانتا۔ ( النمل : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو غیب پر مطلع نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٧٩) ٦۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) ٨۔ اللہ ہی غیب کو جاننے والا ہے اور وہ کسی پر غیب ظاہر نہیں ہوتا۔ (الجن : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 179 تشریح آیات 85 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 88 اب قصص ختم ہیں۔ ان قصص پر جو تبصرے تھے وہ بھی ختم ہوگئے۔ اب روئے سخن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں اس وقت مٹھی بھر اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خطاب ایسے حالات میں ہے کہ مکہ سے لوگ آپ کو نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آپ مدینہ کی طرف جانے والے ہیں اور اس میں بھی قوم آپ کا پیچھا کر رہی ہے۔ ابھی آپ مدینہ نہیں پہنچے۔ راستہ ہی میں ہیں۔ یہ آیات جحفہ میں اتریں جو مکہ کے قریب ہے۔ اس وقت ہجرت کرتے ہوئے آپ کی نظریں اور آپ کا دل اپنے محبوب شہر مکہ کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ چھوڑنا نہایت ہی دشوار گزر رہا ہے۔ اگر دعوت اسلامی کا عظیم مقصد آپ کے پیش نظر نہ ہوتا تو آپ اپنے بچپن کے اس شہر کو ہرگز نہ چھوڑتے ، جس کے ساتھ آپ کی یادیں وابستہ ہیں۔ جہاں آپ کے آباؤ اجداد خوابیدہ ہیں اور جہاں آپ کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہوتا ہے ان الذی فرض علیک القران لدآدک الی معاد۔ ” اللہ آپ کو مشرکین کے حوالے کرنے والا نہیں ہے۔ جبکہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کی تبلیغ اور دعوت فرض کردی ہے۔ اللہ مشرکین مکہ کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے حاملین پر تشدد اور ظلم کرتے رہیں ۔ اللہ نے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کی دعوت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وہ ایک مقرر وقت پر آپ کو نصرت بھی کرنے والا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ ٹھیک ہے آج ان لوگوں نے آپ کو نکال دیا ہے لیکن بہت جلدی آپ پھر واپس آنے والے ہیں۔ جن حالات میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت پر مجبور ہوئے تھے وہ بہت زیادہ کربناک تھے لیکن اللہ نے چاہا کہ ایسے حالات ہی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ پختہ عہد کردیا جائے کہ آپ ظفر مندی کے ساتھ پھر اس شہر کو لوٹیں گے تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کی مشکلات کو امن اور یقین کے ساتھ برداشت کریں۔ مطمئن ہوجائیں کہ جلدی آپ فاتح کی حیثیت سے لوٹنے والے ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھی طرح یقین ہوگیا کہ جلد ہی یہ تحریک مکہ میں فاتحانہ داخل ہوگی۔ اللہ کا یہ وعدہ ان تمام لوگوں کے لیے قائم ہے جو بھی اس راہ پر چلنا چاہیں۔ جو شخص بھی اللہ کے لیے تشدد کا شکار ہو اور وہ اس پر صبر کرے اور یقین رکھے کہ اس ظلم اور تشدد کے بعد آخرکار اللہ کی مدد آئے گی تو اللہ نے آخر کار ایسے شخص کی مدد کی ہے۔ ایسا شخص آخر کار کامیاب ہوتا ہے اس معرکے سے سرخرو ہوکر نکلتا ہے۔ اس کا کاندھوں سے بوجھ اتر جاتا ہے اور وہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرلیتا ہے۔ ان الذی فرض ۔۔۔۔ الی معاد (28: 84) ” یقین کرو جس نے تم پر قرآن فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین جگہ (مکہ) واپس پہنچانے والا ہے “۔ اور اس سے قبل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکال دئیے گئے تھے اور ان کا تعاقب بھی ہوا تھا لیکن اللہ نے ان کو پھر مصر کی طرف لوٹا دیا۔ وہ واپس ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کے کمزور لوگوں کو فرعون کی غلامی سے نکالا اور فرعون اور اس کی فوج ہلاک ہوئی اور اچھا انجام ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے ہدایت قبول کی تھی۔ لہٰذا آپ بھی جس راہ پر نکل پڑے ہیں ، چلتے رہیں اور آپ کی قوم اور آپ کے درمیان فیصلہ وہ کرے گا جس نے آپ کو اس ڈیوٹی پر مامور کیا ہے۔ قل ربی اعلم من جآء ۔۔۔۔۔ ضلل مبین (85) یعنی ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ وہ اہل ہدایت کو جزاء دے گا اور اہل ضلالت کو سزا دے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو قرآن فرض کیا گیا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے ایک رحمت اور مہربانی ہے۔ آپ کے تو خواب و خیال میں یہ بات نہ تھی کہ یہ امانت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی جائے گی۔ یہ ایک عظیم منصب ہے جو آپ کو دیا گیا اور اس منصب کے دئیے جانے سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصور میں بھی ایسی کوئی بات نہ تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ کو کتاب دی گئی حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ مَعَاد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سابق وطن یعنی مکہ معظمہ مراد ہے اور اس میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی ہے کہ آپ واپس اپنے وطن تشریف لائیں گے۔ چناچہ آپ ٨ ہجری میں فاتح ہو کر مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تھے انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ ہجرت کے سفر میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجفہ میں نازل ہوئے اس وقت مکہ معظمہ یاد آگیا اور آپ کو اپنے وطن کا اشتیاق ہوا۔ اس موقع پر جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر حاضر ہوئے جس میں آپ کے واپس مکہ معظمہ تشریف لانے کا وعدہ ہے اسی لیے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت حجفہ میں نازل ہوئی نہ مکی ہے نہ مدنی ہے اس روایت کی بناء پر فَرَضَ کا ترجمہ اَنْزَل کیا جائے گا یعنی جس ذات نے آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے وہ آپ کو آپ کے وطن واپس پہنچا دے گا۔ بعض حضرات نے فَرَضَ کا معنی معروف لیا ہے۔ اور مَعَادْ سے جنت مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس ذات نے آپ پر یہ فرض کیا ہے کہ قرآن پر عمل کریں وہ آپ کو جنت میں پہنچا دے گا۔ (قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَآء بالْھُدٰی) (آپ فرما دیجیے کہ میرا رب اسے خوب جانتا ہے، جو ہدایت لے کر آیا) (وَ مَنْ ھُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) (اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو کھلی گمراہی میں ہے) صاحب روح المعانی نے معالم التنزیل سے نقل کیا ہے کہ اس میں مکہ معظمہ کے کفار کا جواب ہے جنہوں نے آپ کو گمراہی پر بتایا تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

80:۔ یہ امر دوم ہے جو انا رادوہ الیک، پر متفرع ہے یا موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر سے مدین جانے اور وہاں سے واپس مصر آنے سے متعلق ہے۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے خوف سے مدین کو ہجرت کر گئے لیکن ہم انہیں واپس مصر لائے اسی طرح آپ کو بھی اعزاز واکرم کے ساتھ مکہ واپس لاؤں گا۔ ابن عباس فرماتے ہیں مراد فتح مکہ ہے۔ فرض، کے معنی انزل کے ہیں۔ قال مقاتل انزلہ علیک وکذا قال افراء و ابو عبدیۃ وقال ابن عباس ایضا و مجاھد المعاد مکۃ واراد ردہ الیہا یوم الفتح (بحر ج 7 ص 136) گویا یہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ آپ مطمئن رہیں آخر آپ کے دشمن مغلوب ہوں گے اور آپ غالب ہوں گے۔ 81:۔ یہ امر سوم ہے جو وقال موسیٰ ربی اعلم بمن جاء بالہدی الخ پر متفرع ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے معاندانہ کلام کا جو جواب دیا تھاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی وہی جواب دینے کا حکم دیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85۔ بلا شبہ جس نے آپ پر قربانی احکام کی تعمیل اور تبلیغ کو فرض کیا ہے اور جس نے آپ پر قرآن کریم کا حکم بھیجا ہے وہی آپ کو آپ کے اصل وطن میں پھیرنے والا اور واپس لانے والا ہے آپ فرما دیجئے میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت اور دین حق لے کر آیا ہے اور کون صریح اور کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پھر لادیگا پہلی جگہ یہ ایٓت اتری ہجرت کے وقت یہ تسلی فرمائی کہ پھر سکے میں آئو گے سو خوب طرح آئے پورے غالب ہوکر۔ 12 معاد سے مراد عام طور پر مکہ معظمہ کی جانب فاتحانہ طور پر واپسی بیان کی گئی ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت اور اجل کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ بعض نے کہا ہے اور چونکہ مکہ کی واپسی کے بعد اجل کا زمانہ بھی قریب آگیا اس لئے موت کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور عاشقوں کے لئے موت سے اچھا کیا وعدہ ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاد سے مراد عالم آخرت کی واپسی ہو وہ تو حقیقی معاد ہے ہی اور اجل کے بعد پھر عالم آخرت ہی آتا ہے اس لئے معاد کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ بعض نے کہا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد شام کی زمین ہے چونکہ وہ حشر کی زمین ہے اور اجل کے بعد ہی حشر برپا ہونے کا زمانہ ہے اس لئے ارض شام کا قول بھی صحیح ہے لیکن مشہور بات وہی ہے جو شاہ صاحب (رح) نے فرمائی باقی معنی سب ملتے جلتے ہیں ۔ ( واللہ اعلم بالصواب)