Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 86

سورة القصص

وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۫۸۶﴾

And you were not expecting that the Book would be conveyed to you, but [it is] a mercy from your Lord. So do not be an assistant to the disbelievers.

آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ ... And you were not expecting that the Book would be sent down to you, `Before the revelation was sent down to you, you did not expect that revelation would be sent down to you.' ... إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ... but it is a mercy from your Lord. means, `but revelation has been sent down to you from Allah as a mercy to you and to mankind because of you. Since Allah has granted you this great blessing,' ... فَلَ تَكُونَنَّ ظَهِيرًا ... So never be a supporter, i.e., a helper, ... لِّلْكَافِرِينَ of the disbelievers. rather, separate from them, `express your hostility towards them and oppose them.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

861یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔ 862یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا 863اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کو بھی نبوت ملنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے نبوت عطا ہوگی۔ حضرت موسیٰ کو نبوت عطا ہونے کا واقعہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ کہ کس طرح وہ ایک اندھیری اور ٹھنڈی رات کو راہ بھولے ہوئے آگ کی تلاش میں نکلے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کر نبوت سے سرفراز کردیا۔ بالکل یہ صورت حال آپ سے بھی غار حرا میں پیش آئی تھی۔ پہلی وحی کے بعد آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور کہا : && مجھے کپڑا اوڑھا دو ، کپڑا اوڑھا دو && پھر جب ذرا گھبراہٹ دور ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ سے غار حرا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (إنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی) یعنی && مجھے تو اپنی جان کا بھی خطرہ پڑگیا تھا && پھر حضرت خدیجہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے خالہ زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک نصرانی عالم اور نیک سیرت انسان تھے۔ انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ پر نازل ہوتا تھا && (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف بدا الوحی) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر دور کا نبی اپنے دور کا بہترین انسان ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد اس کے فضل و شرف میں مزید اضافہ ہوجاتا اور ہوتا رہتا ہے۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے۔ (الدال علی الخیر کفاعلہ) یعنی && بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس کے کرنے والے کی طرح ہی ہوتا ہے &&۔ بمعنی اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نبی اپنی امت کے نیک اعمال بجا لانے والوں کے برابر کے اجر کا مستحق ہوتا ہے اور یہ اس کا اضافہ اجر ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ کی امت چونکہ تمام انبیاء سے زیادہ ہے لہذا تمام انبیاء پر آپ کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔ یہی وہ فضل و شرف ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ١١٣۔ ) 4 ۔ النسآء :113) اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل کہ آپ کو نبوت بھی عطا کی گئی اور کتاب بھی دی گئی ایسا فضل تھا جس کی آپ کو بالکل توقع نہیں تھی۔ [١١٩] یعنی اگر آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بند اور رشتہ دار دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں تو اب نہ انھیں اپنا رشتہ دار سمجھو اور نہ کسی بھی معاملہ میں ان کا ساتھ دو یا ان کی حمایت کرو۔ آپ کی مدد اور حمایت کے اب وہی لوگ مستحق ہیں۔ جو آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور اللہ نے آپ پر جو اتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے تو اس کے شکریہ کے طور پر آپ دین کے معاملہ میں اپنی قوم کی رعایت اور خاطر ہرگز نہ کیجئے۔ اور نہ ہی اپنے آپ کو ان میں کا ایک فرد شمار کیجئے۔ ہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ضرور دیتے رہئے مگر احکام الٰہی میں قرابت داری کی بنا پر کوئی لچک نہ رہنے دیجئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں جن حالات سے گزر رہے تھے اور جس طرح کفار نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا، ان حالات میں یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو یہاں سے ہجرت کے بعد اسی عظیم الشان مقام میں لانے والا ہے، بظاہر ایک ناممکن کام کی پیش گوئی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلانے کے لیے اس احسان کا ذکر فرمایا جو اس سے کہیں بڑا احسان تھا۔ فرمایا، آپ کو تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ آپ نہایت باعزت طریقے سے اپنے شہر میں واپس آئیں گے تو ذرا اپنی رسالت پر تو غور کریں، کبھی آپ نے سوچا بھی تھا یا دل میں یہ خیال یا آرزو بھی پیدا ہوئی تھی کہ آپ اللہ کے رسول بن جائیں گے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت عطا فرمائی اور رسالت کے لیے چن لیا جو آپ کے خیال تک میں نہ تھی، تو وہ ایسی خبر سے آپ کو کیسے محروم رکھے گا جو آپ کی خواہش ہے اور جس کا آپ شوق رکھتے ہیں۔ 3 یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کا سچا رسول ہونے کی بھی زبردست دلیل ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ رسالت اور نبوت محض اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، وہ جنھیں چنتا ہے انھیں بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہمیں اتنی بڑی نعمت ملے گی۔ یہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کا طریقہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی نبوت کا اشتہار شروع کردیتے ہیں۔ اس سورت میں اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت ملنے کا ذکر ہے، وہ معاملہ بھی اچانک ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی جبریل (علیہ السلام) غار حرا میں اچانک آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا رسول ہونے کی دلیل کے طور پر کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ ایک اُمّی شخص، جس کی عمر کے چالیس سال سب کے سامنے گزرے، جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، اگرچہ صدق و امانت اور اخلاق حمیدہ سے پہلے بھی متصف تھا، مگر نہ کسی کے خیال میں یہ بات تھی نہ خود اس کے دل میں یہ امید تک پیدا ہوئی تھی کہ اسے ایسی کتاب عطا کی جائے گی جس کی ایک سورت کی مثل اللہ کے سوا پوری کائنات جمع ہو کر بھی نہیں لاسکے گی۔ چناچہ دوسری جگہ فرمایا : (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) [ الشورٰی : ٥٢ ] ” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنادیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “ ایک جگہ یہ صراحت فرمائی کہ یہ غیب کی خبریں، جو ہم آپ کو وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم، فرمایا : (تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا) [ ھود : ٤٩ ] ” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ “ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے کتاب و نبوت عطا کرنے کی نعمت یاد دلانے کے بعد پانچ حکم دیے، پہلا یہ کہ آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بندوں اور رشتہ داروں میں سے جو لوگ دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے، بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں، آپ کسی صورت نہ ان کا ساتھ دیں نہ ان کی حمایت کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَہِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ۝ ٨٦ۡ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) اور آپ کو تو یہ توقع بھی نہ تھی کہ آپ پر قرآن حکیم نازل ہوگا اور آپ نبی ہوں گے مگر محض آپ کے رب کی مہربانی سے آپ پر قرآن کریم نازل ہوا اور آپ کو نبی بنایا گیا تو آپ ان کفار کے کفر کی ذرا تائید نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ ) ” اس سے ملتا جلتا مضمون سورة النمل میں بھی آیا ہے : (وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) قرآن تو یقیناً ایک حکیم اور علیم ہستی کی طرف سے آپ پر القا کیا گیا ہے “۔ ظاہر ہے کہ بعثت سے پہلے نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے امیدوار تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا جائے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے کوشاں تھے۔ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ایک صادق و امین ‘ شریف النفس انسان اور ایک ایماندار تاجر کی زندگی تھی۔ اور جو تاجر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تاجرانہ زندگی کا اتباع کرتا ہے اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بایں الفاظ بشارت فرمائی ہے : (اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ ) (١) یعنی وہ تاجر جو بالکل سچا ہو ‘ اپنے معاملات میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دے اور امانت دار ہو ‘ وہ (قیامت کے روز) انبیاء ‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ (اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ) ” یہ تو سراسر اللہ کی رحمت ‘ اس کی عطا اور مہربانی ہے کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے لیے چنا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کتاب عطا فرمائی ہے۔ (فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّلْکٰفِرِیْنَ ) ” اس جملے کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے سورة النساء کے سولہویں (١٦) رکوع کا مضمون پیش نظر رہنا چاہیے۔ اس رکوع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہونے والے ایک مقدمے پر تبصرہ ہوا ہے۔ یہ ایک منافق کا مقدمہ تھا جس نے چوری کی تھی ‘ لیکن اس کے قبیلے کے لوگوں نے قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کی بےجا حمایت کر کے چوری کا الزام ایک یہودی کے سر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ چناچہ سورة النساء کی آیت ١٠٩ میں متعلقہ قبیلے کے لوگوں کو تنبیہہ کی گئی کہ آج دنیا میں تو تم لوگوں نے اس کی خوب وکالت کرلی ‘ لیکن کل قیامت کے دن ایسے مجرموں کو اللہ کی پکڑ سے کون چھڑائے گا ؟ گویا مسلمانوں کو واضح طور پر بتادیا گیا کہ حق و انصاف کے سامنے خاندانی رشتوں اور قبائلی عصبیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے مکہّ کے اس ماحول کو بھی ذہن میں لائیے جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سبب معاشرہ واضح طور پر دو حصوں میں بٹتا جا رہا تھا۔ رحمی و خونی رشتے منقطع ہو رہے تھے اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمنی کی انتہا کردی تھی۔ اس پس منظر میں آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کافروں کے ساتھ اپنے رشتوں اور تعلقات کو بالکل کوئی اہمیت نہ دیں۔ عصبیت کا کوئی خفیف سا شائبہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دل کے قریب نہ پھٹکنے دیں اور ان مشرکین کے ساتھ بالکل کوئی موافقت اور ہمدردی نہ رکھیں۔ اس سے پہلے اسی سورت (القصص) کی آیت ١٧ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بھی بالکل ایسے ہی الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ قبطی کے قتل ہوجانے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوئی تھی تو اس وقت آپ ( علیہ السلام) نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عہد کیا تھا : (فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ ) کہ میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔ چناچہ آیت زیر نظر میں یہی حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا جا رہا ہے کہ آپ کسی بھی حیثیت ‘ کسی بھی انداز اور کسی بھی درجے میں ان کافروں کے مددگار نہ بنیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109 This thing is being presented as a proof of the Holy Prophet Muhammad's Prophethood. Just as the Prophet Moses was wholly unaware that he was going to be appointed a Prophet, and sent on a grand mission-when he had never even expected or wished for such a thing, but had been suddenly called upon while on a journey and made a Prophet and assigned a mission which had no relevance with his previous life-so was precisely the case with the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace be upon him). The people of Makkah knew full well what kind of life he was leading till a day before the day when he came down from the Cave of Hira' with the message of Prophethood. They were fully aware of his occupations, of the topics of his conversation, of the nature of his interests and activities. No doubt it was a life which was an embodiment of truth, honesty and righteousness, a model of nobility, peacefulness, fulfilment of obligations and rights of others and of the service to humanity, but there was nothing in it which could give somebody any idea that the righteous man was going to make a claim to Prophethood the next day. There was no one among his most intimate friends and relations and neighbours, who could say that he had already been preparing to become a Prophet. No one had ever heard a word on the themes and problems and topics from him, which became the subject of his daily conversation all of a sudden after the revolutionary moment in the Cave of Hira'. No one had heard him employing the kind of diction and words and terms, which the people started hearing from him in the shape of the Qur'an. He had never stood up for preaching, had never given a message or started a movement, and none of his activities had ever indicated that he was anxious to undertake a programme for the solution of the social problems or for religious or moral reformation. Till a day before this revolutionary moment he was leading the life of a trader, who earns his living by fair and lawful means. who lives a happy life with his family, receives his guests, helps the poor and treats his relatives well, and at times retires from society into seclusion for the sake of worship. For such a person it would be a great change if he started making, all of a sudden, world-moving orations, preaching a revolutionary message, producing a sublime literature and propounding an enduring philosophy of life and a profound system of thought and morality and social life. For psychologically too, such a change is not possible through any kind of preparation and conscious effort. Any such effort and preparation, in any case, has to pass through certain evolutionary stages, which cannot remain hidden from the people among whom a person is passing his life. Had the Holy Prophet's life passed through any such stages of gradual development, hundreds of the people in Makkah would have come out to say, "Did we not tell you beforehand that this man would one day make a tall claim?" But history bears evidence that no one in Makkah ever made such an objection although the disbelievers of Makkah raised all sorts of other objections against the Holy Prophet. Then another thing: the Holy Prophet himself never wished for or expected or awaited his appointment to prophethood, but he came across this experience all of a sudden quite unexpectedly. This is supported by the event that has been reported in the Traditions in connection with the beginning of Revelation. After his first meeting with the Angel Gabriel and the revelation of the initial verses of Surah Al-`Alaq he rushes back home from Hira' trembling with fear, and says to his wife, "Cover me with a cloak! Cover me with a cloak!" After a while when he recovers a little from the state of anxiety, he relates what he had experienced to his wife and says, "I feel there is danger to my life!" She responds, "No, never! Allah will never bring you to grief: you render the rights of your kindred, you support theindigent, help the poor, treat your guests well, and are ever ready to contribute to a good cause."Then she takes him to Waraqa bin Naufal, who was her cousin and a righteous and knowledgeable person from among the people of the Book. Hearing from him what had happened, Waraqa says without any hesitation, "The one who came to you is the same Namus (the specially appointed Divine Messenger), who used to come to Moses. I wish I were a young man and could live till the time when your people will expel you." The Holy Prophet asks, "Will my people expel me?" He replies, "Yes; no one has passed before, who brought same thing that you have brought, and his people did not turn hostile to him. " This whole event depicts the state which a simple man will naturally undergo when he is confronted unexpectedly by a most extraordinary experience all of a sudden. If the Holy Prophet had already been anxious to become a prophet and thinking that a man like him ought to be a prophet, and had been meditating and straining his mind and awaiting the arrival of an angel with a message, he would have been filled with delight at the experience in the Cave, and descending from the mountain would have gone straight before his people and proclaimed Prophethood. But, quite to the contrary, he is confounded at what he had seen, reaches home trembling and lies in bed fully covered up. When he is composed a little, he tells his wife quietly what had happened in the solitude of the Cave, and expresses feelings of anxiety and insecurity. How different is this state from the state of a candidate for prophethood ! Then , who can be better aware of the husband's life, his ambitions and thoughts, than the wife? If she had perceived before-hand that the husband was a candidate for prophethood and had been anxiously awaiting the arrival of the angel, her reply would have been different from what Hadrat Khadijah said. She would have answered, "Dear husband! Why are you so agitated? You have got what you have been longing since long. Now, flourish as a saint: I too shall get ready for collecting gifts and offerings." But on the basis of what she had seen of her husband during her 15-year-long companionship, she did not take more than a moment to understand that Satan could not have come to a righteous and selfless man likehim, nor could Allah have put him to a severe test. Therefore, whatever he had seen was the very truth and reality. The same is also true in the case of Waraqa bin Naufal. He was not an outsider, but a member of the Holy Prophet's own clan and a brother-in-law by a close relationship. Then being a knowledgeable Christian he could discriminate the prophethood and book and revelation from fabrication and fraud. Being the Holy Prophet's senior by many years his whole life since childhood had been spent before him. Therefore, when he heard what the Holy Prophet had to say about his experience in the Cave, he at once said that it was most surely the same Angel who used to bring Divine messages to the Prophet Moses. For in this case also precisely the same thing had happened as in the case of the Prophet Moses. He also was a pure and righteous person, simple in thought and without any preconceived notions about prophethood, he also had experienced the same thing unexpectedly in full consciousness similarly. Therefore, without the least hesitation, he was led to the firm conclusion that there was no self-deception or satanic insinuation involved but whatever the truthfulman had seen, without any will or desire on his own part, was in fact, an experience of the Reality. This is such a clear proof of the Holy Prophet Muhammad's Prophethood that a realistic person can hardly deny it. That is why it has been presented as a proof of Prophethood at several places in the Qur'an For example, in Surah Yunus it has been said: "O Prophet, say to them: Had Allah willed so, I would never have recited this Qur'an to you, nor would He have told you anything (about its existence). I have already lived a lifetime among you before its revelation. Do you not use common sense?" (v. 16) And in Surah Ash-Shura it has been said: "O Prophet, you did not know at all what was the Book and what was the Faith but We made that Revelation a light by which We show the way to any of Our servants We will." (v. 52) For further explanation, see E.N. 21 of Surah Yunus, E.N.'s 88 to 92 of Al-'Ankabut, and E.N. 84 of Ash-Shu'ara. 110 That is, "When Allah has granted you this blessing without your asking for it, you are under an obligation to exercise all your energies and spend aII your efforts in upholding it conveying it to others and promoting its cause. Any slackness in this regard would mean that you helped the disbelievers. THis does not mean that, God forbid, there was any chance of such slackness on the part of the Holy Prophet. Allah, in fact, is exhorting the Holy Prophet, as if to say, "You should go on doing your mission in spite of the disbelievers' opposition and their uproar, and do not at all mind what fears the enemies of the Truth express regarding your message's being harmful to their national interests. "

سورة القصص حاشیہ نمبر : 109 یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جارہی ہے جس طرح موسی علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنایا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ، ان کے حاشیہ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی ، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا ، مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی ، آپ کے مشاغل کیا تھے ، آپ کی بات چیت کیا تھی ، آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے ، آپ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں ، یہ پوری زندگی صداقت ، دیانت ، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی ، اس میں انتہائی شرافت ، امن پسندی ، پاس عہد ، ادائے حقوق اور خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا ، مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے ، کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق بھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غار حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہوگئے ۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے ، کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے ، کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اٹھے تھے ، بلکہ کبھی آپ کی کسی سرگرمی سے یہ گمان تک نہ ہوسکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں ، اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے ، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع ، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیے خلوت میں جا بیٹھتا ہے ، ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا ، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کردینا ، ایک نرالا لٹریچر پیدا کردینا ، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا ، اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعا رونما نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے ، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا ۔ پھر یہ بات کہ آپ خود بھی نبوت کے خواہش مند یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا ، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے ، جبریل سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ غار حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ مجھے اڑھاؤ ، مجھے اڑھاؤ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے وہ فورا جواب دیتی ہیں ہرگز نہیں ، آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا ، آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں ، بےکس کو سہارا دیتے ہیں ، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں ، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ پھر وہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچازاد بھائی اور اہل کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے ۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ یہ جو آپ کے پاس آیا تھا وہی ناموس ( کار خاص پر مامور فرشتہ ) ہے جو موسی کے پاس آتا تھا ، کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ۔ آپ پوچھتے ہیں کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ وہ جواب دیتے ہیں ہاں ، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں ۔ یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کردیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہوسکتی ہے ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے ، اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے ، اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ، تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے ، لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں ، کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں ، ذرا دل ٹھہرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ، معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی ، یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ۔ پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ یہاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہ نے دیا ۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں ، لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا ، نہ اللہ اس کو کسی بری آزمائش میں ڈال سکتا ہے ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے ۔ اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے ۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور کی اپنی برادری کے آدمی اور قریب کے رشتے سے برادر نسبتی تھے ، پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنع سے ممیز کرسکتے تھے ۔ عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی ، انہوں نے بھی آپ کی زبان سے حرا کی سرگزشت سنتے ہی فورا کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقینا وہی فرشتہ ہے جو موسی علیہ السلام پر وحی لاتا تھا ۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسی کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے ، نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار اس کے حصول کا تصور تک اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے ، اور اچانک وہ پورے ہوش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے ، اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنی تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا شیطانی کرشمہ نہیں ہے ، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے ۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کرسکتا ہے ، اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، مثلا سورہ یونس میں فرمایا: قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ڮ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ( آیت: 16 ) اے نبی ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک وہ تم کو نہ دیتا ۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا: مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۔ ( آیت: 52 ) اے نبی تم تو جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظۃ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 21 ۔ جلد سوم ، عنکبوت حواشی 88 تا 92 ، جلد چہارم ، الشوری ، حاشیہ 84 ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 110 یعنی جب اللہ نے یہ نعمت تمہیں بے مانگے عطا فرمائی ہے تو اس کا حق اب تم پر یہ ہے کہ تمہاری ساری قوتیں اور محنتیں اس کی علمبرداری پر ، اس کی تبلیغ پر اور اسے فروغ دینے پر صرف ہوں ، اس میں کوتاہی کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے حق کے بجائے منکرین حق کی مدد کی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کسی کوتاہی کا اندیشہ تھا ، بلکہ دراصل اس طرح اللہ تعالی کفار کو سناتے ہوئے اپنے نبی کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ تم ان کے شور و غوغا اور ان کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کرو اور اس کی کوئی پروا نہ کرو کہ دشمنان حق اس دعوت سے اپنے قومی مفاد پر ضرب لگنے کے کیا اندیشے ظاہر کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:86) ماکنت ترجوا ماضی استمراری نفی۔ تم (ہرگز) ایہ امیر نہ کرتے تھے۔ رجا یرجوا رجاء امید رکھان۔ اصل میں رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ ان یلقی میں ان مصدریہ ہے یلقی مضارع مجہول واحد مذکر غائب القاء کی جائیگی ڈالی جائے گی۔ نازل کی جائے گی۔ یعنی آپ امید نہ رکھتے تھے کہ الکتب (القرآن) آپ پر نازل کی جائے گی۔ الا رحمۃ من ربک۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) الا حرف استثاء ہے اور رحمۃ مستثنیٰ منقطع ہے اور بدین وجہ منصوف ہے کان قیل وما القی الیک الکتب الاحمۃ من ربک۔ یہ کتاب تجھ پر نازل کی گئی۔ مگر تیرے پروردگار کی طرف سے نبور (خصوصی ) رحمت کے۔ (2) الا بمعنی لکن ہے اور استدراک کے لئے آیا ہے ۔ لیکن یہ تیرے پروردگار کی سراسر رحمت ہے کہ یہ کتاب تجھ پر نازل کی گئی۔ (استدراک، پہلی بات کا وہم دور کرنے کے لئے جو لفظ بولو جائے اسے حرف استدراک کہتے ہی مثلاً بل ۔ لکن۔ الا وغیرہ) ۔ طھیرا بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے صفت کا صیغہ ہے مددگار، معین ۔ واحد جمع ، مذکر، مؤنث سب کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نزول وحی سے قبل یہ خیال تک بھی نہ تھا کہ مجھے منصب نبوت سے سرفراز کیا جائے گا اور نہ اس سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس قسم کی باتیں سنی گئیں جن کو دعوائے نبوت کے لئے تمہید قرار دیا جائے جیسا کہ فی ماننا متنبین کی عادت ہے۔ اسی طرح دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کو بھی منصب نبوت سے یکایک سرفراز کیا گیا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مدین سے مصر واپس جا رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور پر بلا کر نبوت سے مشرف کردیئے گئے۔ نیز نبوت وہی چیز ہے جس میں انسان کے کسب کو دخل نہیں ہے : ” الا رحمۃ من ربک “ سے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 2 ۔ کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس نعمت کا حق ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےمانگے عطا فرمائی گئی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کنت ترجوا ۔۔۔۔۔ من ربک یہ اس مسئلہ پر ایک فیصلہ کن بات ہے کہ رسالت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی امید نہ تھی کہ آپ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہوسکتے ہیں۔ پس یہ اللہ کا اچانک انتخاب تھا۔ اور اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، منتخب کرتا ہے۔ یہ اس قدر بلند منصب ہے کہ اس کے لیے کوئی انسان قبل از وقت توقع بھی نہیں کرسکتا ، سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ اسے اس منصب کے لیے چن لے گا یا اللہ اسے اس کے اہل بنا دے گا۔ یہ اللہ کا محض رحم و کرم ہوتا ہے۔ کسی شخص پر یا کسی قوم پر کہ ان میں سے کسی کو اللہ چن لیتا ہے اور یہ انتخاب ان کا ہوتا ہے جو اللہ کے اونچے بندے ہوں ، ان کا انتخاب نہیں ہوتا جو اس منصب کے امیدوار ہوتے ہیں۔ مکہ کے ماحول میں عربوں میں اور اسرائیل میں بہت سے لوگ تھے۔ اس انتظار میں تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے ، لیکن وہ کون ہوگا ، یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ منصب رسالت کہاں لے جا کر رکھ دے۔ اللہ نے اس قوم اور اس شخص کو اس منصب کے لیے چن لیا جو اس کے لیے نہ امیدوار تھا اور نہ اس کو اس کا خیال تھا کیونکہ اللہ جہاں منصب نبوت دیتا ہے اس کے لیے پہلے اس کو قبولیت کے لیے فیض عظیم اور استعدادوافر عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے چونکہ آپ کو یہ کتاب دی گئی جس کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق پر فیصلے کرنے ہیں ، لہٰذا کافروں کے مددگار بنیں ، کیونکہ وہ تو آپ کو اللہ کی ان روشن نشانیوں سے روک دیں گے۔ بلکہ آپ مشرکین کے مقابلے میں صاف صاف عقیدہ توحید پر مبنی دعوت لے کر اٹھیں۔ فلا تکونن ظھیرا للکفرین ۔۔۔۔۔۔۔ لہ الحکم والیہ ترجعون (86 – 88) اس سورت کے آخر میں یہ انسانی عقل و خرد کے تاروں پر آخری ضرب ہے۔ اس فیصلہ کن ضرب میں بتا دیا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے اور مشرکین اور مشرکین کے طریقے کے درمیان بڑے فاصلے ہیں۔ آپ کو متبعین قیامت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ اور اس کی نشانات پر رہیں۔ یہ فیصلہ کن بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے موقعہ آئی ہے جس کے ذریعے حضور اور مشرکین مکہ کے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہے تھے اور آنے والے عہد میں مختلف تاریخیں تیار ہونے والی تھیں۔ فلا تکونن ظھیرا للکفرین (28: 84) ” پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں “۔ کیونکہ مومن اور کافر کے درمیان کوئی تعاون اور باہم نصرت کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ دونوں کے راستے جدا ہیں ، دونوں کے نظام زندگی متضاد ہیں۔ مومن حزب اللہ ہیں اور کافر حزب الشیطان ہیں۔ اس لیے دونوں کے باہم تعاون کے لیے کوئی مشترکہ اساس ہی نہیں ہے۔ دونوں کے تعاون کے لئے وئی مشترکہ میدان نہیں ہے۔ ولا یصدنک عن ۔۔۔۔۔ انزلت الیک (28: 85) ” اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفار تمہیں ان سے باز رکھیں “۔ کفار کا ہمیشہ یہ مقصد رہا ہے کہ اہل دعوت کو کسی نہ کسی طریقے سے دعوت سے باز رکھیں اور مسلمانوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعوت کے راستے پر چلتے رہیں۔ اگرچہ رکاوٹیں ڈالنے والے رکاوٹیں ڈالیں۔ اور اس طرح چلتے رہیں کہ کوئی ان کو راہ دعوت سے روک نہ سکے۔ وہ قرآن اور سنت کی آیات کو لے کر اور ان پر بھروسہ کرکے اپنی راہ پر چل نکلیں۔ وادع الی ربک (28: 85) ” اپنے رب کی طرف دعوت دو “۔ یہ دعوت خالص اسلامی دعوت ہو ، بالکل واضح ہو اور اس کے اندر کوئی پیچیدگی اور کوئی التباس نہ ہو۔ یہ صرف اللہ کی طرف ہو ، کسی قومیت اور کسی عصبیت کی طرف نہ ہو۔ کسی زمین اور کسی جھنڈے کے لیے نہ ہو ، کسی مصلحت اور کسی مفاد کے لیے نہ ہو۔ کسی ذاتی خواہش اور کسی دنیاوی عیاشی کے لیے نہ ہو۔ اس دعوت کو کوئی قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا ، اس کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ اور کوئی اس کو قبول نہیں کرتا تو وہ اپنے لیے کوئی اور راہ لے ، ہمارا طریقہ اور راستہ تو یہی ہے۔ ولا تکونن من المشرکین (28: 85) ولا تدع مع اللہ الھا اخر (28: 88) ” اور ہرگز مشرکین میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ پکارو “۔ ایک ہی اصول کو تاکیداً دو مرتبہ بیان کیا گیا یعنی شرک نہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو ، اس طریقہ سے اسلامی نظریہ حیات نکھر کر سامنے آتا ہے۔ توحید اور شرک اسلامی عقیدہ کا بنیادی مسئلہ ہے۔ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات بنیادی کلمہ ہے۔ اسی پر اسلامی نظریہ حیات قائم ہے۔ اسلام کے آداب ، اس کے فرائض ، اس کے اخلاقی ضابطے اور اس کے قانونی ضابطے سب اسی نظریہ پر قائم ہیں۔ ہر ہدایت اور ہر قانون نظریہ توحید پر قائم ہے۔ اس لیے ہر ہدایت اور ہر ضابطہ بندی سے قبل عقیدہ توحید کا ذکر ہوتا ہے۔ مزید تاکید ملاحظہ ہو۔ لا الہ الا ھو کل شئ ھالک الا وجھہ (28: 88) ” اس کے سوا کوئی معبود الٰہ نہیں ہے ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے “۔ لہٰذا اسی کے آگے جھکنا ہے۔ اسی کی بندگی کرنا ہے ، اس کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔ اس کے سوا کسی کے پاس جائے پناہ اور جائے تحفظ نہیں ہے۔ کل شئ ھالک الا وجھہ (28: 88) ” ہر چیز ہلاک ہونے والئ ہے سوائے اس کی ذات کے “۔ ہر شے زائل ہونے والی ہے ، ہلاک ہونے والی ہے ، مال ہو یا جاہ ، اقتدار ہو یا قوت ، زندگی ہو یا سامان زندگی ، زمین ہو یا زمین کے باشندے۔ آسمان ہوں یا ان میں رہنے والی ہر چیز۔ اور یہ پوری کائنات جسے ہم جانتے ہوں یا جو ہمارے علم سے باہر ہو ، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ماسوائے ذات باری تعالیٰ کے۔ صرف ذات باری تعالیٰ اکیلی ہی باقی رہے گی۔ لہ الحکم (28: 88) ” فرمانروائی اسی کی ہے “۔ وہ جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے ، جو احکام چاہتا ہے ، دیتا ہے۔ اس کے احکام اور بادشاہت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ اس کے حکم کے بالمقابل کوئی حکم نہیں۔ اور وہ چاہے وہ ہوتا ہے اور اسکے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جس کی مشیت چلتی ہو۔ والیہ ترجعون (28: 88) ” اور اسی کی طرف تم کو پلٹنا ہے “۔ لہٰذا اس کے حکم سے کوئی جائے خلاصی و جائے پناہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں فرار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ نہیں ہے۔ یوں اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ قدرت الہیہ اس میں برملا کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ذات باری دعوت اور داعیوں کی محافظہ نظر آتی ہے۔ اور دعوت اسلامی کے مقابلے میں تمام قوتوں کو پاش پاش کرنے کے مناظر صاف نظر آتے ہیں۔ اور سورت کا اختتام دعوت اسلامی کی بنیاد یعنی عقیدہ توحید پر ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہیہ و حاکم نہیں ہے۔ حکم اور فیصلہ اسی کا چلے گا اور اس دعوت کو لے کر اہل دعوت کو چاہئے کہ وہ یقین ، اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ مَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ) (اور آپ کو یہ امید نہیں تھی کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور اپنی رحمت سے آپ کو نبوت سے سر فراز کیا اور آپ پر قرآن نازل کیا) پس جس طرح آپ کو امید کے بغیر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب عطا فرما دی اسی طرح سمجھ لیں کہ گو اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے آپ مکہ معظمہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پھر مکہ معظمہ میں واپس ہوں گے، اور یہ بھی صرف اللہ کی رحمت سے ہوگا۔ قال صاحب الروح ای سیردک الی معاد کما انزل الیک القرآن العظیم الشان و ما کنت ترجو۔ (فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَھِیْرًا لِّلْکٰفِرِیْنَ ) (سو آپ کافروں کے مددگار نہ ہوجائیے) اس میں خطاب تو آپ کو ہے لیکن جواب کافروں کی اس بات کا ہے جنہوں نے آپ کو اپنے آباء و اجداد کے دین پر جانے کی دعوت دی تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:۔ یہ امر چہارم ہے جو، وجاعلوہ من المرسلین، پر متفرع ہے۔ یہ امر ثانی کے لیے بمنزلہ دلیل ہے یعنی جس طرح آپ کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ آپ پر اللہ کی وحی نازل ہوگی اور آپ منصب نبوت پر فائز ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے آپ کو یہ منصب عطا فرمایا اسی طرح وہ محض اپنے فضل و احسان سے عزت و شان کے ساتھ مکہ میں داخل فرمائے گا۔ اس میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) سے مماثلت ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے جب انہیں بچپن میں صندوق میں بند کر کے دریا کی لہروں کے حوالے کردیا تھا اس وقت کسی کے زاویہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ پیغمبر ہوگا۔ علی ہذا جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے روانہ ہوئے اور راستے میں آگ دیکھی اور وہاں سے آگ لینے کے لیے گئے اس وقت انہیں خیال تک نہ تھا کہ میں منصب نبوت پر سرفراز ہونے والا ہوں۔ 83:۔ یہ امر پنجم ہے اور فلن اکون ظہیرا للمجرمین پر متفرع ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عہد کیا تھا کہ وہ مجرموں کا تعاون نہیں کریں گے یہاںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ بھی مشرکین سے تعاون اور موافقت نہ کریں۔ ولا یصدنک الخ، آپ نہ تو کسی معاملے میں کافروں کے معاون بنیں اور نہ ان کے کہنے سے اللہ کے قرآن کی تبلیغ سے رکیں جبکہ اللہ نے قرآن کی آیتیں تبلیغ کی خاطر آپ پر نازل فرما دیں۔ آپ اللہ کی توحید کی دعوت دئیے جائیں اور دین میں مشرکین سے ہرگز موافقت نہ کریں۔ یہ خطابات اگرچہ بظاہرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہیں کیونکہ قرآن کے مخاطب اول آپ ہی ہیں لیکن اس سے مراد آپ کی امت ہے۔ الی ربک میں مضاف مقدر ہے ای الی عبادتہ جل و علا وتوحیدہ سبحانہ (روح ج 20 ص 130) (الی ربک) الی معفتہ و توحیدہ (ولا تکونن من المشرکین) قال ابن عباس (رض) الخطاب فی الظاھر للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمراد بہ اھل دینہ ای لاتظاھروا الکفار ولا توافقوھم (معالم ج 5 ص 154) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86۔ اور اے پیغمبر آپ کو تو یہ امید نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جائیگی مگر محض آپ کے پروردگار کی رحمت اور مہربانی سے نازل کی گئی لہٰذا آپ ہرگز ان دین حق کے منکروں کے مدد گار نہ ہوں اور انکے پشت پناہ نہ بنیں اور ان کی تائید نہ کریں یعنی نبی بننے سے پہلے آپکو یہ امید نہ تھی کہ آپ نبی ہوں گے اور آپ پر قرآن کریم جیسی جامع کتاب نازل ہوگئی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کے پروردگار کی مہربانی سے ہوا کہ آپ نبی مقرر ہوئے اور آپ پر قرآن کریم وحی کے ذریعہ سے القا کیا گیا اب آپ کافروں سے بالکل الگ تھلگ رہیں جس طرح آپ رہتے ہیں ان کی تائید نہ فرمایئے اور دینی معاملات میں ان سے کوئی واسطہ نہ رکھئے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اپنی قوم کو اپنا نہ سمجھ جنہوں نے سمجھ سے یہ بدی کی اب جو تیرا ساتھ دے وہی اپنا۔ 12